ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زلزلہ‘ خوف‘ اندیشے اُور پشاور!
زلزلہ‘ خوف‘ اندیشے اُور پشاور!
قدرتی آفات کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا اور ابھی سائنسی علوم نے ترقی کے
وہ مراتب طے نہیں کئے جن کے بعد زیرزمین مٹی و ریت کی پرتوں میں ہونے والے
ردوبدل کے نتیجے میں زلزلے کی آمد و شدت کے بارے پیشگی اطلاع دی جاسکے
البتہ جو علاقے زلزلے کا سبب بننے والی زیرزمین پٹیوں پر واقع ہیں‘ وہاں
جانی و مالی نقصانات کم سے کم کرنے کے حوالے سے علم و دانش سے استفادہ دنیا
کے کئی ممالک میں عملاً دیکھا جا سکتا ہے۔ ماہرین تعمیرات و شہری ترقی
کثیرالمنزلہ عمارتیں بشمول مکانات بنانے میں اُس علاقے سے ٹکرانے والے
طوفان بادباراں اور زلزلوں کی اوسط شرح کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور تعمیرات
کے شعبے میں یہ علوم الگ اضافے کی صورت رائج ہو چکے ہیں۔ المیہ ہے کہ ہمارے
ہاں نجی و سرکاری عمارتوں اور ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و ترقی اور توسیع
میں قدرتی آفات کے اُن ممکنہ حملوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جنہیں کی شدت
بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ کیا آپ یہ پوچھنے کی
جسارت کرسکتے ہیں کہ پشاور میں تعمیرات کی نگرانی کرنے والے ایک سے زیادہ
اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ جبکہ آسمان سے باتیں کرنے والے پلازے دھڑا دھڑ
تعمیر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کیا آپ پشاور کی ترقی کے نام پر نگران ادارے اور
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے واقف ہیں‘ جو ’’حلقۂ یاراں کے لئے ریشم کی طرح
نرم‘‘ مزاج رکھتی ہے!
خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کا قدیمی حصہ (اندرون شہر کے علاقے) شدید خطرے میں ہیں۔ ہفتے کی الصبح آنے والے شدید زلزلے سے کئی اندرون ہشتنگری و لاہوری گیٹ میں کئی بوسیدہ عمارتوں کے حصے منہدم ہونے سے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ شکر ہے کہ بڑا جانی نقصان نہیں ہوا‘ جو 90سیکنڈز دورانیئے جیسے طویل زلزلے سے عین ممکن تھا اگر (خدانخواستہ) اِس کی شدت ریکٹراسکیل پر سات درجے سے کم نہ ہوتی۔ تو کیا ہم کسی بڑی آفت اور بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا انتظار کریں یا مناسب وقت ہے کہ ایسی تمام عمارتوں کی قسمت کے بارے میں فیصلہ کرلیا جائے جو رہائش و استعمال کے قابل نہیں رہیں۔
پشاور مرکزی شہر ہے اور یہاں ساٹھ سے زیادہ صوبائی اور وفاقی سرکاری محکموں کے دفاتر موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ‘ گورنر اور وزرأ پر مبنی ایک ایسا نگران اور فہم و فراست رکھنے والا گروہ موجود ہے‘ جنہیں عوام کے مسائل‘ اندیشوں اور خوف سے بخوبی آگہی ہے لیکن طرزحکمرانی کا سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ حکمراں بننے والوں کا عوام سے دلی رابطہ گویا کٹ سا جاتا ہے اُور طرز حکمرانی کے نظام کی وہ سبھی خامیاں جو بطور حزب اختلاف سیاست دانوں کو دکھائی دیتی ہیں لیکن حکومت ملنے کے بعد رویئے اور ترجیحات یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ قول و فعل اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے طرزعمل میں اس قدر تضاد خود کو عوام کا نمائندہ قرار دینے والوں کو زیب نہیں دیتا لیکن خودفریبی اور خودستائش ایک ایسا لاعلاج مرض ہے‘ جس کی تشخیص (بدقسمتی سے عین) اُس وقت ہوتی ہے‘ جب فیصلہ سازی کا اختیار ہاتھ سے نکل جاتا ہے! التجا ہے صوبائی اور پشاور کی ضلعی حکومتوں سے کہ وہ اندرون پشاور کے اُن تمام بوسیدہ مکانات اور عمارتوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر و کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ایسی تمام عمارتیں جنہیں ماضی میں خود حکومتی اداروں نے ناقابل استعمال قرار دے رکھا ہے‘ اُن سے کس مصلحت کے تحت چشم پوشی اختیار کی جا رہی ہے؟
ایسے خستہ حال مکانوں و عمارتوں کا شمار سینکڑوں میں ہے‘ جن کی طبعی عمریں پوری ہو چکی ہیں اور زلزلے یا موسلادھار بارشوں کی صورت اُن کے مکینوں کی جانیں مستقل خطرے میں رہتی ہیں۔ صرف بوسیدہ مکانات ہی نہیں بلکہ گذشتہ دس برس کے دوران پشاور میں بننے والی نئی کثیرالمنزلہ درجنوں عمارتوں کی تعمیر میں ایمرجنسی کی صورت باہر نکلنے کے راستے اور آتشزدگی سے بچاؤ کے لئے آلات نصب نہیں۔ پارکنگ کے مختص جگہیں بھی کرائے پر دی گئیں ہیں جو ’قواعد‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح رہائشی و کاروباری علاقوں کے درمیان تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ پشاور کا ایسا کوئی گلی کوچہ نہیں رہا جہاں خستہ مکانات کے نچلے حصے معمولی ردوبدل کے ساتھ کمرشل سانچوں میں نہ ڈھال دیئے گئے ہوں۔ اندرون یکہ توت میں ایک ایسا کثیرالمنزلہ پلازہ بھی ہے جس کے زیرزمین تہہ خانے کو اپنی حد سے بڑھا کر سڑک تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ایک عمارت کا راستہ متصل گلی میں سیڑھیاں کھود کر بنایا گیا ہے اور یہ بات خود ’بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے متعلقہ اہلکاروں کے علم میں کہ کس طرح سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں نے منظور کئے جانے والے تعمیراتی نقشہ جات پر عمل درآمد میں قواعد کی خلاف ورزیاں کیں لیکن عوام کی شکایات کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے واجبی جرمانوں کے ذریعے معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ادارے بھی موجود ہیں اور اُن کے قواعد و ضوابط بھی جن پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے بھاری تنخواہوں اور مراعات پر ملازمین کی فوجیں بھرتی کی گئیں ہیں لیکن پشاور یعنی ہم عوام کے مفاد کی بجائے یہ ادارے اور ملازمین اُن شخصیات کے غلام بن گئے ہیں‘ جنہوں نے بھرتیاں‘ تبادلے اور تعیناتیاں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہیں! حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن اداروں کی روش وہی کی وہی ہے کہ بظاہر کاغذی کاروائی (فائل ورک) کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تعمیراتی کاموں کے ٹینڈر کھلنے سے لیکر اہم عہدوں پر تعیناتیوں تک تعلقات‘ سفارش یا سیاسی وابستگی جیسے حوالے ہی کام آتے ہیں۔ اِس صورتحال اُور پیدا ہونے والے منظرنامے میں تبدیلی کے لئے شعوری کوششوں کی ضرورت ہے‘ جس کے لئے بلدیاتی نمائندے صرف اہم نہیں بلکہ نہایت ہی کلیدی کردار اَدا کرسکتے ہیں۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اندرون پشاور کے علاقوں (سرکی گیٹ‘ آسیہ‘ رامداس‘ ڈبگری‘ جہانگیرپورہ‘ یکہ توت‘ گنج‘ کریم پورہ سے ہشتنگری‘ اندرون لاہوری و رامپورہ گیٹ بالخصوص فصیل شہر کے داخلی حصوں) میں خستہ حال عمارتوں کا جائزہ (سروے) جتنا جلد ہو مکمل کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ‘ یا جرمن حکومت کی تکنیکی و فنی اور مالی معاونت کے پشاور میں صدر دفتر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے جو اِس طرح کی شہری منصوبہ بندی (سویک پلاننگ) کا وسیع تجربہ و مہارت رکھتے ہیں۔ تاہم سروے کو محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہر ایک عمارت کی سن تعمیر‘ ظاہری حالت اور اُس کی باقی ماندہ عمر کا تعین بھی ایک ہی سانس میں ممکن ہے۔ گلوبل انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے تحت پشاور کی ہر گلی کوچے کا نقشہ اُور آبادی کے اعدادوشمار بھی اِسی کوشش میں مرتب کئے جا سکتے ہیں جس سے پشاور میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے نظام کی ضروریات معلوم ہو سکتی ہیں۔ سردست پشاور کی آبادی اور اس کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسی آب‘ کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) اُٹھانے کے نظام اور دیگر ضروریات کے تعین کا تازہ ترین سروے موجود نہیں۔ اگر اپنے وسائل سے استفادہ مقصود ہو تو صوبائی حکومت کے پاس ’جی آئی ایس‘ کے آلات اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہے جس نے کامیابی کے ساتھ تعلیمی اداروں کے اعدادوشمار جمع کئے ہیں اور بناء کسی اضافی اخراجات اِسی ’ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس)‘ نامی شعبے کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جسے نہ صرف پشاور کے مزاج و گلی کوچوں کا علم بھی ہے بلکہ اسے مقامی آبادیوں بالخصوص ایسے مضافاتی علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہے جہاں انسداد پولیو مہمات سمیت کسی بھی کام کے لئے جانے والے سرکاری اہلکاروں کو حفاظتی حصار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضلع پشاور کی سطح پر ’جی آئی ایس‘ سروے کے لئے جامعہ پشاور کے شعبہ جات اور طلباء و طالبات کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے‘ جو اِس ٹیکنالوجی میں درس حاصل کررہے ہیں اور اُنہیں عملی تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پشاور کی سطح پر صفائی کے لئے رضاکاروں پر مشتمل ٹیمیں بنائی جا سکتی ہیں تو ایک ایسے مقصد کے لئے غوروخوض اور عملی مشقیں کیوں نہیں کرائی جاسکتیں جن کا تعلق انسانی جان و مال کو محفوظ بنانے سے ہے؟
خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کا قدیمی حصہ (اندرون شہر کے علاقے) شدید خطرے میں ہیں۔ ہفتے کی الصبح آنے والے شدید زلزلے سے کئی اندرون ہشتنگری و لاہوری گیٹ میں کئی بوسیدہ عمارتوں کے حصے منہدم ہونے سے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ شکر ہے کہ بڑا جانی نقصان نہیں ہوا‘ جو 90سیکنڈز دورانیئے جیسے طویل زلزلے سے عین ممکن تھا اگر (خدانخواستہ) اِس کی شدت ریکٹراسکیل پر سات درجے سے کم نہ ہوتی۔ تو کیا ہم کسی بڑی آفت اور بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا انتظار کریں یا مناسب وقت ہے کہ ایسی تمام عمارتوں کی قسمت کے بارے میں فیصلہ کرلیا جائے جو رہائش و استعمال کے قابل نہیں رہیں۔
پشاور مرکزی شہر ہے اور یہاں ساٹھ سے زیادہ صوبائی اور وفاقی سرکاری محکموں کے دفاتر موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ‘ گورنر اور وزرأ پر مبنی ایک ایسا نگران اور فہم و فراست رکھنے والا گروہ موجود ہے‘ جنہیں عوام کے مسائل‘ اندیشوں اور خوف سے بخوبی آگہی ہے لیکن طرزحکمرانی کا سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ حکمراں بننے والوں کا عوام سے دلی رابطہ گویا کٹ سا جاتا ہے اُور طرز حکمرانی کے نظام کی وہ سبھی خامیاں جو بطور حزب اختلاف سیاست دانوں کو دکھائی دیتی ہیں لیکن حکومت ملنے کے بعد رویئے اور ترجیحات یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ قول و فعل اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے طرزعمل میں اس قدر تضاد خود کو عوام کا نمائندہ قرار دینے والوں کو زیب نہیں دیتا لیکن خودفریبی اور خودستائش ایک ایسا لاعلاج مرض ہے‘ جس کی تشخیص (بدقسمتی سے عین) اُس وقت ہوتی ہے‘ جب فیصلہ سازی کا اختیار ہاتھ سے نکل جاتا ہے! التجا ہے صوبائی اور پشاور کی ضلعی حکومتوں سے کہ وہ اندرون پشاور کے اُن تمام بوسیدہ مکانات اور عمارتوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر و کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ایسی تمام عمارتیں جنہیں ماضی میں خود حکومتی اداروں نے ناقابل استعمال قرار دے رکھا ہے‘ اُن سے کس مصلحت کے تحت چشم پوشی اختیار کی جا رہی ہے؟
ایسے خستہ حال مکانوں و عمارتوں کا شمار سینکڑوں میں ہے‘ جن کی طبعی عمریں پوری ہو چکی ہیں اور زلزلے یا موسلادھار بارشوں کی صورت اُن کے مکینوں کی جانیں مستقل خطرے میں رہتی ہیں۔ صرف بوسیدہ مکانات ہی نہیں بلکہ گذشتہ دس برس کے دوران پشاور میں بننے والی نئی کثیرالمنزلہ درجنوں عمارتوں کی تعمیر میں ایمرجنسی کی صورت باہر نکلنے کے راستے اور آتشزدگی سے بچاؤ کے لئے آلات نصب نہیں۔ پارکنگ کے مختص جگہیں بھی کرائے پر دی گئیں ہیں جو ’قواعد‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح رہائشی و کاروباری علاقوں کے درمیان تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ پشاور کا ایسا کوئی گلی کوچہ نہیں رہا جہاں خستہ مکانات کے نچلے حصے معمولی ردوبدل کے ساتھ کمرشل سانچوں میں نہ ڈھال دیئے گئے ہوں۔ اندرون یکہ توت میں ایک ایسا کثیرالمنزلہ پلازہ بھی ہے جس کے زیرزمین تہہ خانے کو اپنی حد سے بڑھا کر سڑک تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ایک عمارت کا راستہ متصل گلی میں سیڑھیاں کھود کر بنایا گیا ہے اور یہ بات خود ’بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے متعلقہ اہلکاروں کے علم میں کہ کس طرح سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں نے منظور کئے جانے والے تعمیراتی نقشہ جات پر عمل درآمد میں قواعد کی خلاف ورزیاں کیں لیکن عوام کی شکایات کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے واجبی جرمانوں کے ذریعے معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ادارے بھی موجود ہیں اور اُن کے قواعد و ضوابط بھی جن پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے بھاری تنخواہوں اور مراعات پر ملازمین کی فوجیں بھرتی کی گئیں ہیں لیکن پشاور یعنی ہم عوام کے مفاد کی بجائے یہ ادارے اور ملازمین اُن شخصیات کے غلام بن گئے ہیں‘ جنہوں نے بھرتیاں‘ تبادلے اور تعیناتیاں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہیں! حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن اداروں کی روش وہی کی وہی ہے کہ بظاہر کاغذی کاروائی (فائل ورک) کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تعمیراتی کاموں کے ٹینڈر کھلنے سے لیکر اہم عہدوں پر تعیناتیوں تک تعلقات‘ سفارش یا سیاسی وابستگی جیسے حوالے ہی کام آتے ہیں۔ اِس صورتحال اُور پیدا ہونے والے منظرنامے میں تبدیلی کے لئے شعوری کوششوں کی ضرورت ہے‘ جس کے لئے بلدیاتی نمائندے صرف اہم نہیں بلکہ نہایت ہی کلیدی کردار اَدا کرسکتے ہیں۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اندرون پشاور کے علاقوں (سرکی گیٹ‘ آسیہ‘ رامداس‘ ڈبگری‘ جہانگیرپورہ‘ یکہ توت‘ گنج‘ کریم پورہ سے ہشتنگری‘ اندرون لاہوری و رامپورہ گیٹ بالخصوص فصیل شہر کے داخلی حصوں) میں خستہ حال عمارتوں کا جائزہ (سروے) جتنا جلد ہو مکمل کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ‘ یا جرمن حکومت کی تکنیکی و فنی اور مالی معاونت کے پشاور میں صدر دفتر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے جو اِس طرح کی شہری منصوبہ بندی (سویک پلاننگ) کا وسیع تجربہ و مہارت رکھتے ہیں۔ تاہم سروے کو محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہر ایک عمارت کی سن تعمیر‘ ظاہری حالت اور اُس کی باقی ماندہ عمر کا تعین بھی ایک ہی سانس میں ممکن ہے۔ گلوبل انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے تحت پشاور کی ہر گلی کوچے کا نقشہ اُور آبادی کے اعدادوشمار بھی اِسی کوشش میں مرتب کئے جا سکتے ہیں جس سے پشاور میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے نظام کی ضروریات معلوم ہو سکتی ہیں۔ سردست پشاور کی آبادی اور اس کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسی آب‘ کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) اُٹھانے کے نظام اور دیگر ضروریات کے تعین کا تازہ ترین سروے موجود نہیں۔ اگر اپنے وسائل سے استفادہ مقصود ہو تو صوبائی حکومت کے پاس ’جی آئی ایس‘ کے آلات اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہے جس نے کامیابی کے ساتھ تعلیمی اداروں کے اعدادوشمار جمع کئے ہیں اور بناء کسی اضافی اخراجات اِسی ’ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس)‘ نامی شعبے کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جسے نہ صرف پشاور کے مزاج و گلی کوچوں کا علم بھی ہے بلکہ اسے مقامی آبادیوں بالخصوص ایسے مضافاتی علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہے جہاں انسداد پولیو مہمات سمیت کسی بھی کام کے لئے جانے والے سرکاری اہلکاروں کو حفاظتی حصار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضلع پشاور کی سطح پر ’جی آئی ایس‘ سروے کے لئے جامعہ پشاور کے شعبہ جات اور طلباء و طالبات کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے‘ جو اِس ٹیکنالوجی میں درس حاصل کررہے ہیں اور اُنہیں عملی تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پشاور کی سطح پر صفائی کے لئے رضاکاروں پر مشتمل ٹیمیں بنائی جا سکتی ہیں تو ایک ایسے مقصد کے لئے غوروخوض اور عملی مشقیں کیوں نہیں کرائی جاسکتیں جن کا تعلق انسانی جان و مال کو محفوظ بنانے سے ہے؟