Sunday, December 27, 2015

Dec2015: Earthquake & Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زلزلہ‘ خوف‘ اندیشے اُور پشاور!
قدرتی آفات کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا اور ابھی سائنسی علوم نے ترقی کے وہ مراتب طے نہیں کئے جن کے بعد زیرزمین مٹی و ریت کی پرتوں میں ہونے والے ردوبدل کے نتیجے میں زلزلے کی آمد و شدت کے بارے پیشگی اطلاع دی جاسکے البتہ جو علاقے زلزلے کا سبب بننے والی زیرزمین پٹیوں پر واقع ہیں‘ وہاں جانی و مالی نقصانات کم سے کم کرنے کے حوالے سے علم و دانش سے استفادہ دنیا کے کئی ممالک میں عملاً دیکھا جا سکتا ہے۔ ماہرین تعمیرات و شہری ترقی کثیرالمنزلہ عمارتیں بشمول مکانات بنانے میں اُس علاقے سے ٹکرانے والے طوفان بادباراں اور زلزلوں کی اوسط شرح کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور تعمیرات کے شعبے میں یہ علوم الگ اضافے کی صورت رائج ہو چکے ہیں۔ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں نجی و سرکاری عمارتوں اور ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و ترقی اور توسیع میں قدرتی آفات کے اُن ممکنہ حملوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جنہیں کی شدت بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ کیا آپ یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ پشاور میں تعمیرات کی نگرانی کرنے والے ایک سے زیادہ اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ جبکہ آسمان سے باتیں کرنے والے پلازے دھڑا دھڑ تعمیر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کیا آپ پشاور کی ترقی کے نام پر نگران ادارے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے واقف ہیں‘ جو ’’حلقۂ یاراں کے لئے ریشم کی طرح نرم‘‘ مزاج رکھتی ہے!

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کا قدیمی حصہ (اندرون شہر کے علاقے) شدید خطرے میں ہیں۔ ہفتے کی الصبح آنے والے شدید زلزلے سے کئی اندرون ہشتنگری و لاہوری گیٹ میں کئی بوسیدہ عمارتوں کے حصے منہدم ہونے سے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ شکر ہے کہ بڑا جانی نقصان نہیں ہوا‘ جو 90سیکنڈز دورانیئے جیسے طویل زلزلے سے عین ممکن تھا اگر (خدانخواستہ) اِس کی شدت ریکٹراسکیل پر سات درجے سے کم نہ ہوتی۔ تو کیا ہم کسی بڑی آفت اور بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا انتظار کریں یا مناسب وقت ہے کہ ایسی تمام عمارتوں کی قسمت کے بارے میں فیصلہ کرلیا جائے جو رہائش و استعمال کے قابل نہیں رہیں۔

پشاور مرکزی شہر ہے اور یہاں ساٹھ سے زیادہ صوبائی اور وفاقی سرکاری محکموں کے دفاتر موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ‘ گورنر اور وزرأ پر مبنی ایک ایسا نگران اور فہم و فراست رکھنے والا گروہ موجود ہے‘ جنہیں عوام کے مسائل‘ اندیشوں اور خوف سے بخوبی آگہی ہے لیکن طرزحکمرانی کا سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ حکمراں بننے والوں کا عوام سے دلی رابطہ گویا کٹ سا جاتا ہے اُور طرز حکمرانی کے نظام کی وہ سبھی خامیاں جو بطور حزب اختلاف سیاست دانوں کو دکھائی دیتی ہیں لیکن حکومت ملنے کے بعد رویئے اور ترجیحات یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ قول و فعل اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے طرزعمل میں اس قدر تضاد خود کو عوام کا نمائندہ قرار دینے والوں کو زیب نہیں دیتا لیکن خودفریبی اور خودستائش ایک ایسا لاعلاج مرض ہے‘ جس کی تشخیص (بدقسمتی سے عین) اُس وقت ہوتی ہے‘ جب فیصلہ سازی کا اختیار ہاتھ سے نکل جاتا ہے! التجا ہے صوبائی اور پشاور کی ضلعی حکومتوں سے کہ وہ اندرون پشاور کے اُن تمام بوسیدہ مکانات اور عمارتوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر و کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ایسی تمام عمارتیں جنہیں ماضی میں خود حکومتی اداروں نے ناقابل استعمال قرار دے رکھا ہے‘ اُن سے کس مصلحت کے تحت چشم پوشی اختیار کی جا رہی ہے؟

ایسے خستہ حال مکانوں و عمارتوں کا شمار سینکڑوں میں ہے‘ جن کی طبعی عمریں پوری ہو چکی ہیں اور زلزلے یا موسلادھار بارشوں کی صورت اُن کے مکینوں کی جانیں مستقل خطرے میں رہتی ہیں۔ صرف بوسیدہ مکانات ہی نہیں بلکہ گذشتہ دس برس کے دوران پشاور میں بننے والی نئی کثیرالمنزلہ درجنوں عمارتوں کی تعمیر میں ایمرجنسی کی صورت باہر نکلنے کے راستے اور آتشزدگی سے بچاؤ کے لئے آلات نصب نہیں۔ پارکنگ کے مختص جگہیں بھی کرائے پر دی گئیں ہیں جو ’قواعد‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح رہائشی و کاروباری علاقوں کے درمیان تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ پشاور کا ایسا کوئی گلی کوچہ نہیں رہا جہاں خستہ مکانات کے نچلے حصے معمولی ردوبدل کے ساتھ کمرشل سانچوں میں نہ ڈھال دیئے گئے ہوں۔ اندرون یکہ توت میں ایک ایسا کثیرالمنزلہ پلازہ بھی ہے جس کے زیرزمین تہہ خانے کو اپنی حد سے بڑھا کر سڑک تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ایک عمارت کا راستہ متصل گلی میں سیڑھیاں کھود کر بنایا گیا ہے اور یہ بات خود ’بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے متعلقہ اہلکاروں کے علم میں کہ کس طرح سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں نے منظور کئے جانے والے تعمیراتی نقشہ جات پر عمل درآمد میں قواعد کی خلاف ورزیاں کیں لیکن عوام کی شکایات کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے واجبی جرمانوں کے ذریعے معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ادارے بھی موجود ہیں اور اُن کے قواعد و ضوابط بھی جن پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے بھاری تنخواہوں اور مراعات پر ملازمین کی فوجیں بھرتی کی گئیں ہیں لیکن پشاور یعنی ہم عوام کے مفاد کی بجائے یہ ادارے اور ملازمین اُن شخصیات کے غلام بن گئے ہیں‘ جنہوں نے بھرتیاں‘ تبادلے اور تعیناتیاں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہیں! حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن اداروں کی روش وہی کی وہی ہے کہ بظاہر کاغذی کاروائی (فائل ورک) کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تعمیراتی کاموں کے ٹینڈر کھلنے سے لیکر اہم عہدوں پر تعیناتیوں تک تعلقات‘ سفارش یا سیاسی وابستگی جیسے حوالے ہی کام آتے ہیں۔ اِس صورتحال اُور پیدا ہونے والے منظرنامے میں تبدیلی کے لئے شعوری کوششوں کی ضرورت ہے‘ جس کے لئے بلدیاتی نمائندے صرف اہم نہیں بلکہ نہایت ہی کلیدی کردار اَدا کرسکتے ہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ اندرون پشاور کے علاقوں (سرکی گیٹ‘ آسیہ‘ رامداس‘ ڈبگری‘ جہانگیرپورہ‘ یکہ توت‘ گنج‘ کریم پورہ سے ہشتنگری‘ اندرون لاہوری و رامپورہ گیٹ بالخصوص فصیل شہر کے داخلی حصوں) میں خستہ حال عمارتوں کا جائزہ (سروے) جتنا جلد ہو مکمل کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ‘ یا جرمن حکومت کی تکنیکی و فنی اور مالی معاونت کے پشاور میں صدر دفتر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے جو اِس طرح کی شہری منصوبہ بندی (سویک پلاننگ) کا وسیع تجربہ و مہارت رکھتے ہیں۔ تاہم سروے کو محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہر ایک عمارت کی سن تعمیر‘ ظاہری حالت اور اُس کی باقی ماندہ عمر کا تعین بھی ایک ہی سانس میں ممکن ہے۔ گلوبل انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے تحت پشاور کی ہر گلی کوچے کا نقشہ اُور آبادی کے اعدادوشمار بھی اِسی کوشش میں مرتب کئے جا سکتے ہیں جس سے پشاور میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے نظام کی ضروریات معلوم ہو سکتی ہیں۔ سردست پشاور کی آبادی اور اس کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسی آب‘ کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) اُٹھانے کے نظام اور دیگر ضروریات کے تعین کا تازہ ترین سروے موجود نہیں۔ اگر اپنے وسائل سے استفادہ مقصود ہو تو صوبائی حکومت کے پاس ’جی آئی ایس‘ کے آلات اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہے جس نے کامیابی کے ساتھ تعلیمی اداروں کے اعدادوشمار جمع کئے ہیں اور بناء کسی اضافی اخراجات اِسی ’ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس)‘ نامی شعبے کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جسے نہ صرف پشاور کے مزاج و گلی کوچوں کا علم بھی ہے بلکہ اسے مقامی آبادیوں بالخصوص ایسے مضافاتی علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہے جہاں انسداد پولیو مہمات سمیت کسی بھی کام کے لئے جانے والے سرکاری اہلکاروں کو حفاظتی حصار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضلع پشاور کی سطح پر ’جی آئی ایس‘ سروے کے لئے جامعہ پشاور کے شعبہ جات اور طلباء و طالبات کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے‘ جو اِس ٹیکنالوجی میں درس حاصل کررہے ہیں اور اُنہیں عملی تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پشاور کی سطح پر صفائی کے لئے رضاکاروں پر مشتمل ٹیمیں بنائی جا سکتی ہیں تو ایک ایسے مقصد کے لئے غوروخوض اور عملی مشقیں کیوں نہیں کرائی جاسکتیں جن کا تعلق انسانی جان و مال کو محفوظ بنانے سے ہے؟

Thursday, December 24, 2015

Dec2015: Message of Eid e Milad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پیغام عید!
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری دنیا میں ظہور سے منسوب ’ماہ ربیع الاوّل‘ کی بابرکت ساعتوں میں اُس پیغام اور تعلیمات کے متن نہیں بلکہ روح کو پیش نظر رکھیں‘ جس کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حیات انسانی کے ہر گوشے کے لئے اگر کوئی اُسوہ بطور ’نمونہ‘ موجود ہے‘ تو وہ صرف اُور صرف (لامحالہ) ذات نبوی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات وتعلیمات میں امن وسلامتی کا عملی درس ہر انسان کی عملی زندگی میں رہنمائی کے لئے کافی ہے۔
امن‘ امان‘ سلامتی ایسے الفاظ ہیں جن کو ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ ہر فرد بشر کی خواہش ہوتی ہے کہ اِن کے مطالب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سکون و چین کی زندگی بسر کرے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا جب اعلان ہوا تواس وقت کے معاشرے میں یہ الفاظ اپنے معانی سے عاری ہو چکے تھے‘ الفاظ تو تھے لیکن معانی کا کہیں وجود نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ شانہ سبحانہ‘ نے انسانیت پر رحم فرمایا اور ہدایت کے لئے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اب کیا تھا جہاں جنگل کا راج تھا وہاں امن و امان کی فضا چھا گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف صلح و آشتی اور امن کا آوازہ بلند ہونے لگا۔ اسلام کے لفظ ہی سے سلامتی ٹپکتی ہے اور ایمان کے مادہ ہی سے امن و امان رستا ہے۔ اسلام کی ہر تعلیم امن کی مظہر اور ہرمسلم سلامتی کا پیام بر ہے۔ باوجود اس کے انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ دشمنان اسلام نے مختلف روپ دھار کر تعلیمات اسلام کو امن مخالف بلکہ دہشت گردی کو فروغ دینے والا مذہب قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔ مسلمانوں کی منظم کردار کشی اور اسلام سے باطل نظریات منسوب کرنے والوں کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اِن سازشوں کا مقابلہ صرف اور صرف ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لگاؤ اور اُن کی تعلیمات پر عمل سے ممکن ہے۔

باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شریعت میں دو اصطلاحات ہیں‘ اسلام اور ایمان۔ ایک کا مادہ ’’سِلم‘‘ہے اور دوسرے کا ’’امن‘‘ اور ان دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی ’ امن وسلامتی۔‘ اسی طرح مسلمانوں کے تعارف کے لئے بھی دو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں: ’مسلم‘ اور ’مومن‘ جو پہلے دو لفظوں ہی سے مشتق ہیں اور ان کے معنی امن وسلامتی کے ہیں۔ اسی طرح جو شخص خود اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے امن چاہتا ہے وہ مومن ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان اور مومن کی وضاحت اس طرح فرمائی تھی۔ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں اُور مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان و مال امن و عافیت میں رہے۔‘‘ پر امن بقائے باہم کے سلسلے میں قرآن کی ہدایات نہایت صاف اور واضح ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کے خداؤں کو برا مت کہو نہیں تو وہ بھی نادانی اور دشمنی میں اللہ کو برا کہیں گے۔‘‘ اِس سے بڑھ کر پر امن بقائے باہم کی تعلیمات اور کیاہوسکتی ہیں؟ قرآن حکیم کی آیت کا مفہوم و ترجمہ ملاحظہ کیجئے کہ ’’جس کسی نے کسی بھی انسان کو بلاوجہ قتل کیا یا فساد پیدا کرنے کا محرک و سبب بنا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا اور جس نے کسی ایک بھی انسان کی زندگی بچالی تو گویا اُس نے پوری انسانیت کی زندگی بچائی۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی 23سالہ نبوی زندگی میں ہر شعبے اور ہر فرد کے لئے مکمل اور جامع اسوہ چھوڑا۔ قرآن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنی نوع انسانیت کے لئے رحمۃ للعالمین قرار دیتا ہے۔ (وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین) پھر آپ کو پوری انسانیت کے لئے قابل تقلید بنا کر پیش کرتے ہوئے آپ کو بہترین نمونہ قرار دیتا ہے: ’’لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنا۔‘‘ حدیث مبارکہ ہے: ’’سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقہ زندگی محمد کا طریقہ ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔ لہٰذا مسائل ومصائب کی ماری اضطراب اور بے چینی میں مبتلا دنیا کو اگر کہیں راحت مل سکتی ہے تو وہ صرف محسن انسانیت کا اسوہ ہے جنہوں نے انسانیت کے احترام کو ہر شے سے بالا و برتر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘ اُور اُس کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب شخص وہ ہے جو اِس کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہے۔‘‘

Dec2015: Gorkhattree Revisied by Dr Amjad


Dec2015: Death of nation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ضمیر کی موت!
توجہ طلب ہے کہ فلم سازی اُور اَداکاری جیسے شعبوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے عامر خان نے ایک ایسے مداح (فین) کی جانب سے ملاقات کی خواہش پوری کی ہے جو ’’پروجیریا (قبل از وقت بڑھاپا طاری ہونے)‘‘ کی بیماری (Progeria) میں مبتلا ہے۔ چودہ سالہ نہال نامی بچے نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر اپنے پیغام میں عامر خان سے ملاقات اور اُن کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

فیس بک کا یہ پیغام کروڑوں مداحوں سے ہوتا ہوا‘ عامر خان تک بھی پہنچا تو انہوں نے ’’نہال‘‘ کی دلی خواہش بصدشکریہ پوری کردی۔ جس کے بعد نہال نے اپنے پیغام (فیس بک پوسٹ) میں کہا کہ ’’عامر انکل میرا خواب پورا کرنے کے لئے آپ کا شکریہ۔ آپ کی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ نے مجھے بہت متاثر کیا اور مجھے یقین تھا کہ ایک دن میں آپ سے ضرور ملوں گا۔‘‘ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ عامر خان کی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ کی کہانی ’ایشان‘ نامی ایک ایسے بچے سے متعلق تھی‘ جسے لکھنے بولنے اور سمجھنے میں دقت رہتی ہے۔ آٹیزم (Autism) نامی بیماری سے متاثرہ بچے معاشرے میں تنہائی کا شکار رہتے ہیں‘ جنہیں دیگر بچوں سے زیادہ اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کی فلمی صنعت عشقیہ (رومانس پر مبنی) فلموں سے بھری پڑی ہے‘ عامر خان نے ’دستاویزی اور فیچر فلم‘ کے امتزاج کو اِس خوبی سے پیش کیا کہ آٹیزم سے متاثرہ بچے جنہیں اُن کی پیدائشی کمزوریوں کی وجہ سے معاشرہ سمجھنے سے قاصر چلا آ رہا تھا‘ اُن کے بارے میں بھارت و پاکستان اور جہاں جہاں اُردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ بستے ہیں اور انہیں ’تارے زمین پر‘ نامی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ تو وہ جان گئے کہ خصوصی بچوں کا کتنا اور کس طرح و کس قدر خیال رکھنا چاہئے۔ قبل از وقت بڑھاپا طاری ہونے کے مرض میں مبتلا ’’نہال‘‘ کا عامر خان سے ملنے کے بعد یہ بھی کہنا تھا کہ ’’اُس کے اَندر جینے کی نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔‘‘ عامر خان نے فیس بک پر نہال کے ساتھ اپنی تصویر شائع (شئیر) کی اُور انہیں صحت یابی کی دعاؤں کے ساتھ انسانیت دوستی کا ایک ایسا ’’اَن کہا پیغام‘‘ دیا ہے‘ جس کے مطالب و معانی اور پہلوؤں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عامر خان بھارت کی انتہائی اہم شخصیات (وی وی آئی پیز) کی فہرست میں شامل ہیں لیکن اُنہوں نے اپنی سماجی و مالی حیثیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرح ایک مداح کی خواہش پوری کی ہے‘ اُس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ انسانیت پر یقین رکھنے والا کوئی بھی ہوسکتا ہے‘ اُس کا بظاہر مذہبی ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی اُس کے لباس و رہن سہن سے یہ تاثر ملنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کسی مذہب و عقیدے کے تابع سمجھتا ہے۔ کسی ارب پتی‘ معروف فلمی اداکار کا یوں اپنے ایک مداح اور وہ بھی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے بیمار بچے کی عیادت کرنا‘ اُس کی دلی خواہش پوری کرنے کا عمل کتنی اہمیت رکھتا ہے اس بات کو سمجھنے کے لئے اِس مرحلۂ فکر پر رک کر ایک ہی روز یعنی 23 دسمبر کو ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے اِن دو واقعات کا موازنہ کیجئے۔

 بھارت میں عامر خان ایک بیمار بچے کی عیادت کرنے گئے اور پاکستان میں خناق سے متاثرہ 10ماہ کی بیمار بچی بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کے باعث دم توڑ گئی! کراچی شہر کی غریب بستی لیاری کی رہنے والی بسمہ کی سانسیں اکھڑنے لگیں تو والد اُسے موٹرسائیکل پر ’سول ہسپتال‘ لیجانے کے لئے نکلا لیکن جگہ جگہ راستے بند تھے۔ ہسپتال کا شعبہ ہنگامی علاج معالجے کا گیٹ بھی بند پایا گیا۔ سیکورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے ٹریفک اور پولیس اہلکاروں کو تشویش و پریشانی سے بھرے چہرے والے موٹرسائیکل سوار کی حالت پر رحم نہ آیا۔ وہ بچی کو ہاتھوں پر اٹھائے ہسپتال کے ایک گیٹ سے دوسرے گیٹ تک چکر لگاتا رہا اور پھر جب کسی طرح بھاگتے بھاگتے ہسپتال میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُس کی بیٹی مر چکی ہے لیکن اگر وہ دس پندرہ منٹ پہلے اُسے طبی امداد دینے کے لئے ہسپتال لے آتا تو اُس معصوم کی زندگی بچائی جا سکتی تھی! ہاتھوں پر بچی کی لاش اُٹھائے فیصل نامی باپ زاروقطار رو رہا تھا اور یہ تماشا دوپہر سے رات گئے تک پوری پاکستانی قوم اور دنیا نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات میں تمام دن دیکھتی رہی۔ ذرائع ابلاغ واویلا کرتے رہے کہ کس طرح ’اہم شخصیات‘ کی سیکورٹی کے نام پر ہسپتال کے اطراف میں شاہراہیں بند کی جاتیں ہیں۔ کس طرح ’اہم شخصیات‘ کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں لیکن بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کیا یہ المیہ قوم کے لئے کافی ہوگا کہ دس ماہ کی بچی کی لاش ہاتھوں پراُٹھائے ایک باپ کہہ رہا تھا ’’میری بچی کی حیثیت دو کوڑیوں جیسی (معمولی) ہے۔ اہم تو بلاول زرداری ہے!‘‘ یاد رہے کہ عوام سے وصول کئے گئے ٹیکسوں (محصولات) سے سول ہسپتال کراچی میں ’ٹراما سنٹر‘ بنایا گیا‘ جسے بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنے کے بعد 23دسمبر کے روز اُن کے صاحبزادے بلاول زرداری سے افتتاح کرانے والے سبھی کردار بسمہ کی موت کے لئے ذمہ دار ہیں کیونکہ نام نہاد اہم شخصیات کی حفاظت کے پیش نظر ہسپتال کے اطراف میں راستے بند کئے گئے تھے اور یہ بات سبھی کو معلوم تھی!

کیا بسمہ کی موت کے بعد ’اہم شخصیات‘ عوام کے لئے زحمت بننے کی روش ترک کریں گے؟ کیا قانون ساز ایوانوں میں ’وی آئی پی کلچر‘ ختم کرنے کے لئے غوروخوض ہوگا؟ کیا بسمہ کی موت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپرئم کورٹ‘ ہائی کورٹ یا سول سوسائٹی اپنی موجودگی کا احساس دلائے گی؟ کیا 10ماہ کی معصوم بچی کی ہلاکت کو قتل تصور کرتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا؟ تیئس دسمبر ہی کی شب وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ نے مشیر نادیہ گبول کی رہائشگاہ پر غمزدہ باپ سے ملاقات کے دوران اُسے سرکاری ملازمت دینے کی پیشکش اور معاملہ رفع دفع کرنے پر ’رضامند‘ کر لیا لیکن کیا اِس مک مکا سے ’پیپلزپارٹی‘ کی مرکزی قیادت اور سندھ کی صوبائی حکومت کے دامن پر خون کے چھینٹے دھل سکیں گے؟ فرضی و تصوراتی کرداروں کے ذریعے ’انسانیت کے احترام‘ کا سبق دینے والا عامر خان نام نہاد رہنماؤں سے لاکھوں درجے بہتر ہے‘ جسے دوسروں کی دکھ‘ تکلیف اور جذبات کا احساس ہے۔

اتنی اداکاری تو اب فلموں میں بھی نہیں ہوتی‘ جتنی ہمارے سیاستدان کے قول و فعل سے چھلک رہی ہے! 23دسمبر کو بسمہ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے ضمیر کو دفن کیا گیا ہے‘ لعنت ہو جمہوریت کو غلام بنانے والے ایسے نام نہاد رہنماؤں پر اور ایسے استحصالی نظام پر جس میں عام لوگ (ہم عوام) کیڑے مکوڑوں کی طرح روندے اور کوڑیوں کے مول خریدے جا رہے ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, December 20, 2015

TRANSLATION: The Karachi Nexus

The Karachi nexus
کراچی: گٹھ جوڑ
ہلاکتوں کی شرح: پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے اپنے عہدے کا حلف 25مارچ 2008ء کے روز اٹھایا جبکہ اُنہی کی سیاسی جماعت کی سربراہی کرنے والے آصف علی زرداری نے 9 ستمبر 2008ء کے روز صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سال 2008ء کے دوران کراچی میں 777قتل ہوئے۔ سال 2013ء میں کراچی میں ہوئے قتل 2507رہے اور ہر سال بڑی تعداد میں قتل کے ان واقعات کی وجہ سے کراچی دنیا کا ایک ایسا خونیں شہر بن گیا جہاں ہر روز درجنوں ہلاکتیں معمول بن گئیں اور اسے ’دنیا کی قتل گاہ‘ کہا جانے لگا کیونکہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اس قدر ہلاکتیں نہیں ہوتیں جس قدر کراچی میں ہو رہی تھیں۔

اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں: سال 2003ء میں 33جبکہ سال 2013ء کے دوران کراچی میں 174 اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں رونما ہوئیں اور یوں کراچی کو دنیا کے اُن شہروں میں سرتاج کہا جانے لگا جہاں اغوأ برائے تاوان کی سب سے زیادہ وارداتیں رونما ہوتیں ہیں۔

موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتیں: سال 2006ء کے دوران کراچی میں کل 7 ہزار 85 موٹرسائیکل چھیں لی گئیں لیکن سال 2013ء موٹرسائیکل چھیننے کی یہ وارداتیں بڑھ کر 23 ہزار 153ہو گئیں اور یوں کرۂ ارض پر کراچی واحد ایسا شہر بننے کا اعزاز پا گیا جہاں سب سے زیادہ لوگ اپنی موٹرسائیکلوں سے محروم ہوئے۔ سال 2013ء کے دوران کراچی کو ملنے والا یہ تیسرا اعزاز تھا یعنی قتل‘ اغوأ برائے تاوان اور موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتیں پوری دنیا میں سب سے زیادہ کراچی میں ہو رہی تھیں۔
موٹرگاڑیاں چھیننے کی وارداتیں: سال 2008ء کے دوران 6ہزار 23 گاڑیاں کراچی کی حدود میں چھینی گئیں۔

رینجرز آپریشن کے بعد کی صورتحال: کراچی میں رینجرز نے امن و امان قائم کرنے اور وہاں جرائم پیشہ گروہوں کا قلع قمع کرنے کے لئے آپریشن (کاروائی) کا آغاز ستمبر 2013ء میں کیا۔ سال2015ء کے وسط تک کراچی میں قتل کی وارداتیں کم ہو کر 44 تک پہنچ گئیں جو 80فیصد کمی تھی۔ 2015ء کے وسط تک اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں 14 تک آ گئیں جو 92 فیصد کمی تھی۔ موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 75 فیصد اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں 50فیصد غیرمعمولی کمی آئی۔

سندھ اسمبلی کی قرارداد: رینجرز کو کراچی آپریشن جاری رکھنے اور اس سلسلے میں انہیں حاصل خصوصی اختیارات میں توسیع سندھ اسمبلی کی قرارداد سے مشروط تھی جس کے لئے 16دسمبر کے روز سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں پانچ ایسے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رینجرز کے دائرۂ اختیار کو محدود کر دیا گیا۔ جن پانچ شعبوں میں رینجرز کو الگ کرنے کی کوشش کی گئی اُن میں دہشت گردی کی معاونت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا اختیار‘ دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کاروائی‘ دہشت گردی کی مالی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا اختیار‘ دہشت گردوں کے سہولت کار بننے والوں کے خلاف کاروائی اور سندھ کے تمام سرکاری محکموں کے خلاف کاروائی شامل تھا۔

تجزیہ: کراچی میں جرائم کا دھندا ایک درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں زمیں میں گہری ہو چکی ہیں۔ زمین کے اوپر اس کی شاخیں قتل‘ اغوأ برائے تاوان‘ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی چوڑیوں کی صورت دکھائی دیتی ہیں لیکن جو ہم نہیں دیکھ سکتے وہ اس درخت کی پھیلی ہوئی جڑیں ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی پشت پناہی‘ اُن کی سہولت کاری اور اُن کی مالی معاونت و پشت پناہی کہیں اور سے نہیں بلکہ سیاست دانوں کی طرف سے ہو رہی ہے اور سیاست دانوں اور جرائم پیشہ عناصر نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ کراچی کو لاحق امراض و خطرات کا ظاہری رخ ہمارے سامنے ہے لیکن اصل بیماری زیرزمین ہے‘ جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔

رینجرز کی نپی تلی کاروائیوں کے نتائج جرائم میں غیرمعمولی کمی کی صورت ظاہر ہوئے ہیں لیکن یہ سمجھ لینا کہ جرائم پیشہ عناصر کی قوت کو منتشر کرنے یا انہیں کسی ایک محاذ پر شکست دینے سے اُن کا خاتمہ ہوگیا ہے غلط ہوگا۔ جن چار جرائم (قتل‘ اغوأ برائے تاوان‘ موٹرسائیکل اور موٹرگاڑیوں کے چھیننے کی وارداتوں) میں کمی آئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابھی مرض بھی باقی ہے اور اس کا سبب بننے والے اسباب بھی موجود ہیں۔سیاسی جماعتوں اور جرائم پیشہ و دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اور اس کی پہلے جیسی قوت و توانا وجود موجود نہیں لیکن بہرحال جرائم کا وہ تناور درخت موجود ہے‘ جس نے کراچی کے امن و امان اور اس کی خوبیوں کو اپنی شاخوں سے ڈھانپ رکھا ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Wednesday, December 16, 2015

Dec2015: Ongoing thinking process!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سوچ کا جاری سفر!
سولہ دسمبر کا دن کیسے گزر سکتا ہے جب 1971ء میں پاکستان کا ایک حصہ علیحدہ ہوا۔ کون جانتا تھا کہ یہ دن اپنے دامن میں ایک اُور سانحہ بھی سموئے ہوئے ہوگا یقیناًجن قوتوں نے 1971ء میں وار کیا‘ انہی منصوبہ سازوں نے 2014ء میں پھر سے ہمیں یاد دلایا ہے کہ دیکھا کس طرح پاکستان کو شکار کیا گیا! جس طرح سقوط ڈھاکہ بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے اسی طرح سانحۂ پشاور کے حوالے سے بھی سوالات کی کمی نہیں جنہیں سولہ دسمبر کے روز کہیں دبے تو کہیں دھیمے لہجے میں اٹھایا جاتا رہا۔ اس قتلِ عام کے اسباب، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی اور اس کا وقت، اور اِس واقعے کے حوالے سے خفیہ اطلاعات موجود تھیں؟ اور اگر موجود تھیں تو کیا سانحے کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا؟ اس کے علاوہ بھی دیگر بڑے سوالات موجود ہیں۔ کیا واقعی دہشت گردوں کو شکست دی جاچکی ہے اور ان کی کمر توڑی جا چکی ہے؟ اور آرمی پبلک اسکول حملے میں کون سا عسکریت پسند گروپ ملوث تھا؟ کیا کشت و خون میں ملوث تمام ملزمان بشمول سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے؟ کیا اُن کے پاس اب بھی ایسی ہی بڑی کاروائی یا دیگر بڑے دہشت گردی کے حملے کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ اور یہ کہ آج عسکریت پسندی کے خلاف قوم کہاں کھڑی ہے اور بحیثیت قوم سقوط ڈھاکہ اور سانحۂ پشاور کے بعد کی منزل کیا ہوگی؟

سوچ کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی درس و تدریس کے شعبہ میں ’انقلابی اصلاحات‘ کے بارے میں سوچئے۔ تصور کیجئے کہ اساتذہ جب 17ویں اور 18ویں گریڈ میں ترقی پاکر اپنے تبادلے تعلیمی اداروں سے متعلقہ وزارتوں (سیکرٹریٹ) میں کراتے ہیں‘ جہاں انہیں انتظامی معاملات چلانے کا قطعی کوئی تجربہ نہیں ہوتا لیکن سیاسی اثرورسوخ اور ذاتی و خاندانی تعلق کی بنیاد پر ’سیکشن آفیسر‘ کے عہدے پر تعینات ہو جاتے ہیں تو درس و تدریس کا کتنا نقصان ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہیں اِس شعبے کے مسائل کا دردمندی سے احساس ہو۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے راستے مختلف محکموں میں من پسند عہدوں پر تعینات جملہ اہلکاروں کو درس و تدریس کی ذمہ داریاں واپس سونپی جائیں اور اسی طرح جو ڈاکٹر علاج معالجے کے لئے ہسپتالوں میں بھاری تنخواہوں و تاحیات مراعات کے عوض بھرتی کئے جاتے ہیں اُن کی خدمات بھی مالی و انتظامی امور کی نگرانی کرنے کی بجائے ’علاج معالجے‘ کے لئے مختص کی جائیں۔ عجب ہے کہ اُستاد بھرتی ہونے والا درس و تدریس میں دلچسپی نہیں رکھتا اور علاج معالجے کی تربیت و اعلیٰ تعلیم یافتہ دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے چکر میں ہے! المیہ نہیں تو کیا ہے کہ اُستاد کو اُستاد‘ ڈاکٹر کو ڈاکٹر اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ایسی ہے جسے اپنے پیشے کے تقدس کا احساس نہیں! سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کم تو ہوئی لیکن ختم نہیں کی جاسکی اور اِس کمی کے ثمرات بھی نجانے کس صدی میں ظاہر ہوں گے کیونکہ جن عہدوں پر منظورنظر افراد تعینات ہیں اُن کی گھٹی میں اہلیت اور ذہن میں عہدوں سے جڑے امانت و دیانت کے تصورات دھندلے ہیں!

سانحۂ پشاور کے بعد سال کا ہر دن جن لوگوں کے لئے ایک سال کے برابر تھا اُن میں ایسے والدین بھی ہیں‘ جنہوں نے آئے روز تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی دھمکیوں اور عمومی خوف کی وجہ سے اپنے جگرگوشوں کو سکولوں سے الگ کروا لیا۔ وسائل رکھنے والوں نے انفرادی سطح پر تعلیم کا بندوبست کیا لیکن بہت جلد اُنہیں احساس ہوا کہ بچوں کے لئے تعلیمی اداروں میں معمول کے مطابق استفادہ کس حد تک ضروری ہوتا ہے اور اُن کا ہم عمر و ہم عصر بچوں سے میل جول‘ ہم نصابی سرگرمیاں اور مختلف رہن سہن کے حامل بچوں کا باہم بول چال کتنی بڑی ’’تعلیم کا ذریعہ‘‘ ہوتا ہے۔ چونکہ انسان ایک سماجی جانور ہے تو اِس کے لئے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں ہوتا‘ اگرچہ کوشش کر بھی لے۔ والدین کو تحفظ کا احساس دلانے کے لئے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’ٹیکنالوجی‘ کا سہارا لیا اور تعلیمی اداروں کو موبائل فون ایپ (ایپلی کیشن) سے جوڑ دیا‘ وہیں تشویش کا شکار ایک والد نے بھی اپنے وسائل سے ’’محافظ‘‘ نامی اینڈرائرڈ یا اپیل اُو ایس (آپریٹنگ سسٹم) کی ایپلی کیشن (سافٹ وئر) تیار کرکے مفت (بطور صدقہ جاریہ) عام کر دی ہے اور انٹرنیٹ سمیت سمارٹ فون رکھنے والے صارفین اس کم و بیش 6 میگابائٹس کی ایپلی کیشن کو گوگل یا اپیل سٹور سے بلاقیمت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کر سکتے ہیں‘ جس کی خصوصیات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہنگامی (ایمرجنسی) صورتحال میں خون عطیہ کرنے والوں سے رابطہ کیا جاسکے۔ اپنے خاندان کے افراد یا دوستوں کو ایک بٹن دباتے ہی مدد کرنے کے فوری پیغامات ارسال کئے جاسکیں۔ ہنگامی صورتحال جیسا کہ آتشزدگی‘ زلزلہ‘ چوری‘ ڈاکہ‘ حادثہ یا دہشت گردی کی صورت ’’پستول کا نشان (آئیکن)‘‘ کو دبا کر آن کی آن متعلقہ افراد کو مطلع کیا جاسکے۔ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ’فہد خان‘ کی تیار کردہ ’’محافظ موبائل ایپلی کیشن‘‘ جدید (سمارٹ) موبائل فونز کے استعمال کا تجربہ نہ رکھنے والے بھی باآسانی کر سکتے ہیں اور یہی اِس اپیلی کیشن کا سب سے نمایاں خوبی ہے کہ مفت ہونے کے ساتھ اسے ’صارف دوست‘ بنایا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی تیار کرنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کس طرح معاشرے کے لئے مفید و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے کسی بھی صارف کا جغرافیائی محل وقوع معلوم کرنا بہت اہم ہوتا ہے اور اگر بچوں کے سکول بستوں (بیگز) یا چھاتی پر لگے سکول بیج میں ’جی پی ایس‘ (گلوبل پوزیشنگ سیٹلائٹس) کا آلہ نصب کر دیا جائے جیسا کہ مغربی دنیا میں پالتو جانوروں تک اِس ٹیکنالوجی سے لیس ہوتے ہیں تو اس سے نہ صرف کسی بھی بچے یا شخص کی آمدورفت میں استعمال ہونے والے راستوں (روٹس) کا ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے بلکہ ہنگامی حالات کی صورت اسی آلے کی مدد سے بچوں کی زندگی بھی بچائی جا سکتی ہے۔ سانحۂ پشاور کا دن اگر ٹھہر گیا ہے تو اسے یادآوری کی حد تک محدود نہ سمجھا جائے‘ یہ ایک ایسا نادر موقع بھی تو ہے کہ ہمارے معاشرے میں حکومتی و نجی اداروں یا انفرادی حیثیت سے ماہرین نے جن شعبوں میں کسی بھی وجہ سے غفلت کا مظاہرہ کیا‘ اپنے قول و فعل کی اصلاح کر لیں۔

 اگر ہم ایک سال بعد بھی جہاں تھے‘ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں یعنی تعلیمی اداروں کی دیواریں بلند کرنے اور خاردار تاروں سے اُنہیں محفوظ بنانے کا عمل ہی مکمل نہیں کر پائے تو جان لیجئے کہ پے در پے حادثات‘ سانحات اور لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا! ’’گھر ہمارا جو نہ روتے تو بھی ویراں ہوتا!۔۔۔ بحر گر بحر نہ ہوتا‘ تو بیاباں ہوتا۔‘‘

Tuesday, December 15, 2015

Dec2015: US Political scene & worries!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
روشن خیال امریکہ: خوفناک سچائی!
اَمریکہ کا سیاسی منظرنامہ تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ماضی میں معیشت اور ملازمتوں کے گرد گھومنے والا سیاسی و انتخابی بحث و مباحثے کو اب مذہب سے جڑے خوف نے یرغمال بنا لیا ہے۔ راقم کو تو اپنے جگری دوست ’سعید آغا‘ کی فکر کھائے جا رہی ہے جو نیویارک میں اقتصادی مجبوریوں سے زیادہ ضد کے باعث قیام پذیر ہے اور اُمید سے ہے کہ اُسے آئندہ چند ماہ میں امریکی شہریت مل جائے گی! امریکی معاشرے کی خوبیاں گنوانے والے ایسے بہت سے دوستوں سے حالیہ چند دنوں میں ہوئی بات چیت سے اُن کے لہجوں میں چھپی تشویش ظاہر ہوئی۔ امریکہ کو تعصبات سے پاک کہنے والے آج اگر کسی درجے خوفزدہ ہیں تو بھی انہیں وہاں کے معاشی و سیاسی‘ اقتصادی اور انصاف کے نظام میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں! حقیقت حال تو یہ ہے کہ آج کے امریکہ اور یورپی ممالک میں جس قدر مذہبی منافرت اور بالخصوص مسلمانوں سے نفرت کا اظہار عام ہو رہا ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی! امریکہ کے معروف بزنس مین‘ چار ارب ڈالر کے اثاثہ جات کے مالک‘ 69 سالہ ڈونلڈ جان ٹرمپ (Donald John Trump) صدر بننے کے متمنی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف بیان داغا ہے کہ ’’انہیں امریکہ نہ آنے دیا جائے‘‘ تو اس کی مذمت مہذب کہلانے والے معاشرے کی اکثریت نے نہیں بلکہ اقلیت نے کی ہے۔ درحقیقت ٹرمپ اس پانچ سال کے بگڑے ہوئے بچے کی طرح ہیں جو سب کی توجہ حاصل کرنے کے لئے عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے۔ یہی حال پاکستان کے سیاست دانوں کا بھی ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کی توجہ اپنی ذات پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں جس کے لئے دھرنے‘ مارچ اور آئے روز مظاہرے ایک ایسا معمول ہیں‘ جس سے خود اُن کی اپنی اکتاہٹ صاف جھلکتی ہے۔

مسلمانوں کی امریکی امیگریشن پر پابندی کا تصور پیش کرنے پر صدارتی اُمیدوار ٹرمپ کے خلاف جو محاذ کھل گیا ہے‘ یہ بالکل وہی ردعمل ہے جو ٹرمپ یا اُن کی قریبی ساتھی چاہتے تھے اور بدقسمتی سے مسلمان اُن کے اِس جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ انہوں نے نسل اور میکسیکن جیسے مسائل سے توجہ مذہب کی جانب موڑ دی ہے‘ اور انتخابی کامیابی کے لئے متنازع چیزوں کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پیرس اور کیلیفورنیا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نئی روح اور توانائی پھونک دی ہے۔ توجہ مرکوز رہے کہ ’مذہبی منافرت (بشمول فرقہ واریت)‘ کو انتہائی چالاکی سے زیادہ سے زیادہ انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کرنا صرف امریکی سیاست ہی کی سوچ نہیں بلکہ یہ رجحان پاکستان میں بلدیاتی اداروں سے لیکر قومی و صوبائی قانون ساز ایوانواں کے لئے اُمیدواروں کے قول و فعل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو وہاں ایسے ’منفرد پیغامات‘ لانا الیکشن حکمت عملی کا حصہ رہا ہے جس کا مقصد مرکزی دھارے کے امریکہ میں مقبولیت حاصل کرنا ہوتی ہے تاکہ مدمقابل کو مشکل میں ڈالا جا سکے اور ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ڈیموکریٹ ووٹ کم کیا جا سکے‘ جو دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ عام حالات میں تو یہ صرف خوف کے شکار ایک شخص کے شور و غل کی طرح محسوس ہوتا لیکن یہ عام حالات نہیں ہیں۔ سیاسی تقسیم ایک انتہائی خطرناک موڑ لے کر اب امریکہ کے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر رہی ہے جہاں دونوں ہی گروہوں کے افراد کروڑوں ہیں۔ یہ مرغوں کی ایسی لڑائی کی طرح ہے جس میں کوئی بھی زخم کھائے بغیر یا نقصان اٹھائے بغیر باہر نہیں آتا اور جو نقصان پہنچے گا‘ وہ زبردست اور نسلوں تک جاری رہنے والا ہوگا۔

امریکہ میں جیسے جیسے سال 2016ء کے لئے جاری مرکزی انتخابی مہم آگے بڑھ رہی ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فائدے کے لئے اسے پرپیچ و خطرناک موڑ دے رہے ہیں۔ مسلمان تارکینِ وطن اور وہیں پیدا ہونے والے مسلمان شدید خوف کا شکار ہیں جیسے کہ وہ بیچ گرداب پھنس گئے ہوں اور اب انہیں اپنے بچاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے رہی ہو! پیرس کے دہشت گرد حملوں سے لے کر کیلیفورنیا میں ہونے والی فائرنگ (شوٹنگ) تک‘ سارے واقعات امریکی مسلمانوں کے لئے بُرے خواب کی طرح ہیں اور دونوں ہی جانب موجود مذہبی طور پر جوشیلے افراد انتہاء کی سیاست کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹرمپ کی مہم مسلمان مخالف پیغام کے ساتھ جاری رہتی ہے اور کیا وہ بنیادی کامیابیاں حاصل کر لیں گے؟ اگر وہ واقعی کامیاب رہتے ہیں‘ تو مذہب اور نسل کے خلاف بیانات کو دھیما کر دیا جائے گا تاکہ ٹرمپ کلنٹن کا جم کر مقابلہ کر سکیں اور یہ بھی ایک چال ہی ہوگی۔ سردست امریکی مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے کئی بنیادی سوالات تسلی بخش جواب چاہتے ہیں: کیا امریکہ میں واقعی آبادی کا بڑا حصہ جو اب تک تو خاموش تھا مگر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ہی (مسلمان مخالف) خیالات کا حامل ہے؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم صرف ایک سیاسی چال ہے یا پھر یہ مرکزی دھارے کے امریکہ کے لئے ایک خوفناک سچائی بن کر اُبھرے گی؟ کیا امریکہ اس حد تک تبدیل ہونے جا رہا ہے جو کسی صلیبی جنگ کو مسلط نہیں بلکہ اپنے ہاں سے شروع کرے گا؟
Worries about internal politics of USA

Monday, December 14, 2015

Dec215: Foggy decision making!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
باعث پریشانی تذبذب!
سولہ دسمبر کے ’سانحۂ پشاور‘ کا دُکھ ’اجتماعی شعور کے اِظہار‘ اُور ملک دشمنوں کے خلاف مثالی ’اِتحادویک جہتی‘ کے مظاہرے کا متقاضی تھا لیکن افسوس کہ ہم نے روائتی طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’144 قربانیوں کو کہانیوں کا رنگ‘ دے کر خاطرخواہ شعوری خراج عقیدت و تحسین پیش نہیں کیا! بہرکیف آرمی پبلک سکول پر حملے کی پہلی برسی کی مناسبت سے صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کے لئے ’عام تعطیل‘ کا اِعلامیہ (نوٹیفیکیشن) چودہ دسمبر کے روز دفتری اوقات کے اختتام تک جاری نہیں ہوسکا اور حسب سابق اگر یہ پندرہ دسمبر کی رات گئے جاری کیا جاتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی صورتحال والدین اور اساتذہ سمیت تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے لئے بھی شدید پریشانی کا سبب بنے گی کیونکہ ضروری نہیں کہ سبھی والدین کیبل نیٹ ورک کے ذریعے نجی ٹیلی ویژن چینلز سے جڑے ہوں یا اُن کے پاس موبائل فونز بھی ہوں۔

تعلیمی ادارے اس صورتحال میں خود کو ’بے بس‘ سمجھتے ہیں کہ راتوں رات اور بالخصوص رات کے پہلے پہر میں لاکھوں کی تعداد میں والدین کو مطلع کرنا کہ ’کل تعطیل ہو گی‘ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ حکومتی نکتۂ نظر سے تعلیمی اداروں کی عام تعطیل کا فیصلہ حفاظتی نکتۂ نظر سے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اندیشہ ہے کہ سانحۂ پشاور کی برسی کے موقع پر دہشت گرد قوم کو ایک نیا زخم دینے کی کوشش کریں لیکن اگر یہ منطق درست مان بھی لی جائے تو تعطیل کا بروقت اعلان نہ کرنا درحقیقت سیکورٹی خدشات کو کم کرنے کا نہیں بلکہ اِن میں اضافے کا مؤجب بنتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے صبح تیار ہو کر سکولوں کو پہنچتے ہیں‘ جہاں داخلی دروازوں پر لگے تالے اور چوکیداروں کے بیزار لہجے اُن کا خیرمقدم کرتے ہیں! کیا ضروری نہیں تھا کہ سانحۂ پشاور کی یاد میں تعطیل کی بجائے ہر تعلیمی ادارے میں ’قرآن خوانی اور فاتحہ‘ کا اہتمام کیا جاتا؟ ہر تعلیمی ادارے میں تدریسی عمل میں ایک گھنٹے کا اضافہ کرکے تعلیم دشمنوں کے جسم ہی نہیں بلکہ اُن کے نظریات پر بھی وار کئے جاتے؟

معروف سیاسی تجزیہ نگار اردشیر کاؤس جی (1926ء سے 2012ء) سرکاری تعطیلات کے انتہائی مخالف تھے اور چاہتے تھے کہ ہفتہ وار تعطیل کے علاؤہ قوم کسی دوسرے موقع پر کام کاج سے ہاتھ نہ اُٹھائے۔ اُن کی متعدد تحریروں اور انٹرویوز پاکستانی قوم کو ’ہولی نیشن (مقدس قوم)‘ قرار دیا گیا‘ اور جب اُن سے وجہ پوچھی کہ ’ہولی نیشن کیسے؟‘ تو مخصوص مسکراہٹ اور دبدبے والے لہجے میں کہا ’’بیکاز وی ہیو سو مینی ہولیڈیز (کیونکہ ہم بہت سی تعطیلات جو کرتے ہیں)۔ کاؤس جی نے انگریزی زبان کے لفظ ’ہولی (Holy)‘ کا استعمال Holi سے کیا جو زبان دانی اور انگریزی زبان پر اُن کے عبور کا عکاس تھا۔ بہرکیف سرکاری ہوں یا نجی‘ ہمارے تعلیمی انتظامی ڈھانچے میں سنجیدہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

تعلیم ایک نوکری یا کاروبار کسی صورت نہیں ہونا چاہئے اور یہ خالصتاً ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے منفی محرکات کا ازالہ کرے‘ جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ’درس و تدریس کا عمل‘ اپنی معنویت و مقصدیت کی منزل سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے! مسئلہ یہ نہیں کہ عید کے چاند کی طرح عام تعطیل کا اعلان اس قدر تاخیر سے کرنے والے فیصلہ سازوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات کا احساس نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں کے انتظامی ڈھانچے (معاملات) کچھ اس انداز میں مرتب کئے گئے ہیں کہ ٹیوشن فیس کے علاؤہ ’یہ وہ واجبات‘ کے علاؤہ والدین کو دیگر امور سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ تعلیمی اداروں کی اکثریت والدین کو بذریعہ ’فون کالز‘ یا ’ایس ایم ایس‘ تعطیل سے متعلق آگاہ کرنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی۔ خیبرپختونخوا کے تعلیمی منظرنامے میں ایک فریق صوبائی حکومت ہے‘ جس نے تعلیمی نصاب‘ ادارہ جاتی سطح پر بنیادی سہولیات کی ’کم سے کم‘ فراہمی کا معیار اُور انتظامی قواعد و ضوابط طے کرنے جیسی ذمہ داریاں اپنے ذمے لے رکھی ہیں‘ لیکن کیا متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریاں تسلی بخش انداز میں سرانجام دے رہے ہیں جبکہ ماہرین تعلیم یا والدین کی تشویش پر مبنی نکتۂ نظر کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ نظام تعلیم کا دوسرا فریق ہمارے تعلیمی ادارے ہیں‘ جنہیں اگر سرکاری و نجی درجات میں تقسیم کریں تو دونوں کی سطح پر صرف والدین ہی نہیں بلکہ اساتذہ کی ذہانت سے بھی استفادہ کم ترین سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پورے کا پورا نظام ’نصابی اسباق‘ کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ جس میں طلباء و طالبات کی اکثریت کا ویژن (بصیرت) ’رٹے رٹاے‘ جملوں کی حد تک محدود دکھائی دیتا ہے۔ درس وتدریس کے عمل میں تیسرے فریق کا وجود تعلیمی عمل یا اس کے معیار سے زیادہ ’جائز و ناجائز‘ اخراجات کی بروقت ادائیگی کے بارے میں زیادہ فکر مند (ہلکان) رہتا ہے۔

 تعلیمی نظام کی اِس ’سہ فریقی تکون‘ میں طلباء و طالبات پر کئی ایسے نفسیاتی دباؤ ہیں‘ جنہیں کم کرنے کے لئے اُن سے تعلیمی اداروں (اجتماعی) یا گھر (انفرادی) کی سطح پر تبادلۂ خیال یعنی کونسلنگ نہیں کی جاتی۔ راقم الحروف نے ذاتی طور پر درجنوں والدین سے بات چیت کے دوران یہ افسوسناک نتیجہ اخذ کیا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو اس حد تک محدود سمجھ لیا ہے کہ بچوں کو کسی سرکاری یا نجی سکولوں سے وابستہ کرنے کی حد تک محدود سمجھ لیا ہے اور سوفیصد والدین اساتذہ کے نام اور اُن کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں واجبی معلومات بھی نہیں رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ (خالص منافع کی لالچ میں) نجی تعلیمی اِداروں میں اساتذہ کے بھرتی کرنے کا معیار ’کم تنخواہ و مراعات‘ رکھا جاتا ہے جبکہ فی کلاس روم طالبعلموں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے بارے میں بھی زیادہ دردمندی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ تصور کیجئے کہ بطور معلم یا معلمہ کسی انسان کے لئے کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ تعداد میں پچیس یا تیس سے زیادہ بچوں کو مکمل توجہ دے سکے اور ایسے ’اوور لوڈ‘ اساتذہ کے لئے کسی موضوع پر درس (لیکچر) دیتے (جھاڑتے) ہوئے طالبعلموں کی ذہانت و نفسیاتی تقاضوں کو پیش نظر رکھنے کی اُمید رکھنا‘ خودفریبی ہی ہوگی! یہی سبب ہے کہ درس وتدریس کے عمل میں سوال کرنے کی حوصلہ شکنی عمومی روش ہے۔

 تعلیم اور نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چیخ و پکار کے لہجے میں اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ سے سہمے ہوئے بچوں کی شخصیت سازی میں ایک نہیں بہت سے خلأ رہ جاتے ہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر سوچئے کہ جہاں تعطیل جیسا فیصلہ ’’بروقت‘‘ نہ ہو سکے‘ وہاں کے طالبعلم اگر اپنی عملی زندگی میں نظم و ضبط اُور خوداعتمادی کے فقدان کا چلتا پھرتا ’نمونہ‘ ثابت ہوں‘ تو اِس پر تعجب کا اظہار ہونا چاہئے؟

Wednesday, December 2, 2015

Dec2015: The PPP downfall

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پیپلزپارٹی: حسب حال توقعات!
پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے ’خیبرپختونخوا‘ کی اہمیت کم ترین سطح پر اگر نہ ہوتی تو یہاں کے معاملات کو بہتر بنانے کے لئے مرکزی قیادت کی جانب سے بہت پہلے ٹھوس عملی اقدامات دیکھنے کو ملتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی کے دیرینہ کارکنوں (جیالوں) میں مایوسی پائی جاتی ہے اور ’بھٹو ازم‘ سے روحانی وابستگی و تعلق رکھنے والے اپنے جذبات بصورت وراثت آنے والی نسلوں کو منتقل نہیں کر سکتے۔ صورتحال اِنتہائی مایوس کن ہے کہ ’بھٹو کے سپاہی‘ جب خود کو یہ باور نہیں کراسکتے کہ وہ ’پیپلزپارٹی‘ کا حصہ ہیں تو بھلا دوسروں کو کیسے ’روٹی کپڑے اور مکان‘ کے وعدوں کی جانب راغب کر سکیں گے! المیہ ہے کہ ایک وقت تھا جب دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے پیپلزپارٹی کا عام کارکن سب سے زیادہ مطمئن و خوشحال ہوتا تھا لیکن اب ایکویشن تبدیل ہو چکی ہے۔ جنہوں نے پارٹی کو منظم کرنے کے لئے قربانیاں دیں۔ جیلیں کاٹیں اور جانی و مالی قربانیاں دیں لیکن انہیں ’گھاس تک ڈالنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔‘ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مایوسی ’شعبۂ خواتین‘ سے تعلق رکھنے والی اُن کارکنوں میں پائی جاتی ہے جو متوسط و غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور اتنے وسائل نہیں رکھتیں کہ اپنی جیب سے پارٹی کے تنظیمی اجلاس منعقد کر سکیں۔

پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن گلہ مند ہیں کہ جن افراد نے وزیر و مشیر اور سینیٹرز بن کر نیک نامی اُور مالی وسائل کمائے وہ اِس بات کو ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ایک فیصد بھی پارٹی کی تنظیم کے خرچ کر سکیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے صوبائی صدارت جن سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کے متعدد تجربے کئے گئے وہ بھی ناکام ہی رہے تو صورتحال یہ ہے کہ ’پیپلزپارٹی کی تنظیم سازی بشمول رکنیت سازی میں سرمایہ کاری‘ کرنے والا کوئی نہیں‘ تو اِس کی بنیادی وجوہات میں تحریک انصاف بھی شامل ہے جس نے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ قدم جمائے ہیں اور ابتدأ میں تحریک انصاف سے توقع یہ تھی کہ بے رحم احتساب اور بدعنوانی کے خلاف واضح مؤقف رکھنے والی جماعت روائتی و لچک دار سیاست کا مظاہرہ نہیں کرے گی لیکن جس انداز میں حکومت بنانے اور بچانے کے لئے تحریک انصاف نے پارلیمانی اتحاد کئے‘ اُسے دیکھتے ہوئے ماضی کے مصلحت شناسوں کی یاد آ جاتی ہے۔ بہرکیف صوبائی اسمبلی کی داخلی سیاست ہو یا ضمنی و بلدیاتی انتخابات کے مراحل ایسے ایسے اتحاد بھی کئے گئے جو تعجب خیز تھے۔ اگر تحریک انصاف کو کسی چیز سے خطرہ ہے تو وہ داخلی انتشار و بے چینی ہے دوسری کسی سیاسی جماعت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اسے نقصان پہنچا سکے۔ البتہ آئندہ عام انتخابات سے قبل اگر پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا کی سطح پر ’تنظیم سازی‘ کا عمل شروع نہیں کرتی تو سب سے زیادہ متوقع خسارہ سندھ کی حد تک پہلے ہی سکڑ کر رہ جانے والی جماعت کو ہوگا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی نے رکنیت سازی کے لئے جو ’آن لائن‘ طریقۂ کار متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا‘ اُسے بھی فی الوقت روک دیا گیا ہے جو غیرمنطقی اقدام ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس گنوانے کے لئے اگر کسی ایک جنس کی کمی ہے تو وہ وقت ہے۔ پارٹی کے دیرینہ کارکن نئی تنظیم سازی میں عہدہ لینے سے گھبرا رہے ہیں اور اگر کوئی سامنے نہیں آ رہا تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ سطح پر پیپلزپارٹی دو واضح گروہوں میں تقسیم ہے اور رواں ہفتے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ’آرگنائزر کمیٹی‘ بنائی جائے جس سے ماضی کے ’تجربہ کاروں‘ کو الگ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سوائے خانزادہ خان کسی کو شریک نہ کرنے کا فیصلہ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو بچانا مقصود ہے تو اس کے لئے ’نوجوان قیادت‘ کو سامنے لانا ہوگا۔ بصورت دیگر بچت کی کوئی صورت نہیں۔

پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا کی تنظیم سازی کا تجربہ رکھنے والے ایک سے زیادہ عہدیدار ’آن لائن رکنیت سازی‘ کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور کہتے ہیں اس طرح ’من پسند افراد‘ بڑی تعداد میں پارٹی فیصلوں پر مسلط ہو جائیں گے جو کہ پارٹی کے لئے ایک نئے بحران کا سبب بنے گی۔ دوسرا اعتراض اضلاع کی سطح پر پارٹی کے انتخابات مرحلہ وار انداز میں کرانے سے متعلق ہے۔ بہت سے رہنما چاہتے ہیں کہ انتخابات ایک ہی مرحلے میں ہوں اور بیک وقت ہوں۔ یاد رہے کہ ستمبر 2015ء میں پیپلزپارٹی کی ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر‘ پروفیسر این ڈی خان اور اورنگزیب برکی شامل تھے‘ جنہیں تین ہفتوں میں پالیسی مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن یہ تین ہفتے گزرے مزید کئی ہفتے گزر گئے ہیں۔ ساری کی ساری اُمیدیں بلاول بھٹو زرداری سے ہیں جنہیں پشاور میں مستقل ڈیرے ڈالنا ہوں گے اور ’خوشامد‘ کے ماہر رہنماؤں سے خود کو الگ رکھنا ہوگا۔ حال ہی میں انہوں نے پشاور کا دورہ کیا لیکن زحمت ہی نہیں کی کہ تنظیم سازی کے بارے میں ایک عدد اجلاس ہی طلب کر لیتے! بیرسٹر مسعود کوثر کے گھر پر بلاول کی آمد سے قبل جو اجلاس ہوا بھی تو اس میں سبھی مدعو نہیں تھے یا پھر ایک بڑی تعداد نے شرکت کو ضروری نہیں سمجھا! کیا پیپلزپارٹی سے مفادات وابستہ کرنے والوں کو مزید کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں رہی؟ آئندہ دو ماہ نہایت ہی اہم ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آرگنائزر کمیٹی کی تشکیل میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اس کے تحت تنظیم سازی و انٹراپارٹی الیکشنز کے لئے حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ماضی کو غلطیوں سے کتنا سبق سیکھا جاتا ہے۔ ناراض کارکنوں کو منانے اور پارٹی میں جان ڈالنے کے لئے ایک فعال ’صوبائی شعبۂ نشرواشاعت‘ ازحد ضروری ہے‘ اگر پیپلزپارٹی قانون ساز اسمبلی میں خاطرخواہ حزب اختلاف کا کردار ادا نہیں کرسکتی اور ایوان کے باہر مظاہرے کرنے کی افرادی قوت بھی نہیں رکھتی تو کم سے کم ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کی پیالی میں تو طوفان برپا کر سکتی ہے!

Tuesday, December 1, 2015

Dec2015: Mohabbat Khan Mosque

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مسجد مہابت خان!
اسلام کے سیاسی و سماجی اور معاشرتی نظام میں مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا مرکز ہے جہاں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اہل علاقہ اپنے مسائل کے حل کے لئے جمع ہوتے ہوں اور اسی کے ذریعے معاشرے کی کمزور و توانا اکائیاں ایک ایسے سماجی رشتے و تعلق میں بندھ جاتے ہیں‘ جس میں ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس بھی رہتا ہے۔ مساجد کے ’حلقہ بگوش‘ ہی سمجھ سکتے ہیں کہ مسجد کے ماحول کی تاثیر و کیفیت کسی بھی دوسرے مقام پر ہونے والے زیادہ بڑے اجتماع کے مقابلے کتنی منفرد و مختلف ہوتی ہے۔ یہی سبب رہا کہ مسلمانوں نے جہاں کہیں بھی حکمرانی کی‘ وہاں اگر پہلے سے مساجد موجود بھی تھیں تو نہ صرف اُن کی بحالی و مرمت پر خاص توجہ دی بلکہ اپنے عہد کے مخصوص فن تعمیر کے نادر نمونے تخلیق کئے‘ جن میں پشاور کی معروف ’مسجد مہابت خان‘ بھی شامل ہے لیکن محکمۂ اوقاف خیبرپختونخوا کی زیرنگرانی یہ مسجد سنجیدہ توجہ چاہتی ہے کیونکہ 26اکتوبر کے زلزلے نے اِس مسجد کے چند حصوں کو متاثر کیا‘ جبکہ دیواروں کے پلستر‘ اُن پر قدیمی نقش و نگار کی بحالی اور مسجد میں قائم تجاوزات ختم کرنے کی بجائے معاملات کو کچھ اِس انداز میں ’جوں کی توں ڈگر‘ پر چلایا جارہا ہے‘ جس سے چند افراد بشمول سرکاری اہلکار بھرپور مالی فائدہ اُٹھا رہے ہیں!
مسجد مہابت خان کے کئی تعارفی حوالے ہیں۔ یہ تاریخی مسجد ہے۔ پاکستان کی ایک درجن اہم مساجد میں اس کا شمار کیا گیا ہے اور فن تعمیر کے جس عہد کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے‘ اُس کا تعلق ’پشاور اور خطے کے اُن ممالک سے بھی ہے‘ جو ایک درخشاں ماضی رکھتے تھے لیکن اگر مسجد کی ظاہری شان و شوکت‘ اس کی حالت زار بہتر بنانے پر فوری توجہ نہیں دی جاتی تو اس سے خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدا نہ کرے کہ وہ وقت آئے جب ’مہابت خان مسجد‘ کی خوبصورتی صرف تصاویر میں دکھائی دے اور زلزلے جیسی کسی آفت کی صورت اس کا کمزور ہوا ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے جو مصروف ترین تجارتی مراکز کے سنگم پر واقع ہے اور ایسی کسی صورتحال میں بڑضے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سبب بنے گا۔ اس حوالے سے دردمند مؤقف رکھنے والے ایک قاری عبدالرحمن صراف کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ اِرسال کیا ہے‘ جس میں ایسی درجنوں بے قاعدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ مثال کے طور پر مسجد میں باقاعدگی سے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور یہ چندہ ہفتہ وار نماز جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں زیادہ اہتمام سے اکٹھا کرنا ایک ایسا معمول ہے‘ جو قطعی غیرمنطقی ہے کیونکہ محکمۂ اوقاف مسجد کے جملہ اخراجات ادا کرنے کے لئے ذمہ دار ہے اور مہابت خان کے اردگرد ایسی جائیداد بھی ہے جس کا کرایہ محکمۂ اوقاف کو ملتا ہے گویا مسجد مہابت خان ایک خزانے کی مانند ہے جس کی لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی لیکن اِس کا عشرعشیر بھی اس کی ترقی و بحال پر خرچ نہیں کیا جاتا۔
مسجد مہابت خان کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ میناروں کے نیچے قائم دکانیں کشادہ کرنے کے لئے اختیار کردہ طریقۂ کار ہے‘ جس کی اجازت دینے اور تجاوزت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسجد کے وہ تہہ خانے اور کمرے جو مسافروں کے قیام اور یہاں درس و تدریس کرنے والوں کی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کئے گئے تھے‘ اُنہیں دکانیں بنا کر کرائے پر دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے آئندہ کسی دورۂ پشاور کے دوران مسجد مہابت تشریف لائیں جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بلمقابل اور وزیراعلیٰ کی رہائشگاہ سے چند منٹ کی ڈرائیو پر ہے اور اپنی آنکھوں سے خود مشاہدہ کریں کہ کس طرح مسجد مہابت خان توجہ چاہتی ہے اور کس طرح مسجد کو آمدنی کا ذریعہ بنانے والوں نے اس کے تجارتی (کمرشل) استعمال کو جاری رکھا ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مالی سال 2014-15ء کے دوران ’مسجد مہابت خان‘ کی تعمیر و ترقی اور بحالی کے لئے 5کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے اور کیوں ناکافی رہے‘ اس بارے میں الگ سے تحقیقات کی ضرورت ہے! جب اس سلسلے میں محکمۂ اوقاف سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا ہے کہ ’’مسجد مہابت خان کے مخصوص فن تعمیر اور نقش و نگار کے ایسے ماہرین نہیں مل رہے جو بحالی کے عمل آگے بڑھائیں جبکہ وزیر اوقاف قدرے مختلف نکتۂ نظر رکھتے ہیں اور انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز سینئر اہلکاروں کی عدم دلچسپی اور نااہلی کی وجہ سے مسجد مہابت خان کی تعمیر و بحالی کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔‘‘ محکمۂ اوقاف اُور وزیر اوقاف کے بعد تیسرا متعلقہ محکمہ آثار قدیمہ کا ہے جنہوں نے یہ کہہ کر گلوخلاصی کرا لی کہ مسجد محکمۂ اوقاف کے پاس ہے اُور وہ اِس سلسلے میں نہ تو تبصرہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی انہیں کسی ایسے اجلاس میں مدعو کیا گیا جس میں مسجد مہابت خان کے بارے میں غوروخوض کیا گیا ہو۔ صوبائی وزیر کے بقول سابق سیکرٹری اوقاف احمد حسن کی وجہ سے مختص مالی وسائل بروقت مسجد کی بحالی پر خرچ نہ ہوسکے! اُور اب جبکہ نئے سیکرٹری تشریف لا چکے ہیں تو یہ تعمیرومرمت اور بحالی کا کام جلد شروع ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ 1660ء میں پشاور کے مغل گورنر ’مہابت خان‘ نے اِس مسجد کو تعمیر کروایا تھا اور وہ شاہ جہان و اورنگزیب کے مغلیہ ادوار بطور گورنر یہاں تعینات رہے تھے۔ ماضی میں پشاور کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز رکھنے والی مہابت خان آج بھی وسعت و کشادگی کا احساس لئے ہوئے ہے۔ مسجد کے صحن سنگ مرمر کا فرش اور تالاب کو جس رعونت و بیدردی کے ساتھ تعمیر کیا گیا وہ اصل عمارت کے فن تعمیر سے جوڑ نہیں رکھتا۔ لاہور کی بادشاہی اور وزیرخان مساجد یا پھر ٹھٹھہ کی شاہی مسجد سے موازنہ کرنے پر ’مہابت خان مسجد‘ پشاور نہ تو خوبصورتی اور نہ ہی اس کی تعمیراتی خوبیوں کا شمار ہی کم ہے‘ ضرورت ’پشاور کا احساس‘ اور اِس کے اثاثوں کی اہمیت سمجھنے کی ہے۔ جن فیصلہ سازوں کے لئے تاریخ اور ماضی اہمیت نہیں رکھتے اُنہیں یہی سوچ لینا چاہئے کہ کچھ بھی ہو‘ وہ مسجد کو اللہ کا گھر ہی سمجھ کر اس کی تعمیروبحالی سے متعلق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ایک محکمہ دوسرے اور دوسرا تیسرے کی جانب انگلیاں اُٹھا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی نشاندہی یا مقامی افراد کی جانب سے تنقید کو تعصب کی عینک پہن کر دیکھنے اور ٹالنے کی بجائے اللہ کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے ’مسجد مہابت خان‘ کو دیکھیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد ’مسجد مہابت خان‘ کو دیکھنے آتی ہے تو کیا اس کے درودیواروں سے مٹتے ہوئے نقوش‘ اکھڑتے ہوئے پلستر اور صفائی کی واجبی صورتحال کا مشاہدہ کرنے والوں کے ذہنوں میں ’اچھا‘ تاثر اُبھرتا ہوگا؟