Tuesday, August 16, 2022

Byelections or Referendum?

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

ضمنی انتخاب یا ریفرنڈم؟

بیس ستمبر 2020ء: پاکستان پیپلزپارٹی کی میزبانی میں ’کل جماعتی کانفرنس‘ میں 26 نکاتی قرارداد منظور کرتے ہوئے حزب اختلاف اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)‘ کا قیام عمل میں آیا اُور اِس ’موومنٹ‘ کے زیراہتمام ’سولہ اکتوبر 2020ء‘ کے روز گوجرانوالہ میں پہلے جلسۂ عام کا انعقاد کیا گیا۔ اِبتدا میں ’پی ڈی ایم‘ گیارہ سیاسی جماعتوں (عوامی نیشنل پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل‘ جمعیت اہل حدیث‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل)‘ جمعیت علمائے پاکستان (نورانی)‘ نیشنل پارٹی (بزنجو)‘ مسلم لیگ (نواز)‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (محمود اچکزئی)‘ قومی وطن پارٹی اُور جمہوری وطن پارٹی) پر مشتمل تھی جبکہ بعدازاں 3 دیگر سیاسی جماعتوں (بلوچستان عوامی پارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اُور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ) نے ’پی ڈیم ایم‘ میں شمولیت کر لی۔

دس اپریل 2022ء: تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان کے خلاف ’پی ڈی ایم‘ کی تحریک ِعدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد اُور شہباز شریف کے بطور وزیراعظم حلف اُٹھانے (گیارہ اپریل) سے قبل تحریک انصاف سے قومی اسمبلی سے کنارہ کشی کر لی اُور تحریک سے تعلق رکھنے والے 123 قومی اسمبلی اراکین نے اپنی اپنی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے سے اسپیکر قومی اسمبلی کو مطلع کر دیا۔ ’گیارہ اپریل‘ کے روز قومی اسمبلی کی جانب سے مستعفی ہونے والے اراکین کے ارسال کردہ خطوط میں کہا گیا کہ وہ اجتماعی استعفوں کی فرداً فرداً تصدیق کے لئے اسپیکر سے رابطہ کریں لیکن مقررہ تاریخوں (6 سے 10جون) کے درمیان تحریک انصاف کے کسی بھی رکن قومی اسمبلی نے اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر مستعفی ہونے کی تصدیق یا انکار کو ضروری نہیں سمجھا۔

اٹھائیس جولائی 2022ء: تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے اجتماعی استعفوں کے 109 دن بعد‘ تحریک کے 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کا اعلان قومی اسمبلی کے ٹوئیٹر اکاونٹ (@NAofPakistan) سے کیا گیا۔ مذکورہ اعلان کے مطابق اسپیکر راجہ پرویز اشرف (@RPAPP) نے 2 خواتین سمیت 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے آئین پاکستان کی شق 64(1) اُور قومی اسمبلی قواعد و ضوابط 2007ء کے تحت منظور کئے تاہم مذکورہ اعلان میں یہ نہیں کہا گیا کہ مرحلہ وار استعفے کیوں منظور ہوئے‘ سب استعفے اکٹھے منظور کیوں نہیں کئے گئے اُور جن گیارہ اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہوئے ہیں اُس کے لئے کس ضابطے یا اصول کو پیش نظر (بنیاد) رکھا گیا ہے۔ یہ سُوال بھی اپنی جگہ جواب طلب اُور حیرت کا باعث رہا کہ تحریک انصاف کے باقی 120 اراکین قومی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا اُور اِن کے استعفے مستقبل قریب میں قبول کئے جائیں گے یا نہیں؟

پانچ اگست 2022ء: الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 9 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے اُمیدواروں سے کاغذات نامزدگی طلب جبکہ پولنگ کے لئے اتوار (25 ستمبر 2022ء) کا دن مقرر کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے جنرل نشستوں پر 9 جبکہ خواتین کے لئے مختص نشستوں پر 2 اراکین کے استعفے قبول کرنے کے بعد اُن کے نام (30 جولائی 2022ء کے روز) قومی اسمبلی اراکین کی فہرست سے خارج (ڈی نوٹیفائی) کر دیئے گئے۔

چھ اگست 2022ء: تحریک انصاف نے ’اسلام آباد ہائی کورٹ‘ سے الیکشن کمیشن کی جانب سے ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کے خلاف رجوع کیا اُور عدالت سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ”ضمنی انتخابات کا جاری کردہ شیڈول معطل کیا جائے کیونکہ عدالت پہلے ہی تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہی ہے اُور اِس سلسلے میں 4 اگست کی سماعت کے بعد فریقین کو نوٹسیز جاری ہو چکے ہیں‘ جن کے بارے میں باخبر ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول جاری کیا ہے اِس لئے ’پانچ اگست‘ کا شیڈول معطل کیا جائے۔“ دوسری طرف ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے چند گھنٹے بعد (پانچ اگست شام 7 بج کر 3 منٹ پر) ’عمران خان‘ نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ (@ImranKhanPTI) سے اعلان کیا کہ تمام (9) نشستوں پر وہ بذات خود بطور اُمیدوار انتخابی مقابلے میں حصہ لیں گے یوں یہ ضمنی انتخابات بنیادی طور پر …… 1 (عمران خان) بمقابلہ 14 سیاسی جماعتیں (پی ڈی ایم) …… پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی غیرمعمولی انتخابی معرکہ ثابت ہوگا جس میں حصہ لینے کے لئے دونوں فریقین نے آستینیں اُوپر کر لی ہیں اُور امر واقعہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اِس سے قبل کبھی بھی ضمنی انتخابات اِس قدر اہم اُور قابل ذکر و زیربحث نہیں رہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان نے ضمنی انتخاب کی آخری تاریخ ختم ہونے سے قبل ’حسب ِاعلان‘ 9 انتخابی حلقوں (کراچی کے تین (این اے 246این اے 237 این اے 239)‘ مردان (این اے 22)‘ چارسدہ (این اے 24)‘ پشاور (این اے 31)‘ کرم (این اے 45)‘ فیصل آباد (این اے 108) اُور ننکانہ (این اے 118) کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ تحریک ِانصاف کو انتخابی کامیابی اِس حد تک یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ اِس نے خواتین کی مختص نشستوں پر 2 کی بجائے 3 خواتین (شندانہ گلزار‘ روہیلہ حامد اُور مہوش علی) کو نامزد کیا ہے۔ 

بنیادی بات یہ ہے کہ تحریک ِانصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے ضمنی انتخاب کی ہر نشست پر تن تنہا بطور اُمیدوار انتخاب لڑنے کے فیصلے نے ’ضمنی انتخاب‘ کو ’ریفرنڈم‘ میں تبدیل کر دیا ہے جس کا نتیجہ (پولنگ ڈے‘ پچیس ستمبر) اگر ’تحریک انصاف کے حق میں آیا تو اِس سے ملک میں ’صدراتی نظام‘ کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ صدراتی نظام حکومت میں قومی فیصلے فرد واحد (صدر مملکت) کے حکمنامے سے اُور فوری نافذ العمل ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ’3 سال 7ماہ 23 دن‘ پر محیط دور ِحکومت (18 اگست 2018ء سے 10 اپریل 2022ء) کے دوران ”صدارتی طرزحکمرانی“ کے حوالے سے قومی سطح پر بحث و مباحثہ متعارف کروایا گیا جس سے اتفاق کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کاروں‘ شریک ِاقتدار قوتوں اُور عوامی حلقوں کی اکثریت نے اِسے پاکستان کے مسائل کا واحد‘ صائب‘ دیرپا اُور قابل عمل حل قرار دیا تھا اُور اِس حوالے سے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاصی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں آئی تھی لیکن بعدازاں چند تکنیکی و آئینی پیچیدگیوں اُور معاشی و سیاسی حالات کی وجہ سے اِس تصور (آئیڈیا) پر عملاً پیشرفت نہ ہو سکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 25 ستمبر 2022ء کے روز صرف 9 انتخابی حلقوں کے رائے دہندگان ہی نہیں بلکہ اِن معرکوں پر نظر رکھنے والے کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اُور بالخصوص مذکورہ ضمنی انتخابات پاکستان میں طرزحکمرانی کے مستقبل کے بارے میں کس سمت کا تعین کرتے ہیں‘ جسے تحریک کے قائدین پہلے ہی ’یقینی کامیابی کی صورت حقیقی آزادی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اِن ضمنی انتخابات سے تحریک انصاف کا مستقبل اُور لائحہ عمل بھی بڑی حد تک واضح ہو جائے گا جس کی ’نئے پاکستان‘ کی تخلیق و تعمیر اُور تعبیر کے لئے بائیس سالہ سیاسی جدوجہد نہ صرف نئی تصوراتی بلندی کو چھو لے گی بلکہ یہ پاکستان میں سیاست کا رخ بھی شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل کر کے رکھ دے۔ ”میں پیروی اہل سیاست نہیں کرتا …… اِک راستہ اِن سب سے جدا چاہئے مجھ کو (عرش صدیقی)۔“

Friday, August 12, 2022

Is Peshawar developing the success from failures?

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: ترقیئ معکوس

نئے مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے دوران پشاور کی مقامی حکومتوں (بلدیاتی اداروں) کو 19ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ تفصیلات کے مطابق اِس خطیر رقم میں سے ترقیاتی (تعمیراتی) عمل کے جو کچھ باقی بچے گا‘ وہ اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے! کیونکہ تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد صرف 3.47 ارب روپے ترقیاتی عمل کے لئے باقی بچیں گے اُور تصور کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی ہو یا بلدیاتی طرزحکمرانی کس قدر مہنگا ہو چکا ہے! رواں مالی سال کے دوران تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز (ٹی ایم ایز) کو 68ملین (6 کروڑ 80 لاکھ) روپے جاری کئے جائیں گے۔ اِس تقسیم میں پشاور شہر کو اکتیس کروڑ ساٹھ لاکھ (316 ملین) روپے‘ ٹی ایم اے پشتخرہ کو 80ملین (8 کروڑ) روپے‘ ٹی ایم اے شاہ عالم کو 72ملین (7 کروڑ 20لاکھ) روپے‘ ٹی ایم اے چمکنی کو 83ملین (8 کروڑ 30لاکھ) روپے‘ بڈھ بیر کو 71ملین (7 کروڑ 10لاکھ روپے) اور ٹی ایم اے متھرا کو 72 ملین (7کروڑ 20لاکھ) روپے جاری کئے جائیں گے۔ ترقیاتی فنڈز کی مد میں پشاور شہر کے لئے مجموعی طور پر 918ملین (91 کروڑ 80 لاکھ) روپے اور شہر کے گاؤں اور محلہ کونسلوں کے لئے 612ملین (61 کروڑ 20 لاکھ) روپے دیئے جائں گے۔ اِس پوری تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ 7 تحصیلوں (پشاور شہر‘ شاہ عالم‘ متھرا‘ چمکنی‘ بڈھ بیر‘ پشتخرہ اُور حسن خیل) پر مشتمل (مبنی) ضلع پشاور کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ سرکاری (بلدیاتی) ملازمین کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ مالی وسائل میں بیس سے تیس فیصد دفتری (روزمرہ) اخراجات اُور اجلاسوں کے لئے چائے پانی یا اراکین و ملازمین کی آمدورفت پر خرچ ہو جاتا ہے۔ باقی ماندہ ستر فیصد ترقیاتی فنڈز کا نصف تعمیراتی کاموں کے عمل میں پائی جانے والی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے باعث ذاتی اثاثوں میں گھل مل جاتا ہے اُور اِس پوری ترقیاتی حکمت ِعملی (بندوبست) کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ضلع پشاور کے طول و عرض میں ترقیاتی عمل ’ترقیئ معکوس‘ کا نمونہ بنا ہوا ہے۔

پشاور کی ترقیاتی ضروریات شہری و دیہی علاقوں کے لئے الگ الگ ہیں اُور اِنہیں ایک جیسی نظر سے دیکھنا بھی مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر اندرون شہر (تحصیل پشاور سٹی) کی حدود میں قریب نوے فیصد گلیاں کوچے‘ سڑکیں اُور نکاسیئ آب کی نالیاں نالے پختہ ہیں جنہیں ہر چند برس بعد اُکھاڑ کر دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے جبکہ پشاور شہر کی ضرورت نکاسیئ آب کے نظام کی توسیع اُور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ٹیوب ویلوں پر انحصار کم کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں پشاور کے اطراف میں بنے پانی کے ذخائز (ڈیموں) سے کشش ثقل (گریوٹی فلو) پر پانی کی فراہمی ترجیح ہونی چاہئے جس کا ایک تجربہ جاپان حکومت کے مالی و تکنیکی تعاون سے ایبٹ آباد شہر میں کیا گیا اُور یہ کامیابی سے جاری ہے۔ پشاور کے ضلعی فیصلہ سازوں کو پہلی فرصت میں ایبٹ آباد کی ’گریوٹی فلو اسکیم‘ کا مطالعہ کرنا چاہئے جو اپنی مثال آپ ہے اُور اگرچہ اِس منصوبے کو چند یونین کونسلوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا تھا لیکن بعدازاں توسیع اُور وقفوں سے پانی فراہمی کے ذریعے اِسے نصف سے زیادہ ایبٹ آباد شہر کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے تاہم گریوٹی فلو اسکیم میں چند تکنیکی خرابیاں بھی ہیں جو پانی کو ذخیرہ کرنے اُور اِس کی تطہیر کے عمل سے متعلق ہیں اُور جب بلدیاتی نمائندے اِس کا مطالعہ کرنے جائیں گے تو اُنہیں خود وہ سبھی غلطیاں (خامیاں) نظر آ جائیں گی جس کی وجہ سے پانی کا اخراج اُور معیار متاثر ہیں۔

پشاور شہر اُور پشاور کی دیگر 6 تحصیلوں کی ترقیاتی ضروریات میں زمین آسمان کا فرق ہے اُور یہ فرق آمدنی کا بھی ہے اُور اگر صوبائی حکومت بلدیاتی فیصلہ سازوں کے ساتھ مل کر ترقیاتی وسائل کی تقسیم کے لئے آمدنی کا پیمانہ وضع کرے یعنی جس تحصیل کی آمدنی زیادہ ہے وہاں ترقیاتی کام بھی اُسی تناسب سے زیادہ ہونے چاہیئں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پشاور شہر کی تحصیل سے حاصل ہونے والی آمدنی زیادہ لیکن یہاں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص وسائل نسبتاً کم شرح سے جاری کئے جاتے ہیں۔ اِسی طرح ہر تحصیل میں بلدیاتی ملازمین کی تعداد پر نظرثانی ہونی چاہئے اُور دیہی علاقوں پر مشتمل تحصیلیوں کی آمدنی زیادہ لیکن وہاں ترقیاتی ضروریات زیادہ ہیں تو دانشمندی اِسی میں ہے کہ دستیاب مالی وسائل کو غیرترقیاتی اخراجات (ملازمین کی تنخواہوں اُور مراعات) کی بجائے ترقیاتی عمل اُور بالخصوص ایسے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونا چاہئے جن سے آمدنی ممکن ہو۔ پائیدار ترقی کا تصور یہی ہے کہ اِس میں ترقیاتی عمل آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ بلدیاتی فیصلہ سازوں ہر تحصیل کے لئے الگ الگ شرح سے پیشہ ور ٹیکس وضع کرنا چاہئے۔ اندرون شہر جہاں کاروباری سرگرمیاں زیادہ ہیں اُور تاجروں دکانداروں کی آمدنی زیادہ ہے تو اُن پر پیشہ ور ٹیکس کی شرح اُور صفائی و دیگر شہری سہولیات کے عوض ٹیکس کی شرح کا تعین دیہی علاقوں پر مشتمل تحصیل سے مختلف ہونا چاہئے۔ بلدیاتی نظام اپنی ذات میں خیر و برکات کا مجموعہ ہے لیکن یہ نظام صرف نمائندوں کے انتخاب سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ اِس کی تکمیل و جامعیت کے لئے دستیاب مالی وسائل کا زیادہ سمجھ بوجھ‘ زیادہ ہوشیاری و ہمدردی اُور زیادہ امانت و دیانت (شفافیت) سے استعمال ہونا چاہئے۔

Clipping from Daily Aaj Peshawar Dated 12 August 2022 Friday


Sunday, August 7, 2022

Security measures by ignoring Peshawar!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: منظر‘ پس منظر

سات محرم الحرام کی شب‘ پشاور کے لئے وضع کردہ ’محرم سیکورٹی پلان‘ کے تحت صوبائی دارالحکومت میں ساڑھے گیارہ ہزار پولیس اہلکاروں کی تعیناتی مکمل کرنے کے علاؤہ شہر کی 62 امام بارگاہوں آمدورفت محدود کر دی گئی ہے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی سفید کپڑوں میں پولیس اہلکار تعینات ہیں جبکہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں اُور کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے مختلف مقامات کی الگ سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ پشاور میں غیرمقامی افراد کے داخلے پر پابندی اُور بالخصوص محرم الحرام کے اجتماعات کے شرکا کو ’دیکھ بھال‘ کر اجازت دینے میں جس پھرتی و دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘ اگر سال کے دیگر ایام میں بھی ’پولیسنگ‘ اِسی قدر مستعد ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ پشاور کے حالات پھر سے معمول پر یعنی ماضی کی طرح ہو سکتے ہیں جب محرم الحرام کے دوران بازار بند نہیں کئے جاتے تھے اُور سڑکوں پر ٹریفک رواں رہتی تھی۔ جب کسی کو کسی سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب پشاور کے دکھ سکھ ایک ہوتے تھے لیکن آج پشاور کا ماحول ایک ایسے شہر کا ہے جس میں رہنے والوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اجتماعی کی بجائے انفرادی حیثیت سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے منظر اُور پس منظر (برسرزمین صورتحال) کا یہی سب سے مایوس کن (تاریک) پہلو ہے کہ ’سیکورٹی پلان‘ بناتے ہوئے پشاور کے مزاج اُور یہاں کی مثالی روایات‘ رواداری‘ بھائی چارے‘ اخوت اُور اتحاد و اتفاق کا خیال نہیں رکھا گیا۔ دس روز کے دوران 62 امام بارگاہوں سے برآمد ہونے والے چھوٹے بڑے 116 جلوسوں اُور محرم کی مناسبت سے قریب دو درجن دیگر مذہبی اجتماعات کی وجہ سے پشاور کے معمولات ِزندگی میں غیرمعمولی تیزی دیکھنے میں آتی ہے جس کے کئی مثبت (تعمیری) پہلو بھی ہیں جو حفاظتی انتظامات کی وجہ سے پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں۔ اگر کم خرچ اُور دیرپا ’قیام ِامن‘ مقصود ہے تو آئندہ برس ایام ِعزاداری (یکم محرم الحرام سے آٹھ ربیع الاوّل) کے لئے حفاظتی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اِس کے ممکنہ سماجی و نفسیاتی اثرات کو بھی ملحوظ رکھا جائے لیکن یہ ہدف صرف اُسی صورت حاصل کیا جا سکتا ہے جب فیصلہ سازی کے (اعلیٰ) منصب پر فائز پولیس اہلکار لمبے عرصے تک تعینات رہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ پشاور کا غیرمقامی پولیس سربراہ اُور اُس کے اردگرد غیرمقامی مشیروں پر مشتمل پولیس اہلکار اپنے علم اُور یہاں وہاں سے ملنے والی معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو فیصلے کرتے ہیں اِس میں پشاور کی سوچ اُور یہاں کی رائے جاننے کے لئے خودساختہ عوامی نمائندوں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں‘ جن کی تصاویر اُور تفصیلات جاری کرنا معمول بن چکا ہے لیکن اِس موقع پر پشاور سے منتخب ہونے والے ماضی و حال کے قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ بلدیاتی نمائندوں اُور سینیٹرز کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی حالانکہ یہی سیاسی قیادت ’عوام کی نبض شناس‘ ہے اُور جانتی ہے کہ پشاور میں بسنے والی کس قوم کا مزاج اُور سوچ کیا ہے۔ وقت ہے کہ پشاور کو مزید تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے بھی ایک حفاظتی حکمت ِعملی (سیکورٹی پلان) وضع کیا جائے۔

محرم الحرام کے حفاظتی انتظامات کی چند مستقل اُور چند غیر مستقل خصوصیات ہیں جیسا کہ ہر سال لاکھوں روپے خرچ کر کے چند روزہ مشق کے لئے ’کلوزسرکٹ (ٹیلی ویژن) کیمرے‘ نصب کئے جاتے ہیں لیکن سال کے دیگر ایام میں کیمروں اُور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی شناخت کے خودکار نظام کے ذریعے گلی کوچوں اُور بازاروں کی نگرانی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے سٹریٹ کرائمز پشاور کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اُور یہ بظاہر چھوٹے جرائم اِس قدر معمول (متواتر) ہیں کہ اب اِن کے بارے میں پولیس کو مطلع بھی نہیں کیا جاتا۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ ’محرم سیکورٹی پلان‘ کی وجہ سے سٹریٹ کرائمز میں غیرمعمولی طور پر کمی آتی ہے‘ جس کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر فیصلہ ساز چاہیں تو پشاور شہر کو ’کرائمز فری سٹی‘ بنا سکتے ہیں لیکن اِس بظاہر مشکل و ناممکن کام (ہدف) کو حاصل (ممکن) بنانے کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا پڑے گا‘ جو مقامی طور دستیاب ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ (مفید) استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ ہر مسئلے کا حل ’درآمد‘ کرنے کی بجائے اگر پشاور پولیس الیکٹرانک انجنیئرنگ اُور انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کی جامعات (یونیورسٹیز) کے طلبہ و اساتذہ کو ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس)‘ کے ذریعے شناختی و تصدیقی نظام وضع کرنے کے لئے تحقیق کی ذمہ داری سونپیں اُور اِسی ٹیکنالوجی کے میل جول سے جرائم رپورٹ کرنے کے عمل کو وسیع کیا جائے تو صد ہا بہتری (خوابی) کے امکانات موجود ہیں۔

پشاور کے ایک مختصر حصے اُور ٹکڑوں میں نگرانی کا نظام اِس طرح وضع کیا گیا ہے کہ کوہاٹی گیٹ میں ’سپرئم کمانڈ پوسٹ‘ جبکہ 6 دیگر مقامات پر ’سب کمانڈ پوسٹس‘ بنائی گئی ہیں اُور مجالس‘ جلوسوں اُور اجتماعات کے لئے 3سطحی حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اِس قدر بڑی مشق کے لئے زیادہ تعداد میں افرادی وسائل درکار ہوتے ہیں اُور زیادہ افرادی وسائل کے لئے زیادہ مالی وسائل بھی مختص (خرچ) کرنا پڑتے ہیں جبکہ قریب ڈیڑھ سو ’کلوز سرکٹ کیمرے‘ عارضی طور پر نصب ہیں۔ نگرانی کا یہ عمل سپرئم کمانڈ پوسٹ کوہاٹی‘ تھانہ شرقی اُور تھانہ (کابلی) خان رازق شہید‘ تھانہ غربی اُور تھانہ گل بہار میں قائم کئے گئے ہیں اُور دیکھا جائے تو پشاور شہر میں محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات اِنہی 4 پولیس تھانوں کی حدود میں ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے انتہائی قریب ہیں اُور صرف محرم الحرام ہی میں یہ ’مربوط پولیسنگ‘ دیکھنے میں آتی ہے کہ پشاور شہر میں تعینات پولیس ایک اشارے پر دائیں سے بائیں اُور بائیں سے دائیں ہو سکتی ہے۔ محرم الحرام کے علاؤہ دیگر ایام میں صورتحال قطعی مختلف ہوتی ہے اُور ہر تھانہ ایک خاص حدود میں ’پولیسنگ‘ کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اِس قسم کی پولیسنگ سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے لیکن اِس قدیمی بندوبست کو جاری و ساری رکھا گیا ہے۔ پشاور کی آبادی چار سمتوں میں پھیل رہی ہے۔ نئی کالونیاں اُور شہر نما بستیاں آباد تو ہو رہی ہیں لیکن پولیسنگ کی خاطرخواہ توسیع نہیں ہو رہی اُور نہ ہی پولیسنگ ”ایک شہر‘ ایک پولیس“ کے تصور سے مربوط و مرتب کی گئی ہے۔ افسر کے آگے اُور اوپر نیچے افسروں کی ’فوج ِظفر موج‘ ہے‘ جن کے خرچے اُور چرچے بہت ہیں لیکن کارکردگی یہ ہے کہ ہر سال محرم و دیگر خصوصی ایام کے لئے پشاور کے ساٹھ سے زیادہ تھانہ جات و چوکیات میں سے صرف چار تھانہ جات کو اضافی افرادی و مالی وسائل دیئے جاتے ہیں لیکن اگر پولیسنگ کے ذریعے ہنگامی حالات بنانے کی کوشش میں عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے حالات کو معمول پر لایا جائے تو یہ ’قیام ِامن‘ کے لئے کم خرچ بالا نشین یعنی زیادہ دیرپا (پائیدار) طریق و سلیق ہوگا۔

Clipping from Daily Aaj Peshawar 7th August 2022 Sunday


Saturday, August 6, 2022

Way of blessed Muharram

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

.... محتاط عادات و عبادات 

کورونا وبا سے خبردار کرتے ہوئے ”نیشنل اِنسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH)“ نے محرم الحرام کی مناسبت سے منعقد ہونے والے اجتماعات و تقاریب کے شرکا پر زور دیا کہ وہ ’کوویڈ احتیاطی تدابیر (SOPs)‘ پر عمل درآمد کریں بالخصوص ایسے پرہجوم مقامات پر زیادہ دیر ٹھہرنے سے گریز کیا جائے جن کا انعقاد اندرون خانہ (اِن ڈور) مقامات پر ہو۔ ’ہیلتھ پروٹوکول‘ پر عمل درآمد اُور سماجی دوری اختیار کرنے سے متعلق یہ ہدایات حالیہ چند ہفتوں کے دوران کورونا جرثومے (وائرس) سے پھیلنے والی بیماری (انفیکشن) میں غیرمعمولی (تشویشناک) اضافے کے سبب جاری کی گئی ہیں۔ ’این آئی ایچ‘ کے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@NIH_Pakistan) سے جاری ہونے والے پیغام میں کورونا وبا کی انتہا درجے صورت کو ناقابل لاعلاج قرار دیا گیا ہے‘ جس سے محفوظ رہنے کے لئے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اُور ماسک پہننے اُور کورونا ویکسینیشن مکمل کروانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یکم محرم الحرام کے روز جاری کردہ اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ کورونا ”3.29 فیصد“ کی شرح سے پھیل رہا ہے یعنی ہر 100 افراد میں سے ساڑھے تین افراد کورونا وبا کا شکار پائے گئے ہیں ملک بھر میں 661 کورونا مریض سامنے میں سے ایک کی موت اُور 171 انتہائی نگہداشت مراکز میں زیرعلاج ہیں۔ فروری دوہزار اُنیس سے پاکستان میں مجموعی طور پر ’ساڑھے پندرہ لاکھ (1.56ملین) سے زائد افراد کورونا سے متاثر جبکہ کورونا سے ساڑھے تیس ہزار (30,503) افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ قومی سطح پر ماہرین صحت کو اندیشہ ہے کہ محرم الحرام کے پہلے عشرے کے بعد کورونا وبا پھیلنے کی زیادہ شرح سامنے آئے گی کیونکہ کورونا سے بچاو¿ کے بارے میں بالعموم عوامی رویئے حساس نہیں ہیں۔

محرم الحرام کے دوران ”محتاط عادات و عبادات“ کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے محکمہ¿ صحت نے بھی ہدایات جاری کی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے کورونا کی پہلی اُور دوسری ویکسینیشن مکمل کر لی ہے اُور اُنہوں نے پہلی بوسٹر ڈوز (تیسرا ٹیکہ) بھی لگوا لیا ہے وہ فی الفور کسی بھی قریبی ویکسینیشن سنٹر سے دوسری بوسٹر ڈوز (چوتھا ٹیکہ) لگوا لیں۔ ”کورونا وائرس بوسٹر جابس“ کہلانے والے اِن ٹیکوں کے لئے صوبائی سطح پر خصوصی مہم پچیس جولائی سے جاری ہے اُور پچیس اگست کے روز ختم ہو جائے گی۔ قومی اُور صوبائی سطح پر محکمہ¿ صحت کے فیصلہ ساز کورونا وبا کی نئی لہر کے حوالے سے اِس لئے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اِس متعدی بیماری کی کئی نئی اقسام ظاہر ہو رہی ہیں اُور اِس صورتحال میں صرف وہی لوگ کورونا وبا کے انتہائی مضر اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں‘ جن کے جسم میں نئی اقسام کے جرثوموں کے خلاف قوت مدافعت موجود ہو اُور صرف اِسی کورونا کے پھیلاو¿ کو روکا جا سکتا ہے۔ 

”نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر“ کی جانب سے بھی ’کورونا وبا‘ کے بارے میں نئے رہنما اصول جاری کئے گئے ہیں جن کے مطابق ملک کے طول و عرض میں سرکاری ہسپتال اُور ٹیکہ جات مراکز (ویکسی نیٹرز سنٹرز) مکمل حفاظتی ٹیکے لگانے والے افراد کو پہلی اور دوسری بوسٹر خوراک دے رہے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ بارہ سال سے زائد عمر کے 80فیصد آبادی کو کورونا ٹیکہ لگایا جائے۔ ایک ماہ دورانئے پر مشتمل جاری خصوصی ویکسینیشن مہم‘ امیونائزیشن توسیعی پروگرام کا حصہ ہے جس کے تحت کورونا کا دوسرا ٹیکہ لگوانے کے چھ ماہ بعد پہلی بوسٹر شاٹ اُور اِس کے چار ماہ بعد دوسری بوسٹر لینے کی ضرورت ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ماسوائے ضلع چارسدہ خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع میں 80فیصد کورونا ویکسینیشن مکمل کرنے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے صرف چار اضلاع ایسے ہیں جہاں کے 30فیصد رہائشیوں نے پہلی بوسٹر ڈوز لگوا رکھی ہے لیکن اُن کی اکثریت دوسری بوسٹر ڈوز لگوانے کے لئے نہیں آ رہی جبکہ وہ دوسری بوسٹر ڈوز لگوانے کے اہل ہو چکے ہیں۔ محکمہ¿ صحت نے ’ہیلتھ مراکز‘ کے علاو¿ہ گھر گھر جا کر بھی کورونا ویکسینیشن لگانے کی مشق شروع کر رکھی ہے اُور کوشش کی جا رہی ہے کہ یومیہ 80 ہزار ’کورونا ٹیکے‘ لگانے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔ خیبرپختونخوا کے لئے کورونا ویکسینیشن پہلے ہی وافر مقدار (حسب ضرورت) حاصل کر لی گئی ہے اُور حکام کے مطابق ضرورت پڑنے پر مزید ویکسین حاصل کی جا سکتی ہے۔ محکمہ¿ صحت کا ہدف اِس بات کو یقینی بنانا ہے کہ خیبرپختونخوا کے تمام یعنی ’چھتیس اضلاع‘ میں اکثریت کی زندگی کو ’کورونا ویکسینیشن‘ کے ذریعے محفوظ بنایا جا سکے اُور اِس مقصد کے لئے ایک ہزار سے زیادہ ویکسینیشن مراکز قائم کئے گئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پولیو کی طرح کورونا وبا کے بارے میں بھی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں‘ جن کے ازالے کی کوششیں سوفیصدی کامیاب نہیں ہو رہیں اُور خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ایسے لوگ موجود ہیں‘ جو کورونا کی ابتدائی (پہلی) ویکسین تک کروانے کو تیار نہیں ہیں اُور اِسے ایک فرضی وبا سمجھا جا رہا ہے۔ کورونا ویکسینیشن نہ کروانے کی دوسری وجہ یہ غلط تاثر ہے کہ ”کورونا وبا ختم ہو گئی ہے“ حالانکہ اِس وبا سے متاثرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کورونا ویکسینیشن کے بارے میں غلط اُور گمراہ کن معلومات یا نظریات پھیلانے والے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جہاں من گھڑت ماہرین کے ناموں اُور تحقیق کا حوالہ دے کر سادہ لوح سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اِس سلسلے میں سوشل میڈیا صارفین ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے کسی پیغام کو پھیلانے میں آلہ¿ کار نہ بنیں‘ جس میں کورونا وبا کو فرضی یا اِس کی ویکسینیشن کو مضرصحت قرار دیا گیا ہو۔ ذہن نشین رہے کہ پہلا اور دوسرا بوسٹر شاٹ (ٹیکہ جات کورس) انتہائی اہم ہے اُور صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے جسمانی قوت مدافعت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا ویکسینیشن لگوانے کی شرح ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے کم جبکہ کورونا سے اموات کی شرح زیادہ ہے اُور اگر کورونا کی نئی اقسام کو خاطر میں نہ لایا گیا تو اندیشہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس کی نئی اقسام کے حملے اُور وبا کی چھٹی لہر کے دوران متاثرہ مریضوںکی تعداد زیادہ ہوگی۔

....

Clipping from Daily Aaj Peshawar Dated 6 August 2022 Saturday


Friday, August 5, 2022

Muharram ul Harram, as Collective & Practical Responsibility

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

اِجتماعی ذمہ داری

محرم الحرام کے مہینے کی نسبت جس عظیم قربانی سے ہے‘ اُس کو خراج تحسین و عقیدت پہنچانے کا عملی تقاضا یہ ہے کہ نہ صرف (جاری) ماۂ محرم الحرام کی حرمت بلکہ اِن خصوصی ایام میں اِنسانی جان کی عزت و حرمت سے جڑی ”اجتماعی اُور ایک انتہائی بنیادی ذمہ داری“ کا ادراک کیا جائے اُور محرم الحرام کو صرف تذکرے کی حد تک محدود نہ سمجھا جائے۔

 ”کربلا شناسی“ کا عنوان جن سنجیدہ حلقوں میں سارا سال زیربحث رہتا ہے اُن کے ہاں شہدائے کربلا کی استقامت (قیام و مزاحمت)کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے کیونکہ کربلا میں 2 طرح کے واقعات بیک وقت رونما ہوئے۔ پہلی قسم کے واقعات وہ ہیں جن کا سامنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اُور آپؓ کے جانثاروں کو پانی کی بندش سے لیکر منصب ِشہادت پر فائز ہونے تک مصائب و بے حرمتی کی صورت برداشت کرنے پڑے جبکہ آپؓ آخری وقت تک دین کے دفاع پر ڈٹے رہے۔ خون خرابے سے گریز کی کوشش کرتے رہے لیکن جب یہ کوششیں رنگ نہ لائیں تو پھر اپنے خون سے ”نقش الا اللہ بر صحرا نوشت“ کرتے ہوئے ”دین است حسینؓ‘ دیں پناہ است حسینؓ .... حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ“ کی بلند منزل پر فائز ہوئے۔

سن 61 ہجری (بمطابق 680 عیسوی) کربلا میں دوسری قسم کے واقعات وہ پیش آئے‘ جن کا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اُور آپؓ کے جانثاروں نے صبرواستقامت کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے سامنا کیا۔

اصولاً جو کچھ حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمل کی صورت سامنے آیا وہ زیادہ اہم ہے اُور اُسی کی پیروی ہونی چاہئے جیسا کہ مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی دین کی سربلندی و حفاظت کے لئے شریعت پر عمل‘ جیسا کہ نماز کی بروقت اُور بہرصورت ادائیگی‘ نماز کا قیام‘ قرآن مجید کی تلاوت‘ ذکر و اذکار اُور اللہ تعالیٰ کا شکر چند ایسے اعمال ہیں‘ جنہیں لازماً اختیار کرنے کا درس دیا گیا ہے اُور ”حی علی الفلاح و حی علی خیر العمل“ کی انہی مثالوں پر عمل پیرا ہو کر ہر مسلمان دائمی کامیابی و کامرانی پا سکتا ہے۔

محرم الحرام کے لئے حفاظتی انتظامات ”حساس معاملہ“ ہے جس کا تعلق ’قومی سلامتی‘ سے جڑا ہوا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں محرم الحرام کے آغاز سے قبل اِس کے پرامن انعقاد کے لئے ”تازہ دم کوششوں“ کا ”ازسرنو آغاز“ کیا جاتا ہے۔ جملہ حکومتی اداروں کی کوشش یہی ہوتی ہے پہلے عشرے (یکم سے دس) محرم الحرام کے ایام پرامن طریقے سے گزریں یقینا اِس عرصے میں درپیش ’سیکیورٹی چیلنجز‘ اُور مذہبی آزادی جیسے بنیادی انسانی حق کی حفاظت نہیں۔

محرم کے دوران ملک بھر میں منعقد ہونے والے ہزاروں اجتماعات‘ مجالس اور ماتمی جلوسوں کا خوف و دہشت سے محفوظ انعقاد اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ یہ مذہبی اجتماعات خاص نشانے پر رہتے ہیں اُور پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کے لئے محرم کی آڑ میں وار کیا جاتا رہا ہے۔ 1980ءکی دہائی میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا جو ہنوز جاری ہے اُور اِس سے نمٹنے کے لئے ’شعلہ بیاں مقررین‘ کی نقل و حرکت محدود کی جاتی ہے اُور محرم سے قبل اُور محرم کے دوران انتظامیہ علمائے کرام کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے تاکہ کسی ایک مسلک کی جانب سے دوسرے مسلک کی دل آزاری نہ ہو لیکن اِس پوری کوشش کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ امن دشمن عناصر کی طرح ’سوشل میڈیا‘ پر بھی نظر رکھی جائے کیونکہ ’سائبر اسپیس‘ کا استعمال کر کے بھی خوف و دہشت پھیلائی جا سکتی ہے۔

محرم الحرام ہو یا کوئی بھی دوسرا مہینہ اُور خصوصی ہوں یا عمومی ایام‘ شرپسندی پر مبنی اشتعال انگیز مواد کی تشہیر (اپ لوڈ) کرنے پر عائد پابندی کا اطلاق زیادہ سختی سے ہونا چاہئے کیونکہ شرانگیزی کی کوئی ایک شکل و صورت نہیں بلکہ یہ روپ بدل بدل کر وار کرتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اُور خصوصی جرائم کی تحقیقات کرنے والے خفیہ اداروں میں کسی نہ کسی نام سے خصوصی شعبے (سائبر کرائمز ونگ) موجود ہیں‘ جنہیں ریاستی قوانین اُور اِن کی روشنی میں بنائے گئے قواعد کا سہارا بھی حاصل ہے لیکن انٹرنیٹ اُور موبائل فونز کے ذریعے جعل سازی (فراڈ) عام ہے۔ موبائل فون پر مختصر پیغامات (شارٹ میسیجنگ سروس المعروف ایس ایم ایس) کے ذریعے انعامات جیتنے کے بہانے سادہ لوح لوگوں کو آج بھی شکار کیا جاتا ہے۔ اِس جعل سازی کو روکنے کے لئے حکومتی ادارے تو متحرک ہیں لیکن موبائل فون کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں خود کو بری الذمہ بنائے ہوئے ہیں حالانکہ جعل سازی (فراڈ) روکنا صرف حکومتی اداروں ہی کا فرض نہیں بلکہ ایک ”اجتماعی ذمہ داری“ کی صورت یہ کام ہر صارف اُور خدمات فراہم کرنے والے ادارے پر یکساں واجب ہے۔

اجتماعی ذمہ داری کی ذیل میں ”قیامِ امن“ کے لئے کوششیں بھی صرف حکومت اُور حکومتی اداروں کا ’درد ِسر‘ نہیں ہونا چاہئے بلکہ معاشرے کے ہر فرد اُور بالخصوص مذہبی اجتماعات کے منتظمین پر لازم ہے کہ وہ فرقہ واریت کے انسداد کی کوششوں میں صرف وقتی اُور حسب ضرورت شامل نہ ہوں بلکہ اِس کوشش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اُور اِس کوشش کو مسلسل جاری رکھیں۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت اُور ٹارگٹ کلنگز کے واقعات میں نمایاں کمی کمی آئی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صورتحال مثالی ہے۔ رواں برس مارچ میں مرکزی شیعہ مسجد‘ کوچہ رسالدار پشاور پر حملہ امن دشمنوں کے عزائم‘ منصوبہ بندی اُور حملہ کرنے کے استعداد کو بھی ظاہر کرتا ہے اُور یہ حقیقت انتہائی تشویشناک و خطرناک ہے کہ ہر دہشت گردی کے بعد اِس کے تانے بانے بیرون ملک تیار کی گئی سازش اُور مقامی سہولت کاروں سے جا ملتے ہیں۔

سرحدی علاقوں کی نگرانی ریاست کی ذمہ داری جبکہ دہشت گردی کے لئے سہولت کاری کرنے والوں پر نظر رکھنا ”اجتماعی ذمہ داری“ میں آتا ہے۔ خفیہ اداروں کو فرقہ وارانہ عناصر اور ان کے ہمدردوں اُور سہولت کاروں کی تلاش دہشت گردی رونما ہونے میں قبل کرنی چاہئے۔

سوشل میڈیا کی نگرانی ہونی چاہئے تاکہ نفرت انگیز اور اشتعال انگیز مواد کی تشہیر نہ ہو اُور یہاں بھی ذمہ داری اجتماعی ہے کہ ریاست اور سوشل میڈیا خدمات فراہم کرنے والے ادارے اُور بطور صارفین ہر خاص و عام کو چاہئے کہ ’نفرت انگیزی‘ پھیلانے والوں سے اظہار لاتعلقی کریں۔  اِس موقع پر ہر مسلک کے علمائے کرام‘ وعظین و مبلغین کو بھی چاہئے کہ قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ”قیام ِامن“ جیسی اجتماعی ذمہ داری کے حصول کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

....

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj Peshawar, 05 August 2022 Friday


Thursday, August 4, 2022

Surprise element of Muharram Security Plan

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: سرپرائز ایلیمنٹ

محرم الحرام کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کی کوششیں اِس قدر اچانک اُور اِس قدر وسیع پیمانے پر کی جا رہی ہیں کہ اندرون شہر کے کئی علاقوں میں کاروباری مراکز 2 محرم الحرام ہی سے بند اُور بالخصوص شرپسندوں یا دہشت گردوں پر بند کروا دیئے ہیں جبکہ شہر میں داخلے کے راستے بھی کم کر دیئے گئے ہیں اُور اگر کسی شخص کو گاڑی یا موٹرسائیکل پر اندرون شہر سے بیرون شہر کسی ضرورت کے لئے جانا پڑے تو اُسے مختلف راستوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ماضی میں اِس قسم کے اقدامات و انتظامات 6 محرم الحرام سے کئے جاتے تھے اُور انہی اقدامات و انتظامات کے تحت مذہبی اجتماعات سے ملحقہ مساجد میں ایک ایک پولیس اہلکار کی ’مستقل تعیناتی‘ بھی چھ محرم الحرام ہی سے ہوتی تھی لیکن اِس کا عرصہ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کرنا چاہتے اُور اُن کی کوشش ہے کہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ (یکم سے دس محرم الحرام) بنا کسی بدمزگی گزر جائے تاہم محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات اُور جلوسوں کا تعلق صرف ’یوم عاشور (دس محرم)‘ تک نہیں بلکہ یہ سلسلہ سوئم امام سے چہلم امام (اربعین) تک پھیلا ہوا ہے جو ’ایام عزا‘ کا حصہ ہے۔

 ذہن نشین رہے کہ ’ایام عزا‘ کہلانے والا عرصہ 8 ربیع الاو¿ل تک جاری رہتا ہے‘ جس کے بعد مساجد و امام بارگاہوں اُور مزارات کی سیاہ پوشی ختم کر دی جاتی ہے اُور اِس دوران مجموعی طور پر ہزاروں کی تعداد میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں‘ جن کی حفاظت کے لئے پولیس کو خصوصی انتظامات کرنا پڑتے ہیں اُور یقینا پہلا عشرہ محرم سمیت 2 ماہ 8 دن کے ’ایام ِعزاداری‘ پولیس کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران کئے گئے جو مختلف ”حفاظتی تجربات“ کئے گئے ہیں‘ اُن کی ناکامی کا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال ”محرم سیکورٹی پلان“ کے لئے پہلے سے زیادہ ’مالی و افرادی وسائل‘ درکار ہوتے ہیں۔ اضافی پولیس اہلکار دیگر اضلاع سے طلب کرنا پڑتے ہیں‘ جن کی میزبانی بھی پشاور ہی کو کرنا ہوتی ہے اُور یہ ایک مہنگا عمل ہے۔ خیبرپختونخوا کے سیاسی اُور قانون نافذ کرنے والے حفاظتی فیصلہ ساز اگر روائتی انداز میں ’امن و امان‘ سے متعلق ”وقتی حکمت ِعملیاں“ تشکیل نہ دیں تو صورتحال اِس حد تک معمول پر آ سکتی ہے اُور ہر ضلع کی پولیس ہی اُس کی حفاظتی ضروریات کے لئے کافی ہوگی اُور خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع کو حساس و انتہائی حساس اضلاع قرار دینے جیسے جھنجھٹ سے بھی نجات مل جائے گی۔ البتہ اِس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے قانون و قواعد کا بلاامتیاز و سخت ترین اطلاق کی ضرورت ہے جو ”زیادہ محنت طلب‘ مستقل توجہ اُور مصلحت آمیز طرزحکمرانی سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔“

محرم الحرام کے ابتدائی 4 دنوں میں پشاور شہر سمیت بیرون و مضافاتی شہری و دیہی علاقوں میں بھی کاروباری سرگرمیوں متاثر ہیں۔ شہر میں اجناس کی منڈیاں بند ہیں یا اُن تک رسائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ محرم سیکورٹی پلان کے تحت ٹریفک کا نظام بھی اچانک سختیوں کا مجموعہ ہے جبکہ ’غیر رجسٹرڈ   گاڑیوں‘ فینسی نمبر پلیٹ‘ بنا نمبر پلیٹ گاڑیوں و موٹرسائیکلوں‘ گاڑیوں کے شیشے کالے کرنے یا ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف اگر محرم الحرام سے ایک ماہ قبل اُور مستقل بنیادوں پر مہم چلائی جائے تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ پشاور ٹریفک پولیس کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق محرم الحرام کے پہلے تین دنوں کے دوران بتیس سو پچاس سے زائد موٹرسائیکل سواروں کو ”ڈبل سواری“ کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ جبکہ موٹرسائیکل کے ملکیتی کاغذات نہ رکھنے والے سینکڑوں موٹرسائیکل کو قبضے میں لے لیا گیا۔ ٹریفک قواعد کے خلاف اِس قسم کا ”کریک ڈاؤن“ اپنی جگہ اہم اُور ضروری ہے تاہم پشاور شہر اُور بیرون شہر کے علاقوں میں نہ تو ٹریفک سگنلز دیکھنے کو ملتے ہیں اُور نہ ہی ٹریفک سائن بورڈز کے ذریعے آمدورفت کے بہاؤ کو نظم و ضبط کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہ صورتحال پشاور کے علاؤہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں زیادہ گھمبیر (ناقابل بیان) ہے۔ محرم سیکورٹی پلان ”غیرضروری“ نہیں ہے لیکن ”غیر حساس“ ضرور ہے۔ جن راستوں کو بند کیا جاتا ہے اُس سے متعلق عوام کو آگاہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا اُور یہی بات ’محرم سیکورٹی پلان‘ کی سب سے بڑی خامی ہے کہ اِس کا اطلاق جن (ہم عوام) پر کیا جاتا ہے وہ اِس سے بے خبر‘ حیران و پریشان ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ حکمت عملی کا ”سرپرائز ایلیمنٹ“ ختم ہونا چاہئے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر ”سٹی ٹریفک پولیس پشاور“ کے فیصلہ ساز یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا کام صرف قواعد پر عمل درآمد ہے اُور اِن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ’کبھی کبھار‘ سخت کاروائی کرنی ہے تو اِس سے ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کا بنیادی مقصد (ہدف) حاصل نہیں ہوگا۔ صوبائی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد سے جو جرمانہ وصول کیا جاتا ہے اُس کا ایک خاص حصہ متعلقہ ضلع میں ٹریفک کے نظام کو مرتب کرنے کے لئے مختص کیا جائے۔ موجودہ صورتحال میں ٹریفک پولیس کے اہلکار اُور دفتروں میں بیٹھے اِن کے آفیسرز جرمانوں کی صورت وصول ہونے والی رقم کا ایک خاص حصہ آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں جبکہ اُنہیں ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کروانے کی الگ سے تنخواہ اُور دائمی مراعات بھی مل رہی ہوتی ہیں! یہ سراسر غیرمنطقی ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو اِس بات کی الگ سے تنخواہ (شاباشی) دی جائے کہ اُس نے اپنی ملازمتی خدمات سرانجام دی ہیں!

پشاور کے ’محرم سیکورٹی پلان‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں حکومت کے پاس فہرست (رجسٹرڈ) ہوئے مقامات ہی پر مذہبی اجتماعات یا مقررہ راستوں پر جلوسوں کے گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ نئی امام بارگاہوں کا قیام اُور اجتماعات کے نئے مقامات یا جلوسوں کی نئی گزرگاہیں مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ہر سال ایسا کرنے والوں کے خلاف مقدمات (ایف آئی آرز) درج کی جاتی ہیں اُور اِس سلسلے میں قواعد پر سختی سے عمل درآمد بالخصوص گزشتہ تیس برس سے جاری ہے‘ جس کے خلاف متاثرین نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا اُور عدالت نے اِس بات کی اجازت دیدی ہے کہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ مقامات کے علاؤہ بھی اہل تشیع جہاں چاہیں محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات یا ماتمی و منت کے دیگر جلوسوں کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم پیشرفت ہے تاہم اِس کی وجہ سے پولیس کے موجودہ ’محرم سیکورٹی پلان‘ پر نظرثانی کی ضرورت شاید اِس سال نہ پڑے لیکن آئندہ برس محرم کے حفاظتی انتظامات کے لئے زیادہ مالی و افرادی وسائل مختص کرنا پڑیں گے۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس سیّد ارشاد علی اُور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل 2 رکنی بینج نے ’دو اگست‘ کے روز امامیہ جرگہ کی محرم کمیٹی کی طرف سے دائر درخواست پر سماعت کی گئی اُور ایسا حسب حال و ضرورت سیکورٹی پلان کی تشکیل سے اتفاق کیا گیا جس میں ہر کسی کو عبادات کرنے کی آزادی حاصل ہو کیونکہ وقت کے ساتھ پشاور کی آبادی بڑھ گئی ہے جس کے تناسب سے عبادت گاہوں اُور مراسم ِعزاداری کی ادائیگی کے مقامات میں اضافہ ضروری ہے۔ محرم الحرام کا تقدس‘ احترام اُور اِس ماہ پیش آنے والے واقعات کی یادآوری کے لئے اجتماعات پشاور میں پائی جانے والی مذہبی رواداری‘ اخوت و محبت کا آئینہ دار ہے اُور اِس گلدستے کا ہر پھول اہم اُور خوشبو کے لحاظ سے منفرد ہے‘ جس کی تب و تاب اُور تروتازگی برقرار رہنی چاہئے۔

....

Clipping from Daily Aaj Peshawar 4th August 2022 Thursday


Monday, August 1, 2022

Muharram & Security Concerns

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: محرم سیکورٹی پلان

نئے اسلامی سال (محرم الحرام 1444ہجری)کے پرامن آغاز کے لئے مختلف حکومتی اداروں نے مربوط حفاظتی حکمت عملیاں (سیکورٹی پلانز) تشکیل دی ہیں‘ جن میں محکمۂ پولیس‘ محکمۂ صحت‘ پشاور کی ضلعی حکومت و انتظامیہ شریک ہیں جبکہ طبی و ہنگامی حالات یا کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کی بنیادی ذمہ داری 4 ہزار سے زائد ریسکیو اہلکاروں کو سونپی گئی ہے‘ جنہیں 95 ایمبولینسیز اُور 24 آگ بجھانے والی گاڑیوں بمعہ عملہ چاق و چوبند رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اہلکاروں کی تعطیلات تاحکم ثانی ختم کر دی گئی ہیں جبکہ حالات پر نظر رکھنے کے لئے ریسکیو حکام نے الگ ’کنٹرول روم‘ بھی بنایا ہے جو ’پولیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر‘ کے ساتھ رابطے میں رہے گا اُور ریسکیو اہلکار محرم الحرام کی مناسبت سے منعقد ہونے والے تمام اجتماعات کے آس پاس تعینات رہیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ اِس مرتبہ محرم الحرام کے آغاز سے قبل خیبرپختونخوا حکومت نے پولیس کے لئے مراعات میں اضافہ کرتے ہوئے گریڈ سات سے سولہ کے اہلکاروں کے لئے ’رسک الاؤنس‘ کی شرح میں ’پندرہ فیصد‘ اضافے کا اعلان کیا ہے۔ یکم جولائی دوہزاربائیس سے کئے جانے والے اِس اضافے سے گریڈ سات کے پولیس اہلکار کو ’رسک الاؤنس‘ کی مد میں پہلے 5754 روپے ملتے تھے جنہیں بڑھا کر 7400 روپے کر دیا گیا ہے جبکہ ’گریڈ 9‘ کے ہیڈ کانسٹیبلز کے لئے ’رسک الاؤنس‘ 6227 روپے سے بڑھا کر 8 ہزار روپے کرنے سے پولیس اہلکاروں میں اطمینان پایا جاتا ہے۔ نئے حکمنامے سے ’گریڈ 11‘ کے پولیس اہلکار 8600 روپے‘ گریڈ 14 کے اہلکار 10 ہزار 300 روپے‘ گریڈ سولہ کے اہلکار ماہانہ 12 ہزار 700 روپے بطور الاؤنس وصول کریں گے جو بنیادی تنخواہ کے تناسب سے پندرہ فیصد بڑھایا گیا ہے لیکن یہ سبھی حفاظتی انتظامات اُور دوڑ دھوپ اُس وقت تک ناکافی رہے گی جب تک ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ‘ مکمل نہیں کیا جاتا۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ 13 برس سے مذکورہ منصوبہ التواکا شکار ہے جبکہ اِس کی تکمیل کے لئے ہر سال صوبائی بجٹ میں خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ رواں مالی سال دوہزار بائیس تیئس کے صوبائی بجٹ میں بھی ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کے لئے 50 کروڑ (500ملین) روپے مختص کئے گئے ہیں لیکن ہر سال منصوبے پر لاگت میں اضافے کی وجہ سے یہ منصوبہ ’سفید ہاتھی‘ بن گیاہے جس کے لئے 2009-10ءکے مالی سال سے کوششیں جاری ہیں۔ 

پشاور سیف سٹی منصوبہ کیا ہے؟
خیبرپختونخوا اسمبلی کو فراہم کردہ دستاویزات اُور پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پشاور کے 850 مقامات جن میں داخلی و خارجی راستے بھی شامل ہیں کی نشاندہی کر دی گئی ہے جہاں 6 ہزار سے زائد کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کئے جائیں گے۔ اِس منصوبے کو مرحلہ وار مکمل کرنے کی بھی کوشش کی گئی جس کے تحت قبائلی ضلع سے متصل حیات آباد (رہائشی و صنعتی بستی) میں کلوزسرکٹ کیمرے نصب کئے گئے ہیں تاہم یہ مرحلہ وار حکمت عملی سے بھی خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں! قابل ذکر ہے کہ پشاور کے لئے ’سیف سٹی منصوبہ‘ اسلام آباد‘ لاہور کے ساتھ بیک وقت اعلان کیا گیا تھا جسے عملی جامہ پہناتے ہوئے سال 2015ءمیں پنجاب حکومت نے ’سیو سٹیز اتھارٹی‘ بھی بنائی تاکہ لاہور کے علاؤہ پنجاب کے دیگر شہروں کو بھی نگران ٹیکنالوجی کے استعمال سے محفوظ بنایا جا سکے۔ پشاور کے سیف سٹی منصوبے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِس کی تکنیکی ضروریات پر ہر سال نظرثانی کی جاتی ہے اُور فیصلہ سازوں کی تازہ ترین خواہش یہ سامنے آئی ہے کہ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے شمسی (سولر) سسٹم سے توانائی حاصل کریں اُور اِنہیں بنا کسی تار (روائتی کنکشن) کسی دور دراز مقام پر‘ پرآسائش دفاتر میں بیٹھ کر کنٹرول کیا جا سکے جبکہ مؤثر پولیسنگ کے لئے نگرانی کا عمل ہزاروں کی تعداد میں ٹیلی ویژن کیمروں سے نہیں بلکہ حسب آبادی پولیس کے افرادی وسائل اُور تھانہ جات کی تعداد میں اضافے سے عملاً ممکن ہے۔ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کی مدد سے کسی جرم یا دہشت گردی کے رونما ہونے کے بعد تفتیش میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن اِس سے جرائم یا دہشت گردی رونما ہونے سے روکی نہیں جا سکتی یا جرائم و دہشت گردی سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کم کرنا ممکن نہیں۔ اِس لئے پولیس تھانہ جات اُور چوکیوں کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بارہ سو مربع کلومیٹر پر پھیلے پشاور کی نگرانی کا مرکزی نظام بنانے کی بجائے جس کی دیکھ بھال و دیگر ضروریات پر بھی زیادہ اخراجات آئیں گے‘ ہر تھانے کی حدود میں مقامی کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے نگرانی کا عمل متعارف کرایا جائے تاکہ کسی ایک مرکزی نظام میں خرابی کی صورت پورے پشاور کی سیکورٹی کا ’بلیک آؤٹ‘ نہ ہو۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے لئے ’گشتی نگران اسکوڈ‘ تشکیل دینا چاہئے جو کم فاصلے پر کسی بھی علاقے میں فوری طور پر کیمروں کی تنصیب اُور جیو فینسنگ آلات سے لیس ہونا چاہئے۔ اِس نگران گشتی اسکوڈ کی خدمات سے استفادہ خصوصی و عمومی اجتماعات اُور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے ہونا چاہئے‘ جن میں نصب موبائل فون جیمرز کی مدد سے کسی متعلقہ و ملحقہ علاقوں ہی میں موبائل سروسیز معطل کی جائیں۔ عموماً سات سے دس محرم الحرام (چار دن کے لئے) پشاور شہر میں موبائل فون سروسیز معطل کرنے کے علاؤہ کاروباری مراکز پانچ محرم الحرام ہی سے بند کر دیئے جاتے ہیں اُور یوں ایک غیراعلانیہ کرفیو کے سماں (ماحول) میں معمولات زندگی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ ہر سال محرم الحرام سیکورٹی پلان پر تاریخیں اُور آفیسرز کے نام تبدیل کرنے کی بجائے اگر ٹیکنالوجی کے عقلمندی سے استعمال اُور اِس کی خامیوں  یا کمزوریوں کو کماحقہ سمجھتے ہوئے حفاظتی حکمت عملی تشکیل دی جائے تو یہ زیادہ بامقصد (باہدف) اُور شہری زندگی کو معطل کرنے کی صورت خوف و ہراس پھیلائے بغیر بھی کارآمد و یادگار ہو سکتی ہے لیکن اِس کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی۔

پشاور کا محرم الحرام کیا ہے؟
صوبائی دارالحکومت پشاور میں یکم سے دس محرم الحرام کے دوران 126 (شرکا کی تعداد کے لحاظ سے چھوٹے بڑے) ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر پشاور کی 62 امام بارگاہوں میں 306 مجالس کاانعقاد ہوتا ہے۔ اِن میں خواتین کی خصوصی مجالس بھی شامل ہیں جن کا آغاز یکم محرم الحرام سے قبل اُور زیادہ تر چاند رات سے ہوتا ہے۔ ماتمی جلوسوں‘ مجالس اُور سبیلوں کی حفاظت کے لئے 33 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں‘ جن میں جلوس کی گزرگاہوں میں بلند مقامات اُور مساجد میں بھی پولیس اہلکاروں کو دس روز تک مستقل تعینات رکھا جاتا ہے‘ اِس کے علاؤہ ہر جلوس کے آگے‘ پیچھے اُور دونوں اطراف پولیس کا حصار بنایا جاتا ہے اُور مقررہ مقامات کے علاؤہ جلوس یا مجلس عزا میں شرکت کے لئے داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جلوسوں اُور اِس کے راستوں کی فضائی نگرانی کی جاتی ہے اُور اِس موقع پر بانیان ِمجلس کے تعاون سے جامہ تلاشی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے جس کے لئے ہر امام بارگاہ اپنے افرادی وسائل فراہم کرتا ہے اُور اِس مقصد کے لئے حیدریہ سکاؤٹس‘ مختار فورس‘ امامیہ سٹوڈنٹس و دیگر مقامی تنظیمیں حفاظتی انتظامات و حکمت عملی کا حصہ ہوتی ہیں۔

Clipping from Daily Aaj - 1st August 2022 Monday