ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: منظر‘ پس منظر
سات محرم الحرام کی شب‘ پشاور کے لئے وضع کردہ ’محرم سیکورٹی پلان‘ کے تحت صوبائی دارالحکومت میں ساڑھے گیارہ ہزار پولیس اہلکاروں کی تعیناتی مکمل کرنے کے علاؤہ شہر کی 62 امام بارگاہوں آمدورفت محدود کر دی گئی ہے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی سفید کپڑوں میں پولیس اہلکار تعینات ہیں جبکہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں اُور کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے مختلف مقامات کی الگ سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ پشاور میں غیرمقامی افراد کے داخلے پر پابندی اُور بالخصوص محرم الحرام کے اجتماعات کے شرکا کو ’دیکھ بھال‘ کر اجازت دینے میں جس پھرتی و دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘ اگر سال کے دیگر ایام میں بھی ’پولیسنگ‘ اِسی قدر مستعد ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ پشاور کے حالات پھر سے معمول پر یعنی ماضی کی طرح ہو سکتے ہیں جب محرم الحرام کے دوران بازار بند نہیں کئے جاتے تھے اُور سڑکوں پر ٹریفک رواں رہتی تھی۔ جب کسی کو کسی سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب پشاور کے دکھ سکھ ایک ہوتے تھے لیکن آج پشاور کا ماحول ایک ایسے شہر کا ہے جس میں رہنے والوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اجتماعی کی بجائے انفرادی حیثیت سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے منظر اُور پس منظر (برسرزمین صورتحال) کا یہی سب سے مایوس کن (تاریک) پہلو ہے کہ ’سیکورٹی پلان‘ بناتے ہوئے پشاور کے مزاج اُور یہاں کی مثالی روایات‘ رواداری‘ بھائی چارے‘ اخوت اُور اتحاد و اتفاق کا خیال نہیں رکھا گیا۔ دس روز کے دوران 62 امام بارگاہوں سے برآمد ہونے والے چھوٹے بڑے 116 جلوسوں اُور محرم کی مناسبت سے قریب دو درجن دیگر مذہبی اجتماعات کی وجہ سے پشاور کے معمولات ِزندگی میں غیرمعمولی تیزی دیکھنے میں آتی ہے جس کے کئی مثبت (تعمیری) پہلو بھی ہیں جو حفاظتی انتظامات کی وجہ سے پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں۔ اگر کم خرچ اُور دیرپا ’قیام ِامن‘ مقصود ہے تو آئندہ برس ایام ِعزاداری (یکم محرم الحرام سے آٹھ ربیع الاوّل) کے لئے حفاظتی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اِس کے ممکنہ سماجی و نفسیاتی اثرات کو بھی ملحوظ رکھا جائے لیکن یہ ہدف صرف اُسی صورت حاصل کیا جا سکتا ہے جب فیصلہ سازی کے (اعلیٰ) منصب پر فائز پولیس اہلکار لمبے عرصے تک تعینات رہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ پشاور کا غیرمقامی پولیس سربراہ اُور اُس کے اردگرد غیرمقامی مشیروں پر مشتمل پولیس اہلکار اپنے علم اُور یہاں وہاں سے ملنے والی معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو فیصلے کرتے ہیں اِس میں پشاور کی سوچ اُور یہاں کی رائے جاننے کے لئے خودساختہ عوامی نمائندوں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں‘ جن کی تصاویر اُور تفصیلات جاری کرنا معمول بن چکا ہے لیکن اِس موقع پر پشاور سے منتخب ہونے والے ماضی و حال کے قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ بلدیاتی نمائندوں اُور سینیٹرز کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی حالانکہ یہی سیاسی قیادت ’عوام کی نبض شناس‘ ہے اُور جانتی ہے کہ پشاور میں بسنے والی کس قوم کا مزاج اُور سوچ کیا ہے۔ وقت ہے کہ پشاور کو مزید تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے بھی ایک حفاظتی حکمت ِعملی (سیکورٹی پلان) وضع کیا جائے۔
محرم الحرام کے حفاظتی انتظامات کی چند مستقل اُور چند غیر مستقل خصوصیات ہیں جیسا کہ ہر سال لاکھوں روپے خرچ کر کے چند روزہ مشق کے لئے ’کلوزسرکٹ (ٹیلی ویژن) کیمرے‘ نصب کئے جاتے ہیں لیکن سال کے دیگر ایام میں کیمروں اُور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی شناخت کے خودکار نظام کے ذریعے گلی کوچوں اُور بازاروں کی نگرانی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے سٹریٹ کرائمز پشاور کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اُور یہ بظاہر چھوٹے جرائم اِس قدر معمول (متواتر) ہیں کہ اب اِن کے بارے میں پولیس کو مطلع بھی نہیں کیا جاتا۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ ’محرم سیکورٹی پلان‘ کی وجہ سے سٹریٹ کرائمز میں غیرمعمولی طور پر کمی آتی ہے‘ جس کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر فیصلہ ساز چاہیں تو پشاور شہر کو ’کرائمز فری سٹی‘ بنا سکتے ہیں لیکن اِس بظاہر مشکل و ناممکن کام (ہدف) کو حاصل (ممکن) بنانے کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا پڑے گا‘ جو مقامی طور دستیاب ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ (مفید) استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ ہر مسئلے کا حل ’درآمد‘ کرنے کی بجائے اگر پشاور پولیس الیکٹرانک انجنیئرنگ اُور انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کی جامعات (یونیورسٹیز) کے طلبہ و اساتذہ کو ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس)‘ کے ذریعے شناختی و تصدیقی نظام وضع کرنے کے لئے تحقیق کی ذمہ داری سونپیں اُور اِسی ٹیکنالوجی کے میل جول سے جرائم رپورٹ کرنے کے عمل کو وسیع کیا جائے تو صد ہا بہتری (خوابی) کے امکانات موجود ہیں۔
پشاور کے ایک مختصر حصے اُور ٹکڑوں میں نگرانی کا نظام اِس طرح وضع کیا گیا ہے کہ کوہاٹی گیٹ میں ’سپرئم کمانڈ پوسٹ‘ جبکہ 6 دیگر مقامات پر ’سب کمانڈ پوسٹس‘ بنائی گئی ہیں اُور مجالس‘ جلوسوں اُور اجتماعات کے لئے 3سطحی حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اِس قدر بڑی مشق کے لئے زیادہ تعداد میں افرادی وسائل درکار ہوتے ہیں اُور زیادہ افرادی وسائل کے لئے زیادہ مالی وسائل بھی مختص (خرچ) کرنا پڑتے ہیں جبکہ قریب ڈیڑھ سو ’کلوز سرکٹ کیمرے‘ عارضی طور پر نصب ہیں۔ نگرانی کا یہ عمل سپرئم کمانڈ پوسٹ کوہاٹی‘ تھانہ شرقی اُور تھانہ (کابلی) خان رازق شہید‘ تھانہ غربی اُور تھانہ گل بہار میں قائم کئے گئے ہیں اُور دیکھا جائے تو پشاور شہر میں محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات اِنہی 4 پولیس تھانوں کی حدود میں ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے انتہائی قریب ہیں اُور صرف محرم الحرام ہی میں یہ ’مربوط پولیسنگ‘ دیکھنے میں آتی ہے کہ پشاور شہر میں تعینات پولیس ایک اشارے پر دائیں سے بائیں اُور بائیں سے دائیں ہو سکتی ہے۔ محرم الحرام کے علاؤہ دیگر ایام میں صورتحال قطعی مختلف ہوتی ہے اُور ہر تھانہ ایک خاص حدود میں ’پولیسنگ‘ کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اِس قسم کی پولیسنگ سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے لیکن اِس قدیمی بندوبست کو جاری و ساری رکھا گیا ہے۔ پشاور کی آبادی چار سمتوں میں پھیل رہی ہے۔ نئی کالونیاں اُور شہر نما بستیاں آباد تو ہو رہی ہیں لیکن پولیسنگ کی خاطرخواہ توسیع نہیں ہو رہی اُور نہ ہی پولیسنگ ”ایک شہر‘ ایک پولیس“ کے تصور سے مربوط و مرتب کی گئی ہے۔ افسر کے آگے اُور اوپر نیچے افسروں کی ’فوج ِظفر موج‘ ہے‘ جن کے خرچے اُور چرچے بہت ہیں لیکن کارکردگی یہ ہے کہ ہر سال محرم و دیگر خصوصی ایام کے لئے پشاور کے ساٹھ سے زیادہ تھانہ جات و چوکیات میں سے صرف چار تھانہ جات کو اضافی افرادی و مالی وسائل دیئے جاتے ہیں لیکن اگر پولیسنگ کے ذریعے ہنگامی حالات بنانے کی کوشش میں عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے حالات کو معمول پر لایا جائے تو یہ ’قیام ِامن‘ کے لئے کم خرچ بالا نشین یعنی زیادہ دیرپا (پائیدار) طریق و سلیق ہوگا۔
|
Clipping from Daily Aaj Peshawar 7th August 2022 Sunday |