Monday, July 22, 2019

PTI Performance in FATA Elections

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
جماعتی نظم و ضبط!
الیکشن کمیشن مبارکباد کا مستحق ہے‘ جس نے تمام تر تحفظات‘ خدشات اُور خطرات کے باوجود خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ’صوبائی اسمبلی‘ کی 16 جنرل نشستوں کے لئے ’عام انتخابات‘ کا مرحلہ خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ اِس انتخابی عمل میں حصہ لینے والے ’283 اُمیدواروں‘ میں سے 200 آزاد جبکہ 83 اُمیدوار 9 سیاسی جماعتوں (تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ نواز‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن‘ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق‘ جماعت اسلامی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ قومی وطن پارٹی اُور پاک سرزمین پارٹی) کی جانب سے نامزد تھے۔ یہ بات تعجب خیز نہیں کہ سب سے زیادہ ووٹ اُور سب سے زیادہ یعنی 6 نشستیں ’آزاد‘ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے حصے میں آئیں جبکہ تحریک انصاف نے 5‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 3‘ جماعت اسلامی اُور عوامی نیشنل پارٹی کے نامزد اُمیدواروں نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی‘ گویا قبائلی علاقوں کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں سب کے خواب ریزہ ریزہ ہوئے ہیں‘ اُور کوئی ایک بھی جماعت اپنی حاصل کردہ نشستوں یا کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دے رہی! اِس پورے ’انتخابی منظرنامے‘ میں سب سے زیادہ خسارہ ’تحریک انصاف‘ کا ہوا ہے جس کی وفاقی اُور صوبائی حکومت نے ہر ممکنہ وسائل اور اختیارات کا استعمال کیا لیکن اِس کے باوجود بھی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جس کی بنیادی وجہ خود وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”آزاد حیثیت سے انتخابات مں حصہ لینے والے کئی اُمیدواروں کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے تھا اُور ایسے تمام اراکین کے خلاف کاروائی کی جائے گی‘ جنہوں نے ’جماعتی نظم و ضبط‘ اُور فیصلوں کا پاس نہیں کیا‘ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو ’لینڈ سلائیڈنگ وکٹری‘ نہیں مل سکی۔“

قبائلی اضلاع کے انتخابات سے متعلق طلب کی گئی خصوصی پریس کانفرنس میں ممکنہ سوالات سے پہلے ہی وزیراعلیٰ نے کہ دیا کہ ”ہمارے چند امیدواروں نے آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے کر پارٹی (مفاد) کو نقصان پہنچایا ہے تاہم اِس کے باوجود بھی تحریک انصاف کی انتخابی کارکردگی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے بہتر رہی ہے۔“

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے موقع پر ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ تحریک انصاف کے ’جماعتی نظم وضبط کی خلاف ورزی‘ ہوئی ہے یا اِس سے قبل بھی عام یا ضمنی انتخاب کے موقع پر ’تحریک انصاف‘ کا مقابلہ دیگر جماعتوں کی بجائے اپنے ہی کارکنوں سے ہو چکا ہے؟

مئی 2013ءاُور جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے کئی کارکنوں کے پارٹی فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے سے چند ہفتے حتی کہ چند دن پہلے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو دیرینہ کارکنوں پر ترجیح دی گئی۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ موروثی سیاست کا خاتمہ کرے گی لیکن قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹکٹ دیئے گئے حتیٰ کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی اُنہی خاندانوں کو ترجیح دی گئی‘ جو پہلے ہی سے قانون ساز ایوانوں کی رکنیت رکھتے تھے۔ اِسی طرح ایوان بالا (سینیٹ) کے لئے قرعہ فال بھی حسن اتفاق سے پارلیمان کی رکنیت رکھنے والے خانوادوں ہی کے حصے میں آئی۔ ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر بولتے (رپورٹ کرتے) رہے لیکن کارکنوں کے جذبات و احساسات کی پرواہ نہیں کی گئی۔ چور دروازوں سے در آنے والوں نے جس بڑی تعداد میں تحریک انصاف کا رُخ (انتخاب) کیا‘ اگرچہ چڑھتے سورج کی پوجا (اِس قسم کی مثالیں) ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتی رہی ہے لیکن کسی دوسری سیاسی جماعت نے ’نئے پاکستان‘ کی تخلیق و تشکیل کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔

قبائلی اضلاع میں ہوئے صوبائی اسمبلی انتخابات کی اہمیت ہر انتخاب کی طرح اہم تھی اُور چونکہ قانون کے مطابق یہ لازم ہے کہ قبائلی اضلاع سے 2 اراکین کو ’صوبائی کابینہ‘ میں جگہ دی جائے تو اِس لحاظ سے اِن 16 نشستوں کے نتائج نے تحریک انصاف کو ’نئی مشکل‘ میں ڈال دیا ہے کیونکہ 6 آزاد اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے ’5 صوبائی اسمبلی کے اراکین‘ کا خیال بھی رکھنا ہوگا‘ جو یقینا ’انتخابی کامیابی اور سرمایہ کاری‘ کا ’خاطرخواہ صلہ‘ پانے کی آس لگائے بیٹھے ہوں گے!

’دو دھاری تلوار‘ جیسی موجودہ مشکل صورتحال کا سامنا صرف اُس صورت نہیں ہوسکتا تھا جبکہ قبائلی اضلاع میں تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوتا اُور ایسا کرنے کے لئے ’خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مرکزی اُور صوبائی قیادت کو سوچنا چاہئے کہ کمزور ترین جماعتی ڈھانچے کے ساتھ اگر تحریک انصاف کو کسی ہنگامی صورتحال میں ’وسط مدتی بڑے انتخابات‘ کا سامنا کرنا پڑ جائے تو جو محرک قبائلی اضلاع میں شکست کا سبب بنا ہے‘ کیا وہی دیگر اضلاع میں کارفرما نہیں ہوگا؟ مسئلہ یہ نہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہوئی ہے یا دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے تحریک اِنصاف کے نامزد اُمیدوار اِنتخابی دن کی منصوبہ بندی (پولنگ اسکیم) وضع کرنے میں ناکام رہے بلکہ اصل مشکل یہ ہے کہ ہر انتخاب کے موقع پر تحریک انصاف کا ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے اُور اِس تقسیم کے پیچھے اُن کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ (منصوبہ بندی) کو ’خارج اَز امکان‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مرحلہ ¿ فکر ہے کہ آج تحریک کو اپنے سیاسی مخالفین (دشمنوں) کی بجائے اپنے ناعاقبت اندیش دوستوں (کارکنوں) سے خطرہ لاحق ہے‘ جنہیں پارٹی کی فیصلہ سازی پر اعتماد نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی شخصیت کا جادو کب تک چلے گا اُور اِس سحر کے سامنے کارکن اپنے اصولی موقف سے کس حد اُور کب تک دستبردار ہوتے رہیں گے‘ یہ حقیقت جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا سمیت ملک کے کئی اضلاع میں دیکھنے میں آئی‘ جہاں عام کارکن نہیں بلکہ پارٹی کے رہنماوں نے بھی علم بغاوت اپنے قد کاٹھ سے زیادہ بلند کیا۔ صرف ایک ہی مثال پر اکتفا کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے لئے مشاورت اور خیبرپختونخوا سے متعلق جماعتی تنظیمی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرنے والے سابق گورنر افتخار حسین شاہ نے کوہاٹ سے تحریک انصاف کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا حالانکہ اُنہیں دستبردار ہونے اُور سینیٹ کی نشست تک دینے کی پیشکش کی گئی لیکن اپنے اصولی فیصلے کا ڈٹ کر دفاع کرنے اور شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنے والے اِس اہم رہنما نے پارٹی سربراہ عمران خان کے فیصلے سے اختلاف کیا‘ جو چاہتے تھے کہ تحریک اُنہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیتی اُور اُن کے ذہن کے کسی کونے میں شاید بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا زیادہ بڑا کردار‘ زیادہ بڑی قومی خدمت اُور تحریک انصاف کو نئی بلندیوں اُور مقام سے روشناس کرانے کی سوچ گردش کر رہی تھی‘ یقینا قبائلی اضلاع میں خاطرخواہ انتخابی کامیابی حاصل نہ کرنے والی تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو ’افتخار حسین شاہ‘ کی یاد آ رہی ہوگی‘ جنہیں قبائلی سیاست‘ اقدار اُور سب سے بڑھ کر قومی سلامتی کی حکمت عملی کی روشنی میں قبائلی سرزمین سے زیادہ شناسائی و آشنائی تھی۔ بہرحال قبائلی اضلاع کے انتخابات میں صرف کارکنوں کو مورد الزام ٹھہرا کر گلوخلاصی کرنے کی بجائے تحریک انصاف کے صوبائی و مرکزی قائدین کو اپنے ماضی و حال کے غلط فیصلوں (تجربوں) کا شمار (احتساب) کرنا چاہئے‘ جو (خاکم بدہن) آئندہ بھی ایسے ہی انتخابی نتائج (ناکامیوں) کا باعث ٹھہریں گے!
............

Friday, July 19, 2019

2 Articles (Back to Back) The issue of Roti

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام....اٹھارہ جولائی دوہزار اُنیس
روٹی کا مقدمہ!
پشاور کس سے فریاد کرے؟ اہل پشاور کو اِس بات (محرومی) کا شدت احساس سے ہورہا ہے کہ (اجتماعی) عوامی مفادات کا تحفظ کرنے میں صوبائی حکومت‘ ضلعی و بلدیاتی نمائندے اُور کمشنری نظام ”عملاً ناکام“ ثابت ہوئے ہیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کی وابستہ توقعات اگر جمہوری طرز حکمرانی سے پوری نہیں ہو رہیں‘ تو اِس بارے میں خود کو عوام کا نمائندہ کہنے والوں کو بھی اپنے طرزفکروعمل اپنے بارے میں عوامی رائے پر غور کرنا چاہئے کیونکہ ”ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!“

فیصلہ سازوں (صاحبان اقتدار) اُور عوام کے درمیان فاصلہ اُور خلاءنہیں ہونا چاہئے کیونکہ جہاں کہیں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے وہاں دیگر حکومتی ادارے بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر رواں ہفتے پشاور ہائی کورٹ نے فی روٹی کی قیمت ’15 روپے‘ مقرر کئے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر پشاور کو بمعہ متعلقہ دستاویزات (ریکارڈ) آئندہ پیشی (24 جولائی) پر طلب کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ .... ”اگر مقررہ تاریخ پر روٹی کی قیمت میں اضافے سے متعلق عدالت کی تسلی تشفی نہ کرائی گئی اُور ڈپٹی کمشنر حاضر نہ ہوئے تو (سنگل) روٹی کی پرانی قیمت ’5 روپے‘ بحال کر دی جائے گی۔“ عدالت عالیہ کے سامنے ’روٹی کا مقدمہ‘ آفاق حسین نامی درخواست گزار نے پیش کیا ہے‘ جن کی جانب سے خورشید خان ایڈوکیٹ نے اپنے موکل کے لئے ’فوری ریلیف‘ حاصل کرنے کی استدعا کی اُور اپنے موقف پر زور دیا تو ’2 رکنی‘ بینچ (جسٹس ہلالی اُور جسٹس ابراہیم) نے ’مرکزی کردار (ڈپٹی کمشنر پشاور) کو طلب کرنے اُور تمام ریکارڈ دیکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ بصورت دیگر مقدمے کا فیصلہ ’یک طرفہ‘ کہلاتا۔ اگرچہ روٹی کے وزن اور قیمت سے متعلق اب تک ہوئی سماعت میں ’ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کے کردار کا احتساب شامل نہیں لیکن اُمید ہے کہ آئندہ سماعت پر افسرشاہی کا محاسبہ بھی ہوگا جن کے لئے روٹی کی قیمت 10 سے 15 روپے کرنا کوئی بڑی بات نہیں اُور اِس بارے بھی یقینا استفسار ہوگا کہ جب ضلع ناظم (ارباب عاصم) نے مہنگائی کی شرح میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے روٹی کی فی قیمت میں 2 روپے اضافے کا فیصلہ کر دیا تھا تو اِس فیصلے پر فیصلہ کرنے کا اختیار ’ڈپٹی کمشنر‘ کو کیسے منتقل ہوا؟

نانبائیوں کے جن نمائندوں نے ضلع ناظم اُور ڈپٹی کمشنر پشاور سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اُن کی اصلیت کے بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ بیک وقت اگر ایک سے زیادہ نانبائیوں کی تنظیمیں موجود ہیں تو اُن میں سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے اختیار و تائید کس کے پاس ہونی چاہئے!

رواں ماہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں روٹی کی قیمت دس سے پندرہ روپے اضافے کی خبر ’جنگل کی آگ‘ کی طرح پھیلی۔ اگر روٹی کی قیمت پانچ روپے کم کی گئی ہوتی تو اکثر دکاندار کہتے اُنہیں ابھی تک حکومت کا اعلامیہ (نوٹیفیکشن) یا اپنی تنظیم کی طرف سے نرخنامہ موصول نہیں ہوا لیکن چونکہ یہاں بات اضافے کی تھی‘ اِس لئے بناءغور کئے اُور بناءتفصیلات میں گئے نانبائیوں نے روٹی کی قیمت بڑھانے پر فوری عمل درآمد کر لیا لیکن روٹی کی قیمت میں حالیہ اِضافے کی کہانی اُور مقدمہ اپنی جگہ دلچسپ پہلو رکھتے ہیں کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے سے قبل یہ مقدمہ ’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ محمود خان کی عدالت میں پیش ہو چکا ہے البتہ فرق یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے روٹی کے ”مقررہ وزن“ میں کمی کا نوٹس لیا گیا قیمت کا نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ نانبائیوں نے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مذاکرات میں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 15روپے کے عوض ’190گرام‘ روٹی فروخت کریں گے۔

روٹی کا وزن اُس کی پختہ حالت میں کیا جاتا ہے لیکن نانبائی ایسوسی ایشن نے کمال مہارت سے روٹی کی قیمت میں اضافے کا نوٹیفیکشن تو جاری کروا دیا لیکن پختہ روٹی کا وزن نہیں بڑھایا۔ اِس ناانصافی پر عوامی حلقوں بالخصوص حزب اختلاف سے سیاسی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا۔ جس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلی نے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کا اجلاس طلب کیا اُور کم وزن روٹی بیچنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایت جاری کی۔ سیاسی فیصلہ سازوں کی جانب سے اِس قسم کے ’زبانی کلامی ہدایت ناموں‘ کی تاریخ رہی ہے کہ اِنہیں تاجر ہوں یا نانبائی‘ دکاندار ہوں یا صنعتکار‘ قصاب ہوں یا چائے فروش کبھی بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ وزیراعلیٰ نے لگے ہاتھوں روٹی کے وزن سے متعلق شکایات سے ’ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کو آگاہ کرنے کا مشورہ بھی دیا‘ جو عام آدمی (ہم عوام) کی سمجھ میں نہیں آ سکا کہ آخر ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کون سے پشاور میں رہتے ہیں کہ اُنہیں پشاور میں اپنے ہی مقررکردہ روٹی کے وزن سے متعلق علم نہیں اُور ایک عام آدمی کس طرح ڈپٹی کمشنر کے دربار میں اپنی شکایت درج کروانے جائے؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ڈپٹی کمشنر پشاور (صاحب بہادر) کا کام صرف یہی تھا کہ جناب روٹی کا وزن اُور قیمت مقرر کرتے لیکن اِس پر عمل درآمد کسی دوسرے حکومتی محکمے کی ذمہ داری ہے؟ کیا ضلع ناظم (ارباب عاصم) اُور عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی میں کمشنری حکمران (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنرز اُور اسسٹنٹ کمشنر وغیرہ) ہونے چاہئیں؟ وزیراعلیٰ محمود خان کا یہ بیان آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ ”ناجائز منافع خوری کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی“ لیکن ناجائز منافع خوری تجاوزات کی طرح ہر حکومت کی طرح موجودہ صوبائی حکومت کے لئے بھی کھلا چیلنج ہے!

پشاور شہر میں منافع خوروں اور کم وزن روٹی بیچنے والے نانبائیوں کے خلاف کریک ڈاو ¿ن سے متعلق ضلعی انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو بریفنگ دے رکھی ہے اُور صوبائی حکومت کا عزم ہے کہ وہ ’عوامی مشکلات‘ رفع کرنے کے لئے ہر ممکن حد تک جائے گی لیکن یہ ساری ”خوبصورت باتیں“ اپنی جگہ اُس ایک ”بدصورت حقیقت“ کو عوام کے حق میں مفید نہیں بنا سکی ہیں‘ جو روٹی کے وزن اُور اِس کی قیمت سے متعلق ہے! یہی وجہ رہی کہ ایک شہری کو انصاف کے لئے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا‘ جہاں پہلے ہی زیرالتوا ¿ مقدمات کی تعداد ہزاروں میں ہے اُور اگر روٹی کا وزن اُور اِس کی قیمت کا تعین بھی عدالت ہی نے کرنا ہے تو پھر عوام کے منتخب بلدیاتی و سیاسی نمائندوں اُور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حکمرانی کرنے والے ’صاحب بہادر‘ ڈپٹی کمشنر کس مرض کی دوا ہیں!؟

”ہر سہارا بے عمل کے واسطے بیکار ہے ....
آنکھ ہی کھولے نہ جب کوئی‘ اُجالا کیا کرے (حفیظ میرٹھی)“
............

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام....اُنیس جولائی دوہزار اُنیس
پشاوری تندور پراجیکٹ

’روٹی کا مقدمہ‘ (اُنیس جولائی) کے ذریعے پشاور کے سیاسی‘ ضلعی اُور انتظامی حکمرانوں کی کارکردگی کا ابتدائیہ پیش کیا گیا‘ جن کی اجتماعی دانش و کارکردگی سے ایک مرتبہ پھر یہ عنوان زیربحث ہے کہ بطور صارفین ’اہل پشاور کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو رہا‘ اُور یہی وجہ رہی کہ ایک شہری کو بذریعہ وکیل ’پشاور ہائی کورٹ‘ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا‘ جہاں متوقع طور پر ’2 رکنی بینچ‘ نے مقدمے کی آئندہ سماعت (24 جولائی) پر روٹی کا وزن اُور قیمت طے کرنے کے علاو ¿ہ (متوقع طور پر) فیصلہ سازوں کا احتساب بھی کرے گا جنہوں نے ’اچانک‘ اُور ایک ایسی صورتحال میں روٹی کے نرخ میں ’50فیصد اضافہ‘ کرنے کو ضروری سمجھا‘ جبکہ اُن کا مارکیٹ پر کنٹرول نہیں۔ گراں فروشوں اور کم وزن روٹی بیچنے والوں کو حکومت‘ انتظامیہ کا قانون کا خوف نہیں اُور سب سے بڑھ کر یہ تاثر الگ سے تحقیق چاہتا ہے کہ مبینہ طور پر نانبائیوں سے ’رشوت‘ لیکر اُور نئے نرخنامے کی فروخت سے آمدن کے لئے روٹی کی قیمت بڑھائی گئی ہے!

یہ امر بھی عدالت کے سامنے زیرغور آنا چاہئے کہ صارفین کی تنظیم اُور پرائس ریویو کمیٹی سے مشاورت کو کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا؟ منطقی اَمر تھا کہ حالیہ مہنگائی کی لہر‘ جس میں روپے کی قدر میں کمی اُور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے‘ بجلی و گیس کے یوٹیلیٹی بلز بڑھے ہیں تو روٹی کی قیمت میں بھی اضافہ متوقع تھا لیکن یہ اضافہ ’بیک جنبش قلم پچاس فیصد‘ ہو جائے گا‘ اِس شرح غیرمنطقی تھی اُور یہی وجہ ہے کہ 10سے 15روپے روٹی ہونے پر عوامی حلقوں کی جانب سے مذمت و پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی حکمرانوں کی بھی کارکردگی پر سوالات اُور انگلیاں اُٹھنے لگیں!

”انجمن پختونخوا نانبائی ایسوسی ایشن“ کی جانب سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں ’غیرمعینہ مدت‘ تک تندور رکھنے کے لئے ہڑتال کے پہلے دن (گیارہ جولائی دوہزار اُنیس) کے روز پشاور میں ’ہو کا عالم‘ دیکھا گیا۔ شہری سرگرداں تھے۔ ہر طرف سے روٹی روٹی کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں! سوشل میڈیا اُور بالخصوص واٹس ایپ گروپس میں تمام دن روٹی (جوئے شیر) کا حصول کرنے کے بارے معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا! عیاں ہوا کہ حکومت نام کی شے تو ہے لیکن منصوبہ بندی نہیں اُور نانبائیوں نے پشاور کو یرغمال بنا کر رکھا ہے! صرف ایک دن کی ہڑتال سے پشاور میں معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہوئے کیونکہ پشاوریوں کے گھروں میں روٹی پکانے کا اب رواج نہیں رہا۔ ہڑتال کرنے والے نانبائیوں کا مطالبہ تھا کہ .... ”ضلعی انتظامیہ (ناظم ضلع پشاور ارباب عاصم) کی جانب سے 140گرام روٹی کی قیمت 12 روپے مقرر کی گئی لیکن اِس سلسلے میں اعلامیہ (نیا نرخنامہ) کیوں جاری نہیں کیا گیا جبکہ آٹے کی فی کلوگرام قیمت میں 10روپے اُور بجلی و گیس کی مدوں میں بیس سے تیس فیصد اضافے کی وجہ سے نانبائیوں کا نقصان ہو رہا ہے۔“ مذکورہ (گیارہ جولائی) کی ’کامیاب ہڑتال اُور احتجاجی مظاہرے‘ اُور ’عوامی کی پریشانی و دباو‘ سے نمٹنے کے لئے وزیراعلیٰ نے مسئلے کا ’قابل عمل حل‘ نکالنے کی ہدایت کرتے ہوئے ’تاجر مسائل کمیٹی‘ تشکیل دی لیکن دریں اثناءڈپٹی کمشنر پشاور (محمد علی اصغر) اُور اسسٹنٹ کمشنر پشاور (محترمہ سارہ رحمان) نے نانبائیوں کے ایک نمائندہ وفد سے ملاقات میں 140 گرام کی بجائے روٹی کا وزن 190گرام کرتے ہوئے قیمت 15 روپے مقرر کرنے کا ہاتھوں ہاتھ اعلامیہ جاری کر دیا! یہ سب کچھ اِس قدر تیزی سے ہوا کہ خود ضلع ناظم (ارباب عاصم) بھی بے خبر و حیران پائے گئے! اُور اِسی نے گویا ’جلتی پر تیل‘ ڈالنے کا کام کیا۔ وہ عام آدمی (ہم عوام) جو پہلے ہی نانبائیوں کی ہڑتال کے باعث ’روٹی کے نوالے نوالے‘ کو ترسے بیٹھے تھے‘ صوبائی و ضلعی حکومت و انتظامیہ کے اِس حل (solution) پر سراپا احتجاج بن گئے‘ جس کی دو بنیادی وجوہات سامنے آئیں۔ 1: پشاور کے طول و عرض میں بمشکل ایسا نانبائی ملے گا‘ جو مقررہ 140 گرام کی روٹی فروخت کر رہا ہو۔ ضلعی حکومت (بلدیاتی نمائندے) اُور ضلعی انتظامیہ (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اُور اسسٹنٹ کمشنروں پر مبنی فوج ظفر موج) مقررہ وزن کے مطابق روٹی کی فروخت ممکن بنانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ 2: یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ جو حکمران روٹی کے وزن پر عمل درآمد یقینی نہیں بنا سکے وہ ’ایک سو چالیس گرام‘ سے ’ایک سو نوے گرام‘ وزن کو کیسے لاگو کریں گے!؟ اُور 3: آخر ایسا کیوں ہے کہ پشاور کے اندرونی (شہری) اُور مضافاتی (دیہی) علاقوں میں روٹی الگ الگ وزن اُور الگ الگ معیار کی فروخت ہو رہی ہے؟

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا (محمود خان) نے ’تاجر مسائل کمیٹی‘ کے ذریعے ’روٹی کے مسئلے‘ کا حل تلاش کرنے کی تجویز دی ہے لیکن اہل پشاور کی کیا بات کہ جو اِس سے بھی ایک قدم آگے کی سوچ رکھتے ہیں! 

پشاور ہائی کورٹ میں دائر ’روٹی کے مقدمے‘ میں اپنے موکل آفاق حسین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل محمد خورشید صرف عدالتی کاروائی پر ہی اکتفا نہیں کئے بیٹھے بلکہ وہ اِن دنوں ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ نامی اچھوتے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہیں تاکہ نانبائی گیارہ جولائی کی طرح اہل پشاور کو دوبارہ یرغمال (اُور بیوقوف) نہ بنا سکیں۔ منصوبے کا ابتدائی خاکہ (سوچ) یہ ہے کہ صنعتی (بڑے) پیمانے پر‘ صاف ستھری اُور وزن کے مطابق معیاری روٹی بنا کر اِسے پشاور کے مختلف حصوں میں گشتی یا مستقل سیل پوائنٹس پر فروخت کیا جائے۔ یہ ایک قابل عمل منصوبہ ہے اُور کاروباری نکتہ نظر سے بھی ممکن ہے کیونکہ اگر پہلے مرحلے میں پشاور کی تمام 92 یونین کونسلوں کا احاطہ نہ بھی کیا جائے اُور صرف اندرون شہر کی 15سے 20 یونین کونسلوں میں کم سے کم 100 مقامات پر ’پکی پکائی روٹیاں‘ فروخت کے لئے پیش کی جائیں‘ تو گشتی یا مستقل سیل پوائنٹس پر یومیہ ایک سے دو لاکھ روٹیاں باآسانی فروخت کی جا سکتی ہیں۔

علاوہ ازیں حیات آباد‘ یونیورسٹی ٹاون‘ شامی روڈ‘ ورسک روڈ‘ صدر اُور چغل پورہ سے آگے بننے والی نئی ٹاون شپ اسکیموں میں رہنے والے صارفین ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ کے مستقل رکن (گاہگ) بن کر گھر بیٹھے روٹی حاصل کر سکیں گے۔ ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ کی رکنیت بذریعہ ویب سائٹ‘ موبائل ایپ‘ ٹیلی فون یا سوشل میڈیا سے متعارف کروائی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے کوئی بھی صارف ’آن لائن‘ ادائیگی (پے منٹ) کر سکے گا۔ ”شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے .... اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے (اَحمد فراز)۔“ کم وزن اُور غیرمعیاری روٹی فروخت کرنے والے نانبائیوں کی اکثریت کے ہاتھوں ’بلیک میل‘ ہونے‘ سیاسی‘ ضلعی اُور انتظامی حکمرانوں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے تو بہتر ہے کہ اہل پشاور کا دُکھ اُور ’پشاوری تندور پراجیکٹ‘ جیسے کاروباری موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ’سرمایہ کار‘ آگے آئیں کیونکہ ”خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی .... نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا (مولانا ظفر علی خان)۔“

Tuesday, July 16, 2019

Why can’t Pakistani children read?

ژرف نگاہ ....شبیرحسین اِمام
تعلیم و تعلم: تحقیق کا آئینہ!
مقصد حاصل نہیں ہو رہا۔ تعلیم بطور نمائش عام کر دی گئی ہے لیکن خواندگی کا دور دور تک نام و نشان نہیں! عالمی سطح پر ’درسی و تدریسی عمل‘ پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ’ولسن سنٹر (Wilson Center)‘ نے پاکستان سے متعلق تحقیق (حقائق نامہ) جاری کیا ہے‘ جس کے ایک حصے میں ”مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت اُور اِس کے آپسی تعلق“ پر بھی مختصراً لیکن جامع انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”پاکستان میں کئی سکول ایسے بھی ہیں جہاں باقاعدہ طور پر برسہا برس تعلیم حاصل کرنے کے باوجود طالب علم نصابی و غیرنصابی کتب سے ’ایک جملہ‘ تک پڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔“ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر بچے ناظرہ نہیں پڑھ سکتے تو وہ الفاظ و اسباق میں چھپے مطالب کو بھی نہیں سمجھ پائیں گے اور جب علم اسباق و الفاظ کے ذریعے منتقل نہیں ہو رہا تو اِس کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی تحقیقی ادارے نے اِس قسم کا نتیجہ ¿ خیال پیش کیا ہو بلکہ نجی ٹیلی ویژن چینلز‘ اشاعتی ادارے اُور غیر سرکاری تنظیمیں ایک عرصے سے (اِسی موضوع پر) اپنی سالانہ رپورٹیں جاری کر رہی ہیں جن میں بارہا اِس اَمر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ بالخصوص دیہی (پسماندہ) علاقوں میں دی جانے والی تعلیم کا ’بنیادی مقصد‘ حاصل نہیں ہو رہا لیکن مجال ہے کہ متعلقہ فیصلہ ساز ’ٹس سے مس‘ ہوتے ہوں اُور اپنی اُس غلطی کو تسلیم کر لیں جو سوائے اِن کے پوری دنیا کو ’روز روشن کی طرح‘ دکھائی دے رہی ہے!

اَمریکہ کے قانون ساز اِدارے ایوان بالا (کانگریس) نے 1968ءمیں ’ولسن سنٹر‘ نامی تحقیقی ادارہ ’1913ءسے 1921ءتک‘ 28ویں صدر رہے ’تھامس وڈرو ولسن‘ کی یاد میں قائم کیا‘ جسے ’زندہ یادگار (living memorial)‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس تحقیقی مرکز کا بنیادی کام ’عالمی مسائل‘ سے متعلق آزادانہ تحقیق اُور بحث و مباحثے (ڈائیلاگ) کی سرپرستی کرنا ہے تاکہ حاصل ہونے والے نتائج سے امریکی فیصلہ سازوں کو رہنمائی مل سکے۔ قابل ذکر ہے کہ ’ولسن سنٹر‘ کو علاقائی (ریجنل) اَمور سے متعلق امریکی تحقیق کا ’بڑا مرکز (تھنک ٹینک اِدارہ)‘ اُور اِس سے وابستہ تحقیق کاروں کے کام کو ’مستند‘ سمجھا جاتا ہے۔ ولسن سنٹر نے پاکستان میں ’درس و تدریس کے معیار‘ سے متعلق ’84 صفحات‘ پر مشتمل رپورٹ میں وہ سب کچھ ذکر کیا ہے‘ جو متعلقہ سیاسی فیصلہ ساز اُور حکومتی ادارے تسلیم نہ بھی کریں لیکن حقائق تبدیل نہیں ہوں گے‘ جن کی تلخی (زمینی حقائق) متقاضی ہیں کہ ”پاکستان میں تعلیم و تعلم بالخصوص بنیادی و ثانوی درجات کو مادری زبان کے قریب اُور غیرملکی اثرورسوخ (ملاوٹ) سے دور (پاک) کیا جائے۔“ مذکورہ رپورٹ ’ولسن سنٹر‘ کی ویب سائٹ (wilsoncenter.org) سے بلاقیمت حاصل (download) کی جا سکتی ہے۔ اُمید ہے کہ سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز‘ ماہرین تعلیم‘ اساتذہ اُور والدین مذکورہ رپورٹ کو ’خاطرخواہ اہمیت‘ دیں گے اُور کسی بھی وضاحت‘ اِعتراض یا اپنی رائے سے مصنفہ ’نادیہ ناوی والا‘ کو بذریعہ ٹوئیٹر (@NadiaNavi)‘ یا سنٹر کے منتظم مائیکل کلیگمن (@MichaelKugelman) کو مطلع کریں گے۔ سماجی رابطہ کاری ہی کے ذریعے ولسن سنٹر سے بذریعہ ہینڈلر @TheWilsonCenter بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

”کیا وجہ ہے کہ پاکستانی بچے پڑھ نہیں سکتے؟ Why Can't Pakistani Children Read نامی حقائق نامہ (رپورٹ) کے سرورق پر جلی حروف میں لکھا گیا ہے کہ ”پاکستان میں تعلیمی اِصلاحات میں ناکامی کی درپردہ وجوہات کیا ہیں“ اُور اِن ’درپردہ وجوہات (inside story)‘ کا بیان (احاطہ) کمال مہارت سے ہر باب اُور ہر سطر میں کرتے ہوئے بہت سے سوالات (کام) قارئین کے لئے بھی چھوڑ دیئے گئے ہیں‘ جیسا کہ تعلیم کے حوالے سے مختلف سیاسی و غیرسیاسی ادوار میں ہونے والی ’زبانی جمع خرچ (دعووں اُور وعدوں)‘ کی حقیقت کیا ہے!

وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تعلیم کے لئے مختص کئے جانے والے مالی وسائل (بجٹ)‘ تعلیم کے مختلف حکومتی اِداروں کی تفصیلات‘ ترقیاتی و غیرترقیاتی اخراجات‘ نصاب تعلیم کی اصلاح میں غیرملکی تعاون‘ مختلف اِقسام کے تعلیمی نصاب‘ نجی سکولوں کا کردار‘ اِمتحانی طریقہ ¿ کار اُور طالب علموں (بچے بچیوں) کے رجحانات کس طرح منفی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ حکومتی مالی معاونت سے چل رہے اداروں کی مجبوری ہوتی ہے کہ یہ بہت کچھ ’بین السطور‘ بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ سخت سے سخت بات بھی محتاط الفاظ کے ذریعے کہی جاتی ہے۔ ’ولسن سنٹر‘ کی رپورٹ میں بھی تعلیم کی زبوں حالی کے لئے ذمہ دار ’پاکستان کے قومی مجرموں‘ کا ذکر ’واضح الفاظ‘ میں تو نہیں کیا گیا لیکن نئے پیرائے (زیادہ دلچسپ اَنداز) میں اِشارے‘ کنائیوں اُور اِستعاروں میں وہ سب ’سچی باتیں‘ موجود ہیں! جو اِس سے قبل بھی‘ اِسی قسم کی تحقیقی کاوشوں کا حصہ رہی ہیں!

دیباچے (پیش لفظ) میں ولسن سنٹر کے سربراہ ’مائیکل گوگیلمن (Michael Kugelman) نے لکھا ہے کہ .... ”نادیہ ناوی والا کی تین سالہ اَدھوری تحقیق کو مکمل کیا گیا ہے“ اُور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’پاکستان میں تعلیمی بحران: اَصل کہانی“ مکمل تو نہیں لیکن اِس موضوع پر تازہ ترین دستاویز ہے‘ جس میں صرف مسائل کی نشاندہی ہی نہیں بلکہ اِس کے آخری باب میں ’16تجاویز‘ کے ذریعے مسائل کا حل بھی تجویز کر دیا گیا ہے۔ اعدادوشمار کی حقیقت پر بحث ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ ستر لاکھ بچے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن جو ’پچاس لاکھ‘ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر رہے‘ اُن کی کم و بیش تعداد کا تعین الگ سے ہونا چاہئے لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جو بچے سکول جا رہے ہیں اُن کی بڑی تعداد بھی زیادہ کچھ سیکھ نہیں پا رہی! اُور سالہا سال زیرتعلیم رہنے کے باوجود بھی اگر وہ ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے تو ایسا ’تعلیمی نظام‘ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ ’ولسن سنٹر‘ کی جاری کردہ ”تحقیق کے آئینے“ میں وفاقی اُور ہر صوبائی حکومت کو اپنا اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے!
............
سولہ جولائی دو ہزار اُنیس بروز منگل
بارہ ذیقعد چودہ سو چالیس ہجری
............