ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
جماعتی نظم و ضبط!
الیکشن کمیشن مبارکباد کا مستحق ہے‘ جس نے تمام تر تحفظات‘ خدشات اُور خطرات کے باوجود خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ’صوبائی اسمبلی‘ کی 16 جنرل نشستوں کے لئے ’عام انتخابات‘ کا مرحلہ خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ اِس انتخابی عمل میں حصہ لینے والے ’283 اُمیدواروں‘ میں سے 200 آزاد جبکہ 83 اُمیدوار 9 سیاسی جماعتوں (تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ نواز‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن‘ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق‘ جماعت اسلامی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ قومی وطن پارٹی اُور پاک سرزمین پارٹی) کی جانب سے نامزد تھے۔ یہ بات تعجب خیز نہیں کہ سب سے زیادہ ووٹ اُور سب سے زیادہ یعنی 6 نشستیں ’آزاد‘ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے حصے میں آئیں جبکہ تحریک انصاف نے 5‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 3‘ جماعت اسلامی اُور عوامی نیشنل پارٹی کے نامزد اُمیدواروں نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی‘ گویا قبائلی علاقوں کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں سب کے خواب ریزہ ریزہ ہوئے ہیں‘ اُور کوئی ایک بھی جماعت اپنی حاصل کردہ نشستوں یا کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دے رہی! اِس پورے ’انتخابی منظرنامے‘ میں سب سے زیادہ خسارہ ’تحریک انصاف‘ کا ہوا ہے جس کی وفاقی اُور صوبائی حکومت نے ہر ممکنہ وسائل اور اختیارات کا استعمال کیا لیکن اِس کے باوجود بھی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جس کی بنیادی وجہ خود وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”آزاد حیثیت سے انتخابات مں حصہ لینے والے کئی اُمیدواروں کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے تھا اُور ایسے تمام اراکین کے خلاف کاروائی کی جائے گی‘ جنہوں نے ’جماعتی نظم و ضبط‘ اُور فیصلوں کا پاس نہیں کیا‘ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو ’لینڈ سلائیڈنگ وکٹری‘ نہیں مل سکی۔“
قبائلی اضلاع کے انتخابات سے متعلق طلب کی گئی خصوصی پریس کانفرنس میں ممکنہ سوالات سے پہلے ہی وزیراعلیٰ نے کہ دیا کہ ”ہمارے چند امیدواروں نے آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے کر پارٹی (مفاد) کو نقصان پہنچایا ہے تاہم اِس کے باوجود بھی تحریک انصاف کی انتخابی کارکردگی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے بہتر رہی ہے۔“
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے موقع پر ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ تحریک انصاف کے ’جماعتی نظم وضبط کی خلاف ورزی‘ ہوئی ہے یا اِس سے قبل بھی عام یا ضمنی انتخاب کے موقع پر ’تحریک انصاف‘ کا مقابلہ دیگر جماعتوں کی بجائے اپنے ہی کارکنوں سے ہو چکا ہے؟
مئی 2013ءاُور جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے کئی کارکنوں کے پارٹی فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے سے چند ہفتے حتی کہ چند دن پہلے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو دیرینہ کارکنوں پر ترجیح دی گئی۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ موروثی سیاست کا خاتمہ کرے گی لیکن قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹکٹ دیئے گئے حتیٰ کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی اُنہی خاندانوں کو ترجیح دی گئی‘ جو پہلے ہی سے قانون ساز ایوانوں کی رکنیت رکھتے تھے۔ اِسی طرح ایوان بالا (سینیٹ) کے لئے قرعہ فال بھی حسن اتفاق سے پارلیمان کی رکنیت رکھنے والے خانوادوں ہی کے حصے میں آئی۔ ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر بولتے (رپورٹ کرتے) رہے لیکن کارکنوں کے جذبات و احساسات کی پرواہ نہیں کی گئی۔ چور دروازوں سے در آنے والوں نے جس بڑی تعداد میں تحریک انصاف کا رُخ (انتخاب) کیا‘ اگرچہ چڑھتے سورج کی پوجا (اِس قسم کی مثالیں) ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتی رہی ہے لیکن کسی دوسری سیاسی جماعت نے ’نئے پاکستان‘ کی تخلیق و تشکیل کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔
قبائلی اضلاع میں ہوئے صوبائی اسمبلی انتخابات کی اہمیت ہر انتخاب کی طرح اہم تھی اُور چونکہ قانون کے مطابق یہ لازم ہے کہ قبائلی اضلاع سے 2 اراکین کو ’صوبائی کابینہ‘ میں جگہ دی جائے تو اِس لحاظ سے اِن 16 نشستوں کے نتائج نے تحریک انصاف کو ’نئی مشکل‘ میں ڈال دیا ہے کیونکہ 6 آزاد اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے ’5 صوبائی اسمبلی کے اراکین‘ کا خیال بھی رکھنا ہوگا‘ جو یقینا ’انتخابی کامیابی اور سرمایہ کاری‘ کا ’خاطرخواہ صلہ‘ پانے کی آس لگائے بیٹھے ہوں گے!
’دو دھاری تلوار‘ جیسی موجودہ مشکل صورتحال کا سامنا صرف اُس صورت نہیں ہوسکتا تھا جبکہ قبائلی اضلاع میں تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوتا اُور ایسا کرنے کے لئے ’خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مرکزی اُور صوبائی قیادت کو سوچنا چاہئے کہ کمزور ترین جماعتی ڈھانچے کے ساتھ اگر تحریک انصاف کو کسی ہنگامی صورتحال میں ’وسط مدتی بڑے انتخابات‘ کا سامنا کرنا پڑ جائے تو جو محرک قبائلی اضلاع میں شکست کا سبب بنا ہے‘ کیا وہی دیگر اضلاع میں کارفرما نہیں ہوگا؟ مسئلہ یہ نہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہوئی ہے یا دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے تحریک اِنصاف کے نامزد اُمیدوار اِنتخابی دن کی منصوبہ بندی (پولنگ اسکیم) وضع کرنے میں ناکام رہے بلکہ اصل مشکل یہ ہے کہ ہر انتخاب کے موقع پر تحریک انصاف کا ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے اُور اِس تقسیم کے پیچھے اُن کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ (منصوبہ بندی) کو ’خارج اَز امکان‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مرحلہ ¿ فکر ہے کہ آج تحریک کو اپنے سیاسی مخالفین (دشمنوں) کی بجائے اپنے ناعاقبت اندیش دوستوں (کارکنوں) سے خطرہ لاحق ہے‘ جنہیں پارٹی کی فیصلہ سازی پر اعتماد نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی شخصیت کا جادو کب تک چلے گا اُور اِس سحر کے سامنے کارکن اپنے اصولی موقف سے کس حد اُور کب تک دستبردار ہوتے رہیں گے‘ یہ حقیقت جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا سمیت ملک کے کئی اضلاع میں دیکھنے میں آئی‘ جہاں عام کارکن نہیں بلکہ پارٹی کے رہنماوں نے بھی علم بغاوت اپنے قد کاٹھ سے زیادہ بلند کیا۔ صرف ایک ہی مثال پر اکتفا کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے لئے مشاورت اور خیبرپختونخوا سے متعلق جماعتی تنظیمی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرنے والے سابق گورنر افتخار حسین شاہ نے کوہاٹ سے تحریک انصاف کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا حالانکہ اُنہیں دستبردار ہونے اُور سینیٹ کی نشست تک دینے کی پیشکش کی گئی لیکن اپنے اصولی فیصلے کا ڈٹ کر دفاع کرنے اور شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنے والے اِس اہم رہنما نے پارٹی سربراہ عمران خان کے فیصلے سے اختلاف کیا‘ جو چاہتے تھے کہ تحریک اُنہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیتی اُور اُن کے ذہن کے کسی کونے میں شاید بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا زیادہ بڑا کردار‘ زیادہ بڑی قومی خدمت اُور تحریک انصاف کو نئی بلندیوں اُور مقام سے روشناس کرانے کی سوچ گردش کر رہی تھی‘ یقینا قبائلی اضلاع میں خاطرخواہ انتخابی کامیابی حاصل نہ کرنے والی تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو ’افتخار حسین شاہ‘ کی یاد آ رہی ہوگی‘ جنہیں قبائلی سیاست‘ اقدار اُور سب سے بڑھ کر قومی سلامتی کی حکمت عملی کی روشنی میں قبائلی سرزمین سے زیادہ شناسائی و آشنائی تھی۔ بہرحال قبائلی اضلاع کے انتخابات میں صرف کارکنوں کو مورد الزام ٹھہرا کر گلوخلاصی کرنے کی بجائے تحریک انصاف کے صوبائی و مرکزی قائدین کو اپنے ماضی و حال کے غلط فیصلوں (تجربوں) کا شمار (احتساب) کرنا چاہئے‘ جو (خاکم بدہن) آئندہ بھی ایسے ہی انتخابی نتائج (ناکامیوں) کا باعث ٹھہریں گے!
............