ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مفاد عامہ اور طرزحکمرانی
مفاد عامہ اور طرزحکمرانی
سرکاری محکموں سے مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کے خاتمے کے لئے پرعزم‘
خیبرپختونخوا حکومت نے ایسی قانون سازی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے
ذریعے ’کسی سرکاری اہلکار یا محکمے میں ہونے والی بدعنوانی کی اِطلاع دینے
والے کا نام صیغہ راز میں رکھنے کے علاؤہ اُنہیں ہر ممکن تحفظ فراہم کیا
جائے گا۔‘ فیصلہ سازوں نے یہ سادہ سی بات سمجھنے میں بہت دیر کر دی ہے کہ
جو سرکاری اہلکار اپنے اختیارات کا غلط و ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے
بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں‘ وہ ثبوت نہیں چھوڑتے اور نہ ہی بدعنوانی کی
کوئی ایک ایسی شکل و صورت یا ممکنہ طرزعمل ہے جس پر پابندی عائد کرکے جملہ
سرکاری محکموں کا قبلہ درست کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بدعنوانی
ہمارے معاشرے کی رگوں میں رچ بس گئی ہے اور دودھ میں پانی کی ملاوٹ کر کے
اِسے پتلا یا تازہ گوشت کو پانی کے دباؤ سے وزنی کرنے کرنے جیسی بددیانتی
بھی ہمارے ہاں ہی پائی جاتی ہے۔ مصالحہ جات‘ خشک چائے‘ گھی‘ اچار‘ مٹھائی
اور اشیائے خوردونوش تو کیا ہمارے تجارتی مراکز الیکٹرانکس کے ایسے
غیرمعیاری سازوسامان سے بھرے ملتے ہیں‘ جنہیں دھرلے سے دو‘ تین اور چار
نمبر (یعنی نقول) کہا جاتا ہے! لیکن ’مفاد عامہ‘ میں طرز فکر و عمل
(حکمرانی) تبدیل کرنے کی بجائے ’اِصلاح کاروں (سیاستدانوں)‘ کو یہ بات
نسبتاً سہل دکھائی دیتی ہے کہ وہ پہلے سے موجود احتسابی قوانین کی تعداد
(انبار) میں اضافہ کردیں اور جب یہ پوچھا جائے کہ عمل کون کرائے گا‘ تو
شاید اِس کا جواب ہر آنے والے کے لئے اُدھار دکھ چھوڑا جاتا ہے۔ ضرورت
سیدھے سادے قوانین و قواعد کے اطلاق کی ہے جسے مزید قوانین میں الجھا کر
پیچیدہ و اس قدر مشکل بنا دیا جائے گا کہ بھلا صرف اور صرف وکلأ برادری کا
ہونا ہے! جو قوانین اور اِن کے سقم (گرے ایریاز) سے فائدہ اٹھانے کا علم
نہیں بلکہ ’ہنر‘ رکھتے ہیں!
کس قدر آسان ہے کہ سرکاری ملازمین کے (منقولہ و غیرمنقولہ) اثاثہ جات کی تفصیلات مرتب کی جائیں اور ان میں سالہا سال آنے والی تبدیلی پر نظر رکھی جائے۔ برطانیہ کی طرز پر بیس سال کی تنخواہ یا آمدن کے کسی ذریعے کو بنیاد پر موجودہ اثاثہ جات کا تخمینہ لگایا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ کہاں اختیارات سے ’ناجائز فائدہ‘ اُٹھایا گیا ہے۔ عجب ہے کہ کسی سرکاری ملازم کی سالانہ تنخواہ اگر بارہ لاکھ سے زیادہ ہے تو وہ اپنے کئی ایک بچوں کو ایسے اندرون ملک یا بیرون ملک نجی تعلیمی اداروں میں کیسے تعلیم دلوا سکتا ہے جن کی ماہانہ ٹیوشن فیس اُس کی تنخواہ اور آمدن کے معلوم ذریعے سے زیادہ ہو۔ ہمارے ہاں دو ممالک کی شہریت رکھنے والوں کو سیاسی عہدے اور عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے نہیں دیا جاتا لیکن سرکاری ملازمین پر پابندی نہیں کہ وہ بیرون ملک جس قدر چاہیں سرمایہ کاری کریں اور ایسے سیاستدانوں کے بیانات بھی ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں کہ اُنہوں نے بیرون ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے!
سردست خیبرپختونخوا حکومت کی ’سادہ دلی‘ اور ’سادہ لوحی‘ کے قربان جایئے کہ جس کی کابینہ نے ’ویسل بلوور پروٹیکشن اینڈ ویجیلینس ایکٹ 2015ء‘ کی منظوری دی ہے جس کا سب سے اہم و بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری اہلکار یا سرکاری دفتر میں ہونے والے مبینہ بدعنوانی کے بارے میں حکومت کو خبر دے گاتو اُس کی جان و مال کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ اِس سلسلے میں ایک چار رکنی ’نگرانی کمیٹی (ویجیلنس کمیشن) بھی تشکیل دے دیا گیا ہے جس میں چیئرمین سمیت دیگر اراکین بدعنوانی کی روک تھام کی کوششوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بدعنوانی کی شکایت نہ کرے تو کیا اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرکاری محکموں کا قبلہ درست ہو چکا ہے؟ امریکہ کی جانب سے ملنے والی امداد پر نظر رکھنے کے لئے ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نامی تنظیم ایک ٹول فری (مفت فون کال) نمبر کی تشہیر سبھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کرتی ہے‘ لیکن اِس کا دائرۂ کار صرف اُنہی منصوبوں تک محدود ہے جن کے لئے ’یوایس ایڈ ( USAID)‘ مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔
خوش آئند ہے کہ خیبرپختونخوا میں بدعنوانی کی موجودگی کو تسلیم کر لیا گیا اور اب اِس بیماری کا علاج کرنے کے لئے بذریعہ قانون جراحت پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ عوام کی نظر سے بے رحم احتساب اور سزا و جزأ کے بغیر سرکاری محکموں کی نہ تو کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے اور نہ ہی بدعنوانی کے امکانات کم یا محدود کئے جا سکتے ہیں۔ عزم‘ حوصلے اور بصیرت کے ساتھ اُن بیچاروں سے تعاون و مدد مانگنے کی بجائے حکومت خفیہ اداروں سے تحقیقات کرکے بھی اُن مچھلیوں کو پکڑ سکتی ہے جن کی وجہ سے پورا تالاب گندا ہو چکا ہے۔
کس قدر آسان ہے کہ سرکاری ملازمین کے (منقولہ و غیرمنقولہ) اثاثہ جات کی تفصیلات مرتب کی جائیں اور ان میں سالہا سال آنے والی تبدیلی پر نظر رکھی جائے۔ برطانیہ کی طرز پر بیس سال کی تنخواہ یا آمدن کے کسی ذریعے کو بنیاد پر موجودہ اثاثہ جات کا تخمینہ لگایا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ کہاں اختیارات سے ’ناجائز فائدہ‘ اُٹھایا گیا ہے۔ عجب ہے کہ کسی سرکاری ملازم کی سالانہ تنخواہ اگر بارہ لاکھ سے زیادہ ہے تو وہ اپنے کئی ایک بچوں کو ایسے اندرون ملک یا بیرون ملک نجی تعلیمی اداروں میں کیسے تعلیم دلوا سکتا ہے جن کی ماہانہ ٹیوشن فیس اُس کی تنخواہ اور آمدن کے معلوم ذریعے سے زیادہ ہو۔ ہمارے ہاں دو ممالک کی شہریت رکھنے والوں کو سیاسی عہدے اور عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے نہیں دیا جاتا لیکن سرکاری ملازمین پر پابندی نہیں کہ وہ بیرون ملک جس قدر چاہیں سرمایہ کاری کریں اور ایسے سیاستدانوں کے بیانات بھی ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں کہ اُنہوں نے بیرون ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے!
سردست خیبرپختونخوا حکومت کی ’سادہ دلی‘ اور ’سادہ لوحی‘ کے قربان جایئے کہ جس کی کابینہ نے ’ویسل بلوور پروٹیکشن اینڈ ویجیلینس ایکٹ 2015ء‘ کی منظوری دی ہے جس کا سب سے اہم و بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری اہلکار یا سرکاری دفتر میں ہونے والے مبینہ بدعنوانی کے بارے میں حکومت کو خبر دے گاتو اُس کی جان و مال کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ اِس سلسلے میں ایک چار رکنی ’نگرانی کمیٹی (ویجیلنس کمیشن) بھی تشکیل دے دیا گیا ہے جس میں چیئرمین سمیت دیگر اراکین بدعنوانی کی روک تھام کی کوششوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بدعنوانی کی شکایت نہ کرے تو کیا اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرکاری محکموں کا قبلہ درست ہو چکا ہے؟ امریکہ کی جانب سے ملنے والی امداد پر نظر رکھنے کے لئے ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نامی تنظیم ایک ٹول فری (مفت فون کال) نمبر کی تشہیر سبھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کرتی ہے‘ لیکن اِس کا دائرۂ کار صرف اُنہی منصوبوں تک محدود ہے جن کے لئے ’یوایس ایڈ ( USAID)‘ مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔
خوش آئند ہے کہ خیبرپختونخوا میں بدعنوانی کی موجودگی کو تسلیم کر لیا گیا اور اب اِس بیماری کا علاج کرنے کے لئے بذریعہ قانون جراحت پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ عوام کی نظر سے بے رحم احتساب اور سزا و جزأ کے بغیر سرکاری محکموں کی نہ تو کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے اور نہ ہی بدعنوانی کے امکانات کم یا محدود کئے جا سکتے ہیں۔ عزم‘ حوصلے اور بصیرت کے ساتھ اُن بیچاروں سے تعاون و مدد مانگنے کی بجائے حکومت خفیہ اداروں سے تحقیقات کرکے بھی اُن مچھلیوں کو پکڑ سکتی ہے جن کی وجہ سے پورا تالاب گندا ہو چکا ہے۔
How to get rid of instititionalized corruption |