Thursday, April 30, 2015

Apr2015: Solution by law

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مفاد عامہ اور طرزحکمرانی
سرکاری محکموں سے مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کے خاتمے کے لئے پرعزم‘ خیبرپختونخوا حکومت نے ایسی قانون سازی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے ذریعے ’کسی سرکاری اہلکار یا محکمے میں ہونے والی بدعنوانی کی اِطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھنے کے علاؤہ اُنہیں ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘ فیصلہ سازوں نے یہ سادہ سی بات سمجھنے میں بہت دیر کر دی ہے کہ جو سرکاری اہلکار اپنے اختیارات کا غلط و ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں‘ وہ ثبوت نہیں چھوڑتے اور نہ ہی بدعنوانی کی کوئی ایک ایسی شکل و صورت یا ممکنہ طرزعمل ہے جس پر پابندی عائد کرکے جملہ سرکاری محکموں کا قبلہ درست کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بدعنوانی ہمارے معاشرے کی رگوں میں رچ بس گئی ہے اور دودھ میں پانی کی ملاوٹ کر کے اِسے پتلا یا تازہ گوشت کو پانی کے دباؤ سے وزنی کرنے کرنے جیسی بددیانتی بھی ہمارے ہاں ہی پائی جاتی ہے۔ مصالحہ جات‘ خشک چائے‘ گھی‘ اچار‘ مٹھائی اور اشیائے خوردونوش تو کیا ہمارے تجارتی مراکز الیکٹرانکس کے ایسے غیرمعیاری سازوسامان سے بھرے ملتے ہیں‘ جنہیں دھرلے سے دو‘ تین اور چار نمبر (یعنی نقول) کہا جاتا ہے! لیکن ’مفاد عامہ‘ میں طرز فکر و عمل (حکمرانی) تبدیل کرنے کی بجائے ’اِصلاح کاروں (سیاستدانوں)‘ کو یہ بات نسبتاً سہل دکھائی دیتی ہے کہ وہ پہلے سے موجود احتسابی قوانین کی تعداد (انبار) میں اضافہ کردیں اور جب یہ پوچھا جائے کہ عمل کون کرائے گا‘ تو شاید اِس کا جواب ہر آنے والے کے لئے اُدھار دکھ چھوڑا جاتا ہے۔ ضرورت سیدھے سادے قوانین و قواعد کے اطلاق کی ہے جسے مزید قوانین میں الجھا کر پیچیدہ و اس قدر مشکل بنا دیا جائے گا کہ بھلا صرف اور صرف وکلأ برادری کا ہونا ہے! جو قوانین اور اِن کے سقم (گرے ایریاز) سے فائدہ اٹھانے کا علم نہیں بلکہ ’ہنر‘ رکھتے ہیں!

کس قدر آسان ہے کہ سرکاری ملازمین کے (منقولہ و غیرمنقولہ) اثاثہ جات کی تفصیلات مرتب کی جائیں اور ان میں سالہا سال آنے والی تبدیلی پر نظر رکھی جائے۔ برطانیہ کی طرز پر بیس سال کی تنخواہ یا آمدن کے کسی ذریعے کو بنیاد پر موجودہ اثاثہ جات کا تخمینہ لگایا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ کہاں اختیارات سے ’ناجائز فائدہ‘ اُٹھایا گیا ہے۔ عجب ہے کہ کسی سرکاری ملازم کی سالانہ تنخواہ اگر بارہ لاکھ سے زیادہ ہے تو وہ اپنے کئی ایک بچوں کو ایسے اندرون ملک یا بیرون ملک نجی تعلیمی اداروں میں کیسے تعلیم دلوا سکتا ہے جن کی ماہانہ ٹیوشن فیس اُس کی تنخواہ اور آمدن کے معلوم ذریعے سے زیادہ ہو۔ ہمارے ہاں دو ممالک کی شہریت رکھنے والوں کو سیاسی عہدے اور عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے نہیں دیا جاتا لیکن سرکاری ملازمین پر پابندی نہیں کہ وہ بیرون ملک جس قدر چاہیں سرمایہ کاری کریں اور ایسے سیاستدانوں کے بیانات بھی ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں کہ اُنہوں نے بیرون ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے!

سردست خیبرپختونخوا حکومت کی ’سادہ دلی‘ اور ’سادہ لوحی‘ کے قربان جایئے کہ جس کی کابینہ نے ’ویسل بلوور پروٹیکشن اینڈ ویجیلینس ایکٹ 2015ء‘ کی منظوری دی ہے جس کا سب سے اہم و بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری اہلکار یا سرکاری دفتر میں ہونے والے مبینہ بدعنوانی کے بارے میں حکومت کو خبر دے گاتو اُس کی جان و مال کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ اِس سلسلے میں ایک چار رکنی ’نگرانی کمیٹی (ویجیلنس کمیشن) بھی تشکیل دے دیا گیا ہے جس میں چیئرمین سمیت دیگر اراکین بدعنوانی کی روک تھام کی کوششوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بدعنوانی کی شکایت نہ کرے تو کیا اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرکاری محکموں کا قبلہ درست ہو چکا ہے؟ امریکہ کی جانب سے ملنے والی امداد پر نظر رکھنے کے لئے ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نامی تنظیم ایک ٹول فری (مفت فون کال) نمبر کی تشہیر سبھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کرتی ہے‘ لیکن اِس کا دائرۂ کار صرف اُنہی منصوبوں تک محدود ہے جن کے لئے ’یوایس ایڈ ( USAID)‘ مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔

خوش آئند ہے کہ خیبرپختونخوا میں بدعنوانی کی موجودگی کو تسلیم کر لیا گیا اور اب اِس بیماری کا علاج کرنے کے لئے بذریعہ قانون جراحت پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ عوام کی نظر سے بے رحم احتساب اور سزا و جزأ کے بغیر سرکاری محکموں کی نہ تو کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے اور نہ ہی بدعنوانی کے امکانات کم یا محدود کئے جا سکتے ہیں۔ عزم‘ حوصلے اور بصیرت کے ساتھ اُن بیچاروں سے تعاون و مدد مانگنے کی بجائے حکومت خفیہ اداروں سے تحقیقات کرکے بھی اُن مچھلیوں کو پکڑ سکتی ہے جن کی وجہ سے پورا تالاب گندا ہو چکا ہے۔
How to get rid of instititionalized corruption

Wednesday, April 29, 2015

Apr2015: Status of children in Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مایوس کن حقائق
پاکستان میں بچے بھی محفوظ نہیں! صحت و تعلیم سے لے کر کم عمری میں مشقت‘ اَغوأ‘ جنسی تشدد اور قتل جیسے انتہائی جرائم کا نشانہ بچے ہیں۔ سپارک نامی غیرسرکاری تنظیم نے بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مایوس کن حقائق پر مبنی ’سالنامہ‘ ’’بچوں کی حالت (زار) 2014ء‘‘ شائع کیا ہے‘ تاکہ اَرباب اِختیار‘ فیصلہ سازوں اور منتخب نمائندوں کو ترجیحات بناتے ہوئے آسانی رہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس (سال دو ہزار چودہ میں) بچوں کے خلاف تشدد کے تقریباً 70ہزار کیسز رپورٹ ہوئے‘ تاہم اندازہ ہے کہ رپورٹ نہ کیے جانے والے کیسز کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ ایک آزاد رپورٹ ساحل کے ظالمانہ نمبرز رپورٹ 2014ء کے اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ ’’بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے ایک ہزار 786کیسز‘ رپورٹ ہوئے جن میں سے لڑکیوں کے خلاف ایک ہزار ایک سو بہتّر کیسز اور باقی چھ سو سولہ لڑکوں کے خلاف تھے جو گذشتہ سال جنوری سے جون کے دوران رپورٹ کیے گئے۔‘‘ گزشتہ سال اس طرح کے واقعات کی کل تعداد تین ہزار پانچ سو آٹھ رہی‘ جس سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایسے واقعات میں گزشتہ سال کی بہ نسبت سترہ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ سپارک کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بارہ سو پچیس کیسزسامنے آئے‘ جن میں اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی شامل ہیں جبکہ 258واقعات میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا ارتکاب کیا گیا۔ رپورٹ کا مزید کہنا ہے کہ کم ازکم ایک سو بیالیس متاثرہ بچوں کو جنسی حملے کے بعد قتل کردیا گیا۔ اس مسئلے پر تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ’’جنسی استحصال کے آٹھ فیصد متاثرین کی عمریں چھ سے دس سال کے درمیان تھیں۔ چھبیس فیصد گیارہ سے پندرہ برس کی عمرکے تھے جبکہ گیارہ فیصد سولہ سے اٹھارہ برس کے عمروں کے درمیان تھے۔ یہاں تک کہ ان میں جنسی استحصال کے متاثرین میں چند ایک سال تک کی عمر کے بچے بھی شامل تھے۔‘‘ جنسی استحصال کی مختلف اشکال کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ 775متاثرہ بچوں کو اغوأ کرنے کے بعد ان کا جنسی استحصال کیا گیا۔ 313لڑکیوں اور 147لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی‘ 100کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا‘ 94لڑکیاں جنسی زیادتی سے بچنے میں کامیاب ہوگئیں‘ 63لڑکوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور 53کی بچپن میں شادیاں کردی گئیں۔ ملک میں ان کیسز کی شرح شہری و دیہی علاقوں میں 33سے 67فیصد تھی‘ بچوں کے استحصال کے اکثر کیسز پنجاب میں رپورٹ کیے گئے‘ جن کی تعداد دوہزار چون تھی۔ اس کے بعد 875کیسز سندھ‘ 297بلوچستان‘ 152خیبرپختونخو‘ 90اسلام آباد‘ 38آزاد جموں و کشمیر اور ایک ایک کیس گلگت بلتستان اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے میں رپورٹ ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق اغوا کے کیسز میں سات فیصد تک اضافہ ہوا۔ سال 2013ء میں اس طرح کے کیسز کی تعداد سترہ سو چھ تھی جبکہ سال 2014ء میں یہ بڑھ کر اٹھارہ سو اکتیس ہوگئی! جس سے اشارہ ملتا ہے کہ گزشتہ سال روزانہ اوسطاً پانچ بچوں کو اغوا کیا گیا! کیا یہ امر لائق تشویش نہیں ہونا چاہئے کہ ایک سال کے دوران تیزاب کے حملوں سے چالیس بچے متاثر ہوئے جن میں گیارہ لڑکے اور اُنتیس لڑکیاں ہیں!

کم سنی میں بچوں کی شادیاں بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے زیادہ توجہ چاہتے ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ قانون سازی کے ذریعے ایسی شادیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ نوعمر بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا شرح خواندگی میں کمی اور مستقبل کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ پانچ سے نو سال کی عمر کے ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے سکولوں سے باہر ہیں! یاد رہے کہ سکول جیسی نعمت سے محروم بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے! رپورٹ کے مطابق پاکستان پیدائشی بچوں کی اموات کی شرح 2013ء میں ایک ہزار میں چھیاسی تھی لیکن یہ شرح ’ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز‘ کے تحت ایک ہزار پیدائش میں 52بچوں کے ہدف سے کافی دور ہے۔ سال 2014ء کے اختتام تک چاروں صوبوں کے حراستی مراکز میں نابالغ مجرموں کل تعداد ایک ہزار چار سو چھپن تھی‘ ان میں سے بڑی اکثریت مقدمات کا سامنا کررہے تھے۔ قیدی بچوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں 757تھی‘ اس کے بعد خیبر پختونخوا میں 301‘ سندھ میں 291 اُور صوبہ بلوچستان میں 107تھی۔

پاکستان سے متعلق عالمی ادارۂ محنت (آئی ایل اُو) کے اعدادوشمار بھی زیادہ کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ پچیس لاکھ بچے کسی نہ کسی صورت میں مزدوری کرتے ہیں جبکہ یونیسیف کا تخمینہ ہے کہ ایک کروڑ بچے 2012ء میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سکول سے باہر بچوں اور محنت مشقت و مزدوری پر مجبور خاندانوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے بہت سے بچے بے ہنرافرادی قوت میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں جبکہ محتاط اندازے کے مطابق محنت کرنے والے کم عمر بچوں میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ بچے بطور گھریلو ملازمین غیرمحفوظ ماحول میں کام کررہے ہیں اور ایسی کوئی قانون سازی موجود نہیں جس کے ذریعے کم عمر بچوں سے مشقت لینے والوں کو اپنا طرزعمل تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ سال 2013ء میں گھریلو ملازمین پر تشدد کل اکیس کیسیز رپورٹ کیے گئے تھے‘ جن میں سے آٹھ بچوں کی اموات ہوگئی تھیں!

غیرسرکاری تنظیمیں ایک عرصے سے ایسی رپورٹیں شائع کرتی ہیں جن میں بچوں‘ خواتین اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقات کے خلاف ہونے والے جرائم کا ذکر ہوتا ہے جنہیں سن سن کر فیصلہ سازوں کے کان پک چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئندہ برس بھی زیادہ بھیانک اُور مایوس کن حقائق پر مشتمل سالنامہ جاری ہوگا‘ جس کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں اظہار خیال بھی ہوگا لیکن بچوں کو تحفظ دینے سے متعلق قوانین اور قواعد پر عمل درآمد کرانا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر قانون موجود ہے اور اُس پر عمل درآمد نہیں ہورہا تو عدالتیں خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن بچوں کا استحصال ہو رہا ہے‘اُن کا تعلق صرف اور صرف غربت زدہ نچلے طبقات سے ہے!
Children Status Report about Pakistan

Apr2015: Measures to avoid cyclone

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تفکرات
ایک کے بعد ایک اِمتحان۔ ایک کے بعد ایک زیادہ بڑی مشکل۔ ’’منیرؔ مجھ کو اک اُور دریا کا سامنا تھا۔۔۔میں ایک دریا کے پار اُترا‘ تو میں نے دیکھا!‘‘ پشاور پر نازل ہونے والی ہر ایک قدرتی آفت زیادہ جانی و مالی نقصان کا سبب بنتی ہے کیونکہ ہم اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مستقبل پر نظر نہیں رکھتے! ہماری منتخب نمائندوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو ایسی کوئی درخشاں مثال ہمیں ماضی میں بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتی‘ جس میں مگرمچھ کے آنسوؤں کا مقصد ذرائع ابلاغ کی تسلی و تشفی سے زیادہ نہ ہو! سرکاری وسائل اور اختیارات رکھنے والوں کے شب و روز کا اگر قریب سے مشاہدہ کیا جائے تو اُن کی ترجیحات سے یہ حقیقت واضح بھی ہو جاتی ہے کہ ’’شاخ در شاخ ظلم ڈھا کر بھی۔۔۔ آندھیاں معتبر نہیں ہوتیں!‘‘

پشاور سے ٹکرانے والے ’ہوائی بگولے‘ کی سائنسی تشریح یہ ہے کہ افغانستان کے راستے آنے والی ہواؤں کا ملاپ جبکہ قدرے گرم اور معتدل موسم سے ہوا‘ تو اُن کے مزاج میں سختی آگئی‘‘ لیکن ہمارے ہاں ماحولیاتی درجۂ حرارت زیادہ ہونے کی وجوہات کا ایک تعلق شہری علاقوں میں رہنے والوں کے طرز معاشرت و رہن سہن سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر ہم سردیوں میں گرم کپڑے پہننے کی بجائے گیس کے ہیٹر جلا کر پورا کمرہ گرم رکھتے ہیں۔ جس کے پاس جتنے مالی وسائل ہوتے ہیں وہ اُتنا ہی غیرمحتاط اور ’ماحول دشمن‘ زندگی بسر کرتا ہے۔ گرمیوں میں خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں (گلیات) میں مستقل ٹھکانہ بنانے والے اپنے پیچھے کوڑے کچرے کے ڈھیر اور جنگلی حیات کی قبریں چھوڑ جاتے ہیں۔ مچھروں اور کیڑے مکوڑے جن کی پہاڑی مقامات پر ماحولیاتی تنوع میں خاص اہمیت ہوتی ہے‘ اُن پر کیمیائی مادے چھڑکے جاتے ہیں۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز اور اشیائے خوردونوش کے خالی ڈبے یہاں وہاں پھینک دینا تو جیسے نسل درنسل منتقل ہونے والی وراثت کا حصہ ہو! ماحول دوستی‘ ماحول شناسی سے مشروط ہے اور جب تک ہم اِس حقیقت کا ادراک نہیں کر لیتے‘ چاہے کہیں بھی گزربسر کریں‘ ہماری وجہ سے دوسرے بھی قدرتی آفات کے نرغے میں آتے رہیں گے۔

تیز ہوا‘ آندھی اور موسلادھار بادوباراں کے سامنے شاہراؤں کے کنارے نصب قدآور ’اشتہاری اعلانات (بل بورڈز)‘ بھی نہ ٹھہر سکے! اِس سلسلے میں پشاور کے ترقیاتی ادارے (پی ڈی اے) نے ایک ضابطۂ اخلاق مرتب کررکھا ہے‘ جس پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ طوفان کی وجہ سے جو ’بل بورڈز‘ زمین بوس نہیں ہوئے اُن کی بنیادیں بُری طرح ہل چکی ہیں اور آئندہ کوئی کم شدت کا طوفان اُنہیں منہدم کر سکتا ہے۔ عمومی طور پر مصروف چوراہوں اور شاہراؤں کے کنارے یہ ’بل بورڈز‘ نصب کئے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کر سکیں۔ موجودہ حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ جی ٹی روڈ (این فائیو) سمیت پشاور شہر کے اندرونی بازاروں میں جابجا لگنے والے ’بل بورڈز‘ہٹائے جائیں جو ایک مستقل خطرہ اور سر پر لٹکنے والی تلوار جیسے ہیں۔

پشاور میں نکاسی آب کا نظام سنجیدہ اور فوری توجہ چاہتا ہے۔ مختلف ادوار میں بننے والی گلیاں اور سڑکیں اِس قدر بلندی پر بنائی گئیں ہیں اور تہہ در تہہ بلند ہوتی رہیں ہیں کہ رہائشگاہیں اور کاروباری مراکز نیچے رہ گئے ہیں۔ جی ٹی روڈ کی توسیع میں بھی اِس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ ہشتنگری سے چغل پورہ تک کے علاقوں کے پانی کا بہاؤ کدھر جائے گا۔ سیٹھی ٹاؤن (خالصہ) کے علاقے اگرچہ نشیبی نہیں لیکن وہاں سے نکاسی آب ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ گلبہار‘ کوہاٹی چوک‘ چوک ناصر خان اور شعبہ چوک جیسے مصروف بازار بارش کی صورت تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں کیونکہ زیرزمین نکاسی کے نظام (شاہی کھٹہ) پر قائم تجاوزات ختم نہیں کی جاسکیں۔ اُمید تھی کہ مرحلہ وار مہم میں بازاروں کے بعد قبرستانوں اور پھر شاہی کھٹے پر قائم ہونے والی تجاوزات ختم کی جائیں گی لیکن ضلعی انتظامیہ اور میونسپل حکام کی گرمجوشی اُور عزم مصلحتوں کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے (خدا کرے ایسا نہ ہو۔)

قدرتی آفات کے بارے میں ہمارا نصاب تعلیم معلومات سے خالی ہے۔ ماحول دوستی اور ماحولیاتی تنوع پر چند ایک اسباق کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں لیکن کرۂ ارض کی بقاء و حیات کے ضامن ’زراعت اور موسم‘ جیسے موضوعات کو مستقل اور خاطرخواہ اہمیت و توجہ نہیں دی جارہی۔ اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ بھی یقیناًایک کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں (اور انہیں کرنا بھی چاہئے) کیونکہ محکمۂ موسمیات کے مطابق آنے والے دنوں میں مزید ایسے طوفان متوقع ہیں‘ جن کی شدت زیادہ بھی ہو سکتی ہے! تجویز ہے کہ ’سرسبزوشاداب پشاور‘ کے نام سے تحریک شروع کی جائے‘ جس میں ’گھر گھر ہریالی‘ کے اہداف مقرر کرکے (ممکنہ مقامات پر) شجرکاری اور گھریلو سطح (چھوٹے پیمانے) پر کاشتکاری کی سرپرستی و حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ زرعی و موسمی شعبے میں تحقیق کرنے والے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کریں تاکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام آدمی تک یہ موضوع منتقل کیا جا سکے کہ ماحولیات کے تحفظ میں ہماری بقاء اور اِس کے توازن میں بگاڑ کسی بھی صورت نہ تو ہمارے حال اور نہ ہی ہماری آنے والی نسلوں کے حق میں مفید ثابت ہوگا۔
How do we save our environment & population

Monday, April 27, 2015

Apr2015: Cyclone hit Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تغافل
پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا ’ہوائی بگولے (سائیکلون)‘ چبھیس اور ستائیس اپریل کی درمیانی شب خیبرپختونخوا کے طول و عرض سمیت صوبائی دارالحکومت پشاور سے ٹکڑایا‘ اُور بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلا دی‘ نتیجہ 45 افراد کی ہلاکتیں اور 200سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی صورت ظاہر ہوا جس کے بارے میں قدرتی آفات کی ’بروقت اطلاع‘ اُور ’امدادی کاروائیاں‘ کرنے کے لئے ذمہ دار ادارے نے شام 7 بجکر 35 منٹ پر ہنگامی اطلاع جاری کی جبکہ طوفان ٹکرا چکا تھا۔ صوبائی وزیراِطلاعات کا بیان بھی ’آن دی ریکارڈ‘ ہے کہ ’’صوبائی حکومت کو اِس قدر شدت سے آنے والے طوفان کی قبل اَز وقت اِطلاع نہیں دی گئی۔‘‘ موسمی پیشنگوئی کرنے والے ادارے کے پشاور مرکز نے مزید چند روز بادوباران ہونے کی خبر دی ہے!

ایک سو دس کلومیٹر یا اِس سے زیادہ کی رفتار سے آنے والے ’ہوائی بگولے‘ نے اپنے پیچھے تباہی و بربادی کے علاؤہ 2 بنیادی سوالات چھوڑے ہیں۔ پہلا سوال موسمی پیشنگوئی کرنے والے اِدارے سے متعلق ہے کہ صوبائی اُور وفاقی سطح پر قائم ایک سے زیادہ اداروں اُور درجنوں موسمیاتی ماہرین کے تجربے کا عملی اِظہار کیوں دیکھنے میں نہیں آسکا۔ دوسرا سوال ہنگامی حالات میں بروقت اِمدادی کاروائیاں کرنے والے ادارے کی استعداد کا ہے۔ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘ ہر کام کرنے میں۔۔۔ مدد کرنی ہو اُس کی‘ یار کی ڈھارس بندھانا ہو ۔۔۔ بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو۔۔۔ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں!‘‘ جب بھی ایسی کوئی قدرتی یا غیرقدرتی آفت ہمیں آ لیتی ہے تو سب سے زیادہ اِمدادی اِداروں سے وابستہ اہلکاروں کے ہاتھ پاؤں اور سانسیں پھول جاتی ہیں! معمول ہے کہ ہسپتالوں میں بستر‘ خون‘ علاج معالجے کے وسائل اُور ادویات کم پڑ جاتی ہیں۔ ایکسرے‘ سی ٹی اسکین‘ اِی سی جی‘ اِیم آر آئی اور تشخیص میں کام آنے والے دیگر تجزئیات (ٹیسٹ) کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے درد رفع کرنے والی ادویات کے انجکشن لگانے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں مرہم پٹی کے ساتھ متاثرہ مریض کو جلدازجلد ہسپتال سے خارج کردیا جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی بالکل ’ٹریفک پولیس‘ کے مشابہہ ہے‘ جن ایسی کسی ہنگامی صورتحال میں صرف اور صرف ٹریفک کا بہاؤ بہرحال بحال رکھنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے زخمیوں اور مرنے والوں کے اِعدادوشمار جاری کئے جاتے ہیں جن کے مطابق ہلاک اور زخمیوں کی تعداد کے ساتھ جلی حروف میں وہ تعداد بھی درج ہوتی ہے جنہیں ’طبی اِمداد‘ دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ’’اَگر ’مکمل علاج‘ سرکاری ہسپتالوں ہی میں ہونے لگے تو ڈاکٹروں کے نجی کلینک کیسے چلیں گے؟ نجی تجزیہ گاہوں میں لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے کیا ’ہاتھ پر ہاتھ‘ دھر کر بیٹھ جائیں؟ ڈاکٹروں اُور ’ادویات فروشوں‘ کے درمیان اِستوار رشتے کیا دیکھتے دیکھتے ٹوٹ جائیں!‘‘

ماحول کی تبدیلی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ چھبیس اپریل کی شام سے رات گئے تک ’ہوائی بگولہ‘ ایک دستک ہے۔ دو سال قبل سیالکوٹ اور 9 برس قبل سرگودھا میں آنے والی اسی قسم کے طوفان آ چکے ہیں۔ محکمۂ موسمیات کے مرکزی دفتر کے مطابق ’’خیبرپختونخوا میں آنے والے طوفان بادوباراں کی وجہ ’جنگلات کی کٹائی اُور فضائی آلودگی میں اضافہ ہے۔‘‘ یہی دو محرکات کی وجہ سے ’زرعی شعبے‘ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ جو یکساں طور پر قابل تشویش امر ہے لیکن صوبائی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں۔ ماہرین موسمیات کو یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں زیادہ شدت کے طوفان آئیں گے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا نشانہ بھی خیبرپختونخوا ہی کے بالائی و میدانی ہوں گے! پاکستان میں ہوائی بگولوں کی تاریخ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مزید ایسے طوفانوں کے امکانات کا تقاضا یہ ہے کہ ماحول کے مزاج کو سمجھا جائے۔ قدرت کے مقرر کردہ ’ماحولیاتی توازن‘ پر اَثراَنداز ہونے والے افعال کو سمجھا جائے۔ صنعتی بستیوں کو ماحول دوست اور ماحول دشمن گیسیوں کے اخراج میں کمی لائی جائے۔ شجرکاری مہمات اپنی جگہ لیکن پہلے سے موجود جنگلات کی کٹائی کے عمل کو روکا جائے۔ لکڑی کے استعمال اور اس کی خریدوفروخت پر اضافی ٹیکس لگا کر لکڑی کی طلب و مانگ میں اضافے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو ذہنی و اسباب کے ساتھ تیار کر لیں تو یہی بہترین حکمت عملی ہوگی۔ اِس سلسلے میں جاپان کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے جہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے بذریعہ کمپیوٹر پیشنگوئیاں کرنے کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے اور رواں ہفتے کئی ساحلی علاقوں سے دیہات کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے جرمن حکومت کی حکمت عملیاں اور منصوبہ بندیوں و تجربات سے استفادہ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے حالات مختلف ہیں اور کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ اگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک سے زیادہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اُٹھا لیا جائے۔ عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ قومی اور صوبائی سطح پر ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے اداروں کا وجود تو ہے لیکن اُن کی جانب سے پیشنگوئی تاخیر سے کیوں جاری ہوئی؟ پھر اُس پیشنگوئی میں ’ہوائی بگولے‘ کا ذکر اور تیز ہوا کی رفتار و ممکنہ علاقوں کو لاحق خطرات کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے 2 کروڑ روپے سالانہ جیسی خطیر رقم خرچ کرنے سے سوائے چند درجن افراد کی ملازمتوں کے قوم کو کیا کچھ ملا ہے؟ ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن۔۔۔خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک!‘‘
Cyclone hit Peshawar and left 2 questions on our weather prediction system and disaster management

Sunday, April 26, 2015

TRANSLATION: Election rigging?

Election rigging
اِنتخابی دَھاندلی؟
پاکستان میں اب تک 10 مرتبہ عام انتخابات کا اِنعقاد ہو چکا ہے۔ گذشتہ 15 برس کے دوران ہمارے ہاں کے انتخابی عمل‘ نظام‘ انتخابات میں عمومی رجحانات‘ تصورات اُور نتائج کے بارے پیشنگوئیاں کرنے والے کئی ایک ادارے تشکیل ہوئے جن میں چند آزاد‘ چند غیرمنافع کی بنیاد پر کام کرنے والے‘ چند غیرجانبدار و غیرسیاسی اہداف بھی رکھتے تھے اور یہ سبھی ادارے ہی محترم تھے لیکن میں ذاتی طور پر دو اِداروں کی کارکردگی سے بہت مطمئن ہوں اور اُن کی تحقیق اور یک سوئی کو قدر کی نگاہ دیکھتا ہوں‘ اِن میں ایک ’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) ہے اور دوسرا پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) ہیں۔

گیارہ مئی 2013ء پاکستان میں عام انتخابات کا دن تھا جبکہ انتخابات کے نتائج سرکاری طور پر 22 مئی کے دن جاری کئے گئے۔ اِن نتائج کے خلاف اعتراضات کرنے انتخابی اُمیدواروں کو 6 جولائی 2013ء تک کی آخری تاریخ دی گئی کہ جس وقت تک وہ انتخابی عمل میں ہوئی کسی بھی بے قاعدگیوں کے بارے میں ’الیکشن کمیشن‘ سے رابطہ کر سکتے تھے۔ اِس مقررہ تاریخ (6 جولائی 2013ء) تک انتخابات کرانے کے نگران و انتظامی اِدارے ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کو کل 411 عذرداریاں وصول ہوئیں۔ اِن وصول ہونے والی 411 مبینہ دھاندلی کی درخواستوں میں سے 26 تو خارج کر دی گئیں جو ناکافی شواہد یا غیرمنطقی جواز یا پھر قابل تردید حقائق پر مبنی تھیں جبکہ الیکشن کمیشن نے باقی ماندہ 385 درخواستوں کو اُن خصوصی عدالتوں کے سامنے بھیج دیا جنہیں ’الیکشن ٹریبونلز‘ کا نام دیا گیا۔ فافین کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’’مارچ 2015ء کے اختتام تک ’الیکشن ٹربیونلز نے 347 عذرداریاں نمٹا دی تھیں جن کا اگر تناسب نکالا جائے تو یہ 91 فیصد بنتا ہے یعنی ’الیکشن ٹریبونلز‘ کے سامنے پیش ہونے والے 91فیصد مقدمات کا فیصلہ مارچ دو ہزار پندرہ کے اختتام تک کر لیا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کل 58 قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی حلقوں میں ہوئی مبینہ بے قاعدگیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا گیا جن میں سے 30 شکایات قومی اسمبلی کے حلقوں کے بارے میں تھیں۔ 6 جولائی 2013ء تک ’تحریک انصاف‘ کو قومی اسمبلی کی قریب 9فیصد نشستوں کے حوالے سے شکایت تھی اور 6جولائی 2013ء تک ’انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے تحریک انصاف کے مؤقف چند نشستوں کے حوالے سے تھا اُنہیں 2013ء کے پورے عام انتخابات میں ہوئی بڑے پیمانے اور منظم دھاندلی کے بارے میں شکایت نہیں تھی۔

قابل ذکر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے بھی عام انتخابات میں ہوئی بے قاعدگیوں کے بارے میں ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ سے رجوع کیا اور 66 درخواستیں دائر کیں جو ’تحریک انصاف‘ سے 8 عدد زیادہ تھیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جولائی 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت انتخابی عمل کی شفافیت کے بارے میں تحریک انصاف سے زیادہ شکوک و شبہات میں مبتلا تھی!

’تحریک انصاف‘ کی جانب سے دائر کئے جانے والے 58 انتخابی مقدمات میں سے 44مختلف ’الیکشن ٹربیونلز‘ نے خارج کردیں یعنی ’تحریک انصاف‘ کی 75فیصد درخواستیں قابل غور نہیں سمجھی گئیں۔ باقی ماندہ درخواسستوں میں سے 23 اِس بنیاد پر خارج کی گئیں کہ اُن میں شواہد ناکافی تھے۔ 15 درخواستیں سماعتوں کے بعد خارج کی گئیں۔ 5 درخواستیں اِس لئے خارج ہوئیں کہ اُن کے بارے میں درخواست گزاروں نے سماعتوں میں حصہ نہیں لیا جبکہ ایک درخواست واپس لے لی گئی۔ ’تحریک انصاف‘ کی جانب سے دائر کی جانے والی تمام جملہ درخواستوں میں سے صرف 2 ایسی تھیں جنہیں تکنیکی بنیادوں پر درست تسلیم کرتے ہوئے ’الیکشن ٹربیونلز‘ نے سماعت کے لئے منظور کیا۔

پہلا نتیجہ: الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عام انتخابات کے نتائج کا اعلان کرنے کے ٹھیک ایک سال بعد ’تحریک انصاف‘ کو یاد آیا کہ انتخابات میں ’منظم دھاندلی اور سازش‘ ہوئی ہے۔

دوسرا نتیجہ: تحریک انصاف کی جانب سے دائر 58 دھاندلی کی شکایات میں سے ’الیکشن ٹربیونلز‘ نے صرف 2 شکایات کو قابل غور سمجھ کر سماعت کے لئے منظور کیا۔
سال 1970ء سے لیکر سال 2002ء تک 8 عدد عام انتخابات کے بارے میں دھاندلی ایک مستقل عنصر رہا ہے جس سے پاکستان کے عوام کی رائے اور انتخابی نتائج میں ردوبدل ہوتا رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ’پلڈاٹ‘ کے تجزیئے سے اقتباس ملاحظہ کیجئے جو لکھتے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی تین طریقوں سے ہوتی ہے۔ 1: قبل از انتخابات دھاندلی (پری پول ریگنگ)۔ 2: انتخابات کے دن دھاندلی (پولنگ ڈے ریگنگ)۔ اُور 3: ووٹنگ کے اِختتام پذیر ہونے کے بعد دھاندلی (پوسٹ پول ریگنگ)۔ انتخابات سے قبل دھاندلی کی چار جزئیات ہیں۔ نگران حکومتوں کا کردار و غیرجانبداری‘ الیکشن کمیشن کی آزادی‘ الیکشن کمیشن کے عملے کی غیرجانبداری اور سرکاری وسائل کا کسی اُمیدوار یا جماعت کے حق میں استعمال۔ ووٹ ڈالنے والے دن کی دھاندلی کے پانچ عوامل ہیں۔ بیلٹ باکس (ووٹوں سے بھرے ہوئے ڈبے) یا ڈالے گئے ووٹوں میں ردوبدل‘ کسی شخص کا ایک سے زیادہ ووٹ ڈالنا‘ ووٹوں کی گنتی میں بددیانتی اُور ووٹوں کی گنتی کی بجائے دھاندلی پر مبنی انتخابی نتائج مرتب کرنا۔ پوسٹ پولنگ دھاندلی یہ ہوتی ہے کہ جس جماعت کے نامزد نمائندوں کو عوام کی اکثریت نے مقابلتاً بڑی تعداد سے منتخب کیا ہے اُنہیں حکومت بنانے کا حق نہ دیا جائے۔

پلڈاٹ کے مطابق 1970ء‘ 1985ء‘ 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء اور 2002ء کے عام انتخابات میں ’پولنگ ڈے‘ کے موقع پر سب سے کم دھاندلی ہوئی۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ کے مطابق ’پولنگ ڈے‘ کے موقع پر سب سے زیادہ دھاندلی 1977ء کے عام انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔
گیارہ مئی 2013ء کے موقع پر بھی ’پولنگ ڈے‘ پر دھاندلی کم ہوئی اور دیگر ’پولنگ ڈے دھاندلی‘ کے دیگر عوامل بھی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کم ترین شرح پر دیکھے گئے‘ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہزار سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے صرف چند سو اعتراضات سامنے آئے۔

تیسرا نتیجہ: عمومی تاثر کے برعکس‘ ہمارے ہاں عام انتخابات کے مواقعوں پر سب سے کم دھاندلی ’ووٹ ڈالنے والے دن (پولنگ ڈے) کے موقع پر دیکھنے میں آتی ہے!

 (بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام) 

Apr2015: Cantonment Board Elections & Reflections

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِنتخابات: کار جہاں!
برطانوی راج کے دوران حفاظتی نکتۂ نظر سے شہری و دیہی علاقوں سے قدرے فاصلے پر نئی فوجی چھاؤنیاں (بستیاں) آباد کیں گئیں جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی سے ترتیب دیا گیا۔ بعدازاں قیام پاکستان کے بعد نہ صرف اِن چھاؤنیوں کو برقرار رکھا گیا بلکہ اِن کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا اور فی الوقت پاکستان میں بیالیس (خیبرپختونخوا میں گیارہ) چھاؤنیاں ہیں‘ جن پر یوں تو صرف اور صرف فوج ہی کا حکم چلتا ہے لیکن سے چونکہ یہ چھاؤنیاں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دیگر علاقوں سے ’گھل مل‘ گئیں ہیں اِس لئے انہیں رقبے و آبادی کے تناسب سے وارڈز میں تقسیم کرکے متعلقہ فیصلہ سازی کے عمل میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو بھی شریک کیا جاتا ہے اگرچہ اِن انتخابات کا اِنعقاد ایک طویل انتظار یعنی 17برس بعد پچیس اپریل کے روز ہوا لیکن 199 وارڈوں (نشستوں) کے لئے ایک ہزار ایک سو اکیاون اُمیدواروں اور دس ہزار سے زائد انتخابی عملے کی تعیناتی سے زیادہ اگر انتخابی عمل میں کسی دوسرے طبقے نے نسبتاً زیادہ دلچسپی لی تو وہ ذرائع ابلاغ تھے‘ جن میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا (نجی نیوز چینلوں) نے آئندہ بلدیاتی انتخابات کی ’الیکشن ٹرانسمیشن‘ کی ڈٹ کر مشق کی جو یقیناًزیادہ بڑے اور زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اگرچہ کنٹونمنٹ بورڈز اراکین کا چناؤ طویل انتظار کے بعد مکمل ہوا لیکن ’کم ترین شرح پولنگ‘ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں ’انتخابی عمل‘ سے ایک خاص طبقے کے مفادات وابستہ ہیں‘ جن کا کوئی دوسرا کام نہیں اور وہ ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب تک تیاری (سوچ بچار) میں اپنا وقت خرچ کرتے ہیں! اُور جانتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی محض گھر گھر جاکر ووٹ مانگنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی سائنس ہے‘ جس کی تعلیم نہ تو جامعات و کتابوں سے ملتی ہے اور نہ ہی اِس کے لئے خلوص‘ امانت و دیانت اور نیک نامی (ساکھ) ہی کام آتی ہیں بلکہ ’دل کی مرادیں‘ پانے کے لئے ایسی ’دھونس‘ کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کا سامنا کرنے کی مخالفین میں ’تاب‘ نہ ہو۔ اگرچہ ’’اُور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت (الیکشنز) کے سوأ‘‘ لیکن ہمارے ہاں ’ہمہ وقت انتخابی سوچ‘ رکھنے والوں کی کمی نہیں جن کے لئے یہی ’کار جہاں‘ کسی دوسرے شعبے میں وقت‘ جسمانی توانائیاں اور مال و متاع کی سرمایہ کاری سے زیادہ بہتر ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہوئے ’کنٹونمنٹ بورڈز‘ کے انتخابات میں مجموعی شرح پولنگ 40 فیصد کے آس پاس رہی جبکہ خواتین کی شرح پولنگ کا رجحان بھی اوسطاً مزید دس فیصد کم رہا تو یہی رویہ آئندہ ماہ کے آخر میں ہونے جا رہے ’بلدیاتی انتخابات‘ کے موقع پر بھی دیکھنے میں آئیں گے اور صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنہیں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ یہ بالکل بھی صحت مند اور خوش آئند رجحان نہیں۔ بلدیاتی اِنتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والوں کی کامیابی کے امکانات ’کم شرح پولنگ‘ کی وجہ سے زیادہ ’گھٹ‘ جاتی ہے!

کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ’شرح پولنگ‘ سے کئی ایک اسباق پوشیدہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چھاؤنی کی حدود میں رہنے والوں کو زیادہ سہولیات میسر ہوتی ہیں لیکن وہ نہ تو تعمیر وترقی سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کشادہ و سرسبزوشاداب گردوپیش اُن کے لئے ’باعث شکر‘ ہوتا ہے جس سے ملحقہ ضلعی حکومت کے علاقے محروم ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابی عمل کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے لیکن کنٹونمنٹ بورڈز کے جو علاقے نسبتاً کم ترقی یافتہ ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنی محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ترجیحات کا تعین ’مساوی و غیرامتیازی بنیادوں‘ پر ہونا چاہئے۔

کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے قبل (برسرزمین حقائق اور سائنسی بنیادوں پر) حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے انتخابات نے ہمیں اچانک آ لیا ہو حالانکہ یہ عمل سترہ برس کے تعطل کے بعد ہوا۔ ایبٹ آباد ہی کی مثال ملاحظہ کیجئے جہاں چھاؤنی کی حدود پر تنازعہ انتخابات سے قبل حل ہونا چاہئے تھا۔ ایبٹ آباد کا ایک محلہ ایسا بھی ہے کہ جہاں ایک گھر یونین کونسل شیخ البانڈی میں ہے تو اُس سے جڑا دوسرا گھر یونین کونسل جھنگی کی حدود میں آتا ہے جبکہ بلمقابل تیسرے گھر کے رہنے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے باسی ہیں! علاؤہ ازیں پانچ وارڈوں پر مشتمل کنٹونمنٹ کی حدود میں ایسے متنازعہ علاقے بھی ہیں‘ جن کا شمار بیک وقت ضلعی اور کنٹونمنٹ بورڈ میں کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ’لمبی ڈھیری (سیٹھی مسجد)‘ کا علاقہ جو متنازعہ حیثیت رکھتا اور یہاں کے رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد کے اسمائے گرامی کنٹونمنٹ اور ضلعی (دونوں) انتخابات کی ووٹر لسٹوں کا حصہ ہیں! کیا یہ عجب نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات کے لئے پولنگ اسٹیشن ایسے علاقوں میں بھی بنائے گئے جو مقامی افراد کے لئے بھی غیرمعروف تھے اور چھاؤنی کی حدود میں نہیں آتے تھے۔ اگر اُمیدواروں کی دلچسپی‘ گاڑیاں اور تعلق داری (ذات برادری (جنبہ)‘ زبان و لسان‘ عقیدہ‘ سیاسی وابستگی) آڑے نہ ہوتی تو شرح پولنگ مزید مایوس کن ہوتی! ایبٹ آباد کی کنٹونمنٹ انتظامیہ کو وضاحت بھی کرنی ہے کہ اُنہوں نے پولنگ کے عمل کو ذرائع ابلاغ کی نظروں سے پوشیدہ کیوں رکھا اور نصف وقت گزرنے کے بعد اجازت کیوں مرحمت فرمائی؟

ذرائع ابلاغ عوام کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں جنہیں آمرانہ‘ خودساختہ اُور خودفریبی پر مبنی غیرمنطقی ’ضابطۂ اخلاق‘ سے ’محکوم‘ رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو ’معافی‘ مانگنی چاہئے۔ اشد ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ چھاؤنی کی حدود کا ازسرنو تعین کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ چھاؤنی کو چھاؤنی ہی رہنے دیا جائے۔ فوجی تنصیبات کا شہری علاقوں کے وسط میں قیام سیکورٹی خدشات کو جنم دیتا ہے اور جس طرح ماضی میں آبادیوں سے دور جا کر نئے شہر آباد کئے گئے تھے‘ آج بھی چھاؤنیاں شہروں سے الگ اور فاصلے پر ہونی چاہیءں‘ جہاں کی فیصلہ سازی و معاملات فوج ہی پاس ہوں اور اُن میں برائے نام منتخب نمائندوں کو شریک کرنے کی روایت بھی تبدیل ہونی چاہئے۔ جو معاملات سترہ برس تک بناء منتخب قیادت ’خوش اسلوبی‘ اور ’بہ احسن و شفافیت‘ سے چلائے جاتے رہے‘ تو وہ مزید عرصہ بھی جاری و ساری رکھے جا سکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ منتخب نمائندوں کی اپنی اپنی ترجیحات‘ سیاسی و غیرسیاسی اور سماجی حلقۂ اثرورسوخ سے متعلق مجبوریاں ہوتی ہیں‘ جن سے وابستہ توقعات اِس لئے پوری نہیں ہو پاتیں کیونکہ گلی نالی کی تعمیر‘ صفائی ستھرائی کی صورتحال‘ محصولات کی حسب حال شرح محصولات‘ معاشرت کے اصولوں کے بارے شعور و آگہی عام کرنا‘ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اِس کے لئے ’اصلاح کاری‘ کی خصوصیت اور جس درجے کے ’کردار و تعلیمی قابلیت‘ کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں کے انتخابی عمل میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کے لئے لازمی شرط نہیں!

یہی وجہ ہے کہ بار بار یا بارہا عام انتخابات کے بعد بھی ’کلیدی فیصلوں کو معنویت دینے‘ اور اِجتماعی مفاد کے تحفظ جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پا رہے! تومعلوم ہوا کہ ۔۔۔ ’’بات چاہے کنٹونمنٹ بورڈز کی ہو یا مقامی حکومتوں (بلدیاتی اِداروں) کے قیام کی‘ جمہوری و اِنتخابی عمل کے روائتی اَسلوب سے زیادہ‘ اِس کے مفہوم و معانی عام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
LG polls, what we achieved besides the results

Saturday, April 25, 2015

Apr2015: Outcome of CB Polls

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِنتخابات: کار جہاں!
برطانوی راج کے دوران حفاظتی نکتۂ نظر سے شہری و دیہی علاقوں سے قدرے فاصلے پر نئی فوجی چھاؤنیاں (بستیاں) آباد کیں گئیں جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی سے ترتیب دیا گیا۔ بعدازاں قیام پاکستان کے بعد نہ صرف اِن چھاؤنیوں کو برقرار رکھا گیا بلکہ اِن کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا اور فی الوقت پاکستان میں بیالیس (خیبرپختونخوا میں گیارہ) چھاؤنیاں ہیں‘ جن پر یوں تو صرف اور صرف فوج ہی کا حکم چلتا ہے لیکن سے چونکہ یہ چھاؤنیاں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دیگر علاقوں سے ’گھل مل‘ گئیں ہیں اِس لئے انہیں رقبے و آبادی کے تناسب سے وارڈز میں تقسیم کرکے متعلقہ فیصلہ سازی کے عمل میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو بھی شریک کیا جاتا ہے اگرچہ اِن انتخابات کا اِنعقاد ایک طویل انتظار یعنی 17برس بعد پچیس اپریل کے روز ہوا لیکن 199 وارڈوں (نشستوں) کے لئے ایک ہزار ایک سو اکیاون اُمیدواروں اور دس ہزار سے زائد انتخابی عملے کی تعیناتی سے زیادہ اگر انتخابی عمل میں کسی دوسرے طبقے نے نسبتاً زیادہ دلچسپی لی تو وہ ذرائع ابلاغ تھے‘ جن میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا (نجی نیوز چینلوں) نے آئندہ بلدیاتی انتخابات کی ’الیکشن ٹرانسمیشن‘ کی ڈٹ کر مشق کی جو یقیناًزیادہ بڑے اور زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اگرچہ کنٹونمنٹ بورڈز اراکین کا چناؤ طویل انتظار کے بعد مکمل ہوا لیکن ’کم ترین شرح پولنگ‘ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں ’انتخابی عمل‘ سے ایک خاص طبقے کے مفادات وابستہ ہیں‘ جن کا کوئی دوسرا کام نہیں اور وہ ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب تک تیاری (سوچ بچار) میں اپنا وقت خرچ کرتے ہیں! اُور جانتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی محض گھر گھر جاکر ووٹ مانگنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی سائنس ہے‘ جس کی تعلیم نہ تو جامعات و کتابوں سے ملتی ہے اور نہ ہی اِس کے لئے خلوص‘ امانت و دیانت اور نیک نامی (ساکھ) ہی کام آتی ہیں بلکہ ’دل کی مرادیں‘ پانے کے لئے ایسی ’دھونس‘ کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کا سامنا کرنے کی مخالفین میں ’تاب‘ نہ ہو۔ اگرچہ ’’اُور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت (الیکشنز) کے سوأ‘‘ لیکن ہمارے ہاں ’ہمہ وقت انتخابی سوچ‘ رکھنے والوں کی کمی نہیں جن کے لئے یہی ’کار جہاں‘ کسی دوسرے شعبے میں وقت‘ جسمانی توانائیاں اور مال و متاع کی سرمایہ کاری سے زیادہ بہتر ہے۔

خیبرپختونخوا میں ہوئے ’کنٹونمنٹ بورڈز‘ کے انتخابات میں مجموعی شرح پولنگ 40 فیصد کے آس پاس رہی جبکہ خواتین کی شرح پولنگ کا رجحان بھی اوسطاً مزید دس فیصد کم رہا تو یہی رویہ آئندہ ماہ کے آخر میں ہونے جا رہے ’بلدیاتی انتخابات‘ کے موقع پر بھی دیکھنے میں آئیں گے اور صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنہیں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ یہ بالکل بھی صحت مند اور خوش آئند رجحان نہیں۔ بلدیاتی اِنتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والوں کی کامیابی کے امکانات ’کم شرح پولنگ‘ کی وجہ سے زیادہ ’گھٹ‘ جاتی ہے!

کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ’شرح پولنگ‘ سے کئی ایک اسباق پوشیدہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چھاؤنی کی حدود میں رہنے والوں کو زیادہ سہولیات میسر ہوتی ہیں لیکن وہ نہ تو تعمیر وترقی سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کشادہ و سرسبزوشاداب گردوپیش اُن کے لئے ’باعث شکر‘ ہوتا ہے جس سے ملحقہ ضلعی حکومت کے علاقے محروم ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابی عمل کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے لیکن کنٹونمنٹ بورڈز کے جو علاقے نسبتاً کم ترقی یافتہ ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنی محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ترجیحات کا تعین ’مساوی و غیرامتیازی بنیادوں‘ پر ہونا چاہئے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے قبل (برسرزمین حقائق اور سائنسی بنیادوں پر) حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے انتخابات نے ہمیں اچانک آ لیا ہو حالانکہ یہ عمل سترہ برس کے تعطل کے بعد ہوا۔ ایبٹ آباد ہی کی مثال ملاحظہ کیجئے جہاں چھاؤنی کی حدود پر تنازعہ انتخابات سے قبل حل ہونا چاہئے تھا۔ ایبٹ آباد کا ایک محلہ ایسا بھی ہے کہ جہاں ایک گھر یونین کونسل شیخ البانڈی میں ہے تو اُس سے جڑا دوسرا گھر یونین کونسل جھنگی کی حدود میں آتا ہے جبکہ بلمقابل تیسرے گھر کے رہنے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے باسی ہیں! علاؤہ ازیں پانچ وارڈوں پر مشتمل کنٹونمنٹ کی حدود میں ایسے متنازعہ علاقے بھی ہیں‘ جن کا شمار بیک وقت ضلعی اور کنٹونمنٹ بورڈ میں کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ’لمبی ڈھیری (سیٹھی مسجد)‘ کا علاقہ جو متنازعہ حیثیت رکھتا اور یہاں کے رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد کے اسمائے گرامی کنٹونمنٹ اور ضلعی (دونوں) انتخابات کی ووٹر لسٹوں کا حصہ ہیں! کیا یہ عجب نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات کے لئے پولنگ اسٹیشن ایسے علاقوں میں بھی بنائے گئے جو مقامی افراد کے لئے بھی غیرمعروف تھے اور چھاؤنی کی حدود میں نہیں آتے تھے۔ اگر اُمیدواروں کی دلچسپی‘ گاڑیاں اور تعلق داری (ذات برادری (جنبہ)‘ زبان و لسان‘ عقیدہ‘ سیاسی وابستگی) آڑے نہ ہوتی تو شرح پولنگ مزید مایوس کن ہوتی! ایبٹ آباد کی کنٹونمنٹ انتظامیہ کو وضاحت بھی کرنی ہے کہ اُنہوں نے پولنگ کے عمل کو ذرائع ابلاغ کی نظروں سے پوشیدہ کیوں رکھا اور نصف وقت گزرنے کے بعد اجازت کیوں مرحمت فرمائی؟ ذرائع ابلاغ عوام کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں جنہیں آمرانہ‘ خودساختہ اُور خودفریبی پر مبنی غیرمنطقی ’ضابطۂ اخلاق‘ سے ’محکوم‘ رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو ’معافی‘ مانگنی چاہئے۔ اشد ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ چھاؤنی کی حدود کا ازسرنو تعین کیا جائے۔

 بہتر ہوگا کہ چھاؤنی کو چھاؤنی ہی رہنے دیا جائے۔ فوجی تنصیبات کا شہری علاقوں کے وسط میں قیام سیکورٹی خدشات کو جنم دیتا ہے اور جس طرح ماضی میں آبادیوں سے دور جا کر نئے شہر آباد کئے گئے تھے‘ آج بھی چھاؤنیاں شہروں سے الگ اور فاصلے پر ہونی چاہیءں‘ جہاں کی فیصلہ سازی و معاملات فوج ہی پاس ہوں اور اُن میں برائے نام منتخب نمائندوں کو شریک کرنے کی روایت بھی تبدیل ہونی چاہئے۔ جو معاملات سترہ برس تک بناء منتخب قیادت ’خوش اسلوبی‘ اور ’بہ احسن و شفافیت‘ سے چلائے جاتے رہے‘ تو وہ مزید عرصہ بھی جاری و ساری رکھے جا سکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ منتخب نمائندوں کی اپنی اپنی ترجیحات‘ سیاسی و غیرسیاسی اور سماجی حلقۂ اثرورسوخ سے متعلق مجبوریاں ہوتی ہیں‘ جن سے وابستہ توقعات اِس لئے پوری نہیں ہو پاتیں کیونکہ گلی نالی کی تعمیر‘ صفائی ستھرائی کی صورتحال‘ محصولات کی حسب حال شرح محصولات‘ معاشرت کے اصولوں کے بارے شعور و آگہی عام کرنا‘ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اِس کے لئے ’اصلاح کاری‘ کی خصوصیت اور جس درجے کے ’کردار و تعلیمی قابلیت‘ کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں کے انتخابی عمل میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کے لئے لازمی شرط نہیں! یہی وجہ ہے کہ بار بار یا بارہا عام انتخابات کے بعد بھی ’کلیدی فیصلوں کو معنویت دینے‘ اور اِجتماعی مفاد کے تحفظ جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پا رہے! تومعلوم ہوا کہ ۔۔۔ ’’بات چاہے کنٹونمنٹ بورڈز کی ہو یا مقامی حکومتوں (بلدیاتی اِداروں) کے قیام کی‘ جمہوری و اِنتخابی عمل کے روائتی اَسلوب سے زیادہ‘ اِس کے مفہوم و معانی عام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

Friday, April 24, 2015

Apr2015: Slowpaced maintanance by NHA

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
یونین کونسل سلہڈ
خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی رونقیں موسم گرما میں دیدنی ہوتی ہیں۔ ملک کے وسطی‘ جنوبی اور میدانی علاقوں کے رہنے والوں کو جب گرمی کی شدت ستاتی ہے تو وسائل رکھنے والے جنت نظیر بالائی علاقوں کی وادیوں کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں کے مسائل میں سرفہرست آمدروفت کے وسائل کی خستہ حالی‘ پینے کے صاف پانی کی قلت‘ صفائی کی ابتر صورتحال اور برقی رو کا ناقابل بھروسہ نظام ہے۔

 ایبٹ آباد میں کل 51 یونین کونسلیں ہیں جن میں شامل یونین کونسل سلہڈ کا بیشتر حصہ پہاڑی رقبے یا اونچے نیچے ٹیلوں پر مشتمل ہے۔ دس برس قبل یونین کونسل کی آبادی 21 ہزار جبکہ ایک اندازے کے مطابق موجودہ آبادی 40 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور چونکہ ’ہزارہ ڈویژن‘ کی مجموعی آبادی بڑھی ہے جس کا اِجتماعی اَثر یونین کونسل سلہڈ پر دیکھا جاسکتا ہے جہاں ’سبزی منڈی‘ اور ’فروٹ منڈی‘ جیسے پھیلنے والے کاروبار نے اِس یونین کونسل کو ایک ایسا ’غیراعلانیہ تجارتی مرکز‘ بنا دیا ہے‘ جو گردوپیش گنجان آباد علاقوں کی آبادی کے لئے ’درد سر‘ اور اِس کی وجہ سے مقامی افراد کے ’ناک میں دم‘ دکھائی دیتا ہے۔ ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کی طرح سبزی منڈی و فروٹ منڈی میں صفائی کی ابتر صورتحال جیسی تشویشناک حالت یہاں کا رہائشیوں کے لئے مکھیوں‘ مچھروں اور تعفن کا مستقل ذریعہ ہے جس کے مستقل حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مقامی اَفراد کا مطالبہ ہے کہ ’’سلہڈ گاؤں کے رہنے والوں کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ کا سبب بننے والے محرکات پر غور ہونا چاہئے جیسا کہ زیرتعمیر سڑک پر ترقیاتی کام عرصہ چار ماہ سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا! اَپر سلہڈ محلہ درّہ کے رہائشی توقیر اَحمد جدون کے بقول ’’سبزی منڈی اور فروٹ منڈی کا قیام 1983-84ء میں عمل میں لایا گیا تھا‘ جہاں مجموعی طور پر دکانوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو چکی ہے‘ جبکہ سبزی و پھل ذخیرہ کرنے کے گودام الگ ہیں۔ فجر سے دن دس بجے تک سبزی و فروٹ کی ہول سیل نیلامی بذریعہ بولی کی جاتی ہے جبکہ بعدازاں پرچون فروخت اور تمام دن دیگر شہروں سے اجناس کی آمد جاری رہتی ہے۔ بھاری ٹریفک کے سبب ہزارہ ڈویژن کی اِس ’گیٹ وے یونین کونسل‘ کے رہائشی مشکلات سے دوچار ہیں‘ جن کا مستقل حل ضروری ہے۔ سلہڈ کا دوسرا مسئلہ شاہراہ کی تعمیر کا وہ منصوبہ ہے جو عرصہ چار ماہ سے سست روی سے جاری ہے۔ اہل سلہڈ کی اَکثریت نے اِتفاق کیا ہے کہ اگر آئندہ چند ہفتوں میں سلہڈ سے گزرنے والی ’مرکزی شاہراہ‘ پر تعمیرات کا کام مکمل نہیں کیا جاتا تو احتجاج کرتے ہوئے مذکورہ شاہراہ پر ہرقسم کی آمدورفت معطل کر دی جائے گی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ جاری تعمیراتی کام سے اُٹھنے والے گردوغبار نے نہ صرف سرسبزوشاداب علاقے کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اِہل علاقہ بالخصوص بچے‘ خواتین اور بزرگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں!‘‘ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 17 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 46 کا آغاز بھی ’یونین کونسل سلہڈ‘ ہی سے ہوتا ہے‘ جس سے گزر کر ’ہزارہ ڈویژن‘ کے صدر مقام ایبٹ آباد تک رسائی ممکن ہوتی ہے لیکن جس انداز میں ’یونین کونسل سلہڈ‘ کے مسائل مقامی باشندوں اُور ہر ملکی و غیرملکی سیاح کا اِستقبال کرتے ہیں‘ وہ کسی بھی صورت خوش آئند نہیں اور متعلقہ منتخب نمائندوں سمیت فیصلہ سازوں کی توجہ کے مستحق ہیں تاکہ ’حقیقی تبدیلی‘ کا اطلاق عملی طور پر دکھائی دے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے اَسسٹنٹ ڈائریکٹر فتح اللہ کے مطابق ’’سلہڈ کے مقام پر چونکہ زیرزمین سڑک کی حالت اس قدر خراب ہے کہ سڑک کی اوپری سطح بچھانے اور مرمت کے کام میں باوجود کوشش بھی تیزی نہیں آ رہی۔ دوسری اہم بات مذکورہ شاہراہ پر ٹریفک کا دباؤ ہے‘ جن میں مال بردار بھاری گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے‘ اِس لئے ایک کلومیٹر سے کچھ زیادہ کے اِس ترقیاتی کام پر معمول سے زیادہ وقت خرچ ہو رہا ہے لیکن جب اُن سے اب تک مکمل ہوئے کام کی شرح اور تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ پوچھی گئی تو اُنہوں نے ضلعی دفتر سے رابطہ کرنے کا (مفت) مشورہ دیا۔

یہ امر لائق توجہ رہے کہ این ایچ اے وفاقی ادارہ ہے جہاں ہفتہ وار دو دن (ہفتہ اور اتوار) تعطیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کے روز کسی انتظامی نگران یا افسر کا دفتر میں ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست (یعنی جان کی امان مانگتے ہوئے) ایک پرسنل اسسٹنٹ نے کہا کہ ’’صاحبان کی اکثریت جمعہ کا مبارک دن خصوصی طور پر ترقیاتی کاموں کا دورہ کرنے کے لئے مخصوص رکھتے ہیں جس کے لئے صبح حاضری لگانے کے بعد سرکاری گاڑی میں سرکاری ایندھن اور بسا اوقات سرکاری ڈرائیور کے ساتھ اپنے آبائی علاقوں کو سدھار جاتے ہیں!‘‘ یاد رہے کہ ’’ایبٹ آباد میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے جنرل منیجر عبداللہ جان ہیں جن کے ماتحت ڈائریکٹر بابو رام‘ اُن کے ماتحت دیکھ بھال اور تعمیر و مرمت کے شعبۂ مینٹیننس کے نگران ڈپٹی ڈائریکٹر سیّد نواز ہیں۔ اُن کے ماتحت اسٹنٹ ڈائریکٹر فتح اللہ ہیں اور اُن کے ماتحت انسپکٹر کا نام ثناء اللہ ہے۔ یہ سبھی افسر اور ماتحت عملہ سلہڈ کی ایک کلومیٹر شاہراہ کی مرمت کے عمل کی گذشتہ کئی ماہ سے نگرانی کر رہے ہیں‘ جن سے باوجود کوشش بھی نہ تو دفتری نمبروں اور نہ ہی موبائل نمبرز پر رابطہ ممکن ہوسکا۔
Road constructions projects in Abbottabad are slow pace

Apr2015: Our own fight

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اپنی جنگ!
پشاور میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری ’راز کی بات‘ نہیں رہی بلکہ منظم و معمولی جرائم سمیت دہشت گردی کی وارداتیں اگر کم ہوئی ہیں تو کسی نہ کسی کو ’کریڈٹ‘ صوبائی حکومت اُور ملحقہ قبائلی علاقے ’خیبرایجنسی‘ میں جاری فوجی کاروائی کو جاتا ہے‘ جس میں پاک فوج کے جوان قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت نے خلوص دل سے جتنی بھی کوششیں کی ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پولیس جیسے محکمے میں سیاسی مداخلت کم ترین سطح کو چھو رہی ہے اور جہاں سیاسی مداخلت ہو بھی رہی ہے تو وہ ماضی کی طرح کھلم کھلا نہیں۔ البتہ توقع تھی کہ ’تھانہ اور پٹوار خانہ کلچر‘ میں تبدیلی کا وعدہ سرکاری محکموں کی ازسرنو تنظیم نو‘ سرکاری ملازمتوں کے قواعد پر نظرثانی‘ سزا و جزا اور نظم و ضبط متعارف کرانے‘ اداروں کو باہم مربوط کرنے کے ساتھ محکمانہ سطح پر بلاامتیاز احتساب برپا کیا جائے گا۔ پولیس اہلکاروں کی کارکردگی کا معیار اور اُن کے خلاف شکایات سے متعلق خفیہ اداروں سے تحقیقات کرائی جائیں گی۔ پولیس سمیت جملہ سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات میں ہوئے ردوبدل یا غیرمعمولی اضافے کا نوٹس لیاجائے گا۔ اِس سلسلے میں ادنی‘ ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے نجی اداروں میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کے کوائف اکٹھا کر لئے جاتے تو کام مزید آسان ہو سکتا تھا کہ ’سالانہ دس لاکھ روپے‘ سے زائد ٹیوشن فیسوں کی مد میں ادا کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق کن کن سرکاری محکموں سے ہے! یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ’احتساب کے خوف‘ سے ’مالی و انتظامی بدعنوانی کی شرح میں کمی‘ ضرور آئی ہے لیکن ’طریقۂ واردات‘ بھی تو بدل چکا ہے اور جہاں بس چلتا ہے‘ وہاں اگلی پچھلی کسر نکال لی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس جیسے بظاہر خدمتگار و مستعد محکمے کے بارے میں عام آدمی کی رائے آج بھی وہی ہے جو دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل تھی! کوئی نہیں چاہتا کہ وہ خود کو تھانہ کچہری کے جنجال پورہ میں کھڑا پائے؟ یہی وجہ ہے کہ سفید پوش اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تحریک انصاف پر اعتراض کرنے والوں کو کم از کم اس بات کا اعزاز تو دینا ہی ہوگا کہ امن و امان کی صورتحال اِس حد تک تو بہتر کر لی گئی ہے کہ ’وی وی آئی پیز‘ سڑکوں پر کھلے عام پیدل چل پھر سکتے ہیں۔ وگرنہ اس سے قبل گورنر خیبرپختونخوا اپنی سرکاری رہائشگاہ سے پیدل چلتے ہوئے چھاؤنی جیسی چاراطراف سے حفاظتی حصار والے علاقے میں بھی چہل قدمی نہیں کر سکتے تھے۔ بہرکیف سیکورٹی حالات اگر معمول پر آ رہے ہیں تو اِن کی رفتار‘ پائیداری اور ان کے بارے میں تاثر قابل بھروسہ نہیں۔ چوبیس اپریل کے روز گلبہار پولیس اسٹیشن کے باہر ہوئے بم دھماکے نے پشاور کے اُن گنجان آباد علاقوں کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے‘ جو براستہ رنگ روڈ قبائلی علاقوں سے جا ملتے ہیں!

تین اطراف سے قبائلی علاقوں میں گھرے ہوئے پشاور کے ’داخلی امن‘ کا انحصار اُس کھلم کھلا آمدورفت پر ہے‘ جو غیرروائتی راستوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اب تک گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں کو کئی ایک حفاظتی چیک پوسٹوں سے گزرنے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے اور حال ہی میں یونیورسٹی ٹاؤن کی حدود میں گرفتار ہونے والوں سے تو اسلحہ و بارود کے ساتھ پہلی مرتبہ پیٹرول بھی برآمد ہوا ہے‘ جو کسی دہشت گرد واردات کے بعد نشانہ بننے والوں کی لاشوں اور ثبوت مٹانے کے لئے آگ لگانا چاہتے تھے۔ یہ ایک دل ہلا دینے والی حقیقت ہے کہ عسکریت پسند ہر اُس انتہاء تک جا سکتے ہیں‘ جہاں اِنسانیت کانپ جائے! اتنا گہرا زخم لگے کہ ضبط و برداشت کرنا مشکل ہو! پشاور پولیس کے اعلی انتظامی اہلکار کے بقول پشاور کو محفوظ بنانے کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ وہ اثرورسوخ ہے‘ جو منتخب نمائندے رکھتے ہیں۔ مختلف ادوار میں بھرتی کئے گئے سرکاری ملازمین کی سیکورٹی کلیئرنس بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ سرکاری سطح پر فیصلہ سازی اور حکمت عملیاں راز نہیں رکھی جا سکتیں۔ اگرچہ پولیس کا موجودہ وائرلیس کیمونیکیشن کا نظام ڈیجیٹل ہے لیکن اس کے باوجود ایسی اطلاعات ملی ہیں جس میں عسکریت پسندوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کو پولیس کی آمد سے قبل ہی اطلاع ہوتی رہی۔

یہ ایک پیچیدہ منظرنامہ ہے۔ عسکریت پسندوں کے مذہبی و سیاسی جماعتوں سے بھی تعلق ہیں اور اُن کے پاس ایسے سہولت کار بھی ہیں‘ جہاں قیام و طعام کی سہولیات اور طویل عرصے کے لئے روپوش رہا جاسکتا ہے۔ کیا آپ پولیس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پشاور کے ہر ایک گھر کی نگرانی کرے۔ پولیس بیک وقت کس کس محاذ پر لڑے۔ افرادی و تکنیکی وسائل محدود ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے کہ پشاور میں پولیس تھانہ جات کی ضروریات کے لئے اضافی مالی وسائل مانگے گئے تھے‘ جو تاحال فراہم نہیں کئے گئے۔ پولیس جرائم پیشہ عناصر‘ بھتہ خوروں‘ اغوأ کاروں‘ قبرستانوں اور شہری و دیہی حدود میں متحرک قبضہ مافیا‘ منشیات فروشوں‘ تجاوزات کی سرپرستی کرنے والوں‘ طرح طرح کے جوئے خانوں‘ سٹریٹ کرائمز کرنے والے چھوٹے بڑے گروہوں سے تن تنہا نمٹے یا عسکریت پسندوں‘ اِنتہاء پسندوں اُور اُن کے سہولت کاروں پر توجہ دے؟

اِس سلسلے میں شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والے اپنے گردوپیش پر نظر رکھنا ہوگی‘ سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور جہاں کہیں بھی مشکوک افراد کی آمدورفت یا بودوباش نظر آئے تو خاموشی کے ساتھ متعلقہ پولیس تھانے یا اگر زیادہ احتیاط مقصود ہو تو پولیس کنٹرول روم ( 9212222 -091) کو مطلع کریں۔
ہر تھانے کو پہلے ہی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ پولیس سے رابطہ کے نمبر مرکزی چوراہوں پر آویزاں کریں اور یہ عمل مکمل بھی ہوچکا ہے۔ اگر ہمیں انتہاء پسندی کا پرچار کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہے اور ہمارا ہدف مسلح گروہوں کو شکست دینا ہے تو اِس جنگ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ معاشرے کے ہر فرد (مرد اُور عورت) کو اَپنا اَپنا کردار اَدا کرنا ہوگا۔‘‘
Our own war

Thursday, April 23, 2015

Apr2015: E-Governance without Internet, impossible!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مستعد طرزِعمل
اصلاح پسند خیبرپختونخوا حکومت جن خباثتوں سے پاک نئے طرز حکمرانی اور عہد کی تشکیل کے لئے پرعزم و پرجوش ہے اُس میں ’انٹرنیٹ‘ کے ذریعے رابطہ کاری کے وسائل سے استفادے کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ طرزحکمرانی میں جدت(اصلاح)‘ علاج معالجے اور درس تدریس کے شعبوں میں انٹرنیٹ کا استعمال‘ حتیٰ کہ اِسی کی بنیاد پر مستقبل میں شفاف عام انتخابات کے انعقاد پر ماہرین تحقیق اپنی جگہ لیکن پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع بالخصوص دور دراز علاقوں میں برق رفتار انٹرنیٹ تک رسائی ممکن بنانا اشد ضروری ہے کیونکہ ارباب اختیار کو اِس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ احتساب ہو یا انٹرنیٹ‘ اگر دونوں کی رفتار سست ہوگی تو وقت گزرنے کے ساتھ اِس سے ادویات کا مرض کے خلاف مزاحمتی کردار کمزور ہوتا چلا جائے گا!

سوال یہ بھی ہے کہ ’انٹرنیٹ کے وسائل سستے کب ہوں گے؟‘ ایک طرف حکومتی ادارے کی ’انٹرنیٹ بینڈوتھ‘ پر اجارہ داری ہے تو دوسری طرف نجی ادارے تھری جی اور فور جی موبائل ٹیکنالوجی کو موبائل فون ہی کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہتے اُور اُنہوں نے ایسے آلات کی فروخت شروع کر دی ہے جن سے بناء موبائل فون بھی انٹرنیٹ کا ’وائی فائی‘ استفادہ ممکن ہوسکتا ہے اور حکومت کے مقرر کردہ نرخ کے مقابلے ایک گھریلو صارف کو 20گیگابائٹ (جی بی) تک کا ماہانہ ڈیٹا پلان پندرہ سو روپے کا ملتا ہے جس کی رفتار حکومتی ادارے کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ سرمایہ پرست طبقہ اِس پورے کھیل کو بنائے ہوئے ہو‘ جس میں حکومت کی بجائے نجی اداروں کے مفاد کا زیادہ خیال رکھا جا رہا ہے؟ حال ہی میں چین کے صدر کی پاکستان آمد اور پھر اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کا ذکر تو ملتا ہے لیکن انٹرنیٹ کے تیزرفتار وسائل کی وسعت کے لئے خاطرخواہ اقدامات یا اعلانات سننے میں نہیں آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ عالمی مارکیٹ میں ہر گزرتے سال کے ساتھ ’انٹرنیٹ بینڈوتھ‘ کے دام کم ہوتے جا رہے ہیں جس کا اعدادوشمار میں بیان کیا جائے تو یہ تناسب سالانہ تقریباً پچیس سے پینتیس فیصد بنتا ہے۔ رواں برس عالمی مارکیٹ میں فی گیگابائٹ ڈیٹا ٹرانسفر کی قیمت پاکستانی کرنسی میں 64 روپے بنتی ہے۔ عام صارف کو بارہ سو پچاس روپے ماہانہ میں ملنے والا ایک ایم بی پی ایس کی بجائے آٹھ ایم بی پی ایس (میگا بائٹس فی سیکنڈ) کا انٹرنیٹ کنکشن ملنا چاہئے جبکہ ایک ایم بی پی ایس کی قیمتِ زیادہ سے زیادہ دو سو روپے ہونی چاہئے تھی! پاکستان میں جس قیمت پر ایک ایم بی پی ایس کا کنکشن دستیاب ہے‘ اسی قیمت یا اس سے کچھ زیادہ پر ہمسایہ ملک بھارت میں صفِ اول کی کمپنیاں چار سے سولہ ایم بی پی ایس تک کے کنکشن فراہم کر رہی ہیں! ان پیکجز میں ڈاؤن لوڈنگ اور اپ لوڈنگ کی ایک حد مقرر ہوتی ہے لیکن کیا پاکستان میں اتنی کم قیمت پر اتنی بہترین رفتار کا انٹرنیٹ میسر ہے؟ پاکستان بھر میں ڈھائی کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں‘ جن میں نصف سے زیادہ تعداد یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد انٹرنیٹ کا بذریعہ موبائل فون کے ذریعے ہرجگہ سے آن لائن ہو سکتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ انٹرنیٹ صارفین میں سے صرف کم و بیش چھ فیصد پاکستانی تیز اور بلاتعطل انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ کیا یہ عجب نہیں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی کل تعداد کا صرف چھ فیصد ہی مطمئن ہو! اگر ہم اٹھارہ یا اُنیس کروڑ کی آبادی کا تناسب نکالیں تو کل 13 فیصد پاکستانی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے 161ویں نمبر پر ہے! خطے کے دو ممالک افغانستان اور بنگلہ دیش ہی ہم سے پیچھے ہیں۔

ہمارا مسئلہ ’بھیڑ چال‘ کا بھی ہے۔ اگر کسی ایک صوبے میں ’طلباء و طالبات کو لیپ ٹاپ‘ دیئے گئے تو بجائے اپنے معروضی حالات کو مدنظر رکھنے کے ہم نے بھی مقبولیت کا وہی انداز اپنایا‘ جس کے خاطرخواہ نتائج اِس لئے برآمد نہیں ہوسکتے کیونکہ بناء کم قیمت‘ مستعد و مستحکم انٹرنیٹ کی فراہمی کو ممکن نہیں بنایا جاتا اُس وقت تک انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کسی بھی شعبے میں ’ای گورننس‘ متعارف سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکے گا۔ قبل ازیں انہی سطور کے ذریعے خیبرپختونخوا کے مرکزی شہروں کو مکمل یا جزوی طور پر ’وائی فائی ہاٹ سپاٹ‘ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس سے شعبۂ تعلیم میں سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جا سکتاہے کیونکہ اگر گھر گھر استاد کو بھیجنے سے بیچارہ معلم تھک کے ٹوٹ جائے گا لیکن اگر گھر گھر وائی فائی کے ذریعے طلباء و طالبات ایک ایسے وسیلے سے جڑے رہیں جہاں چوبیس گھنٹے معلم ’حاضر جناب‘ رہیں تو شرح خواندگی کے ساتھ علوم کی منتقلی‘ رہنمائی اور تحقیق کے شعبوں میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھا جاسکے گا۔

بناء ترجیحات اہداف کسی کام کے نہیں اور نہ ہی اہداف بناء ترجیحات کی تشکیل سے کوئی مقصد حاصل کیا جا سکے گا۔ ہمیں کچھ ایسے ٹرینڈز (مستعد طرزعمل) اختیار کرنے کو پیش نظر رکھنا ہوگا‘ جو نوجوانوں کی دلچسپی‘ اُن کے عمومی و خصوصی رجحانات (ٹیکنالوجی دوست روئیوں) اُور عالمی سطح پر رابطہ کاری کے لئے اختیار کئے جانے والے وسائل پر اعتماد کا کھلا اظہار ہیں۔ ٹیکنالوجی ہی کی برکات سے خلائیں تسخیر اور زمین کی تہہ میں چھپے خزانوں کا حجم معلوم کر لیا جاتا ہے۔ دوراندیشی متقاضی ہے کہ نیند کی حالت میں نقل و حرکت اُور بول چال کی لاحق بیماری کا علاج کروایا جائے‘ جس سے متاثرہ افراد میں نہ تو بصیرت شرط ہے اُور نہ ہی بصارت!

Internet need to be cheaper and speedy for e-revolution

TRANSLATION Back to Shandur

Back to Shandur
شیندور کا تنازعہ
خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان حکومتوں کے درمیان ایک دیرینہ تنازعہ حل ہونے کی وجہ سے دنیا کے بلند ترین کھیل کے میدان ’شیندور‘ میں ہونے والے سالانہ کھیلوں کے مقابلے جن میں ’پولو‘ کا مقابلہ عالمی توجہ کا مرکز ہوتا ہے کے روائتی گرمجوش مقابلوں کے انعقاد کے امکانات روشن ہو گئے ہیں اور تین برس کے وقفے کے بعد رواں برس 7 سے 9 اگست تک شیندور میلے کے دوران گلگت بلتستان کی پولو ٹیم بھی روائتی حریف کے مدمقابل ہوگی۔ یاد رہے کہ شیندور کا میدانی علاقہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کا حصہ ہے جو سطح سمندر سے 12 ہزار 500 فٹ بلندی پر واقع ہے۔

شیندور کے مقام کے حوالے سے جب خیبرپختونخوا اُور وفاق کے زیرانتظام گلگت بلتستان حکومتوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا تو اُس کے حل کے لئے کسی نے خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا حتیٰ کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اِس سلسلے میں خاطرخواہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے چھ وزرأ پر مشتمل ایک وفد نے پشاور کا دورہ کیا‘ جن کا صوبائی دارالحکومت میں پرتپاک استقبال کیا گیا اور اِس وفد نے خیبرپختونخوا حکومت سے مذاکرات کئے تاکہ شیندور کا تنازعہ حل کیا جاسکے۔20 اپریل کو دونوں فریقین نے ایک مشترکہ کانفرنس میں اعلان کیا کہ شیندور پولو فیسٹول کا انعقاد دونوں حکومتیں مل کر کریں گی۔ تنازعہ کی وجہ گلگت بلتستان کی پولو ٹیم‘ حکام اُور شائقین نے ’شیندور میلے‘ میں شرکت کرنا ترک کردی تھی جس کی وجہ سے اِس میلے کا خاطرخواہ لطف نہیں آ رہا تھا۔ میلے کے دُوران روائتی ٹیموں چترال اور گلگت بلتستان کے مابین مقابلہ ہوتا ہے جو جذبات سے بھرپور ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر برائے کھیل‘ ثقافت و امور نوجوانان امجد آفریدی کے بقول ’’گلت بلتستان اور چترال کی ٹیموں کے درمیان پولو مقابلہ پاکستان و بھارت کی کرکٹ‘ ہاکی و دیگر کھیلوں کے مقابلوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ دونوں حکومت کے درمیان تنازعہ حل ہو جانے کے بعد اگست میں شیندور پولو مقابلہ ہونے امکانات ہیں جب غزر‘ گلگت‘ ہنزہ اور نگر کے علاؤہ سکردو بلتستان کے دور دراز علاقوں سے بھی شائقین شرکت کریں گے۔ گذشتہ تین برس سے گلگت بلتستان کی ٹیم شریک نہ ہونے سے ’شیندور فیسٹیول‘ میں شائقین کی حاضری نسبتاً کم رہی۔ ماضی میں جو حاضری دس ہزار شائقین کی ہوتی تھی وہ کم ہو تین ہزار رہ گئی۔ گذشتہ برس (سال دو ہزار چودہ) کے دوران صرف چند غیرملکی سیاح ہی شیندور میلہ دیکھنے آئے۔ شیندور میلے کو دیکھنے کے لئے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ پاکستان میں تعینات غیرملکی سفیر بھی بڑی تعداد میں آتے تھے جس کی وجہ سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں بھی پیدا ہوتی تھیں۔

جن وجوہات کی بناء پر گلگت بلتستان کی پولو ٹیم نے ’شیندور فیسٹول‘ میں شرکت کرنے سے معذرت کی‘ وہ انتہائی معمولی نوعیت کی باتیں تھیں جیسا کہ اُنہیں شائقین کے بیٹھنے کے لئے مختص مقامات پر اعتراض تھا کہ وہ بیٹھنے کی جگہ زیادہ ہونی چاہئے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے دور دراز یا مرکزی علاقوں سے آنے والے شائقین کو خیبرپختونخوا آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا کیونکہ حفاظتی انتظامات آڑے آتے تھے۔ گلگت بلتستان کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ مہمان خصوصی جس انعامی رقم کا اعلان کریں وہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان برابر تقسیم ہو۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اِن تمام تحفظات کو دور کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کیونکہ شیندور پولو فیسٹول جیسا مقبول زمانہ اور اپنی نوعیت کے اس منفرد تفریحی ذریعے سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہم نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گلگت بلتستان کے کھیل و سیاحت کے وزیر عنایت اللہ شمالی نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ اِس مرتبہ ’شیندور فیسٹیول‘ سے وابستہ شائقین کی توقعات پوری ہوں گے اور اُنہیں خوب محظوظ ہونے کا موقع ملے گا جبکہ ملکی و غیرملکی سیاح بھی شیندور فیسٹیول دیکھنے آئیں گے۔

جس انداز میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان حکومتوں نے اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے دور کئے ہیں وہ دیگر صوبوں کے لئے بھی سبق آموز ہیں کہ وہ بھی ایک دوسرے سے حدود‘ پانی کی تقسیم و دیگر تنازعات بات چیت کے ذریعے ہی زیادہ بہتر و مؤثر انداز میں حل کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان زیادہ گھمبیر قسم کے تنازعات بھی اسی طریق سے حل ہونے چاہئے جیسا کہ تین مقامات پر حدود کے تعین کا مسئلہ ہے۔ یہ مقامات کوہستان دیامر‘ درہ بابوسر اور شیندور کے ہیں۔ اگرچہ گلگت بلتستان حکومت کے کچھ تحفظات دور تو ہوئے ہیں جو ’شیندور میلے‘ میں شرکت سے متعلق تھے لیکن شیندور کے علاقے پر ملکیت کے حوالے سے وہ اپنے دعوے سے ابھی دستبردار نہیں ہوئے اور اس کی ملکیت کا دعویٰ چترال کا بھی ہے جو عرصہ دراز سے اِس علاقے پر کنٹرول رکھتا ہے۔
دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ کا معاملہ قدرے سنگین ہے جو خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان اور ملحقہ گلگت بلتستان کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے لئے ڈیم کے بجلی گھر کا مقام تبدیل کیا گیا اور اسے ایک ایسے مقام پر تعمیر کیا گیا جس سے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان دونوں کو فائدہ ہو۔ اسی طرح ڈیم کا اصل نام ’بھاشا ڈیم‘ تھا جسے تبدیل کرکے ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ کر دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں حدود کا تعین کرنے کے لئے سپرئم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج تنویر احمد خان کی سرپرستی میں کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جبکہ اپرکوہستان اور دیامیر کے رہنے والوں کے درمیان ہوئی ایک مسلح جھڑپ جس میں کئی ایک افراد زخمی ہو گئے تھے کے بعد وفاقی حکومت کے زیرکنٹرول ’پنجاب رینجرز‘ کے دستے علاقے میں تعینات کر دیئے گئے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں جملہ تنازعات خوش اسلوبی سے حل کر لئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ کثیرالمقاصد ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ پر لاگت کا تخمینہ 14 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس سے 4500 میگاواٹ بجلی حاصل ہونے کے علاؤہ زراعت کی ترقی اور تربیلا ڈیم کی عمر میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے دیامیر بھاشا ڈیم سے ملحقہ 32 دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 25 ہزار افراد کی نقل مکانی اور تعمیراتی کاموں کے لئے 101 ارب روپے منظور کئے ہیں۔ شیندور فیسٹول کے حوالے سے تنازعات تو معمولی نوعیت کے تھے جو اپنی فطرت میں زیادہ سنگین نوعیت کے نہیں لیکن اراضی کی ملکیت اور حدود کے تنازعات زیادہ سنگین نوعیت ہیں جن کے حل کے لئے پیشرفت ہونی چاہئے اور وفاقی اکائیوں کو مابین اختلافات و تنازعات کے حل کے لئے عملی کوششیں کرنی چاہئیں‘ تاکہ تنازعات کے سبب متاثر ہونے والی خوشحالی و ترقی کا معطل عمل آگے بڑھ سکے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ:  شبیر حسین اِمام)
Back to Shandur

Wednesday, April 22, 2015

Apr2015: LG Polls and Development Goals

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلدیاتی انتخابات: ترقیاتی ترجیحات
خیبرپختونخوا میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ حکومت کا کردار شروع دن سے ایک ایسے ’بت شکن‘ کا رہا‘ جس کے سامنے پہاڑ جیسی مشکلات کھڑی تھیں۔ سرمایہ پرست‘ سیاسی تعصبات کو ہوا دینے والے‘ اختیارات کے غلط استعمال سے مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے دلدادہ‘ سرکاری وسائل کی لوٹ مار کے سرپرست‘ رشوت ستانی کا بازار گرم کرکے طبقاتی نظام کے خالق و مالک اُور سفارش و اقرباء پروری پر مبنی طرز حکمرانی کی روایت جاری رکھنے والوں کے لئے ’تبدیلی‘ کا نعرہ ہوش و حواس اُور نیندیں اُڑانے کے لئے کافی تھا۔ ہر طرف اُس انتخابی وعدے کی گونج تھی جس میں ’بلاامتیاز احتساب‘ کا ذکر تھا لیکن محض انتظامی عہدوں پر چہروں کو یہاں وہاں تبدیل کردیا گیا۔ جب تک سرکاری اہلکاروں کے اثاثہ جات کی جانچ پڑتال نہیں ہوتی اور اراکین اسمبلی کی طرح اُنہیں اِس بات کا پابند نہیں بنایا جاتا کہ وہ ہرسال اپنی مالی حیثیت کے بارے میں صوبائی حکومت کو مطلع کریں گے‘ اُس وقت تک ’تبدیلی اُور اصلاحات‘ جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

یادش بخیر سال 2014ء کے دوران صوبائی خزانے سے سترہ اراکین قومی اسمبلی کو چونتیس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کئے گئے اور چونکہ ایسا ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ قانون ساز ایوانوں کے اراکین چاہے اُن کا تعلق وفاق یا کسی بھی صوبے سے ہو‘ اُنہیں صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومت مالی وسائل دیتی رہی‘ اِس لئے کچھ بھی ’تعجب خیز‘ نہیں تھا۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے جن 17اراکین قومی اسمبلی کو 34کروڑ روپے ’ازرائے تعفن‘ دیئے گئے وہ ہر رکن نے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں خرچ کئے‘ اگرچہ وہاں سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی پہلے ہی کروڑوں روپے اِسی مد میں ’ترقی کے نام‘ پر خرچ کر رہے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ جب ہم سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں تو ’امانت و دیانت کا ہمارا معیار‘ اُس کسوٹی سے مختلف ہوتا ہے جس کا پرچار ہمارے سیاسی قائدین عام اِنتخابات کے موقع پر ’نظریاتی یا اَصولی سیاست‘ کے نام پر کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت نے دو کروڑ روپے فی رکن قومی اسمبلی بطور ’تحفہ‘ عنایت کئے (خیر کوئی بات نہیں) لیکن کیا اُس 34کروڑ روپے کے مصرف (حساب کتاب) سے متعلق تفصیلات مانگی جا سکتیں ہیں کہ صوبائی خزانے سے دیا جانے والا پیسہ کہاں اُور کس ترجیح کی بنیاد پر خرچ کیا گیا؟ کم وبیش ایک برس قبل جاری ہونے والا پیسہ مالی سال کے ختم ہونے سے پہلے مختلف حکومتی محکموں کے حوالے کر دیا گیا لیکن ترقیاتی کام ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جبکہ کنٹونمنٹ بورڈ اور بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں۔ جب کسی علاقے کسی ویلج کونسل‘ تحصیل یا ضلع کے بلدیاتی اُمیدوار کو یہ کہا جاتا ہے کہ جاؤ اور اپنے حلقے میں بجلی کے کھمبوں اور ٹرانسفارمر کی تنصیب‘ پانی کی فراہمی کے منصوبے اور دیگر تعمیرات کی نگرانی کرو‘ اُن کی تکمیل کے عمل میں شریک ہو جاؤ تو یہ اُس کے مدمقابل اُن اُمیدواروں کی حق تلفی ہے‘ جو عین ممکن ہے علاقے کے مستقبل کے لئے زیادہ مفید سوچ کے حامل ہوں! سرکاری ادارے اگر اپنا کام وقت پر کرتے تو مالی سال کے آغاز پر جاری ہونے والے پیسوں سے ترقیاتی منصوبے نجانے کب کے تکمیل پا چکے ہوتے! مالی وسائل کی تقسیم‘ اُس کے سیاسی استعمال اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کا احتساب ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ کیا قومی اسمبلی کے کسی حلقے کے لئے ترقیاتی فنڈز کا اجرأ بلدیاتی انتخابات سے ہفتوں قبل جاری ہونا ’بے قاعدگی‘ نہیں؟ کیا اِس سے انتخابی عمل متاثر نہیں ہو رہا؟ کیا یہ بلدیاتی انتخابات سے قبل دھاندلی (پری پول ریگنگ) نہیں؟ اَصولی طور پر ہم صرف اُس شخص کو معاف کرسکتے ہیں جس نے ہمارے خلاف کوئی جرم کیا ہو۔ کسی اُور کے خلاف کئے ہوئے جرم کو معاف کرنے کا اختیار ہمیں قانون نہیں دیتا۔ اسی طرح اگر عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والا پیسہ ’سیاسی ساکھ‘ بہتر بنانے کے لئے کسی ’صوابدیدی اختیار‘ کا استعمال کرتے ہوئے تقسیم کیا جاتا ہے تو کیا اُس کے ’جائز استفادہ‘ کے بارے میں سوال نہیں پوچھا جاسکتا؟
جزئیات ملاحظہ کیجئے۔ اَمانت و دیانت اُور اِنصاف کا یہ کونسا اَصول (طرزعمل) ہے کہ سرکاری مالی و انتظامی وسائل ایسی شخصیات کے ’تابع فرمان‘ بنا دیئے جائیں‘ جن کے احتساب کے بارے میں سب سے کم سوچا جاتا ہے! خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس کی کاروائی دیکھیں‘ ماضی کی طرح آج بھی ’حزب اختلاف‘ کے نکتۂ اعتراض پر مائیک بند ہوجاتے ہیں۔ وہی علامتی و غیرعلامتی ’واک آؤٹ‘ ہوتے ہیں۔ وہی اسمبلی ہال کے سامنے مظاہرین پر آنسوگیس کے گولے پھینکے جاتے ہیں۔ وہی لاٹھیاں آج بھی چل رہی ہیں۔ وہی حقوق مانگے جا رہے ہیں۔ جنہیں ادا کرنے والے ماضی ہی کی طرح محفوظ و پرتعیش عمارت میں تشریف فرما ہیں! ماضی ہی کی طرح سینیٹ انتخابات کے موقع پر پولنگ کا عمل ذرائع ابلاغ کی نظروں سے اُوجھل رکھا گیا! وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا یہ سبھی اقدامات جمہوریت کا اِستحکام اور اس کی تبدیل ہوئی اِشکال (تقاضے) ہیں یا ہم روایت پرست سیاسی قائدین کی نیت نہیں بلکہ اُن کے ’اَعمال‘ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’گلاب کے پھول کو چاہے کسی بھی نام سے پکاریں وہ بہرحال پھول ہی کہلائے گا‘‘ ایک ایسا پھول جس کے ہمراہ ٹہنیوں پر لاتعداد کانٹے بھی ہوتے ہیں!

Tuesday, April 21, 2015

Apr2015; Duty & Role of politician

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جہالت‘ غربت‘ اَقدار اُور سیاست
جہل کی کوئی اِنتہاء نہیں اِس کی جھلک پڑھے لکھے اَفراد کے قول و فعل میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے‘ جہاں لکھا ہو گا کہ یہاں گندگی پھینکنا منع ہے وہیں ٹھوس گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے دکھائی دیں گے۔ جہاں لال رنگ کا نشان لگا ہوگا کہ ’’ہارن بجانا منع ہے‘‘ وہیں کان پڑی ہوئی آواز سنائی نہیں دے گی۔ جہاں پارکنگ ممنوع قرار دی گئی ہو گی‘ وہیں گاڑیاں ’قطار در قطار‘ آمدورفت تو کیا پیدل چلنے والوں کے لئے بھی مشکل بنائے ہوگی۔ جہاں لکھا ہوگا قطار بنائیں‘ وہیں دھکم پیل ہو رہی ہوگی۔ جہاں تھوکنا منع ہے‘ وہیں درودیوار پر گل کاریاں نظرآئیں گی وغیرہ وغیرہ۔ اَلغرض تعلیمی اِداروں کے نظم وضبط‘ اِمتحانات میں نقل کے رجحان‘ عہدوں اُور اِختیارات کا غلط استعمال‘ مالی و اِنتظامی بدعنوانیاں‘ سفارش‘ اَقربا پروری‘ تعصبات‘ طبقات اُور اِمتیازات کو پروان چڑھانے والے کوئی اُور نہیں بلکہ اِن کی اکثریت بظاہر پڑھے لکھے اَفراد پر مشتمل دکھائی دے گی۔

 ’غربت‘ کی بھی کوئی حد نہیں‘ افلاس کی بیماری مال و متاع رکھنے والوں کو ذہنی و فکری طور پر متاثر کر سکتی ہے‘ وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچنے تک محدود ہو سکتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو سرمایہ پرستوں کی حرص ملاحظہ کیجئے جو ذخیرہ اَندوزی‘ ملاوٹ اُور گراں فروشی کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ سرمایہ دار ہونا کوئی جرم نہیں ’سرمایہ پرستی‘ اَلمیہ ہے‘ جس کی وجہ سے اَقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو شہری و اکثر دیہی علاقوں میں گھر گھر ’کیبل نیٹ ورکس‘ کے چینلز پر نظر کریں‘ ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘کے صوبائی و مرکزی اراکین کا تجاہل عارفانہ ملاحظہ کیجئے‘ وہ سب کچھ دھرلے سے نشر ہو رہا ہے‘ جس کی پیمرا قواعد میں ممانعت درج ہے۔ یہی حال و بے بسی ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ موبائل فون کا استعمال دیکھیں کس طرح ہماری نوجوان نسل ایک فریب کا شکار ہے‘ جس سے اُن کا قیمتی وقت کوڑیوں کے مول ضائع ہو رہا ہے! غربت و جہالت کے عروج اُور اَقدار کے زوال جیسے امراض کا علاج ’سیاست‘ سے ممکن ہے جس کا لغوی معنی ’تربیت‘ ہے۔

لغوی اعتبار سے سیاست دان شعوری ’تربیت کار‘ ہوتا ہے جو اِصلاح کاری کا کردار اَدا کرتا ہے۔ سیاست دان کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ اجتماعی مفاد کے لئے مختلف النظریات طبقات کو ’اِتحاد و اِتفاق‘ کو تلقین ہی نہیں بلکہ اُنہیں ہاتھ سے پکڑ پکڑ کر ایک دُوسرے کے قریب لانے کا موقع ضائع نہ کرے۔ مقناطیس کی طرح کشش رکھتا ہو۔ سیاست اِختلافات ختم کرنے اور باہم رنجشیں مٹانے کے ساتھ سب سے پہلے قانون کا اِطلاق اپنی ذات پر کرتا ہے اُور پھر اُس کے دیکھا دیکھی معاشرے میں قانون کا اِحترام جڑیں پکڑنا شروع کرتا ہے۔ جب سیاست دان خود ٹیکس اَدا کررہا ہوتا ہے تو دوسروں کو بھی بہ اَمرمجبوری حسب آمدن ٹیکس دینا پڑتا ہے لیکن ہمارے ہاں ’اَچھا سیاست دان‘ اُسے سمجھا جاتا ہے‘جو ’اِختلافی نکات‘ کو ہوا دے سکے‘ جو اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں ’جرائم پیشہ عناصر (گلو بٹ کرداروں)‘ کا سرپرست ہو‘ جسے جب کبھی ’ترقیاتی فنڈز‘ ملیں تو وہ اپنے منظور نظر افراد پر خرچ کرے اور یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک ’جمہوری سیاست‘ کو جب کبھی بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملا‘ اِس نے ضائع ہی کیا۔ اربوں روپے کی ترقیاتی وسائل خرچ ہونے کے باوجود‘ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں مثالی تعمیر و ترقی ہوئی ہو! خیبرپختونخوا حکومت بضد ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ’ترقیاتی فنڈز‘ کا صرف تیس فیصد ضلعی حکومتوں کو سپرد ہوگا‘ اُور اگر ستر فیصد مالی وسائل قانون ساز اداروں کے اراکین ہی نے خرچ کرنے ہیں تو ’مالی امور کے دانشمندانہ استعمال‘ سے متعلق فیصلہ سازی متنازعہ بھی رہے گی اور اِس کا خاطرخواہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ سیاست دان کی تیسری ذمہ داری ’راہ نمائی‘ ہے لیکن ہمارے ہاں ’تبدیلی‘ کی بجائے روایت پرستی کی معقولیت پر اتفاق ہے اُور یہی وجہ ہے سیاست دان تیز گام ہو کر ’اَقدار کے جنازے‘ کو کندھا دینے میں پیش پیش نظرآتے ہیں!

 ایک طویل اور اعصاب شکن انتظار کے بعد ہونے والے ’بلدیاتی اِنتخابات‘ کے موقع پر اُمید ہے کہ جو نئی سیاسی قیادت اُبھر کر سامنے آئی گی‘ وہ ’سیاست دان‘ ہونے کا حقیقی کردار اَدا کرتے ہوئے جہالت و سرمایہ پرستی کی حوصلہ شکنی اور اقدار کے احیاء کے لئے کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اُس ایک کمی کو پورا کرنا اشد ضروری ہے جس کے بغیر معاشرے کی ہر خوبی پر تاریک سایہ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ کیا بلدیاتی اُمیدواروں کو اِس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ ویلج کونسل‘ تحصیل یا ضلع کے لئے انتخابات میں کامیابی کی صورت اُن سے وابستہ توقعات کس انتہاء کی ہیں اور اُن کے ناتواں کندھوں پر معاشرے کی اصلاح و احوال کی کس قدر بھاری ذمہ داری پڑنے والی ہیں؟ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دینے والوں کو بھی ’سیاست دان‘ کے اصل کردار اُور تقاضوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہمیں ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو صرف ’ترقیاتی فنڈز‘ کی لالچ ہی نہ رکھتی ہو اُور نہ سڑکوں‘ گلیوں‘ نالیوں‘صفائی کی صورتحال اور پانی کی فراہمی جیسی سہولیات کی فراہمی کے بارے ہی میں فکرمند و پریشان دکھائی دے۔ قدروں کا اَحیاء‘ قول و فعل میں اِجتماعی بہبود کا غلبہ‘ شعوری و فکری کی بیداری‘ حقوق کے ساتھ ذمہ داریوں کا اِحساس اُور بحیثیت مجموعی ’معاشرتی اِصلاح کاروں‘ کی ضرورت ہے‘ برائے مہربانی اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیں۔

Monday, April 20, 2015

Apr2015: Agriculture as priority in budget

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زراعت: محروم توجہ؟
وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2015-16ء تیاریوں کے آخری مرحلے سے گزر رہا ہے اور آئندہ مالی سال کے لئے حکومتی ترجیحات کا تعین نیز کسی شعبے کے لئے ترقیاتی حکمت عملیاں مرتب کرنے کے لئے مشاورتی اجلاس ہو رہے ہیں۔ اِسی سلسلے میں رواں ہفتے ’زرعی شعبے‘ سے تعلق رکھنے والوں سے مشاورت کی جائے گی‘ جس کے لئے ماہرین کو مطلع کر دیا گیا ہے‘ اُمید ہے کہ ہرسال کی طرح اِس مرتبہ بھی زراعت اور مال مویشیوں (لائیوسٹاک) سے متعلق سوچ بچار میں خیبرپختونخوا کے معروضی حالات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا‘ جس کے بیشتر علاقوں میں زراعت متاثر ہونے کے اسباب میں عسکریت پسندی‘ قدرتی آفات‘ موسمی تبدیلیاں اور پیداواری ضروریات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ‘ ٹیکس اور اُن کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں‘ اجناس کی منڈیوں تک رسائی میں مشکلات چھوٹے بڑے کاشتکاروں کے لئے مستقل مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں کی آب و ہوا پھلوں کے باغات کے لئے موزوں ہے وہاں سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پھلوں کی پراسیسنگ اور اُن کی برآمدات میں اضافہ کرنے کے لئے آئندہ مالی سال میں غیرمعمولی رقم مختص کی جائے تو کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ دودھ اور اس سے بننے والی اشیاء کی مارکیٹنگ اگر غیرملکی ادارہ کرکے ہمارے وسائل سے اربوں روپے سالانہ کما رہا ہے تو یہی کام حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بالخصوص قبائلی علاقہ جات اور اِن سے متصل بندوبستی علاقوں میں تیلدار اجناس (زیتون اُور سورج مکھی) کی کاشت کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جنہیں ترقی دینے اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی زد میں آنے والے ’’آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ‘‘ کی خاطرخواہ سرپرستی بھی اشد ضروری ہے‘ جس کے شکستہ دل ماہرین کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے اور وہ ایک صدمہ جھیلنے کے بعد تاحال نفسیاتی طور پر (مکمل) بحال نہیں ہوئے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان جیسے زرعی ملک کہ جس کی سترفیصد سے زیادہ معیشت کا انحصار زراعت پر ہو‘ وہاں بیک جنبش قلم ایک ایسے زرعی تحقیقی شعبے ہی کو ختم کر دیا جائے جو تیلدار اجناس کی ترقی وتحقیق کے عمل سے جڑا ہو! ہمارے فیصلہ سازوں کو اِس بات پر بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر سال اَربوں ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کریں لیکن اپنے ہاں تیلدار اجناس کی پیداوار کی ترقی انہیں مقصود نہیں کیونکہ درآمدات میں بھاری کمیشن کے امکانات بہرحال موجود ہوتے ہیں! خیبرپختونخوا میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جہاں زیتون کی کاشت ممکن ہے لیکن افسوس کہ زیتون کی ترقی کے لئے بنائے گئے تحقیقاتی فارمز پر بااثر افراد نے قبضہ کرکے وہ محکمہ ہی تحلیل کروا دیا‘ جو ’زیتون فارمنگ‘ میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر شہرت کا حامل تھا!

خوش آئند ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف متوجہ ہیں اُور زرعی شعبے کی ترقی کے لئے آئندہ مالی سال زیادہ ’عملی اقدامات‘ چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے وفاقی وزیر تحفظ خوراک و تحقیق سکندر حیات بوسان سے ایک خصوصی ملاقات بھی کی ہے اور (اگر اطلاعات پر بھروسہ کیا جائے تو اُنہوں نے) ہدایت دی ہے کہ ’’آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے زیادہ بڑے پیمانے پر عملی اقدامات کئے جائیں۔‘‘ اگرچہ اِس خبر کو قومی اخبارات نے زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن بہرحال اُمید ہو چلی ہے کہ وزیراعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وفاقی وزیر (ماضی کی طرح) صرف صوبہ پنجاب ہی کی حد تک نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں بھی زراعت کی ترقی پر توجہ دیں گے اُور اب بھی اگر ٹھوس اقدامات کی بجائے ’روائتی اعلانات‘ پر اکتفا کیا گیا تو یہ ایک ایسی غلطی دہرانے کے مترادف اقدام ہوگا‘ جو ہمیں غذائی خودکفالت اور تحفظ خوراک جیسی منزل سے دور کر دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا بھی ادراک کرنا ہے اور موسمی (قدرتی) و غیرموسمی (غیرفطری) منفی اثرات سے بھی زرعی شعبے کو بچانا ہے‘ جو ہر طرف سے دباؤ کا شکار ہے!

آئندہ مالی سال کے لئے کاشتکاروں کے مطالبات میں شامل ہے کہ 1: زرعی پیداواری ضروریات پر عائد ’سیلز ٹیکس‘ کی شرح میں کمی لائی جائے۔عجب ہے کہ سارے کا سارا منافع یا تو ٹیکسوں کی مد میں ادا ہو جاتا ہے یا پھر بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد فصل کی اصل قیمت سے زائد اُس پر اخراجات آ جاتے ہیں۔ 2: زرعی شعبے کے زیراستعمال بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی لائی جائے تاکہ ٹیوب ویل کے ذریعے آبپاشی کے وسائل سے استفادہ کیا جاسکے۔ 3: دوست ممالک سے زرعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ 4: بیرون ملک زرعی تعلیم کے لئے طالبعلموں کو ترجیحی بنیادوں پر بھیجا جائے۔ 5: فارغ التحصیل زرعی گریجویٹس کو غیرآباد زمینیں اور آسان شرائط پر قرضے دے کر پیداوار بڑھائی جائے۔ 6: زرعی شعبے کی انشورنس حکومتی سرپرستی میں متعارف کرائی جائے۔ 7: زرعی شعبے میں ’شمسی طاقت سے چلنے والے ٹیوب ویل متعارف کرائے جائیں۔‘ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کو بھی توجہ دینی ہے جو سٹریٹ لائٹس کے لئے تو ’شمسی وسائل‘ استعمال کرتی ہے لیکن شمسی زرعی ٹیوب ویلوں کے بارے میں ترجیح نہیں رکھتی‘ یقیناًہم سٹریٹ لائٹس کے بغیر زندگی بسر کرسکتے ہیں لیکن اگر غذائی خودکفالت اور خوراک کا تحفظ (فی ایکڑ زیادہ پیداوار‘ تبدیل ہوتے موسم کی سختیاں برداشت کرنے والے بیج‘ آبپاشی کے سائنسی طریقوں پر عمل‘ کاشتکاروں کی رہنمائی کے لئے ذرائع ابلاغ کا مؤثر استعمال‘ فصلوں پر ادویات اور کیمیائی کھادوں کا غیرضروری استعمال ترک کرنے) جیسے عملی اقدامات بروقت نہیں کئے جاتے‘ تو ترقی کا ہر ہدف ثمربار ثابت نہیں ہوگا۔

ہمیں زراعت گریز اپنے طرز فکر و عمل کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر خیبرپختونخوا کی 70سے 80فیصد آبادی کا روزگار فنون لطیفہ (گائیگی‘ اداکاری‘ موسیقی‘ فلم یا شوبز وغیرہ) یا اِن سے متعلقہ کسی دوسرے شعبے سے نہیں لیکن صوبائی‘ علاقائی اور قومی سطح پر شائع ہونے والے اخبارات‘ نجی و سرکاری ٹیلی ویژن اُور (اے ایم‘ ایف ایم) ریڈیو چینلز کی نشریات اور پرنٹ میڈیا میں ہر روز پورے کے پورے صفحات ملکی و غیرملکی فنکاروں سے متعلق خوش گپیوں سے لبالب ملتے ہیں جبکہ زراعت کے لئے ایک گھنٹہ‘ منٹ یا سکینڈ اور اخبارات و جرائد میں ایک صفحہ بھی مختص نہیں ملتا۔ زرعی جامعات تو موجود ہیں‘ زراعت پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جارہے ہیں لیکن متعلقہ دانشور (جو زرعی شعبے سے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں) تحقیق خود ہی پڑھ کر‘ پڑھا کر اور سن کر محظوظ ہونے کے بعد اسے الماریوں میں دفن کر دیتے ہیں۔ ایسے پروفیسر‘ ملازم اور طالبعلم ہمیں آج تک نہیں ملے جنہوں نے زراعت کے حق میں ’بھوک ہڑتال‘ کی ہو! یہ ’بے رخی‘ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے کو روزمرہ بحث کا موضوع بنائے بغیر ملک کی معیشت و اقتصادیات کو بہتر بنانے اور گدائی کا کشکول توڑنے کی کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی۔ زراعت کے بارے میں سوچتے سوچتے سونے اور خواب دیکھ کر اُنہیں عملی جامعہ پہنانے کے لئے جاگنے کی روایت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت ہی کی مثال لیں جہاں سرکاری ٹیلی ویژن (دور درشن) کے ایک درجن سے زائد سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینلز مختلف زبانوں میں شام چار سے رات آٹھ بجے تک پروگرام نشر کرتے ہیں۔ زرعی شعبے کی ترقی بڑے کاشتکاروں اور زمینداروں کے مفادات کا تحفظ کرکے ممکن نہیں۔ زراعت سے اربوں روپے کی آمدنی رکھنے والے ٹیکسوں سے مستثنیٰ شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن چھوٹے کاشتکاروں‘ مزدوروں اور محنت کشوں پر ہر ایک فصل کے بعد قرض کے بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے زرعی شعبے کو لاحق امراض اور جملہ خطرات کو دیکھتے ہوئے یہ شعبہ رعائت کا مستحق ہی نہیں بلکہ حقدار ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ’’ترس کھا کر نہیں‘‘ بلکہ واجب الادأ حق سمجھ کر ’زرعی محنت کشوں کا حکومت کے ذمے قرض چکایا اُور ملک سنوارہ‘ جائے۔
Hopes of small farmers for upcoming budget

TRANSLATION Turning crisis into oppourtunity

Turning crisis into opportunity
بحران کا حل
سعودی عرب اور اُس کے ہمسایہ ملک یمن کے درمیان جاری تنازعہ میں فریق نہ بننے اور اِس پورے معاملے میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے اکثریت رائے سے کیا لیکن سعودی عرب اور اُس کے اتحادی عرب ممالک نے پاکستان کی سلامتی کو داخلی سطح پر لاحق خطرات اور چیلنجز کا ادارک نہ کرتے ہوئے اِس غیرمتوقع فیصلے کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ یقیناًدوست تو وہی ہوتا ہے جو آپ کی درون خانہ حالت سے واقف ہو اور آپ سے کسی ایسی چیز یا اقدام کا مطالبہ یا توقع نہ رکھے‘ جسے سرانجام دینا آپ کے لئے کلی طور پر یا سردست ممکن نہیں ہوتا۔ جب پاکستان کی جانب سے یمن تنازعہ میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ سامنے آیا تو متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ نے کہا ’’پاکستان کو اِس فیصلے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی!‘‘ جس کاجواب دیتے ہوئے پاکستان کے وزیرداخلہ نے متحدہ عرب امارات کو یاد دلایاکہ ’’پاکستان ایک باعزت قوم کا نام ہے اور ایسا بیان پاکستانی قوم کو دھمکی دینے کے مترادف ہے۔‘‘

پاکستان کی قانون ساز قومی اسمبلی نے کئی دن تک بحث و مباحثے کے بعد فیصلہ کیا لیکن سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد کے لئے پاکستان کا یہ فیصلہ ’خطرناک‘ بھی تھا اور اِسے ’غیرمتوقع‘ بھی قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کا اتحاد ایک ایسے جال میں پھنس گئے ہیں جو ایک دوسرے سے کئے گئے وعدوں سے بُنا ہوا ہے اور دونوں ہی فریق حالات کا اپنے اپنے نکتۂ نظر سے جائزہ لے رہے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ تو پاکستان کے حق میں ہے اور نہ ہی اِسے سعودی عرب سمیت اُس کے اتحادی ممالک کے مفاد میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ مختلف النظریات دونوں فریقین کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی پوزیشن کا ادراک کریں‘ اسے سمجھیں اور ایک دوسرے وابستہ توقعات کو اُس انتہا تک نہ لے جائیں جہاں فاصلے پیدا ہونے لگیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کم ہوتا محسوس ہو۔ اس میں شک و شبہ نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے دیرینہ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور سعودی عرب نے کئی ایک مشکل مواقعوں پر پاکستان کی مدد کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان داخلی طور پر ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس میں کامیابی اُس کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک جذباتی‘ اپنے مفاد کے اسیر اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اُنہیں پاکستان سے جو توقعات اور امیدیں وابستہ تھیں وہ چونکہ پوری نہیں کی گئیں اِس لئے وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئے۔ اُنہیں پاکستان اور ہمارے ہمسایہ ایران کے ساتھ تعلقات کی نزاکت و اہمیت اور اِس سے جڑے تقاضوں کا بھی ادراک کرنا چاہئے۔ یہ موقع پاکستان کے سفارتکاروں کو اپنی غیرمعمولی کارکردگی دکھانے کا ہے کہ وہ عرب دنیا میں پاکستان کے خلاف پائے جانے والے غصے کو غم کریں اور اُس حقیقت کا پرچار کریں جس کی وجہ سے پاکستان نے ’یمن تنازعہ‘ میں فریق کی بجائے اِس سے ’غیرجانبدار‘ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں دو خطرات ظاہر ہوئے ہیں ایک تو ہمارے انکار سے سعودی عرب کے حکمران خود کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں اور دوسرا جمہوری اسلامی ایران کی خطے میں پوزیشن مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستانی سفارتکاروں کو عرب حکمرانوں اور عرب دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان کے لئے سعودی عرب اور ایران دونوں کی اہمیت ایک جیسی ہے اور پاکستان کسی کی بھی حمایت یا مخالفت نہیں کررہا۔

امریکہ اور فلپائن کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ہو چکا ہے جس کے تحت اگر کوئی ملک فلپائن یا امریکہ پر حملہ آور ہوگا تو دونوں ممالک اپنی اپنی افواج ایک دوسرے کے دفاع کے لئے استعمال کریں گے۔ ایسا ہی ایک معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لئے درمیان بھی ہونا چاہئے لیکن کیا یمن نے سعودی عرب پر حملہ کیا ہے؟
پاکستان اگر سعودی عرب سے ایسا کوئی مشترکہ دفاع کا معاہدہ کرتا ہے تو اس کے عوض اسے اقتصادی فوائد حاصل کرنا چاہیءں۔ مثال کے طورپر قرض پر تیل حاصل کیا جائے‘ پاکستان میں بنی ہوئی مصنوعات کی عرب ممالک کی منڈیوں تک رسائی میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کی افرادی قوت کو دیگر ممالک کے زیادہ عرب ممالک میں ملازمتوں کے مواقع دیئے جائیں اور تیل و گیس مارکیٹ کے نرخ سے کم قیمت پر حاصل کئے جائیں۔ جس طرح سعودی عرب کو اپنا دفاع عزیز ہے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے مضبوط دفاع اور تربیت یافتہ فوجی قوت کا استعمال کرکے ملک کو درپیش توانائی بحران کا حل اور اقتصادی مشکلات کم کرنے کو پیش نظر رکھیں اور اسے اپنی ترجیح بنا کر ایک ایسی صورتحال سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو بظاہر پاکستان کے حق میں نہیں۔

(بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
Turning crisis into opportunity

Sunday, April 19, 2015

Apr2015: Vehicle managment in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مال مفت!
خیبرپختونخوا حکومت کی ہر اُس بے قاعدگی پر نظر ہے‘ جو حکومتی وسائل خردبرد کرنے کے روائتی طور طریقوں اور شاہانہ طرز حکمرانی سے متعلق ہو۔ سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال ایک عرصے سے جاری ہے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر حکومت بنانے والوں کے عہد میں بھی جاری ہے‘ جس کے بارے میں حکمراں جماعت کی تشویش تو شروع دن ہی سے تھی لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اصلاح کا عمل کہاں سے شروع کیا جائے۔ افسرشاہی ایک ایسا منظم گروہ جو ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ثانی نہیں رکھتا اُور یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے جملہ سرکاری گاڑیاں واپس کرنے کا حکم دیا تو اِس سختی کو نرم کرنے کے لئے اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں نے سرکاری گاڑی رکھنے کے اہلیت کا مطالبہ تنخواہ کے ساتھ اضافی مراعات کی صورت منوا لیا اُور اب طے یہ ہوا ہے کہ سرکاری افسروں کے زیراستعمال گاڑیاں واپس لی جائیں گی۔ اِس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت مزید گاڑیوں کی خریداری نہیں کرے گی اور جو گاڑیاں مختلف اداروں کے زیراستعمال ہیں اُنہیں واپس لے کر نیلام کر دیا جائے گا۔

عینی شاہد ہوں کہ محکمۂ صحت کے ایک اعلیٰ اہلکار اور اُن کے عزیزواقارب کے بچوں کو مختلف سرکاری سکولوں میں پہنچانے کے لئے ’سرکاری گاڑی‘ ایندھن اُور ڈرائیور‘ کا استعمال کرتے دیکھ کر سابق صوبائی وزیر صحت سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے اِس قدر تعجب اور حیرت کا اظہار کیا جیسے اُنہیں میری بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو۔ مذکورہ گاڑی کا نمبر‘ ڈرائیور کا نام‘ ڈرائیور کا موبائل نمبر اور ضلعی اعلیٰ اہلکار کے کوائف سمیت مذکورہ گاڑی کا غیرسرکاری استعمال موجودہ حکومت کی تشریف آوری سے قبل جاری تھا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ عمل جوں کا توں آج بھی جاری ہے۔ اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں کے باہر صبح یا چھٹی کے اوقات میں چند منٹ کھڑے ہوکر اِس بے قاعدگی کا خود بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے بچوں کو ’پک اینڈ ڈراپ‘ کرنے کے لئے سرکاری نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں آتی ہیں۔ سیکورٹی کی بہانہ بنا کر کئی سرکاری اہلکاروں نے اپنی گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کی جگہ جعلی نمبر پلیٹیں بھی لگا رکھی ہیں حالانکہ یہ رعائت صرف غیرملکی سفارتخانوں کے عملے یا امدادی اداروں میں کام کرنے والے غیرملکیوں دی گئی تھی لیکن سرکاری ایندھن‘ ڈرائیور اُور سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹھنے کا مزا ہی کچھ اُور ہے۔ ہمیں اِس بات پر قطعی کوئی تعجب نہیں کہ سرکاری وسائل بشمول گاڑیوں کا غلط استعمال عام ہے کیونکہ یہ بات بھی ’تکبر‘ کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ ہم عہدوں اور مراعات کی لالچ میں نہ تو دیانت کے اصولوں کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی اِس بات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ’امانت‘ ہے۔ کسی سرکاری محکمے کے اہلکار کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا گیا کہ وہ ’عوام کا خادم ہے۔‘ سب کے سب حکمران بنے ہوئے ہیں اور سب کے سب کی آنکھیں آسمان سے لگی ہوئی ہیں!

خیبرپختونخوا حکومت نے ’غیرترقیاتی اخراجات‘ میں کمی کے لئے کثیرالجہتی حکمت عملی مرتب کی ہے جس کے ایک جز کے طور پر ’ایڈمنسٹریشن اینڈ فنانس ڈیپارٹمنٹ‘ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں بلکہ وزرأ حتی کہ وزیراعلیٰ کے زیراستعمال گاڑیوں کے اخراجات کم کئے جائیں۔ اس سلسلے میں تیار کردہ حکمت عملی کے تحت تمام افسروں‘ وزرأ بشمول پارلیمانی سیکرٹری جو سرکاری گاڑی رکھنے کے اہل ہیں کو یہ پیشکش کی جائے گی کہ وہ سرکاری گاڑی واپس کریں اور اِس کے عوض ملنے والی مراعات سے یا تو اپنے لئے گاڑی خریدیں یا پھر کسی دوسرے ذریعہ آمدورفت کا استعمال کریں۔ سرکاری دوروں کے لئے بھی ذاتی گاڑی کا استعمال ہی کرنے کی حکمت عملی مرتب کی گئی ہے جس کے لئے ایندھن دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ سرکاری اداروں میں ایک سے چار عدد تک گاڑیاں دی جائیں گی تاہم اِس بارے میں حتمی فیصلہ آئندہ ہفتے ہوگا کہ کونسا محکمہ کتنی گاڑیاں زیراستعمال رکھ سکتا ہے۔ صوبائی حکومت سرکاری گاڑیوں کو الگ رنگ دینے پر بھی غور کر رہی ہے تاکہ اگر کوئی سرکاری گاڑی دفتری اوقات کے بعد بازار میں دکھائی دے جس میں بیگمات یا ’شاہی بچے‘ سوار ہوں۔ صوبائی حکومت کے سامنے کئی ایک ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں سرکاری وسائل بالخصوص گاڑیوں کے غیرسرکاری اِستعمال پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں ہمسایہ ممالک بھارت‘ چین اور ایران کی حکمت عملی کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے‘ جس میں سرکاری اہلکار پابند ہیں کہ وہ اپنے ملک میں بنی ہوئی آٹھ سو سے ایک ہزار سی سی تک کی چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں حتیٰ کہ وزرائے اعلیٰ بھی ملک ہی میں تیار شدہ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔

لمحۂ فکریہ ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں 13 ہزار 572 گاڑیاں حکومت کے نام پر رجسٹرڈ ہیں اُور اِن کی تعداد میں ہر مالی سال کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔‘‘ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال کے دوران خریدی گئی نئی گاڑیاں بھی نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر مارچ 2015ء تک 9 کروڑ 57 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے جبکہ فنانس ڈیپارٹمنٹ نے بھی ایک کروڑ گیارہ لاکھ روپے کی گاڑیاں خریدی ہیں۔ لیکن اگر سرکاری اہلکاروں سے یونہی مراعات واپس لی جاتی رہیں‘ جب اختیارت محدود اور ذاتی‘ سیاسی و کاروباری مفادات کا حصول بھی ممکن نہ ہو اور بذریعہ قانون بدعنوانی کرنے کے مواقع بھی کم ہوتے چلے جائیں تو پھر قانون ساز ایوانوں‘ بلدیاتی انتخابات اُور کنٹونمنٹ انتخابات میں وقت اور مالی وسائل کی سرمایہ کاری کون کرے گا؟ سب سے بڑھ کر ’بناء مراعات‘ سرکاری ملازمت کرے گا کون؟
PTI led KP govt looking to take back all the govt vehicles, soon

TRANSLATION: $272000 Per Day!

$272,000 per day
غیرمنطقی خمیازہ
مائع گیس (ایل این جی) ایک منافع بخش کاروبار ہے‘ جس سے وابستہ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یاد رہے کہ ایک نجی ادارے ’ایلینگی ٹرمینل پاکستان لمیٹیڈ‘ کے سربراہ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے ادارے نے کراچی کی بن قاسم بندرگاہ پر ایک ’ایل این جی ٹرمینل‘ نامی ترقیاتی منصوبہ مکمل کر لیا ہے جس پر 15 کروڑ ڈالر لاگت آئی ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاکستان حکومت نے 18 کروڑ 80 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کی طرف سے ایلینگی نامی اِس نجی کمپنی سے ایک معاہدہ دستخط کیا ہے جس میں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ حکومت پاکستان چاہے بن قاسم بندرگاہ پر تعمیر ہونے والے ’ایل این جی ٹرمینل‘ کی سہولت سے استفادہ کرے یا نہ کرے لیکن وہ مذکورہ کمپنی کو ’یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر‘ اَدا کرے گا!

جب ہم 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر کو پورے سال سے ایام سے ضرب دیتے ہیں تو یہ رقم 97 کروڑ ڈالر سالانہ سے زیادہ بنتی ہے کیونکہ حکومت پاکستان ایک معاہدے کی رو سے پابند ہے کہ وہ مذکورہ کمپنی کو اُس کی کل سرمایہ کاری کا 65فیصد حصہ ایک سال میں واپس کرے گا۔ القصہ مختصر مذکورہ ادارہ صرف 600دن میں اپنی پوری سرمایہ کاری حکومت پاکستان سے واپس وصول کر لے گا۔

ایلینگی ٹرمینل پاکستان لمیٹیڈ نامی کمپنی کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حصص داروں اور کمپنی کے مفاد میں ایسے کسی ایک یا زیادہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے‘ جس میں اُس کی سرمایہ کاری محفوظ بھی ہو اور اس پر زیادہ سے زیادہ منافع بھی حاصل ہو۔ کمپنی نے اگر بن قاسم بندرگاہ کراچی پر ’ایل این جی ٹرمینل‘ تعمیر کرنے میں ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ چھ سو دن میں یہ سرمایہ کاری واپس وصول بھی کر لے گی تو اِس سودے میں کچھ بھی غیرقانونی نہیں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ پاکستان حکومت نے سودا کرتے ہوئے اٹھارہ کروڑ اسی لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے مفاد کو پیش نظر نہیں رکھا۔ ایک ایسے ملک کی معیشت اور اپنی غربت بھی ہمارے حکمرانوں کو یاد نہیں رہی‘ کہ کس طرح ’الاماشاء اللہ‘ پائی پائی مانگ کر ملک کے انتظامی معاملات شایان شان طور اور شاہانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں!

جب یہ کہا جاتا ہے کہ مائع گیس کی درآمد ایک منافع بخش کاروبار ہے تو اِس کی دلیل یہ ہے کہ مارکیٹ میں فی ایم ایم بی ٹی یو مائع گیس کی قیمت 6.90 ڈالر ہے جسے 8 ڈالر کے عوض خریدا جاتا ہے اور یوں ہر ایک مائع گیس سے بھرے بحری جہاز کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی 30 لاکھ ڈالر اضافی منافع ادا کر دیا جاتا ہے! اگر ایک ماہ میں زیادہ نہیں مگر صرف 2 بحری جہاز مائع گیس سے بھرے ہوئے پاکستان آتے ہیں تو ایک سال میں 7 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (مارکیٹ میں مروجہ قیمت سے) زیادہ بمعہ اضافی منافع ادا کئے جائیں گے۔

مزید جانئے کہ ضلع مظفر گرڈ اور مائع گیس کی درآمد کے درمیان بھی ایک تعلق موجود ہے۔ کوٹ ادو پاور کمپنی پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا نجی ادارہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ یومیہ 1600 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی اجازت سے کوٹ ادو پاور کمپنی کو ’مائع گیس‘ 14.30 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے تناسب سے فراہم کی جائے گی۔

جب پاکستان مائع گیس درآمد کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھ معاشی امور کے جائزہ کار سمیت بہت سے اقتصادی ماہرین کو اِس بات کا یقین تھا کہ مائع گیس کی درآمد کا اصل مقصد یہی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو سستا ایندھن میسر کیا جائے تاکہ پیداواری خرچ کم کرکے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی لائی جاسکے حسب طلب مقدار میں کم ہونے کے علاؤہ عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ تھی لیکن جس بھاری قیمت کے عوض ’مائع گیس‘ خریدی گئی ہے اُس سے صرف اور صرف فیصلہ سازوں اور سرمایہ داروں کو ہی فائدہ ہوگا‘ جنہیں باآسانی دولت کمانے کا ایک اُور نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے۔

یقیناً’مائع گیس‘ کا کاروبار انتہائی منافع بخش دھندا ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے نجی ادارے سالانہ اوسطاً 40فیصد کی شرح سے منافع کما رہے ہیں۔ پاکستان میں بینکاری کا شعبہ سالانہ اوسطاً 30فیصد کے تناسب سے منافع کما رہا ہے۔ اگر ہم گذشتہ چودہ برس کی اوسط نکالیں تو پاکستان میں حصص کے کاروبار سے وابستہ سرمایہ کار سالانہ اوسطاً 24 فیصد منافع کما رہے ہیں لیکن اِن تینوں شعبوں کے منافع کا موازنہ ’مائع گیس‘ سے نہیں کیا جاسکتا جس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سالانہ اوسطاً 65فیصد کے تناسب سے منافع حاصل ہوگا یقیناًبجلی کے پیداواری ادارے‘ بینکار اور حصص کا کاروبار کرنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بھی کیوں نہ ’مائع گیس‘ ہی کے ’دھندے‘ کا حصہ بن جائیں!

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
$272،000 per day