ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جلسو جی؟
پاکستان کے بڑے شہروں (کراچی‘ لاہور اُور اسلام آباد) کی سطح پر ’داخلی ذرائع آمدروفت (لوکل ٹرانسپورٹ)‘ کے شعبے میں نجی اِداروں کی سرمایہ کاری سے سہولت اُور اِداروں کے درمیان مقابلے کی وجہ سے صارفین کے لئے کم قیمت بالانشین خدمات میسر ہیں۔ درحقیقت ’کاریم (Careem)‘ نامی جس اِدارے نے جدید‘ محفوظ و آرام دہ موٹرگاڑیوں کے ذریعے کراچی میں ’لوکل ٹرانسپورٹ‘ متعارف کرائی تو یہ متحدہ عرب امارات کے 53 شہروں میں کامیابی سے جاری ایک تجربے کا تسلسل تھا اور پھر اِسی تجربے کی کامیابی و بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھتے ہوئے دیگر کئی عالمی اِداروں نے پاکستان میں قدم رکھا‘ جن میں’اُوبر (Uber)‘ نامی امریکی کمپنی بھی تھی جس سے سال دوہزار پندرہ وابستہ ڈرائیورز کی تعداد سات ہزار سے زیادہ اور سالانہ منافع گیارہ کھرب روپے سے زیادہ تھا لیکن پاکستان میں ’اُوبر‘ کی خدمات کا معیار ’کاریم‘ کی طرح اچھا نہیں رہا پھر بھی لوکل ٹرانسپورٹ کی سہولیات میں یہ ایک گرانقدر اضافہ تھا۔
کراچی کے بعد ’کاریم‘ سمیت دیگر عالمی و پاکستانی نجی اداروں کا دائرۂ کار لاہور اور اسلام آباد تک پھیلایا گیا لیکن جب پشاور کی بات آئی تو کسی ایک کمپنی نے بھی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کو منظم و فعال کرنے میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا اور اس کی ’ٹھوس وجوہات‘ بیان کی جاتی ہیں کہ ایک تو پشاور کی سڑکیں موجود ٹریفک ہی کا دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ عام آدمی کی قوت خرید (مالی سکت) دیگر شہروں کے مقابلے کم ہے۔ سڑکوں کی حالت ایسی ہے کہ کم فاصلہ طے کرنے میں بھی اکثر گھنٹے خرچ ہو جاتے ہیں۔ امن و امان کی خراب صورتحال بھی رکاوٹ ہے کہ صرف قبائلی علاقوں سے جڑی پٹی کے کئی حصے (نوگو ایریاز) ہی نہیں بلکہ حیات آباد جیسی ’جدید رہائشی بستی‘ میں قائم حفاظتی دیوار میں جابجا ’کھڑکیاں اور دروازوں‘ کی وجہ سے نجی سفر اور گاڑیاں نسبتاً محفوظ نہیں۔ علاؤہ ازیں ٹریفک کا بے ہنگم نظام ہے جس میں ڈرائیورز کی بڑی تعداد کے پاس ’ڈرائیونگ لائسینس‘ نہیں اُور پرانے ماڈلز کی ایسی سست رفتار و خراب گاڑیاں بھی استعمال ہو رہی ہیں جو ماحول دوست نہ ہونے کے علاؤہ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ہیں۔ اِس حقیقت کا بھی انکار ممکن نہیں کہ خیبرپختونخوا میں ’بالخصوص و بالعروج‘ صحت و تعلیم کی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبے پر مسلط نجی ادارے بطور مافیا اس حد تک مضبوط‘ منظم و متحد ہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی بھی قسم کی سودا بازی کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ذاتی مفادات کے اسیر (کاروباری سوچ) سب سے زیادہ چندہ دینے والے اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسی کوئی بھی ’فیصلہ سازی (قانون سازی)‘ ممکن نہیں رہی‘ جس سے مقابلے کی فضاء پیدا ہو‘ خدمات کا معیار و مقدار بہتر ہو اور صارفین کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔
پشاور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا بڑا اِنحصار ’آٹو رکشہ‘ پر ہے‘ جس میں فی کلومیٹر سفر کے نہ تو نرخ مقرر ہیں اور نہ ہی اِن تین پہیوں والی سواریوں کے لئے ’فٹنس سرٹیفکیٹس‘ جیسی ضرورت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پہلے سے موجود ’ساٹھ ہزار سے زیادہ آٹو رکشاؤں اور موٹرسائیکلوں کے شہر میں ایک ایسی ’پبلک ٹرانسپورٹ سروس‘ کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس کے لئے مزید آٹورکشہ اور موٹرسائیکل حاصل کئے جائیں گے اور اِس سروس کی خاص (مختلف) بات یہ ہوگی کہ اِن کی بکنگ دن یا رات کے کسی بھی وقت ’آن لائن‘ کی جا سکے گی۔ صارف کو خوف نہیں ہوگا کہ ڈرائیور کون ہے اور کہیں اُسے دیر رات گئے لوٹ تو نہیں جائے گا۔ اِس نئی سروس کا نام ’ہندکو زبان‘ کے الفاظ ’’جلسو جی؟‘‘ (کیا آپ سفر کرنا پسند کریں گے؟) سے ماخوذ ہے اور پشاور کی مختلف جامعات (یونیورسٹیز) سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے آٹورکشہ کے ذریعے 10 روپے اور موٹرسائیکل کی فی کلومیٹر سواری کی قیمت 8 روپے مقرر کی ہے۔
’آن لائن‘ بکنگ کے لئے ’کاریم‘ اور ’اُوبر‘ کی طرز پر ’ایپلی کیشن‘ بھی تخلیق کر لی گئی ہے جسے ’وہیلز (Vheelz)‘ کا نام دیا ہے اور اِس کے ذریعے ’جی پی ایس‘ پر مبنی صارف کی لوکیشن (محل وقوع) اور منزل کا تعین کیا جائے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی دنیا میں یہ کوئی اچھوتا خیال نہیں لیکن اِس لحاظ سے قابل افسوس ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں گاڑیوں پر منحصر نظام پشاور پہنچنے کے بعد بھی ترقی نہیں کرسکا اُور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پشاور انواع و اقسام کے شورمچاتے‘ دھواں گرد اُڑاتے آٹوکشاؤں سے کبھی بھی نجات حاصل نہیں کر پائے گا!
کیا آٹو رکشا اُور موٹرسائیکلوں پر مبنی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے نظام سے پشاور کو آرام دہ اور جدید ترین آمدروفت کی سہولیات میسر آ جائیں گی؟ سوال یہ بھی ہے پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنے کی بنیادی ذمہ داری تو صوبائی اور پشاور کے ضلعی حکمرانوں کی ہے جنہیں عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات کا احساس تک نہیں!
کیا ’جلسو جی‘ کامیاب ہو پائے گی جبکہ پشاور کے عازمین صابر بھی نہیں!؟ وہ چاہتے ہیں کہ گھر سے قدم باہر رکھیں تو سواری تیار ملے اور جہاں جانا ہو‘ تو چند قدم بھی پیدل نہ چلنا پڑے۔ پشاور میں ٹریفک سے جڑے بیشتر مسائل شاہانہ مزاج‘ طورطریقوں (بے صبری) کا نتیجہ ہیں وگرنہ بازار کلاں سے براستہ گھنٹہ گھر تا چوک یادگار ٹریفک ’ون وے‘ کی جا سکتی ہے‘ اور پارکنگ کے لئے ’گورگٹھڑی‘ اور ’قلعہ بالاحصار‘ کے اردگرد کا وہ حصہ استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں کبھی درختوں کی قطاریں ہوا کرتی تھیں۔ اِس سلسلے میں محکمۂ آثار قدیمہ کی توجہ بھی درکار ہے کہ اِن دنوں گورگٹھڑی کی بحالی میں مصروف ہے اور جاری ترقیاتی کاموں میں گورگٹھڑی کے چار کونوں پر گنبد والے مینار پھر سے بحال کر اِس عمارت کے ظاہری حسن اور جاہ و جلال کو پھر سے زندہ کیا جاسکتا ہے!
دو سو آٹو رکشاؤں اور پانچ سو موٹرسائیکلوں پرمشتمل ٹرانسپورٹ کمپنی سے جڑے ڈرائیورز میں بڑی تعداد طلبہ کی ہوگی جو یہ کام پارٹ ٹائم (جز وقتی) یا فل ٹائم (کل وقتی) طور پر کریں گے جبکہ اپنی گاڑیاں رکھنے والے بھی اِس حکمت عملی کا حصہ بن سکتے ہیں‘ جس میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور اے کاش کہ پشاور کو ماحول دوست ’ٹیکسی سروس‘ بھی میسر آ جائے لیکن ایسا کرنے کے لئے آٹورکشاؤں کی تعداد کم کرنا یا اُنہیں مختلف علاقوں میں اِس طرح تقسیم کرنا ہوگا کہ جی ٹی روڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں پر اِن کا بوجھ کسی صورت کم کیا جا سکے۔
Peshawar will get a public transportation system based on Auto Rickshaw and motorcycles, would it be sustainable and upto the needs of one of fast growing cities of the Khyber Pukhtunkhwa |