Friday, March 31, 2017

Mar2017: Jul so Jee - Public Transport Solution for Peshawar?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جلسو جی؟
پاکستان کے بڑے شہروں (کراچی‘ لاہور اُور اسلام آباد) کی سطح پر ’داخلی ذرائع آمدروفت (لوکل ٹرانسپورٹ)‘ کے شعبے میں نجی اِداروں کی سرمایہ کاری سے سہولت اُور اِداروں کے درمیان مقابلے کی وجہ سے صارفین کے لئے کم قیمت بالانشین خدمات میسر ہیں۔ درحقیقت ’کاریم (Careem)‘ نامی جس اِدارے نے جدید‘ محفوظ و آرام دہ موٹرگاڑیوں کے ذریعے کراچی میں ’لوکل ٹرانسپورٹ‘ متعارف کرائی تو یہ متحدہ عرب امارات کے 53 شہروں میں کامیابی سے جاری ایک تجربے کا تسلسل تھا اور پھر اِسی تجربے کی کامیابی و بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھتے ہوئے دیگر کئی عالمی اِداروں نے پاکستان میں قدم رکھا‘ جن میں’اُوبر (Uber)‘ نامی امریکی کمپنی بھی تھی جس سے سال دوہزار پندرہ وابستہ ڈرائیورز کی تعداد سات ہزار سے زیادہ اور سالانہ منافع گیارہ کھرب روپے سے زیادہ تھا لیکن پاکستان میں ’اُوبر‘ کی خدمات کا معیار ’کاریم‘ کی طرح اچھا نہیں رہا پھر بھی لوکل ٹرانسپورٹ کی سہولیات میں یہ ایک گرانقدر اضافہ تھا۔ 

کراچی کے بعد ’کاریم‘ سمیت دیگر عالمی و پاکستانی نجی اداروں کا دائرۂ کار لاہور اور اسلام آباد تک پھیلایا گیا لیکن جب پشاور کی بات آئی تو کسی ایک کمپنی نے بھی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کو منظم و فعال کرنے میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا اور اس کی ’ٹھوس وجوہات‘ بیان کی جاتی ہیں کہ ایک تو پشاور کی سڑکیں موجود ٹریفک ہی کا دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ عام آدمی کی قوت خرید (مالی سکت) دیگر شہروں کے مقابلے کم ہے۔ سڑکوں کی حالت ایسی ہے کہ کم فاصلہ طے کرنے میں بھی اکثر گھنٹے خرچ ہو جاتے ہیں۔ امن و امان کی خراب صورتحال بھی رکاوٹ ہے کہ صرف قبائلی علاقوں سے جڑی پٹی کے کئی حصے (نوگو ایریاز) ہی نہیں بلکہ حیات آباد جیسی ’جدید رہائشی بستی‘ میں قائم حفاظتی دیوار میں جابجا ’کھڑکیاں اور دروازوں‘ کی وجہ سے نجی سفر اور گاڑیاں نسبتاً محفوظ نہیں۔ علاؤہ ازیں ٹریفک کا بے ہنگم نظام ہے جس میں ڈرائیورز کی بڑی تعداد کے پاس ’ڈرائیونگ لائسینس‘ نہیں اُور پرانے ماڈلز کی ایسی سست رفتار و خراب گاڑیاں بھی استعمال ہو رہی ہیں جو ماحول دوست نہ ہونے کے علاؤہ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ہیں۔ اِس حقیقت کا بھی انکار ممکن نہیں کہ خیبرپختونخوا میں ’بالخصوص و بالعروج‘ صحت و تعلیم کی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبے پر مسلط نجی ادارے بطور مافیا اس حد تک مضبوط‘ منظم و متحد ہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی بھی قسم کی سودا بازی کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ 

ذاتی مفادات کے اسیر (کاروباری سوچ) سب سے زیادہ چندہ دینے والے اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسی کوئی بھی ’فیصلہ سازی (قانون سازی)‘ ممکن نہیں رہی‘ جس سے مقابلے کی فضاء پیدا ہو‘ خدمات کا معیار و مقدار بہتر ہو اور صارفین کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔

پشاور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا بڑا اِنحصار ’آٹو رکشہ‘ پر ہے‘ جس میں فی کلومیٹر سفر کے نہ تو نرخ مقرر ہیں اور نہ ہی اِن تین پہیوں والی سواریوں کے لئے ’فٹنس سرٹیفکیٹس‘ جیسی ضرورت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔  پہلے سے موجود ’ساٹھ ہزار سے زیادہ آٹو رکشاؤں اور موٹرسائیکلوں کے شہر میں ایک ایسی ’پبلک ٹرانسپورٹ سروس‘ کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس کے لئے مزید آٹورکشہ اور موٹرسائیکل حاصل کئے جائیں گے اور اِس سروس کی خاص (مختلف) بات یہ ہوگی کہ اِن کی بکنگ دن یا رات کے کسی بھی وقت ’آن لائن‘ کی جا سکے گی۔ صارف کو خوف نہیں ہوگا کہ ڈرائیور کون ہے اور کہیں اُسے دیر رات گئے لوٹ تو نہیں جائے گا۔ اِس نئی سروس کا نام ’ہندکو زبان‘ کے الفاظ ’’جلسو جی؟‘‘ (کیا آپ سفر کرنا پسند کریں گے؟) سے ماخوذ ہے اور پشاور کی مختلف جامعات (یونیورسٹیز) سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے آٹورکشہ کے ذریعے 10 روپے اور موٹرسائیکل کی فی کلومیٹر سواری کی قیمت 8 روپے مقرر کی ہے۔ 

’آن لائن‘ بکنگ کے لئے ’کاریم‘ اور ’اُوبر‘ کی طرز پر ’ایپلی کیشن‘ بھی تخلیق کر لی گئی ہے جسے ’وہیلز (Vheelz)‘ کا نام دیا ہے اور اِس کے ذریعے ’جی پی ایس‘ پر مبنی صارف کی لوکیشن (محل وقوع) اور منزل کا تعین کیا جائے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی دنیا میں یہ کوئی اچھوتا خیال نہیں لیکن اِس لحاظ سے قابل افسوس ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں گاڑیوں پر منحصر نظام پشاور پہنچنے کے بعد بھی ترقی نہیں کرسکا اُور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پشاور انواع و اقسام کے شورمچاتے‘ دھواں گرد اُڑاتے آٹوکشاؤں سے کبھی بھی نجات حاصل نہیں کر پائے گا! 

کیا آٹو رکشا اُور موٹرسائیکلوں پر مبنی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے نظام سے پشاور کو آرام دہ اور جدید ترین آمدروفت کی سہولیات میسر آ جائیں گی؟ سوال یہ بھی ہے پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنے کی بنیادی ذمہ داری تو صوبائی اور پشاور کے ضلعی حکمرانوں کی ہے جنہیں عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات کا احساس تک نہیں! 

کیا ’جلسو جی‘ کامیاب ہو پائے گی جبکہ پشاور کے عازمین صابر بھی نہیں!؟ وہ چاہتے ہیں کہ گھر سے قدم باہر رکھیں تو سواری تیار ملے اور جہاں جانا ہو‘ تو چند قدم بھی پیدل نہ چلنا پڑے۔ پشاور میں ٹریفک سے جڑے بیشتر مسائل شاہانہ مزاج‘ طورطریقوں (بے صبری) کا نتیجہ ہیں وگرنہ بازار کلاں سے براستہ گھنٹہ گھر تا چوک یادگار ٹریفک ’ون وے‘ کی جا سکتی ہے‘ اور پارکنگ کے لئے ’گورگٹھڑی‘ اور ’قلعہ بالاحصار‘ کے اردگرد کا وہ حصہ استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں کبھی درختوں کی قطاریں ہوا کرتی تھیں۔ اِس سلسلے میں محکمۂ آثار قدیمہ کی توجہ بھی درکار ہے کہ اِن دنوں گورگٹھڑی کی بحالی میں مصروف ہے اور جاری ترقیاتی کاموں میں گورگٹھڑی کے چار کونوں پر گنبد والے مینار پھر سے بحال کر اِس عمارت کے ظاہری حسن اور جاہ و جلال کو پھر سے زندہ کیا جاسکتا ہے! 

دو سو آٹو رکشاؤں اور پانچ سو موٹرسائیکلوں پرمشتمل ٹرانسپورٹ کمپنی سے جڑے ڈرائیورز میں بڑی تعداد طلبہ کی ہوگی جو یہ کام پارٹ ٹائم (جز وقتی) یا فل ٹائم (کل وقتی) طور پر کریں گے جبکہ اپنی گاڑیاں رکھنے والے بھی اِس حکمت عملی کا حصہ بن سکتے ہیں‘ جس میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور اے کاش کہ پشاور کو ماحول دوست ’ٹیکسی سروس‘ بھی میسر آ جائے لیکن ایسا کرنے کے لئے آٹورکشاؤں کی تعداد کم کرنا یا اُنہیں مختلف علاقوں میں اِس طرح تقسیم کرنا ہوگا کہ جی ٹی روڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں پر اِن کا بوجھ کسی صورت کم کیا جا سکے۔
Peshawar will get a public transportation system based on Auto Rickshaw and motorcycles, would it be sustainable and upto
the needs of one of fast growing cities of the Khyber Pukhtunkhwa

Thursday, March 30, 2017

Mar2017: Protest against Corruption!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مسلط عذاب!
’خیبرپختونخوا میڈیکل انسٹی ٹیوشن ریفارمز ایکٹ 2015‘ کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت نے سرکاری علاج گاہوں کو ایک ایسی ’خودمختاری‘ دی ہے‘ جس سے وابستہ بہتری کی توقعات پوری ہی نہیں ہوئیں بلکہ سرکاری علاج گاہوں کے مسائل پہلے سے زیادہ اُلجھ گئے ہیں۔ اصلاح احوال (بہتری لانے کی غرض سے کئے گئے قانون سازی پر مبنی اقدام) کا بنیادی خیال (مقصد) یہ تھا کہ سرکاری علاج گاہوں سے جڑی عوام کی مشکلات بصورت مسلط عذاب کم ہوں‘ یہ ہسپتال مالی طور پر اپنے فیصلے‘ اپنی ضروریات (حاجات) کے مطابق خود کریں اور مالی وسائل کا ترقیاتی امور پر زیادہ مالی وسائل خرچ ہوں لیکن جو کچھ حاصل ہوا وہ اِس کے برعکس رہا یعنی سرکاری ہسپتالوں کو دیئے جانے والے مالی وسائل یا اُن کی اپنی آمدنی کا بڑا حصہ غیرترقیاتی امور (چنیدہ انتظامی عہدیداروں کی تنخواہوں اُور مراعات) پر خرچ ہونے لگے اور یہیں سے وہ خرابی شروع ہوئی‘ جس کی وجہ سے علاج معالجے کا معیار روز بہ روز گرتا چلا گیا! برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ اصلاحات کے عرصہ تین سال بعد بھی سرکاری علاج گاہیں وہیں کی وہیں بھی کھڑی ہوتیں تو کوئی بات نہیں تھی لیکن مالی و انتظامی خودمختاری ملنے کے بعد اُلجھنیں ہر ’گزرتے دن‘ بڑھتی چلی گئیں۔ 

سرکاری علاج گاہوں کے انتظامی مسائل اور سرکاری ملازمین کے شاہانہ مزاج اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ ضلع ایبٹ آباد کے ’ایوب ٹیچنگ ہسپتال‘ کی مثال لیں تو معالجین اُور معاونین پر مشتمل عملے نے ’خودمختار (مادرپدر آزاد) انتظامیہ‘ کے خلاف پہلا باضابطہ احتجاج 28 جولائی 2015ء کو کیا تھا‘ جس میں سوائے ایمرجنسی علاج معالجے کی تمام سہولیات معطل کر دی گئیں تھیں اور اُس وقت جن خدشات کا اظہار کیا گیا‘ وہ وقت کے ساتھ ایک ایک کرکے درست ثابت ہوتی چلی گئیں اُور اُن کی اِصلاح باوجود یقین دہانی بھی نہیں کی گئی جس کے وجہ سے یہ نوبت آئی کہ ’28 مارچ کے روز ڈاکٹروں نے انوکھا احتجاج شروع کرتے ہوئے ایوب ٹیچنگ ہسپتال (کمپلیکس) کی عمارت کے اندر مریضوں کا معائنہ کرنے کی بجائے عمارت کے احاطے میں شامیانے لگا کر ’اُو پی ڈی‘ قائم کی‘ اور یوں کھلے آسمان تلے مریضوں کا معائنہ تمام دن جاری رہا جس میں دوہزار سے زائد مریض آئے۔ تصور کیجئے کہ ہسپتال آنے والے مریضوں نے ’کتنا اَچھا‘ محسوس کیا ہوگا‘ جب تمام دن ’’طبی معائنہ اُور اِحتجاج‘‘ ساتھ ساتھ چلتے رہے اور اُنتیس مارچ کے روز دوسرے دن بھی ڈاکٹروں نے ’اُو پی ڈی‘ کے تحت مریضوں کا معائنہ موسم بہار کی کھلی کھلی دھوپ میں کیا!

اَیوب ٹیچنگ ہسپتال کی خودمختاری کے بعد قائم ہونے والے ’بورڈ آف گورنرز (خودمختار انتظامیہ)‘ کے سات اراکین میں جاوید پنی‘ ڈاکٹر عاصم یوسف‘ کرنل ریٹائرڈ صلاح الدین‘ طارق خان‘ بریگیڈئر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر خالد حسین‘ میجر جنرل (ریٹائرڈ) پروفیسر ڈاکٹر آصف علی خان‘ سابق ڈائریکٹر جنرل وفاقی وزارت خزنہ ڈاکٹر نجیب عباسی شامل ہیں‘ جن سے باوجود کوشش بھی رابطہ ممکن نہیں ہوسکا تاہم ’آف دِی ریکارڈ‘ ڈاکٹروں کی ہڑتال اُور بدعنوانی کی نشاندہی کو بے بنیاد الزامات قرار دیا لیکن ’پروانشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) کے صوبائی صدر ڈاکٹر امین آفریدی کا مؤقف اور دلائل ’نظرانداز‘ کرنا ممکن نہیں! اُن کے تلخی بھرے (تندوتیز) لب و لہجے میں موجود سچائی ’سیاسی یا غیرسیاسی مخالفت یا انتظامی امور میں مداخلت‘ قرار دے کر نظراَنداز نہیں کی جا سکتی کیونکہ سچائی الفاظ کو معطر بھی کر دیتی ہے۔ 

ڈاکٹر امین آفریدی کا کہنا ہے کہ ایوب ٹیچنک ہسپتال میں جاری احتجاج کے ’تین بنیادی محرکات‘ ہیں۔1: ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹروں کو فراہم کی گئیں ’رہائشگاہیں (ہاسٹلز)‘ میں صرف بنیادی سہولیات ہی نہیں ناکافی سیکورٹی (حفاظتی امور) کی وجہ سے اب تک ایک ڈاکٹر کی ہلاکت اور کئی ایک افسوسناک واقعات پیش آ چکے ہیں۔ بدعنوانی کے غالب امکان کی وجہ سے سرکاری ہسپتال کے اپنے ہاسٹل کی تعمیر کا منصوبہ التوأ (سردخانے) کی نذر کر دیا گیا ہے اور ایک نجی ہاسٹل کو سال 2008ء سے سالانہ ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کرائے کی مد میں ادا کیا جا رہا ہے۔ اگر ہسپتال کی انتظامیہ مخلص و ایماندار ہوتی تو اتنی بڑی رقم کسی نجی مالک مکان کو دینے کی بجائے اِسی پیسے سے وسیع و عریض ہسپتال کے اندر کسی کونے میں ’ہاسٹل تعمیر کر سکتی تھی!‘ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ہاسٹل کی تعمیر کا منصوبہ ’پی سی ون (ابتدائی منصوبہ بندی)‘ کے باوجود بھی کیوں منسوخ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے احتجاج کی دوسری وجہ ہسپتال میں غیرقانونی بھرتیاں ہوئی ہیں اور تیسری وجہ من پسند ریٹائر افراد کی خدمات تین سے پانچ لاکھ روپے ماہانہ کے عوض حاصل کی گئیں ہیں‘ جس سے مریضوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن بھاری تنخواہیں اور مراعات پانے والوں کے ’وارے نیارے‘ ہیں! 

تصور کیجئے کہ ایوب ڈیٹنسٹری اور ایوب پیڈز گائنی (خواتین کے لئے مخصوص) 300بیڈز جیسے اہم منصوبوں (شعبوں)کو فعال کرنے کے لئے تو مالی وسائل دستیاب نہیں اُور ہسپتال میں موجود سہولیات میں اضافے کے اِن ’کلیدی منصوبوں‘ میں مالی بدعنوانیاں بعدازتحقیقات ثابت ہونے کے باوجود بھی ذمہ دار (بدعنوان) عناصر کا نہ تو احتساب عملاً ممکن ہوا‘ اُور نہ ہی اُنہیں سرکاری وسائل کی لوٹ مار کرنے کی پاداش میں اِنتظامی عہدوں سے علیحدہ کیا گیا‘ تو جب اِنصاف و اِحتساب (سزا و جزأ) کے تصورات اور فکروعمل کے معیار اِس قدر دھندلے (مقروض محکوم و مجبور) ہوں گے تو ایسی صورتحال کو ’نئے خیبرپختونخوا کی تشکیل‘ یا کسی ایسی ’تبدیلی‘ سے تعبیر (منطبق) نہیں کیا جاسکتا‘ جس کا مقصد عوام کی فلاح (اِجتماعی بہبود) ہو۔ زمینی حقیقت ہے کہ جب سے ’ایم ٹی آئی‘ نافذ ہوا ہے‘ کم وبیش 3 سال کے عرصے کے دوران ’’12 کروڑ روپے‘‘ ہسپتال کے چند انتظامی عہدوں پر فائز ’’بااثر افراد‘‘ کو تنخواہوں‘ دیگر مراعات اور مختلف شہروں میں آمدورفت (قیام و طعام) کی مد میں ادا کئے گئے ہیں۔ کسی ہسپتال پر اوسطاً ’4کروڑ روپے‘ سالانہ کا مالی بوجھ معمولی قرار دے کر نظرانداز کر دیا جائے جبکہ اِس خطیر رقم سے نہ صرف سینکڑوں ہزاروں مریضوں کو مفت اَدویات اور پیچیدہ امراض کے آپریشنز (جراحتی عمل مکمل) کئے جا سکتے ہیں! بلکہ ایک پورا ہسپتال چلایا بھی جا سکتا ہے! 

سوال یہ ہے کہ ضلع ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے اپنے معنوی وجود کے ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دے رہے؟ عوام کے منتخب نمائندوں نے کیوں ’تجاہل عارفانہ‘ اِختیار کر رکھا ہے جبکہ اُن کی ناک تلے ہونے والی بدعنوانیوں‘ بے ضابطگیوں‘ بے قاعدگیوں اُور بدانتظامیوں کی ’حشرسامانیاں) دیکھنے کے باوجود بھی نہیں دیکھ رہے! (خدانخواستہ‘ خاکم بدہن) کہیں ایسا تو نہیں کہ ’بنی گالہ‘ سے مسلط ہونے والے فیصلوں کا سحر (جادو منتر) کی تاثیر کچھ ایسی ہے کہ منتخب نمائندوں کی سوچنے سمجھنے اُور بولنے کی صلاحیتوں سلب ہو چکی ہیں؟ 
’’میرے چاروں طرف ایک سیلاب خوں کس اذیت میں ہوں۔۔۔ 
کس قدر خوف ہے میرے اعصاب پر‘ شعر کیسے لکھوں؟ (احمد امتیاز)۔‘‘
Doctors of Ayub Teaching Hospital Abbottabad on Protest against corruption

Wednesday, March 29, 2017

Mar2017: Political Tug of War!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سرخرو سیاست!
نورا کشتی ملاحظہ کیجئے کہ وزیراعظم تین مرتبہ اندرون سندھ کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے پنجاب میں مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور دونوں جماعتیں ہی آئندہ عام انتخابات میں ایک دوسرے کو کڑا مشکل سے دوچار کرنے کے دعوے کر رہی ہے جبکہ عوام کو درپیش بحرانوں کے حل کی نوید سناتے اور ذمہ داروں کا تعین بھی کرتے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کرنے میں جن سیاسی جماعتوں کا بنیادی کردار رہا ہے‘ اُن کا تعلق یا تو حکومت سے رہا ہے یا پھر حزب اختلاف سے۔ باری بدل بدل کر حکمرانی کرنے والوں کی نظریں بھی سپرئم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں جہاں فیصلہ مرتب ہو رہا ہے یا سو رہا ہے‘ ایک ہی بات ہے!

پیپلزپارٹی خود کو سرخرو سمجھ رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر حامد کاظمی ’باعزت بری‘ ہوئے‘ تو مبارکبادوں اور مخالفین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کیونکہ اُن کے خلاف بنائے جانے والے مقدمات ’سنی سنائی‘ باتوں پر مبنی تھے۔ سابق چیف جسٹس اِفتخار چودھری نے سیاسی جج ہونے کا کردار ادا کیا۔ جس کا دباؤ موجودہ سپرئم کورٹ پر ڈالتے ہوئے ’پیپلزپارٹی‘ للکار رہی ہے اور قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پانامہ کیس میں وزیراعظم کے خلاف فیصلہ نہیں آئے گا‘ اور اِسی ’ناانصافی‘ کو لیکر وہ آئندہ انتخابات کے لئے ہمہ وقت تیار ہے لیکن اِس مرتبہ سندھ سے نہیں بلکہ پنجاب کو مرکز بنائے گی!

اٹھائیس مارچ کے روز لاہور میں مقیم آصف زرداری نے مبینہ طور پر ’پارٹی کے دیگر قائدین‘ سے مشاورت کے بعد ’سیاسی صف بندی‘ کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اُن کے کسی فیصلے سے کسی کو بھی اختلاف کی جرأت نہیں ہو سکتی! لیکن جس سیاسی صف بندی کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے اُسے ’سپرئم کورٹ‘ کے فیصلے سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ پیپلزپارٹی دیگر سیاسی جماعتوں سے ایک قدم آگے سوچ رہی ہے اور اُس نے ہر طرح کے حالات کے لئے الگ الگ حکمت عملی مرتب کر رکھی ہے۔

آصف علی زرداری کبھی بھی اِتنے فعال اُور کھلے کھلے نہیں رہے۔ حالیہ دورۂ ملتان میں سابق وزیر حامد سعید کاظمی سے ملاقات کے بعد انہوں نے عدلیہ پر نشترزنی کا یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اِس سے زیادہ خطرناک بات یہ تاثر دینا ہے کہ ’’وزیراعظم کے خلاف پانامہ کیس میں کبھی بھی فیصلہ نہیں آئے گا۔‘‘ پیپلزپارٹی کے قائدین جس لب و لہجے اور جس گرمجوشی سے عدالتی نظام پر اپنی بے اعتمادی کا بھی اظہار کر رہے ہیں‘ اُنہیں سمجھنا چاہئے کہ عوام کے پاس صرف یہی ایک اُمید باقی بچی ہے۔ باقی سب اداروں کا تو وہ پہلے ہی ’خانہ خراب‘ کر چکے ہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ اور ’وفاقی تحقیقاتی اِدارہ (ایف آئی اے)‘ فعال ہیں؟ بطور سیاستدان آصف علی زرداری سمیت سبھی ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے وہ کسی بھی انتخابی حلقے سے بطور اُمیدوار عام انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے لیکن کیا ایسا کرنے کی صورت اُس حلقے کے مقامی کارکنوں کی حق تلفی نہیں ہوگی؟ الیکشن کمیشن کو اِس بارے غور کرنا چاہئے کہ ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لینے پر پابندی عائد ہونی چاہئے کیونکہ ’پے در پے‘ ضمنی انتخابات‘ کسی بھی صورت سستے نہیں ہوتے۔

پیپلزپارٹی قبل ازیں بھی پنجاب سے عام انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہے اور اگر اپنے دور میں جنوبی پنجاب پر مشتمل علاقوں کو الگ صوبے کا درجہ ’حسب اعلان‘ دے چکی ہوتی‘ تو اُن کی کامیابی کے واضح امکانات دکھائی دے رہے ہوتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندرون سندھ نواز لیگ اور اندرون پنجاب پیپلزپارٹی درحقیقت تحریک انصاف کا راستہ روکنے کے لئے بطور متبادل قیادت خود کو پیش (متعارف) کروا رہی ہے اور تاریخ دیکھے گی کہ دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کسی بھی طرح دوہزار تیرہ سے مختلف نہیں ہوگا۔ قوم کا حافظہ کمزور ہے لیکن اتنا کمزور بھی نہیں۔ عوام نہیں بھولی کہ پیپلزپارٹی حکومت کے بدترین طرزحکمرانی اور بدعنوانی کی کیسی کیسی داستانیں زبان زد عام ہوئیں! اب اگر زرداری صاحب پورے پنجاب کو اپنی مٹھی میں کرنے کی بات کر رہے ہیں تو اس کے لئے انہیں عوام سے ٹوٹا رابطہ بحال کرنا ہوگا۔ 

پورے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو فعال کرنا ہوگا جبکہ پارٹی کا وجود چند گھرانوں تک محدود ہو چکا ہے۔ آج بھی بھٹو کے نام میں بڑی توانائی ہے۔ آج بھی روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ وقعت ہے۔ آج بھی بھٹو خاندان کے خون سے لکھی ہوئی قربانیوں کی داستان کا ہر لہو چمک رہا ہے لیکن ملک کے بڑے شہروں میں ذرائع ابلاغ کی بنیاد پر ووٹ کا فیصلہ کرنے والے اور 27فیصد سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو یقین دلانا ہوگا‘ عام آدمی (ہم عوام) کو بتانا ہوگا کہ وہ اجتماعی بہبود کے لئے ایسا کیا مزید کرنا چاہتے ہیں جو پہلے نہ کرسکے۔ 

پیپلزپارٹی قیادت کو خیبرپختونخوا کے حوالے سے بھی اپنی ترجیحات کھول کر بیان کرنی چاہیءں کیونکہ پیپلزپارٹی کارکنوں میں پائی جانے والی اِنتہائی مایوسی کسی بھی صورت نیک شگون نہیں اور آئندہ عام انتخابات پر منفی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ بہرحال ملک کا کوئی بھی صوبہ ہو‘ آخری فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے جو سیاسی جماعت کو مطمئن کرے گا‘ وہی سرخرو ہو گی‘ محض زبانی جمع خرچ اور آئندہ عام انتخابات میں قربانیوں کے بطور صلہ‘ ہمدردی کے ووٹ ملنے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔
Understanding between ruling PMLN and PPP not beneficial for the people of Pakistan, why not


Tuesday, March 28, 2017

Mar2017: Thinking evaluation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سوچ بدلے گی!؟
صرف دیکھنا ہی کافی نہیں بلکہ نظر کے ساتھ جڑے ’نکتۂ نظر‘ کی یکساں نہیں بلکہ اِہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نہ تو خبروں‘ حالات حاضرہ پر تبصروں اور نہ ہی تفریح طبع کے پروگراموں میں ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے جذبات و احساسات اور گردوپیش کے ماحول کا خیال رکھا جاتا ہے۔ توجہ مرکوز رہے کہ ’خیبرپختونخوا‘ میں بیٹھ کر سندھ کی طرف دیکھنا اُور سندھ میں بیٹھ کر خیبرپختونخوا کے سماجی ماحول‘ تہذیب اور ثقافت کا خیال رکھنا دو الگ الگ باتیں اور ایسے الگ الگ تقاضے ہیں‘ جنہیں نبھایا نہیں جا رہا.

ہمارے ہاں لسانی‘ علاقائی اور معاشرتی تقسیم سے کہیں زیادہ معاشی و معاشرتی سطح پر مساوی مواقع اور حقوق کے حوالے سے جدوجہد عورت کے حصے میں آتی ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی اولاد کی پیدائش تک عورت کو ’’ذات کی تکمیل‘‘ کے نام پر ایک مسلسل سفر کرنا ہوتا ہے۔ عزت دینے کی بات آئے تو ’’مائیں‘ بہنیں‘ بیٹیاں‘‘ ٹائپ نعروں میں جوڑ کر عورت کی پہچان اور مقام کو صرف رشتوں کے پیمانوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہو یا کوئی عوامی جگہ ’بھائی‘ کا دُم چھلا لگائے بناء مرد سے بات کرنا معیوب ہے جناب۔ سرگوشیاں ہوں گی‘ آنکھوں سے اشارے ہوں گے اور کردار پر کیچڑ اچھال کر اپنی کم مائیگی کے احساس کو تسکین پہنچائی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ گھر پر رہنے والی اور کنبے کا بوجھ اُٹھا کر گھر سے باہر کام کرنے والی یا اپنا کریئر بناتی خواتین میں سے کوئی ایک مسائل کا نسبتاً کم شکار ہوتی ہے لیکن گزشتہ چند روز سے ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر چلتے کچھ ٹیلی ویژن ڈراموں کا جائزہ لینے کی کوشش نے اس حوالے سے مایوس کیا ہے۔ لکھاری کسی معاشرے کا نباض ہوتا ہے جو مختلف بکھری کہانیوں کو جوڑ کر ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ موضوعات کے چناؤ میں حقیقت سے دور ڈرامہ اسکرپٹس کو پروڈکشن ہاؤسز کیسے اسکرین پر چلاتے چلے جارہے ہیں۔ دو بہنوں میں سے ایک کو بطور ڈائن اور دوسری کا کردار روتی دھوتی قربانی کی دیوی‘ اکلوتی ہو یا کثیرالتعداد بیٹیاں کہانی صرف شادی بیاہ کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ بیویوں کے کردار میں ہمارے لکھاری ابھی تک اُنیس سو سینتیس کے ماڈل میں پھنسے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی فکری بددیانتی ملازمت پیشہ خواتین کے کرداروں سے برتی جا رہی ہے۔ آج بھی تعلیم سے لے کر کریئر بنانے تک گھر سے باہر جاتی عورت کے کردار کو اس کے لباس اور بول چال سے ناپا جاتا ہے‘ اگرچہ اس کا چاردیواری سے باہر ہونا ہی بدکرداری کی واضح علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ہر دوسرا ڈرامہ ان خواتین کی مشکلات میں اضافہ کرتے صرف یہ دکھا رہا ہے کہ آفس میں کام کرتی ایک نوجوان خاتون اپنے باس سے فلرٹ کر رہی ہے جس کا انجام کار شادی پر ہی ہے۔ کسی جوان بیوہ کا کردار ہے تو مجال ہے کہیں یہ دکھایا جائے کہ سرکاری ملازم کی بیوہ پینشن کے حصول سے لے کر دیگر دفتری معاملات میں کیسے نفسیاتی طور پر کچلی جاتی ہے یا اگر کوئی ذاتی کام کاج کرنے والا شخص دنیا سے چلا گیا تو اس کی بیوہ بچوں کے مسائل کس نوعیت کے ہوسکتے ہیں اور ان سے لڑتی باہمت عورت کیا کچھ کر سکتی ہے۔

تیزاب گردی‘ غیرت کے نام پر قتل‘ وٹہ سٹہ‘ ونی اُور دیگر ایسے حساس موضوعات کو ہینڈل کرنے کا ڈھنگ نہیں سیکھ پا رہے۔ عورت کے استحصال کا آغاز دہلیز کے باہر نکلنے سے قبل گھر سے ہی ہوا کرتا ہے اور غور کیا جائے تو پہلا پتھر گھر کی بڑی بوڑھیوں کی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ خوراک‘ صحت اُور تعلیمی درسگاہ کے اِنتخاب تک میں صنفی تقسیم اور بددیانتی برتی جاتی ہے۔ بچی بڑی ہو رہی ہے تو دودھ‘ انڈے‘ خشک میوہ جات اور گوشت وغیرہ سے بچانا چاہئے لیکن پوتے کو یہ سب زیادہ مقدار میں ٹھونسنے کو دیا جائے۔ رشتہ دیکھنا ہے تو لڑکی دبلی پتلی‘ گوری چٹی‘ سر و قد‘ تیکھے نقوش‘ سگھڑاپے کی مورت‘ کم عمر ہو لیکن ڈگریاں ڈٹ کر حاصل کر رکھی ہوں۔ بہو سے زیادہ بیٹے کی صحت و خوراک پر توجہ مرکوز کی جائے‘ پھر چاہے وہ بہو گھر سنبھالنے اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ گھر سے باہر ملازمت کر کے شوہر کا ہاتھ ہی کیوں نہ بٹاتی ہو۔ چکی کے دو پاٹ اور اس میں پِستی عورت جبکہ اکثر پیسنے والی دوسری عورت!

زندگی سے خوبصورت کچھ نہیں اُور بیٹی ہو یا بیٹا اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا گر سکھانا چاہئے۔ بچوں کو اعتماد دیا جائے تو صنف مخالف کے وجود کو کچل کر اپنی ذات منوانے کی بدصورت روایات ختم ہوسکتی ہے۔ 

تعلیم‘ شعور اُور صحت مند سوچ ہر بچے کاحق ہے۔ پاکستان میں قانون سازی کے ساتھ اِجتماعی شعور میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ 

زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی جگہ بناتی ہوئی عورت ہو یا دیگر خواتین کے تحفظ و حقوق کے بارے میں آواز اٹھاتی‘ قانون سازی میں حصّہ ڈالتی خواتین‘ سب جانتی ہیں کہ ہر دو جگہ بدصورت روئیوں کا اظہار کرنے والوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ سوچ بدلے گی تو عورت کو بطور اِنسان تسلیم کرنے کی راہ میں آسانیاں بھی آتی جائیں گے کہ فی الحال تو خود سے زیادہ کامیاب اور زیادہ کماتی عورت ہر رشتے اُور حوالے سے اکثریت کو عدم تحفظ کا شکار کردیتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے رویئے بھی تبدیل ہونے چاہیءں‘ جس میں عورت کے حوالے سے پیش کئے جانے والے نظریات اُور تصورات سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں!
Thinking about women should be change, now or never

Monday, March 27, 2017

Mar2017: Political use of KP Govt resources!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عادل‘ عدل اُور عدالت!
خاموشی کا توڑ چہچہانا (twittering) بھی تو ہو سکتا ہے! اظہار رائے کی آزادی کا معتبر‘ مستند اور مستعد وسیلہ ’ٹوئٹر (twitter)‘ بن چکا ہے‘ جس سے زیادہ مؤثر‘ فوری’’اِنصاف تک رسائی‘‘ اُور ’احتساب‘ کا کوئی دوسرا ایسا ذریعہ نہیں‘ جو یکساں مقبول اور عام آدمی (ہم عوام) کی دسترس میں ہونے جیسی خصوصیت کا حامل بھی ہو! پچیس مارچ کے روز راقم الحروف نے اپنے ’’ٹوئٹر ہینڈلر‘‘ @peshavar سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے مشیر اور تحریک انصاف کی جانب سے ہزارہ کے لئے مقرر ’ڈویژنل صدر‘ زر گل خان کی 4 تصاویر کے ساتھ یہ (آئینی و اخلاقی) سوالات ’عوام کی عدالت‘ میں پیش کئے کہ 1: کیا خیبرپختونخوا حکومت کا ’ہیلی کاپٹر‘ کوئی بھی شخص اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں رابطۂ عوام کی غرض سے استعمال کر سکتا ہے؟ کیا وزیراعلیٰ کے کسی مشیر یا خیبرپختونخوا اسمبلی کے کسی رکن کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی ملکیت 2 ہیلی کاپٹروں میں سے کسی ایک کا جب جی چاہے استعمال کر سکے؟ آخر قدرتی آفت کی صورت ایسی کیا مجبوری یا دقت درپیش تھی کہ جس کی وجہ سے وقت کی قلت ہو اور چند گھنٹے کے زمینی سفر کی بجائے منٹوں میں طے ہونے والے فضائی سفر اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ ایک نئے خیبرپختونخوا کی تشکیل و تعبیر کا وعدے کرتے ہوئے جس طرح وسائل (پائی پائی) کی بچت اور تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا‘ اُس کی عملاً تکمیل (اُور اظہار) کس کی ذمہ داری ہے؟ ’ٹوئٹر‘ صارفین کی جانب سے بھی چند سوالات اُور تبصروں کی تعداد میں ہر منٹ اضافہ ہوتا چلا گیا‘ جس کی وضاحت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے غیراعلانیہ (مگر آفیشل) ٹوئٹر اکاونٹ @PervezKhattakCM کے ذریعے سامنے آئی اور یکے بعد دیگرے 2 الگ الگ پیغامات کہا گیا کہ ’’میرے مشیر برائے بین الصوبائی تعلقات‘ رکن صوبائی اسمبلی عبدالحق سمیت زرگل (خان) میری نمائندگی کرتے ہوئے ایک جرگے (تصیفہ طلب اجلاس) میں شرکت کرنے گئے جو گلگت بلتستان (اور کوہستان) میں ایک ’ڈیم کی (ملکیت و) رائلٹی‘ کے حوالے سے منعقد ہوا تھا۔‘‘ دوسرے ’ٹوئٹر‘ پیغام میں انہوں نے لکھا ’’علاؤہ ازیں اِس دورے میں (خیبرپختونخوا کے ضلع) کوہستان میں تین نئے اضلاع کے دفاتر کا افتتاح بھی کرنا تھا جس کے لئے بذریعہ ہیلی کاپٹر سفر کیا گیا۔‘‘ خدا کا شکر ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی تردید سامنے نہیں آئی تاہم اُنہوں نے اپنے دور حکومت میں پہلی مرتبہ جس طرح مشیروں اُور اراکین صوبائی اسمبلی کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال کی اجازت مرحمت فرما کر ایک روایت قائم کی ہے تو آگے نہیں بڑھے گی اور کم سے کم اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’بیدار سوشل میڈیا‘ کی وجہ سے وہ آئندہ اپنے (شاہانہ) اختیارات (ایگزیکٹو آڈرز) کے صادر فرمانے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کریں گے جو نہ صرف خیبرپختونخوا حکومت بلکہ پوری تحریک انصاف کے لئے شرمندگی کا باعث بنے!

سوال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے صدر اُور وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاسی امور زرگل خان نے خیبرپختونخوا کے اُس انتخابی حلقے ’PK-62‘ کا دورہ کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال ہی کیوں کیا‘ جہاں ہونے والے ایک ضمنی انتخابی مقابلے کے لئے وہ خود بطور اُمیدوار حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب خود اِسی سوال کے اندر پوشیدہ ہے‘ ذرا غور کیجئے! صرف زرگل خان اُور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ’PK-61‘ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی عبدالحق ہی نہیں بلکہ ’انصاف یوتھ ونگ‘ کے عہدیداروں نے بھی اِس ’مفت کی پرواز‘ کا لطف اُٹھایا تو کیا سیاسی مقصد و سہولت کے لئے استعمال کئے گئے ہیلی کاپٹر کا کرایہ اُسی طرح قومی خزانے میں جمع کرایا جائے گا‘ 

جس طرح دوہزار چودہ میں وزیراعلی اپنے ایک دوست کے صاحبزادے کی شادی میں شرکت کے لئے گئے تو سوشل میڈیا میں اُن کے ذاتی دورے کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ جس پر چیئرمین عمران خان نے مداخلت کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کا کرایہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ اُمید تھی کہ اِس کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کا کوئی بھی اعلیٰ و ادنیٰ رکن سرکاری ہیلی کاپٹر یا دیگر قومی وسائل کا ذاتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرے گا‘ لیکن ایسا بھی نہیں ہوسکا اور فضائی سفر بذریعہ ہیلی کاپٹر جو صرف اور صرف وزیراعلیٰ کی ذات تک محدود تھا تو اب اُسے مشیر اور رکن صوبائی اسمبلی تک وسعت دے دی گئی ہے!

صوبائی حکومت کی جانب سے دی جانے والی وضاحت خیبرپختونخوا کو درپیش مالی بحران سے نہ تو مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی بھی ضرورت اِس حاجت کو جائز قرار دے سکتی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ حال ہی میں کوہستان کو ’3 نئے اضلاع‘ میں تقسیم کیا گیا جس کی وجہ سے وہاں حکومتی انتظامی دفاتر کے قیام کا عمل جاری ہے اور اِس عمل میں رکاوٹیں‘ مشکلات اور مقامی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں‘ جنہیں خوش اسلوبی سے طے اور نئے دفاتر کی ضرورت پوری کرنے کے لئے رکن صوبائی اسمبلی عبدالحق اور مشیر زرگل خان کو بھیجا گیا۔‘‘ اِس جملے میں ’’وسیع تر عوامی مفاد‘‘ کا اضافہ بھی کیا گیا ہے‘ جس کی سمجھ آج تک نہیں آسکی کہ آخر اِس وسیع تر قومی یا عوامی مفاد کا حاصل وصول صرف اُور صرف فیصلہ سازوں کے حق ہی میں کیوں رہتا ہے!؟ 

تسلی و تشفی اُور وضاحت اپنی جگہ لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ ’بارہ مارچ‘ کے روز ضلع کوہستان سے منتخب جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے رکن صوبائی اسمبلی ’عصمت اللہ‘ کے مستعفی ہونے کے بعد‘ وزیراعلیٰ کے مشیر زرگل خان کے قریبی حلقوں نے کہا تھا کہ وہ اِس نشست پر ضمنی عام انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔یہ بیانات ذرائع ابلاغ اور بالخصوص سوشل میڈیا پر زیرگردش (وائرل) رہے جن کی تردید نہ تو ’زرگل خان‘ نے کی اور نہ ہی صوبائی حکومت یا تحریک انصاف کی جانب سے یہ وضاحت جاری کرنے کو ضروری سمجھا گیا کہ ’’آیا وزیراعلیٰ کے مشیر کو ضمنی انتخاب میں پارٹی نامزدگی دی جائے گی یا نہیں۔ سرعام دبی آواز اور نجی محفلوں میں زور دیتے ہوئے تحریک انصاف کے داخلی حلقے بھی اِس بات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ کس طرح منتخب نمائندوں کی موجودگی میں وزیراعلیٰ ایک غیرمنتخب کردار کو اپنا منظور نظر بنائے ہوئے ہیں‘ جو سرکاری وسائل اور عہدے کے ذریعے ضمنی انتخاب پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ 

چاہے ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ دیکھے یا نہ دیکھے لیکن تاریخ رقم ہو رہی ہے اور اِن سوالات پر راکھ ڈال بھی دی جائے تو سلگتے رہیں گے کہ کیا ایسی صورت میں ’شفاف بنیادوں پر ضمنی انتخاب‘ کا انعقاد ممکن ہو پائے گا جبکہ صوبائی حکومت کے وسائل سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک اُمیدوار کو بھرپور اِستفادے کی اجازت دے دی گئی ہو‘ جو محض و برائے ملاحظہ ’حسن اتفاق‘ قرار نہیں دیا جا سکتا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, March 26, 2017

Mar2017: Clean Abbottabad & Priorities!

ژرف نگاہ .... شبیر حسین اِمام
ترقئ معکوس!
شہری ترقی کا معیار اُور فیصلہ سازوں کی ترجیحات دیکھ کر بخوبی اَندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں تو اِس کے محرکات کیا ہیں۔ شاہراہ قراقرم کے کنارے اَیبٹ آباد شہر اُور چھاو ¿نی پر مشتمل یونین کونسلوں کا آغاز اگر ’سلہڈ‘ سے تصور کیا جائے تو شہر کی آخری یونین کونسل ’میرپور‘ ہو گی اُور دیہی و شہری علاقوں پر مشتمل ضلع اَیبٹ آباد کی پچاس سے زائد یونین کونسلوں میں ترقی کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ عام آدمی اور خواص کے لئے سہولیات کا معیار الگ الگ ہے۔

یونین کونسل میرپور کی کہانی ملاحظہ کیجئے جہاں ’سول آفیسرز کالونی اور عثمان آباد‘ جیسے گنجان آباد علاقوں کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر بنایا جانے والا نکاسئ آب کے ایک نالے کی سلاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور یہی منظر یونین کونسل کاکول سے جڑی کینٹ بورڈ کی ’وارڈ نمبر 5‘ کا بھی ہے جہاں ’پی ایم اے‘ روڈ کا ایک حصہ توسیعی منصوبے میں آنے کے بعد متبادل سڑک تعمیر کی گئی لیکن اِس تعمیر کا معیار اِس قدر ناقص و نامکمل ہے‘ کہ نالے پر بنائی جانے والی پل سے آہنی سلاخیں ابھری ہوئی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہلکی و بھاری گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے تمام دن اُور رات استعمال ہونے والا سڑک کا یہ ٹکڑا ’موت کا پھندا‘ ہے۔ ایسے کئی موت کے پھندے ’فوارہ چوک‘ سے ’اَے پی اَیس سکول‘ تک سڑک کے دونوں کناروں پر ’آپٹیکل فائبر‘ تار بچھانے کی صورت پھیلے ہوئے ہیں لیکن عام آدمی (ہم عوام) کی جان و مال ہو‘ صحت و تعلیم یا پینے کے صاف پانی اُور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی‘ سمیت جملہ حقوق اُس کی مالی و سیاسی حیثیت سے مشروط ہیں!

1849ءسے 1853ءتک تعینات رہنے والے پہلے ’ڈپٹی کمشنر‘ میجر جیمس اَیبٹ کے نام سے منسوب ’اَیبٹ آباد‘ کا شمار خیبرپختونخوا کے اِنتہائی تیزی سے پھیلنے والے شہری علاقوں میں ہوتا ہے۔ خوشگوار آب و ہوا کے لئے معروف اَیبٹ آباد میں اگر تعمیرات اُور ترقی کے مقررہ پیمانوں (قواعد و ضوابط) پر خاطرخواہ عملدرآمد ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اِس قدر بے ہنگم و اَبتر صورتحال دَرپیش ہوتی۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ آبادی اُور رقبے کے لحاظ ’فوجی چھاونی‘ (کنٹونمنٹ) محدود ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ”میونسپلٹی (ٹاو ¿ن میونسپل اِتھارٹی)“ کے زیرکنٹرول علاقوں میں ’نئی رہائشی کالونیاں‘ بن رہی ہیں تو کیا یہ مسئلہ بھی حکام کی توجہات کا مرکز ہے؟ ’آٹھ مارچ‘ کی صبح ’کمشنر ہزارہ‘ کی زیرصدارت کنٹونمنٹ بورڈ‘ بلدیاتی و دیگر منتخب نمائندوں کے اِجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ”21 اُور 22 مارچ“ کو 2 روزہ ’صفائی کی مہم‘ چلائی جائے گی جس میں ایبٹ آباد کے ہر حصے کو رضاکاروں بالخصوص طلباءو طالبات کی مدد سے صاف کیا جائے گا اور اِسی کوشش کے ذریعے صفائی سے متعلق ’عوام الناس‘ میں شعور اجاگر کیا جائے گا لیکن کمشنر ہزارہ جیسی بااختیار شخصیت اور کمانڈنٹ و چیف ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ کی موجودگی میں ہوئے ایک اجتماعی فیصلے کو بعدازاں عمل درآمد کے قابل نہیں سمجھا گیا تو اِس سے فیصلہ سازوں کی ترجیحات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں جنہیں اپنا گھر اور اپنے گھر سے جڑی چند گلیوں کی صفائی دیکھ کر اطمینان ہو جاتا ہے کہ باقی ماندہ شہر میں بھی صفائی ستھرائی کی صورتحال ایسی ہی ہوگی!

ایبٹ آباد سے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی ملاحظہ کیجئے جنہوں نے پانچ لاکھ روپے سے زائد رقم ایک ایسے ”مطالعاتی دورے“ پر خرچ کر ڈالی ہے‘ جس کا حاصل سوائے تفریح اور تھکاوٹ کچھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تحصیل آیبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندے 13 مارچ سے 22 مارچ تک لاہور‘ ملتان‘ سکھر‘ سیہون شریف‘ کراچی‘ زیارت‘ کوئٹہ اُور ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کرکے بخیروعافیت واپس لوٹ آئے ہیں۔ مقام شُکر یہ ہے کہ چوبیس رکنی وفد کی قیادت کرنے والے تحصیل ناظم اِسحاق سلیمانی نے ’پانچ رکنی‘ اِنتظامی کمیٹی کی سربراہی سیاسی مخالف جماعت ’نواز لیگ‘ کے ایک نمائندہ کو سونپی‘ جس سے معلوم ہوا کہ اگر معاملہ تفریح طبع کا ہو تو سیاسی مخالفت اُور اختلافات خاطرمیں نہیں لائے جاتے۔ خدا کرے کہ قومی وسائل سے مل جل کر مستفید ہونے کی طرح عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل کے حل کے لئے بھی اسی قسم کے بابرکت اتحاد و اتفاق کی مثالیں عام ہوں!

ایبٹ آباد کی چار یونین کونسلوں کے علاوہ شہر میں کہیں صفائی کا نظام موجود نہیں۔ کوڑے کے ڈھیروں پر ڈھیر بن رہے ہیں۔ ایک ایسا شہر جس میں یومیہ ڈھائی لاکھ کلوگرام گندگی اکٹھا ہو لیکن یومیہ ایک لاکھ کلوگرام سے کم گندگی اٹھائی جا رہی ہو تو تصور محال نہیں کہ آنے والے موسم گرما میں ایبٹ آباد میں کتنے مچھروں اور مکھیوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا!

حال ہی میں ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی (ڈبلیو ایس ایس سی)‘ کو ایبٹ آباد تک وسعت دی گئی ہے تو یہ تجربہ بھی مسئلے کا پائیدار حل ثابت نہ ہوسکا بلکہ اپنی جگہ پر ایک ایسا مسئلہ ہے جو حل (توجہ) چاہتا ہے کیونکہ ’الاماشاءاللہ‘ پہلے ہی کام نہ کرنے والے سرکاری اِداروں کی کیا کم کمی تھی جو ایک اُور ادارے کا اضافہ کر دیا گیا بہرکیف یہ امر بھی حیرت کا باعث ہے کہ مذکورہ کمپنی نے دفتر کے لئے ’پوش ایریا‘ کا انتخاب کیا اور اب تک ملنے والے دو کروڑ روپے جیسی رقم بھی دفتری ضروریات اُور دفتر کے حصول پر ہی خرچ کی گئی لیکن اِس کمپنی کا بنیادی کام جو کہ گندگی صرف اُٹھانا نہیں بلکہ اُسے تلف کرنا‘ نکاسئ آب اور ہر خاص و عام کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے جیسا بنیادی کام نہیں ہوسکا!

عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو اِس کی وجہ خاموشی اُور تجاہل عارفانہ ہے۔ آفیسرز کالونی میں رہنے والے اگر بیچ سڑک سر اُٹھائے آہنی سلاخوں سے اُلجھ اُلجھ کر بھی زندہ ہیں اُور ’پی اَیم اَے کاکول روڈ‘ سے اِستفادہ کرنے والے ایک مستقل عذاب و ذلت برداشت کرنے پر بھی خاموش ہیں تو برداشت کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے اُور برداشت کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ضرور ہونی چاہئے۔

Wednesday, March 22, 2017

Mar2017: Are you going to pollute PTI?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کرچیاں!
شاعر مجید اِمجد نے طویل نظم ’بس اسٹینڈ پر‘ کھڑے جس تصور‘ اُمید اور شب و روز کی مصروفیات کو بیان کیا‘ اُس کا ہر ایک لفظ ’خیبرپختونخوا کے موجودہ سیاسی منظرنامے پر صادق آتا ہے: ’’ضرور اِک روز بدلے گا نظامِ قسمتِ آدم۔۔۔بسے گی اِک نئی دنیا‘ سجے گا اِک نیا عالم۔۔۔شبستاں میں نئی شمعیں‘ گلستاں میں نیا موسم!۔۔۔ ’وہ رُت‘ اَے ہم نفس جانے کب آئے گی؟۔۔۔ وہ ’فصلِ دیر رس‘ جانے کب آئے گی؟ ۔۔۔ یہ ’’نو نمبر‘‘ کی بس جانے کب آئے گی؟‘‘ کسی بس اسٹینڈ پر منتظر لوگوں کے ذہنوں میں ’پاش پاش سوالات‘ کی کرچیاں اُن کی روح کو ہمیشہ لہولہان رکھتی ہیں! 

جاگتی آنکھوں سے زیادہ بڑا عذاب کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا‘ جس سے اَخذ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا سے اگر ’حسب توقع انصاف‘ نہیں کر پائی تو اِس کا ازالہ کسی بھی دوسری صورت ممکن نہیں مگر صوبائی سطح پر تنظیم سازی کے ذریعے کارکنوں کے تحفظات اُور خدشات دور کئے جائیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں سے ’انتخابات میں سرمایہ کاری‘ کرنے والوں کو شمولیت کی دعوت دینے سے قبل کیا پارٹی کے دیرینہ کارکنوں سے رائے لی گئی؟ اگر پارٹی کی ذیلی تنظیمیں بشمول ویمن ونگز ہی فعال و منظم نہیں تو اس قسم کی مشاورت کس سطح پر اور کس سے کی گئی؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آسان سیاسی فیصلے کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ ملنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے سبھی اضلاع میں عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت ’انتخابات بے زار‘ ہو چکی تھی جس کے لئے چہرے اُور انتخابی اتحاد بدل بدل کر وعدے ایفاء نہ کرنے والی ’روائتی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (نواز)‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن)‘ کے معنی صرف ایک تھے کہ اقتدار‘ استحصال اور بدعنوانی کرو‘ (نیب مقدمات کی بطور حوالہ ایک طویل فہرست موجود ہے!) جس کی وجہ سے عوام نے ’’متبادل‘‘ کے طور پر تحریک انصاف کو ووٹ دیئے اور اگر ماضی کے وہی انتخابی شکست خوردہ کردار تحریک انصاف میں شمولیت اِس شرط کے ساتھ شمولیت اختیار کرتے ہیں کہ وہ پارٹی فنڈ میں عطیات کے عوض آئندہ عام انتخابات کے لئے تحریک انصاف کی جانب سے نامزدگی (پارٹی ٹکٹ) پائیں گے تو اس ’(لین دین) سودے بازی‘ کا منفی اثر برآمد ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ اِس سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہر قسم کی بدعنوانی کے خلاف آئینی‘ سماجی اور سیاسی سطح پر جدوجہد کرکے ایک نئے پاکستان کی تشکیل کی جا رہی ہے تو کیا ’نیا پاکستان‘ اُن پرانے چہروں سے تشکیل پا سکتا ہے جن کی ساکھ مشکوک ہو؟

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے سیاسی تجربہ کا فائدہ ’صوبائی حکومت‘ کو کامیابی سے برقرار رکھنے میں تو دکھائی دیتا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف منتشر دکھائی دیتی ہے۔ تنظیم سازی کا عمل غیرضروری طور پر معطل رکھنے سے کارکنوں میں تشویش پائی جاتی ہے جنہیں اپنی سیاسی وابستگی اور جانی و مالی قربانیوں کے صلہ ملنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ تحریک انصاف (کے پیغام) میں یہ صلاحیت (طاقت) تھی کہ عہدوں‘ اختیارات اور مراعات پر مبنی شاہانہ رکھ رکھاؤ کی بجائے سادگی پر مبنی ایک ایسے طرزحکمرانی کی بنیاد رکھتی‘ جو صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے عملی مثال بن جاتی لیکن نہ تو سرکاری دفاتر کے اُوقات کار بدلے اور نہ سرکاری ملازمین کے مزاج میں تبدیلی آئی ہے‘ جن کی نظر میں ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی حیثیت و ضروریات کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں! 

کیا آج کے خیبرپختونخوا میں بنیادی سہولیات (صحت و تعلیم‘ پینے کے صاف پانی کی دستیابی‘ نکاسی آب‘ صفائی‘ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا نظام) ملک کے دیگر حصوں سے مختلف و بہتر ہے؟ 

کیا صوبائی اقتدار سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خیبرپختونخوا میں سیاسی شعور و شہری و دیہی علاقوں میں گردوپیش بہتر بنانے کی سوچ (سوک سینس) ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ اور بدرجۂ اَتم پایا جاتا ہے؟ 

خیبرپختونخوا کے نوجوانوں کو کھیل کود‘ اپنی صلاحیتیں اُجاگر کرنے اور تعلیم و تحقیق کے شعبے میں آگے جانے کے مواقع ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے زیادہ میسر ہیں؟ صنفی مساوات اُور جنسی بنیادوں پر امتیازات کے حوالے سے خیبرپختونخوا ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ مثالی ہے؟ یہاں صارفین کا استحصال نہیں ہو رہا؟ 

خیبرپختونخوا میں شاہراؤں کی حالت‘ بالائی و تاریخی و مذہبی سیاحتی مقامات پر سہولیات کے مقدار اور معیار تبدیل نظر آتا ہے؟ سوشل میڈیا اُور ذرائع ابلاغ کے اَن گنت وسائل کی طاقت سے ’انقلاب کی لہریں‘ اگر چائے کی پیالی سے اُچھل اُچھل کر برپا طوفان کی نشاندہی کر رہی ہوں تو اِس سے ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی زندگی میں عملاً بہتری نہیں آئی ہے کیونکہ نہ تو زراعت کی خاطرخواہ ترقی کی مثالیں موجود ہیں اور نہ ہی اِس اہم شعبے سے جڑے روزگار کے لاتعداد امکانات اور وسائل کی ترقی کا ہدف حاصل ہوسکا ہے۔ 

اَمور حکومت پہلے بھی چل رہے تھے اُور آج بھی رواں دواں ہیں تو کیا یہی وہ تبدیلی ہے‘ جس کی خواہش میں خیبرپختونخوا نے ’متبادل قیادت‘ کا انتخاب کیا اور اب سوچ رہے ہیں کہ کہیں یہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تو نہیں تھا! 
گر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر سے۔۔۔ 
مر کر بھی علاج دل بیمار نہ مانگو! (اَحمد فرازؔ )۔
 Politics of electibles shouldn't be priority of PTI

Monday, March 20, 2017

Mar2017: Obituary: The 'Bibi Dow' of Chitral

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نایاب ہستیاں: ’بی بی ڈُو‘
اپنی زندگیاں کسی مقصد کے لئے وقف کرنے والے ’ظاہری حیات‘ کے بعد بھی اِس صورت زندہ و رہنما رہتے ہیں کہ اِجتماعی بہبود کے بارے میں اُن کے تصورات و نظریات اُور سماجی خدمات مشعل راہ رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت محترمہ ’ماورین پٹریشا لائنز‘ (Maureen P Lines) کی تھی جنہیں احتراماً ’’بی بی ڈُو (Bibi Dow)‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اَٹھارہ مارچ کے روز آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد اُنہیں پشاور کے ’’گورا (عیسائی) قبرستان‘‘ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ 79برس کی عمر میں انتقال کرنے والی ’بی بی ڈُو‘ چند ماہ سے علیل تھیں۔

’بی بی ڈُو‘ سے میری ملاقات یونیورسٹی ٹاؤن پشاور میں اُن کی رہائشگاہ پر ہوئی‘ جہاں وہ موسم سرما کے دوران ہی قیام کرتی تھیں جب چترال آمدورفت کے راستے برفباری سے بند ہو جاتے۔ چترال اُن کی زندگی میں اِس قدر رس بس گیا تھا کہ گھر کی درویوار سے لیکر مہمانوں کی تواضع تک چترال ہی سے لائی گئی سوغات (خشک میوہ جات) سے کرتی تھیں۔ انہیں فوٹوگرافی کا جنون کی حد تک شوق تھا لیکن یہ شوق بھی ایک مقصد و تحریک کے تابع تھا‘ کیونکہ تصاویر کے ذریعے پیغام منتقل کرنے میں زبان اور الفاظ کی محتاجی نہیں رہتی۔ انہوں نے کالاش خاندانوں کی قربت کے ہر قیمتی لمحے کو کچھ اِس انداز میں محفوظ (قید) کیا کہ اُن کے ہاں (فن کمال یہ تھا کہ) ’تصویروں کے بولنے کا گماں ہوتا۔‘ وہ چہرے پڑھ لیا کرتی تھیں۔ آنکھوں میں جھانک کر بات کرنے کی عادت ایک ایسے سچ کا جیتا جاگتا وجود تھا‘ جس کا طلسم سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن مستند ’’سماجی ماہر‘ اِنسان دوست‘ ہمدرد اُور غریب نواز (philanthropist)‘‘ ہونے کے باوجود بھی اُنہوں نے اپنے آپ کو خودنمائی (ذرائع ابلاغ) سے ایک خاص فاصلے پر رکھا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے مقصد کو دے سکیں۔ بطور صحافی تربیت اور تجربے کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی بات دوسروں کے ذریعے کہلوانے کی بجائے براہ راست ’فرائیڈے ٹائمز‘ اور ’ڈان‘ کے ذریعے شائع کرواتی تھیں اور یہی صحافت کا وہ تبدیل ہوتا عالمی انداز ہے جس میں لکھاری اور فوٹوگرافر الگ الگ نہیں رہے بلکہ دونوں ہی ابلاغ کے لئے ایک سے زیادہ ذرائع کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں کم و بیش 37 برس ’بی بی ڈُو‘ کے قیام کا اگر خلاصہ پیش کیا جائے تو انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں اور جملہ وسائل خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں جنگلات اور کالاش قبیلے کے رسم و رواج‘ رہن سہن اور سماجی تحفظ‘ کی نذر کئے۔ اپنی ذات میں ایک تحریک ’بی بی ڈُو‘ سے ملاقات کا سبب اُن کی تصاویر کے انتخاب بارے ایک نشست تھی جو بعد میں مختلف وسیلوں سے جاری رہی۔ فن عکاسی کے بارے میں بھی اُن سے تبادلۂ خیال اُور تکنیکی اَمور کے بارے اُن کی معلومات و مہارت کسی بھی طرح معمولی نہیں تھے۔ تصویر بنانے سے پہلے ہی وہ اُس کے ممکنہ استعمال کے بارے میں بھی فیصلہ کر لیتی تھیں اور اِس سے بھی بڑھ کر اہم بات اُن کی یاداشت تھی‘ جو ہر تصویر کے ساتھ گھنٹوں بولنے کی صورت حافظے کا حصہ تھی۔ اُمید ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اُن کی بنائی ہوئی تصاویر کی قومی و عالمی سطح پر نمائش کے ذریعے اُن کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرے گی۔

برطانوی نژاد ’بی بی ڈُو‘ کو بالخصوص ضلع چترال میں فروغ تعلیم اُور کالاش قبیلے کی ثقافت محفوظ بنانے کے لئے خدمات پر حکومت پاکستان نے 2007ء میں ’’تمغۂ اِمتیاز‘‘سے نوازہ‘ جس کی اپنی جگہ اہمیت لیکن اُنہیں ایسے کسی بھی اعزاز سے اپنی ذات کے لئے خوشی نہیں تھی۔ 

ایک سوال کہ ’’کہ ’تمغۂ امتیاز‘ کا فائدہ یہ ہوا؟‘‘ کے جواب میں اُن کے شائستہ الفاظ کی گونج آج بھی ذہن میں محفوظ ہے کہ ’’اب لوگ میری بات زیادہ سنجیدگی سے سننے لگے ہیں‘ (تعجب ہے کہ) کیا ہمیں اعزازات کی لالچ میں سماجی خدمت کرنی چاہئے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ ’بے نوا انسانوں‘ کی خدمت سے زیادہ بڑا اعزاز کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔‘‘ ’بی بی ڈُو‘ 1937ء برطانیہ میں پیداہوئیں‘ 1980ء میں پہلی مرتبہ پاکستان آئیں اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے چترال کی مخدوش تہذیب کالاش کے لئے اپنی عمر وقف کر دی۔ غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کی طرح کام کرنے والی ’بی بی ڈُو‘ ایک ایسی مثال ہیں جس سے ’این جی اُوز کیمونٹی‘ کو بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ انہوں نے کس انداز میں خود کو کالاش گھرانوں کی بہبود کے لئے وقف کیا اور کس طرح اُن سے گھل مل کر اُن کی قدیم زبان پر بھی دسترس حاصل کی۔ ’بی بی ڈُو‘ آخری عمر تک اس مخدوش و قدیم تہذیب کی ترویج کے لئے کوشاں رہیں۔ متعددکتب تصنیف کیں۔ چترال کے دورافتادہ‘ پسماندہ علاقے کی ایک وادی بریر میں انہوں نے کالاش کے یتیم بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کے ساتھ سکول بھی تعمیر کیا۔ جنگلات کاٹنے والے بااثر مافیا کے خلاف بھی ڈٹ کر تحفظ ماحول کی کوششیں جاری رکھیں۔ ’بی بی ڈُو‘ نے امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی سے عالمی تعلقات اور ابلاغیات کی اسناد حاصل کر رکھی تھیں۔ انہوں نے امریکہ کے زیرانتظام صحت پروگرام میں ملازمت کی اور اسی پلیٹ فارم سے کالاش لوگوں کو مفت ادویات تقسیم کرتی رہیں۔ 1995ء میں انہوں نے فوٹوگرافی پر بھی کتاب لکھی۔ وہ ’’ہندوکش کنزرویشن ایسوسی ایشن‘‘ کی بانی تھیں‘ جنہوں نے تحفظ قدرتی ماحول اور گندھارا تہذیب پر بھی کام کیا۔

کالاشی اور چترالی زبانوں کی ماہرہ ’بی بی ڈُو‘ اپنے اِس اعزاز پر زیادہ فخر کرتی تھیں کہ مقامی لوگ عزت و تکریم کی وجہ سے اُن کا اصل نام نہیں لیتے بلکہ اُنہیں والدہ اور بہنوں جیسا احترام دیتے ہیں۔ 

چترال کی وادیوں میں بیت الخلاء اور پینے کے صاف پانی کی رسائی کے لئے اُن کی کوششیں اپنی جگہ خواتین کے لئے ایسے محفوظ چولہے بھی متعارف کئے جن سے اُنہیں پھیپھڑوں کے امراض لاحق نہ ہوں۔ مضبوط اعصاب والی ’انسانیت دوست ’بی بی ڈُو‘ اگر زندگی کے کسی ایک محاذ پر باوجود کوشش بھی ناکام رہیں تو وہ ’پاکستانی شہریت‘ کا حصول تھا‘ جس کے لئے زیرسماعت ’’مقدمہ‘‘ وہ مرتے دم تک نہ جیت پائیں! ’بی بی ڈُو‘ کی صورت ایک جیتے جاگتے طلسماتی کردار نے اپنے فکروعمل سے ثابت کیا کہ ’’اگر انسان چاہے تو دنیا کو ’جنت نظیر‘ بنا سکتا ہے۔‘‘ اُن کی وفات سے پیدا ہونے والا خلاء شاید ہی کبھی پُر ہو سکے کیونکہ اپنی ذات سے آگے دیکھنے کا ظرف ہر کسی کی شخصیت کا خاصہ نہیں ہوتا۔ ’بی بی ڈُو‘ کو جاننے والوں بالخصوص چترال کی وادیوں میں رہنے والوں کی اکثریت ’بی بی ڈُو‘ کی وفات پر یقیناًغمزدہ اور آنکھوں میں سوالات لئے ہے کہ اَب بلاامتیاز انسانیت کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟ اُور اب ’’بے نواؤں‘ کی آواز‘‘ کون بنے گا؟ 

Saturday, March 18, 2017

Mar2017: Monitoring of the examination halls by CCTVs!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: کاروباری سوچ اور اَزخود نوٹس!
کیا ہوا کہ اَگر ’مفادات سے متصادم‘ آئین سازی کا عمل ’تبدیلی کے عہد و عزم‘ کے باوجود بھی ’بروقت‘ مکمل نہیں ہو پایا لیکن اگر تربیت‘ اخلاق اُور ضمیر سیاسی فیصلہ سازوں کی ترجیحات و شخصیات کا حصہ اُور خود اُنہی کے لئے رہنما ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض اُور بالخصوص ’تعلیمی اِداروں کے شہر‘ اَیبٹ آباد میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر نجی تعلیمی اِدارے یوں من مانی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجاتے دکھائی دیتے! 

وفاق اُور صوبے کے اِمتحانی تعلیمی نگران اِداروں (بورڈز) اور حکومتوں کی موجودگی میں اگر کوئی نجی تعلیمی ادارہ نئے داخل ہونے والوں سے اِضافی ماہانہ فیسیں وصول کر رہا ہے یا اُس نے پہلے سے زیرتعلیم طلباء و طالبات کی ماہانہ فیسوں میں (کم سے کم) ’دس فیصد‘ کے تناسب سے اِضافہ کرنے کی روایت اِس سال بھی برقرار رکھی گئی ہے یا سیکورٹی (حفاظتی انتظامات) اُور ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر ہر سال اور ہر طالب علم سے لاکھوں روپے بٹورے جا رہے ہیں یا زیرتعلیم بہن بھائیوں کے ایک ہی سکول میں داخلے کی صورت ماہانہ فیسوں میں رعائت نہیں دی جا رہی یا نجی تعلیمی اداروں کی آمدن و اخراجات میں شفافیت کا یہ عالم ہے کہ سکولوں کی آمدنی سے خریدے گئے اپنے ہی اثاثوں کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے‘ نجی سکولوں کے مالکان اپنے اہل و عیال کی بطور ملازمین دیگر عملے سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات مقرر کر دیتے ہیں اور یوں آمدنی کا بڑا حصہ ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور عمومی تدریسی عملے کا استحصال ایک عمومی روش بن چکا ہے تو ایسی بہت سی دیگر بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں (خرابیوں) کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتظامی طور پر قواعدوضوابط تو موجود ہیں لیکن اِن کا اطلاق کرنے میں متعلقہ نگران ادارے اِس لئے بھی ناکام ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی کابینہ اور وزیراعلیٰ کے آس پاس‘ مشیر و معاونین کی صورت ایسے کردار موجود ہیں جن کے یا تو براہ راست ذاتی مفادات نجی تعلیمی اِداروں سے وابستہ ہیں یا پھر وہ معلوم وجوہات کی بناء پر اِن اداروں کے مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ 

بنی گالہ کو ’اَزخود نوٹس‘ لینا چاہئے کہ یہی عناصر (مافیا) ’صوبائی سطح پر اُس تعلیمی ہنگامی حالت (اِیمرجنسی)‘ کی راہ میں بھی حائل ہیں جس کے تحت اب تک صوبائی حکومت اربوں روپے سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی اور معیار تعلیم بلند کرنے کے لئے اساتذہ کی تربیت و حاضری یقینی بنانے پر خرچ کر چکی ہے لیکن خاطرخواہ نتائج پھر بھی حاصل نہ ہونے کی وجوہات توجہ اور مطالعہ چاہتی ہیں کیونکہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری (نام اُور کام) عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے اور اگر ایسا کاغذی کاروائیوں کی بجائے عملاً ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا میں ’نجی تعلیمی اِدارے‘ لاچار والدین کی مجبوریوں سے یوں فائدہ اُٹھا رہے ہوتے؟ تصور کیجئے کہ اَگر صوبائی حکومت ’صارفین کے حقوق کی محافظ‘ بن جائے تو کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے کہ نجی تعلیمی اِدارے نہ صرف داخلہ فیسوں بلکہ ماہانہ فیسوں کی مد میں بھی ہر سال ’دس فیصد‘ کے تناسب سے یا من مانا اضافہ کر سکیں؟ سوچئے کہ بناء ہتھیار ڈاکہ جیسے جرم کا اطلاق کسی ایسے مجبور و لاچار کو لوٹنے والوں پر بھی تو کیا جا سکتا ہے جس کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے خواب بسے ہوں؟ 

اگر ’بنی گالہ‘ کو فرصت نہیں تو کیا ’پشاور ہائی کورٹ‘ اَزخود نوٹس لے گی کہ ایک طرف سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار تعلیم کم ترین سطح سے بلند کرنے کی سست رو کوششیں ہر سال ’امتحانی نتائج کے اعلان‘ پر ناکام ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف ’بہ اَمر مجبوری‘ نجی تعلیمی اِداروں سے استفادہ کرنے والوں کا واسطہ ایک ایسی حرص و طمع سے ہے‘ جس کی تسکین مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دے رہی ہے!

توجہ مرکوز رہے تو ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ اِمتحانی بورڈز کی کارکردگی اور ساکھ بہتر بنانے پر خاص توجہ دی جائے۔ سب سے پہلے تو ایک سے زیادہ اقسام کے امتحانی نظام متعارف کرانے سے پیدا ہونے والی مشکل حل کی جائے اور طلباء و طالبات کو تدریسی عمل کے دوران ’امتحانی طریقۂ کار‘ سے متعلق باقاعدہ تربیت دی جائے جس دوران ’امتحانی مراحل‘ طے کرنے کے لئے رہنمائی کے ساتھ کامیابی کے لئے ضروری ’اعتماد و نفسیات‘ بھی شامل ہونی چاہئے۔ دوسری ضرورت امتحانی بورڈز کی کارکردگی شفاف بنانے کی ہے جس کے لئے ’آن لائن‘ وسائل کا استفادہ کم خرچ حل موجود ہے۔ ہر طالب علم کو اُس کے پرچہ جات کے نمبروں (مارکنگ) تک ’آن لائن‘ رسائی دینے میں کیا امر (مشکل) رکاوٹ ہے؟ تیسری ضرورت ہر سال چند نجی تعلیمی اداروں کے مثالی امتحانی نتائج کی روایت سے اِس شک کو تقویت ملتی ہے کہ امتحانی مراکز و نگران عملہ اور پرچہ جات کی جانچ پڑتال کا عمل درجہ بہ درجہ خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ مثال کے طور پر بہت پرانی بات نہیں جب محکمۂ ایکسائز ایبٹ آباد کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے جب نئی نویلی (زیرو میٹر) موٹر گاڑی روک کر اُس کی ملکیت کے کاغذات طلب کئے تو معلوم ہوا کہ مذکورہ گاڑی اِمتحانی بورڈ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے زیراستعمال ہیجبکہ اِس کے ملکیتی کاغذات ایک معروف نجی سکول کے پاس ہیں‘ جس کی انتظامیہ (مالک) اور بورڈ اہکار کے درمیان ’طے شدہ امتحانی نتیجہ‘ کے اعلان تک گاڑی کے ملکیتی کاغذات سکول ہی کے پاس رہیں گے! ایسی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں لیکن صرف اِسی ایک معمولی مثال سے پورے تعلیمی و اِمتحانی نظام کے معیار اُور نجی سکولوں کے اچھے نتائج کے درپردہ ’’طریقۂ واردات‘‘ کا پول کھل جاتا ہے۔

اَیبٹ آباد کے امتحانی نگران اِدارے (بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اَینڈ سیکنڈری اِیجوکیشن) نے امتحانات کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے دوران امتحان ’مراکز‘ کی آن لائن مانیٹرنگ (محض نگرانی) کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بورڈ کے پاس نہ تو اِس قدر بڑے پیمانے پر ’آن لائن نگرانی‘ کا نظام موجود ہے اور نہ ہی (نان کمرشل) دستیاب انٹرنیٹ کے وسائل ہی اِس قدر قابل بھروسہ ہیں کہ اُن پر کلی طور پر انحصار کیا جائے۔ یاد رہے کہ بورڈ کے زیرانتظام ہر سال ’’گیارہ لاکھ اَسی ہزار‘‘ سے زائد طلباء و طالبات کا امتحان لیا جاتا ہے اور اِس سال تین اپریل سے امتحانات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ قوئ امکان ہے کہ ’آن لائن آلات‘ کی خریداری پر لاکھوں روپے خرچ کئے جائیں گے‘ جس کا مالی فائدہ فیصلہ سازوں اور آلات فراہم کرنے والے اداروں کو ہو گا لیکن جہاں تک نقل (اَن فیئر مینز) کی روک تھام کا تعلق ہے تو وہ آنکھیں کہاں سے آئیں گی‘ جنہیں اگر امتحانی مراکز میں تعینات کیا جائے تو (تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے) بند رہتی ہیں لیکن کیا الیکٹرانک آلات کی مدد سے ’آن لائن‘ نگرانی کر پائیں گی! 

آخر ہم نے بدعنوانی سے ہار کیوں مان لی ہے؟ آخر ہم انسانی دانش و بصیرت اور ایمانداری پر بھروسہ کیوں نہیں کر پا رہے؟ کیا ہم ’صاحب کردار‘ ہونے کے دعویدار اتنے ہی ’قابل فروخت‘ ہو چکے ہیں کہ اَب مشینیں ’ہم اِنسانوں‘ کی نگرانی سے زیادہ ’قابل بھروسہ‘ ہوں گی؟
Online monitoring of the examination halls, another experiment

Friday, March 17, 2017

Mar2017: Military Courts, only way out!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فوجی عدالتیں: کیوں نہیں؟
تصور ہی باطل ہے کہ صرف ’اِنسداد دہشت گردی‘ کے مقدمات میں ’فوری انصاف تک رسائی‘ ضروری ہے‘ جس کے لئے دو سال قبل فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے کی جانے والی قانون سازی کی پھر سے ضرورت آ پڑی ہے اور اِس مرتبہ چند ترامیم کے ساتھ مذکورہ مسودہ قانون (بل) قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے جس کے بارے میں ملک کی عسکری قیادت بھی یکساں فکرمند ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ ’’کور کمانڈرز کانفرنس‘‘ میں فوجی عدالتوں کی ’’اطمینان بخش کارکردگی‘‘ زیرغور آئی۔ چھوٹے موٹے اعتراضات اپنی جگہ لیکن ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں ماسوائے پیپلز پارٹی‘ ان آئینی و قانونی مسودوں پر متفق ہیں جو مسودے قومی اسمبلی میں پیش کئے جا چکے ہیں۔

عجب ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی جماعتیں نہ تو کھل کر حمایت اور نہ ہی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں لیکن اُنہوں نے سیاست کے ذریعے ایک اچھی خاصی ضرورت کو التوأ (شک) میں ڈال رکھا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کا مؤقف ہے کہ اس قانون میں سے ’مذہب‘ اور ’فرقے‘ کے الفاظ حذف کئے جائیں‘ قانون امتیازی نہیں ہونا چاہئے اور دہشت گردوں کی کسی درجہ بندی کا اندراج بھی آئین میں نہیں ہونا چاہئے۔ ’ایم کیو ایم‘ کا مطالبہ ہے کہ قانون صرف مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف ہونا چاہئے اور عام نوعیت کے دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی بجائے عام عدالتوں میں عام قوانین کے تحت کاروائی ہونی چاہئے لیکن سب سے ’’مبہم‘ گومگو اور چونکہ چنانچہ‘‘ پر مبنی مؤقف پیپلز پارٹی کا ہے۔ پہلے دن سے بل کے پیش ہونے تک پیپلز پارٹی نہ صاف چھپتی ہے نہ سامنے آتی ہے۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے سے لے کر مدت میں توسیع کے معاملات پر مذاکرات اور اجلاسوں میں اپنا مؤقف اور رائے تبدیل کرتی ہوئی نظر آئی ہے۔ 

پیپلز پارٹی نے اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں ہونے والے آخری اجلاس میں اپنی تجاویز رکھیں اور یہ بات سامنے آئی کہ پیپلز پارٹی دو برس کے لئے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لئے راضی ہو چکی ہے لیکن رات ڈھلے پیپلز پارٹی نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی تجاویز سے دستبردار نہیں ہوئی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کو ناقابل قبول سمجھ کر ایوان کے اندر یا باہر ان کی مخالفت کرے گی‘ یہ بھی نہیں کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اس بل کی حمایت کرے اور سینیٹ سے فوجی عدالتوں کا بل رد کروا دے گی۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی حامی بھی ہے اور مخالف بھی۔ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی شرائط پر فوجی عدالتیں قائم کرنا چاہتی ہے!

فوجی عدالتوں کی ضرورت کی بات صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی کر رہی ہے۔ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ وہی فوجی عدالتیں ہوں جو دہشت گردی میں ملوث مجرموں کے خلاف پہلے کی طرح ہنگامی بنیادوں پر مقدمات چلائیں تاکہ مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچا کر دہشت گردی کے شکار لوگوں کو انصاف مہیا کیا جا سکے۔ 

دو سال قبل آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملے کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں کل جماعتی کانفرنس کے موقع پر پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کا وہ بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس کی تعریف وزیرِ داخلہ بھی کر چکے ہیں۔ اس بیان میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ’’اگر میری جماعت کو نقصان ہوتا ہے تو بھی منظور لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے حکومت اور فوج کے ساتھ ہیں۔‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اِن دو برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ اب پیپلز پارٹی ان فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کو تیار نہیں اور تیار ہے تو اپنی کچھ شرائط کے ساتھ؟

پیپلزپارٹی اب تک ’’قلیل الجماعتی کانفرنس‘‘ طلب کر چکی ہے جس کی ناکامی کے بعد اُس نے اکیلے ہی فوجی عدالتوں پر ’’نو نکاتی تجاویز‘‘ پیش کر دیں‘ جس میں فطری انصاف‘ عالمی قوانین اور شفاف ٹرائل کے تمام اصولوں کا ذکر ہے لیکن فوجی عدالتوں کے قیام کے تناظر میں یہ نکات فنی اعتبار سے ناقابلِ عمل سمجھے جاتے ہیں۔ تجویز کے مطابق اگر سیشن ججوں نے ہی اس طرح کا ٹرائل کرنا ہے تو آئین میں ترمیم کی ضرورت کیا ہے؟ اور اگر عام قوانین کے مطابق ملزموں کے خلاف استغاثہ ہونا ہے تو پھر فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ 

حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنا مؤقف واضح نہیں کر پا رہی اور اِس سوال کا سامنا بھی نہیں کرنا چاہتی کہ کیا دہشت گرد کسی رعائت کے مستحق ہیں؟ پیپلزپارٹی کی جانب سے فوجی عدالتوں پر اپنا الگ بل لانے کا مطلب ’’سیاست‘‘ کے سوائے اُور کیا لیا جا سکتا ہے جبکہ تحریک انصاف حکومت سے نالاں ہے‘ اگر یہ دونوں جماعتیں حقیقی مخالفت کی ٹھان لیں تو حکومت لاکھوں کوششوں کے باوجود فوجی عدالتوں کا بل منظور نہیں کروا سکے گی تو کیا ایسا کرنا ملک کے مفاد میں ہوگا؟ 

پیپلز پارٹی ڈیل بھی چاہتی ہے اور اپنی طاقت و اہمیت کا مظاہرہ بھی کر رہی ہے۔ ڈیل (کچھ لو کچھ دو) کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی ممکن بنائی جائے اور طاقت و اہمیت کی بنیاد پر نمایاں ہونے کی ضرورت پارٹی کے داخلی محاذ پر جاری اختیارات کی اُس رسہ کشی کی وجہ سے محسوس ہو رہی ہے‘ جس کا ایک سرا زرداری اور اُن کے وفاداروں اور رسی کا دوسرا سرا بلاول اُور اُن کے ساتھ اپنا سیاسی مستقبل وابستہ کرنے والے کارکنوں کی اکثریت کے پیش نظر ہے۔ اصولی طور پر تمام مقدمات کا فیصلہ عمومی یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں ہی سے ہونے چاہیءں لیکن ملک کو جن معروضی حالات و مشکلات (بحرانوں) کا سامنا ہے اُن میں خصوصی عدالتی نظام کے بغیر دہشت گردی سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان) کے جملہ اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے اور یہ بات ’مخالفت برائے مخالفت‘ کر رہی سیاسی جماعتوں کے قائدین بخوبی جانتے ہیں‘ جنہیں اپنے اپنے جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے مفاد کے بارے میں بھی ضرور سوچنا چاہئے۔
Politicizing the military courts for known reasons

Thursday, March 16, 2017

Mar2017: Gender biased comments, need sensitization!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غیرمحتاط تبصرے!
غورطلب ہے کہ روزمرہ بات چیت میں احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ہم دوسروں کے بارے میں جس غیرمحتاط ’رائے‘ کا اظہار کرتے ہیں‘ اُس کی وجہ سے نہ صرف رشتوں اُور تعلقات میں پیچیدگیاں (خلیج) در آتی ہیں بلکہ قسم قسم کے صنفی امتیازات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے مختلف حصوں سے آئے وفود کا ’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنیٹ (کراچی)‘ پہنچنے پر تعارف کے فوراً بعد جس پہلے ’’تربیتی جملے‘‘ سے واسطہ پڑا وہ یہ تھا کہ ’’پانچ روزہ تربیت کے دوران ایک دوسرے کی ذات کے بارے میں ایسا کوئی جملہ نہیں بولنا جس سے آپ کی ’حتمی رائے‘ کا اظہار ہوتا ہو‘‘ لیکن روزمرہ بول چال کے حوالے سے عمومی قومی رویئے اس بات کے عکاس ہیں کہ گھر‘ بازار‘ درسگاہیں اور قانون ساز ایوانوں تک سب کچھ غیرمحتاط اظہار رائے کے گرد گھوم رہا ہے۔ 

سیاسی مخالفین کا مختلف مواقعوں پر باہم دست و گریبان ہونا اور ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تو کیا کسی نے سوچا کہ قائدین و رہنماؤں کے اِس قسم کے بیانات اور عمومی طرز فکروعمل کا عام آدمی (ہم عوام) کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اراکین قومی اسمبلی مراد سعید اور جاوید لطیف کے درمیان جھگڑا نہ تو پہلا تھا اُور نہ ہی اِس ’بُری روایت‘ کو آخری سمجھنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کی کاروائی کے دوران کم و بیش ہر روز ہی ایسے مواقع آتے ہیں جب اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو مداخلت کرتے ہوئے چند جملوں کو اسمبلی کاروائی سے ہذف کرنے کا حکم دینا پڑتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسے جملے بولنے والے تجربہ کار اور معروف سیاستدان ’انتہائی اِحتیاط‘ سے کام کیوں نہیں لیتے؟ یہ مرحلہ اِس باریک نکتے کو سمجھنے کا ہے کہ ’’بنیادی طور پر ’ناخواندگی‘ سارے فساد کی جڑ ہے۔‘‘ 

اذہان عالیہ کے لئے اِس حوالے سے ایک خواہش بطور تجویز پیش خدمت ہے کہ اراکین قومی اسمبلی ’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنیٹ (کراچی)‘ سے وابستہ معلمہ ’ڈاکٹر ثمرہ جاوید‘ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں اُور سمجھیں کہ صنف و جنس متعلق ہوں یا نہ ہوں لیکن عمومی و خصوصی بول چال میں احتیاط کے تقاضے کس قدر ہیں اور جن کا خیال رکھنا کتنا اہم یا ضروری ہوتا ہے۔

قوم کے سامنے سوالات کے ڈھیر میں تازہ اضافہ غورطلب ہے کہ کیا حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کو اپنے ہم عصر مراد سعید کی بہنوں کے حوالے سے نامناسب بات کہنی چاہئے تھی؟ غصے کی حالت میں اُن کے منہ سے جو کچھ بھی نکلا‘ کیا یہ خاص ردعمل تھا یا بول چال کی عمومی عادت؟ یہ پہلا موقع نہیں جب قومی اسمبلی کے اندر یا احاطے میں خواتین کو تضحیک ہوئی ہو بلکہ اس سے قبل بھی ایسے بے شمار قابل مذمت واقعات سامنے آچکے ہیں‘ جو یاداشتوں کا حصہ بھی نہیں رہے۔ مثال کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوخ لباس پر تبصرے کئے گئے۔ ایک مرتبہ بینظیر بھٹو نے پاکستانی جھنڈے جیسے سبز رنگ کی قمیض کے ساتھ سفید شلوار زیب تن کی ہوئی تھی‘ وہ ایوان میں داخل ہوئیں تو ایک رکن قومی اسمبلی نے تبصرہ کیا کہ ’’آپ بالکل طوطے جیسی دکھائی دیتی ہیں‘‘ جس پر محترمہ بینظیر بھٹو چپ نہ رہیں اور ایوان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اُنہی رکن قومی اسمبلی نے دوسری مرتبہ بھی محترمہ کی شخصیت و لباس کو اُس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں زرد رنگ کا سوٹ پہن کر تشریف لائیں‘ اور جب وہ ایوان سے باہر نکلنے لگیں تو شیخ رشید اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور تقریر نہ سننے پر ایسے لقب سے پکارا جسے ایوان تو کیا سڑکوں پر بھی بہت بُرا تصور کیا جاتا ہے۔ اسی روز گورنر پنجاب اور محترمہ بینظیر بھٹو کی ملاقات طے تھی‘ بینظیر اسی ملاقات کے لئے جارہی تھیں‘ جب اُسی رکن قومی اسمبلی نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور دیکھنے والوں نے کہا کہ محترمہ بینظیر کی آنکھیں سرخ دیکھی گئیں۔ کاش کہ یہ واقعات مسلسل رونما نہ ہوتے۔ جب تک قوم شائستگی اور بول چال میں ادب اداب کا مطالبہ نہیں کرے گی‘ سیاستدان اپنی اصلاح نہیں کریں گے۔ 

کیا ہم بھول نہیں چکے کہ رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کو ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کہنے سے قبل کسی ’معزز رکن اسمبلی‘ نے بیگم مہناز رفیع کو اُن کے پاؤں میں لنگڑاہٹ کی وجہ سے ’پینگوئن‘ کا خطاب دیا تھا!؟ جون دوہزار سولہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی خاتون سیاستدان پر ایک تبصرے کے باعث ہی ’’مچھلی منڈی‘‘ میں تبدیل ہوا۔ ماہ رمضان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے جاری بحث میں جب شیریں مزاری نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا تو متعلقہ وزیر نے یکایک (ازرائے مذاق) شیریں مزاری پر تنقید کا تیر برساتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی اِس ٹریکٹر ٹرالی کو خاموش کرائے یا کم سے کم سے اسکی آواز کچھ خواتین جیسی کر دے۔‘‘ اجلاس کے عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر حکومتی نشستوں میں سے شیریں مزاری کو (تضحیک کے طور پر) ’’آنٹی‘ آنٹی‘‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا۔

بات قانون ساز ایوانوں کی ہو یا ذرائع ابلاغ کے براہ راست (لائیو) نشر ہونے والے بحث و مباحثوں (ٹاک شوز) کی ہر جگہ جس ایک سبب سیاستدانوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہی عمومی طرز عمل ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں فیصلہ صادر فرمانے میں ذرا دیر نہیں کرتے یا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ذومعنی جملوں پر ایوانوں اور راہداریوں میں گونجنے والے قہقہے ہوں یا خواتین کی تضحیک کرنے والوں کے بحث و مباحثے (ٹاک شوز) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت (اُوور ریٹنگز) جیسا قابل مذمت معیار‘ اِس بات کی گواہی ہیں کہ مضبوط نظریات کی حامل پراعتماد خواتین کی موجودگی متعدد حضرات کے لئے قابل برداشت نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں بات کرتے ہوئے عوام و خواص کی حالت یہی ہے کہ اَچھے اَچھوں کو ’خواتین سے بات کرنے کی تمیز نہیں!‘
!Mind your language

Wednesday, March 15, 2017

Mar2017: In the light of census, untouched areas!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شماریات کا آئینہ!
اُنیس برس بعد ہونے جا رہی ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ کا کریڈٹ لینے والوں کو اپنی اِس ’دن دیہاڑے‘ دروغ گوئی سے خوف بھی نہیں آتا کہ جس طرح عدالت کے مسلسل دباؤ اور توہین عدالت سے بچنے کے لئے وہ بادلنخواستہ ایک ایسی مردم شماری پر مجبور ہوئے ہیں جس کے ساتھ سیاسی اہداف بھی منسلک کر دیئے گئے ہیں۔ عقل قاصر (معذور) ہے یہ سمجھنے سے کہ پاکستان میں مزید انتخابی حلقوں کا اضافہ تو ممکن ہے لیکن آبادی کی بنیاد پر مزید صوبوں کا تنازعہ نہیں اُٹھنا چاہئے!

’خواتین (صنفی مساوات)‘ سمیت کمزور طبقات کے حقوق کا تعلق بھی ’مردم شماری‘ ہی سے ہے جو سال 2008ء کے بعد سے ’بدنیتی‘ کی بناء پر التواء کا شکار رہی لیکن کیا اِس سلسلے میں خاطرخواہ نتائج حاصل ہو پائیں گے؟ پوری بحث کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ کا آغاز پندرہ مارچ (آج) سے ہو رہا ہے اُور اُمید ہے کہ دو لاکھ سے زائد فوجی حفاظتی دستوں کی ’’معاونت و نگرانی‘‘ سے ہونے والے اِس عمل کا اختتام طے شدہ معمولات (پروگرام) کے مطابق پچیس مئی تک ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ مردم شماری کا یہ عمل دو مراحل میں مکمل ہوگا تو اِس سے یہ بحث بھی اپنی جگہ ہونا ثابت ہوگئی ہے کہ اگر ملک میں مردم شماری مرحلہ وار انداز میں ہو سکتی ہے تو بائیومیٹرکس کی بنیاد پر عام انتخابات کا انعقاد مرحلہ وار کیوں نہیں ہوسکتا؟ جبکہ مردم شماری میں بھی بائیومیٹرک کوائف کی تصدیق آن لائن ہو گی اور مجوزہ فارم کو ’مشین ریڈایبل‘ بنایا گیا ہے جس کی فوٹوکاپی (نقل) کارآمد نہیں ہوگی!

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک (پاکستان) میں یہ مردم شماری کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے جیسا کہ تیسری صنف سے تعلق رکھنے والوں کا الگ سے شمار ہو جائے گا۔ ملک میں نظرانداز کئے جانے والے ’خواجہ سرا‘ خوش ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مردم شماری میں ’’مخنث افراد‘‘ کی تعداد علیحدہ سے گنی جائے گی‘ جس کی بنیاد پر اُن کے لئے عملی زندگی میں حقوق کا تعین اور تخصیص کے ساتھ باعزت روزگار کے مواقع زیربحث آئیں گے۔ خواجہ سرا‘ افراد کو شمار کئے جانے کا ’عدالتی فیصلہ‘‘ سامنے آنے کے بعد اِس حوالے سے ’مردم شماری فارمز‘ کی چھپائی کی گئی ہے جبکہ مردم شماری کے لئے تعینات افراد کو بھی خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جنس کا خانہ ’’احتیاط سے پُر کریں۔‘‘ یاد رہے کہ جنس کے خانے میں تین آپشنز (مرد‘ عورت (خاتون) یا مخنث) ہوں گے۔ اب یہاں ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مردم شماری میں معذور افراد کو علیحدہ سے شمار کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا تو کیوں؟

شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ وفاقی حکومت نہیں چاہتی کہ وہ زیادہ دباؤ کا شکار ہو اور ایک ایسی صورتحال کا اُسے سامنا کرنے پڑے جس میں پہلے ہی عوام کے حقوق کی ادائیگی بمشکل ہو رہی ہے!

مردم شماری و خانہ شماری کے عمل سے زبانوں کا شمار بھی حاصل ہوگا۔ پاکستان کثیرالنسلی افراد کے مسکن ہے۔ یہاں کی ہر زبان ہی خاص اہمیت کی حامل ہے اور کوئی بھی زبان چھوٹی یا بڑی نہیں بلکہ ہر زبان کے بطور مادری بولنے والوں کا شمار اگر حاصل ہو جاتا ہے تو اس سے نظام تعلیم اور نصاف مرتب کرنے والوں کو آسانی رہے گی تاہم اس مردم شماری میں ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تقریباً ستر زبانوں میں سے صرف نو (ایک کم دس) زبانوں کو شامل کیا گیا ہے جو ملک میں مقیم کئی برادریوں کے لئے مایوس کن ہے۔ مردم شماری میں قلیل آبادی والے علاقے گلگت بلتستان کی کسی علاقائی زبان کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی گجراتی زبان کو شامل کیا گیا ہے جو بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے بیشتر مسلمانوں کی زبان ہے۔گجراتی بولنے والے ان مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر زبان کو شناخت نہیں ملتی تو ان کی مادری زبان گمنام ہوسکتی ہے۔ حال ہی میں کراچی جانے کا موقع ملا جہاں گجراتی زبان بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ تیزی سے پھلتے پھولتے کراچی کی مثل ملک کا کوئی دوسرا شہر نہیں‘ جہاں کی مردم شماری کے لئے ضروریات مختلف ہونی چاہیءں لیکن عجب ہے کہ مردم شماری کے لئے ’لائحہ عمل‘ مرتب کرتے ہوئے پورے ملک کو ایک ہی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

مردم شماری و خانہ شماری کا حساس نکتہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد سے متعلق بھی ہے۔ اُمید ہے کہ رواں مردم شماری سے پاکستان میں موجود اقلیتی برادری بالخصوص عیسائیوں اور ہندوؤں کی حقیقی تعداد سامنے لائے گی۔ اب تک ہمارے ہاں اقلیتوں کی تعداد کے حوالے سے صرف اندازوں سے کام چلایا جاتا رہا ہے‘ جن پر کوئی ایسا اتفاق رائے بھی نہیں جو مسلمہ ہو۔ اِن اَندازوں کے مطابق پاکستان میں عیسائیوں کی تعداد بیس سے سو لاکھ (ایک کروڑ) کے درمیان جبکہ ہندو آبادی پچیس سے پینتالیس لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ چھٹی مردم شماری کے دوران شہری خود کو مسلمان‘ عیسائی‘ ہندو یا احمدی (قادیانی) ہونے کی حیثیت سے بیان کرسکیں گے۔ ان چار چوائسیز (پسند یا مرضی) کے علاؤہ خود کو ’شیڈولڈ طبقے کا رکن‘ بیان کرنے کا آپشن (اختیار‘ پسند‘ حق انتخاب) بھی دستیاب ہوگا‘ جس میں پسماندہ اور نچلی ذات کی ہندو برادری و دیگر افراد شامل تصور ہوں گے۔ توجہ رہے کہ مردم شماری میں سکھ‘ پارسی‘ بہائی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے شمار کے لئے علیحدہ خانہ (آپشن) فراہم نہیں کیا گیا یقیناًایسا بناء سوچے سمجھے نہیں کیا گیا ہوگا تو کیوں؟
’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ میں غورطلب سوال یہ بھی شامل ہے کہ کسی ’’گھر میں موجود بیت الخلأ (ٹوائلٹس) کی تعداد کتنی ہے؟‘‘ اِس بظاہر سیدھے سادے سوال کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی ضروری حاجات کے لئے ’ٹوائلٹ‘ سے استفادہ نہیں کرتی‘ جو صحت سے جڑے بیشتر مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔

مردم شماری میں قومیت کے خانے میں شہریوں کے لئے دو آپشنز ’’پاکستانی یا غیر ملکی‘‘ اپنی جگہ اہم ہے تاہم اس حوالے سے پاکستانی فوج جو اس مردم شماری کے ساتھ متوازن شماری سرانجام دے گی‘ وہ قومیت کے حوالے سے مزید باریک بینی سے جائزہ لینے کا اِرادہ رکھتی ہے جس کی اہم وجہ ملک میں موجود افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔ کئی مقامی افراد خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ افغان شہری مقامی افراد کی گنتی میں آجائیں گے جس سے اعدادوشمار پختون افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بنیں گے اُور حتمی نتیجہ یہ ہوگا (جوکہ اندیشہ بھی ہے) کہ پختون قوم پرست جماعتوں سیاسی عزائم کے لئے حاصل ہونے والے نمبروں کا فائدہ اُٹھائیں گی۔

کیا یہ بات عجب نہیں کہ وہ کم و بیش ساٹھ لاکھ پاکستانی جو کسی وجہ سے بیرون ملک مقیم ہیں‘ موجودہ مردم شماری کا حصہ نہیں بن پائیں گے حالانکہ اگر پاکستانی قونصل خانوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی جاتی اور بائیومیٹرک تصدیق کو بھی شامل کیا جاتا تو بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد‘ اُن کی حالات و اوقات کار‘ مالی و سیاسی حیثیت اور پاکستان میں دلچسپی و مفادات جیسی معلومات اکٹھا کی جا سکتیں تھیں لیکن جس ملک میں بیرون ملک پاکستانیوں سے سیاسی جماعتیں چندا تو اکٹھا کرتی ہوں لیکن اُنہیں ووٹ کا حق حاصل نہ ہو‘ وہاں اِس قسم کا مطالبہ کیا معنی رکھ سکتا ہے!؟ بہرکیف اپنی جگہ دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ میں اندرون ملک ہجرت کے حوالے سے بھی کوئی معلومات اکھٹی نہیں کی جائیں گی‘ جو درحقیقت کسی صوبے کی سیاسی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے نہایت ضروری حد تک ضروری تھا۔

کیا ہم واقعی یہ بھی جاننے کے خواہشمند نہیں کہ معاشی یا امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث عام آدمی (ہم عوام) کی کتنی بڑی تعداد ملک کے کسی ایک حصے سے دوسرے حصے منتقل ہوئی ہے؟ ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ کا عمل زیادہ وسیع‘ زیادہ بامعنی یا زیادہ جامع بنایا جاسکتا تھا اگر اِس کے بارے فیصلہ سازی کے عمل میں مشاورت کو اہمیت دی جاتی۔ خود کو ’’عقل کل‘‘ سمجھنے والے سیاسی اور عسکری فیصلہ سازوں نے مل بیٹھ کر جو بھی فیصلہ کیا ہے‘ اُس سے بہتری کی صورت‘ بہرصورت نکالنا ہی پڑے گی کیونکہ ہر سو چھائے اندھیروں کا یہ عالم ہے کہ ایسی کوئی بھی صورت (عافیت) سجھائی نہیں دے رہی‘ جو منصوبہ بندی کے کام کو آسان بنائے اور ہر سطح پر تعمیر و ترقی کا عمل بناء اعدادوشمار کیا معنی رکھتا ہے!؟
The incomplete effort

Tuesday, March 14, 2017

Mar2017: Mind your language please!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاست برداشت اُور سیاست!
تحریک انصاف صرف پاکستان کے مستقبل کا ہی نہیں بلکہ اُس ارتقائی سمت کا تعین بھی چاہتی ہے‘ جس میں اختیارات کے عوض ذاتی مفادات اور اثاثوں کا تحفظ نہ ہو لیکن عام انتخابات اور پارلیمانی محاذ پر خاطرخواہ کامیابی کے لئے درکار مہارت سے عاری انقلابی جماعت کا سفر آسان نہیں‘ جس میں مغلظات اور دشنام طرازی برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔ پاکستان کی سیاست میں اخلاق سے گری ہوئی زبان کا استعمال تو بہت ہی معمولی سی بات ہے یہاں تو سیاست میں حصہ لینے والے کا کردار ہی مشکوک ہو جاتا ہے اور عمومی تاثر یہی ہے کہ جس کسی کو اپنا حسب نسب معلوم نہ ہو وہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے کر دیکھے‘ پورے خاندان کے ہر ایک فرد کی ’’اوّل تا آخر‘‘ حقیقت معلوم ہو جائے گی!

براہِ راست مغلظات ہوں‘ ذو معنی فقرے چست کرنے ہوں یا طنز و الزام دینے ہوں۔ ماں‘ بہن اور بیٹی کا حوالہ لازمی ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ سمجھ کچھ یوں آئی کہ یہاں عورت ذات کو اپنی ملکیت میں رکھی کوئی چیز گردانا جاتا ہے اور اسی تعلق کے ناطے سامنے والے کی ’جائیداد‘ پر کیچڑ اچھال کر اُس ’’زخمی مردانہ انا‘‘ کی تسکین کا سامان کیا جاتا ہے جو مجروح ہونے کا بہانہ ہی تراشتی رہتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اگر گالم گلوچ اور کردار کشی کے ضمن میں کھنگالا جائے تو سلسلہ بہت دور تک جا نکلتا ہے۔ قومی اسمبلی کی لابی سے گیٹ تک ہوا تماشہ ہماری سیاسی تاریخ میں ایک نیا اضافہ ہے۔ ’پھٹیچر‘ اور ’ریلو کٹا‘ جیسے الفاظ کے مفہوم سمجھاتے مختلف نیوز چینلز پر جمعرات (9مارچ) کی سہ پہر اچانک بریکنگ نیوز آئی کہ دو اراکینِ قومی اسمبلی میں تلخ کلامی ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو مکا جڑ دیا۔ یہ خبر آج بھی ہیڈلائن میں ہے اور 13مارچ کے روز دونوں اراکین اسمبلی کی رکنیت چند روز کے لئے معطل کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ انتخابی مؤقف ہماری سیاسی جماعتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غدار کہنا ناقابلِ برداشت ٹھہرا لیکن دوسروں کے لئے ’’مودی کا یار‘ غدار‘‘ کا نعرہ لگانا جائز سمجھنا کہاں تک مبنی برانصاف ہے۔ کسی کے لئے بھی منشی لفظ طعنہ بنا دے‘ محمود خان اچکزئی کا مذاق اڑائے‘ مولانا فضل الرحمان‘ بلاول‘ خورشید شاہ سمیت ہر کسی کا اُلٹا نام تجویز کرے‘ کیونکہ ان تمام سیاستدانوں کے حامیوں کی دِل آزاری تو ہوتی ہی نہیں نا۔ گھونسا مارنے پر بھی شاباش دی گئی بلکہ یہ تک کہا گیا کہ ’’میں ہوتا تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔۔۔‘‘

پاکستان کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ اور ’’جمہور‘‘ کومے میں ہیں! جبکہ جو عناصر قومی اسمبلی کی راہداری میں ہوئے شرمندگی بھرے تصادم سے یہ درس دے رہے ہیں کہ ’’عوامی نمائندے عوام کے اجتماعی روئیوں کے عکاس ہوتے ہیں‘‘ تو وہ شاید بھول گئے ہیں کہ قومی و صوبائی اسمبلی میں پہنچنے کے لئے اہلیت چاہئے ہوتی ہے جس کے لئے مرد اور خواتین دونوں کے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہ صرف کسی شخص کی بہنوں کی کردار کشی نہیں بلکہ ہر اس عورت کی تذلیل ہوئی ہے جس نے اِن ایوانوں کو اپنا ووٹ دیا۔ اس پر بھلا کوئی کیسے سمجھوتا کر سکتا ہے؟ 

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی مراد سعید اور پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے جاوید لطیف سے پہلے پنجاب اسمبلی میں ہارون بخاری نے نگہت شیخ کو اسی طرح اپنے چیمبر میں آنے کا کہہ کر خاموش کروانے کی کوشش کی جیسے کچھ عرصہ قبل سندھ اسمبلی میں صوبائی وزیر برائے ورکس اینڈ سروسز امداد پتافی نے نصرت سحر عباسی کو کہا۔ یہ وطیرہ ہے کہ اگر کوئی عورت آواز رکھتی ہے تو اس کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دو یا پھر ایسا کوئی لفظ یا جملہ کہو جس سے عورت ہراساں ہونا محسوس بھی کر لے اور بعد میں کہہ سکو میرا مطلب وہ نہیں یہ تھا جبکہ چیمبر میں بلوانے کی بات پر ’’بیک گراؤنڈ‘‘ سے یہ جملہ بھی آیا کہ ’’سارا دن بیٹھی عشقیہ گانے گاتی ہیں۔‘‘ 

عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز کی شادی کی تصاویر سے لے کر قطری خط تک پر جس طرح کی لغو گوئی کی جاتی رہی ہے کون نہیں جانتا۔ حافظ حمد اللہ کے زرخیز خیالات بھی قوم نے سن رکھے ہیں۔ شیخ آفتاب بھی ڈاکٹر مزاری کو ائرپورٹس پر ہونے والی ’سٹرپ سرچ‘ سمجھاتے پائے گئے ہیں۔ نعیم الحق پر ان کی جماعت کی خواتین نے جس قسم کے الزامات لگائے اس حوالے سے ان کی لیڈرشپ خاموش ہی رہی۔ میئر کراچی وسیم اختر کے منہ سے جھڑتے پھول کوئی نہیں بھول پایا لیکن وہاں بھی سماجی و سیاسی دباؤ کے تحت معافی نامہ آ گیا‘ نجی محافل میں کیا تائید ہوتی رہی وہ ایک الگ کہانی ہے! 

خواتین کی توہین کرنے میں صرف مرد سیاستدان ہی نہیں بلکہ خواتین بھی شریک پائی گئی ہیں جو ایک دوسرے کی کردار کشی میں حصہ بقدرِ (سیاسی) جثہ ڈالتی رہتی ہیں۔ کیا ہم ڈاکٹر فردوس اعوان اور کشمالہ طارق والے معاملے کو بھول سکتے ہیں؟ شازیہ مری اور کشمالہ طارق کے درمیان ہوئی تلخ کلامی بھی ماضی کا حصہ ہوئی‘ تو سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر کا لہجہ اور خواتین اراکین صوبائی اسمبلی سے بات کرنے کا انداز اکثر و بیشتر خبروں کی زینت بنا رہتا ہے۔ 

رانا ثناء اللہ نے ایک بیہودہ بات کی تو شرمیلا فاروقی نے ڈٹ کر مریم نواز پر تہمتوں اور حقارت بھرے ذو معنی طعنوں سے مقابلہ کیا! آج بھی جاوید لطیف نے میری دو بہنوں کے حوالے سے گھٹیا الزامات لگائے تو پارلیمنٹ میں بیٹھی خواتین اسے اپنی صنف کی توہین سمجھتے اکٹھی نہیں ہو سکیں۔ اگرچہ یہ روایت تو انہوں نے مہناز رفیع یا ڈاکٹر شیریں مزاری کی ذات پر حملوں کے وقت بھی نہ ڈالی! پہلے خاموش رہ کر بعد میں سماجی و صحافتی دباؤ کے تحت مذمت جاری کرنا گھٹیا روئیوں کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ مختصراً یہ کہ عوامی نمائندہ خواتین اسمبلی اراکین کو اپنی صنف کے احترام میں متحد ہونے کے لئے بھی اپنی قیادت کے حکم نامے کا انتظار ہوتا ہے۔ 

پاکستان میں سیاست اُس وقت تک باشعور نہیں ہوگی‘ جب تک یہ شخصیات کی غلامی سے آزاد نہیں ہو جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی لابی سے گلی محلوں کی عمومی بول چال تک ہر معاشرت اور معاشرتی رویئے سنجیدہ توجہ اور اصلاح چاہتے ہیں۔

Monday, March 13, 2017

Mar2017: Terrorism, Social Media and Artificial Intelligence

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سوشل میڈیا: ذہین پھندا!
پاکستان میں امن کو لاحق خطرات کا شمار اِس لئے بھی ممکن نہیں کہ ایک تو حملہ آور گوریلا طرز پر عسکری مہمات کرنے میں ’جلدبازی‘ کا مظاہرہ نہیں کررہا کہ اُن سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اُن کی طاقت کے مراکز پر ہاتھ ڈال سکیں اور دوسرا اب تک ہوئے دہشت گرد حملوں کے پیچھے اس حد تک باریک بینی سے کی گئی منصوبہ بندی کا عمل دخل پایا گیا کہ کئی ایک سہولت کاروں کی گرفتاری کے باوجود بھی اصل کرداروں تک رسائی اور اُن کے شہری و دیہی علاقوں کے تمام نیٹ ورکس ظاہر نہیں ہوسکے۔ 

سیکورٹی اداروں کے لئے دہشت گردی سے نمٹنے کا یہ کھلا چیلنج اِس لئے بھی پیچیدہ ہے کیونکہ اِس میں مواصلاتی رابطوں اور افرادی قوت حاصل کرنے کے لئے غیرروائتی اسلوب یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھی کام لیا جارہا ہے۔ بارہ مارچ کے مضمون ’’سوشل میڈیا دہشت گردی!‘‘ کے عنوان سے ’’مہم جو طبیعت‘‘ رکھنے والے اُن نوجوانوں‘ اساتذہ اور والدین تک یہ بات پہنچانے کی کوشش کی گئی کہ اگر کوئی بھی صارف آن لائن سرگرمیوں میں احتیاط سے کام نہیں لے گا‘ تو غیردانستہ طور پر وہ قابل گرفت و سزا جیسے سنگین جرائم کے ارتکاب میں ملوث ہوسکتا ہے اور ایسے جرائم میں بھلا کون دانشمند ملوث ہونا پسند کرے گا‘ جن پر دہشت گردی کی دفعات لاگو ہوتی ہوں؟

قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت تعلیمی اداروں اور والدین کو سمجھنا ہوگا کہ انسانوں کی طرح جدید کمپیوٹرز بھی کسی نہ کسی حد تک ’مصنوعی ذہانت‘ کے مالک ہوتے ہیں اور اِسی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کی بنیاد پر سافٹ وئرز نہ صرف صارفین کی عادات اور فیصلوں کو محفوظ کرتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر اُنہیں مستقبل میں خدمات فراہم کی جاتی ہیں لہٰذا یہ سمجھنا کہ ’آن لائن‘ وسائل سے استفادہ اگر گمنام اکاونٹس کے ذریعے کیا جائے تو محفوظ ہوتا ہے‘ تو یہ تاثر سوفیصد درست نہیں۔ پاکستان سمیت بیشتر ایشیائی ممالک کے باشندوں کے لئے مصنوعی ذہانت فی الوقت ایک غیر معروف اور نو آموز موضوع ہے جس کی بڑی وجہ ہی ہے کہ اس عنوان کے تحت میسر زیادہ تر تحقیقی مواد انگریزی زبان میں ہوتا ہے اور وہ بلاقیمت دستیاب بھی نہیں۔ مقامی زبانوں میں مصنوعی ذہانت کے موضوع پر بہت کم لکھا جاتا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس موضوع کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ان کا اوڑھنا بچھونا انگریزی ہوتی ہے۔ 

بنیادی طور پر مصنوعی ذہانت انسانی دماغ کو مسخر کر کے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے‘ سمجھنے اور پھر عمل کر دکھانے والی مشینیں تیار کرنے کے علوم کا مجموعہ (سائنس) ہے جس کا آغاز اُنیس سو ساٹھ سے ہوا اور دنیا بھر کے سائنس دانوں اور محققین کا یہ پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے‘ بالخصوص کمپیوٹر گیمز تخلیق کرنے والے مصنوعی ذہانت ہی کا استعمال کرتے ہوئے کھیلوں کو زیادہ مشکل بناتے ہیں تاکہ کمپیوٹر انسانی دماغ کو مشکل سے دوچار کر سکے۔ مصنوعی ذہانت کے قریب نصف صدی کے سفر میں تیز رفتار تحقیق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مصنوعی انسانی دماغ تخلیق کرنے کے منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی قومی حکمت عملی ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں اِسی مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے اور اس سلسلے میں جامعات کو تحقیق کے اہداف دیئے جائیں۔ امریکہ کی ڈرون ٹیکنالوجی اور بیشتر دفاعی بالادستی جامعات ہی میں ہونے والی چھوٹے پیمانے پر تحقیق کا حاصل ہے اور جب تک نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد اور مستقبل کی ضروریات کا ادراک نہیں کیا جائے گا‘ اُس وقت تک ہمارا دفاع جامع اور سوفیصد بہتر (محفوظ وقابل بھروسہ) نہیں بنایا جا سکے گا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر سماجی اور معاشرتی سطح تک تحقیق و جستجو کے میدان میں جتنے زیادہ امکانات انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اِس ’مصنوعی ذہانت‘ نے پیدا کئے ہیں‘ اس سے قبل یہ اعزاز بہت کم سائنسی علوم کے حصے میں آئے ہیں۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ کا سارا زور ہمیشہ سے ہر نئی ایجاد اور تحقیق کے منفی رخ کی ترویج پر ٹوتتا ہے مگر اس حقیقت سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں کہ ہماری موجودہ زندگی کو آرام دہ اور سہل بنانے میں مصنوعی ذہانت ہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مصنوعی ذہانت کا منفی پہلو یہ ہے کہ اِس سے ہماری عمومی زندگیوں میں مشینوں کا عمل دخل بڑھ جائے گا اور غیرتربیت یافتہ‘ کم تعلیم یافتہ یا کسی جسمانی کمزوری سے دوچار انسانوں (افرادی قوت) کی اہمیت بتدریج کم ہوتی چلی جائے گی۔ ہم محسوس نہیں کر رہے لیکن ٹیکنالوجی آہستہ آہستہ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن رہی ہے اور مستقبل کی دنیا میں ’جاہل‘ بن کر بقاء صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگی۔ 

گوگل سرچ‘ آئی بی ایم واٹسن‘ جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ‘ صنعتوں‘ معاشیات‘ حتی کہ کھیل کود اور سوشل میڈیا الغرض ہر جگہ بہت جلد ’مصنوعی ذہانت‘ کا سکہ چلتا نظر آئے گا تو کیوں نہیں اِس کرنسی کو پاکستان میں بھی آج ہی سے رائج کرنے کی تیاری کی جائے؟ سوال یہ بھی ہے کہ بالفرض آئندہ بیس برس یا اس سے کچھ کم عرصے میں مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی موجودہ ٹیکنالوجی کی جگہ لے لیتی ہے تو اس تبدیلی کے ہمارے معاشرتی سیاسی سماجی نظام اور سب سے بڑھ کر اخلاقی اقدار پر کیا مثبت یا کیا منفی ممکنہ اثرات ہوں گے اور کیا ہم کسی ایسے ٹیکنالوجیکل انقلاب کا سامنا کرنے کے لئے بحثیت ملک و قوم تیاری کئے بیٹھے ہیں؟ 

زمین سے زیادہ خلائی دنیا کے بارے جاننے والے معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ ایک عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’’ہم انسانوں کو اپنی تمام تر توجہ ایسی ذہین مشینوں کی تخلیق پر مرکوز کرنی چاہئے‘ جو انسانیت کی فلاح و بہبود اور قیام امن کی ضامن ہوں‘‘ لیکن جدید کمپیوٹرز ہوں یا ہمارا نظام تعلیم‘ قومی ترجیحات کا تعین کرنے والوں کو علوم میں سوچ بچار کے ساتھ اخلاقیات اور ذمہ داریوں کے بارے میں نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہوگا۔ ایک توازن اور عدل بھی ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں اردو زبان کے ذرائع ابلاغ نہایت ہی کلیدی کردار اَدا کرسکتے ہیں جنہیں اپنی نشریات کا کچھ وقت یا اپنی اشاعتوں میں بطور خاص ایسی بحث و مباحثے کو جگہ دینی ہوگی‘ جس کا تعلق تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے اُس منظرنامے سے ہے جو کچھ کچھ نہیں بلکہ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا اور پھر (خدانخواستہ) ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور خود اپنی ہی تباہی کا تماشا دیکھنے کے سوأ کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔