ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سوشل میڈیا: ذہین پھندا!
پاکستان میں امن کو لاحق خطرات کا شمار اِس لئے بھی ممکن نہیں کہ ایک تو حملہ آور گوریلا طرز پر عسکری مہمات کرنے میں ’جلدبازی‘ کا مظاہرہ نہیں کررہا کہ اُن سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اُن کی طاقت کے مراکز پر ہاتھ ڈال سکیں اور دوسرا اب تک ہوئے دہشت گرد حملوں کے پیچھے اس حد تک باریک بینی سے کی گئی منصوبہ بندی کا عمل دخل پایا گیا کہ کئی ایک سہولت کاروں کی گرفتاری کے باوجود بھی اصل کرداروں تک رسائی اور اُن کے شہری و دیہی علاقوں کے تمام نیٹ ورکس ظاہر نہیں ہوسکے۔
سیکورٹی اداروں کے لئے دہشت گردی سے نمٹنے کا یہ کھلا چیلنج اِس لئے بھی پیچیدہ ہے کیونکہ اِس میں مواصلاتی رابطوں اور افرادی قوت حاصل کرنے کے لئے غیرروائتی اسلوب یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھی کام لیا جارہا ہے۔ بارہ مارچ کے مضمون ’’سوشل میڈیا دہشت گردی!‘‘ کے عنوان سے ’’مہم جو طبیعت‘‘ رکھنے والے اُن نوجوانوں‘ اساتذہ اور والدین تک یہ بات پہنچانے کی کوشش کی گئی کہ اگر کوئی بھی صارف آن لائن سرگرمیوں میں احتیاط سے کام نہیں لے گا‘ تو غیردانستہ طور پر وہ قابل گرفت و سزا جیسے سنگین جرائم کے ارتکاب میں ملوث ہوسکتا ہے اور ایسے جرائم میں بھلا کون دانشمند ملوث ہونا پسند کرے گا‘ جن پر دہشت گردی کی دفعات لاگو ہوتی ہوں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت تعلیمی اداروں اور والدین کو سمجھنا ہوگا کہ انسانوں کی طرح جدید کمپیوٹرز بھی کسی نہ کسی حد تک ’مصنوعی ذہانت‘ کے مالک ہوتے ہیں اور اِسی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کی بنیاد پر سافٹ وئرز نہ صرف صارفین کی عادات اور فیصلوں کو محفوظ کرتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر اُنہیں مستقبل میں خدمات فراہم کی جاتی ہیں لہٰذا یہ سمجھنا کہ ’آن لائن‘ وسائل سے استفادہ اگر گمنام اکاونٹس کے ذریعے کیا جائے تو محفوظ ہوتا ہے‘ تو یہ تاثر سوفیصد درست نہیں۔ پاکستان سمیت بیشتر ایشیائی ممالک کے باشندوں کے لئے مصنوعی ذہانت فی الوقت ایک غیر معروف اور نو آموز موضوع ہے جس کی بڑی وجہ ہی ہے کہ اس عنوان کے تحت میسر زیادہ تر تحقیقی مواد انگریزی زبان میں ہوتا ہے اور وہ بلاقیمت دستیاب بھی نہیں۔ مقامی زبانوں میں مصنوعی ذہانت کے موضوع پر بہت کم لکھا جاتا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس موضوع کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ان کا اوڑھنا بچھونا انگریزی ہوتی ہے۔
بنیادی طور پر مصنوعی ذہانت انسانی دماغ کو مسخر کر کے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے‘ سمجھنے اور پھر عمل کر دکھانے والی مشینیں تیار کرنے کے علوم کا مجموعہ (سائنس) ہے جس کا آغاز اُنیس سو ساٹھ سے ہوا اور دنیا بھر کے سائنس دانوں اور محققین کا یہ پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے‘ بالخصوص کمپیوٹر گیمز تخلیق کرنے والے مصنوعی ذہانت ہی کا استعمال کرتے ہوئے کھیلوں کو زیادہ مشکل بناتے ہیں تاکہ کمپیوٹر انسانی دماغ کو مشکل سے دوچار کر سکے۔ مصنوعی ذہانت کے قریب نصف صدی کے سفر میں تیز رفتار تحقیق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مصنوعی انسانی دماغ تخلیق کرنے کے منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی قومی حکمت عملی ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں اِسی مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے اور اس سلسلے میں جامعات کو تحقیق کے اہداف دیئے جائیں۔ امریکہ کی ڈرون ٹیکنالوجی اور بیشتر دفاعی بالادستی جامعات ہی میں ہونے والی چھوٹے پیمانے پر تحقیق کا حاصل ہے اور جب تک نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد اور مستقبل کی ضروریات کا ادراک نہیں کیا جائے گا‘ اُس وقت تک ہمارا دفاع جامع اور سوفیصد بہتر (محفوظ وقابل بھروسہ) نہیں بنایا جا سکے گا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر سماجی اور معاشرتی سطح تک تحقیق و جستجو کے میدان میں جتنے زیادہ امکانات انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اِس ’مصنوعی ذہانت‘ نے پیدا کئے ہیں‘ اس سے قبل یہ اعزاز بہت کم سائنسی علوم کے حصے میں آئے ہیں۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ کا سارا زور ہمیشہ سے ہر نئی ایجاد اور تحقیق کے منفی رخ کی ترویج پر ٹوتتا ہے مگر اس حقیقت سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں کہ ہماری موجودہ زندگی کو آرام دہ اور سہل بنانے میں مصنوعی ذہانت ہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مصنوعی ذہانت کا منفی پہلو یہ ہے کہ اِس سے ہماری عمومی زندگیوں میں مشینوں کا عمل دخل بڑھ جائے گا اور غیرتربیت یافتہ‘ کم تعلیم یافتہ یا کسی جسمانی کمزوری سے دوچار انسانوں (افرادی قوت) کی اہمیت بتدریج کم ہوتی چلی جائے گی۔ ہم محسوس نہیں کر رہے لیکن ٹیکنالوجی آہستہ آہستہ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن رہی ہے اور مستقبل کی دنیا میں ’جاہل‘ بن کر بقاء صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگی۔
گوگل سرچ‘ آئی بی ایم واٹسن‘ جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ‘ صنعتوں‘ معاشیات‘ حتی کہ کھیل کود اور سوشل میڈیا الغرض ہر جگہ بہت جلد ’مصنوعی ذہانت‘ کا سکہ چلتا نظر آئے گا تو کیوں نہیں اِس کرنسی کو پاکستان میں بھی آج ہی سے رائج کرنے کی تیاری کی جائے؟ سوال یہ بھی ہے کہ بالفرض آئندہ بیس برس یا اس سے کچھ کم عرصے میں مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی موجودہ ٹیکنالوجی کی جگہ لے لیتی ہے تو اس تبدیلی کے ہمارے معاشرتی سیاسی سماجی نظام اور سب سے بڑھ کر اخلاقی اقدار پر کیا مثبت یا کیا منفی ممکنہ اثرات ہوں گے اور کیا ہم کسی ایسے ٹیکنالوجیکل انقلاب کا سامنا کرنے کے لئے بحثیت ملک و قوم تیاری کئے بیٹھے ہیں؟
زمین سے زیادہ خلائی دنیا کے بارے جاننے والے معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ ایک عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’’ہم انسانوں کو اپنی تمام تر توجہ ایسی ذہین مشینوں کی تخلیق پر مرکوز کرنی چاہئے‘ جو انسانیت کی فلاح و بہبود اور قیام امن کی ضامن ہوں‘‘ لیکن جدید کمپیوٹرز ہوں یا ہمارا نظام تعلیم‘ قومی ترجیحات کا تعین کرنے والوں کو علوم میں سوچ بچار کے ساتھ اخلاقیات اور ذمہ داریوں کے بارے میں نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہوگا۔ ایک توازن اور عدل بھی ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں اردو زبان کے ذرائع ابلاغ نہایت ہی کلیدی کردار اَدا کرسکتے ہیں جنہیں اپنی نشریات کا کچھ وقت یا اپنی اشاعتوں میں بطور خاص ایسی بحث و مباحثے کو جگہ دینی ہوگی‘ جس کا تعلق تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے اُس منظرنامے سے ہے جو کچھ کچھ نہیں بلکہ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا اور پھر (خدانخواستہ) ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور خود اپنی ہی تباہی کا تماشا دیکھنے کے سوأ کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔
No comments:
Post a Comment