Sunday, March 12, 2017

Mar2017: Social Media Terrorism

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سوشل میڈیا دہشت گردی!
سماجی رابطہ کاری کے جملہ وسائل (سوشل میڈیا) تک رسائی بذریعہ ’اِنٹرنیٹ‘ ممکن ہوتی ہے لیکن انٹرنیٹ صارفین کے بارے میں بنیادی معلومات (کوائف) ہونے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہوتا کہ ہر صارف کی انٹرنیٹ پر (آن لائن) موجودگی اور اِس دوران مثبت یا منفی سرگرمیوں کے بارے میں تمام تر ’راز‘ معلوم کئے جا سکیں خصوصاً جبکہ انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے والے جانتے ہوں کہ انہیں ’سائبر ورلڈ‘ میں رہتے ہوئے بھی خود کو کس طرح ’روپوش‘ رکھنا ہے۔ اِس سلسلے میں کئی ایسے ’سافٹ وئرز‘ موجود ہیں‘ جن کی مدد سے ’سائبرورلڈ‘ پر موجودگی اور سرگرمیاں خفیہ رکھی جا سکتی ہیں اُور اِن کا پاکستان میں ’عام‘ اِستعمال ہو رہا ہے بلکہ بیس پچیس روپے کی ’سی ڈی‘ خریدنے یا ’مفت ڈاون لوڈ‘ کرنے سے کسی بھی فون یا کمپیوٹر سے کی جانے والی آن لائن سرگرمیاں ایک خاص حد تک اُوٹ میں رکھی جا سکتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک دہشت گرد کاروائی کے بعد حملہ آوروں کی تصاویر اور اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کے فخریہ بیانات جاری کئے جاتے ہیں لیکن ایک ہی اِی میل ایڈریس اور ایک ہی ٹوئٹر یا دیگر اکاونٹس کا استعمال کرنے کے باوجود بھی دہشت گردوں یا اُن سہولت کاروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا جو ’سائبر خواندگی‘ کا پوری طرح استعمال کر رہے ہیں۔ 

ہمیں سمجھنا ہے اُور اِنٹرنیٹ استعمال کرنے یا اِس کے بارے میں مہارت (خواندہ) نوجوانوں کو سمجھانا ہے کہ دہشت گردی کی سہولت کاری میں صرف وہی اَفراد شمار نہیں ہوتے جو کسی دہشت گرد کو اپنے ہاں قیام و طعام فراہم کریں اور اُسے کسی ہدف تک پہنچانے کی رہنمائی کریں بلکہ وہ سبھی لوگ جو کسی نہ کسی صورت اپنے علم کا استعمال بھی دہشت گردوں کے عزائم کی تکمیل کے لئے کر رہے ہیں وہ بھی ’سہولت کاروں ہی کے زمرے میں آتے ہیں‘ لہٰذا ایسی کسی بھی کاروائی (مہم جوئی) کا نہ تو حصّہ بنا جائے اور اگر دوسروں کی ایسی مشکوک سرگرمیوں کے بارے کوئی بات علم میں آئے تو اُس معلومات کا تبادلہ قانون نافذ کرنے والے اِداروں سے کرنا ایک قانونی ذمہ داری ہے۔
سماجی رابطہ کاری کے وسائل (انٹرنیٹ‘ اِی میل‘ سوشل میڈیا) سے جڑے تعمیری مقاصد کا حصول نہیں ہو پایا بلکہ اس کی وجہ سے وقت کا ضیاع اور تخریب کاری عام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ابلاغ (کیمونیکیشن) کا یہی ذریعہ مذہبی و سماجی شخصیات‘ اداروں یا مذہبی بنیادوں پر اگر دل آزاری کا باعث بن رہا ہے تو یہ فعل بھی ’دہشت گردی‘ ہی کے زمرے میں شمار ہونا چاہئے جیسا کہ حال ہی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے اصحاب کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں توہین آمیز خیالات کی تشہیر کی گئی‘ جس کا نوٹس نہ صرف عدلیہ نے لیا بلکہ اِس کی مذمت اور گونج قانون ساز ایوانوں میں بھی سنی گئی۔ انتہائی غیرمعمولی بات ہے کہ قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) نے سوشل میڈیا پر موجود گستاخانہ مواد کی مذمت اور اس گستاخی میں ملوث افراد کے خلاف سخت ایکشن کو یقینی بنانے کے لئے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ’’پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295(C) کے تحت ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر متنازع مواد اَپ لوڈ (upload) کرنے والے افراد کے خلاف کاروائی کی جائے جبکہ ایسا باقاعدہ نظام تشکیل دیا جائے جس کے ذریعے ملک میں سوشل میڈیا پر متنازع مواد کی گردش پر نظر رکھی جاسکے۔‘‘ 

قانون ساز اداروں کی ’’بے بسی‘‘ اور قانون سازوں کی ’’سادگی‘‘ پر قربان کہ خود حکومتی اراکین سینیٹ نے مذکورہ قرارداد پیش کی اور خود اپنے آپ ہی سے مطالبہ کر ڈالا! متنازع مواد شائع کرنے والوں کے خلاف کاروائی کون کرے گا اور یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا یہ کام عام آدمی (ہم عوام) نے کرنا ہے یا وفاقی حکومت کے زیرنگران اداروں نے اپنی موجودگی کا ثبوت دینا ہے؟ آخر اِس بات پر بحث کیوں نہیں کی جاتی کہ جب تک سماجی رابطہ کاری کی جملہ ویب سائٹس پاکستان حکومت کو صارفین کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ تک رسائی نہیں دیتیں‘ اُس وقت تک پاکستان میں تمام ’سوشل میڈیا‘ کی ویب سائٹس معطل (block) رہیں گی؟ دنیا کے کئی ممالک بشمول عرب دنیا میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر کلی یا جزوی پابندی عائد ہے اور اگر پاکستان میں بھی ایسا کیا جاتا ہے تو اِس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کوئی بھی آزادی بناء پابندی نہیں ہوتی۔

سینیٹ میں پیش کردہ قرارداد کا متن بڑا دلچسپ ہے جس میں کچھ نظریات بھی واضح کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قانون سازوں نے اپنی مشکلات میں مزید اضافہ کر لیا ہے۔ قرارداد میں تحریر ملتا ہے کہ ’’پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جسے اِسلام (دین) کے نام پر حاصل کیا گیا اور آئین پاکستان کے تحت تمام رسول و انبیائے کرام‘ اسلام کی مقدس شخصیات بالخصوص ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُور ان کے اہل و عیال و تمام ساتھیوں کی عزت و تکریم کرنا ضروری ہے۔ ایوان اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ چند گمراہ افراد قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں تاکہ ملک میں افراتفری کی فضا پیدا کی جاسکے۔ اسلام نے ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی فراہم کی ہے تاہم یہ آزادی بے لگام نہیں۔‘‘ اِس قرارداد کے روائتی مذمتی الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یاد رہے کہ اِس سے قبل کچھ سینیٹرز ’سوشل میڈیا دہشت گردی‘ کا حل تجویز کرتے ہوئے ایسی ویب سائٹس پر مکمل پابندی کا تصور پیش کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بات صرف قانون سازوں کی قراردادوں اُور مذمت کی حد تک محدود رہتی ہے اُور اِس معاملے میں ملوث افراد کی نشاندہی‘ کرنے میں وفاقی حکومت کے ادارے عملاً ناکام ثابت ہوتے ہیں تو اِس سے پاکستان میں ہنگامے ہو سکتے ہیں‘ مذہبی حلقوں میں پائی جانے والی بے چینی پہلے ہی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ آن لائن منفی سرگرمیوں کی مستقل بنیادوں پر مانیٹرنگ اور عوام کو شریک کرکے ایسے عناصر کی نشاندہی باآسانی ممکن ہے جو کسی خاص مقصد کے تحت ’منافرت پھیلانے والی مہمات‘ اِس منظم انداز میں چلا رہے ہیں‘ جس کی پاکستان کے نظریاتی اور سماجی تصورات میں گنجائش‘ قبولیت اور مقبولیت نہیں۔ المیہ ہے کہ موبائل فونز کے ذریعے انٹرنیٹ ’’سرعام‘‘ تو کر دیا گیا ہے جس سے ’ملٹی نیشنل کمپنیاں (سروس پروائیڈرز)‘ خوب منافع کما رہی ہیں اور اس میں سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز بھی یقیناًیکساں شریک ہوں گے لیکن ذاتی حرص و طمع کے اسیروں کو اندازہ ہی نہیں کہ کس طرح انٹرنیٹ کا غیرمحتاط استعمال تخریب و دہشت کا باعث بن رہا ہے اور اگرچہ حکومتی اداروں کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو اس مہم میں ملوث ذرائع کی شناخت میں مدد فراہم کرسکتی ہے لیکن تاحال ایسے کسی بھی کردار کی نشاندہی نہیں ہوسکی ہے! 

سوال یہ بھی ہے کہ ٹوئٹر یا فیس بک پر جعلی ناموں (شناخت) والے کھاتہ دار (اکاؤنٹ ہولڈرز) کس طرح تاحال فعال رہ سکتے ہیں جبکہ اس بارے میں ڈائریکٹر جنرل ’ایف آئی اے‘ اور چیئرمین ’پی ٹی اے‘ جیسے متعلقہ اِداروں کو وفاقی حکومت کی جانب سے (مبینہ طور پر) تحریری و زبانی اَحکامات بھی اِرسال ہو چکے ہوں!؟ مواصلات و نشریات وفاقی موضوع (معاملہ) ہے جس میں صوبے مداخلت نہیں کرسکتے لیکن صوبائی سطح پر (بالخصوص خیبرپختونخوا میں) ایسی (الگ) قانون سازی ممکن ہے جس کے ذریعے ’سوشل میڈیا دہشت گردی‘ کرنے والوں سے لاحق خطرات کو کم یا اِس مستقل بنیادوں پر روکا جاسکتا ہے۔ 

تجویز ہے کہ موبائل فون کے ’پری پیڈ‘ کی بجائے ’پوسٹ پیڈ‘ کنکشن کو موبائل فون اور انٹرنیٹ (ڈیٹا کنکشن) جیسی سہولیات دی جائیں کیونکہ معاملہ صرف ٹیکنالوجی کو عام کرنے کا نہیں بلکہ اس کے شعوری‘ معنوی اور ایسے محتاط و محفوظ استعمال کا بھی ہے‘ جو کسی کی صورت اور کسی بھی حالت میں ریاست یا فرد و معاشرے کے لئے خطرے کا باعث (مؤجب) نہ ہو۔

No comments:

Post a Comment