ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بے معنی توقعات!
تیسری کوئی صورت باقی نہیں رہی؟ قوم اُور سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت سپرئم کورٹ سے ’نون‘ یا ’قانون‘ کا جنازہ نکلنے کی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور تعلق محبت کا ہو یا اُنس کا مایوسی اُن ’توقعات‘ کے سبب ہوتی ہے‘ جس میں ہم دوسروں کے حالات (اوقات اُور حدود) کا خیال نہیں کرتے۔ ’’کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی۔۔۔یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا!‘‘ المیہ ہے کہ قیادت ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ قانون ساز ایوانوں کے اندر اور باہر ہلڑبازی‘ گرما گرمی‘ جذبات کا کھلم کھلا اظہار ’’بالخصوص غیرمحتاط بیانات‘‘ نے ماحول کو تو گرما دیا ہے لیکن یہ جمہوریت اُور جمہوری اَقدار کے سراسر منافی ہے۔
اگر قوم کی یاداشت کمزور نہ ہوتی تو سیاست دانوں کا کردار اور قوم کی توقعات یوں ’بے معنی‘ نہ ہوتیں!تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے تعارف میں آج بھی ’کپتان‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے‘ جس پر اُن کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔
کینسر ہسپتال ہوں یا نمل یونیورسٹی‘ عمران خان صاحب کے اِرادوں کی پختگی کو اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں نے مالی عطیات سے تکمیل تک پہنچا کر عزت بخشی۔ بطور سیاستدان اُن کے کرخت لہجے اور رویئے یا پل پل بدلتے بیانات سے اختلاف رکھا جا سکتا ہے لیکن دنیائے کرکٹ اور طب و تعلیم کے میدان میں ان کا مقام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن کپتان کی منطق اِس حد تک نرالی ہے کہ جسے وہ خود ہی بہتر سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں! انہوں نے ’پی ایس ایل سیزن ٹو‘ کے فائنل میں حصہ لینے والے مہمان کھلاڑیوں کو ’’پھٹیچر اور ریلو کٹا‘‘ کہا‘ تو سیاسی مخالف کو اُن کے بیان سے حقارت بھرے الفاظ کی بو آئی۔ تجزیہ کار اور عوام ’’ریلو کٹا‘‘ کا مفہوم اپنی اپنی دانست و مطالعے کی روشنی میں تلاش کرتے رہے جبکہ کپتان کی جماعت اس اصطلاح کے وہ معنی تلاش کرتے ہلکان ہوتی رہی جو عوامی و میڈیائی غصے کو ٹھنڈا کرسکیں۔ کہا جاتا ہے مسلسل صفائی اور تاویلیں دراصل غلطی کا اعتراف بن جاتی ہیں لیکن اعتراف کے تو کیا ہی کہنے جب وہ اپنے بیان پر ’’باجماعت‘‘ ڈٹ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ کپتان کی غیررسمی بات چیت کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر نشر کرنے والی خاتون رپورٹر نے صحافتی آداب کا خیال نہیں رکھا اور بعدازاں تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے مذکورہ خاتون کی کردار کشی کرنے کی کوشش میں اُن پر توہین رسالت جیسا الزام تک تھوپ دیا!
چند ایسے پیغامات بھی سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں کہ ’’بے غیرت میڈیا‘‘ نے کپتان کی خدمات بھلا کر صرف ان کے ایک لفظ ’پھٹیچر‘ پر ساری توجہ مرکوز کر رکھی ہے! لیکن کیا انسانیت کی خدمت میں فلاحی کینسر ہسپتال اور تعلیمی ادارہ تعمیر کروانے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں خیالات کا اظہار کرنے میں احتیاط سے کام نہ لیا جائے اور دوسروں کو حقیر یا ارزاں سمجھا جائے؟
کیا دنیائے کرکٹ میں اب کوئی ایسا بڑا کرکٹر پیدا نہیں ہو سکتا چاہے اس نے دو مرتبہ ورلڈ کپ (عالمی مقابلے) جیت رکھے ہوں؟ کیا انسانیت کی خدمت کسی بھی انسان کو حق دیتی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد انسانوں کو تحقیر سے دیکھا جائے؟ کیا سر ویوین رچرڈز اور دیگر سابق کرکٹرز کا پاکستان آنا معمولی بات ہے؟ جس کرکٹ میچ کو کپتان نے سیاسی جلسہ قرار دیا‘ وہاں ان دو اشخاص کے خلاف نعرے لگوائے گئے جنہوں نے پاکستان میں دہشت ختم کرنے کی ادنی سی کوشش تو کی۔ بجائے اس کے کہ ان دہشت گردوں کو یک زبان ہو کر جواب دیا جاتا جو ہمارے کھیل کے میدان ویران کرتے رہے اور ہم سے ہماری خوشیوں اور ثقافت کا ہر رنگ چھین لینا چاہتے ہیں۔ کپتان نے خود کو اس موقع پر غیرجانبدار رکھنے کی بجائے اِسے سیاسی اور تقسیمی لمحہ بنا ڈالا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قوم کی یاداشت کمزور ہے۔
No comments:
Post a Comment