Friday, March 10, 2017

Mar2017: Beautification & role of WSSC in Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ایبٹ آباد: خوبصورتی مانند!؟
چوبیس جون دوہزار پندرہ کے روز خیبرپختونخوا حکومت نے باقی ماندہ چھ ڈویژنل ہیڈکواٹرز شہروں (ایبٹ آباد‘ کوہاٹ‘ مردان‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور سوات) تک ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی (ڈبلیو ایس ایس سی)‘ کا دائرہ کار پھیلا دیا‘ جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں کام نکاسئ آب کے نظام کی فعالیت‘ صفائی کی صورتحال میں بہتری‘ کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کی تلفی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی شامل ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والے اِس اعلامیے (ہینڈآؤٹ) پر ’ایبٹ آباد‘ کی حد تک عمل درآمد ہوتے ہوتے کم و بیش دو سال بعد بھی صورتحال غیریقینی ہی کا شکار ہے کیونکہ صفائی ستھرائی کے لئے پہلے سے موجود نیٹ ورک کے نگران ’ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے)‘ نے مذکورہ کمپنی سے ’سروسیز اینڈ منیجمنٹ ایگریمنٹ (سماء معاہدہ)‘ کرنے انکار کر رکھا ہے۔ 

اگر پشاور سمیت دیگر ڈویژنل ہیڈکواٹرز میں فعال مذکورہ کمپنیوں سے ’ٹی ایم اے‘ حکام تعاون کر رہے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے یہ تعاون ’ایبٹ آباد‘ میں نہیں ہو رہا؟

تحریک اِنصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی بدقسمتی رہی ہے کہ اِس کے بالخصوص ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں ’رکاوٹوں پر رکاوٹیں‘ حائل کرنے والوں کی کمی نہیں۔ آٹھ مارچ کی صبح کمشنر ہزارہ کی زیرصدارت ’’ایبٹ آباد کی خوبصورتی‘‘ کے حوالے سے اجلاس میں تجاوزات کے خاتمے‘ غیرقانونی اڈوں‘ سڑکوں کی حالت‘ نکاسئ آب اور صفائی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جس میں کنٹونمنٹ بورڈ‘ پاکستان ملٹری اکیڈمی‘ ڈبلیو ایس ایس سی اور متعلقہ رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) و صوبائی اسمبلی (پی کے پینتالیس) کو مدعو کیا گیا تھا۔ اوّل تو اِس اجلاس کو خفیہ (تہہ دار) رکھنے کوئی خاص ضرورت نہیں تھی بلکہ اِسے ’اوپن فورم‘ کے طور پر منعقد کیا جاتا جس میں ایبٹ آباد سے منتخب بلدیاتی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے کے علاؤہ تاجر و دیگر تنظیموں کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جاتا تو کوئی خاص فرق نہ پڑتا بلکہ مشاورت سے بہتری کی راہیں کھلتیں اُور ایسا اب بھی ہو سکتا ہے۔

شہری علاقوں میں صفائی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کا تجربہ ستمبر دوہزار چودہ میں پشاور سے شروع کیا گیا جس کی کامیابی کے بعد اِسے مختلف ڈویژنل ہیڈکواٹرز تک توسیع دی گئی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک کی سوچ یہ تھی کہ تیسرے مرحلے میں اِسے تمام اضلاع تک وسعت دے دی جائے گی لیکن شاید یہ ہدف بھی حاصل نہ ہو سکے۔ صوبائی حکومت کی خواہش اور کوشش ہے کہ بلدیاتی اداروں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز کا ایک خاص حصہ صفائی اور پینے کے پانی کی فراہمی پر خرچ ہو لیکن میونسپل خدمات کے ادارے اور اہلکار اِس بارے شدید تحفظات رکھتے ہیں!

ایبٹ آباد کی چار یونین کونسلوں پر مشتمل شہری علاقوں اور کنٹونمنٹ بورڈ کے پانچ وارڈز میں یومیہ 250 ٹن (ڈھائی ہزار کلوگرام) کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) پیدا ہوتی ہے جس میں سے صرف 80سے 90 ٹن گندگی اکٹھا ہوتی ہے لیکن اِس کی تلفی (ٹھکانے لگانے) کا خاطرخواہ بندوبست نہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود سے پچاس ٹن جبکہ شہری علاقوں کی حدود سے چالیس سے تیس سے چالیس ٹن گندگی اُٹھانے کا نظام ایبٹ آباد کی خوبصورتی کو ماند کرنے کا باعث بن رہا ہے‘ جس کا اگر آنے والے سیزن (موسم گرما) سے قبل علاج نہ کیا گیا تو ایبٹ آباد کی گندگی کے انبار اردگرد پہاڑوں سے زیادہ بلند دکھائی دیں گے! خیبرپختونخوا کے بالائی سیاحتی مراکز (گیٹ وے اَیبٹ آباد) میں کم سے کم اگر صفائی ستھرائی کی صورتحال ہی بہتر نہیں بنائی جاتی تو یہ ’تحریک انصاف کی عظیم بدنامی‘ کا باعث بنے گا۔ تین برس سے کمشنر ہزارہ جیسے عہدے پر ایک ہی شخص کو تعینات رکھنے سے حاصل ہونے والے فوائد اور نقصانات کا شمار ضروری ہے۔ تحریک اِنصاف کی مرکزی و صوبائی اُور اِیبٹ آباد سے منتخب قیادت کے پیش نظر ضلع ایبٹ آباد کے مفادات اُور بالخصوص اُس ’ووٹ بینک‘ کی رائے کا اِحترام ہونا چاہئے‘ جس نے ’’اَندھا اِعتماد‘‘ کیا اور آج بھی بہتری کی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے!

ایبٹ آباد کے دیرینہ مسائل بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ تجاوزات‘ ٹھوس گندگی کی تلفی‘ نکاسئ آب‘ غیرقانونی اڈے‘ سڑکوں کی حالت زار اُور شہری منصوبہ بندی کا فقدان ایسے چند مسائل ہیں جن کے حل پر ہونے والی سست پیشرفت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے نوٹس میں رہنی چاہئے۔ ایبٹ آباد کی آبادی کا زیادہ بڑا حصّہ فوجی چھاؤنی (کنٹونمنٹ کی پانچ وارڈوں) پر مشتمل ہے‘ جہاں فوجی اُور سول اِداروں کے درمیان رابطوں اور تعاون کے فقدان کے سبب الگ سے مسائل (اُلجھنیں) وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے توسیعی منصوبے کے بارے مقامی آبادی کے تحفظات اور مشکلات یہاں کی نمائندگی کرنے والوں کے لئے زیادہ بڑا چیلنج ہیں لیکن اگر ’ادارہ جاتی طاقت کے مراکز‘ اپنے اپنے اختیارات خطرے میں محسوس کرنے کی بجائے اُس ’بیچارے انسان‘ کے بارے میں بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں‘ جس کی زندگی ایک مسلسل کرب سے گزر رہی ہے۔

No comments:

Post a Comment