Thursday, March 9, 2017

Mar2017: Lack of treatment facilities in Ayub Teaching!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
علاج معالجہ اُور معالجین!
بارہ سو ایکڑ رقبے پر پھیلے گیارہ سو بستروں سے زائد کے ’ایوب ٹیچنگ ہسپتال (ایبٹ آباد)‘ کا سالانہ بجٹ ’ایک سو دس کروڑ روپے‘ سے زیادہ لیکن پچاس کروڑ روپے سے زائد پر مشتمل حصہ عملے کی تنخواہوں (غیرترقیاتی اخراجات) کی نذر ہو جاتا ہے۔ علاؤہ ازیں ہسپتال کے مختلف شعبوں سے حاصل ہونے والی سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی الگ ہے لیکن اِس ہسپتال کے انتظامی امور کی ’خستہ حالی‘ کا اندازہ کئی مثالوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ سال دوہزار دس گیارہ سے تعمیراتی کام مکمل ہونے کے باوجود بھی ہسپتال کے احاطے میں کثیرالمنزلہ ’گائنی وارڈ‘ تاحال فعال نہیں ہو سکا جس کی بظاہر وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ ہسپتال کے ڈاکٹرز اور فیصلہ ساز جن کے مالی مفادات ’نجی علاج گاہوں سے بھی وابستہ ہیں‘ اگر سرکاری علاج گاہ کا معیار بلند کر دیں گے تو پھر نجی شعبے کی علاج گاہیں سنسان ہو جائیں گی! 

دوسری مثال ہسپتال کے تین داخلی دروازوں کی موجودگی میں چوتھے دروازے کا اضافہ ہے‘ جس کے لئے سبزہ زار کی زرخیز مٹی پر منوں سیمنٹ ڈال دیا گیا۔ ایک طرف تحریک انصاف شجرکاری مہمات کی تبلیغ کر رہی ہے اور دوسری طرف ہسپتال کے اطراف میں سبزہ زار کو غیرضروری راہداری کی نذر کر دیا گیا! حالانکہ سیکورٹی حالات اِس بات کے متقاضی تھے کہ ہسپتال اور ملحقہ میڈیکل کالج کا صرف ایک داخلی دروازہ رکھا جاتا تاکہ آمدروفت پر نظر رکھنے کے علاؤہ پارکنگ ایریاز ہسپتال کی عمارت سے الگ اور فاصلے پر رکھے جاتے‘ جو صفائی کے نکتۂ نظر سے بھی ضرورت تھی لیکن فیصلہ ساز جس ’بے حسیکا مظاہرہ‘ کرتے آئے ہیں اُس سے نہ صرف مالی وسائل کا ضیاع ہوا ہے بلکہ ہسپتال کی سیکورٹی‘ صفائی کی صورتحال اور علاج معالجے کی سہولیات کا معیار بہتر ہونے کی بجائے بتدریج کم ہوا ہے۔ اُجلے ملبوسات اُور ’فر فر اَنگریزی‘ بولنے اُور اَعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھنے کا زعم رکھنے والوں کا قول و فعل دیکھ کر جہالت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہوگا‘ کیونکہ علم و شعور کے دعویداروں نے ناقابل تسکین حرص و طمع کے سامنے ہار مان لی ہے! اَیوب ٹیچنگ صرف ایبٹ آباد یا ہزارہ ڈویژن ہی کا بڑا اُور مرکزی ہسپتال نہیں بلکہ اِس سے رجوع کرنے والوں میں ملحقہ دیہی علاقوں تا آزاد کشمیر اُور شمالی علاقہ جات کے رہنے والے اُن ’بیچارگان‘ کی اکثریت شامل ہے‘ جو عمومی حالات میں نجی اِداروں سے مہنگے داموں علاج معالجہ کرانے کی مالی سکت (اِستطاعت) نہیں رکھتے!

خیبرپختونخوا میں ’سرکاری علاج گاہوں کو مالی و انتظامی خودمختاری دینے کا مقصد‘ اُس نظام کی اصلاح تھی‘ جس سے عام آدمی (ہم عوام) کی وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہی تھیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے انتظامی نگرانوں (ایم سیز) کو ’بورڈ آف گورنرز (بی اُو جیز)‘ سے تبدیل کرنے کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ بھاری تنخواہوں اور غیرمعمولی مراعات کے عوض ایسے منظورنظر افراد کی تعیناتیاں بطور نگران کر دی گئیں‘ جنہیں نہ تو بڑی علاج گاہوں کے معاملات دیکھنے کا ماضی میں کوئی عملی تجربہ تھا اور وہ نہ ہی اِس شعبے میں بناء تجربے اپنے علم کی بنیاد پر ایسا نظام وضع کرنے کی اہلیت رکھتے تھے جس سے مالی بچت یا علاج معالجے کے دستیاب وسائل سے بہتر استفادہ ممکن ہو سکتا۔ سرکاری علاج گاہوں کو قانون سازی کے ذریعے خودمختاری اور ’میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیویشنز (ایم ٹی آئی)‘ کا درجہ دینے کے روشن پہلو ایک ایک کر کے تاریک ہوتے چلے گئے تو اِس کی بھاری قیمت صرف اور صرف عام آدمی (ہم عوام) کو ادا کرنا پڑ رہی ہے!

ایوب ٹیچنگ ہسپتال کے انتظامی معاملات اُس وقت تک درست (فعال) نہیں ہوں گے جب تک قواعد و ضوابط کا اطلاق ہر اعلیٰ و ادنیٰ کارکن پر یکساں نہیں کر دیا جاتا۔ ملازمین کی حاضری کے لئے ’بائیومیٹرک (انگوٹھے کے نشان سے) تصدیق‘ کے بیش قیمت الیکٹرانک آلات و نیٹ ورک نصب کر دیا گیا ہے لیکن اِن کے ذریعے صرف درجہ چہارم (ادنیٰ) ملازمین ہی حاضری لگانے کے پابند ہیں‘ ایسا کیوں!؟ ہسپتال اور محلقہ کالج کے اعلیٰ ملازمین نے ہڑتالوں اور احتجاج کے ذریعے خود کو ’بائیومیٹرک حاضری‘ سے مستثنیٰ قرار دیا ہوا ہے تو حکومت نے اِس ’سراسر ناجائز مطالبے‘ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے تو کیا یہ اقدام مفاد عامہ کے لئے کیا گیا؟ وہ تمام ڈاکٹرز (مرد و خواتین) جو نجی کلینکس یا نجی میڈیکل کالجوں میں اُوقات کی سختی سے پابندی کرتے دکھائی ہیں لیکن سرکاری علاج گاہ اور درسگاہ میں حاضری کے ’ٹائم ٹیبل‘ کے تابع نہیں تو کیا کام چوری کا کوئی بھی جواز مطنقی (قابل قبول) ہو سکتاہے؟ کسی ادارے اور بالخصوص ایک مرکزی علاج معالجے کی سہولت‘ میں درجہ بہ درجہ ’نظم و ضبط‘ کیونکر لاگو ہوسکتا ہے جبکہ اُس کے نگران اور روح رواں خود کو جسمانی اور فکری طور پر ’وقف‘ ہی نہ سمجھتے ہوں؟ ایوب ٹیچنگ کے ’بورڈ آف گورنرز‘ کی اب تک کارکردگی میں ماسوائے سلیکشن اور پروموشن جتنے فیصلے بھی کئے گئے ہیں‘ اُن کی سطحی و انفرادی حیثیت اِس بات کی گواہ ہے کہ وہ سیاہ و سفید کے مالک بنے‘ خود کو کسی کے آگے جوابدہ تصور نہیں کر رہے! متعلقہ انتخابی حلقوں سے منتخب ہونے والے اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے کہاں ہیں‘ جن کی موجودگی معنوی نہیں اور اُنہیں آئندہ عام انتخابات سے زیادہ اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے جبکہ اُن کی ناک و اختیار کے نیچے ہونے والی بے قاعدگیوں کے بارے سخت سرزنش ہوگی‘ تو اُس وقت کیا جواب بن پائے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کے فیصلہ ساز روائتی طرزعمل اور سب اچھا کی خوشامدی رپورٹوں کی بجائے برسرزمین حقائق کا ’خفیہ معلومات‘ کی بنیاد پر جائزہ لیں کیونکہ ’’تبدیلی کی راہ میں حائل جملہ رکاوٹیں‘‘ دور ہونی چاہیءں۔ ذاتی مفادات کی سوچ اُور حرص کے اسیروں کا صفایا بھی ترجیحی بنیادوں پر یکساں ضروری ہے۔ 

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک روایت شکن ہیں اُور انہوں نے خود کو عوام سے الگ نہیں رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ ’ایوب ٹیچنگ ہسپتال‘ سے متعلق عوامی شکایات پر انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ انتظامی نگرانوں ’بورڈ آف گورنرز‘ تبدیل کرنے کا وعدہ کیا لیکن تاحال اِس وعدے کی عملی تکمیل نہیں ہو پائی ہے اُور شاید ایسا اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہو پائے گا جب تک خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی ’’مفادات سے متصادم‘‘ قانون منظور نہیں کر لیتی کیونکہ ’ایم ٹی آئی ایکٹ (قانون)‘ کے تحت بھاری تنخواہیں اِس بات سے مشروط تھیں کہ انتظامی ذمہ داریاں رکھنے والے کسی دوسرے ذریعے سے مالی مفادات وابستہ نہیں کریں گے لیکن ڈین اور میڈیکل ڈائریکٹرز جیسے عہدوں پر تعینات‘ تین سے پانچ روپے تک ماہانہ تنخواہیں اور اضافی مراعات حاصل کرنے والوں نے حلفیہ ملازمتی شرائط کی پابندی (پاسداری) نہیں کی! عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے سرکاری علاج گاہوں بالخصوص ’ایوب میڈیکل کمپلیکس (ایبٹ آباد)‘ میں اِصلاح اور بہتری کی موجود گنجائش سے فائدہ اُٹھانے میں ’’مزید تاخیر‘‘ کی بجائے ’’سخت گیر راست عملی اقدامات‘‘ کئے جائیں کیونکہ یہ انسانی زندگی و موت کا مسئلہ ہے!

No comments:

Post a Comment