ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
داخلی محاذ!
درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ پر خودکش حملے کے بعد ’سیکورٹی وجوہات‘ کی بناء پر ’پاک افغان سرحد‘ سولہ فروری سے سات اور آٹھ مارچ تک کے لئے بند رکھنے کا مقصد پاکستان کے اُس مؤقف کی جانب افغان اور عالمی توجہ مرکوز کرنا ہے تاکہ افغانستان اپنی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال روکنے میں سنجیدہ عملی اقدامات کرے لیکن کیا صرف افغانستان ہی پاکستان کی سلامتی کے لئے ’واحد خطرہ‘ ہے؟ کیا پاکستان کے داخلی محاذ پر اُن تمام عناصر کا خاتمہ کر دیا گیا ہے جو انتہاء پسندی کے فروغ اور دہشت گردی کے لئے سہولت کاری سرانجام دے رہے ہیں؟ پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل ہوئی ہے تو عسکری مہمات کی تربیت پانے والے اثاثوں کا مستقبل کہیں پاکستان کے محفوظ مستقبل سے تو متصادم نہیں؟ کیا پاکستان نے کالعدم قرار دینے کے بعد ایسی تمام تنظیموں کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں حتیٰ کہ اُن کے عام انتخابات میں شرکت پر پابندی عائد کی ہے‘ جن کا نفرت پر مبنی دستور (لائحہ عمل) کسی سے پوشیدہ نہیں؟ پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات سے کئی گنا زیادہ خطرہ تو داخلی محاذ پر لاحق ہے‘ جہاں دشمن کی پہچان ہی مشکل ہے تو کیا ’ردالفساد‘ میں شہری و دیہی علاقوں میں روپوش عناصر کے خلاف ’اچھے اور بُرے کی تمیز‘ کئے بناء کاروائی کی جائے گی؟
سوالات و خدشات بہت ہیں لیکن ’دہشت گردی کے خلاف جدوجہد‘ عام پاکستانیوں کے لئے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہیں‘ جن کا اِس پورے منظرنامے سے کوئی واسطہ نہیں لیکن وہ بہرصورت متاثر ہو رہے ہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک بھر میں جاری ’سرچ آپریشنز‘ کے دوران نسلی امتیاز برتے جانے کا تنازع زیر بحث ہے‘ وفاقی حکومت کی جانب سے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کو بتایا گیا ہے کہ ’’تین لاکھ سے زائد ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سیز)‘ (محض) شک یا شبہ کی بنیاد پر معطل (بلاک) ہیں اور اِن میں ایک تہائی کارڈز غیر ملکیوں کے ہیں۔‘‘ اب تک حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایسے پہلے اعدادوشمار ہیں‘ جس سے یہ ’منفی تاثر‘ زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’’لاکھوں کی تعداد میں شناختی کارڈز بلاک ہیں!‘‘ صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد ’بلاک‘ کئے گئے قومی شناختی کارڈز کی کل تعداد ’’تین لاکھ پینتالیس ہزار پانچ سو دس‘‘ بتائی گئی ہے‘ جن میں سے ایک لاکھ 75ہزار ’شناختی کارڈز‘ تاحال خفیہ اداروں اور 52ہزار کارڈز کے کوائف ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کی ’کلیئرنس‘ کے منتظر ہیں۔ ماضی میں قومی شناختی کارڈ کا حصول اِس قدر آسان تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں نے قومی شناختی دستاویزات حاصل کیں اور خود ’نادرا‘ یہ بات تسلیم کر چکی ہے کہ غیرملکیوں کو جاری ہونے والے ایسے ایک لاکھ سترہ ہزار چار سو سے زائد شناختی کارڈز قبضے میں لئے گئے ہیں! سب سے زیادہ افغانوں نے ’قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کئے جن کی تصدیق کا کوئی قابل بھروسہ طریقہ (ذریعہ) نہیں کیونکہ زیادہ تر کارڈز قبائلی علاقوں یا اِن سے متصل بندوبستی علاقوں کے مستقل ایڈریس پر بنوانے والوں نے بعدازاں ملک کے مختلف حصوں میں عارضی سکونت اختیار کی۔ قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کے بعد بینک اکاونٹ‘ پاسپورٹ اور جائیدادوں کی خریدوفروخت کرنے کے علاؤہ افغان غیرملکیوں نے اپنے بچوں کا بطور ’پاکستانی‘ اندراج کرایا اور یوں وہ گھل مل گئے جنہیں تلاش کرنا ممکن نہیں رہا لیکن ایسے افغان کہ جنہوں نے خود کو بطور مہاجر کبھی بھی رجسٹر کرایا‘ اُن کی تصاویر اور بائیومیٹرک علامات کے ذریعے شناختی جانچ کا عمل جاری ہے۔ ماضی میں بھی نادرا کے زیرنگرانی ’’جائنٹ ویری فکیشن کمیٹی‘‘ مشکوک قومی شناختی کارڈز رکھنے والے افراد کی اسناد کی تصدیق کرتی تھیں‘ تاہم یہ بہت ہی سست رفتاری سے چلنا والا نظام تبدیل کرتے ہوئے گزشتہ برس اپریل میں اٹھاسی زونل اور آٹھ علاقائی بورڈز قائم کئے گئے لیکن پھر بھی خاطرخواہ رفتار حاصل نہیں ہو سکی ہے! افغان مہاجرین کی شہری و دیہی علاقوں میں ’پاکستانی شناخت‘ کے ساتھ موجودگی کے شواہد موجود ہیں‘ جن کی جانچ خفیہ اداروں کے ذریعے کی جائے تو جن پاکستانیوں کے کارڈز محض شک کی بناء پر معطل ہیں‘ انہیں ذہنی کوفت و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔
قومی شناختی کارڈ کے حصول اُور بعدازاں اِس کی تصدیق و جانچ پڑتال کے مراحل میں اِدارہ جاتی کمزوریوں (بدعنوانیوں) کے لئے عام آدمی (ہم عوام) کو قصوروار قرار دینا مبنی برانصاف نہیں۔ گزشتہ تین برس کے دوران کم سے کم پانچ مرتبہ وزارت داخلہ کی جانب سے قوم کو یقین دہانی کرائی گئی کہ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی اہم دستاویزات کے حصول کا عمل آسان بنایا جائے گا لیکن اِس سلسلے میں نہ تو حسب اعلان ’آن لائن خدمات‘ کی فراہمی ممکن ہو پائی ہے اور نہ ہی ’نادرا‘ دفاتر کے باہر اُن قطاروں کا خاتمہ ممکن ہو سکا ہے‘ جو سیکورٹی رسک بھی ہیں اور متعدد مرتبہ دہشت گردی کا نشانہ بھی بنے ہیں! اگر سیاسی دباؤ پر عام انتخابات کے موقع پر موبائل (گشتی) یونٹس کے ذریعے قومی شناختی کارڈ بن سکتے ہیں تو پھر عمومی حالات میں دفاتر کی بجائے گاڑیوں کے ذریعے یونین کونسلوں کی سطح پر ایسی خدمات فراہم کیوں نہیں کی جاسکتیں جس کی (ضرورت سے زیادہ غیرحقیقی) قیمت کارڈ و دیگر دستاویزات حاصل کرنے والے ادا کر رہے ہیں!؟
No comments:
Post a Comment