Tuesday, March 7, 2017

Mar2017: Human cost of security!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اعزازت اور امتیازات!
دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کا ’قابل فخر کردار‘ یکساں سراہا جانا چاہئے۔ جو مختلف محاذوں پر ڈٹ کا اُن بیرونی قوتوں کے آلۂ کاروں کا مقابلہ کر رہے ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جوہری صلاحیت رکھنے والا ملک غیرذمہ دار ہے جو قومی (داخلہ) سلامتی کے عالمی معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ پاکستان کو درپیش لاتعداد خطرات میں یہ سب سے زیادہ منظم سازش ہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے زیادہ سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر قانون نافذ کرنے والا ہر ادارہ اور ہر اہلکار اہم ہے کیونکہ سبھی کے فرائض منصبی ایک جیسے ہیں‘ جن کی ادائیگی (خدمات) اور ایک جیسی جانی و مالی قربانیوں کا صلہ بھی ایک جیسا ہی ہونا چاہئے لیکن اگر کہیں ایک جیسی مراعات اور خدمات کا ایک جیسا اعتراف نہیں ہورہا تو اعزازات کی معنوی تکمیل بھی ضروری ہے۔ 

خیبرپختونخوا کہ ضلع بنوں میں تعینات ’فرنٹیئر کانسٹبلری‘ کے ایک جوان (جس کا نام صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے) نے بذریعہ ’ای میل‘ یہ بات متعلقہ حکام کے گوش گزار کرنے کی درخواست کی ہے کہ ’’پاک فوج اور پولیس کی طرح فرنٹیئر کانسٹبلری کے لئے یکساں بنیادوں پر سروس اسٹکچر اور مراعات کی فراہمی کے لئے موجودہ طریقۂ کار پر نظرثانی کی جائے۔‘‘ یاد رہے کہ رواں برس جنوری کے پہلے ہفتے میں بھارت کے کئی فوجیوں نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر اپنے ساتھ جاری امتیازی سلوک کی شکایات نشر کی تھیں‘ جس کی وجہ سے بھارت کی فوج اور حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی اور سوشل میڈیا پر آج بھی اُن ویڈیوز کی تشہیر جاری ہے‘ جس سے بھارتی اور غیربھارتی ذرائع ابلاغ نے اپنے اپنے مطالب اخذ کئے ہیں لیکن تصور کیجئے کہ اگر پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلح افواج کا کوئی اہلکار ایسی ہی شکایت سوشل میڈیا پر جاری کرے تو اِس فعل سے پاکستان کی کتنی بدنامی ہوگی اور بھارتی ذرائع ابلاغ اِس بات کو کتنا اچھالیں گے۔ سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے چاہے وفاقی یا صوبائی ہوں اُن کے اہلکاروں میں احساس محرومی یا منتظمین کے بارے میں تحفظات نہیں ہونے چاہیئں۔ 

بنوں سے تعلق رکھنے والے ’فرنیٹئر کانسٹبلری‘ اہلکار کے مطالبات اور تحفظات جائز ہیں‘ جن پر غور ہونا چاہئے جیسا کہ اُن کا یہ مطالبہ کہ ’’فرنٹیئر کانسٹیبلری کو ’ریگولر پولیس‘ کا درجہ دینے کے ساتھ جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جائے۔ ایف سی کی تمام پلاٹونز کو اُن کی اقوام کے حساب سے اپنے اپنے علاقوں کی لائنوں میں مستقل تعینات کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے مالی وسائل کی بچت بھی ہوگی۔ علاؤہ ازیں فرنیٹئر کانسٹیبلری میں خفیہ معلومات یکجا کرنے کے لئے ’انٹلیجنس ونگ‘ کا قیام اور اِس اہم فورس کی عصری تقاضوں کے مطابق ’اپ گریڈیشن‘ کی جائے۔‘‘

سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کے لئے یکساں مراعات اور انہیں عصری تقاضوں کے مطابق اسلحے سے لیس کرنے کی ضرورت کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں بلکہ اِس ضرورت سے ایک قدم آگے سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں میں پائی جانے والی تشویش اور اپنے مستقبل کو لیکر بے یقینی کا خاتمہ بھی یکساں اہم ہے۔ جرمنی کے معروف سماجی امور کے ماہر مایکس ویبر (Max Weber) نے ’سیاست بطور طرز زندگی (پیشہ)‘ کے عنوان سے مقالے میں کہا تھا کہ انسانی معاشرے کی معلوم حدود میں طاقت کے جائز استعمال سے بہتری آتی ہے۔‘‘ اگر ہم قانون نافذ کرنے والے جملہ اِداروں کی ساخت و کارکردگی کا احاطہ کریں تو اِن سبھی کامقصد ریاست کی عمل داری قائم رکھنا اور اسے مضبوط بنانا ہے اور اسی ضرورت کا تقاضا ہے کہ سیکورٹی اداروں میں سیاسی عمل دخل کم سے کم لیکن اُنہیں قانون کے اطلاق اور ملک و معاشرے کو شرپسند عناصر سے محفوظ بنانے کے لئے ترجیحات کا تعین کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ 

وفاقی حکومت کی جانب سے قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا اعلان سب سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ’چیلنج‘ ہے جس میں ’فرنٹیئر کانسٹبلری‘ بھی شامل ہے اور جب تک ’فرنٹیئر کانسٹبلری‘ کے ادنیٰ اہلکاروں کی صفوں میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی (حق تلفی)کا ازالہ نہیں کیا جاتا اُس وقت تک قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے نفاذ کی کوششیں اور قیام امن کے لئے ہر سو کھلے محاذوں پر کامیابی (فتح) یقینی تو کیا ممکن بھی نہیں ہوگی۔ (جائز) حقوق کی ادائیگی کے بناء ترقی اور امن کے تصورات دھندلے ہی رہیں گے اور ہمارے فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ خواب دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن خوابوں کی دنیا میں رہنا نہیں چاہئے۔

No comments:

Post a Comment