ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: سوچا نہیں تھا!
کارکردگی اَقوال سے نہیں افعال سے ظاہر ہونی چاہئے۔ ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کی صوبائی حکومت اگر ’پشاور سے اِنصاف‘ نہیں کر سکی تو یہ نتیجہ اَخذ کر لینا قطعی منطقی ہوگا کہ وہ باقی ماندہ خیبرپختونخوا سے بھی کئے گئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں ’باوجود کوشش‘ ناکام ثابت ہوئی ہے اُور جب ہم ’پشاور سے اِنصاف‘ کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب ’تعمیروترقی سے پیدا ہونے والی وہ ظاہری و باطنی خوبصورتی ہوتی ہے جو 1: مقدار کے لحاظ سے پورے پشاور کی کفالت کر رہی ہو اور 2: وہ معیار کے لحاظ سے پائیدار (دائمی) ثابت ہو۔ یادش بخیر 1996ء میں سیاسی سفر کا آغاز کرنے والی ’تحریک انصاف‘ ’جون 2013ء‘ سے خیبرپختونخوا میں اِتحادی جماعتوں جماعت اسلامی پاکستان‘ قومی وطن پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد کے ساتھ برسراقتدار ہوئی تو ’انتخابی وعدوں‘ کا خلاصہ یہ تھا کہ ’تبدیلی آ گئی ہے‘ لیکن کیا دل پر ہاتھ رکھ کر اُور پشاور کے بحرانی مسائل کی شدت دیکھ کر پشاور کو درپیش مشکلات ماضی کے سیاسی و غیرسیاسی اَدوار سے مختلف قرار دی جا سکتی ہیں؟
صوبائی دارالحکومت پشاور کی خوبصورتی کے لئے اَخذ کی گئی ’حکمت عملی (بیوٹیفیکیشن پروگرام)‘ کی جزئیات کا جائزہ لینے پر جن اَعدادوشمار سے واسطہ پڑتا ہے وہ اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ موجودہ دور حکومت میں جہاں ’خوبصورتی کے لئے مختص مالی وسائل سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جاسکا وہیں (دانستہ یا غیردانستہ طور پر) خوبصورتی ایک ہزار دوسو ستاون مربع کلومیٹر (چارسوپچاسی مربع میل) پر پھیلے پشاور کے چند خاص حصوں تک محدود رہی۔
المیہ یہ بھی رہا کہ ماضی کی طرح ’نیک نامی کے لئے فوری اور مصنوعی اقدامات پر اکتفا کیا گیا جیسا کہ جی ٹی روڈ کے مختلف حصوں میں بیش قیمت گملے اور پودے لگانے اور اکھاڑنے کی مشقیں ایک سال میں تین مرتبہ کرنا مالی وسائل کا ضیاع نہیں تو کیا ہے؟
جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر پشاور میں فضائی آلودگی بلند ترین سطح (اُس انتہاء) کو چھو رہی ہے‘ جس میں جانداروں کے لئے سانس لینا صحت کے لئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے اور اِس سلسلے میں ایک سے زیادہ خود حکومتی اِداروں کی مرتب کردہ رپورٹیں موجود (شاہد) ہیں‘ جن میں ماحولیاتی آلودگی کا ذکر کرتے ہوئے پشاور کے چند ایسے آبادی کے مراکز کی نشاندہی بھی کی گئی جہاں گردوغبار اور ٹریفک کی وجہ سے فضائی آلودگی ناقابل برداشت ہے۔ جی ٹی روڈ پر گلدار پودے لگانے کے لئے نجی اِدارے کو ’30 لاکھ روپے‘ کا ٹھیکہ دیا گیا لیکن پشاور میں داخل اور خارج ہونے کے مقامات پر یہ پودے اِس لئے دم توڑ گئے کیونکہ ہوا میں موجود کیمیائی مادوں کی شرح اور مسلسل بڑھتی ہوئی مقدار‘ گردوغبار پر مبنی فضائی کثافت اور تیزی سے تغیرپذیر موسمیاتی درجۂ حرارت کے اثرات کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ یاد رہے کہ پشاور کی خوبصورتی سے متعلق حکمت عملی کے لئے صوبائی حکومت نے ’1 ارب روپے‘ مختص کئے لیکن ’جون 2016ء‘ تک اِس مختص رقم میں سے قریب نصف یعنی 55 کروڑ ہی خرچ ہو پائے اور اِس خرچ ہوئی رقم کا بڑا حصہ بھی ’جی ٹی روڈ‘ ہی کے حصے میں آیا جہاں 1 کروڑ 80 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے ’جی روڈ کے ساتھ فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ کی تعمیر کی گئی!
مالی سال 2016-17ء کی تشکیل کے موقع پر بھی پشاور صوبائی حکومت کے ’پیش نظر‘ رہا اور 9 کروڑ روپے پشاور کی خوبصورتی میں اضافے کے لئے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ آئندہ مالی سال کے لئے بھی توقع ہے کہ 36 کروڑ روپے اِسی مد میں جاری کئے جائیں گے اور یوں ایک پشاور کے نام پر ’’1 ارب روپے‘‘ خرچ ہونے کا عمل مکمل ہو جائے گا‘ جن کا استفادہ صرف اور صرف جی ٹی روڈ کی لمبائی پر ہی خرچ ہوا‘ اور اگر یہ خطیر رقم جی ٹی روڈ کی چوڑائی پر بھی خرچ کی جاتی تو زیادہ پائیدار (اطمینان بخش) نتائج حاصل ہوتے۔ پشاور میں یومیہ ’بارہ سے پندرہ سو ٹن‘ گندگی کی مقدار پیدا ہوتی ہے جس کا ’ساٹھ سے پینسٹھ فیصد حصہ‘ ہی اکٹھا ہو پاتا ہے یعنی پشاور کے طول و عرض میں یومیہ تیس سے چالیس فیصد گندگی پھیل رہی ہے‘ جو تلف نہیں ہو رہی۔ گندگی کے یہ ڈھیر توانائی کے لئے پیداواری ایندھن بن سکتے ہیں لیکن اگر پشاور کے شب و روز‘ مسائل اور وسائل کے بارے سوچا جائے!
پائیدار ترقی ہو یا ظاہری خوبصورتی‘ شہری ترقی کے اِمکانات لامحدود رہتے ہیں۔ کیا پشاور ترجیح ہے؟ فیصلہ سازوں کے سامنے پشاور کے ’’شاندار ماضی کی جھلک‘‘ نہیں‘ جس کی وجہ سے اُنہیں نہ تو زوال پذیری کا اندازہ ہو رہا ہے اور نہ ہی فضائی آلودگی کی اُن وجوہات (اسباب) پر نظر ہے جو خود اُنہی کی غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں جیسا کہ پشاور کے مختلف حصوں میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ٹریفک کے دباؤ سے اُٹھنے والا گردوغبار اور دھویں کے بادل یہاں کے حسن کو مانند کر رہے ہیں۔
شہری ترقی کے ادارے کی جانب سے تخمینہ لگایا گیا ہے کہ شہری و دیہی علاقوں میں سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے مزید ’ڈیڑھ ارب روپے‘ درکار ہیں‘ جس کے لئے صوبائی حکومت مالی وسائل فراہم کرنے کے لئے رضامند بھی ہے! پہلے ایک ارب روپے اور اب مزید ڈیڑھ ارب روپے کسی بھی طرح معمولی رقم نہیں لیکن اگر ترجیحات کا تعین کرنے میں ’حکیمانہ غفلت‘ کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو اِس قدر مالی وسائل کا زیادہ بہتر مصرف یقیناًممکن تھا اور اب بھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہنگامہ خیزی کی بجائے ترقی کا عمل تحمل اور معنی خیز ہونا چاہئے۔ پشاور کے ہر رہنے والے تک پینے کے صاف پانی کی رسائی کا ہدف تاحال حاصل نہیں کیا جاسکا تو کیا یہ امر باعث تفکر و مذمت نہیں ہونا چاہئے؟ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی قسمت ہو یا پاکستان کا ستھرا ترین اُور غلاظت سے پاک ’مثالی شہر‘ قرار دینے کا ہدف‘ سچ تو یہ ہے کہ پشاور کے حقوق اَدا نہیں ہوئے۔ ترقی و خوبصورتی سے حاصل اہداف اگر پائیدار ثابت نہیں ہوئے تو ذمہ دار (قصوروار) کون ہیں اور ’کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں؟‘
تباہی یوں ٹھکانہ پائے گی‘ سوچا نہیں تھا!
پشاور کو نظر لگ جائے گی‘ سوچا نہیں تھا!
کہاں وہ پھول‘ وہ باغات‘ وہ آب و ہوائیں؟
گلی کوچوں سے بدبو آئے گی‘ سوچا نہیں تھا!
No comments:
Post a Comment