ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِی پولیسنگ!
ٹیکنالوجی (اِی گورننس) پر اِعتماد و اِنحصار کرنے والے ممالک نے ’ترقی کا سفر‘ بتدریج طے کیا کیونکہ اُن کے ہاں اِدارہ جاتی نظم و ضبط قائم کرنے میں مصلحتیں آڑے نہیں آئیں۔ بدعنوانی اور کام چوری کے امکانات بتدریج کم ہوتے چلے گئے اور بناء امتیاز و تعصب سرکاری وسائل سے ہر خاص و عام کو استفادہ کرنے کے مواقع میسر آ رہے ہیں لیکن صرف یہی رکاوٹیں ہمارے ہاں حائل نہیں بلکہ فیصلہ سازوں کی ٹیکنالوجی سے ناخواندگی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے جو ایک ایسی بڑی رکاوٹ (اسپیڈ بریکر) ہے‘ جس کی وجہ سے ’اِی گورننس‘ مکمل طور پر رائج نہیں ہو پارہی لیکن ایسی چند لائق تقلید مثالیں بھی موجود ہیں‘ جو پاکستان کے اپنے سافٹ وئر انجنیئرز کی صلاحیتوں اور سوچ بچار کا منہ بولتا شاہکار ہیں جیسا کہ پنجاب پولیس کا متعارف کردہ سافٹ وئر ’’ہوٹل آئی(Hotel Eye)‘‘ جس کی مدد سے چودہ ماہ کے دوران صوبے بھر سے قریب ڈھائی ہزار مشتبہ افراد و ملزمان اور مجرموں کا سراغ لگایا گیا‘ جن میں درجن بھر فورتھ شیڈولرز بھی شامل تھے اور اگر ’ہوٹل آئی‘ نہ ہوتا تو ایسے افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ممکن نہ ہوتی!
پنجاب حکومت نے شعبۂ تعلیم کے ساتھ انتظامی امور میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو متعارف کرایا تو ابتدأ میں اِس مہنگے نظام سے حاصل ہونے والے نتائج زیادہ متاثر کن نہیں تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اور ڈیٹابیس میں موجود کوائف کا حجم بڑھ رہا ہے‘ ویسے ویسے شناخت سے آگے کے مراحل تیزی سے طے ہو رہے ہیں یعنی ٹیکنالوجی پر مبنی نظام نے اپنا پھل دینا شروع کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ’ہوٹل آئی‘ کہ جسے ابتدائی طور پر صرف لاہور کی حد تک لاگو کیا گیا‘ کامیابی کے بعد اسے صوبے کے دیگر بڑے شہروں میں بھی متعارف کرایا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق ’ہوٹل آئی‘ کی مدد سے صوبے بھر سے چار لاکھ ستر ہزار سے زائد افراد کے کوائف کی جانچ پڑتال کی جا چکی ہے جن میں سے ایک ہزار چار سو سے زائد افراد پولیس کو مطلوب پائے گئے۔ درحقیقت پنجاب میں موجود ’کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم‘ کی بدولت جرائم اور ملزمان و مجرموں کے کوائف ایک مرکزی ڈیٹابیس میں جمع کئے جاتے ہیں‘ جہاں سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اِن سے حسب ضرورت استفادہ کرتے ہیں۔ پولیس حکام گرفتار ملزمان کا ریکارڈ بشمول فنگرپرنٹس‘ تصاویر‘ شناختی کارڈ نمبرز‘ ایڈریسز‘ موبائل فون نمبرز اور فیملی ہسٹری سمیت تمام ڈیٹا ’کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم‘ میں اَپ ڈیٹ کرتے ہیں لیکن ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ رعایت کرتے ہوئے اُن کے ریکارڈ ڈیٹابیس کا حصہ (اَپ ڈیٹ) نہیں کئے گئے۔
صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر صوبے میں ’گلوبٹ‘ پائے جاتے ہیں جن کا تعارف یہ ہے کہ وہ کسی انتخابی حلقے یا علاقے میں سیاسی جماعتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اُور کا سیاسی اثرورسوخ اور تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے بھی نہیں ہوتے جنہیں پولیس حکام نظرانداز نہیں کرسکتے۔ خیبرپختونخوا میں پولیس کا نظام غیرسیاسی کرنے کا دعویٰ اُس تک مکمل نہیں ہوگا جب تک ٹیکنالوجی کے ذریعے پولیس کی کارکردگی کو شفاف اور بناء امتیاز مؤثرپولیسنگ لاگو نہیں کی جاتی۔ چونکہ ٹیکنالوجی کے احساسات و جذبات‘ وابستگی یا پسند و ناپسند نہیں ہوتی اور اِس سے وہی کچھ (نتائج) حاصل ہوتے ہیں‘ جن کی آرزو (منصوبہ بندی) کی گئی ہوتی ہے۔ اِس لئے ٹیکنالوجی ہی واحد آسرا ہے کہ اِس کی مدد سے جرائم اور سیاست کے درمیان تعلق کا راز فاش کیا جا سکے اور اس کا مثبت اثرات شفاف عام انتخابات کی صورت بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی سطح پر ’ہوٹل آئی‘ طرز کا ضمنی اُور بنیادی ’کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم‘ متعارف کرانے کی اَشد ضرورت ہے جس سے نہ صرف تھانہ جات کا ریکارڈ مرحلہ وار انداز میں ڈیجیٹائز کیا جا سکتا ہے بلکہ ’ڈیجیٹل ریکارڈ کیپنگ‘ سے مستقبل میں جرائم کی شرح کم کرنے میں مدد بھی مل سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں صوبہ پنجاب سے زیادہ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف شفاف طرزحکمرانی اور ادارہ جاتی فعالیت کے اہداف حاصل ہوں گے بلکہ قبائلی علاقہ جات کے ضم ہونے یعنی چالیس سے پچاس لاکھ افراد کے صوبے میں شامل ہونے کے عمل کو شروع دن سے اگر ڈیجیٹل خطوط پر استوار کیا جائے تو اِس سے قبائلی و بندوبستی افراد کے آپسی تعلق میں بھی بہتری آئے گی اور مستقبل میں ضرورت پڑنے پر ہر کس و ناکس کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں پر باآسانی نظر رکھی جا سکے گی۔ خیبرپختونخوا میں پولیس کے وسائل پر پہلے ہی بوجھ ہے‘ جسے ٹیکنالوجی جیسے سلیقے کی مدد سے بڑی حد تک کم بھی کیا جا سکتا ہے اور اِس سے اُن جرائم پیشہ عناصر کی تلاش یا جرائم کا شکار ہونے والوں کی مدد بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے‘ جنہیں تھانہ کچہری سے رجوع کرنے میں خوف آتا ہے لیکن ’آن لائن‘ وسائل کی مدد سے وہ گھر بیٹھے پولیس حکام سے اپنے مسائل کے بارے تبادلہ خیال کر سکیں گے۔
خیبرپختونخوا میں تبدیلی بذریعہ ٹیکنالوجی رائج کرنے سے مستقبل میں ترقی کی سمت کا تعین ممکن ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ (کڑوا گھونٹ) تو ہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ اگر پاکستان کی کل آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ’کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم‘ سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو خیبرپختونخوا کیوں نہیں؟
No comments:
Post a Comment