Saturday, March 4, 2017

Mar2017: Gender vs Sex. Education vs Awareness!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صنفی امتیاز و مساوات!

سانس لینا ہی کافی نہیں بلکہ زندگی کی علامت ’’شعور‘‘ قول و فعل کے لئے تحریک ہونی چاہئے۔ کیا ہمیں اپنے آپ اور گردوپیش میں اُن امور کے بارے میں سوچنے کی فرصت کبھی میسر آئی‘ جن کا تعلق خالصتاً ہماری اپنی ذات سے ہے؟ جیسا کہ ہمیں اِس بات کا احساس (علم) کب ہوا‘ یا یہ ’’راز‘‘ کب آشکار ہوا کہ میرا تعلق مرد یا عورت میں سے کس صنف سے ہے یا کس صنفی تعارفی اصطلاح کا اطلاق مجھ پر زیادہ ہوتا ہے؟ جس معاشرے میں خاندانی منصوبہ بندی اور انسانی صحت سے جڑے مسائل کو ’جنسی‘ بنا کر پیش کرنے کی وجہ سے بات کرنا بھی معیوب سمجھی جاتی ہو‘ وہاں دراصل خرابیاں‘ تجربات کے نتائج کی صورت ظاہر ہوتے ہیں جو بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل کو بھگتنا پڑ رہے ہیں! افسوس کہ ہم جس معاشرے کے پروردہ ہیں‘ اُس میں جنس‘ بلوغت اور اس سے متعلق آگاہی دینے کا رواج نہیں۔ 

تعلیمی اداروں میں بچوں اور نوجوان نسل کو ان کے جسم میں رونما ہونے والی فطری تبدیلیوں کے بارے میں بتدریج درست معلومات دینا تو کجا‘ ہم اپنے گھروں اور خاندان میں بھی ان بنیادی موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں اور اِس بات کا احساس مجھے بھی کبھی نہ ہوتا اگر امریکہ کے امدادی ادارے (یوایس ایڈ) کی معاونت سے منعقدہ ’صنفی مساوات پروگرام‘ کے تحت بیس سے چوبیس فروری اُس ورکشاپ میں شرکت کا موقع نہ ملتا۔ جس کے آغاز ہی میں ڈاکٹر ثمرا جاوید نے ’صنف و جنس‘ کے درمیان فرق کے بارے سوچنے اور اپنے آپ سے بات کرنے کی دعوت دی۔ کراچی کے جامعہ ’’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن‘‘ سے وابستہ ڈاکٹر سمرا معروف ماہر تعلیم ہیں جنہوں نے ڈاکٹوریٹ کی سند ’تدریس کے شعبے میں روایتی طور طریقوں‘ کی بجائے ایک ایسا انوکھا تصور پیش کرکے حاصل کی ہے جو متبادل اور تجرباتی درسی نظام پر مبنی ہے اور اِس میں معلم کی بجائے تدریسی عمل طالب علم کی اپنی جستجو اور تحقیق پر منحصر ہوتا ہے۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کیا ہم اپنے وجود اور اِس کے تقاضوں پر بھی (کماحقہ) غور کرتے ہیں؟ 
جب جسم کے اندر مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘ تو اس حوالے سے تجسس پیدا ہونا فطری (رد) عمل ہے۔ ایسے میں عمومی رویہ‘ روایتی اساتذہ اور نصاب‘ بچوں کے اِس تجسس کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ ایسے میں زیادہ تر ہر عمر کے بچے کیبل ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ کے ذریعے خاص تفریحی مواد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جس سے ذہنی خلفشار اور جذباتی ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اس حوالے سے جب ورکشاپ کے شرکاء نے اپنے اپنے تجربات کو فہرست کیا تو دلچسپ انکشافات سامنے آئے جو ایک چھوٹے پیمانے پر کی گئی مشق تھی لیکن اگر یہی مشق ’بڑے پیمانے‘ پر کی جائے تو اِس کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ 

خیبرپختونخوا اسمبلی نے رواں ہفتے موبائل فونز کے ’نائٹ پیکجز‘ کے خلاف قرارداد منظور کی لیکن اگر نوجوانوں کے شعور کی سطح بلند کی جاتی اور صنف و جنس سے متعلق اُن کے تصورات واضح ہوتے تو ایسی کسی قرارداد کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ تبدیلی قراردادوں سے نہیں بلکہ قانون سازوں کے رہنما کردار سے آتی ہے۔ برق رفتار مواصلاتی رابطوں (انٹرنیٹ اور موبائل) کے دور میں جب ہمارے نوجوان ایک انگلی کی جنبش پر دنیا سے جڑے ہیں اور دنیا اُن سے جڑی ہوئی ہے جس سے انہیں ہر قسم کے گرے اور بلیو لٹریچر تک بلا امتیاز مفت رسائی حاصل ہے‘ تو ہمیں اپنی بحث کا موضوع و معیار کچھ بلند کرنا ہوگا کہ آیا ہر عمر کے بچوں کو بلوغت اور جنس سے متعلق تعلیم دی جائے یا نہیں یا پھر انہیں محض زمانے اُور ٹیکنالوجی‘ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ بحث کا ایک نکتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صنف و جنس کے بارے تعلیم (معلومات) بچوں اور نوجوانوں کو کس عمر میں‘ کس زبان میں‘ کہاں اور کیسے دی جائے؟ ایسا کرتے ہوئے کن اخلاقی‘ لغوی اور تہذیبی پیچیدگیوں کا خیال رکھا جائے؟ لیکن اس بات پر کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ جنسی صحت اور بلوغت سے متعلق بروقت اور مکمل آگاہی بچوں اور نوجوانوں کو باشعور اور محتاط بناتی ہے اور بے راہ روی سے دور رکھنے کا وسیلہ ہو سکتی ہے۔ 

خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی جہیز کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے قانون سازی کرنے جا رہی ہے لیکن ’اخلاقی اقدار‘ کو اتنا مضبوط اور واضح نہیں کیا جاتا کہ بناء قانون سازی ہی جہیز کی لعنت کو معیوب سمجھا جانے لگے اور پھر قوانین تو ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہے جس پر عمل درآمد حکومتوں کے لئے ممکن نہیں ہوتا!؟ 

ذرا سوچئے کہ جب ہم بارہ سے پندرہ سال کے بچوں اور بچیوں کی شادی کروا کر انہیں براہِ راست عملی زندگی میں دھکیل رہے ہوتے ہیں تو کیا بچوں کو علم ہوتا ہے کہ اُن کی صنفی و جنسی زندگی سے متعلقہ مسائل اور ضروریات کیا (کچھ) ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بناء رہنمائی کم عمری کے رشتے نابالغ بچوں کی شادی کروانے سے بھی زیادہ بڑی غلطی ہو؟ ستم تو یہ بھی ہے کہ شادی کے موقع پر لاکھوں روپے محض نمود و نمائش اور دکھاوے پر خرچ کئے جاتے ہیں لیکن اس تمام تر اہتمام میں ازدواجی رشتے میں بندھنے والے جوڑے کی آگاہی اور شعوری تعلیم ناقص مشوروں کی حد تک ہی محدود رہتی ہے پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر جوڑے بیجا توقعات کے باعث جذباتی ناآسودگی اور خلفشار کا شکار رہتے ہیں اور ایک دیرپا رشتہ استوار نہیں کر پاتے‘ جو ہمارے ہاں خاندانی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ جن لوگوں کو صنفی تعلیم و آگہی میں حیا باختگی کے پہلو نظر آتے ہیں‘ کیا وہ انسان نہیں ہیں یا اُن کا ایسے مسائل سے خود کبھی واسطہ نہیں پڑا؟ 

آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو منشیات اور سگریٹ کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے مختلف جان لیوا بیماریوں کے نام گنواتے ہیں تاکہ وہ ان کے استعمال سے باز رہیں مگر جہاں صنفی تضادات یا جنسی مسائل کی بات ہوتی ہے تو یکایک سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے! اگر تمباکو نوشی کے جملہ نقصانات اُور اُن سے لاحق انسانی صحت کو خطرات کا بیان ’سموکنگ (smoking)‘ کی ترغیب نہیں‘ تو پھر اِسی کلیے کا اطلاق صنفی معلومات یا متعلقہ مسائل کی تعلیم پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟

No comments:

Post a Comment