ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خواندگی: ایک تحریک‘ ایک جنون!؟
کیا اِس حقیقت کی سچائی سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ ’نصابی تعلیم‘ سے ایک قدم آگے نصاب میں پوشیدہ اسباق کے ذریعے نئی نسل کی شخصیت اور کردار سازی پر توجہ اور مالی وسائل مرکوز کئے جائیں؟ تعلیم کی اہمیت سمجھتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ علاقائی زبانوں میں تحریر کردہ کتب نصاب کا حصہ بنائی جائیں گی تاکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں رٹے رٹاے جملوں کی بجائے تعلیم کے حقیقی مقصد و ہدف کا حصول ممکن ہو سکے۔ پہلے مرحلے میں رواں برس ’نئے تعلیمی سال‘ کے آغاز (ماہ اپریل) سے سرکاری تعلیمی اداروں میں سرائیکی‘ ہندکو اور خوار (تین علاقائی و مادری) زبانیں متعارف کرائی جائیں گی۔ علاؤہ ازیں تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت اِس بات کے لئے ’شاباشی کی مستحق‘ ہے کہ اِس نے پہلی سے پانچویں جماعت کے لئے انگریزی‘ حساب اور سائنس کے مضامین کی درسی کتب پر نظرثانی کرتے ہوئے انہیں اُس کم سے کم ’قومی معیار‘ کے مطابق ڈھال دیا ہے جو سال دوہزار سولہ میں مقرر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مختلف صوبوں میں حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی کارکردگی اور نصاب سے استفادے کو ایک کسوٹی پر پرکھا جا سکے۔ ’معیار تعلیم‘ کی بلندی ایک ایسا ہدف ہے جس کے بارے مسلسل سوچ بچار کا عمل صرف متعلقہ وزارت اور اِس کام کے لئے مراعات و تنخواہیں پانے والوں ہی کی حد تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ معاشرے کے ہر ذی شعور کا فرض بنتا ہے کہ وہ تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لئے اپنا فکروعمل مرکوز (وقف پاکستان) کرے!
خیبرپختونخوا میں سرکاری تعلیمی ادارے ہم عصر نجی سکولوں سے کوسوں نہیں بلکہ ہزاروں میل کی مسافت پر ہیں! نجی سکولوں میں بچوں کو ذہنی و جسمانی سرگرمیوں (ایکٹویٹی بیسڈ لرننگ) کے ذریعے اسباق کے نتائج حتیٰ کہ امتحان دینے کے طور طریقوں کی تعلیم (رہنمائی) بھی دی جاتی ہے لیکن کسی سرکاری سکول میں ’امتحان دینے کا طریقہ‘ نہیں سکھایا جاتا۔ طالب علموں کی اکثریت امتحانی پرچہ جات میں سوالات سمجھنے اور سب سے بڑھ کر ’ٹائم منیجمنٹ‘ سے قاصر رہتی ہے‘ جس کا منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ اکثر سوالات کے جوابات معلوم ہونے کے باوجود بھی خاطرخواہ نمبر حاصل نہیں کرتے اور نجی سکول کی نمائندگی کرنے والے بورڈ امتحانات میں نمایاں پوزیشنیں لوٹ لے جاتے ہیں!
پاکستان میں ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ سیاست سے عملی زندگی تک اگر قابل تقلید ہستیاں دکھائی نہیں دیتیں تو دوسری طرف ہمارے طالب علموں کے لئے بھی اُن کے اساتذہ ’’رول ماڈل‘‘ نہیں رہے تو کیا یہ المیہ کم ہے! آج کی تاریخ میں شعبۂ تعلیم میں کامیابی کے لئے جس قدر وقت اور وسائل سے ’سرمایہ کاری‘ نجی اداروں نے کر رکھی ہے حکومت کے ہاں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی وہ کم سے کم معیار حاصل نہیں ہو پا رہا کیونکہ اصل مسئلہ صرف حاضری پر مبنی نظم و ضبط ہی نہیں بلکہ ہر دقیقے کا استعمال ہے۔ علاقائی یا مادری زبانوں میں درس و تدریس کے عمل سے بچوں میں اسباق کی سمجھ بوجھ بڑھے گی۔ وہ اپنے تصورات کو زیادہ بہتر انداز میں بول سکیں گے لیکن اگر مادری زبانوں پر اِنحصار کا سلسلہ ابتدائی جماعتوں سے آگے نہ بڑھ سکا تو اِس کا منفی اثر یہ نکلے گا کہ بچوں کا جو بھی قیمتی وقت ابتدائی جماعتوں میں مادری زبانوں کے ساتھ ’میل جول‘ میں خرچ ہوگا‘ اُس کا استعمال کرتے ہوئے نجی ادارے آگے نکل جائیں گے جن کے زیرتعلیم طلباء و طالبات اعلیٰ درجات میں اُس وقت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے جبکہ اِس کی اشد ضرورت ہوگی!
اعلیٰ و ادنیٰ یا ثانوی و بنیادی سرکاری تعلیمی اِداروں کو ’’نصاب کی قید‘‘ سے معنوی طور پر آزاد کرنا ہوگا تاکہ طلباء و طالبات کی شخصیت و کردار سازی کی جانب راغب ہوا جا سکے۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں اُبھارنے کے لئے خیبرپختونخوا کے سرکاری سکولوں میں ڈرائنگ اور آرٹس (فنون لطیفہ) کے مضامین کا اجرأ ابتدائی (پرائمری) کلاسیز سے کرنا خوش آئند تو ہے لیکن حسب حال کافی نہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ‘ کی تکنیکی مشاورت و عمل سے سرکاری سکولوں میں ہفتم سے نہم جماعت (درجات) تک ’کمپیوٹر لیبارٹریز‘ پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ نجی شعبے کے مقابلے واجبی ہیں کیونکہ وہاں تو ہر کلاس روم کو ’کمپیوٹر لیب‘ بنایا جا رہا ہے جہاں ملٹی میڈیا پراجیکٹرز نصب ہو رہے ہیں۔ جہاں سمارٹ بورڈ اور ٹیبلٹس کے علاؤہ ویڈیوز کے ذریعے طلباء و طالبات کے اندر مضامین کے بارے تحقیق اور جستجو پیدا کی جارہی ہے۔ عجب ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت سرکاری سکولوں میں کمپیوٹر فراہم کرتے ہوئے وہمی سہمی دکھائی دے رہی ہے اور یہ کام مرحلہ وار کرنے کے لئے چودہ اضلاع کا انتخاب کیا گیا ہے جن کے ساٹھ سکولوں کی قسمت جاگے گی!
مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا کے طول و عرض کے تمام سرکاری سکولوں میں ’کمپیوٹرلیبز‘ کی تعداد صرف ’ایک سو ستر‘ تھی‘ جنہیں (گذشتہ تین برس کے دوران) بڑھا کر ’ایک ہزار تین سو چالیس‘ کر دیا گیا ہے اور رواں مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) کے دوران مزید ایسی پانچ سو کمپیوٹر لیبز قائم کی جائیں گی! منتخب سیاسی حکمران اور افسرشاہی پر مشتمل فیصلہ ساز بخوبی جانتے ہیں کہ کمپیوٹرز کے بغیر تعلیم کا عمل کسی بھی صورت نہ تو مکمل قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اِس سے اُمیدیں وابستہ کرنا دانشمندی ہوگی کیونکہ مستقبل کی ضروریات کے ساتھ کچھ عملی تقاضے بھی جڑے ہوئے ہیں! بالخصوص یہ تناظر ذہن نشین (پیش نظر) رہنا چاہئے کہ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک)‘ سے وہی صوبے یا آبادی کے گروہ زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے جو اپنے ہاں نظام تعلیم اور فنی تربیت کے مواقعوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں لیکن افسوس کہ اِس بارے میں نہ تو زیادہ غوروخوض ہو رہا ہے اور نہ ہی یہ موضوع اُن حکومتی ترجیحات کا حصہ ہے جس میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین اور بالخصوص نجی اداروں کے ارادوں اور حکمت عملی سے راہیں متعین کی جائیں۔
زبانی دعوے‘ مسلط فیصلوں کی کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتے اور نہ ہی غلط فیصلوں (بشمول غلط فہمیوں)کو مزید (بے دریغ) مالی وسائل سے درست کرنا ممکن ہو سکے گا۔ کامیابی درست وقت پر درست فیصلے کرنے سے حاصل ہوتی ہے جبکہ تیاری و آمادگی پہلے سے موجود ہو۔ شعبۂ تعلیم میں مقبول عام فیصلے کرنے کی بجائے ’’حقیقی تبدیلی‘‘ کا حصول ہدف ہونا چاہئے‘ تعلیم کے وہ شعبے بطور خاص توجہ کے مستحق ہیں‘ جن کی روشنی میں تعلیم کے درپردہ مقاصد (خواندگی کا جنون) ’’شعور کے تابع‘‘ نظر آئے!
No comments:
Post a Comment