ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مستعد جواب!
آپریشن ’ردّالفساد‘ کے آغاز سے ایک روز قبل ’اکیس فروری‘ کی صبح ’تحصیل تنگی‘ کی عدالتوں پر تین خودکش حملہ آوروں کو اپنے ٹارگٹ پر جانے سے پہلے ہی انجام تک پہنچا دیا گیا جو نہ صرف خیبرپختونخوا پولیس بلکہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک ایسا انوکھا واقعہ ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی مستعدی نے بڑے پیمانے پر ناقابل تلافی جانی نقصانات ہونے سے بچائے اور یہی وجہ تھی کہ خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ نے ڈی آئی جی مردان ریجن اعجاز احمد خان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا اور موقع پر تعینات اہلکاروں کو بطور حوصلہ افزائی ’اعزازت‘ سے بھی نوازہ۔ تنگی کچہری حملے کے بارے خفیہ اطلاعات پہلے ہی سے موجود تھیں اور ایسی اطلاعات عموماً موجود ہوتی ہیں جنہیں خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ مذکورہ مثال اِس لئے انوکھی ہے کیونکہ ڈی آئی جی مردان ریجن نے ذمہ داری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خفیہ اطلاعات کو نظرانداز نہیں کیا۔ اگر انتظامی عہدوں پر فائز دیگر اہلکار بھی اِسی قسم کی حساسیت کا مظاہرہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بہت سی قیمتی جانیں اور املاک کے نقصانات کم کئے جا سکیں۔ جس کے لئے پہلے ہی سے تیاری مکمل تھی۔ تنگ گلی سے نکلتے ہی حملہ آوروں نے گیٹ پر موجود پولیس اہلکاروں پر خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی اور ہینڈ گرینڈ پھینکے‘ اِس اچانک حملے سے پولیس کے چار جوان زخمی ہوئے لیکن حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو حملہ آوروں کو داخل ہونے سے قبل ہی ہلاک کردیا جبکہ تیسرے نے خود کو اُڑا دیا۔ یاد رہے کہ اِس حملے کے وقت مذکورہ چاردیواری کے اندر جج صاحبان اور وکلاء سمیت سینکڑوں افراد موجود تھے!
تنگی تحصیل حملے میں اہم تنصیب تو محفوظ رہی لیکن سڑک سے گزرنے والے پانچ افراد‘ زد میں آ کر شہید جبکہ دس زخمی ہوئے‘ جن میں چار پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ پولیس کی اِس بروقت کاروائی پر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پاک فوج کے سربراہ نے ’’شاباش‘‘ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پولیس اہلکار ذہنی طور پر حاضر نہ ہوتے تو زیادہ بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا۔ خیبرپختونخوا پولیس کی قربانیاں ڈھکی چھپی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں سرخرو اُور کامران پولیس کی کارکردگی کا روشن پہلو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کو غیرسیاسی کرنے کے ثمرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اگست دوہزار سولہ سے ’ڈی آئی جی مردان ریجن‘ اعجاز اَحمد خان قبل ازیں پشاور پولیس کے سربراہ (سی سی پی اُو) بھی تعینات رہے اور اِس عرصے کے دوران بھی اُن کی خدمات نمایاں رہیں بالخصوص انسداد پولیو کے حوالے سے انتظامات کی تعریف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی کی اور اِسی کارکردگی کی بنیاد پر وہ پشاور جیسے مرکزی اور اہم شہر کے پولیس سربراہ رہے۔
تنگی حملے کو ناکام بنانے میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی لائق مطالعہ اور حاصل مطالعہ ہے۔ ماضی کے مقابلے اگر خیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی کا معیار بلند ہوا ہے تو اِس بہتری کی بڑی وجہ ’پولیس کا غیرسیاسی‘ ہونا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے لئے خفیہ معلومات کی اہمیت سے انکار نہیں کیونکہ ایک مرتبہ سفر اختیار کرنے والے خودکش فدائیوں کو روکنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
مغربی ممالک کی مثالیں تو اپنی جگہ عرب ممالک میں بھی خفیہ معلومات ہی کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کاروائیاں کرتے ہیں۔ اُمید ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی خفیہ اِطلاعات جمع کرنے کے ’نیٹ ورک‘ کو اِسی طرح مضبوط اور قابل بھروسہ سمجھا جائے گا۔ دہشت گردوں سے زیادہ اُن کے سہولت کار اور انتہاء پسندی کو فروغ دینے والے عناصر پر نظر رکھنا ضروری ہے جو نہ صرف افرادی قوت اور مالی وسائل فراہم کرتے ہیں بلکہ اہم اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے منصوبہ بندی کا حصہ بھی ہوتے ہیں اور اگر مقامی افراد کی رہنمائی و تعاون شامل نہ ہو تو افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں اس قدر سہولت نہ رہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ منظم جرائم اور بھتہ خوری کے تانے بانے بھی انہی گروہوں سے جاملتے ہیں‘ جن کے کالعدم تنظیموں سے روابط ڈھکی چھپی بات نہیں۔ خوش آئند ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی تعلق اور مربوط کارکردگی کی وجہ سے اب تک ’مردان ریجن‘ میں کئی اہم کاروائیاں مکمل کی گئیں ہیں جن میں کئی انتہائی مطلوب دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاک فوج‘ نیم فوجی دستوں اور پولیس کی شبانہ روز محنت سے ایک ایسے خواب کی تعبیر ممکن ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس میں پاکستان خوف و دہشت سے نجات حاصل کر لے گا۔ بس ضرورت انتھک محنت اور فرض شناس اہلکاروں کی ہے جو ملک و قوم کی خدمت سے جذبے سے سرشار ہوں۔
No comments:
Post a Comment