ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کرکٹ دیوانگی!
پنجاب حکومت نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی ہے کہ ’’پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 2017ء (سیزن ٹو)‘‘ کرکٹ مقابلوں کا آخری میچ (فائنل) قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے امن و امان کے اجلاس میں کابینہ کمیٹی اور سیکیورٹی اداروں کی مبینہ مشاورت سے کئے گئے اِس فیصلے پر سیاسی رہنماؤں سمیت سیکورٹی ماہرین تنقید کر رہے ہیں جن کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ’پی ایس ایل فائنل‘ کے لئے جس فول پروف سیکیورٹی کو سو فیصد یقینی بنانے کا حکم دیا ہے لیکن یہ ’غیرضروری رسک‘ مہنگا بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ سیکورٹی حالات خود اُن کے یا ملک کے سیکورٹی اداروں کے مکمل بس میں نہیں۔ یاد رہے کہ ’پی ایس ایل‘ مقابلوں کا آغاز 2016ء سے ہوا تھا‘ جس سے قبل ’دسمبر دوہزارپندرہ‘ میں 985 کروڑ روپے کے عوض کرکٹ کی پانچ ٹیموں (اسلام آباد یونائٹیڈ‘ کراچی کنگز‘ لاہور قلندرز‘ پشاور زلمی اُور کوئٹہ گلیڈیئٹرز نامی ٹیموں) کے کمرشل حقوق نجی اِداروں کو ’دس برس‘ کے لئے فروخت کئے گئے تھے اور اب تک ہوئے ’پی ایس ایل‘ کے ’سیزن ون (پہلے دور)‘ اور ’جاری سیزن ٹو (دوسرے دور) کے تمام مقابلے متحدہ عرب امارات کے مختلف شہروں میں منعقد ہوئے ہیں۔
کیا پاکستان کوئی بڑی اور دانستہ غلطی کرنے جا رہا ہے؟
اگر ’پانچ مارچ‘ کے روز لاہور میں ’فول پروف‘ سیکورٹی فراہم کی جا سکتی ہے تو پھر ایسا پورے سال کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ اِسی تناظر میں سوال یہ بھی ہے کہ اگر قذافی سٹیڈیم میں داخل ہونے والے ہر تماشائی کے کوائف کی بذریعہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) کھڑے کھڑے ’فوری تصدیق‘ (آن لائن نادرا ریکارڈ) سے ممکن ہے تو پھر ایسا ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کے ذریعے شفاف عام انتخابات کے انعقاد کے لئے ہر پولنگ اسٹیشن کی اکائی پر کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ کرکٹ کے علاؤہ الیکٹرانک شناختی طریقۂ کار (بائیومیٹرک تصدیق) قابل عمل کیوں نہیں؟ علاؤہ ازیں مجموعی طور پر چالیس اُوورز (کم سے کم 240 گیند پھینکنے) کے ایک ایسے کرکٹ مقابلے کی حفاظت پر ’اربوں روپے‘ خرچ کرنا کہاں کی منطق ہے‘ جبکہ خطرات بھی ہیں اور کیا پانچ مارچ کو ایک میچ کے بعد دنیا پاکستان کو محفوظ سمجھنے لگے گی اور پاکستان میں عالمی (انٹرنیشنل) کرکٹ مقابلوں کے انعقاد کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے گا؟ پاکستان میں کرکٹ کا آخری عالمی مقابلہ ’مارچ دوہزارنو‘ میں لاہور ہی کے قذافی سٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا‘ جس میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے (باوجود کوشش بھی) کوئی انٹرنیشنل کرکٹ میچ‘ پاکستان کی سرزمین پر نہیں کھیلا جا سکا۔
دہشت گردی کے پے درپے واقعات اور بائیس فروری سے ’ردالفساد‘ نامی انسداد دہشت گردی کی نئی ملک گیر فوجی مہم کے آغاز کو دیکھتے ہوئے ’پی ایس ایل‘ فائنل لاہور میں کروانے کا خیال محتاط سوچ رکھنے لوگوں کے نزدیک ’بے مقصد‘ ہے اور شاید اُن کے پاس ایسا سوچنے کے لئے ٹھوس وجوہات بھی ہیں جیسا کہ ایک کرکٹ میچ پر تمام تر توانائیاں (وسائل) کیوں صرف کئے جائیں جبکہ ملک کا ہر کونہ لہو لہو ہے! کچھ کے خیال میں یہ درست ہے کہ امن براستہ کرکٹ جیسے جذبات کی روشنی میں حکومتی فیصلے کا کئی طرح سے دفاع کیا جا سکتا ہے مگر فائنل میچ لاہور میں کروانے کا سوال جلتے سلگتے شہر میں بانسری بجانے سے کہیں زیادہ اور وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مناسب اور مؤثر ردِعمل کیا ہے‘ کیوں ہے اُور آخر کیا وہ یہ ہے؟
صاحبانِ اقتدار کے نزدیک فائنل کا کامیاب انعقاد عسکریت پسندوں کو منہ توڑ جواب ہوگا۔ عسکریت پسند چاہتے ہیں کہ خوف و ہراس کی فضاء پھیلا کر پاکستان کو مفلوج کر دیا جائے۔ کئی لوگوں کی رائے میں (بشمول صاحبانِ اقتدار)‘ پی ایس ایل کا مقابلہ لاہور میں منعقد نہ کروایا گیا تو عسکریت پسند اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسری جانب بحفاظت منعقد کیا گیا مقابلہ مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرنے کے برابر ہوگا! پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ریاستی سیکیورٹی انتظامات ’’فول پروف (مؤثر یا حکومت کے کنٹرول میں)‘‘ رہیں گے۔ توقع ہے کہ قذافی سٹیڈیم کی گنجائش کے مطابق مذکورہ کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے ’بیس ہزار‘ سے زائد تماشائیوں کی اکثریت پیدل آئے گی اُور اِس دوران تمام دن اسٹیڈیم کے اطراف غیرمعمولی رش رہے گا۔ کیا میچ دیکھنے کے لئے آنے والے ہر شخص کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے گی؟ جذبات اپنی جگہ‘ کرکٹ سے لگاؤ اور خلوص اپنی جگہ لیکن ہر کھلاڑی اور تماشائی کی حفاظت کا ذمہ لینے والوں کا ماضی (طرز حکمرانی) دیکھا جائے تو اتنے بڑے تو کیا چھوٹے پیمانے پر بھی سیکورٹی فراہم کرنا اُن کے بس کی بات نہیں لگتی اور تنقید کی وجہ بھی یہی ہے!
خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے لیکن نظر نہیں آ رہا۔ ’’قلعہ بند‘‘ میچ کرانے کی صورت میں بھی صرف کھلاڑی ہی محفوظ ہوں گے تماشائی نہیں! پی ایس ایل کا حصہ کئی غیرملکی کھلاڑی پہلے ہی لاہور آنے سے معذرت کر چکے ہیں اور انہیں اِس بات کے لئے قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ کیونکہ ہر ’ذی شعور‘ کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونے سے پاکستان میں کرکٹ کو کوئی خاص فائدہ تو نہیں البتہ نقصان کا اندیشہ نسبتاً زیادہ بڑا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بقول ’’اگر فائنل مقابلے کے موقع پر دہشت گردی ہوئی تو پاکستان میں عالمی کرکٹ مزید دس برس پیچھے چلی جائے گی‘‘ اُنہوں نے ’پی ایس ایل فائنل‘ لاہور میں منعقد کرانے کو ’دیوانگی بھی قرار دیا ہے! دانشمندی یہ ہے کہ غیرضروری طور پر خطرہ مول لینے سے گریز اور خطرہ برداشت کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے؟
جذبات (کمرشل ازم) سے مغلوب عام آدمی (ہم عوام) کی جانیں کیا کرکٹ کے کھیل سے زیادہ قیمتی ہیں؟ پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں کامیاب انعقاد کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہم خوشی کے اِس احساس کے واقعی متحمل ہو سکتے ہیں اور کیا یہ پائیدار بھی ثابت ہوگا؟ ایک دن کے سیکیورٹی دکھاوے یا عزم و جرأت کے مصنوعی اظہار سے آگے بڑھ کر ’پاکستان‘ اور ’پاکستانیوں‘ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے! حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مشاغل کو مشاغل اُور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں۔
عسکریت پسندی‘ انتہاء پسندی اُور دہشت گردی کے وجود سے انکار یا اُسے چیلنج کرتے ہوئے پاکستان پر وار کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہ کرنے والے دشمن کو کسی بھی صورت کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔ جناب مرزا غالبؔ سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ’’کر رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!‘‘
No comments:
Post a Comment