Wednesday, September 29, 2021

Abbottabad: Examples of bad governance!

 ژرف ِ نگاہ .... شبیرحسین اِمام

.... چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی!

ایبٹ آباد کی ضلعی انتظامیہ نے تجاوزات کے خلاف جاری مہم کو معطل کرتے ہوئے تاجروں کو 3 دن کی مہلت دی ہے۔ ستائیس ستمبر (دوہزاراکیس) کے روز دی جانے والی اِس مہلت کا پس پردہ محرک ”سیاسی دباؤ“ ہے اُور افسوس کہ یہ حربہ اِس مرتبہ بھی ”کارگر“ ثابت ہوا ہے۔ تاجروں‘ دکانداروں‘ ہتھ ریڑھی بانوں اُور تہہ بازاری کرنے والوں کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ .... ”اُنہیں پیشگی اطلاع دیئے بغیر انسداد تجاوزات مہم شروع کی گئی۔“ تو کیا تاجروں نے تجاوزات قائم کرنے سے 3 دن پہلے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کیا تھا اُور کیا تجاوزات قائم کرنے والوں نے اُن تمام شہری قواعد و قوانین کا اِحترام کیا‘ جن کا حوالہ دے کر رعایت حاصل کی گئی ہے؟ تعجب خیز ہے کہ ضلعی اِنتظامیہ نے قریب ایک ماہ سے جاری تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران ضبط کیا جانے والا سازوسامان بھی تاجروں کو واپس کر دیا ہے اُور ساتھ ہی اُن سے یہ اُمید بھی ہے کہ وہ ازخود 3 دن کے اندر باقی ماندہ تجاوزات ختم کر دیں گے۔ خودفریبی کی اِنتہا ہے کہ جب تاجروں کو تجاوزات کا باعث سازوسامان بھی واپس کر دیا گیا ہے تو اِس بات کا امکان ہی کیا رہ گیا ہے کہ اُن کا ضمیر جاگ اُٹھے گا اُور وہ اپنی مدد آپ کے تحت تجاوزات ختم کر دیں گے جبکہ واپس کیا گیا سازوسامان اپنے گھروں کے ڈرائینگ رومز میں سجائیں گے یا ایبٹ آباد میں ’تجاوزات کا عجائب گھر‘ بنا کر اُس میں نمائش کے لئے رکھا جائے گا؟

درد اُور دردمندی کا فقدان ہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایبٹ آباد کے ضلعی فیصلہ سازوں کو تجاوزات سے پیدا ہونے والے مسائل کی گہرائی‘ شدت اُور اِس کے جملہ پہلوؤں کے بارے میں خاطرخواہ آگاہی بھی نہیں‘ جس کی ایک وجہ فیصلہ سازوں اُور عوام کے معمولات ِزندگی اُور طرز ِزندگی میں پایا جانے والا زمین آسمان کا فرق ہے! ہر سطح پر فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اِن تجاوزات کی وجہ سے عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مشکلات اُور ذلت کا مشاہدہ اُور محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ کس طرح تجاوزات کے باعث مرکزی بازاروں میں پیدل آمدورفت آسان نہیں رہی! تجاوزات باعث ِآزار ہیں‘ اِن کی وجہ سے زیادہ مشکلات خواتین‘ بزرگوں اُور طالب علموں کو رہتی ہیں‘ جن کے لئے سڑک کے وسط میں بھیڑ سے بچتے بچاتے گزرنا ممکن نہیں ہوتا اُور اِس بارے میں بارہا (بار بار) شکایات کے باوجود بھی (تجاوزات کی صورت پھیلی) لاقانونیت کے خلاف فیصلہ کن کاروائی نہیں کی جاتی‘ آخر یہ طرزِحکمرانی کہ جس نے مصلحت کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہے کب تبدیل ہو گی؟ نیا دن کب طلوع ہوگا؟ تبدیلی کب آئے گی؟ ”نیا چار دن بھی پُرانا ہوا .... یہی سب ہوا تو نیا کیا ہوا (عبید حارث)۔“

ایبٹ آباد میں تجاوزات کے خلاف کاروائی یہاں آنے والے ’بدترین سیلاب‘ کے بعد شروع ہوئی جو 11 جولائی 2021ءکی شب ہوئی بارش کا نتیجہ تھا اُور خاص بات یہ تھی کہ اِس مرتبہ شہر کے صرف نشیبی ہی نہیں بلکہ بالائی علاقے بھی طغیانی کی زد میں آئے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ برساتی نالوں پر تجاوزات قائم ہیں‘ جس کی وجہ سے بارش کا پانی بہنے (flash) کی بجائے ایبٹ آباد کے گلی کوچوں میں گھر گھر سے ٹکراتا رہا اُور یہ سلسلہ کم سے کم دو دن تک اُن علاقوں میں بھی جاری رہا‘ جن کا شمار ایبٹ آباد کے مہنگے ترین (posh) حصوں میں ہوتا ہے جبکہ وہاں کے رہنے والے سیاسی طور پر اثر و رسوخ بھی رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مذکورہ بارش اُور طوفان کی گونج قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سنی گئی اُور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے بھی بیان جاری ہوا حالانکہ اِس سے کئی گنا زیادہ بڑی اُور قدرتی آفات یا حادثے رونما ہونا ہزارہ ڈویژن میں موسموں کی تبدیلیوں کے ساتھ رونما ہونے والے معمولات کا حصہ ہوتی ہیں اُور یہاں کے رہنے والے ایسی سختیوں کے عادی ہو چکے ہیں لیکن یہ بات ہر کس و ناکس کے لئے ناقابل قبول تھی کہ بارش کا پانی کسی بلند مقام (ایبٹ آباد شہر) میں یوں دندناتا پھرے گا اُور سب بے بسی سے اُس کا تماشا دیکھیں گے۔ قانون ساز اسمبلیوں میں ایبٹ آباد کی تجاوزات سے متعلق گونج اُور اخباری بیانات سن کر یقین ہو چلا تھا کہ تجاوزات کے خلاف اب فیصلہ کن کاروائی ہوگی لیکن وہ ”وعدہ ہی کیا جو پورا ہو!“ ماہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں برساتی نالوں سے تجاوزات ختم کرنے کا سلسلہ ہلکی اُور بھاری مشینری کے علاؤہ خصوصی طور پر مدعو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی میں شروع ہوا‘ تصاویر اُور ویڈیوز بنائی گئیں تاکہ پشاور اُور اسلام آباد میں تشریف فرما فیصلہ سازوں کو یقین (اطمینان) دلایا جا سکے تاہم جس سیاسی دباؤ پر یہ مہم شروع کی گئی تھی اُسی کی مداخلت سے روک دی گئی اُور چند ایک مقامات پر نالوں کی گہرائی میں اضافے اُور نالوں میں پھینکے گئے کوڑا کرکٹ یا تعمیراتی ملبے کی صفائی سے زیادہ کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر ایبٹ آباد شہر سے گزرنے والے صرف 3 برساتی نالوں (جب پل‘ کالا پل‘ پائن ویو روڈ نالہ) کو آغاز سے اختتام تک تجاوزات سے پاک کر دیا جاتا تو آج صورتحال قطعی مختلف یعنی بہتر ہوتی اُور اِس سے ایبٹ آباد میں ٹریفک کے مسائل بھی کمی آتی کیونکہ برساتی نالوں کے ساتھ ذیلی شاہراؤں کو ہلکی ٹریفک کے لئے ترقی دینے سے مرکزی ’شاہراہ قراقرم‘ پر ٹریفک کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ 170 کلومیٹر دور پشاور میں بیٹھے ایبٹ آباد سے متعلق فیصلہ سازی کرنے والے اگر متوجہ ہوں تو برساتی نالوں پر تجاوزات کا مکمل خاتمہ ممکن ہے لیکن اِس کے لئے پہلے سے زیادہ ”پختہ ارادے“ کی ضرورت ہے‘ ایک ایسا ارادہ جس میں دباؤ جھیلنے (برداشت) کی صلاحیت ہو اُور جو اِس قدر عالی ظرف ہو کہ اِس میں ایبٹ آباد کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے۔

ایبٹ آباد میں تجاوزات کے خلاف جاری مہم کی معطلی (عملاً روکنے) میں تاجروں کے حوصلے بلند جبکہ ضلعی انتظامیہ اُور اہلکاروں کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ تاجر اپنی اِس کوشش میں کامیاب رہے کہ اِنہوں نے ضلعی انتظامیہ کے خلاف ’منظم محاذ آرائی‘ کے لئے سوشل میڈیا اُور ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا۔ ضلعی انتظامیہ (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اُور اسسٹنٹ کمشنرز) ناکام رہے کیونکہ اِن کا مؤقف درست ہونے کے باوجود بھی یہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ہرگز توقع نہیں تھی کہ ضلعی انتظامیہ یوں تجاوزات قائم کرنے والوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے گی۔

تاجروں کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی کردار کشی کے علاؤہ اُنہیں تبادلہ کروانے کی دھمکیاں دی گئیں اُور یہ سبھی باتیں ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں۔ اصولاً ایبٹ آباد شہر سے منتخب ہونے والے اَراکین قومی و صوبائی اِسمبلیوں کو ’عوام کے ساتھ‘ کھڑا ہوتے ہوئے شہر کے اِجتماعی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔ اِیبٹ آباد ہزارہ ڈویژن اُور شمالی علاقہ جات کے سیاحتی مقامات کا ’گیٹ وے‘ بھی ہے یہاں کے بازاروں میں تجاوزات کی بھرمار کے خلاف پہلے سے زیادہ مصمم اِرادے اُور زیادہ سخت گیر کاروائی ہونی چاہئے اُور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب ’اِنسداد ِتجاوزات مہم‘ کسی بھی وجہ سے شروع کر ہی دی گئی تھی تو اِسے معطل کرنے کی بجائے بہرصورت منطقی انجام تک پہنچایا جانا ضروری تھا جو موقع گنوا دیا گیا ہے وہ سنہرا تھا جس کے بعد عارضی و مستقل تجاوزات پہلے سے زیادہ پھیلنے پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ”کر گئی دیوانگی ہم کو بَری ہر جرم سے .... چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی (جلیل مانک پوری)۔“

....





Monday, September 27, 2021

Peshawar - the city of museums

 پشاور شناسی

جنم بھومی .... ترک تعلق بھی اِک تعلق ہے

پشاور کے اُفق پر فلمی ستاروں کی چمک دمک کو تہذیبی و ثقافتی ورثے کے طور پر پیش کرنے کی منفرد کوشش میں صوبائی محکمہ آثار قدیمہ پورے انہماک سے حصہ لے رہا ہے۔ خواہش ہے کہ اُردو (ہندی) فلموں کے نامور اداکاروں دلیپ کمار اُور کپور خاندان کے آبائی گھروں کو محفوظ کیا جائے اُور اِس مقصد کے لئے تعمیروبحالی کے عملی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ کون جانتا تھا کہ محمد یوسف خان ولد لالہ غلام سرور خان (والدہ عائشہ بیگم) کا فلمی نام ’دلیپ کمار‘ ہوگا اُور یہ اُن کے اصل نام سے زیادہ مقبول ہو جائے گا۔ بہرحال دنیا دلیپ کمار کو جانتی ہے جن کی پیدائش 11 ستمبر 1911ءپشاور اُور وفات 7 جولائی 2021ءپشاور سے قریب 1700 کلومیٹر دور ممبئی میں ہوئی اُور وہیں کے مقامی قبرستان میں اُنہیں سپردخاک کر دیا گیا۔ 1930ءکی دہائی میں دلیپ کمار کے والدین نے بہتر کاروباری مواقعوں کی تلاش میں نقل مکانی کی تھی‘ جو برصغیر کی تقسیم کے بعد مستقل شکل اختیار کر گئی‘ جس کے بعد یہ اُور دیگر کئی خاندان واپس پشاور نہ آ سکے۔ دلیپ کمار کے نام سے شہرت پانے والے یوسف خان کو حکومت ِپاکستان نے فلمی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین قومی (سول) اعزاز ’نشان ِامتیاز‘ (1998ئ) سے نوازا تھا اُور جولائی 2014ءاُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے آپ کے آبائی گھر کو ’قومی ورثہ (نینشل ہیئرٹیج مانومینٹ)‘ قرار دیا جس کے بعد ’آثار قدیمہ‘ کے مجریہ (اینٹیکوٹی ایکٹ 1997ئ) کی روشنی میں اُن کے گھر کا تذکرہ زبانی کلامی یا سرکاری دستاویزات میں بطور ’محفوظ یادگار (پروٹیکٹیڈ مانیومنٹ)‘ کے ہونے لگا۔ 

بھارت کی فلمی صنعت کے دوسرے نامور کرداروں ’کپور خاندان‘ کا آبائی تعلق بھی پشاور سے ہے اُور خیبرپختونخوا حکومت نے ’کپور حویلی‘ کو خرید کر ’ثقافتی عجائب گھر‘ میں تبدیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ دلیپ کمار نے اپنی آپ بیتی ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں لکھا تھا کہ ”ہم غیرمنقسم برصغیر میں رہتے تھے اُور تب (پشاور میں) ہندوو¿ں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی مسلمانوں کے اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مل جل کر آباد ہوا کرتی تھی۔ مسلمان (اکثریت) اُور ہندو (اقلیت) ایک دوسرے سے گھل مل کر رہتے۔ ایک دوسرے سے بات چیت اُور راہ و رسم رکھتے اُور سر راہ ایک دوسرے سے بات چیت اُور تہنیتی کلمات کا تبادلہ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے (گویا پشاور ایک ایسے گلدستے کی مانند تھا جس میں ہر رنگ و نسل اُور مذہب و عقیدے سے تعلق رکھنے والے پھول اپنی اپنی خوشبو پھیلاتے تھے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پشاور ’پھولوں کا شہر‘ کہلایا تھا)۔“ دلیپ کمار نے لکھا کہ ”میرے والد کے کئی ہندو دوست تھے جن میں سے ایک ’بشیش ور ناتھ جی (Bashesh Warnath Ji)‘ بھی تھے۔ آپ کسی حکومتی دفتر میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ بشیس ناتھ اپنے بڑے جوانسال صاحبزادے کے ہمراہ کئی مرتبہ ہمارے گھر آئے‘ جن کی شخصیت و خوبصورتی (مردانہ جاہ و جلال) کو دیکھنے والے دم بخود رہ جاتے تھے۔ یہ خوبرو جوان پریتھوی راج (Rrithvi Raj) تھے‘ جو بعد میں ’راج کپور‘ کے والد ہوئے۔“ پنجاب کے ہندو قبیلے سے تعلق رکھنے والے ’کپور خاندان‘ کے کچھ لوگ پاکستان بننے کے بعد (1947ئ) میں بھارت منتقل ہوئے اُور اپنے پیچھے ایک تعمیراتی شاہکار بصورت ’کپور حویلی‘ چھوڑ گئے جو ’بشیش ناتھ جی‘ نے 1918ءسے 1922ءکے درمیان تعمیر کی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ دلیپ کمار کی طرح کپور خاندان نے بھی بھارت کی فلمی دنیا پر راج کیا۔ راج کپور خاندان کے فلمی سفر کا آغاز 1928ءمیں جبکہ دلیپ کمار کی بطور ہیرو پہلی فلم (جوار بھٹا) 1944ءمیں نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی۔

دلیپ کمار کی آپ بیتی کا مطالعہ ’اہل پشاور‘ کو ضرور کرنا چاہئے‘ جس سے اُنہیں پشاور کے ماضی ِقریب میں رونما ہونے والی کئی خوبیوں کا علم ہوگا جیسا کہ بول چال میں ادب و احترام کا کس قدر اہتمام کیا جاتا تھا۔ دلیپ کمار اُور اِن کے گیارہ بہن بھائیوں کے علاو¿ہ عزیزواقارب بھی اِن کے والد (لالہ غلام سرور خان) کو ’آغا جی‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان سے قبل اُور بعد کی کئی دہائیوں تک پشاور کی اکثریت ہندکو اُور فارسی زبانیں بولتی اُور سمجھتی تھی۔ طرز ِمخاطب بھی اہل پشاور کا معمول اُور وطیرہ تھا کہ یہ بزرگوار ہستیوں کو ادب و احترام سے ’آغا جی‘ کہہ کر مخاطب کرتے اُور اِس لفظ میں چھپی مٹھاس و اپنائیت کے احساس اُور ذائقے کو صرف اہل پشاور ہی محسوس کر سکتے ہیں‘ جو اپنی جگہ کسی نعمت و لذت سے کم نہیں۔) اہل پشاور نے اپنی زبان و ثقافت اُور تاریخ سے تعلق کب اُور کیسے توڑا‘ اِس موضوع کے مختلف پہلوو¿ں پر کسی اُور نشست (فرصت) میں بات کی جائے گی۔ ”صلائے عام ہے یاران ِنکتہ داں کے لئے۔“

بقول شاعر کہ ”یہ بات ترک ِتعلق کے بعد‘ ہم سمجھے .... کسی سے ترک تعلق بھی‘ اِک تعلق ہے!“ پشاور سے ترک ِتعلق کرنے والوں کا اپنی ’جنم بھومی‘ سے رشتہ فاصلوں کے سبب کمزور تو ہو سکتا ہے لیکن ٹوٹ نہیں سکتا اُور آج بھی برقرار ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اِس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ پشاور سے اِس رشتے کو مزید تقویت دی جائے جس کے لئے دلیپ کمار اُور کپور حویلی کو ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یوں پشاور شہر میں مزید 2 عجائب گھروں کے اضافے ساتھ ایسے مراکز کی تعداد 5 ہو جائے گی‘ جن کے دریچوں سے نہ صرف پشاور کے ماضی میں جھانکا جا سکے گا بلکہ اِس سے جنوب ایشیائی خطے کی تاریخ و ثقافت اُور یہاں کے رہنے والوں کی تہذیب و ثقافت کے علاو¿ہ اَدیان کے سفر کا مطالعہ بھی ممکن ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کا پہلا اُور قدیمی عجائب گھر ’گندھارا تہذیب‘ کے رہن سہن‘ آثار اُور بودوباش پر مبنی نشانیوں کا مجموعہ ہے جو 1907ءمیں تعمیر ہوا تھا۔ دوسرا عجائب گھر 23 مارچ 2006ءکے روز قائم ہوا اُور اِس میں پشاور شہر کے تاریخی شواہد اُور یہاں کی تہذیب و ثقافت کے نمونوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ تیسرا عجائب گھر 19ویں صدی کا تعمیراتی شاہکار بنام ’سیٹھی ہا  ؤس‘ ہے‘ جو 1845ءمیں تعمیر ہوا اُور اِسے 5 جنوری 2021ءسے عوام الناس کے کھول دیا گیا ہے۔ پشاور کا چوتھا اُور پانچواں عجائب گھر دلیپ کمار اُور کپور خاندان کے آبائی مکانات ہوں گے‘ جنہیں ’ثقافتی مراکز‘ کے طور پر محفوظ اُور قریب اصل حالت میں بحال کیا جا رہا ہے اُور اِس سے پشاور کے سیاحتی مقامات کی تعداد اُور یہاں کی سیاحتی کشش میں یقینا اضافہ ہوگا۔ قابل ِذکر ہے کہ بدھ مت (ہندو مذہب) کے ماننے والوں کے لئے پشاور اُور گندھارا تہذیب کے دیگر مراکز جو کہ پشاور سے سوات (مالاکنڈ ڈویژن کے آخری کونے) تک پھیلے ہوئے ہیں ”مقدس ترین مقامات“ کا درجہ رکھتے ہیں اُور جیسا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں متوجہ ہیں تو اِس سے اُمید ہے کہ ’مذہبی سیاحت‘ فروغ پائے گی اُور پشاور میں بین المذاہب ہم آہنگی کا عملاً فروغ بھی ممکن ہوگا۔ اِس کوشش کی کامیابی سے شاید اُس بہار کا بھی گزر ہو جس سے گلدستہ نما‘ پھولوں کے شہر پشاور کا ہر پھول کھل اُٹھے۔

پھول‘ خوشبو ہوں‘ بہاریں ہوں اُور پشاور ہو

پیار کی رُت میں دعائیں ہوں اُور پشاور ہو

....




Sunday, September 26, 2021

Exams, the failing impact

شبیر حسین اِمام

طب کی تعلیم: روشن مستقبل؟

پاکستان میں طب کی تعلیم (میڈیکل ایجوکیشن) کا مستقبل کتنا روشن یا کتنا تاریک ہے اُور میڈیکل (MBBS) یا ڈینٹل (BDS) کی تعلیم کے معیار (بشمول درس و تدریسی سہولیات) میں ہر سال‘ حسب آبادی اضافہ یا آبادی کے تناسب کے مقابلے ہر سال کمی ہو رہی ہے؟ اِس جیسے بہت سارے سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے جائزہ لینا پڑے گا کہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC)‘ کے نام سے قائم وفاقی ادارے کے قواعد و ضوابط کیا ہیں اُور کیا اِس ادارے سے وابستہ طبقات کی توقعات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں؟ علاؤہ ازیں پاکستان میں طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کا تعلیمی و تدریسی بندوبست کیا ہے اُور اِس میں خرابیاں دور کرنے (اصلاحات) کی کوشش میں کون کون سی خرابیاں داخل ہو گئی ہیں‘ جنہیں دور کئے بغیر طب کی تعلیم قابل اطمینان و معیار نہیں ہو سکتی جبکہ متعلقہ فریقین یعنی فارغ التحصیل ہوئے ڈاکٹرز‘ طب کے شعبے سے وابستہ تدریسی عملہ‘ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم (پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن)‘ نجی تعلیمی اداروں (پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز) کی نمائندہ تنظیم ”پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیویشنز (PAMI) کے اراکین اُور طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات‘ اِن کے والدین اُور اساتذہ کی اکثریت کے شکایات‘ تحفظات‘ خیالات اُور تجاویز بھی اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں‘ جنہیں محض اِس لئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اختلافی نکتہ¿ نظر ہر طبقے کے ذاتی یا کاروباری مفادات کے عکاس ہیں۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان میں طب کی تعلیم کا قبلہ اُس وقت تک درست نہیں ہوگا جب تک اِس سے متعلق قواعد و ضوابط وضع کرنے میں کثیرالجہتی و جامع مشاورت نہیں کی جاتی اُور دوسرا متفقہ و متنازعہ قواعد و ضوابط لاگو کرنے کے لئے من پسند‘ منظورنظر‘ جن میں اکثریت غیرمتعلقہ شعبوں سے ملازمتیں مکمل کرنے (ریٹائرڈ) کردار شامل ہیں کی بجائے حقیقی اہل اُور متعلقہ ماہرین کی سمجھ بوجھ اُور جذبے کو اصلاحات لاگو کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔

طب کی تعلیم کے حوالے سے اعتراضات کی طویل فہرست میں اگر کسی ایک نکتے کو پکڑ کر اِس الجھن (گھتی) سلجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ ہوگی کہ سردست پاکستان میڈیکل کمیشن نے نئے تعلیمی سال (2022ئ) میں داخلے کے لئے 65فیصد نمبرات حاصل کرنے کی بنیاد پر اہلیت کا جو معیار (پیمانہ) بصورت ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ مقرر کیا ہے اُس کی وجہ سے پاکستان کے سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ (اہلیت رکھنے کے باوجود بھی) نااہل ہو گئے ہیں جس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے 2 پہلو ہیں۔ پہلا پہلو یہ ہے کہ جو طلبا و طالبات ’ایم ڈی کیٹ امتحان‘ میں 65 فیصد نمبر حاصل نہیں کر سکے اُور وہ طب کی تعلیم بہرصورت حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بچپن سے اُن کے ذہنوں میں یہی بات ڈالی گئی کہ اُنہیں بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا ہے‘ اِس لئے وہ سوائے ڈاکٹری کسی دوسری تعلیم کو اہم نہیں سمجھتے۔ ایسے طالب علموں میں بڑی تعداد اُن بچوں کی ہوتی ہے جن کے والدین کم مالی وسائل کے باوجود بچوں کو بیرون ملک بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ طب (میڈیکل یا ڈینٹل) کی تعلیم حاصل کرنے جیسے خواب کی تعبیر کر سکیں۔ اِس صورت میں پاکستان سے صرف ذہین و اہل طالب علم ہی نہیں بلکہ داخلہ فیسوں‘ ٹیویشن فیسوں‘ آمدورفت اُور قیام و طعام و دیگر ضروریات کی صورت ’قیمتی زرمبادلہ‘ بیرون ملک منتقل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے بیرون ملک کے تعلیمی اداروں کی درجہ بندی جاری کر رکھی ہے جس کے تحت تین درجات (گریڈ اے‘ گریڈ بی اُور گریڈ سی) کے کالجز کی نشاندہی کی گئی ہے۔ عام فہم زبان میں بات کی جائے تو بیرون ملک طب کی تعلیم اخراجات کے لحاظ سے دو درجات میں تقسیم ہے جبکہ بیرون ملک تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار میں ایک جیسا ’ناقابل اعتبار‘ ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک ہوں یا ایشیائی اُور وسط ایشیائی ریاستیں یا چین و افریقہ‘ اِن تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر پاکستان واپس آنے والوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ’نیشنل لائسینسینگ ایگزیم (NLE)‘ میں کامیاب ہوں بصورت ِدیگر وہ پاکستان میں طب کی مزید تعلیم یا اِس شعبے میں ملازمت کرنے کے لئے اہل تصور نہیں ہوں گے۔ اِس مرحلے پر 2 ضمنی اقدامات (اصلاحات) کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی امتحان میں کامیابی کے لئے مقررہ نمبرات کی شرح 65 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد مقرر ہونی چاہئے تاکہ طب کی تعلیم کے خواہشمند طلبہ کی زیادہ سے زیادہ تعداد پاکستان ہی میں تعلیم حاصل کرے اُور یوں ذہین بچے اُور قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک منتقل نہ ہو۔

 دوسری ضرورت طب کی تعلیم کے موجودہ بندوبست میں وسعت اُور اِس شعبے میں موجود نجی سرمایہ کاری کے امکانات سے فائدہ کی ہے۔ نجی تعلیمی ادارے نہ صرف روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہیں بلکہ اُنہوں نے تعلیم کے شعبے میں حکومت کا بوجھ بھی بانٹ رکھا ہے اُور اگر اِن نجی تعلیمی اداروں کی تعداد یا اِن سمیت سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد (گنجائش) میں اضافہ کیا جائے تو اِس سے طلبہ اُور اِن کے والدین میں پائی جانے والی تشویش بڑی حد تک کم ہو جائے گی۔ بنیادی بات آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح اُور اِس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مانگ (طلب) کو پورا کرنے کی ہے۔

سردست صورتحال یہ ہے کہ صرف طب ہی نہیں بلکہ دیگر علوم کی تعلیم کے شعبوں میں بھی داخلے ملنا ہر سال پہلے سے زیادہ مشکل ہو رہا ہے اُور اِس صورتحال (عوام کی مجبوری) کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیرمعیاری تعلیمی ادارے بھی قائم ہو رہے ہیں یا پہلے سے موجود نجی تعلیمی اداروں کا معیار بہتر ہونے کی بجائے رو بہ زوال ہے کیونکہ طب کی تعلیم ہو یا علاج معالجے کی سہولیات دونوں پر مانگ (آبادی) کا بوجھ ہے اُور دونوں ہی سے متعلق اصلاحات کے لئے جامع حکمت عملی مرتب (وضع) ہونی چاہئے۔

....




Education from exams to protest

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

اہم موڑ

طب کی بنیادی تعلیم (ایم بی بی ایس اُور بی ڈی ایس) حاصل کرنے خواہشمند طلبا و طالبات کو اپنی ذہانت‘ اہلیت اُور برتری ثابت کرنے کے لئے 2 امتحانی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا 10ویں کلاس (میٹرک) کے بعد شروع ہوتا ہے اُور اِس 2 سالہ دور (گیارہویں اُور بارہویں جماعتوں) میں اُنہیں ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہوتا ہے تاکہ لازمی مضامین کے علاو¿ہ فزکس (علم ِطبیعات)‘ کیمسٹری (علم ِکیمیا) اُور بیالوجی (علم ِحیاتیات) میں نمایاں نمبر حاصل کرتے ہوئے متعلقہ امتحانی بورڈ میں خصوصی حیثیت سے کامیاب ہوں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی طالب علم کی زندگی کے یہی 2 سال اُس کی باقی ماندہ عملی زندگی کا تعین کرتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ’ایف اے / ایف ایس سی‘ طلبہ کی زندگی کا ”اہم ترین موڑ“ سمجھا تو جاتا ہے لیکن اِس کے تحفظ اُور درست رہنمائی کے علاو¿ہ کامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد کے مطابق داخلوں کا اہتمام و انتظام نہیں کیا جاتا۔ ہر سال طب و دیگر تعلیمی شعبوں میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمندوں کی بڑی تعداد (اکثریت) داخلوں سے محروم رہ جاتی ہے لیکن بالخصوص طب کے تعلیمی اداروں میں نشستوں کی تعداد میں حسب آبادی و ضرورت (خاطرخواہ) اضافہ نہیں کیا جاتا تو آخر تعلیمی اداروں کی تعداد یا اِن میں ہر سال نشستوں کی تعداد بتدریج بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے اُور اِس سلسلے میں عوام کا دیرینہ مطالبہ کیوں سُنا اَن سُنا کیا جا رہا ہے۔ طب کی تعلیم سے متعلق حکومتی بندوبست عوام کی نظروں میں خرابیوں کا مجموعہ ہے اُور یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والوں کے علاو¿ہ اندرون ملک زیرتعلیم طلبا و طالبات اُور ڈاکٹر بننے کے بعد میڈیکل کمیشن کے پیچیدہ و مالی لحاظ سے مہنگے انتظامی امور کے بارے شکایت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ حالیہ احتجاج اُن طلبہ کی جانب سے جاری ہے جو اپنے والدین کے ہمراہ چاروں صوبوں سے ’اسلام آباد‘ میں میڈیکل کمیشن کے سامنے جمع ہوئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن احتجاج کرنے والوں نے پچیس اُور چھبیس ستمبر کی ساری رات ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کے صدر دفتر کے سامنے کھلے آسمان تک بسر کی۔ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے اُور تھک ہار کر میڈیکل کمیشن کے سامنے سڑک اُور ملحقہ سبزہ زار پر سو گئے تاہم اُنہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مبینہ ’بے حس میڈیکل کمیشن‘ کے سامنے ہار نہیں مانیں گے اُور احتجاج جاری رکھتے ہوئے اِس کا دائرہ بھی بڑھایا جائے گا۔ آخری خبریں آنے تک ڈاکٹروں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA)‘ نے بھی طلبہ کی حمایت کر دی ہے اُور ’پی ایم اے پنجاب‘ کے کئی رہنماؤں نے طلبہ اُور اُن کے والدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دھرنے میں شرکت بھی کی ہے۔

وفاقی ادارے (پاکستان میڈیکل کمیشن) کے تعلقات کسی بھی فریق سے مثالی نہیں۔ طب کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے علاو¿ہ میڈیکل کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ڈاکٹر‘ طب کی تدریس کرنے والے اساتذہ‘ اندرون و بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اُور نجی تعلیمی ادارے اپنی اپنی جگہ یکساں فریادی (نوحہ کناں) ہیں۔ اِس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ سبھی فریقین نے عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے اُور ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کے قیام اُور اِس قیام کو جس آئین سے تحفظ دیا گیا ہے اُس کے خلاف حالیہ (تازہ ترین) مقدمہ رواں ہفتے (چوبیس ستمبر دوہزاراکیس) عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) میں درج ہوا ہے جس میں درخواست گزار جواد افضل وغیرہ نے ”پاکستان میڈیکل کمیشن قانون 2020ئ“ کو غیرمناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ قانون آئین پاکستان (1973ئ) کی مختلف شقوں کے خلاف ہے بالخصوص یہ 18ویں آئینی ترمیم سے بھی متصادم ہے جس میں صوبوں کو تعلیم جیسے شعبے میں فیصلے کرنے کی اجازت (آئینی خودمختاری) دی گئی تھی۔ مقدمہ درج ہو چکا ہے اُور سماعت کے لئے ’یکم اکتوبر‘ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اِس مقدمے (مو¿قف) کی خاص بات طلبہ کی اہلیت جانچنے کے معیار (MDCAT) نامی امتحان ہے‘ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اِس کی خاطرخواہ تیاری کے لئے طلبہ کو وقت نہیں دیا گیا اُور پے در پے امتحانات کی وجہ سے طلبہ شدید ذہنی دباو¿ کا شکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ مقدمے میں یہ نکتہ شامل نہیں کہ طلبہ کی اہلیت جانچنے کے لئے اُنہیں ایک سے زیادہ امتحانی مراحل سے واسطہ پڑتا ہے جو غیرضروری اُور نامناسب تعلیمی بندوبست ہے اصولاً بورڈ امتحان ہی کسی طالب کی اہلیت و قابلیت جانچنے کے لئے کافی ہے اُور اگر بورڈ امتحان ’کسی وجہ سے‘ کافی نہیں تو پھر اِسے جاری رکھنے کا مقصد سمجھ و ضرورت سے بالاتر ہے۔ اُمید کے مقدمے کے کسی مرحلے پر اِس بارے بھی غور ہوگا کہ آخر میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لئے کسی اضافی امتحان کی ضرورت (طلب) ہی کیوں پیش آتی ہے؟

پشاور ہائی کورٹ کے سامنے میڈیکل کمیشن سے متعلق دوسرا اعتراض (عذر) یہ پیش گیا ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی (تعلیمی اہلیت جانچنے کا) امتحانی مرحلہ پانچ مختلف نصابوں (چار صوبوں اُور وفاقی تعلیمی نصاب) پر مشتمل ہے‘ جس میں کامیابی کے لئے کم سے کم 65 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہیں۔ یہ پینسٹھ فیصد نمبر بورڈ امتحان میں پاس ہونے کے مقررہ معیار سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔ درخواست گزاروں کا مو¿قف ہے کہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل بار بار تعطل کا شکار رہا ہے اُور جبکہ اِس بات کا اعتراف خود وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی کرتی ہیں تو اِس کے باوجود میڈیکل و ڈینٹل تعلیم کے خواہشمند طلبا و طالبات سے ’پاسنگ مارکس‘ کم کرنے کی صورت رعایت کیوں نہیں کی گئی؟ تیسرا نکتہ صوبائی خودمختاری سے متعلق ہے کہ طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم میں داخلوں کے لئے اہلیت کا امتحان (ایم ڈی کیٹ) منعقد کرنے کا اختیار صوبوں کو ہونا چاہئے کہ وہ امتحان کے نصاب‘ امتحان کی تاریخ اُور امتحان کے آن لائن یا آف لائن طریقہ¿ کار سے متعلق فیصلہ خود کریں۔ ذہن نشین رہے کہ رواں برس ہونے والے مذکورہ ’ایم ڈی کیٹ امتحان‘ کے نتائج ایسے طلبا و طالبات کے لئے مایوسی کا باعث بنے ہیں جو سکول و بورڈ امتحانات کے دوران یعنی اپنے پورے تعلیمی عرصے (ایجوکیشن کیئریر) میں نمایاں رہے لیکن وہ ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب نہ ہو سکے یا اِس امتحان کو بھی امتیازی نمبروں سے پاس نہ کر سکے۔ یہ صورتحال صرف طلبا و طالبات ہی کے لئے نہیں بلکہ والدین اُور اساتذہ کے لئے پریشان کن ہیں جنہوں نے بچوں کے اچھے مستقبل کے خواب میں اپنا پیٹ کاٹ کر اُور اپنی ضروریات کی قربانیاں دے کر سرمایہ کاری کی لیکن اُن کے سامنے ایک ’ناقابل یقین نتیجہ‘ اُور سردمہری کا مظاہرہ کرنے والا ’بے رحم ادارہ‘ موجود ہے‘ جس پر کسی مہذب و شائستہ اُور آئینی حقوق و اخلاقی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے شکایت یا مقدمہ درج کرنے اُور کسی بھی نوعیت کے احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

وفاقی اُور صوبائی سطح پر فیصلہ سازوں کو لاکھوں کی تعداد میں طب کی تعلیم کے خواہشمند طلبہ اُور اِن کے والدین میں پائی جانے والی تشویش و پریشانی کا سدباب کرنے کے لئے خاطرخواہ فوری اُور باعث ِاطمینان عملی اقدامات کرنے چاہیئں۔

....





Saturday, September 25, 2021

Kitab Kahani : The other [dark] side of politics!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

کتاب کہانی: کئی سُولیاں سر راہ تھیں

سیاسی اختلاف کی پاداش میں فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ایک قیدی کی روداد (آپ بیتی) بعنوان ’کئی سُولیاں سرِراہ تھیں‘ کا چوتھا ایڈیشن سانجھ پبلی کیشنز (لاہور) نے شائع کیا ہے جس میں خواجہ آصف جاوید بٹ ایڈوکیٹ نے جنرل ضیا الحق کے دور حکومت اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ محفوظ کیا ہے۔ جنرل ضیا الحق 16 ستمبر 1978ءسے 17 اگست 1988ءتک پاکستان کے چھٹے صدر مملکت رہے جبکہ اِس سے قبل بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اُن کا بلاشرکت غیرے دور حکومت (جسے آمریت بھی کہا جاتا ہے) 5 جولائی 1977ءسے 24 مارچ 1985ءتک جاری رہا۔ آپ یکم مارچ 1976ءسے 17 اگست 1988ءپاک فوج کے سربراہ رہے‘ جن سے قبل ٹکا خان اُور جن کے بعد مرزا اسلم بیگ نے پاک فوج کی بطور سربراہ قیادت کی تھی۔

 نئی نسل کے لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے لئے جنرل ضیاالحق کی آمریت کا باب انتہائی اہم ہے اُور آصف بٹ کی مذکورہ کتاب اِس سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے جس کے انتساب میں اُنہوں نے پوری کتاب کو سموتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ضیا آمریت کے دوران مزاحمتی کردار ادا کرنے والے اُن ساد لوحوں کے نام جو تاریک راہوں میں لٹے اُور مارے گئے۔ اُن زندہ اُور درگور مصیبت زدوں کے نام جو اُس طویل آمرانہ دور میں مہم جو‘ مبتلائے سحر اُور خانہ بربادی پر تُلے اپنے پیاروں کے پیچھے (کی تلاش میں) جیل جیل کی خاک چھانتے رہے۔“ اگرچہ آصف بٹ نے آمریت کے صرف اُنہی پہلو ؤں پر زیادہ بات کی ہے جن کا اُن کی اپنی ذات و مشکلات سے تعلق تھا لیکن کتاب میں زیربحث لایا گیا موضوع بے پناہ وسعت رکھتا ہے اُور اِس میں اُن سبھی پہلوؤں (بے رحم روئیوں) کا کہیں سرسری‘ اجمالاً تو کہیں تفصیلاً و دستاویزی طور پر ذکر موجود ہے‘ جب ظلم وستم کی انتہا کی گئی۔ 471 صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو پڑھ کر پاکستان میں جمہوری نظام‘ اقدار اُور آزادی کی نہ صرف سمجھ آتی ہے کہ کس طرح کھٹن راستوں سے گزر کر یہ نعمت میسر آئی ہے اُور اِس کی حفاظت کیوں ضروری ہے۔ حاصل ِکتاب یہ نتیجہ خیال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر جمہوریت کی حفاظت اُور اِس کی قدر و اہمیت کا خاطرخواہ احساس نہ کیا جائے تو اِس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اُور جب جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے تب کس قدر گھٹن عام ہوتی ہے‘ یہ سبھی احساسات کتاب میں جابجا تحریر ملتے ہیں۔ 

قفس در قفس کے باب میں جاوید بٹ نے ’سنٹرل جیل پشاور‘ میں گزرے اپنے شب و روز کا بھی ذکر کیا ہے جب اُنہیں پنجاب کے قیدخانوں سے پشاور جیل منتقل کیا گیا اُور یہاں جب اُنہوں نے پختون مہمان نوازی اُور احترام کو قریب سے دیکھا۔ لکھتے ہیں ”جو حسن ِسلوک (قلعہ) بالاحصار (کے قیدخانے) میں میرے ساتھ روا رکھا گیا‘ اُس کی بنا پر ہر پختون مجھے فرشتہ نما لگ رہا تھا اُور میرے دل سے اِس نسل کے لئے دعائیں اُور محبتیں پھوٹ رہی تھیں۔“ ”پشاور جیل میں میلے کا سماں“ سے متعلق مشاہدات خاصے دلچسپ ہیں جن کی روشنی میں اُس وقت کی طلبہ یونین سیاست اُور تعلیمی اِداروں بشمول جامعات میں رونما ہونے والے پُرتشدد واقعات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح تعلیمی اِداروں میں سیاست متعارف کروائی گئی اُور کس طرح تعلیمی اِداروں میں سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے ریاست ’غنڈہ گردی‘ کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ کیا تعلیمی اداروں میں سیاست ہونی چاہئے؟ 

طلبہ سیاسی تنظیموں پر پابندی کے فائدے اُور نقصانات کیا ہیں؟ اِس حوالے سے وہ سبھی سیاسی کارکن زیادہ بہتر و جامع انداز میں روشنی ڈال سکتے ہیں جو اِس پورے عمل سے گزرے ہیں۔ جاوید بٹ کی پشاور سنٹرل جیل سے متعلق یاداشت میں تحریر ہے کہ ایک دن 20 کے قریب مختلف کالجوں کے طلبہ کا گروپ جیل میں وارد ہو کر میرے والی بیرک (کمرے) میں آ مقیم ہوا۔ یہ سب کے سب ’پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF)‘ سے وابستہ تھے اُور اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ جھگڑے کی وجہ سے گرفتار کر کے جیل منتقل کئے گئے تھے۔ اِن میں ڈاکٹر اظہر جدون‘ ڈاکٹر کمال (مرحوم)‘ جہانزیب‘ قاسم جان اُور جاوید اختر (مرحوم) وغیرہ شامل تھے۔ اِن سب کے آ جانے سے (قیدخانے) میں عید کا سا ماحول پیدا ہو گیا۔ (یہ) سب (عمر میں) مجھ سے تو بہرحال جونیئر تھے جب کوئی 21 سال کا ہو اُور آپ 27 سال کے تو اُس وقت یہ فرق واضح محسوس ہوتا ہے۔ پہلے دو چار دن تو مجھے میری بزرگی کی قیمت ’صیغہ جمع‘ میں ادب کے ساتھ بُلا کر ادا کی گئی لیکن پھر مجھے بھی یہ لوگ گدگدی کرنے پر آگئے (اُور یوں) چھ سال (عمر میں) بڑا ہونے کا فرق جاتا رہا۔ نسوار کا استعمال آدھے سے زیادہ جوان باقاعدگی سے کرتے تھے اُور چرس سے دو تین چھوڑ کر سب ہی شغل فرماتے۔ مجھے گھیر گھار کر چرس بھرے سگریٹ کے کش لگانے پر آمادہ کر ہی لیا گیا۔ چرس بھرے سگریٹ کے دو چار کش لینے کے بعد میری کنپٹیوں (سر) کے ادندر جیسے مختلف قسم کی اونچی‘ کم‘ تیز‘ تیز تر‘ ٹی ٹوں ٹاں ٹیں .... ٹیں .... ٹاں.... ں ں ں .... کی عجیب و غریب کیفیت پیدا ہوئی۔ (چرس پینے کی وجہ سے بنا گھڑی دیکھے میری) وقت کو ماپنےکی صلاحیت (بھی) تقریباً جاتی رہی (اُور) معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے اُور عالم استغراق سے کتنی دیر بعد سر اُٹھایا ہے!“

نظریات کی سیاست اُور اصولوں کی رہنمائی میں سفر کی ہر منزل پہلے سے زیادہ کھٹن اُور دشوارگزار ہوتی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ سیاست میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی استقامت ہر شخص کی زندگی میں آنے والی ’کربلا‘ ہے‘ جہاں اُسے بھوک پیاس اُور ظلم برداشت کرنا پڑتے ہیں کیونکہ جب مقصد عظیم ہو تو حوصلہ‘ ہمت اُور برداشت جواب نہیں دیتی۔ سیاسی قیدیوں کو ’سر راہ‘ کتنی سُولیوں سے گزرنا پڑتا ہے اُور اِنہیں کس قدر جسمانی تکالیف و ذہنی اذیت اُور خاندانی و سماجی مسائل سے واسطہ رہتا ہے‘ ممکن نہیں کہ اُن کا احاطہ الفاظ یا کسی ایک آپ بیتی (کتاب کی صورت) میں ہو سکے۔ ایسے باضمیروں کا وقت پیچھا کرتا ہے اُور بامقصد زندگی بسر کرنے والے نفوس عالیہ (خواص) ہوں یا عوام‘ یہی وقت معلم بھی ہے‘ جو انسانی تجربات‘ مشاہدات اُور وارداتوں سے نتائج اخذ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اُمید ہے جاوید بٹ اپنی آب بیتی کے آئندہ ایڈیشن میں اُن سیاسی کرداروں کا بھی ذکر کریں جنہوں نے اِن جیسے پرخلوص کارکنوں کی قربانیوں سے فائدہ اُٹھایا‘ جنہوں نے نظریاتی سیاست کو موروثی سیاست کا بدنما لبادہ پہنا رکھا ہے۔ سبق یہ ہے کہ جمہوریت کی حفاظت کی جائے۔ جمہوریت کی قدر ہونی چاہئے اُور ”وسیع تر قومی مفاد“ اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ جمہوریت کے بغیر کوئی دوسری شے (جنس) نہیں اُور اِسی ”قومی مفاد“ پر ذاتی مفادات قربان کرنے والوں میں شامل آصف بٹ اُس کارواں کا حصہ رہے ہیں‘ جو تاحال اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ 

”کبھی سسکی‘ کبھی آوازہ‘ سفر جاری ہے .... کسی دیوانے کا دیوانہ سفر جاری ہے (شاعر:وقار خان)۔“





Wednesday, September 15, 2021

CEO for WSSCA - Abbottabad

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

روزنامہ آج پشاور / ایبٹ آباد

ایبٹ آباد: مسائل سے مسائل تک

خیبرپختونخوا کے صوبائی فیصلہ سازوں پر مشتمل کابینہ اجلاس (تیرہ ستمبر دوہزاراکیس) میں دیگر امور کے علاؤہ ”واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسیز ایبٹ آباد (WSSCA)“ کے لئے نئے سربراہ (چیف ایگزیکٹو) کی منظوری دی گئی ہے‘ جس کا ایبٹ آباد کے رہائشی ایک عرصے سے منتظر (چشم براہ) تھے اُور اُنہیں توقع تھی کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسی آب اُور کوڑا کرکٹ اکٹھا اُور اِسے تلف کرنے (سالڈ ویسٹ مینجمنٹ) جیسے 3 بنیادی کاموں کے لئے قائم ہونے والے اِس ادارے کے اخراجات اُور کارکردگی کا ”سخت گیر احتساب“ کرتے ہوئے ایک ایسا سربراہ مقرر کیا جائے گا‘ جسے ایبٹ آباد کے جغرافیئے اُور یہاں کے مسائل و پھیلتی ہوئی آبادی سے متعلق کتابی نہیں بلکہ زمینی حقائق سے متعلق علم ہوگا۔ جس کے علم و دانش کی بنیاد اُس کی اپنی ذات پر ہونے والی واردات کا نتیجہ ہوگی اُور جس کے لئے ’ایبٹ آباد‘ پُرکشش و مراعات یافتہ ملازمت کا ذریعہ نہیں بلکہ اُس کے ذات کا حصہ ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی مرحلے مقامی فیصلہ کا حتمی اختیار جب مقامی افراد کو سونپا جاتا ہے تو اِس سے ’سنی سنائی باتوں‘ کی بنیاد پر ترقیاتی ترجیحات کا تعین نہیں ہوتا بلکہ شہری مسائل (عارضوں) کا حل (علاج) بنیاد سے ہوتا ہے اُور یوں اخذ ہونے والی ترقیاتی سوچ اُور عمل پائیدار نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔

واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز ایبٹ آباد کے لئے نومنتخب انتظامی سربراہ (چیف ایگزیکٹو آفیسر) کا تعلق آبائی طور پر ملتان (صوبہ پنجاب) سے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایبٹ آباد (سطح سمندر سے بلندی 1256 میٹر) اُور ملتان (سطح سمندر سے بلندی 122 میٹر) کی آب و ہوا میں زمین آسمان جیسا فرق ہے اُور اِن دونوں شہروں کا تعلق صرف 2 الگ الگ صوبوں (مخالف سمت شہروں) ہی سے نہیں کہ ملتان پنجاب کے انتہائی جنوب جبکہ ایبٹ آباد خیبرپختونخوا کے مشرق میں واقع ہے بلکہ اِن کا زمینی فاصلہ بھی ساڑھے چھ سو کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ غیرمقامی افراد کو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز کرنے کا ایک بہت بڑا تجربہ اُور اُس کا بہت ہی بُرا نتیجہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں کی رونقیں دفاتر کی تعطیلات کی صورت معدوم ہو جاتی ہیں کیونکہ سبھی غیرمقامی افراد سرکاری تعطیلات سے ایک دو دن پہلے ہی اپنے اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں اُور یوں شہری سہولیات اُور خدمات کی فراہمی کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لئے صوبائی سطح پر قاعدہ موجود ہے کہ کسی ضلع میں اُس کے مقامی افراد ہی کو بھرتی کیا جائے لیکن اِس پر بہت کم عمل درآمد دیکھنے میں آتا ہے اُور طرزحکمرانی کی اِس بہت بڑی خامی کو دور کرنے کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔ 

ایبٹ آباد کے باسیوں کے لئے نوید ہے کہ واٹراینڈ سینٹی ٹیشن سروسیز کی سربراہی کے لئے موزوں شخص کا انتخاب کر لیا گیا ہے جو اِس سے قبل بطور ’چیف فنانشیل آفیسر‘ 3 سال 7 ماہ ادارے کی آمدن و اخراجات (اکا ؤنٹس) کا حساب کتاب رکھتے تھے اُور اِس سے قبل سعودی عرب میں پانچ سال سے زیادہ جبکہ مقامی صنعت میں 9 سال سے زائد عرصہ اکاؤنٹس (فنانس) ہی کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں یعنی اُن کا تمام تر تعلیمی عرصہ‘ مہارت اُور تجربہ مالیاتی امور سے رہا ہے۔ سال 2000ءمیں بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے ’بی کام (کامرس)‘ مکمل کرنے کے بعد اُنہوں نے 2011ءمیں ’چارٹرڈ فنانشیل اینالسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ سے اُور قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹس آف پاکستان سے ’اے سی ایم اے‘ کی اسناد حاصل کر رکھی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ایبٹ آباد کا نام ”واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز“ نامی ادارے کا حصہ ہے لیکن یہ صرف گنتی کی چند یونین کونسلوں میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔ اصولاً تو اُنہی چار ساڑھے چار یونین کونسلوں کے نام سے اِس کا تعارف ہونا چاہئے جیسا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر چار یونین کونسلوں (ملک پورہ‘ کہیال‘ اربن سٹی اُور نواں شہر) میں چالیس مقامات پر ’ڈبلیو ایس ایس سی اے‘ نے مقامات مقرر کئے تھے اُور وہیں جمع ہونے والی قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اُور گندگی اُٹھائی گئیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ایبٹ آباد کی آبادی اُور اِس آبادی کی ضروریات سے متعلق موجود ’اعدادوشمار‘ درست نہیں اُور ظاہر ہے کہ جہاں بنیادی پیمانہ ہی درست نہیں وہاں ناپ تول کیسے ممکن ہوگی۔ سال 2017ءمیں (پندرہ مارچ سے پچیس مئی) ہوئی ملک کی چھٹی مردم و خانہ شماری اُنیس سال کے وقفے سے ہوئی جسے 22 دسمبر 2020ءکے روز وفاقی حکومت نے منظور کر لیا تاہم اِس کے نتائج متنازعہ رہے اُور یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آئندہ عام انتخابات سے قبل مردم شماری کروانے اُور اِس مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی ازسرنو تشکیل کا فیصلہ کیا ہے۔ مردم شماری اُور خانہ شماری کے نتائج ممکنہ حد تک درست ہونے کی ضرورت بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے اِنتہائی اَہم ہوتی ہے اُور جس کی عدم موجودگی میں سماعتوں کو خوشگوار لگنے والی حکمت ِعملی کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔

پشاور میں بیٹھے (170کلومیٹردور) فیصلہ سازوں (صوبائی کابینہ) نے ایبٹ آباد میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ صفائی اُور کوڑا کرکٹ تلف کرنے کے لئے جس ادارے کے لئے نئے سربراہ کی منظوری دی ہے سب سے پہلی ضرورت تو اُس ادارے کو کم سے کم ایبٹ آباد کے شہری علاقوں کی ہی یونین کونسلوں تک پھیلایا جائے۔ ایبٹ آباد کی کل 51 یونین کونسلوں تین تحصیلوں میں تقسیم ہیں اُور اُن میں شہری علاقے کی صرف چار یونین کونسلوں میں رہنے والوں کو کسی نہ کسی صورت (ناکافی مقدار و بنیادی معیار کے مطابق) شہری سہولیات میسر ہیں تو یہ ایک ایسے شہر سے قطعاً انصاف نہیں جو نہ صرف ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا گیٹ وے ہے بلکہ اِسے تعلیمی اداروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اُور ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ہونے کے ساتھ یہی بالائی علاقوں بشمول شمالی علاقہ جات اُور چین تک جانے والے سیاحوں کا پہلا پڑاؤ بھی ہے۔ ایبٹ آباد کو انصاف چاہئے اُور ایبٹ آباد سے انصاف کی توقع ہے۔ ”کرم کی توقع تو کیا تم سے ہوگی .... ستم بھی کرو گے تو احسان ہوگا۔(نامعلوم)“

....

Clipping

Editorial Page of Daily Aaj dated 15 Sep 2021

Published version from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 15 Sep 2021 Wed


 

Monday, September 13, 2021

Dreamland Peshawar!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: خواب در خواب

شاعر ”عتیق اللہ“ کا یہ شعر بیان ایک ایسی صورتحال کا عکاس ہے‘ جو پشاور کے مسائل کا جامع بیان قرار دیا جا سکتا ہے کہ ”آئینہ آئینہ تیرتا کوئی عکس .... اُور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے!“ اہل پشاور کی آنکھوں میں ہر خواب کے بعد بسنے والا دوسرا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا‘ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اِس کے بارے میں سوچتے ہوئے مزید کئی سوالات جنم لیتے ہیں اُور یوں خواب در خواب ہی نہیں بلکہ سوال در سوال کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے! اہل پشاور سادہ لوح سہی‘ سادہ دل سہی لیکن اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ وہ سب کچھ سمجھ نہ رہے ہوں جس سے اُنہیں الگ رکھنے کے لئے ”کارکردگی کے سراب“ تخلیق کئے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلا سوال بصورت اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پشاور کی ترقی کے وعدوں اُور زمینی حقائق میں فاصلہ کیوں ہے؟ حکومتی ادارے اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ اِس کا ذرائع ابلاغ کے ذریعے اعلان کیوں کرتے ہیں؟ اہل پشاور کی اکثریت کے لئے یہ اَمر بھی سمجھ (منطق) سے بالاتر ہے کہ صوبائی دارالحکومت کے کسی ایک حصے کو تجاوزات سے پاک کرنے اُور تجاوزات کے مسئلے کا مستقل و پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے ’نئی حد براری‘ کروائی جا رہی ہے جس کے ذریعے سرکاری اراضی کا تعین کیا جائے گا لیکن باقی ماندہ پشاور یعنی درجنوں تجارتی و رہائشی مراکز میں موجود تجاوزات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے! اِس سلسلے میں اندرون یکہ توت گیٹ سے منڈا بیڑی چوک تک تجاوزات نے جن رہائشیوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے اُن میں سیّد سعید الزمان گیلانی بھی شامل ہیں‘ جو حال ہی میں خودساختہ جلاوطنی ترک کر کے امریکہ سے واپس آئے ہیں اُور اُن کے بقول ”بے ہنگم آبادی بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے علاؤہ شہری سہولیات کے معیار و مقدار میں کمی اُور ہر طرف تجاوزات کی کھلی چھوٹ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ متعلقہ بلدیاتی ادارہ (ٹاؤن ون)‘ ضلعی حکام (ڈسٹرکٹ گورنمنٹ)‘ ضلعی انتظامیہ (کمشنر و ڈپٹی کمشنر پشاور) اُور صوبائی حکومت (سیاسی فیصلہ سازوں) نے پشاور کو اُن افراد اُور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے‘ جن کے دل اُور جن کے عمل (قول و فعل میں) پشاور کے لئے محبت اُور رحم کے جذبات نہیں ہیں۔“ اِس سے زیادہ جامع تبصرہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا کہ آج ”پشاور پر رحم“ یا ”پشاور سے رحم کا برتاؤ“ کرنے والوں کا شمار اُنگلیوں پر بھی ممکن نہیں رہا جبکہ سیاسی و غیرسیاسی نمائندوں کی تعداد آسمان سے باتیں کر رہی ہے!

خیبرپختونخوا حکومت کی ویب سائٹ (kp.gov.pk) پر موجود اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشاور کا کل رقبہ 1257 مربع کلومیٹر ہے اُور یہاں کی کل آبادی کا 48.49 فیصد شہری علاقوں میں جبکہ 51.51 فیصد دیہی علاقوں میں آباد ہے اُور ہر خاندان میں اوسطاً 8.6 افراد بستے ہیں۔ آبادی کے یہ اعدادوشمار درست نہیں اُور جہاں فیصلہ سازوں کے پاس آبادی جیسے بنیادی کلیے سے متعلق کوائف ہی درست نہ ہوں‘ وہاں منصوبہ بندی اُور ترقیاتی عمل سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ اِس بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق سال 1950ءمیں پشاور کی آبادی 1 لاکھ 52 ہزار 825 نفوس پر مشتمل تھی اُور اگر اِس آبادی کا موازنہ آبادی کے موجودہ اعدادوشمار سے کرتے ہوئے شرح نمو اخذ کی جائے تو وہ تین سے چار فیصد سالانہ بنتی ہے یعنی حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ پشاور کی آبادی میں ہر سال تین سے چار فیصد ہو رہا ہے۔ شاید ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کو معلوم نہیں کہ کسی شہر یا ملک کی آبادی سے متعلق اُن کے فراہم کردہ مردم شماری یا خانہ شماری کے اعدادوشمار کو من و عن دنیا تسلیم نہیں کرے گی بلکہ ایسے کئی آزاد ذرائع ہیں جو اپنے طور پر اُور خلائی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی بنیاد پر خانہ شماری کرتے ہیں جبکہ وہاں صحت و تعلیم کے نظام اُور انتخابات کے لئے مرتب کی جانے والی ووٹر فہرستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مردم شماری کے کوائف میں اضافے کا سائنسی نتیجہ پیش کیا جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے فعال اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ’ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز پاپولیشن ڈائنامکس (population.un.org/wup) ہے اُور اِس ویب سائٹ پر سال 2050ءتک ممالک اُور اُن کے بڑے شہروں کی آبادی سے متعلق سائنسی بنیادوں پر مرتب کردہ اعدادوشمار (تخمینہ جات) موجود ہیں جو کسی بھی وقت بلاقیمت (مفت) حاصل (ڈاون لوڈ) کئے جا سکتے ہیں۔

 لمحہ فکریہ ہے کہ پشاور کی آبادی میں ہر سال 50 سے 70 ہزار افراد کا اِضافہ ہو رہا ہے اُور یہ سلسلہ 2035 تک جاری رہے گا‘ جس کی شرح میں کمی آبادی کنٹرول کرنے یا پشاور نقل مکانی کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے سے ممکن ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران پیش آنے والے واقعات بالخصوص قبائلی علاقوں میں فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کا رخ پشاور کی جانب رہا۔ اِسی طرح افغان مہاجرین کے لئے پہلا پڑا ؤ پشاور ہی ہوتا ہے جبکہ قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں میں ضم کرنے کے بعد بھی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے‘ جس کا ثبوت تین اطراف میں پھیلتا پشاور ہے کہ اِس کی آبادی میلوں پہلے شروع ہو جاتی ہے اُور جی ٹی روڈ و رنگ روڈ کے اطراف میں وہ علاقے جو کبھی زرخیز زمینوں اُور باغات کی سیر کرواتے نظاروں پر مشتمل ہوتے تھے اب رہائشی مراکز میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ خوبصورت ناموں سے بستیاں بن گئی ہیں‘ جن میں اکثریت ایسی رہائشی بستیوں کی ہے جن میں نکاسی آب‘ صفائی‘ گیس اُور پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ دیہی علاقوں کے کچے پکے راستے اُور کھیتوں کی پگڈنڈیاں خودرو جھاڑیوں کی طرح اُبھرنے والی رہائشی بستیوں کی راہداریوں میں تبدیل کر دی گئی ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ ضلع پشاور کے شہری و دیہی علاقوں میں تمیز نہیں رہی۔

اندرون شہر کے علاقوں کی آب و ہوا آلودہ ترین جبکہ دیہی علاقوں کا قدرت سے قریب ترین رہن سہن جیسی خوبیاں دم توڑ گئی ہیں۔ الغرض پشاور کے آئینے میں آج جتنے عکس بھی دکھائی دے رہے ہیں وہ سب کے سب ایک دوسرے میں گم ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ”آئینہ عکس میں عکس آئینہ بردار میں گم“ ہو چکا ہو بلکہ یہ صورتحال تو دما دم مست قلندر جیسی ہے کہ جس کا جتنا دل چاہتا ہے پشاور کے وسائل کو لوٹ رہا ہے اُور ”پشاور کے پرسان ِحال (یہاں سے منتخب ہونے والے سیاسی نمائندے)“ بھی خاموش ہیں۔ ”آئینہ عکس اُور پس آئینہ بھی مست .... پوشیدہ مست خواب ہویدا‘ بھی مست مست (جاوید صبا)۔“

.....





Unmatched love for Peshawar

 پشاور شناسی

.... گھاس ’اِک‘ قبر پر کچھ اُور ہری لگتی ہے!

پشاور کی محبت میں سرشار ”رحیم اللہ یوسفزئی“ کی وفات (نو ستمبر دوہزاراکیس) پر صرف اُن کے ہم پیشہ (قلم قبیلہ) ہی افسردہ نہیں بلکہ پشاور شناسوں کی وہ تعداد میں غمزدہ ہے‘ جو صحافت کے شعبے میں سند کا درجہ رکھنے والے ’یوسفزئی‘ کے پشاور سے دلی تعلق اُور مخصوص نرم لہجے میں پشاور سے اخلاص و محبت کے اظہار پر مبنی خیالات سے آگاہ تھے۔ یادش بخیر‘ شمال مغربی سرحدی صوبے (حال خیبرپختونخوا) میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے جماعت اسلامی‘ تحریک جعفریہ‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن‘ جماعت اہلحدیث اُور جمیعت علمائے پاکستان پر مبنی دینی جماعتوں کا اتحاد سال 2002ءمیں قائم ہوا‘ جنہیں صوبائی حکومت بنانے کا موقع ملا تو پشاور سمیت دیگر اضلاع کے لئے مختص ترقیاتی وسائل وزیراعلیٰ کے آبائی حلقے میں تعمیروترقی پر خرچ ہونے لگے۔ اِس ناانصافی کے خلاف ’پشاور بچاو¿ تحریک‘ کا محاذ بنایا گیا اُور اِس کی روح رواں رحیم اللہ یوسفزئی نے صوبائی دارالحکومت کو اُس کا جائز حق دلانے کے لئے دامے‘ درہمے‘ سخنے مدد کی اُور پیش پیش رہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی (پیدائش 10 ستمبر 1954ئ) ضلع مردان کے گاو¿ں شموزئی میں پیدا ہوئے۔ مادری زبان پشتو (وہبی) لیکن اُردو اُور انگریزی پر یکساں (کسبی) عبور رکھتے تھے جبکہ ہندکو زبان کے چند الفاظ کی ادائیگی اُن کے منہ سے بہت اچھی لگتی بالخصوس جب وہ مخصوص دھیمے لہجے میں پشاور کے اصل وارثوں کی زبان (ہندکو) میں ’لالے دی جان‘ کہتے تو یہ درحقیقت مذاق نہیں ہوتا بلکہ وہ پشاوریوں کی نرم مزاجی اُور اِن کے ہاں پائے جانے والے عمومی ادب و احترام کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہوتے کہ جس میں ہر چھوٹے بڑے کو اُس کے اصل نام کی بجائے اچھے و معروف القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ ہندکو زبان کے علاو¿ہ شاید ہی دنیا کی کسی دوسرے زبان میں عمومی بول چال اِس قدر ادب و تعظیم کے دائرے یا مدارج رکھتی ہو لیکن چونکہ اب اہل پشاور کے لئے ہندکو زبان اُتنی ہی اجنبی بن چکی ہے جتنی یہاں آباد ہونے والی دیگر اقوام کی اکثریت کے لئے ہے‘ اِس لئے بات بات پر ’لالے دی جان‘ اُور ’قربان جاواں‘ جیسے صیغے روزمرہ بول چال کے دوران سننے میں نہیں آتے۔ ’رحیم اللہ یوسفزئی‘ کی ’علم جو‘ طبیعت اُور ’علمی اضطراب‘ نے اُنہیں صحافت کی دنیا میں کامیاب و بلند مرتبے پر فائز کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی مادری زبان پشتو کو بھی سطحی نہیں بلکہ انتہائی گہرائی سے جانتے تھے اُور کسی ایک لفظ کی تہہ تک جانے میں تحقیق کو الجھنے یا بے نتیجہ چھوڑنے کے قائل نہیں تھے۔ اخبار کے صوبائی دفتر میں مدیرت (ریزیڈنٹ ایڈیٹر) کے طور پر فائز ہونے کی وجہ سے اکثر خبروں کے معیار اُور اُن میں استعمال ہونے والی اصطلاحات پر نظر رکھتے۔ ایک مرتبہ راقم سے محرم الحرام کی مناسبت سے تحریر خبر میں لفظ ’امام بارگاہ‘ سے متعلق سوالات پوچھے اُور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ’امام بارگاہ‘ اُور ’امام باڑہ‘ کی وجہ تسمیہ کیا ہے‘ یہ الفاظ کب سے رائج ہیں اُور مختلف ثقافتوں میں اِس عبادت گاہ کے مختلف نام کیا رائج ہیں۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے کبھی بھی سیکھنے کا عمل ترک نہیں کیا اُور یہی وجہ تھی کہ جب تک اُن کے لوگوں سے ملنے یعنی بات چیت سے علم کے حصول کا سلسلہ جاری رہا‘ جو اُن کی علالت کے باعث آخری پانچ چھ ماہ صرف ٹیلی فونک رابطوں کی حد تک رہا اُور پھر دو ماہ اِس سے بھی محدود ہو گیا تھا تو اِس دوران اُنہوں نے لکھنے لکھانے کا عمل ترک دیا حالانکہ قوی الحافظہ تھے اُور مشق بھی خوب تھی۔ اُن کی آخری تحریر وفات سے قریب ڈھائی مہینے قبل ’دی نیوز‘ میں شائع ہوئی تھی۔ 

مرحوم و مغفور ”رحیم اللہ یوسفزئی“ صرف صحافتی ہی نہیں بلکہ سیاست کے شاہسوار بھی تھے۔ پاکستان اُور افغانستان کی قوم پرست جماعتیں و مذہبی حلقوں میں یکساں مقبول رہے اُور اگرچہ اپنی نگارشات میں صحافتی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیرجانبداری اُور سچائی کے جملہ پہلوو¿ں کے بیان پر مبنی توازن برقرار رکھتے لیکن اُن کے سیاسی جھکاو¿ کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا تھا۔ دانشور اِس قدر تھے کہ کسی بھی قوم پرست جماعت کو اپنی دیانتدارانہ صحافتی خدمات کی وجہ سے ملنے والی حیثیت کا فائدہ اُٹھانے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ یہی صحافیانہ ایمانداری‘ تجربہ اُور مہارت اُن کی کل کمائی (اثاثہ) تھا جسے اُنہوں نے آخری دم تک ہاتھ سے جانے نہیں دیا اُور اِس حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جاننے والوں کی اکثریت اُن کی کامیاب زندگی کی معترف ہے اُور اُن سے دوستی و تعلق پر افتخار محسوس کرتی ہے۔ 

رحیم اللہ یوسفزئی کو پشاور سے اپنے تعلق پر ہمیشہ فخر رہا اُور اُن کے ہاں پشاور کا قرض اُور اِس کی محبت کے تقاضے نبھانے کی کوششیں بھی ہر دور میں جاری رہیں جو ایک ایسا وسیع عنوان ہے جس کا احاطہ کسی ایک تحریر میں ممکن نہیں۔ آپ نہ صرف خود پشاور کے شیدائی تھے بلکہ پشاور سے محبت اُور اِس جذبے کی قدر کرنے والوں کی حمایت اُور اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے میں مصلحت سے کام نہیں لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اہل محبت کے درجات بلند سے بلند فرمائے اُور مرحوم کے قرابت داروں‘ دوست‘ احباب‘ عزیزواقارب اُور بالخصوص ایوان ہائے صحافت (پشاور پریس کلب) اُور خیبریونین آف جرنلسٹس کے افسردہ اراکین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ دنیا کی حقیقت ہی یہی ہے کہ یہاں حیات کی محافظ موت ہے اُور موت کوئی ایسی حالت نہیں جو زندگی سے کم خوشگوار تجربہ ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اِسے یوں زندگی کے بعد نہ رکھا جاتا جو درحقیقت ایک انعام ہے‘ اُن ہستیوں کے لئے جو اپنی دنیاوی تجربہ گاہ میں اپنی زندگیاں حق گوئی کی نذر کرتے ہوئے امربالمعروف اُور نہی عن المنکرات (حی علی خیر العمل) کی عملاً تفسیر بنتے ہیں۔ ”زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے .... گھاس اِس قبر پر کچھ اُور ہری لگتی ہے! (سلیم احمد)“

رحیم اللہ یوسفزئی کی پشاور سے محبت کو سلام ہے جنہوں نے پشاور سے تعلق کو مضبوط کیا اُور یہاں ایک درِدولت (گھر) کی تعمیر کی صورت اپنی آنے والی نسلوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ پشاور سے اپنا تعلق بنائے رکھیں‘ جو یقینا ایسا ہی کریں گے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کو لاتعداد اشکبار آنکھوں کے سامنے 10 ستمبر 2021ءکے روز (آبائی گاؤں کاٹلنگ) میں سپردخاک کیا گیا‘ آسمان صحافت کے اِس درخشاں  ستارے کو آسودہ خاک کرتے ہوئے اُن کے چہرے کا رخ مغرب کی طرف موڑ دیا گیا‘ جو پشاور کی جغرافیائی سمت ہے۔ ”روز کے روز بدلتا ہوں میں خود اپنا جواز .... زندگانی میں تجھے حل نہیں ہونے دیتا (سعید اللہ قریشی)۔“

....





Sunday, September 12, 2021

Peshawar odds and evens!

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: حد بَراری

صوبائی دارالحکومت کو تجاوزات سے پاک کرنے کا عزم پھر سے جاگ اُٹھا ہے اُور اِس سلسلے میں کئے گئے ”سخت فیصلے“ کی روشنی میں عملی اقدامات کا آغاز 11ستمبر سے کر دیا گیا ہے جس کی تفصیلات میں ضلعی انتظامیہ (کمشنر پشاور) کی ہدایات پر اندرون شہر کے 17 مرکزی بازاروں کا انتخاب کر کے اُن کی ”حد براری“ اَزسرنو کرنے کا حکم شامل ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ”حد براری“ اراضی کی پیمائش کے اُس خاص عمل (طریقے) کو کہتے ہیں جس میں کسی مقام پر سرکاری و نجی اراضی میں تمیز کی جاتی ہے۔ دونوں کے رقبے الگ الگ وضع کئے جاتے ہیں اُور یوں اراضی کے دونوں فریق (سرکار اُور نجی مالکان) کی حدود کا تعین کر دیا جاتا ہے جس سے گزرگاہیں‘ راہداریاں‘ شاہرائیں‘ فٹ پاتھ اُور نالے نالیوں پر قائم تجاوزات عیاں (ظاہر) ہو جاتی ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں‘ چند برس قبل بھی اِسی قسم کی ایک مشق کی گئی تھی جس کے ذریعے تجاوزات کی نشاندہی بھی ہوئی لیکن اِس کے بعد تجاوزات ختم کرنے کا سلسلہ خاطرخواہ عزم و استقامت سے جاری نہ رکھا جا سکا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’زمینی حقائق (حق براری)‘ کی روشنی میں جو تجاوزات مسمار کی گئی تھیں وہ بھی راتوں رات دوبارہ تعمیر کر دی گئیں بلکہ کئی مقامات پر پہلے سے زیادہ رقبے پر تجاوزات پھیل گئیں اُور یوں پشاور کی خدمت کا جذبہ ذاتی مفادات کے سامنے سرنگوں ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ پشاور کا ایک مطلب انتخابی حلقہ بندیاں بھی ہیں جن سے سبھی سیاسی و غیرسیاسی‘ قوم پرست و مذہبی جماعتوں کے سیاسی مفادات پر مبنی اپنا اپنا نکتہ نظر ہے یعنی پشاور کو ہر کوئی اپنے زاویئے سے دیکھ رہا ہے۔ ”اپنی اپنی مصلحت ہے‘ اپنا اپنا ہے مفاد .... ورنہ اِس دنیا میں کب کوئی کسی کے ساتھ ہے (ریئس رامپوری)۔“

پشاور شہر کے 17 بازاروں میں فی الوقت ’حد براری‘ کا درپیش مرحلہ ’ٹاؤن ون‘ پر مشتمل انتظامی بندوبست سے متعلق ہے اُور اِس عمل کی تکمیل محکمہ مال (ریونیو سٹاف) کی زیرنگرانی ’ٹاؤن ون‘ کی انتظامیہ سرانجام دے رہی ہے جس کے لئے تشکیل کردہ ٹیم میں ٹاو¿ن ون کی آرکیٹیکٹ (نقشہ نویس) فاخرہ گل کو بھی بطور خاص شامل کیا گیا ہے تاکہ ”حدبَراری“ کے عمل میں پرانے نقشہ جات کی مدد سے نئے نقشہ جات تخلیق کئے جا سکیں۔ کسی بازار کی ”حد بَراری“ کرنے کا روائتی طریقہ بیک وقت ’اِنتہائی مشکل‘ اُور ’اِنتہائی آسان‘ ہو سکتا ہے۔ مشکل اِس صورت میں کہ اگر قدم قدم پر پیمائش کی جائے تو ظاہر سی بات ہے کہ تاجر تنظیمیں خاموش تماشائی نہیں رہیں گی بلکہ ہر ممکنہ مزاحمت کریں گی‘ کہیں تعاون نہیں کیا جائے گا یا تاخیری حربے اختیار کئے جائیں گے تاکہ ”حدبراری“ ناکام ہو اُور یہاں اندیشہ نقص امن کا بھی ہے۔ دوسری طرف ’حد براری‘ کا عمل اِس طرح سے آسان ہو سکتا ہے کہ کسی بازار کے آغاز و اختتام اُور اُس کے وسط کا تعین کرنے کے بعد سڑک کی پیمائش بموقع فٹ پاتھ اُور نکاسی آب کے نظام کر لی جائے اُور اِس پیمائش کے مطابق تاحد نظر ’سیدھی لکیر‘ کھینچی جائے تو تجاوزات کی نشاندہی ازخود ہوتی چلی جائے گی۔ 

”حد براری“ کے ذریعے تجاوزات کا تعین (نشاندہی) ہونے کے بعد اِن کے خلاف کاروائی کا مرحلہ قطعی آسان نہیں ہوگا اُور یہی سب سے زیادہ ضروری و مشکل مرحلہ ہے کیونکہ صرف تاجر ہی نہیں بلکہ بجلی اُور ٹیلی فون کے کھمبے راہ میں حائل ہوں گے چونکہ پشاور شہر کی حدود میں رہائشی و تجارتی مراکز کے درمیان تمیز نہیں رہی اُور گلی گلی‘ محلے محلے بازار بن گئے ہیں جن کے خلاف کاروائی کی صورت وہاں کے رہائشیوں کے معمولات ِزندگی متاثر ہوں گے اُور تاجر تنظیمیوں کے نمائندے ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی بازاروں سے ملحقہ رہائشیوں کو اشتعال دلائیں گے کہ وہ تجاوزات کے خلاف کاروائیوں پر احتجاج کریں کیونکہ اِس سے اُن کی بجلی و ٹیلی فون کی خدمات سمیت آمدورفت وقتی طور پر متاثر ہوئی ہوں گی۔ توجہ طلب ہے کہ اگر پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنا ہے اُور پشاور تجاوزات کو تجاوزات سے پاک دیکھنا ہے تو اِس کے لئے ہر خاص و عام‘ ہر منتخب و غیرمنتخب نمائندے اُور ہر متعلقہ و غیرمتعلقہ سرکاری ادارے کو اپنی اپنی بساط کے مطابق برداشت و تعاون کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ دوسری کوئی ایسی صورت نہیں کہ جادو کی چھڑی گھماتے ہی تجاوزات ختم ہو جائیں۔ ترجیح پشاور ہونا چاہئے۔ اہل پشاور کو ضلعی و بلدیاتی اہلکاروں سے ہر ممکنہ حد سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ تجاوزات ختم کرنا نہیں بلکہ اِن کی موجودگی مستقل مسئلہ ہے اُور انسداد ِتجاوزات کے دوران پیش آنے والی تھوڑی سی تکلیف اگر کھلے دل سے برداشت کر لی جائے تو یہ بہت بڑی مشکل و پریشانی کا خاتمہ ثابت ہوگی۔ 

مشتری ہوشیار باش۔ اہل پشاور کو تاجر تنظیموں یا کسی بھی سیاسی جماعت کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہئے جو ”حدبراری“ اُور تجاوزات کی پس پردہ مخالفت کر رہی ہے اُور اِس مرتبہ بھی تجاوزات کو ختم کرنے کی اِس منظم کوشش (حد براری) کو ناکام بنانے کے لئے متحرک ہو چکی ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ایک مرتبہ پھر کمشنر پشاور کو تبدیل کر دیا جائے جنہیں ماضی میں بھی تبدیل کرنے کی وجہ سے ’حدبراری‘ اُور ’تجاوزات کے خلاف کاروائیاں (آپریشن)‘ بھی جہاں تھا وہیں رک گئی تھیں۔ اندرون شہر رہنے والوں کی اکثریت کو اُمید ہے اِس صوبائی حکومت اِس مرتبہ مصلحت کا شکار نہیں ہوگی اُور تجاوزات کے خاتمے کی صورت اہل پشاور کی توقعات پر پورا اُترے گی۔

صوبائی حکومت اُور ضلعی و بلدیاتی انتظامیہ (کمشنر و ٹاؤن ون پشاور) جیسے بااختیار و مخلص فیصلہ سازوں کے لئے چند تجاویز بصورت معروضات عرض ہیں۔

 حدبراری کے دوران ’گلوبل پوزیشنگ سسٹم (GPS)‘ کا استعمال کیا جائے جو ایک خلائی سیاروں سے لئے گئے نقشہ جات پر منحصر ہوتا ہے اُور اگر کسی موقع پر (توقع ہے کہ) تاجر تنظیمیں ’حدبراری‘ کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گی تو ایسی صورت میں ’جی پی ایس‘ کے ذریعے خلائی سیاروں کی مدد سے لی گئی تصاویر اُور اُن کی مدد سے بنائے گئے نقشہ جات نہ صرف فی الوقت کسی ممکنہ قانونی کاروائی میں مددگار ثابت ہوں گے بلکہ اِن کا استعمال مستقبل کی شہری منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) اُور پانی‘ بجلی‘ گیس و ٹیلی فون جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ ’جی پی ایس‘ کی مدد سے ہر دکان‘ سڑک‘ فٹ پاتھ اُور نالے نالیوں کی درست پیمائش بھی کمپیوٹروں کے ذریعے ممکن ہے جس میں معمولی غلطی کو عملی (فزیکل) پیمایش سے درست کیا جا سکتا ہے۔

 حد براری کے ساتھ ٹاؤن ون اہلکاروں کو اِس بات کی ذمہ داری بھی سونپ دینی چاہئے کہ وہ پشاور کے ہر بازار میں دکانوں کے شمار‘ اِن کے کاروبار کی نوعیت (تھوک و پرچون)‘ اِن کے گودام‘ ذخیرہ شدہ مال کی نوعیت پر مبنی کوائف مرتب کریں اُور اِن کوائف کو بھی پشاور کے ’ڈیجیٹل نقشے (Digital Mapping)‘ پر ثبت کر دیا جائے۔ تکنیکی طور پر اِس عمل کو ’جیوگرافل انفارمیشن سسٹم (GIS)‘ کہا جاتا ہے اُور اگر کمشنر پشاور یا ٹاؤن ون کے پاس ’جی آئی ایس‘ جیسی تکنیکی سہولت یا تربیت یافتہ افرادی قوت موجود نہ ہو تو جامعہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کی دیگر کئی سرکاری و نجی جامعات میں ’جی آئی ایس‘ کے شعبے موجود ہیں جہاں کے اساتذہ اُور زیرتعلیم طلبا و طالبات کے لئے عملی تجربات کرنے (سیکھنے سکھانے) کا یہ نادر موقع ہو سکتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ’GPS‘ اُور ’GIS‘ جیسے امکانات سے استفادہ کرنے کی بدولت نہ صرف ”غیرمتنازعہ حدبراری“ ممکن ہو گی بلکہ پشاور کے بازاروں کو تجاوزات سے پاک کرنے کی کوشش پائیدار بھی ثابت ہو گی کیونکہ معاملہ گھمبیر ہے‘ کثیرالجہتی ہے کہ صرف بازار ہی نہیں بلکہ گلی کوچوں میں بھی تجاوزات قائم ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ پھولوں کا شہر اَب خیبرپختونخوا میں تجاوزات کا مرکزی شہر کہلاتا ہے! مائل ضبط بھی آمادہ فریاد بھی ہے

دل گرفتار ِمحبت بھی ہے‘ آزاد بھی ہے! (عرش ملسیانی)۔

....

Friday, September 10, 2021

Remembering Rahimullah Yusufzai

 ژرف نگاہ.... شبیرحسین اِمام

نایاب ہستیاں: رحیم اللہ یوسفزئی

صائب الرائے تجزیہ کار اُور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی (پیدائش دس ستمبر اُنیس سو چون۔ وفات نو ستمبر دوہزاراکیس) دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ آپ ایک عرصے سے سرطان (کینسر) کے مرض میں مبتلا تھے‘ جس کا مقابلہ کرتے ہوئے جانبر نہ ہو سکے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔ 

اَفغانستان میں روس (سوویت یونین) کی فوجی مداخلت (24 دسمبر 1979ءسے 15 فروری 1989ئ) کے دوران اُور اِس فوج کشی کو ختم کرنے کے لئے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک کا دور کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ موبائل فون اُور سوشل میڈیا جیسی ترسیلی سہولیات کا حامل نہیں تھا۔ خبر نگاری تجزیہ کاری سے زیادہ مشقت و محنت طلب کام اُسے ارسال کرنا ہوتا تھا جس کے لئے ایڈروڈز کالج کے سامنے پوسٹ آفس میں غیرملکی اداروں کے لئے کام کرنے والے صحافیوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں جو اپنے اپنے دفاتر ’وائر‘ کے ذریعے خبریں اُور ڈرم اسکینگ کے ذریعے تصاویر بھیجتے تھے۔ اُس دور میں جبکہ گوگل (google) کے ذریعے تلاش ممکن نہیں تھی اُور عالمی معیار کے مطابق صحافت کرنے سے بھی ہر کس و ناکس آشنا نہیں تھا تب رحیم اللہ یوسفزئی نے کراچی‘ اسلام آباد اُور پشاور کے اخبارات میں کام کرنے کے تجربے‘ تعلق اُور موقع سے استفادہ کرتے ہوئے افغان امور کے بارے میں اِس انداز سے خبرنگاری کی کہ اُن کے تجزئیات کی روشنی میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی کے خدوخال درست (فائن ٹیوننگ) کئے جاتے تھے۔ اب جبکہ ہر طرف ’صحافی‘ دکھائی دیتے ہیں اُور پشاور کے ایوان ہائے صحافت کی رونقیں عروج پر ہیں تو خیبرپختونخوا میں صحافتی اقدار کو متعارف اُور صحافتی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے میں بھی رحیم اللہ یوسفزئی کے کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا جن کا ثانی نہ ہے اُور نہ ہی کبھی ہوگا۔ 

افغانستان کے عسکریت پسند رہنماؤں بشمول القاعدہ تنظیم کے سعودی عرب نژاد سربراہ اسامہ بن لادن اُور افغان طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا عمر سے بات چیت کے ذریعے رحیم اللہ یوسفزئی نے عالمی شہرت پائی۔ ایک وقت تھا جب مغربی ذرائع ابلاغ اُور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے علاو¿ہ غیرملکی سفارتخانوں کے لئے رحیم اللہ یوسفزئی سے زیادہ افغان امور سے متعلق صائب الرائے شخص کوئی دوسرا نہیں تھا اُور یہی وہ دور تھا جب رحیم اللہ یوسفزئی درجنوں ملکی و غیرملکی نشریاتی و اشاعتی اداروں کے لئے باقاعدگی سے اُور بے تھکان لکھتے تھے لیکن صحافت سے اُن کی وابستگی اُور لگاو¿ صرف ملازمت ہی کی حد تک محدود نہیں رہا اُور وہ دیگر صحافیوں کی طرح روایت پسند (لکیر کے فقیر) بھی نہیں رہے بلکہ اُنہوں نے صحافت میں آنے والی تبدیلیوں اُور ابلاغ کے جدید ترین وسائل (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے برق رفتار اسلوب پر نظر رکھی اُور سنسنی خیزی کی بجائے ہمیشہ تحمل کو اہمیت دی۔ فوری خبر کی دور میں سچائی و غیرجانبداری پر سمجھوتہ نہیں کیا اُور صحافت کی چاشنی‘ تازگی و اقدار کے بہرصورت علمبردار رہے اُور تنقیدی صحافت سے الگ رہے کیونکہ وہ شروع دن سے جانتے تھے کہ تنقیدی نظریات میں کوئی فلسفیانہ سچائی نہیں ہوتی کہ جسے مجرد فلسفیانہ طور پر ثابت کیا جا سکے اُور یہی نظریہہ اُن کی پوری عملی زندگی پر حاوی اُور صحافتی کامیابی کا نچوڑ ہے۔

رحیم اللہ یوسفزئی مرحوم اپنی ذات میں ایک جامعہ تھے۔ اُن کے علاو¿ہ راقم کو کسی ایسے ’ریذیڈنٹ ایڈیٹر‘ کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا جو اپنی ٹیم کے ہر رکن کی کمزوریوں اُور صلاحیتوں (پوٹینشل) کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس کی انفرادی اُور پوری ٹیم کی اجتماعی تربیت کا اہتمام نہ کرتا ہو۔ خبرنگاری میں عالمی صحافتی اسلوب کے قواعد و ضوابط اُور انگریزی لغت کے مطابق الفاظ کا درست انتخاب و موزوں استعمال شاید ہی اُن کے علاؤہ کسی دوسرے کے ہاں اِس قدر اہتمام کے ساتھ ملے۔ صرف 2 مثالوں سے اُن کی باریک بینی اُور انگریزی زبان کے قواعد کا لحاظ رکھنے میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا کہ رپورٹروں کی ہفتہ وار میٹنگ میں وہ اکثر انگریزی زبان میں شخصیات‘ مقامات یا القابات کا تعین کرنے والے (determiner) ’The‘ اُور سنگل اُور ڈبل ’کوٹیشن مارکس (Quotation marks)‘ کے درست استعمال کو مثالوں سے بیان کرتے جو بظاہر چھوٹی بات لگتی ہے لیکن جب ہم انگریزی صحافت کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلی درست چیز اِس زبان کی قواعد و ضوابط پر عمل ہونا چاہئے۔ رحیم اللہ یوسفزئی بار بار غلطی کرنے پر بار بار اصلاح کرتے اُور یہ بھی آپ ہی کا خاصہ (بڑا پن) تھا کہ ناراضگی یا غصے کا اظہار کبھی بھی آپ کے چہرے یا خطاب سے عیاں نہ ہوتا۔

رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ دو برس چند ماہ ایک ہی ادارے (اخبار دی نیوز) میں کام کرنے کے دوران متعدد مرتبہ اُن کے ہمراہ افغانستان سفر کرنے کا اتفاق ہوا‘ جن سے متعلق یاداشتوں کو چند سطور میں بیان کرنا ممکن نہیں‘ البتہ صرف ایک واقعہ قارئین کو اُن کی شخصیت کے ایک خاص پہلو سے روشناس کرانے اُور رحیم اللہ یوسفزئی کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔

رحیم اللہ یوسفزئی کی محمد عمر نامی شخص سے قندھار میں پہلی ملاقات اُن کے ملا عمر بننے یعنی تحریک طالبان (افغانستان) کی بنیاد رکھنے سے کئی برس پہلے ہوئی تھی۔ فروری 1995ءمیں تحریک طالبان افغانستان کے جنوب مغربی صوبوں میں قئام کی گئی جن ملا عمر 35 برس کے تھے اُور ملاعمر نے اُنہیں بتایا تھا کہ وہ اُن دنوں مدرسے میں زیرتعلیم تھے لیکن روس (سوویت یونین) کے خلاف جہاد کے لئے اُنہوں نے مدرسے میں جاری تعلیمی عمل کو خیرباد کہا اُور اپنے لئے ’طالب‘ کا لقب پسند کیا‘ جس کا مطلب علم کا متلاشی ہوتا ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کی ایک مرتبہ نہیں بلکہ ملا عمر سے کئی ملاقاتیں رہیں اُور چونکہ ملا عمر تصویر نہیں بنواتے تھے اُور نہ ہی وہ دور ایسا تھا کہ جب ہر شخص کی جیب میں کیمرے والا موبائل ہوا کرتا تھا۔ دنیا ملا عمر کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی اُور اِس میں مدد کرنے کے لئے رحیم اللہ یوسفزئی ہی واحد ایسی غیرملکی شخصیت تھے‘ جن کا اُن سے نہ صرف ملاقاتوں بلکہ بعدازاں بھی رابطوں کا سلسلہ رہا۔ 

روس کی شکست کے بعد ایک مرحلہ وہ آیا جب امریکہ اُور اتحادی افواج نے افغانستان پر فوج کشی کر دی اُور یہ وہ وقت تھا جب رحیم اللہ یوسفزئی دل کے عارضے میں مبتلا تھے اُور آپ نے خاص دفتری امور کے علاو¿ہ دیگر معمولات ترک کر دیئے تھے۔ ڈاکٹروں نے زیادہ مشقت حتی کہ ہوائی جہاز کے سفر سے بھی منع کیا تھا کہ اُنہیں ملا عمر کی طرف سے ملاقات کی خواہش کا پیغام ملا تو اُن کے چہرے پر سنجیدگی مزید بڑھ گئی تھی جس سے متعلق پوچھنے پر بتایا کہ اگرچہ میرا ہوائی سفر کرنا میری زندگی کے لئے خطرہ ہے لیکن مجھے کوئٹہ اُور وہاں سے براستہ سڑک قندھار جانا پڑے گا لیکن ”آپ کی صحت اتنا طویل اُور پرخطر سفر کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی؟“ میرے اِس سوال پر اُنہوں نے کہا کہ ”ایک وقت تھا جب دنیا ملاعمر سے بات کرنا چاہتی تھی اُور اُس وقت اُنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا کہ میں اُن کے موقف کو پوری ایمانداری سے پیش کروں گا اُور اب جبکہ دنیا اُن سے کترا رہی ہے اُور میں خرابی صحت کے جواز پر اُن سے ملاقات نہ کروں تو کہیں میری صحافتی ایمانداری اُور غیرجانبداری سے متعلق اُن کی رائے تبدیل نہ ہو جائے اُور پھر وہ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر ہوائی و زمینی سفر پر گئے جو اپنی جگہ سیکورٹی خطرات سے بھی بھرپور تھا اُور ایک ایسے وقت میں جبکہ خلائی سیاروں اُور ڈرون طیاروں سے ہر راہداری کی نگرانی ہو رہی تھی اُور رحیم اللہ یوسفزئی جیسی شخصیات کے پیچھے سائے کی طرح خفیہ اِداروں کے اہلکار جڑے رہتے تھے تو افغانستان کا دورہ اُن کی مہم جو طبیعت کا عکاس تھا۔ وہ ایک نہایت ہی مشکل پسند اُور مستقل مزاج انسان تھے۔

اہل خانہ اُور اہل خاندان کے لئے آسائشوں کا بندوبست کیا لیکن اپنی بودوباش انتہائی سادہ اُور متوازن رکھی۔ وہ ترک دنیا کی عجیب و غریب مثال تھے کہ بیماری کی شدت کے آخری چند ماہ (دوہزاراکیس کے آغاز سے 9 ستمبر تک) کے علاوہ اُنہوں نے کبھی بھی لکھنا ترک نہیں کیا۔ دی نیوز میں اُن کی آخری تحریر ’21 جون 2021ئ‘ کے روز شائع ہوئی جو ’نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی‘ سے متعلق تھی جبکہ ہفتہ وار اشاعت ’دی نیوز آن سنڈے (TNS)‘ کے لئے اُن کی آخری تحریر ’7 فروری 2021ئ‘ کے روز شائع ہوئی جو عسکریت پسند رہنما منگل باغ کی ہلاکت سے متعلق ماضی و حال کی اطلاعات کے جائزے پر مشتمل تجزیہ تھا۔ 

روزنامہ آج کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ رحیم اللہ یوسفزئی کی تحریروں کو ’دی نیوز‘ سے ترجمہ اُور تلخیص کرکے شائع کیا جاتا رہا‘ جن کے لئے اُنہوں نے ’دامن تاتارا سے‘ کا عنوان منتخب کیا تھا۔ یہ تراجم روزنامہ آج کی ویب سائٹ (dailyaaj.com.pk) کی ذیل میں کالم نگاروں (columnisit) کے شعبے میں رحیم اللہ یوسفزئی (rahimullah-yousafzai) کی تلاش سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کا قومی اعزاز ”ستارہ امتیاز“ عالمی سطح پر نمایاں خدمات یا ملک کے لئے سفارتکاری کرنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی بھی ”ستارہ امتیاز“ کے حامل تھے‘ جن کی رحلت سے ایک ستارہ غروب ہوا ہے اُور اِس پر نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ قومی سطح پر صحافتی حلقے اداس ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے لیکر سیاسی جماعتوں کے قائدین اُور صحافیوں کی قومی نمائندہ تنظیم (فیڈریل یونین آف جرنلسٹس) کی جانب سے تعزیتی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ التماس دعا ہے کہ قارئین اوّل آخر درود شریف (صلوة) کے ساتھ ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اُور تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت (فاتحہ) کا ہدیہ ایصال ثواب کریں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم و مغفور کے درجات بلند سے بلند فرمائے اُور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)۔

....


Tuesday, September 7, 2021

Schools are calling!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پکار سے پکار تک

شعبہ تعلیم‘ صنعت و حرفت اُور صوبائی تجارتی و اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شہریار جلیل نے توجہ دلائی ہے کہ روزنامہ آج کے اِنہی صفحات میں شائع ہونے والی سطور بعنوان ”ہنگام سے ہنگامے تک (چھ ستمبر دوہزاراکیس)“ کے زیرنظر پیش کردہ معروضات میں سرکاری تعلیمی اداروں (سکولز) میں ”سیکنڈ شفٹ“ شروع کرنے کا جو ”بنیادی مقصد“ بیان کیا گیا‘ وہ جاری وبائی ہنگامی صورتحال میں احتیاطی تدابیر سے متعلق نہیں بلکہ اِس سے مقصود یہ ہے کہ سرکاری عمارتوں (انفراسٹکچر) اُور اِن میں موجود سہولیات سے ”زیادہ استفادہ“ کرتے ہوئے طلبا و طالبات کو سکولوں کے عمومی معمولات (صبح کے علاوہ) دوسرے دورانیئے (سہ پہر کے اوقات) میں بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے۔“ تعلیم سے متعلق صوبائی فیصلہ سازوں کے لئے ”25 لاکھ“ ایسے بچے بچیاں درد ِسر ہیں جو کسی بھی تعلیمی ادارے سے استفادہ نہیں کر رہے اُور چونکہ بنیادی تعلیم آئینی ذمہ داری ہے اِس لئے صوبائی حکومت نہ صرف ہر ’تعلیمی سال‘ کے آغاز پر نئے عزم اُور جذبے سے ’داخلہ مہم‘ شروع کرتی ہے بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے لیکن یہ اضافہ حسب آبادی (حسب ِضرورت) نہیں ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ (kpese.gov.pk) کے مطابق سال 2021ءکی داخلہ مہم جسے ”پکار رہی ہے سکول کی گھنٹی“ کا نام دیا گیا ہے جبکہ داخلہ مہم کو کامیاب بنانے کے علاوہ ایک الگ ضمنی حکمت ِعملی ’سرکاری سکولوں میں ’ڈبل شفٹ‘ شروع کرنے کی ہے جس کے پہلے مرحلے میں 120 سرکاری (76 بچے اُور 44 بچیوں) کے سکولوں میں ڈبل شفٹ شروع کی گئی ہے جبکہ ضرورت بچیوں کے لئے زیادہ سکولوں کی ہے کیونکہ سکولوں سے استفادہ نہ کرنے والوں میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں (پانچ سے سترہ سال عمر کی بچیوں) کی تعداد زیادہ ہے۔ 

خیبرپختونخوا میں تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی و قانون سازی امتیازی حیثیت (شان) کی حامل ہے‘ جس کئی قومی اعزازات حاصل ہیں جیسا کہ خیبرپختونخوا ملک کا وہ پہلا صوبہ ہے جس نے سکول بیگ کے وزن (کتابی بوجھ) سے متعلق قانون سازی کی اُور ابتدائی درجے (پری گریڈ ون) سے لیکر گریڈ 12 (بارہویں جماعت) تک کے سکول بیگز کا وزن (بذریعہ قانون) مقرر کیا لیکن سکول بیگ وزن سے متعلق قانون کو صرف سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے مخصوص و محدود سمجھا گیا اُور یہی وجہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت سکول بیگ وزن سے متعلق صوبائی قانون پر عمل درآمد نہیں کر رہی لیکن اِس جرم (قانون کی خلاف ورزی) بارے اِن کی سرزنش بھی نہیں کی جاتی کیونکہ صوبائی فیصلہ سازوں (اراکین اسمبلی و اراکین صوبائی کابینہ) میں نجی تعلیمی اداروں کے مالکان یا شراکت دار شامل ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ شرح فیسوں سے لیکر سکول بیگز تک بات قواعد سازی یا قانون سازی سے زیادہ آگے نہیں بڑھتی۔ مفادات سے متصادم فیصلہ سازی کا یہ اختیار اپنی ذات میں خرابیوں کا مجموعہ ہے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ خوش آئند ہے کہ حسب ِقانون پہلی جماعت سے پہلے درجے (پری گریڈ ون) کے بچے بچی کے بستے (سکول بیگ) کا وزن ڈیڑھ کلوگرام‘ پہلی جماعت کا سکول بیگ 2.4 کلوگرام‘ دوسری جماعت 2.6کلوگرام‘ تیسری جماعت 3 کلوگرام بتدریج بڑھتے ہوئے 12ویں جماعت کے سکول بیگ کا وزن زیادہ سے زیادہ 7 کلوگرام ہونا چاہئے۔ یوں سکول بیگ کا وزن ڈیڑھ سے سات کلوگرام سے زیادہ ہونا قانون جرم ہے جبکہ سکول بیگ وزن سے متعلق عالمی اصول کسی طالب علم کے جسمانی وزن کا 10 فیصد مقرر ہے۔ پاکستان میں تدریس کے جدید عالمی تصورات کو لاگو کرنے والے ایسے نجی سکول بھی موجود ہیں جہاں بچوں کو کتابیں لانے لیجانے کی زحمت و مشقت (تکلیف) برداشت کرنا ہی نہیں پڑتی اُور کلاس رومز میں سکول انتظامیہ کی جانب سے کتابیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ نصابی کتب بچوں کے گھروں پر رہتی ہیں جن سے متعلق ’ہوم ورک (گھر میں کی جانے والی مشقیں اُور معمولات)‘ آن لائن ارسال کئے جاتے ہیں۔

سرکاری سکولوں سے متعلق ’اِصلاحاتی حکمت ِعملی‘ کی منظوری خیبرپختونخوا کابینہ کے 49 ویں اجلاس منعقدہ 27 جنوری 2021ءمیں دی گئی جس میں صوبائی فیصلہ سازوں نے اِتفاق کیا تھا کہ ”یکم ستمبر 2021“ سے ”سیکنڈ شفٹ سکولز“ کا اجرا کیا جائے اُور ایسا ہی ہوا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے جاری مالی سال 2020-21ءمیں شعبہ تعلیم کے لئے مختص سالانہ مالی وسائل میں 24 فیصد اضافہ کیا اُور صوبائی حکومت کا ارادہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران طالبات کے لئے 70 نئے سیکنڈری سکولز تعمیر کئے جائیں۔ مفت درسی (نصابی) کتب فراہم کی جائیں گی اُور حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے سرکاری سکولوں میں داخلے کو پُرکشش بنانے کے لئے پرائمری و سیکنڈری کی سطح پر طلبا و طالبات کو تعلیمی وظائف دیئے جائیں گے۔ یہ سب اچھی باتیں اپنی جگہ لیکن ہر سال داخلے سے محروم رہنے والوں کے بارے میں فیصلہ سازی‘ عمل اُور آبادی بڑھنے جیسی زمینی حقیقت کے درمیان توازن ہونا چاہئے۔

خیبرپختونخوا میں تحریک ِانصاف حکومت کا دوسرا دور ’اگست 2018ئ‘ سے جاری ہے۔ بچوں کے عالمی دن (20 نومبر 2018ئ) کے موقع پر خیبرپختونخوا کے ابتدائی و ثانوی تعلیم کے محکمے نے اعداد و شمار جاری کئے تھے جن سے معلوم ہوا کہ صوبے بھر میں 18 لاکھ (پانچ سے سترہ سال عمر کے) بچے بچیاں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اُور سکول نہ جانے والے اِن بچوں سے متعلق اعدادوشمار کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک جائزے (سروے) سے اخذ کئے گئے جن کی تفصیلات کے مطابق ”خیبرپختونخوا کی آبادی کا ”23 فیصد“ 5 سے 17 سال عمر کے بچے بچیوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں اگر 100فیصد مان لیا جائے تو اِس میں شامل 23 فیصد آبادی (64 فیصد بچیاں اُور 36 فیصد بچے) سکول نہیں جا رہے۔ یہاں یہ نکتہ بطور خاص توجہ لائق ہے کہ ’نومبر دوہزار اٹھارہ تک‘ 11 لاکھ 52 ہزار بچے بچیاں ایسے تھے جو کبھی بھی سکول نہیں گئے جبکہ 64 ہزار بچے بچیاں سکولوں میں داخل ہوئے لیکن وہ کسی نہ کسی مرحلے پر تعلیمی عمل سے علیحدہ ہو گئے اُور تعلیم کے دوران سکول چھوڑنے والوں میں طالبات (لڑکیوں) کی تعداد طلبا (لڑکوں) کے مقابلے زیادہ ہے۔ اگست دوہزار اٹھارہ میں مجموعی طور پر 34 فیصد بچے اُور 66 فیصد بچیاں تعلیمی نظام سے الگ تھے جبکہ پاکستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی دستاویز (معاہدے) پر دستخط کر رکھے ہیں اُور مذکورہ عالمی معاہدے پر دستخط کرنے والا پاکستان چھٹا ملک تھا جس نے ’12 نوبرم 1990‘ سے بچوں کے تعلیم و دیگر حقوق کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے لیکن کیا ملکی آئین اُور عالمی وعدے پر اِس کی روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے؟ نتیجہ خیال یہ ہے کہ تحریک ِانصاف کے دوسرے دور ِحکومت (اگست 2018) کے آغاز کے موقع پر خیبرپختونخوا میں سکولوں سے اِستفادہ نہ کرنے والے بچوں کی تعداد 18 لاکھ تھی جو سال 2021ءمیں بڑھ کر 25 لاکھ ہو چکی ہے یعنی 3 سال میں 7 لاکھ سکول نہ جانے والے بچے بچیوں کا اضافہ ہوا ہے لیکن اِن اعدادوشمار کا ماخذ (source) معلوم نہیں اُور نہ ہی اِن کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق یا تردید کی جا سکتی ہے۔ اگر آج یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پچیس لاکھ بچے جن کی عمریں پانچ سے سترہ سال ہیں اُور یہ کسی بھی سرکاری یا نجی تعلیمی اِدارے سے وابستہ نہیں تو اِس ”بڑھتی ہوئی تعداد“ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال تعلیمی اِداروں میں نئے داخلوں کی گنجائش کس قدر پیدا ہونی چاہئے اُور کیا ”سکینڈ شفٹ“ ہی واحد حل ہے‘ جس پر محکمہ تعلیم کی ساری توجہ اُور توانائیاں مرکوز ہیں!؟

....