Monday, July 31, 2017

July 2017: Mission Accomplished

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
دِلی مُرادیں!
پانامہ کیس کا فیصلہ نہ تو ’اَنجام‘ ہے اور نہ ہی ’سرانجام‘ بلکہ نئے مقدمات و تحقیقات کا ’نکتۂ آغاز‘ اور ’پاکستان‘ کی ’تشکیل نو‘ کا ’نادر موقع‘ قرار دیا جا رہا ہے جس کے بارے عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اِس سے آئین کی بالادستی زیادہ واضح ہوئی ہے لیکن اِس تاریخی فیصلے کے حقیقی ثمرات (نتائج) مارچ دوہزار اٹھارہ تک اُن ریفرنسیز (مقدمات) کے فیصلوں کی صورت سامنے آئیں گے‘ جنہیں عدالت عظمیٰ نے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو اِرسال کیا ہے۔ 

بدعنوانی کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کی جدوجہد کا آغاز مرحوم قاضی حسین احمد نے 31 سال قبل کیا جبکہ تحریک انصاف کی 21 سال سیاسی سرگرمیوں کا بنیادی نکتہ بھی یہی رہا کہ ’آزاد و شفاف عام انتخابات کے انعقاد اور بدعنوانیوں سے پاک طرزحکمرانی کے بناء پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔‘ پانامہ کیس فیصلے کو سیاسی فتح سمجھنے اور ’اِظہار تشکر‘ کرنے سے ایک قدم آگے‘ کیا تحریک انصاف اِس فیصلے کا استقبال اُور اِس سے ’بھرپور سیاسی فائدہ‘ اُٹھانے کی منصوبہ بندی رکھتی تھی؟ پانامہ کیس فیصلے کے بعد ’تحریک اِنصاف‘ کی سوچ آئندہ عام انتخابات کے لئے لائحہ عمل کیا ہے؟ 

سابق وزیراعظم کی نااہلی سے ’این اے ایک سو بیس (لاہور)‘ پر ہونے والے ’ضمنی انتخاب‘ کی تیاریاں کن مراحل سے گزر رہی ہیں! لیکن جب اِس بنیادی سوال کے ساتھ کہ ’کیا شمولیت اختیار کرنے والوں کا ماضی بھی دیکھا جاتا ہے‘ تو چیئرمین (سربراہ) ’پاکستان تحریک انصاف‘ نے ’ورچوئل اپوئٹمنٹ‘ میں سوال کا جواب سوال سے دیتے ہوئے کہا کہ ’’آئندہ عام انتخابات میں کم وبیش ایک ہزار تک نامزدگیاں (پارٹی ٹکٹ) تقسیم کئے جائیں گے۔ اچھی ساکھ اور بے داغ ماضی والے سیاسی افراد کہاں سے لائے جائیں بالخصوص کیا ایک ایسے ملک میں ’سوفیصد ایماندار‘ صاحبان کردار اور ہرلحاظ سے قابل بھروسہ رہنما کیسے میسر آ سکتے ہیں جبکہ قومی اداروں کو کمزور اور ذاتی و سیاسی ترجیحات توانا کر دی گئیں ہوں؟‘‘ تاہم عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’قومی اداروں کو مضبوط‘ بنائیں گے تاکہ کسی بھی سیاسی جماعت کا اگر کوئی بھی رکن مالی و انتظامی بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اُس کا فوراً محاسبہ ممکن ہو۔ تحریک انصاف کی ’سیاسی حکمت عملی‘ یہ ہے کہ سپرئم کورٹ کا دباؤ برقرار رکھا جائے۔ شریف خاندان کے جن ناموں کا ذکر پہلے ہی ’حدیبیہ پیپر ملز‘ کی ذیل میں ’پانامہ کیس فیصلے‘ کا حصہ ہے اُنہیں اور باقی ماندہ افراد کو ’’التوفیق‘‘ کے مقدمے میں آئینی طور پر نااہل قرار دیا جائے۔ اِس سلسلے میں شہباز شریف کے خلاف بدعنوانی کا ایک اُور ریفرنس (مقدمہ) جلد ہی دائر کر دیا جائے گا۔ عمران خان پراُمید ہیں کہ ’’اللہ نے موقع دیا تو وہ جو ’’ایک ناممکن کام‘‘ عملاً کرکے دکھائیں گے وہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں بدعنوانی میں آخری حد تک کمی لائی جائے گی۔ قانون کے نفاذ اور احتساب سے متعلق اداروں کو مضبوط ہوں اُور وزارت خزانہ کو خودمختار کیا جائے تاکہ حسب آمدنی محصولات (انکم ٹیکس) کی وصولی مہنگائی میں کمی ممکن ہو۔‘‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست ’الزام تراشیوں‘ کا مجموعہ ہے۔ جس میں بناء ثبوت و صداقت الزامات عائد کئے جاتے ہیں لیکن ’پانامہ کیس فیصلے‘ کے بعد صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں ’تحریک انصاف‘ نے ایک مرتبہ پھر ’قومی وطن پارٹی‘ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور عمران خان اِسے ’صوبائی قیادت کا فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وہ ’مائیکرو منیجمنٹ‘ نہیں کرتے۔ قومی وطن پارٹی سے علیحدگی‘ دوبارہ شمولیت اور اب پھر سے علیحدگی کا فیصلہ صوبائی حکومت نے خود کیا کیونکہ مذکورہ قوم پرست جماعت نواز لیگ کا دفاع کر رہی تھی اور اگرچہ ’قومی وطن پارٹی‘ سے علیحدگی کے سبب خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت باقی نہیں رہی اور صوبائی حکومت چھن جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ آج پاکستان اُس مرحلے تک آ پہنچا ہے جہاں کم سے کم بدعنوانی کے لئے ’’فکروعمل اُور نیت‘‘ مصلحت پر مبنی نہیں ہونی چاہئیں۔‘‘ 

قومی وطن پارٹی کے لئے تحریک انصاف کا ’ردعمل‘ اُور تحریک انصاف کے لئے قومی وطن پارٹی کا ’طرزعمل‘ ’غیرمتوقع‘ نہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو بخوبی جانتے ہیں لیکن اِس مرحلے پر تحریک انصاف سے علیحدگی اور خود پر ’کرپشن کی چھاپ‘ لینا نہ تو ’سیاسی دانشمندی‘ ہے اور نہ ہی اِس بات کی ضمانت (کلین چٹ) ہو سکتی ہے کہ قومی وطن پارٹی اُس (اَندرون و بیرون ملک سرمایہ کاری‘ اَثاثوں اُور بینک بیلنس پر مبنی) ماضی سے چھٹکارہ حاصل کر لے گی‘ جس کی ملکیت کا اعتراف رکھنے کے باوجود بھی اُس کے خلاف مقدمات ’سیاسی مفاہمت اور جمہوریت‘ کے نام پر نمٹا دیئے گئے۔ 

دانستہ بھول ہو گی اگر کسی نے احتساب کے جاری عمل کو صرف اور صرف ’شریف خاندان‘ کی حد تک محدود سمجھا۔ بقول چیئرمین ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘‘ سمیت بیرونی سرمایہ کاری سے ’اقتصادی فوائد‘ صرف اُسی صورت حاصل کئے جا سکیں گے‘ جبکہ پاکستان سے مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا خاتمہ ہو جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کی ’دلی خواہشات‘ گنتے گنتے یہی بات سمجھ آئی ہے کہ ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘ ۔۔۔ اے کاش ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں کہ ہر پاکستانی بشمول اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری ملازمین سیاسی جماعتوں کے نہیں بلکہ صرف اور صرف ملک کے خادم‘ وفادار اور پاکستان کے مشکور و ممنون ہو کر فرض شناسی سے فرائض منصبی سرانجام دیں۔

Sunday, July 30, 2017

July 2017: Panama verdict is clear but on the same time unclear about the disqualification time frame!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تاحیات نااہلی؟
کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن ’پانامہ کیس فیصلے‘ کے بارے میں اَمریکہ کی جانب سے تبصرہ معنی خیز بھی ہے اور شاید ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اقتدار کے آئینی طریقے سے خاتمے میں امریکہ کا براہ راست عمل دخل نہیں رہا لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ایک اسلامی جوہری اور چین ایران و افغانستان سے جٖغرافیائی زمینی سرحدی تعلق رکھنے والے پاکستان کے داخلی معاملات سے اَمریکہ خود کو الگ رکھے؟

محتاط امریکی مؤقف یہ ہے کہ ’’پانامہ کیس پاکستان کا اَندرونی معاملہ ہے۔ پاکستانی عوام کی منتخب پارلیمنٹ نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی تو ہم اقتدار کی ہموار (پرامن) منتقلی کے خواہش مند ہیں۔‘‘ درحقیقت پاکستان کی خواہش صرف ’اقتدار کی ہموار منتقلی‘ کی حد تک محدود نہیں بلکہ عوام یہ بھی چاہتی ہے کہ ایک اسلامی ریاست کے حکمران اپنے ملک اور دنیا کے لئے کردار کی عملی مثال بھی ہوں۔ پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ کا وقار بحال ہو یقیناًعالمی سطح پر ’سیاسی تنہائی‘ خودکشی ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے سوأ آج کی دنیا میں اپنا قومی و عالمی اہداف و مفادات حاصل کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تو صرف حکمران نہیں بلکہ ایک ایسا طرز حکمرانی چاہئے جو مشکوک نہ ہو۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ جمہوریت کو کمزور کرنے اور اِسے نقصان پہنچانے میں سب سے زیادہ ہاتھ ’سیاسی جماعتوں کے اُن شرمناک کرتوتوں کا ہے‘ جو پانامہ کیس اور اِس سے متعلق ضمنی تحقیقات کے دوران سامنے آئے! اقتدار ملنے کے بعد عوام کے خادم ’بادشاہ‘ بن جاتے ہیں۔ قانون اور قواعد کو جوتے کی نوک اور قومی اداروں کو کمزور کیا جاتا ہے تاکہ اُن سیاست کی آڑ میں بدعنوانی کا دھندا چلتا رہے۔ یہی سبب ہے کہ نہ تو عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینا کسی عام آدمی (ہم عوام) کے لئے ممکن رہا ہے اور نہ ہی سیاست شرفاء کو زیب دیتی ہے کہ جس کسی کو اپنا شجرہ (حسب نسب) معلوم کرنا ہو‘ وہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے!

بنیادی سوال یہ ہے کہ سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ) کے پانچ رکنی لارجر بینچ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل باسٹھ ایک کی ذیلی شق ’ایف‘ کے تحت نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ’’کیا سابق وزیراعظم ’’تاحیات نااہل‘‘ ہوگئے یا کچھ عرصے بعد وہ پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے دوبارہ ملک کی سیاسی برادری کا حصہ بن سکتے ہیں؟‘‘ 

اِس سوال سے متعلق اندرون و بیرون ملک معاشرے کی ہر سطح پر بحث جاری ہے اور اظہار خیال کرنے والوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ سب کے سب اُلجھن کا شکار نظر آتے ہیں اور قانونی ماہرین بھی دو واضح حصوں میں تقسیم ہیں‘ اتفاق اگر ہے تو اِس بات پر کہ یہ معاملے طویل عرصے سے ملتوی کیا جارہا ہے‘ جس کا تعین بہرحال ضروری ہے۔ دیکھا جائے تو سپرئم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے کئی ایسے مقدمات موجود تھے جن میں اہم نکتہ اس بات کا تعین کرنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ کے تحت ہونے والی ’’نااہلی‘‘ کیا ہمیشہ برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ ان مقدمات میں ثمینہ خاور حیات اور محمد حنیف کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی اسی نوعیت کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ’’حیرت کا اظہار‘‘ کیا تھا کہ آئین کی شقیں باسٹھ اور تریسٹھ کی بنیاد پر کسی شخص کو عمر بھر کے لئے عام انتخابات کا حصہ بننے سے ’’نااہل (الگ)‘‘ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اگر کسی سے غلطی ہوئی اور وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف جرمانہ بلکہ لوٹی ہوئی قومی دولت بھی واپس کرنے کے لئے تیار (آمادہ) ہو تو ایسے نااہل فرد کے لئے دوبارہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت ہونی چاہئے چونکہ یہ ایک قانونی و آئینی مسئلہ ہے اور اِس کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی جو سپرئم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں۔ سپرئم کورٹ آئین کے مطابق فیصلہ بطور حکم صادر سکتی ہے وہ عوام یا کسی سیاسی جماعت کا مستقبل بچانے کے لئے اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتی! اگر ہم پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے (سابق وزیراعظم) یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو سامنے رکھیں جو کہ اُنیس جون دوہزار بارہ کو توہینِ عدالت کے جرم میں آرٹیکل تریسٹھ کے تحت نااہل ہوئے تھے تو اُن کی نااہلی (سزا) کی مدت پانچ برس تھی۔ آئین کی شق باسٹھ اِس بارے میں خاموش ہے اور عجب ہے کہ اِس کے تحت کوئی بھی شخص ’نااہل‘ قرار تو دیا جاسکتا ہے لیکن نااہلی کی مدت کا ذکر آئین میں واضح یا ضمنی طور پر نہیں کیا گیا۔ اِسی لئے وکلاء اپنی اپنی مہارت (قانونی موشگافیوں) کا استعمال کرتے ہوئے ماضی کے اُن فیصلوں کو کھوج کھوج اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہے ہیں جن کے تحت ’نواز لیگ‘ کی قیادت اور شریف خاندان کو تاحیات نااہلی سے بچایا جا سکے۔ خود عدالت عظمیٰ کے سامنے ایسے کئی مقدمات التوأ کا شکار ہیں‘ جن میں تعین کرنا ہے کہ آئین کی شق باسٹھ کا اطلاق صرف موجودہ ضمنی عام انتخاب پر ہوگا یا یہ نااہلی ہمیشہ برقرار رہے گی!

اٹھائیس جولائی دوہزار سترہ کے تاریخی دن ’پانامہ کیس‘ کے فیصلہ میں سپرئم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کی وجوہات پیش کرکے منتخب نمائندوں کی نااہلی کی حد کو اس حد تک نیچے کردیا ہے کہ اِس سے مستقبل کی سیاست میں سوائے صداقت و امانت کسی دوسری شے کی گنجائش نہیں رہی! 
دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد عدلیہ مضبوط ہوئی ہے اور اُس عوامی منتخب پارلیمینٹ کے اکثریتی اراکین کے چہروں کا رنگ اُڑ گیا ہے جن کا ماضی و حال اور ہاتھ صاف نہیں۔ خود کئی پارلیمانی رہنما ایسے ہیں جن کی اہلیت (پانامہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں) خطرے میں پڑ گئی ہے! 

آئین کی شق باسٹھ اگر خاموش ہے تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ نااہلی تاحیات تصور کی جائے اُور اِس نتیجۂ خیال کے لئے ’’عبدالغفور لہری کیس‘‘ کی مثال موجود ہے جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے واضح کیا تھا کہ کچھ نااہلیوں کی نوعیت وقتی ہوتی ہے اور آرٹیکل تریسٹھ کے تحت نااہل ہونے والا شخص کچھ وقت بعد واپس اہل ہوسکتا ہے لیکن (تاہم) آرٹیکل باسٹھ کے تحت نااہلی دائمی ہوتی ہے۔ آرٹیکل باسٹھ کے تحت نااہل ہونے والے شخص کی نااہلی کی مدت متعین نہیں جس کے بعد وہ پارلیمانی انتخابات کا اہل ہوسکتا ہو۔ پانامہ کیس میں چونکہ نواز شریف ’’صادق اور امین‘‘ نہ ہونے کی بنیاد پر ’نااہل‘ ہوئے ہیں اِس لئے یہ نااہلی تاحیات رہے گی اُور اُمید ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما سمجھ لیں گے کہ پاکستان میں اِحتساب (شفاف طرز حکمرانی) پر سمجھوتہ نہیں ہوگا اُور بالخصوص ’پانامہ کیس فیصلے کے بعد‘ صادق و امین رہنے کے سوأ ’سیاست دانوں‘ سمیت کسی بھی سطح پر قومی وسائل اور فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والوں کے پاس دوسرا کوئی چارہ (راستہ) نہیں رہا۔

TRANSLATION: Working courts by Dr. Farrukh Saleem

Working courts
فعال عدالتی نظام
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے بانی اراکین میں شامل چوہدری نثار علی خان کا شمار اُن چند منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کے سیاسی قدکاٹھ میں یہ تعارفی جملے اضافہ کرتے ہیں کہ وہ حاضر دماغ رہتے ہیں اور اُن کی عملی و سیاسی زندگی بڑی حد تک شفاف ہے۔ وہ اپنے قول و فعل سے بھی ’صائب الرائے‘ اُور ’صاف گو‘ ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو قطعی طور پر غلط نہیں ہوگا کہ وہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دیانت داری کی روشنی میں وضع کردہ اصولوں پر اکثر کاربند دکھائی دیتے ہیں۔

یادش بخیر کم و بیش 77 سال قبل جرمن فضائیہ نے لندن (برطانیہ) پر بمباری کی‘ اُس وقت برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن لیونارڈ سپینسر چرچل (Sir Winston Leonard Spencer-Churchill) تھے جنہیں بتایا گیا کہ ’’جرمنی کے فضائی حملے کی وجہ سے اِس قدر بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں کہ قریب سبھی اقتصادی سرگرمیاں تباہ ہو گئی ہیں۔‘‘ چرچل نے جواباً پوچھا: کیا عدالتیں فعال ہیں؟ جواب ملا کہ ’’جج عدالتوں میں موجود ہیں اور انصاف کی فراہمی (بلاتعطل) جاری ہے۔‘‘ چرچل نے اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کا شکر ہے‘ اگر عدالتیں فعال ہیں تو (سمجھو) کچھ نہیں بگڑا۔‘‘

سردست پاکستان کو ’داخلی و خارجی محاذوں پر‘ کئی ایک سنجیدہ نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردی‘ عسکریت پسندی اور انتہاء پسندی کو کچلنے کے لئے ’رد الفساد‘ نامی فوجی حکمت عملی وضع کی گئی ہے جس کے تحت حال ہی میں ’’آپریشن خیبر فور‘‘ کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ خارجی طور پر خطرات میں ملک کی مشرقی و مغربی سرحدیں محفوظ نہیں۔ مشرق کی جانب سے بھارت اور مغرب کی سمت سے افغانستان پاکستان کے استحکام و سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافے کا محرک بنا ہوا ہے۔ اِن حالات میں اگر ہم عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) کی جانب دیکھیں تو اُس کے پاس اختیار کرنے کے لئے 2 ہی راستے باقی بچے تھے۔ پہلا راستہ تو یہ تھا کہ وہ عدلیہ کی تاریخ دہراتے ہوئے ماضی ہی کی طرح فیصلے کرتی اور دوسرا امکانی راستہ یہ تھا کہ وہ تاریخ ساز فیصلوں کے ذریعے اپنا معنوی وجود بطور حقیقت ثابت کرتی۔ سپرئم کورٹ آف پاکستان نے ایک نئے آئینی عہد کی بنیاد رکھتے ہوئے ’تاریخی ساز فیصلہ‘ کیا ہے۔ خوش آئند (اچھی خبر یہ) ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے آئینی کردار سے جڑی ذمہ داریوں کا احساس کر لیا ہے اور اپنے آئینی حدود و کردار کے اندر رہتے ہوئے ’احتساب یا سزأ و جزأ (چیک اینڈ بیلنس)‘ کا عمل شروع کر دیا ہے۔ خوشخبری یہ بھی ہے کہ سپرئم کورٹ کے آئینی کردار سے ایک ایسے دور کا خاتمہ ممکن ہوا ہے جو اوّل تا آخر ’بدعنوانی‘ پر مبنی تھا۔ سپرئم کورٹ نے اب ایک موقع (پلیٹ فارم) مہیا کر دیا ہے جو ملک میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بجا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ فعال ہے اور بقول برطانوی وزیراعظم ’’جب تک عدلیہ فعال (انصاف کی فراہمی ہوتی) رہے گی‘ کچھ بھی نہیں بگڑنے والا۔‘‘

آئین پاکستان کی رو سے‘ امور مملکت چلانے میں کسی بھی شخص یا حکومتی ادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز (من مانی) کرے۔‘‘ امور مملکت طے کرنے اور قومی وسائل سے متعلق فیصلہ سازی جیسا اختیار رکھنے والوں کی کارکردگی پر نظر (چیک اینڈ بیلنس) طاقت کے بیجا استعمال‘ مالی و انتظامی بدعنوانیوں اُور استحصال کے اِمکانات کم کرتا ہے۔

ستائیس جولائی (دوہزارسترہ) ایک پاکستانی سیاستدان کو سننے کا موقع ملا اور مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اِس سے قبل کبھی بھی (کم سے کم) کسی پاکستانی سیاستدان کو اِس قدر ’راست گو‘ اور ’اخلاص و دردمندی‘ سے بولتے ہوئے نہیں پایا گیا۔ چوہدری نثار علی خان کے بیان پر صداقت کی وجہ سے وزن اور تاثیر حاوی تھی۔ وہ شفاف طرزعمل کے مالک ہیں۔ انہوں نے ایک تصور (ویژن) پیش کیا۔ اُن کی فی البدیہ تقریر ناقابل تردید واضح حقائق اور مضبوط دلائل پر مبنی تھی۔ اُنہوں نے اپنی سوچ کے واضح ہونے کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ وہ بدنام زمانہ پاکستانی سیاست کرنے کے باوجود بھی کردار‘ اُور اصولوں‘ کے مالک ہیں۔ اُن کی تقریر کی تین خصوصیات مندرج جات‘ ادائیگی اور الفاظ کا چناؤ اپنی جگہ اہمیت و توجہ کا حامل تھا۔

پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت سے اِس قسم کے طرزعمل کی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ کس طرح ’خوشامد ‘ کاسہ لیسی‘ مطلب پرستی (sycophancy)‘ پاکستان کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی تقریر کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس میں انہوں نے ملک کو لاحق داخلی و خارجی خطرات کا ذکر کیا اور کسی سیاستدان کے منہ سے ملک کو عسکری‘ جوہری‘ دہشت گردی‘ سائبر اور اقتصادی خطرات کا ذکر اِس بات کا ثبوت تھا کہ وہ ذاتی مفادات کے اسیر نہیں بلکہ گردوپیش پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص کے طور پر اُبھرے ہیں جو ملک کے دو اہم فیصلہ سازوں ’سیاسی و عسکری فیصلہ سازوں‘ کے درمیان شراکت عمل (Synthesis) کا تصور رکھتے ہیں۔

بشری کمزوریاں ہر بشر کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ کم یا زیادہ غلطی سرزد ہونا ہم انسانوں کا خاصہ ہے اور میرا خیال ہے کہ چوہدری نثار سے عملی سیاست سے الگ ہونے کا فیصلہ ایسی ہی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے جذبے و ضرورت کے تحت کیا ہے۔ وہ پرعزم ہیں اور سیاست کی سیڑھی پر مزید آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ ایسے رازوں کا ایک خزانہ بھی رکھتے ہیں جن میں انہوں نے سیاستدانوں کو قریب سے دیکھا جو جرائم پیشہ و دہشت گرد عناصر سے تعلق رکھنے کو حکمت عملی کا حصہ (جائز) سمجھتے ہیں۔
مقام صدشکر ہے کہ عدالتیں فعال ہیں۔ یہ ایکنئے دور کا آغاز ہے اور اب پاکستان میں صرف جائز حکمراں ہی حکومت کریں گے۔ طرزحکمرانی کی اصلاح اور بہتر طرز حکمرانی کے قیام کو موقع ملنا چاہئے۔ سیاسی طاقت و اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے اُور پاکستان سے ہرقسم کی بدعنوانیوں کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, July 29, 2017

July 2017: Post Panama Verdict - The bright future of Pakistan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جھوٹ معتبر نہیں ہوں گے!
پانامہ کیس نے پاکستان کی عدلیہ اور سیاست ہی نہیں بلکہ میڈیا کا ’ڈی این اے‘ بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ورنہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں عدلیہ نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے اور وزیراعظم جیسے عہدے پر فائز سیاسی جماعت کے سربراہ سے اس قدر سخت گیر معاملہ کیا ہو کہ اُس کی نااہلی کر دی ہو۔ دیگر سیاست دان ضرور یہ بات سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ اُن کا ماضی اور وہ سب کچھ جسے وہ پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں زیادہ عرصہ تحقیقات کرنے والوں اور بالخصوص ذرائع ابلاغ (میڈیا) سے اب مزید چھپ نہیں سکے گا۔ یہ صرف ’الیکٹرانک میڈیا‘ ہی کا نہیں بلکہ ’سوشل میڈیا‘ کا بھی دور ہے۔ آن کی آن میں دستاویزات کی تصاویر ’واٹس ایپ‘ ہو جاتی ہیں اور سبھی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں نے اپنے ’واٹس ایپ‘ نمبر مشتہر کر رکھے ہیں جنہیں روزمرہ حالات و واقعات کی خبریں ویڈیوز اور دستاویزات ارسال کی جا سکتی ہیں! اٹھائیس جولائی کے سپرئم کورٹ فیصلے سے تو جیسے قومی سطح پر یہ ’کلیدی اصول‘ طے کر لیا گیا ہے کہ ’’جھوٹ اب معتبر نہیں ہوں گے!‘‘

’پانامہ کیس‘ پر محفوظ فیصلے کا اعلان اِس لحاظ سے بدقسمتی بھی ہے کہ پاکستان کو صداقت‘ امانت و دیانت کے اصولوں پر پورا اُترنے والی سیاسی قیادت نہیں مل سکی ہے اور قوانین و قواعد صرف کتابوں میں بند ہیں۔ سرکاری اداروں کا وجود قانون کی حاکمیت اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بنا رہا لیکن یہ منظرنامہ (ناقابل تردید حقائق) تبدیل ہو چکا ہے۔ ’پانامہ کیس‘ کا فیصلہ‘ آنے کے بعد پاکستان کا نیا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟ صرف ’شریف خاندان‘ کے احتساب پر بات رُک جانی چاہئے؟ پانامہ پیپرز میں جن دیگر پاکستانی شخصیات کے نام ’آف شور کمپنیاں‘ قائم ہیں‘ اُن کا احتساب کب سے شروع ہوگا؟ پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کہاں ہیں اور کیا ’اگلی باری زرداری‘ کی ہے؟ وزیراعظم اور کابینہ کے دیگر اراکین کے بیرون ملک قیام کے اجازت نامے (اقامہ) انوکھی قسم کی بدعنوانی ہے جو قومی عہدے رکھنے والوں کا ایک ایسا طرزعمل ہے جو ’مفادات سے متصادم‘ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سعودی عرب کا ’اقامہ (قیام و کاروبار کرنے کا جواز)‘ رکھنے والے وفاقی کابینہ کے ارکان میں احسن اقبال ایسے چوتھے رکن ہیں جن کا نام ایک ایسے معاملے میں آیا ہے جو ’پانامہ کیس‘ سے زیادہ بڑا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وفاقی وزیر احسن اقبال پچاس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے نگران ہیں! احسن اقبال کے علاؤہ وزیراعظم نواز شریف‘ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار متحدہ عرب امارات کا اقامہ رکھنے والوں میں شامل پائے گئے ہیں! سوال یہ ہے کہ پاکستان کا سرکاری (نیلے رنگ کا خصوصی) پاسپورٹ رکھنے والوں کو کسی بھی ملک میں عارضی قیام کے اجازت نامے (اقامے) حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ اگر یہ سوال کسی کے بھی ذہن میں بھی ہو تو جان لے کہ اقامہ کی بنیاد پر بیرون ملک بینک اکاونٹ کھولے جا سکتے ہیں اور بناء ٹیکس دیئے کاروباری سرگرمیاں کی جا سکتی ہیں!

پاکستانی سیاست دانوں کے کرتوت جس طرح ایک ایک کرکے عیاں ہوئے اور مزید ہوں گے‘ اس کا سلسلہ کسی نہ کسی ندامت اور معافی پر اختتام ہو جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن بقول چوہدری نثار ’نواز لیگ‘ کو اُس کے مشیروں نے ڈبویا ہے! بگڑا کسی کا کچھ نہیں بلکہ رسوائی پاکستان کی ہوئی ہے! پانامہ کیس کا فیصلہ آنے سے دو روز قبل‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’’دوہزارسات سو پچاسی ایسے پاکستانیوں کو نوٹسیز جاری کر دیئے گئے ہیں‘ جنہوں نے گذشتہ مالی سال کے دوران تحائف کی مد میں مبینہ طور پر ایک سو دو ارب روپے کی ’منی لانڈرنگ‘ کی ہے۔‘‘ تصور کیجئے ایک ایسا پاکستان کہ جس میں سالانہ ایک سو ارب ڈالر سے زائد رقم پر ٹیکس تو اَدا نہیں ہوا لیکن عام آدمی (ہم عوام) سے ہر ایک سو روپے کے موبائل ریچارج‘ ماچس کی ڈبیہ یا ایک یونٹ بجلی خرچ کرنے پر بھی کھڑے کھڑے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے!

جشن آزادی منانے والوں کے لئے خوشخبری میں اِس بات (جواز) کا اضافہ ہو گیا ہے وہ ’’شکریہ پاکستان‘ پاکستان شکریہ‘‘ کا نعرہ لگا کر ’دلی مسرت‘ کا اِظہار کریں۔ منتخب اراکین اسمبلی کی ذہانت اُور شعور ملاحظہ کیجئے کہ جنہوں نے ایسی قانون سازی فرمائی ہے جس کے تحت ہر قسم کے تحفے تحائف ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں اور بہت سے ایسے افراد جو مالی طور پر مستحکم ہیں‘ قومی آمدنی (ریونیو) میں حسب رہن سہن حصہ ڈالے بغیر ہی اپنی مالی حیثیت اور اثاثوں کی یہاں وہاں منتقلی (تحفے تحائف کے تبادلوں) کے آئینی استثنیٰ سے ’ناجائز فائدہ‘ اُٹھا رہے ہیں! قانون میں موجود اِس رعائت کو رکھنے والے ہی اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں تو تعجب حرام ہے! اگرچہ ایف بی آر نے غیرمعمولی مالیت کے تحفے تحائف وصول کرنے والوں کو نوٹسیز جاری کر دیئے ہیں لیکن چونکہ قانون ہی خاموش ہے اِس لئے یہ بے قاعدگی ایک دو سماعتوں ہی میں خارج کر دی جائے گی اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک قانون میں ترمیم نہیں کر دی جاتی! جن بااثر افراد نے انکم ٹیکس بچانے کے لئے تحائف دیئے اور اُن کے گوشواروں میں ذرائع آمدن کی توثیق نہیں ملتی کسی معروف وکیل کے ذریعے بچ جائیں گے! لیکن اگر ایف بی آر کے اہلکاروں کی اچانک ’حب الوطنی‘ جاگ اُٹھی اور پانامہ جے آئی ٹی کی طرح وہ غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر بیٹھے تو صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔تحائف کی مد میں منی لانڈرنگ کا الزام صرف اُن پر ہے جنہوں نے یہ بات ٹیکس ریٹرنز گوشواروں میں نہیں کی اور اپنی آمدنی پر ٹیکس بہت ہی کم ادا کیا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس آمدنی سے کم ادا کرنے کا کلچر عام ہے اور اِس بات کو ’’جرم‘‘ قرار نہیں دیا جاتا نہ ہی سمجھا جاتا ہے بلکہ کئی ایسی ’لاء فرمز (وکلاء کے ادارے)‘ قائم ہیں جو اپنی خدمات مودبانہ و فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ قانونی اَمور سے متعلق مہارت کا استعمال کرتے ہوئے کسی صارف کو کم سے کم ٹیکس ادا کرنے میں رہنمائی یا اُسے قانونی چارہ جوئی کے ذریعے سزا سے بچا سکیں! 

اربوں اور کروڑوں کے اثاثے رکھنے والے ہزاروں اور لاکھوں روپے میں ٹیکس اَدا کر رہے ہیں تو اِس دھندے میں خود ایف بی آر کے ممکنہ ملوث ہونا خارج اَز امکان نہیں ہوسکتا۔ ہمیشہ اطمینان بخش نتیجہ ہوتا ہے عمل نہیں۔ اندرون ملک آمدن (اِن لینڈ ریونیو)‘ انسداد منی لانڈرنگ کے انٹلی جنس اور انویسٹی گیشن سیل نے ایسے افراد کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع کردیا ہے‘ جس کا نتیجہ ہر اُس ذی شعور کو معلوم ہوسکتا ہے جو اِس بارے میں سوچنا اور معاملے کو سمجھنا چاہے۔ ’ایف بی آر‘ کے سامنے صرف تین کیسز ہی ایسے ہیں جس میں تحائف کی مالیت ایک ارب سے زیادہ ہے اور سب سے زیادہ تحائف کی مالیت ایک ارب ستر کروڑ روپے ہے۔ علاؤہ ازیں کم سے کم آٹھ افراد نے پچاس کروڑ روپے سے ایک ارب روپے مالیت کے درمیان تحائف ظاہر کئے ہیں! 

خدا جانے وہ وقت پاکستان کے عام آدمی (ہم عوام) کی زندگیوں میں کب آئے گا جب اُسے تحفے تحائف نہیں بلکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ معیاری صحت و تعلیم اور جان و مال عزت و آبرو کے تحفظ جیسے بنیادی حقوق ہی میسر آئیں گے۔ ’’آ کسی روز کسی دُکھ پہ اَکٹھے روئیں: جس طرح مرگِ جواں سال پہ دیہاتوں میں: بوڑھیاں روتے ہوئے بین کیا کرتی ہیں: جس طرح ایک سیاہ پوش پرند کے کہیں گرنے سے: ڈار کے ڈار زمینوں پہ اُتر آتے ہیں: چہکتے شور مچاتے ہوئے کرلاتے ہیں: اپنے محروم روئیوں کی المناکی پر: اپنی تنہائی کے ویرانوں میں چھپ کر رونا: اِک نئے دُکھ کے اضافے کے سوأ کچھ نہیں: اپنی ہی ذات کے گنجال میں اُلجھ کر تنہا: اپنے گمراہ مقاصد سے وفا ٹھیک نہیں: قافلہ چھوڑ کے صحرا میں صدا ٹھیک نہیں۔ ہم پرندے ہیں نہ مقتول نہ ہوائیں پھر بھی: آ کسی روز کسی دُکھ پہ اَکٹھے روئیں۔۔۔ (فرحت عباس شاہ)۔‘‘

Friday, July 28, 2017

July 2017: The surprising element in the politics of Pakistan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پراسرار سیاست!
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق تو نہیں دیا جارہا لیکن پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں اور قومی خزانے کا انحصار ’غیرملکی پاکستانیوں‘ کی طرف سے ترسیل زر پر رہتا ہے جس سے پاکستانی کرنسی پر دباؤ کم ہوتا ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر معتدل رہتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی جملہ سیاسی جماعتیں اپنے تنظیمی اور بالخصوص عام انتخابات کے موقع پر جملہ اخراجات پورا کرنے کے لئے ’غیرملکی پاکستانیوں‘ ہی کے سامنے دست سوال دراز (انحصار) کرتی ہیں۔ 

رواں ہفتے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 688 صفحات پر مشتمل تفصیلات عدالت کے روبرو پیش کی گئیں ہیں جو ’بیرون ملک سے وصول ہونے والے عطیات‘ سے متعلق ہیں لیکن اِن میں پارٹی بینک اکاونٹ میں آنے والی جملہ رقوم کا میزانیہ (بینک اسٹیٹمنٹ) شامل نہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ معلوم کے علاؤہ ’نامعلوم ذرائع‘ سے کس قدر اور کتنی بڑی مقدار میں سرمایہ تحریک انصاف کو حاصل ہوا۔ پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں ’پراسرار‘ طور پر کام کرتی ہیں کہ اِن کی آمدنی و اخراجات کے بارے میں آج تک پورے یقین سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی نہ ہی آج سے قبل اِس بارے میں ذرائع ابلاغ اور سماجی حلقوں میں یہ بحث سننے کو ملی کہ کوئی سیاسی جماعت بھی آمدنی کا ذریعہ ہو سکتی ہے! تحریک انصاف اعتراف کرتی ہے کہ اُس نے بیرون ملک سے پارٹی سرگرمیوں کے لئے باقاعدہ عطیات وصول کئے۔ دیگر سیاسی جماعتیں ایسا نہیں کرتیں کیونکہ اِس سے ’پینڈورا باکس‘ کھل جاتا ہے اور پھر یہ بھی ثابت کرنا پڑتا ہے کہ جو لوگ عطیات دے رہے ہیں اُن کی شناخت اور پاکستان کی سیاست میں دلچسپی کیا ہے اور کیوں ہے۔ 

بہت سی سیاسی جماعتیں تو خود کو فارن فنڈنگ سے الگ رکھے ہوئے ہیں اور بالخصوص نواز لیگ تو بیرون ملک کیا اندرون ملک بھی کارکنوں سے پارٹی فنڈ اکٹھا کرنے کی مہمات نہیں چلاتی اور نہ ہی اِس قسم کی ’باقاعدہ فنڈ ریزنگ‘ کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مشکوک اور بالخصوص عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے ’پیش پیش‘ رہتے ہیں اور رہنماؤں کے کچن اخراجات سے لیکر سیاسی سرگرمیوں کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ہمیں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں سرمایہ دار درآمد شدہ بیش قیمت گاڑیاں اُور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آن کی آن آمدورفت کے لئے ہیلی کاپٹر جیسی آسائش فراہم کرتے ہیں‘ ظاہر سی بات ہے کہ کاروباری شخصیات ہر ایک پائی بمعہ سود واپس وصول کرنے کی منصوبہ بندی رکھتے ہوں گے! بصورت دیگر دنیا میں ایسا کوئی شخص شاید ہی ہو جو اپنی دولت سے تنگ ہو‘ اُور اُسے یہاں وہاں یوں بانٹتا پھرے!

پاکستان میں کل 345 سیاسی جماعتیں ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘ جن کی فہرست 15 صفحات پر مشتمل ہے اور کسی عام تو کیا خاص الخاص پاکستانی کے بھی ممکن نہیں ہوگا کہ وہ سوائے انگلیوں پر شمار ہونے والی چند سیاسی جماعتوں کے علاؤہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا نام یا اُس کے سربراہ کا نام یا اُس کے منشور سے آگاہ ہو۔ تو معلوم ہوا کہ سیاست کی طرح سیاسی جماعتیں بنانا اور اِن کے معاملات چلانا بھی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے! الیکشن کمیشن جو کہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن اُور اُن مالی امور کا بھی نگران ادارہ ہے اور اپنے قواعد کا بطور لازمی اطلاق ممکن بناتا ہے کی جانب سے شرط ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے سالانہ حسابات سے اُسے تحریری اور حلفاً آگاہ کرے لیکن الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے حسابات کا ’پوسٹمارٹم (جانچ پڑتال)‘ بس اس قدر ہی کرتی ہے جس سے کام چلتا رہے! 

سردست تحریک انصاف کو ’روایت شکنی‘ مہنگی پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر یہ دیگر سیاسی جماعتوں ہی کی طرح رازداری اور پراسراریت کو برقرار رکھتی تو اِس پر مشکوک ذرائع سے حاصل ہونے والی ’فارن فنڈنگ‘ کا الزام یوں عائد نہ ہوتا۔ تحریک کی آمدنی اور حسابات کو حتی الوسع شفاف رکھنے کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہونے کی قیمت تو بہرحال ادا کرنا ہی پڑے گی لیکن اِس سے ایک اچھی عملی مثال قائم ہوگی۔ 

عدالت میں تحریک انصاف کو بیرون ملک سے حاصل ہونے والے آمدنی کا حساب دینا پڑ رہا ہے اور ممکن ہے کہ کسی مرحلے پر عدالت یہ بھی پوچھ لے کہ جو سیاسی جماعتیں اگر اندرون یا بیرون ملک سے ’آن دی ریکارڈ‘ مالی وسائل اکٹھا نہیں کر رہیں تو اُن کی آمدنی کے وسائل کیا ہیں؟ کیا بیرون ملک سے کسی سیاسی جماعت کی فنڈنگ کے بھی کچھ اصول ہیں یا اِس سلسلے میں قوانین و قواعد موجود ہیں؟ کیا صرف پاکستانی شہریت رکھنے والا کوئی شخص ہی کسی سیاسی جماعت کو چندہ یا عطیہ دے سکتا ہے؟ 

بیرون ملک سے پارٹی فنڈنگ لیتے ہوئے کیا اِس کے استعمال (مصرف) سے متعلق بھی چندہ دینے والوں کو بتایا جاتا ہے یا یہ چندہ اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار صوابدید پر ہوتا ہے!؟ تحریک انصاف کو ’فارن فنڈنگ کیس‘ کا سامنا ہے لیکن اِس کے علاؤہ نواز لیگ بھی مشکل میں پھنسی ہوئی ہے‘ جسے ’پانامہ‘ اور ’اقامہ‘ کیسیز جیسی زیادہ سنگین الزامات کے جواب میں عدالت کو مطمئن کرنا ہے جس میں تاحال وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور ایک ایسا فیصلہ محفوظ ہے‘ جس کا پوری قوم کو انتظار ہے۔ 27 جولائی کے روز سپرئم کورٹ نے اپنی ہفتہ وار مصروفیات کا شیڈول جاری کیا تو اُس میں پانامہ کیس کے فیصلے کا کہیں ذکر نہیں جس کا مطلب ہے کہ اگر آج 28 جولائی (بروز جمعہ) پانامہ کیس کا فیصلہ نہیں آتا اور عدالتی مصروفیات معمول کے مطابق جاری رہتی ہیں تو پھر فیصلہ 11 اگست کے بعد آئے گا۔

پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ایک مرحلے پر یہ بات بھی زیرغور آئی کہ نواز لیگ کے سربراہ نے اپنی ہی جماعت کے اکاونٹ میں کروڑوں روپے جمع کروائے اور پھر اپنی صوابدید پر اُنہیں واپس وصول کیا۔ آمدن کا ذریعہ تحفہ تھا لیکن اِسے خرچ کرنے کی وجوہات و تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں! صاف عیاں ہے کہ پاکستان کی کسی ایک بھی سیاسی جماعت کے مالی معاملات ’حسب آئین و ضرورت‘ شفاف نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ ’خصوصی اِختیارات‘ رکھتے ہیں کہ وہ پارٹی فنڈنگ کا اپنی صوابدید پر جس طرح اور جس قدر چاہیں استعمال کریں اور مالی یا انتظامی امور سے متعلق کوئی بھی اُن کے فیصلوں کو چیلنج نہ کرے اور نہ ہی اس متعلق سوال کیا جائے لیکن ’پوسٹ پانامہ لیکس‘ پاکستان مختلف ہے بالخصوص عدالت عظمیٰ کی جانب سے چھ رُکنی تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے بعد‘ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ دہرایا جا رہا ہے کہ ’جے آئی ٹی‘ کو ایک ایسے ’مستقل اِدارے‘ کی شکل دی جائے‘ جو عدالت کے ماتحت وسائل لوٹنے اور اندرون و بیرون ملک ظاہری و پوشیدہ اثاثوں کے بارے میں تحقیقات کا عمل جاری رکھے تاکہ ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کے لئے بھی آسانی رہے کیونکہ جب تک سیاسی فیصلہ سازوں کے ’ذاتی مالی امور‘ شفاف نہیں ہوں گے اور جب تک قوانین و قواعد میں موجود سقم (خامیوں) کا فائدہ اُٹھایا جاتا رہے گا‘ اُس وقت تک سیاسی جماعتوں کے پراسرار داخلی معاملات‘ ملک سے غربت کا خاتمہ اُور قومی وسائل کا امانت ودیانت کے اصولوں پر استعمال عملاً ممکن نہیں ہو گا۔

Monday, July 24, 2017

July 2017: More promises with Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہر اِنتہاء کی انتہاء!
یقین ہی نہیں آتا کہ ۔۔۔ گویا پشاور کی قسمت جاگ اُٹھی ہو لیکن کیا ’اہل پشاور‘ بھی جاگ رہے ہیں‘ جن کے لئے خبر ہے کہ اپنی آئینی مدت کے ’اختتام‘ سے قبل ’تحریک انصاف‘ کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ ’’پشاور کی خوبصورتی میں اِضافہ اُور بنیادی سہولیات کے نظام (ڈھانچے) میں وسعت‘ پیدا کی جائے گی۔ اِس مقصد سے تعمیروترقی کی اُس ’جامع‘ قرار دی جانے والی حکمت عملی سے گرد و غبار جھاڑ کر نظرثانی کی گئی ہے جس کا بنیادی اعلان تو جون دوہزار تیرہ میں کر دیا گیا تھا لیکن اِس کی یاد دہانی ہر مالی سال کے آغاز پر لازماً کی جاتی رہی ہے۔

تحریک انصاف کے فیصلہ ساز مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ وہ خیبرپختونخوا کو بالعموم اور پشاور کو بالخصوص نہیں بھولے بلکہ اُنہیں یاد سب سے ذرا ذرا‘ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو! ایک معتبرحکومتی شخصیت نے رازداری سے کہا ہے کہ پشاور کے لئے 10 ارب روپے مالیت کے ترقیاتی کاموں کی منظوری دے دی گئی ہے جن میں شہر کے مختلف حصوں میں ’6 عدد فلائی اُوورز‘ کی تعمیر بھی شامل ہے تاکہ ٹریفک کے بلاتعطل بہاؤ کو ممکن بنایا جاسکے۔ پشاور ٹریفک پولیس کے فیصلہ ساز ایک عرصے سے اس بات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں جب تک کم سے کم چھ مقامات پر فلائی اُوورز کی تعمیر اور ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل نہیں ہو جاتی اُس وقت ٹریفک کا دباؤ بدستور برقرار رہے گا لیکن اگر عام انتخابات کے قریب حکومت پشاور کی ترقی کے لئے 10ارب روپے جیسی خطیر رقم مختص کر رہی ہے تو اِس میں ’رازداری‘ کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بات تو فخریہ طور پر ’علی الاعلان‘ ہونی چاہئے لیکن چونکہ ماضی میں اِس طرح کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بعدازاں مالی وسائل فراہم نہیں کئے گئے‘ اِس لئے کوئی بھی حکومتی وزیر نہیں چاہتا کہ وہ دس ارب روپے کے خصوصی ترقیاتی پیکج کا اعلان اپنے نام سے کرے! یقیناًدانشمندی یہی ہوگی کہ تحریک انصاف ’’مزید نیک نامی‘‘ کمانے کی بجائے خیبرپختونخوا اُور بالخصوص پشاور سے معافی مانگے اور تبدیلی لانے کی پرخلوص کوششوں (اصلاحاتی انقلابی نظریات) کا دفاع کرنے کی بجائے اعتراف کرے کہ وہ اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کر سکی! پشاور کی ترقی کے لئے ماضی میں بھی اراکین اسمبلی اور صوبائی وزراء پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ماضی میں بھی ضلعی بلدیاتی منتخب نمائندوں کی بادشاہت رہی۔ ماضی اُور حال میں سرکاری ملازمین کی ’فوج ظفر موج‘ پشاور کی ترقی اور اِس کے غم میں نڈھال بھاری تنخواہیں مراعات اُور اِختیارات سے مستفید ہو رہی ہے لیکن اگر برسرزمین حقائق تبدیل نہیں ہوئے تو وہ عام آدمی (ہم عوام) ہے‘ جسے صوبائی حکومت کی جانب سے پینے کے صاف پانی‘ صحت و تعلیم اور آمدورفت کے باسہولت و باعزت ذرائع میسر نہیں!

نمائشی اقدامات‘ سیاست برائے سیاست اور انتخابی حلقوں پر مبنی ترجیحات کو عزیز رکھنے والے ماضی و حال کے حکمرانوں کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے۔ صوبائی حکومت نے چغل پورہ سے حیات آباد تک سڑک کی توسیع اور جی ٹی روڈ سے متصل اِس مصروف ترین شاہراہ سے تجاوزات ختم کرنے کے لئے درجنوں کاروائیاں کی ہیں لیکن نہ تو سڑکوں کے کناروں سے سوفیصد تجاوزات ختم ہو سکی ہیں اور نہ ہی اندرون شہر کے بازاروں سے ختم کی جانے والی تجاوزات کا علاج ہی ہو پایا ہے۔ پشاور شہر کے بازاروں میں تجاوزات پھر سے لوٹ رہی ہیں اور اُس وقت تک کاروائی نہیں ہوگی جب تک یہ پوری طرح پھیل نہیں جائیں گی! بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ماضی و حال کی ناقص کارکردگی بھی کسی اضافی تعارف کی محتاج نہیں! جی ٹی روڈ سے براستہ خیبرروڈ چار رویہ شاہراہ کی چغل پورہ سے حیات آباد تک ’چھ رویہ‘ توسیع جیسا ممکن ہدف اگر حاصل نہیں سکا تو اِس کے لئے ’کس سے منصفی چاہیں؟۔‘

تعلیمی اِداروں اور دفتروں میں حاضری یا اختتامی اوقات میں سڑکوں پر اچانک ٹریفک کا رش اُمڈ آتا ہے اور گرمی سردی یا شدید موسمی صورتحال میں معطل ٹریفک کی وجہ سے اہل پشاور کی مصائب درد کی اُس انتہاء کو چھونے لگتے ہیں جہاں مزید صبر ممکن نہیں رہتا۔

دس ارب روپے جیسی خطیر رقم پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی میں دو ٹول پلازہ تعمیر کئے جائیں گے۔ رنگ روڈ کو بہتر بنایا جائے گا یعنی اِس رقم کا بڑا حصہ شاہراؤں کی تعمیر ہی پر خرچ ہوگا۔ اندرون شہر کے علاقوں میں شمسی (سولر) توانائی سے سٹریٹ لائٹس کی تنصیب کا عزم بھی کسی خوشخبری سے کم نہیں‘ جو سال دوہزار تیرہ سے بیانات کا حصہ تو ہے لیکن باوجود ترقیاتی ترجیحات سے متعلق وعدوں کے بھی پشاور کا حق اَدا نہیں ہوا‘ تو اہل پشاور کو گلہ مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ خیبرپختونخوا کا کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں جہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی میں صوبائی حکومت نے برسرزمین حقائق اور ضروریات کا ’سوفیصد احاطہ‘ کرتے ہوئے سہولیات کی عملی فراہمی (دستیابی) ممکن بنا دی ہو۔ تو پھر گلہ کس کا اُور گلہ کس سے؟
 Belated development in Peshawar, the track record suggest PTI promises not fulfilled even after 4 years rule


Sunday, July 23, 2017

July 2017: Peshawar, the city ignored & largely under-developed due to the CAPACITY issues!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رَاندۂ درگاہ: پشاور!
ضلع پشاور کی تعمیر و ترقی کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مالی وسائل کا پینسٹھ فیصد حصہ اگر استعمال نہیں کیا جاسکا تو اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ پشاور میں ترقی کی گنجائش و ضرورت ہی باقی نہیں رہی بلکہ صلاحیت و اہلیت کی کمی اور سیاسی‘ مالی و انتظامی شعبوں میں خامیوں کی وجہ سے فیصلہ سازی کا عمل بُری طرح متاثر ہوا ہے اُور اُس وقت تک خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں۔ 

تلخ حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اور پشاور کی بلدیاتی نمائندہ حکمرانوں کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت ’تحریک انصاف‘ سے ہے لیکن یہ وابستگی بھی کام نہیں آ سکی ہے۔ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے کہ صوبائی اور بلدیاتی ضلعی حکومت ایک ہی سیاسی جماعت کی ہو لیکن سیاسی طور پر ہم جماعت حکومتوں کا پشاور کو خاطرخواہ فائدہ نہیں ہورہا جیسا کہ حاجی غلام علی اور اعظم آفریدی کے دور میں دیکھنے کو ملا تھا۔ متحدہ مجلس عمل اور پاکستان پیپلزپارٹی و عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومتوں کے ادوار میں پشاور سے انصاف نہیں ہوا اور اتحادی حکومتیں ہونے کے باوجود بھی پشاور و دیگر اضلاع ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ وزیراعلیٰ کے آبائی حلقوں میں خرچ ہوتا رہا۔

سال 2016-17ء کے مالی سال کے لئے مختص ’ترقیاتی فنڈز (اے ڈی پی)‘ میں پشاور کی ضلعی حکومت کے لئے 813.3 ملین (اکیاسی کروڑ تینتیس لاکھ) روپے مختص کئے گئے۔ نئے مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کی اعدادوشمار مرتب کرتے ہوئے صوبائی وزیرخزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت نے ایک سال کے دوران 275.57 (ستائیس کروڑ پچپس لاکھ ستر ہزار) روپے خرچ کئے جو مجموعی مختص مالی وسائل کے چونتیس فیصد سے کم حصہ بنتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور کے ضلعی بلدیاتی نمائندوں نے شعبۂ تعلیم پر 93 لاکھ روپے خرچ کئے جبکہ اُنہیں اِس مقصد کے لئے 8 کروڑ 10 لاکھ روپے دیئے گئے تھے۔ شعبۂ تعلیم کی طرح سماجی بہبود (سوشل ویلفیئر) کا شعبہ بھی نظر انداز ہے جس کے لئے آٹھ کروڑ چوراسی لاکھ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن صرف ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہو سکے۔

رواں ہفتے پشاور کی ضلعی حکومت نے نئے مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کے لئے 10 ارب روپے کے بجٹ کا اعلان کیا تو اِس قدر بڑی رقم کا مطالبہ سن کر ہنسی آ گئی! کیا ماضی میں ملنے والے مالی وسائل پوری طرح استعمال کئے جا سکے جو آئندہ کئی گنا بڑی رقم طلب کی گئی ہے! امر واقعہ یہ ہے کہ ترقی کو عملی شکل میں ڈھالنے اور اِس کی پائیداری کو عملاً ممکن بنانا اداروں کی صلاحیت ہی نہیں۔ ہم پشاور کے بلدیاتی ضلعی حکمرانوں سے اِس بات کی توقع نہیں رکھتے کہ وہ کفایت شعاری اُور سادگی کا مظاہرہ کریں گے اور نہ ہی وہ ایسے منصوبے تخلیق کریں گے جن سے پشاور میں رہنے والوں کی زندگی میں سکون آئے‘ مسائل کم ہوں اور ترقی کے عمل میں مستقبل کی ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہو۔ سیاسی حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن پشاور کے منتخب بلدیاتی و دیگر سیاسی نمائندوں نے جس اَنداز میں ’جارحانہ مصلحت‘ سے کام لیا ہے‘ اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ پشاور کو جس زاویئے سے بھی دیکھیں ترقی کی ضرورت (پیاس) محسوس ہوتی ہے۔

خیبرپختونخوا کی بجٹ دستاویزات کے مطابق ’صوبائی فنانس کمیشن‘ کے تحت ضلعی حکومت کو 9.2 ارب روپے دیئے جائیں گے جبکہ 59 کروڑ روپے ضلعی حکومت نے اپنے وسائل سے ترقیاتی و غیرترقیاتی اخراجات کے لئے جمع کرنا ہوں گے۔ کسی ضلعی حکومت سے اِس قسم کی کارکردگی کی توقع رکھنا بھی عبث ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی وغیرترقیاتی اخراجات اپنی ہی آمدنی کے وسائل سے پورا کرے گی۔ 

آئندہ مالی سال کے دوران پشاور کی بانوے یونین کونسلوں میں گندگی یکجا کرنے کے لئے ’ڈرم‘ نصب کئے جائیں گے اور پانچ کروڑ پچاس لاکھ روپے مختلف یونین کونسلوں میں ’واٹر کولر‘ نصب کرنے پر خرچ کئے جائیں گے۔ بلدیاتی ضلعی حکومت کے سامنے ’پشاور سے تجاوزات خاتمہ‘ بھی ایک ہدف ہے اور جیسا کہ ماضی کے حکمرانوں نے کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) اُٹھانے‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے فلٹریشن اور واٹرکولرز نصب کئے تھے جس طرح مثالی انداز میں تجاوزات کے مسئلے سے نمٹا گیا‘ حقیقت یہی ہے کہ پشاور کو ضلعی بلدیاتی حکومتوں کی نہیں بلکہ آمدنی کے ایک پائیدار ذریعے (سورس) کے لئے پشاور کی عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ پشاور کو سمجھ کر‘ اِس کے مسائل کا حل کرنے والوں کی تلاش ہے کیونکہ ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا!‘‘


TRANSLATION: Idea of "Truth [finding] Commission" by Dr. Farrukh Saleem

Truth commission
حقائق کی کھوج: نئے اِدارے کی ضرورت!
سچ کیا ہے اور سچ کی حقیقت کیا ہے؟ جھوٹ کیا ہے اور جھوٹ کی حقیقت کیا ہے؟ کون صادق و امین ہے اور کون نہیں؟ کیا یہ سیاست ہے یا کاروبار؟ سیاست اور کاروبار کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے؟ کون بدعنوان ہے اور کس کے ہاتھ بدعنوانی سے نہیں رنگے ہوئے؟ کیا سیاست اور اخلاقیات دو الگ چیزیں ہیں؟ کیا سیاست اور اخلاقیات میں کوئی آپسی رشتہ بھی ہے؟ سیاست میں کون اخلاقیات کے معیار پر پورا اُترتا ہے اور کون نہیں؟ کیا سیاست کاروبار ہے یا یہ عوام کی خدمت کا ذریعہ؟

9 مئی 2014ء پاکستان کے وزیر برائے خزانہ‘ آمدن‘ اقتصادی امور‘ شماریات و نج کاری اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان سے قومی دولت سوئزرلینڈ کے بینکوں میں منتقل ہوئی ہے جس کا کم سے کم حجم 200 ارب ڈالر ہے!‘‘ یاد رہے کہ پاکستان کا مجموعی قومی قرضہ 80 ارب ڈالر کے قریب ہے ایسی صورت میں وزیرخزانہ کا قومی اسمبلی ایوان میں یہ بیان کہ دوسوارب ڈالر بیرون ملک بینکوں میں پڑے ہیں‘ کسی بھی طرح معمولی نہیں تھا۔

مارچ 2017ء میں انسداد منشیات کے ایک امریکی ادارے نے ’’انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اسٹریٹجی رپورٹ‘‘ جاری کی جس کے مطابق ’’پاکستان سے سالانہ 10ارب ڈالر غیرقانونی (منی لانڈرنگ) ذرائع سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ پاکستان کے ایک تہائی بچے مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے لاغر (انڈر ویٹ) ہیں۔ 44 فیصد بچے ایسے ہیں جن کی بالیدگی رُکی ہوئی ہے۔ 15فیصد کسی کی نگرانی میں نہیں اور بچوں کی آدھی آبادی خون کی کمی یا خون میں آئرن کی کمی سے پیدا ہونے والے امراض کا شکار ہے اور دوسری طرف قومی دولت کے 10 ارب ڈالر سالانہ چوری ہو کر بیرون ملک ذاتی اثاثوں میں منتقل ہو رہے ہیں!

22فروری 2017ء جسٹس شیخ عظمت سعید نے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کے وجود اور کارکردگی کو بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’نیب کے چیئرمین وزیراعظم کو بچانے کی کوشش میں ہے لیکن ہماری نظر میں نیب کا ادارہ رحلت فرما چکا ہے!‘‘

17 جولائی 2017ء چیئرمین سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس اِی سی پی) ظفر حجازی کو اسلام ااباد کی خصوصی عدالت نے حکمراں شریف خاندان کی ملکیت اداروں سے متعلق ’سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل (ریکارڈ ٹیمپرنگ)‘ کے جرم میں پانچ روز کے لئے عبوری ضمانت دی۔

21 مارچ 2017ء: وزیراعظم میاں نواز شریف نے سعید احمد کو ’نیشنل بینک آف پاکستان‘ کا صدر مقرر کیا وہ قبل ازیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ’ڈپٹی گورنر‘ کے عہدے پر فائز تھے۔ وزیرخزانہ اِسحاق ڈار نے ’پانامہ کیس‘ سے متعلق ’جائنٹ اِنوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)‘ کو بتایا کہ ’’سعید احمد لندن (برطانیہ) میں ایک ’نرسنگ ہوم‘ چلا رہے تھے جب اُنہیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ’ڈپٹی گورنر‘ مقرر کیا گیا۔‘‘
پاکستان کی ضرورت ہے کہ سوئزرلینڈ کی بینکوں میں پڑے 200 ارب ڈالر واپس لائے جائیں۔ پاکستان کی ضرورت یہ بھی ہے کہ ہرسال 10 ارب ڈالر جیسی خطیر قومی رقم‘ غیرقانونی ذرائع سے حاصل کرنے والے اُور غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک منتقلی کا راستہ روکے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ’قومی دولت‘ لوٹنے والے لالچی کردار کون ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ معلوم ذرائع آمدنی سے بڑھ کر طرز زندگی اختیار کرنے والے کردار کون ہیں۔ سیاست دانوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ سرکاری ملازمین‘ فوجی و غیرفوجی (سویلین) کرداروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔

پاکستان کو ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جسے اختیار حاصل ہو کہ وہ سچائی کو کھوج نکالے۔ ہر پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ اُسے سچائی کاعلم ہونا چاہئے۔ پاکستان کے اقتصادی و مالی امور میں خردبرد کرنے والے سزا سے نہیں بچنے چاہیءں۔ ملک فلپینز (Philippines) کے ’ٹرتھ کمیشن‘ نے اپنے ہاں بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانیوں کو طشت ازبام کیا۔ ملک چاڈ (Chad) نے بھی ’ٹرتھ کمیشن‘ بنایا اور اپنے سابق صدر ہیبری (Habre) اور اُن کے ساتھیوں کا احتساب کیا جو مالی بدعنوانیوں میں ملوث تھے۔
پانامہ کیس سے متعلق بنائی گئی ’جے آئی ٹی‘ نے وہ ’کارنامہ‘ سرانجام دیا جو اس سے قبل پاکستان کی تاریخ میں اِن ایک جیسے تحقیقاتی اور عوامی مفادات کی حفاظت کا ذمہ رکھنے والے اداروں کے اہلکاروں نے کبھی نہیں کیا۔ آج پاکستان کے 6 ایسے ہیرو ہیں‘ جن کے بارے میں اگرچہ پاکستان زیادہ کچھ نہیں جانتا لیکن اِن گمنام کرداروں نے پاکستان کو بہت کچھ جاننے اور اِس نتیجے تک پہنچنے کی راہ دکھا دی ہے کہ قومی دولت کس طرح ذاتی اثاثوں میں منتقل ہوتی ہے اور کس طرح ہر ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ہر خوش قسمتی کے پیچھے ایک جرم پوشیدہ ہوتا ہے۔

پاکستان کو ایک نئے ادارے اور ایک نئے قومی بیانیئے کی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے کہ ’جے آئی ٹی‘ کی طرز پر ایک نیا اِدارہ تشکیل دیا جائے جو مالی بدعنوانیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والوں کی کھوج کر سکے اور اِس سلسلے میں یہ بھی تجویز ہے کہ پانامہ کیس سے متعلق ’جے آئی ٹی‘ کے اراکین پر مبنی ہی ایک مستقل ’ٹرتھ (فانڈنگ) کمیشن (Truth Commission)‘ تشکیل دیا جائے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, July 22, 2017

July 2017: TV Production at it's best? "Bohay Barian episode on Gul Bahar Colony analyzed!"

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بووے باریاں!
صوبائی دارالحکومت پشاور کا یوں تو ہر مسئلہ اَپنی شدت کے لحاظ سے بحرانی صورت اِختیار کر چکا ہے جن کا ’عملی حل‘ ممکن بنانے کے لئے شہری و دیہی علاقوں کا الگ الگ اکائیوں کے طور پر مطالعہ کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر فصیل شہر کے اَندرونی رہائشی و تجارتی علاقوں کے مسائل ’سرکلر روڈ‘ سے متصل علاقوں سے مختلف جبکہ ’سرکلر روڈ‘ کی پٹی سے متصل ’رنگ روڈ‘ کے پار تیزی سے پھیلتے ’نئے پشاور‘ کی ضروریات اُور منصوبہ بندی کے فقدان سے پیدا ہونے والی صورتحال دیگر زوائیوں سے غور و خوض کی متقاضی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ ’پشاور شناسی‘ عام ہونی چاہئے لیکن ایک ایسے موقع پر جبکہ عام اِنتخابات قبل اَزوقت یا مقررہ مدت پر بھی ایک سال سے کم فاصلے پر ہیں‘ دیکھنا ہوگا کہ پشاور کے بارے میں فکروعمل کی دعوت دینے والے اور اِس تاریخی شہر کے حقوق کی یادآوری کے درپردہ کہیں سیاسی عوامل تو کارفرما نہیں؟ کہیں پھر سے ہاتھ نہ ہو جائے۔ 

پشاور‘ پشاور کی گردان کرنے والے عام انتخابات لوٹنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نسلی لسانی اور گروہی وابستگیوں جیسے ہتھیاروں سے شکار تو نہیں کر رہے؟کہیں ایک مرتبہ پھر ’پشاور کی تباہی‘ بربادی اُور مسائل کی جانب توجہ مرکوز کرکے ’سیاسی فائدہ‘ اُٹھانے کی کوشش (سازش) تو نہیں ہو رہی؟ 

اہل پشاور کی یاداشت اب اتنی بھی کمزور نہیں کہ اِنہیں پشاور بچاؤ تحریک‘ پشاور سنوارو تحریک اُور جاگ پشاور جاگ جیسے پُرکشش ناموں سے ’تین پرعزم کوششوں‘ کے نتائج‘ یاد نہ ہوں۔ اِن نام نہاد تحریکیوں سے مالی و سیاسی طور پر مستفید ہونے والے معروف کرداروں کا ماضی و حال بھی اہل پشاور کی نظروں کے سامنے ہوگا لیکن پھر بھی احتیاط شرط ہے!

پشاور سے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن نشریات کرنے والے ایک ’نجی ٹیلی ویژن چینل‘ نے ہندکو زبان‘ کے پروگرام ’بووے باریاں‘ کے تحت ’گل بہار کالونی‘ کے مسائل اُجاگر کئے۔ 'بووے باریاں' کا اصطلاحی مفہوم گردوپیش یا حالات حاضرہ کیا جاسکتا ہے اور اس کا محاورۃ استعمال اہل پشاور میں عام ہے۔ معروف گلوکارہ حدیقہ کیانی کے ایک گانے نے اس خاص اصطلاحی لفظ کو عام کیا۔ اِس پروگرام کا دورانیہ 43 منٹ رہا‘ جس میں کل پانچ افراد کی ماہرانہ رائے کی بنیاد پر پروگرام کے اختتامی کلمات کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ۔۔۔ ’’گل بہار مختلف فیزوں پر مشتمل ہے جس طرح حیات آباد ہے۔‘‘ یہاں انگریزی زبان کے لفظ ’فیز (phase)‘ کے استعمال سے یہ تاثر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’گل بہار میں آبادکاری مرحلہ وار انداز میں ہوئی۔‘ لیکن کیا گل بہار کو حیات آباد کا مماثل قرار دیا جاسکتا ہے؟ دوسرے جملے میں کہا گیا کہ ’’یونیورسٹی ٹاؤن میں حکومت نے کمرشل سرگرمیوں پر پابندی عائد کی ہے لیکن گل بہار میں ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں۔ شاید حکومت کو گل بہار‘ یونیورسٹی ٹاؤن یا حیات آباد کی طرح (اَہم) ٹاؤن نظر نہیں آتا یا (پھر) گل بہار کا کوئی والی وارث نہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی ٹاؤن میں کمرشل سرگرمیوں کا نوٹس لینا صوبائی حکومت کی کارکردگی نہیں بلکہ یہ عدالتی حکمنامے کے تحت ہوا اور باوجود عدالتی حکمنامے کے بھی یونیورسٹی ٹاؤن سے تاحال 100فیصد کمرشل سرگرمیاں ختم نہیں کی جاسکی ہیں! یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ پشاور کے قبرستان اور تجاوزات کے بارے عدالتی حکم تو موجود ہے لیکن برسرزمین حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ قبرستانوں کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔ گل بہار کے ایک حصے پر بھی قبرستان ہوا کرتا تھا‘ جسے موضوع نہیں بنایا گیا کیوں؟ جہاں تک پشاور کے کسی ’والی وارث‘ کے ہونے یا نہ ہونے کا سوال ہے تو اِس کا جواب بھی مل سکتا تھا اگر ذرا سی محنت کی جاتی اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون‘ پی کے ٹو اُور ضلعی حکومت کے گل بہار سے منتخب ماضی و حال کے نمائندوں کے سامنے یہی سوال (بلیک اینڈ وائٹ میں) رکھا جاتا۔ 

کیا یہ عجب نہیں کہ 43 منٹ کے پروگرام میں صرف پانچ افراد کے 31 مرتبہ خیالات شامل کئے گئے جس میں ایک بھی عام رہائشی نہیں تھا۔ 

ٹیلی ویژن پروڈکشن کا Vox Pops نامی حصہ کسی موضوع پر عام آدمی (ہم عوام) کی تاثرات یکجا کرنے کے عمل کو کہا جاتا ہے اور اگر آئندہ ایسے کسی پروگرام میں تین سے پانچ منٹ کا ایک حصہ (segment) راہ چلتے‘ معمولات میں حصّہ لیتے افراد کا بھی رکھا جائے تو اِس سے جامعیت میں اضافہ ہوگا اور مقصدیت (اگر سیاست کے علاؤہ کچھ ہے) تو اُس کا حصول بھی عملاً ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ 

کیا گل بہار میں خاتون نہیں رہتیں اور اُنہیں مشکلات کا سامنا نہیں ہے یا نہیں رہا؟ 
کیونکہ ڈھائی ہزار منٹ سے زائد دورانیئے کے پروگرام میں خواتین کا ’نام و نشان‘ دکھائی نہیں دیا! 

تیسرے ’اختتامی جملے‘ سے بھی گل بہار کی بے بسی یہ کہتے ہوئے عیاں کی گئی کہ ۔۔۔ ’’جہاں ہر کسی کو سب کچھ کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے لیکن ’گل بہار ٹاون‘ آج حکمرانوں سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ ’ٹاؤن‘ حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ اِس ٹاؤن کو خراب کرنے والے کون ہیں؟‘‘ اِس سوال کا جواب صرف موجودہ صوبائی یا ضلعی حکومت ہی سے نہیں بلکہ اُن ماضی کے حکمرانوں سے بھی پوچھنا چاہئے جنہوں نے گل بہار (چھوٹا لاڑکانہ) سے کامیابی حاصل کی‘ اندرون و بیرون ملک اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا اُور چلتے بنے! جہاں گل بہار کی حدود ہی متعین نہیں اور اِس کے لئے پولیس اسٹیشن چوکیوں کی صورت بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ناکافی ہے وہاں منظم و غیرمنظم جرائم (سٹرئٹ کرائمز) کا ذکر بھی ضروری تھا۔ مسودہ نویس (اسکرپٹ رائٹر) کا آخری جملہ ’ڈوبتی ہوئی آواز‘ کے ساتھ زیادہ معنی خیز رہا کہ ’’آخر اِس ٹاؤن (گل بہار) کی بربادی کے (لئے) ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا؟‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ جو کام دستاویزی پروگرام کے ذریعے باآسانی ممکن تھا‘ اُس کا تعین کرنے کی ذمہ داری بھی اُنہی کو سونپ دی گئی جو بہرحال متاثرین ہیں!
Television Pre Production: Stages hardly observe in LOW BUDGET transmission
ٹیلی ویژن کے لئے نشریاتی مواد ’صوتی اور بصری (آواز اُور فلم)‘ کا مجموعہ ہوتا ہے‘ جسے تین مراحل میں ترتیب دیا جاتا ہے۔ کسی پروگرام کے بنیادی تصور (Ideation)‘ بذریعہ فلم پیغام کی منتقلی کے لئے حقائق پر مبنی مؤثر تحریر (Writing)‘ اَلفاظ کے مطابق عکس بندی کے لئے منصوبہ بندی(Pre Visualization) اُور پروگرام کو مرتب کرنے (Production) کے مراحل اوّل‘ اُوسط و حتمی (پری پروکشن‘ پروڈکشن اُور پوسٹ پروڈکشن) کے ہر ایک مرحلے پر ’تحقیق (research)‘ کا عمل دخل ہوتا ہے۔

صحافت میں بالعموم اُور ٹیلی ویژن کی صحافت میں بالخصوص ’حقائق درست‘ رکھنے والے اِداروں کو سنجیدگی سے دیکھا‘ سنا اور اُن کے مؤقف سے مستقبل کی راہیں متعین کی جاتی ہیں۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ مالی وسائل کا ضیاع بھی ہو اُور اِدارے کو ’خراب ساکھ‘ کی صورت اِس کی بھاری قیمت بھی اَدا کرنا پڑے۔ دانستہ فیصلہ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے فیصلہ سازوں اُور مالکان کو کرنا ہے کہ اُنہیں نادانستگی (لاعلمی اُور جہالت) سے خود کو الگ کرتے ہوئے مستعد‘ مستند اُور ’بااعتماد‘ مسند پر فائز ہونا چاہئے تاکہ نہ صرف پاکستان و علاقائی سطح پر بامقصد و پروقار صحافتی اَقدار (مثالوں) کا فروغ ہو بلکہ وہ ’پشاور‘ کے لئے بھی بالخصوص ’اَثاثہ‘ قرار پائیں۔
Clipping from Daily Aaj Editorial Page - July 22, 2017 - Saturday

Friday, July 21, 2017

July 2017: Journey for JUSTICE from accountability till the rights of consumers!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
احتساب سے اِستحصال تک!
پہلی فرمائش یہ آئی ہے کہ ’پانامہ کیس‘ کے حوالے سے بھی لکھا جائے جبکہ ہر کوئی لکھ رہا ہے تو اُن دیگر موضوعات کا احاطہ کون کرے گا‘ جس سے عوام کی اکثریت نمٹ رہی ہے؟ آخر جلدی کس بات کی ہے اور عدالت کا فیصلہ آنے تک انتظار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ آخر حوصلے کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا جا رہا جبکہ ’تفتیش جاری ہے‘ اور بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سست روی ہی سے سہی لیکن معاملات تفتیشی عمل سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) نے ابھی تک ایسا کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جس کی رو سے ’پانامہ کیس‘ میں نامزد ملزمان میں سے کسی کو مجرم قرار دیا جائے۔ اب تک پیش کی جانے والی دستاویزات میں ثبوت تلاش کرنے والوں کے ہاتھ شاید بھوت ہی آئے کیونکہ مشکوک ذرائع آمدنی سے متعلق بظاہر سیدھے سادے مقدمے کی تہہ سے تین نسلوں کے کرتوت ہاتھ آ گئے ہیں۔ اِس صورتحال میں اخلاقی و سیاسی بنیادوں پر تو وزیراعظم کو اب تک مستعفی ہو جانا چاہئے تھا لیکن آئینی طور پر وہ اُس وقت تک وزیراعظم رہ سکتے ہیں جب تک اُن پرکوئی الزام ثابت نہیں ہو جاتا اور عدالت اُنہیں نااہل قرار نہیں دے دیتی۔ 

پانامہ کیس کے صرف آئینی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر پہلو بھی ہیں‘ جس پر اظہار خیال کرنے والے ماہرین کے لئے بالخصوص یہ امر باعث حیرت ہے کہ پانامہ کیس پر جاری سماعت میں ’بار ایسوسی ایشنز‘ کا کردار کیا ہے‘ جو ماضی میں ضیاء الحق کے خلاف متحدہ سیاسی و آئینی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرتی رہیں ہیں۔ آج اگر سیاست دان تقسیم ہیں تو یہ تقسیم دیگر اداروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اصولاً وکلاء کی نمائندہ تنظیمیں ’بارکونسلز‘ کو زیادہ فعال اور واضح کردار ادا کرنا چاہئے تھا کیونکہ توقعات صرف سپرئم کورٹ ہی سے نہیں بلکہ انصاف کے لئے نظریں ’وکلاء ‘ پر بھی جمی ہیں اور جب پانامہ کیس کے باب میں تاریخ لکھی جائے گی تو کیا وکلاء پسند کریں گے کہ اُن کا نام ایک ایسے فریق کے طور پر لکھا جائے جنہوں نے ’پاکستان اور آئین سے وفاداری‘ کے برمحل مظاہرہ میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لی اور ایک ایسے معاملے سے ’غیرجانبدار‘ رہے جس میں اُن کی جانبداری و معاونت کی ’عدالت عظمیٰ‘ کو ضرورت تھی! تاریخ انہیں بھی ’’مجرم‘‘ ہی لکھے گی جو پاکستان میں مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے خلاف اور شفاف طرزحکمرانی کے قیام کے حوالے سے واضح مؤقف نہیں رکھتے!

دوسری فرمائش تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی سے متعلق ہے جس پر سوال یوں اُٹھائے جاتے ہیں جیسے قیام پاکستان سے لیکر آج تک صرف اِسی ایک جماعت کی بلاشرکت غیرے حکومت چلی آ رہی ہو اُور طرزحکمرانی سے لیکر عوام کے حقوق کی ادائیگی تک ہر چھوٹی بڑی خرابی حتیٰ کہ معاشرتی بُرائیوں کے لئے بھی ذمہ دار صرف اُور صرف تحریک انصاف ہی ہے۔ زمینی حقائق کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ روائتی سیاسی جماعتوں کے مقابلے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات خیبرپختونخوا کی اکثریت نے ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ دیا لیکن اِس ’نادر موقع (صوبائی حکومت ملنے)‘ سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا اور آج کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جس کا موازنہ کرتے ہوئے ’سوفیصد تبدیلی (اصلاح)‘ کا دعویٰ کیا جاسکے۔ تبدیلی کے چہرے سے نقاب اُلٹنے والوں کی صرف اُمیدیں اور توقعات ہی کا خون نہیں ہوا‘ بلکہ بہت سے دل بھی ٹوٹ گئے ہیں! اُور یہی وجہ ہے کہ حالات کا شکوہ کرتے ہوئے لہجوں میں تلخی در آئی ہے!بیس جولائی کی صبح طویل دورانیئے کی فون کال کا لب لباب (مدعا) یہ تھا کہ ’’خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر دودھ‘ دہی‘ مصالحہ جات اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیائے خوردونوش میں کھلم کھلا ملاوٹ پائی جاتی ہے تو حکومت نام کی شے کا وجود کہاں ہے؟ صارفین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے اور اگر اِس فرض کی ادائیگی عملاً ممکن نہیں ہو سکی ہے تو اِس کے لئے قصوروار کون ہے؟‘‘ صحت علاج معالجے کی سہولیات اور درس وتدریس پر نجی اداروں کی اجارہ داری کے حوالے سے بھی بطور ضمنی موضوع بحث کی جا سکتی ہے لیکن بنیادی سوال یہی رہے گا کہ ’’صارفین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے میں صوبائی حکومت عملاً کیوں ناکام ثابت ہوئی؟‘‘ 

گردوپیش پر نگاہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوانین اور قواعد کا خوف باقی نہیں رہا۔ اشیائے خوردونوش کے غیرمعیاری ہونے کی بڑی وجہ اجناس میں ملاوٹ ہے جبکہ حرام و ممنوع جانوروں کے گوشت و دیگر اشیاء کے استعمال کے بارے کسی حد تک جاننے یا معلومات ہونے کے باوجود بھی اگر عوام اپنے کھانے پینے اور رہن سہن کی عادات تبدیل نہیں کرتیں تو قصوروار صرف حکومت نہیں۔ پشاور میں ایسے ملکی و غیرملکی کھانے پینے کی اشیاء کے مراکز ہیں‘ جہاں صرف ذائقہ فروخت ہوتا ہے۔ ہفتہ وار تعطیل کے روز بھی گوشت کا ناغہ نہ کرنے والے مراکز بھی معلوم بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گرمی کی شدید لہر‘ مون سون کا موسم جبکہ ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے اور بجلی کی طویل و غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ بھی ایک معمول ہے جس کی وجہ سے گوشت قیمہ یا دیگر اشیاء ڈیپ فریزرز میں اِس طرح ذخیرہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا کہ اُن کا معیار خراب نہ ہو لیکن اِس کے باوجود ظاہری نمود و نمائش پر مبنی طرزعمل اختیار کیا جاتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لئے بازار جایا جاتا تھا اب یہ کام ’آن لائن‘ یا ٹیلی فون پر آرڈر کیا جاتا ہے اور ہزاروں روپے مالیت کا کھانا گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں میں بناء کسی اضافی قیمت اگر گھر کے دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے تو سہولت اور ذائقے کے علاؤہ کوئی دوسری ترجیح نہیں ہو سکتی۔ والدین کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو جس ثقافت اور طرززندگی سے روشناس کروا رہے ہیں‘ وہ کتنا صحت مند اور محفوظ ہے!

صارفین کے حقوق کا تحفظ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت اِس کی سرپرستی نہ کرے اور اگر سیاسی فیصلہ ساز ’صارفین کے اتحاد و اتفاق‘ کے لئے وسائل اور کوششوں کو مربوط کریں تو کوئی وجہ نہیں اِسی ’شعور و بیداری‘ سے عام انتخابات میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔

Thursday, July 20, 2017

July 2017: The homework about Education System!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ تعلیم: ہوم ورک!
پاکستان کے سیاسی‘ مالی اُور اِنتظامی مستقبل محفوظ بنانے کے لئے ’تحریک انصاف‘ کی آئینی و قانونی محاذوں پر جاری جدوجہد (پانامہ کیس کی پیروی) اہمیت اور مقصدیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اپنے حصے کی ذمہ داریاں اَدا کرنے میں تحریک کس قدر کامیاب (سرخرو) ہوئی ہے‘ اِس بات کا فیصلہ خیبرپختونخوا کے 27 ہزار 261 سرکاری فعال سکولوں میں درس و تدریس اور بنیادی سہولیات کے معیارکو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے‘ جہاں زیرتعلیم طلباء و طالبات کی اکثریت صرف عام آدمی (ہم عوام) پر مشتمل ہے۔ رواں ہفتے محکمۂ تعلیم سے متعلق اعدادوشمار پر مبنی ’سالانہ رپورٹ 2015-16ء‘ مرتب کی گئی‘ جسے باضابطہ جاری کرنے کی بجائے ماضی کی رپورٹوں کی طرح ’سرکاری دستاویزات‘ کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور ایسا کرنے کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کیونکہ رپورٹ میں سب اچھا کی گردان کے باوجود بھی کئی ایسے شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جن میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مقام حیرت ہے کہ خیبرپختونخوا میں گیارہ فیصد (قریب تین ہزار) ایسے غیرفعال سرکاری سکول ہیں‘ جن کی چاردیواریاں نہیں اور اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ چاردیواریوں سے محروم سرکاری سکولوں کی اکثریت اُنہی علاقوں میں ہے جہاں امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں! چونکہ سرکاری سکولوں کی ایک تعداد ایسی ہے کہ جہاں حفاظت کا خاطرخواہ انتظام نہیں اِس لئے حکومت تسلیم کرتی ہے کہ ۔۔۔ دیگر وجوہات سمیت سیکورٹی خدشات کے باعث تین ہزار سکول فعال نہیں ہیں۔ تصور کیجئے کہ ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات صرف اِس لئے سکول نہیں جا سکتے کیونکہ اُن کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ کرنے والوں نے باقاعدگی سے تنخواہیں اور مراعات تو وصول کی ہیں لیکن اپنے حصے کی ذمہ داریاں اَدا نہیں کیں! خودمختار نگران اِدارے (انٹیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ) کی مذکورہ رپورٹ میں مذکور اعدادوشمار سے صوبائی سرکاری سکولوں کی جو تصویر ذہن میں اُبھرتی ہے‘ وہ کسی بھی سیاسی حکومت بالخصوص انقلابی و جنوبی سیاسی دھڑے کے لئے نیک نامی کا سبب نہیں اور اُمید ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت (بنی گالہ) پہلی فرصت سے پہلے ماضی کے برعکس اِس رپورٹ کا ’سخت نوٹس‘ لے گی کیونکہ خیبرپختونخوا حکومت آئینی مدت کے آخری سال میں داخل ہو چکی ہے اور یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی ہے کہ یہ آخری سال عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت ’پانامہ کیس‘ کی وجہ سے مکمل ہو پائے گا!

خیبرپختونخوا کے سرکاری سکولوں کے بارے میں اعدادوشمار ماہ جون (دوہزارسترہ) کے دوران اکٹھا کئے گئے جن سے معلوم ہوا کہ صوبے کے دورافتادہ اور پسماندہ ترین ضلع ’تورغر (کالا ڈھاکہ)‘ میں سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے یعنی ’تورغر‘ میں پینسٹھ فیصد سرکاری سکولوں کی چاردیواریاں نہیں! اِسی طرح ضلع کوہستان میں ساٹھ فیصد‘ شانگلہ میں چوبیس فیصد‘ بٹ گرام میں اُنیس فیصد‘ مانسہرہ میں پندرہ فیصد‘ چترال وایبٹ آباد میں چودہ فیصد سرکاری تعلیمی ادارے ’چاردیواری سے محروم‘ ہیں۔ بھلا چند کمروں پر مشتمل کسی ایسی عمارت کو ’’سکول‘‘ کا نام (درجہ) ہی کیسے دیا گیا جس کی نہ تو چاردیواری تھی اور نہ ہی وہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی عملاً ممکن بنائی گئی! افتتاحی تختیاں لگانے والوں کی شرمناک کارکردگی کی تشہیر ہونی چاہئے اُور انہیں اِس کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے سے نااہل قرار دینا چاہئے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ’’محکمۂ تعلیم‘‘ ملازمتیں فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ملازمتی مواقع فراہم کر رکھے ہیں اور صوبائی وزیر و مشیر اور معاونین سے لیکر نگرانوں اور سکولوں کے عملے تک ہر ایک کردار اپنے اپنے حصے کی تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہا ہے! رہی بات تعلیم اور معیار تعلیم کی تو فرد جرم کسی پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ سیاسی حکمران معصوم‘ فیصلہ ساز معصوم‘ اساتذہ اور معاون عملہ معصوم اور اگر کوئی ’’قصوروار‘‘ ہے تو عام آدمی (ہم عوام) جن کے پاس بچوں کو معیاری تعلیم اور ایک ایسے نظم وضبط سے روشناس تربیت دلوانے کے لئے ماسوائے نجی اداروں سے رجوع کرنے کوئی صورت باقی نہیں رہی! اگر خدائی قانون یہ نہیں کہ غریب ہمیشہ غریب رہے تو امیر کے ہمیشہ امیر رہنے اور سیاست کرنے والوں کا وابستگیاں تبدیل کر کے حکمرانی کرنے کا بھی کوئی جواز اور منطق نہیں رہتی۔

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد طلوع ہوا‘ جس سے قبل محکمۂ تعلیم کے لئے ’سالانہ 61 ارب روپے‘ مختص کئے جاتے تھے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی حکمت عملی (صوبائی بجٹ) میں تعلیم کو ترجیح قرار دیتے ہوئے 61 ارب کے مقابلے سالانہ 138 ارب روپے مختص کرنے کے علاؤہ ’ہنگامی حالت (ایمرجنسی)‘ کا نفاذ کیا کیونکہ بناء تعلیمی ترجیح جمہوریت کی جڑیں مضبوط گہری اور اِس کا حاصل (ثمرات میٹھے) خاطرخواہ نہیں ہوسکتے! صوبائی وزیرتعلیم سے بات کی جائے تو وہ بھی منطقی لگتے ہیں کہ ’’تحریک انصاف کی حکومت میں صوبائی سطح پر تعلیمی اداروں کی جس قدر ضروریات پوری کی گئیں اِس کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ عاطف خان مطمئن ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ اپنے فیس بک پیج پر صوبائی وزیر کا بیان مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہا ہے کہ ’’موجودہ حکومت نے پانچ ہزار سرکاری سکولوں میں بیت الخلاء اور چودہ ہزار سرکاری سکولوں میں چاردیواریاں تعمیر کروائیں!‘‘ عاطف خان نے گنوا دیا کہ صوبائی حکومت نے چودہ لاکھ کرسیاں فراہم کی ہیں جبکہ پانچ ہزار سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کے آغاز کا سہرا بھی وہ اپنے سر باندھتے ہیں! صوبائی محکمۂ خزانہ (فنانس ڈیپارٹمنٹ) کی ویب سائٹس پر موجود اعدادوشمار پر نظر کی جائے تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے گذشتہ چار سال کے دوران سرکاری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی پر مجموعی طور سے ’’121 ارب روپے‘‘ خرچ کئے ہیں اور یہ عمل جاری ہے کیونکہ سہولیات کی کمی اِس قدر بڑے پیمانے پر تھی کہ باوجود ایک سو اکیس ارب روپے جیسی خطیر رقم خرچ کرنے کے بھی‘ سرکاری تعلیمی ادارے اپنے قیام جیسی بنیادی سطح سے ایک درجہ بلند نہیں ہوئے۔

سرکاری سرپرستی میں ’’خیبرپختونخوا کا تعلیمی منظر اُور پس منظر‘‘ کسی بھی لحاظ (زاویئے) سے اِطمینان بخش نہیں۔ مالی وسائل میں ’تاریخی اضافہ‘ کرنے کے باوجود بھی اگر بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہی ممکن نہیں ہوسکی تو آئندہ کسی سیاسی حکومت سے اِس بات کی توقع نہیں کی جاسکے گی کہ وہ باقی ماندہ کام مکمل کرے گی۔ ابھی تو خیبرپختونخوا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے نئے سکولوں کے قیام کی ضرورت کا ادراک اور تعداد پورا ہونا باقی ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ اُنہیں اِضافی محنت (ہوم ورک) کرنا ہوگا کیونکہ سرکاری تعلیمی اِداروں کا وجود اور موجودہ حکومتی کوششیں نتیجہ خیز‘ مبنی برانصاف (کافی) ثابت نہیں ہو رہیں!

Wednesday, July 19, 2017

July 2017: Peace & Stability - Pakistan & the Central Asia


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عالمی کانفرنس: سنٹرل اِیشیاء اُور پاکستان!
’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ (یونیورسٹی آف پشاور) کے زیراہتمام ’اٹھارہ سے بیس جولائی‘ باڑہ گلی کیمپس میں ’’عالمی کانفرنس‘‘ جاری ہے‘ جس میں روس‘ چین‘ اُزبکستان‘ تاجکستان‘ ترکمنستان‘ قازقستان‘ افغانستان‘ گرغستان اُور یورپی ممالک سمیت پاکستان کی مختلف جامعات سے ایسے مندوبین شریک ہیں‘ جو اِس خطے میں امن کی صورتحال‘ سیاست و اقتصادیات جیسے مربوط موضوعات کے تاریخی پس منظر اور حالات حاضرہ کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت و قابلیت رکھتے ہیں۔ اِس سال ’تین روزہ عالمی کانفرنس‘‘ کا موضوع ’’ٹائم اسپیس کانفلٹ ڈس اِنٹگریشن اِن سنٹرل ایشیاء (Time Space Conflict [Dis] integration in Central Asia )‘‘ رکھا گیا ہے جس کے تحت کل چھ نشستیں میں سنٹرل ایشیاء سے متعلق عالمی طاقتوں کا کردار‘ سنٹرل ایشیاء میں علاقائی قوتوں کے مفادات‘ سنٹرل ایشیاء میں دہشت گردی و انتہاء پسندی کے اثرات‘ خطے میں امن اور معاشی تعاون جبکہ آخری سیشن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ اور اِس کے سنٹرل ایشیاء پر اثرات جیسے موضوعات کا احاطہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو مرکز سمجھتے ہوئے ’وسط ایشیائی ریاستوں بشمول روس‘ افغانستان اور چین کے حوالے سے جاننے کا یہ موقع اِس لئے بھی نادر ہے کہ اِس میں ماہرین سے براہ راست سوال و جواب کے ذریعے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے وہ خدوخال وضع اور سمجھے جا سکتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے مؤقف کو عالمی سفارتی سطح پر زیادہ اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔سپرئم کورٹ آف پاکستان میں جاری ’پانامہ کیس‘ کی سماعت کے سبب ذرائع ابلاغ کی توجہ اِس عالمی کانفرنس کی جانب مبذول نہیں اور اگر یہ سماعت نہ بھی ہوتی تو بھی ایسے علمی ادبی اور تحقیقی خارجہ و داخلہ موضوعاتی نشستوں کے حوالے نجی و سرکاری میڈیا زیادہ فوکس نہیں ہوتا۔ قوم کو صبح دوپہر شام چند گھرانوں کے گرد گھومتی ’سیاست سیاست اُور صرف سیاست‘ کھلائی اور پلائی جاتی ہے تاکہ بے یقینی کے مرض سے افاقہ ہو! لیکن جہاں ’مرض کی تشخیص‘ ہی غلط ہو وہاں نیم حکیموں کی طرف سے تجویز کردہ علاج کیسے درست (شفایابی کا باعث) ہو سکتا ہے!؟ ’’مریض عشق پر رحمت خدا کی۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی (محمود رام پوری عشرتی)۔‘‘

سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلندی پر یونیورسٹی آف پشاور کا ’کیمپس نمبر ٹو‘ باڑہ گلی سرسبزوشاداب ٹیلوں‘ چوٹیوں اور وادی پر مبنی قریب ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے ٹھنڈے موسم میں قدرت کو قریب سے مشاہدہ و مطالعہ اپنی جگہ حاصل سفر رہتا ہے۔ 1965ء سے باڑہ گلی کے مقام کو یونیورسٹی آف پشاور کے کیمپس کا درجہ حاصل ہے اور یہاں ہرسال مئی سے ستمبر تک ملکی و عالمی موضوعات پر کانفرنسوں اور تربیتی نشستوں کا انعقاد معمول کے طور پر ہوتا ہے۔ اگرچہ یونیورسٹی آف پشاور کے طلباء و طالبات کو نہایت ہی کم تعداد میں ’باڑہ گلی کیمپس‘ سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہاں کی قیام گاہیں یونیورسٹی کے انتظامی عہدوں پر فائز مراعات یافتہ طبقاتہی کے لئے مخصوص رہتی ہیں لیکن پھر بھی یہاں چھوٹے پیمانے پر ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے طلباء و طالبات کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ اگر ’باڑہ گلی کیمپس‘ میں جدید طرز تعمیرات کی بجائیماحول دوست طریقوں سے رہائشی سہولیات میں اضافہ کیا جائے تو جامعہ پشاور کی تمام فیکلٹیز گرمیوں کی تعطیلات میں یہاں سما سکتی ہیں اور یوں تین ماہ درسی و تدریسی عمل میں آنے والا تعطل ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔ ’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ کی جانب سے ’عالمی کانفرنس‘ کے شرکاء اور غیرملکی مندوبین بھی ’باڑہ گلی کیمپس‘ کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور جب اردگرد کا ماحول خوشگوار ہو تو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی قوتیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں‘ یہی وجہ رہی کہ عالمی کانفرنس کے مقررین اور شرکاء کی دلچسپی کی سطح عروج پر دیکھی گئی۔ کانفرنس کے میزبان ڈائریکٹر ایریا سٹڈی سنٹر‘ پروفیسر ڈاکٹر سرفراز خان سب سے زیادہ مسرور دکھائی دیئے جنہوں نے کئی ماہ پر محیط خط و کتابت کے بعد اِس کانفرنس کے عملی انعقاد کو ممکن بنایا۔ 

تعارفی کلمات میں انہوں نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے اِسے ایک مربوط کوشش قرار دیا ’’جس کے ذریعے خطے میں آنے والی سیاسی و معاشی تبدیلیوں اور اُن کے پاکستان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات پر غور کرنے کی سبیل فراہم کی گئی تاکہ قیام امن‘ معاشی ترقی اور استحکام کی کوششوں کے بارے میں فیصلہ سازوں اور جمہوری اداروں کی رہنمائی کی جاسکے۔‘‘ درحقیقت خارجہ اور معاشی پالیسیاں مرتب کرنے میں جامعات کا کلیدی کردار ہے اور اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو وہاں ’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ جیسے ’تھنک ٹینک (سوچ بچار کرنے والے) ادارے (حلقے)‘ زیادہ فعال اور ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں جہاں مسائل کا حل جامعات‘ سیاسی لیڈرشپ اور عوام کے منتخب نمائندے آپس میں تبادلہ خیال کے نتیجے میں وضع کرتے ہیں۔ 

’ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیاء‘ مبارک باد کی مستحق ہے کہ اِس روایت کو انہوں نے پاکستان میں بھی اگر فروغ نہیں دیا تو کم سے کم متعارف ضرور کروادیا ہے۔کون نہیں جانتا کہ حالیہ چند برس کے دوران امن وامان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری آئی ہے اور ایسی عالمی کانفرنسوں کا انعقاد مزید اداروں کو بھی باقاعدگی سے کرنا چاہئے تاکہ نہ صرف پاکستان کو درپیش مسائل و مشکلات کا حل تلاش کیا جا سکے بلکہ اُن علوم و معلومات کا تبادلہ بھی ہو جس سے پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک اور خطے کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ‘ ایبٹ آباد) ڈاکٹر اَظہر محمد اظہر خان جدون نے ’’سنٹرل ایشیاء میں علاقائی قوتوں کے مفادات‘‘ کے حوالے سے عالمی کانفرنس کے ’تیسرے سیشن‘ کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’خطے کی سیاست قدرتی وسائل کے گرد گھوم رہی ہے۔ پاکستان میں توانائی بحران ہے جس سے نمٹنے کے لئے خطے کے ممالک میں تیل و گیس کے اور توانائی کے پیداواری وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اس سلسلے میں ترکمنستان پاکستان بھارت (تاپی) پائپ لائن منصوبہ کلیدی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جسے ’سی پیک‘ کی طرح اہمیت دینی چاہئے اور اِس کے ذریعے نہ صرف خطے میں قیام امن اور ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ پاکستان کا معاشی و اقتصادی استحکام بھی توانائی کے بحران سے نمٹنے میں ہے۔‘‘ انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو حقیقت پسندی پر مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا ’’پاکستان کی عالمی تنہائی ختم کرنے کے لئے خطے کے ممالک سے بہتر تعلقات اشد ضروری ہیں اور کوئی ملک بناء وزیرخارجہ کس طرح عالمی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔‘‘کانفرنس میں کل اٹھارہ تحقیقی مقالے پیش کئے گئے اور سات عوامی منتخب نمائندوں کے علاؤہ ممتاز محققین نے مختلف نشستوں کی صدارت کے دوران پاکستان کو درپیش چیلنجز جیسے کثیرالجہتی موضوعات کو بیان کیاجسے کتابیشکل میں مرتب کرکے اِس رپورٹ کا تبادلہ حکومت اور علمی حلقوں کے ساتھ کیا جائے گا۔ 

یاد رہے کہ ’ایریا سٹڈی سنٹر‘ (یونیورسٹی آف پشاور) وفاقی حکومت کا ’تھنک ٹینک ادارہ‘ ہے جو 1976ء کے ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا اُور اِس کا بنیادی کام سنٹرل ایشیائی ممالک‘ چین اُور روس پر تحقیق کرنا ہے۔ ’ایریا سٹڈی سنٹر‘ سے اب تک 117 سکالرز فارغ التحصیل ہوئے‘ جنہوں نے ’ایم فل‘ یا ’پی ایچ ڈیز‘ کی اسناد حاصل کر رکھی ہیں۔ 

Tuesday, July 18, 2017

JULY 2017: Pakistan Study, the hidden face

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مطالعۂ پاکستان: اَچھائیوں کا شمار!
برق رفتار ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی برکات سے عملاً ممکن ہوا ہے کہ مختلف ممالک کے لوگ اپنے دفاتر یا قیام گاہوں کے پرسکون اُور آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر ’بحث و مباحثے‘ کی اُن محفلوں (سیمینارز) میں ’اِظہار خیال‘ کریں یا کسی شعبے کے ماہرین کی رائے سے علم حاصل کریں۔ اِس طرح کی نشست کو ’ویبنار (Webinar)‘ کہا جاتا ہے۔ 

ماضی میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات یا مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایسے عالمی مباحثوں میں مدعو نہیں کیا جاتا تھا‘ جس کی کئی وجوہات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پاکستان کے ’سبز پاسپورٹ‘ کی عزت نہیں رہی! تاہم ’ویبنار‘ کے ذریعے اِمکانات کے نئے جہان پیدا ہوئے ہیں‘ جس کی بدولت علم و فن سے شغف رکھنے والے اپنے ذوق و شوق کی تسکین کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں منعقدہ ’عالمی ویبنار‘کے شرکاء کو اِس بات پر اظہار خیال کرنے کی دعوت دی گئی کہ ۔۔۔ ’’اُن کا ملک کسی دوسرے ملک سے کیا کچھ سیکھ سکتا ہے؟‘‘ اِس نشست میں بالخصوص ہمسایہ ممالک کے رہنے والوں کو اپنے گردوپیش کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کے لئے ترجیحات کا تعین کرنا تھا۔ 

پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے کئی شریک مقررین بھی ’ویبنار‘ کا حصہ تھے جن میں ایک نے بناء تمہید کہا کہ ’’بھارت پاکستان سے کم سے کم 10 شعبوں میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔‘‘ یہ ایک دلچسپ جملہ تھا‘ جسے پاکستان سے تعلق رکھنے والے شرکاء کے کان کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے یقیناًاپنی اپنی کرسیوں کی پشت سیدھی کر لی ہوگی۔ بھارتی شریک کی جانب سے فہرست پیش کرنے کا عمل شروع ہوا تو ہر نکتہ اپنی جگہ اہم تھا اور پاکستانیوں کے لئے بالخصوص ’دعوت فکر‘ تھی کیونکہ اِس حوالے سے شاید ہی کبھی کسی نے ’’معاشرتی اچھائیوں‘‘ کے بارے میں یوں سوچا ہو۔ عمومی تاثر تو بس یہی ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسا قابل ذکر رونما نہیں ہو رہا‘ جس سے دنیا میں سرفخر سے بلند ہوسکے۔ 

ہم پاکستانیوں کو ’پانامہ لیکس‘ سے زیرسماعت ’پانامہ کیس‘ تک پھیلی حکمراں خاندان کے مشکوک ذرائع آمدنی‘ سیاسی انتشار اور توانائی بحران‘ اقتصادی محاذ پر خسارے جیسی صورتحال کے سبب ظہورپذیر وحشت سے ہر منظر ہی اُلٹا نظر آ رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ بحث و مباحثے کے شرکاء نے ایک بھارتی کے اِس بیان کو ’طنز‘ سمجھا کہ یوں تو بھارت کی سیاسی قیادت پاکستان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے تاہم دس ایسے شعبے ہیں‘ جنہیں ترجیح قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

1: پاکستان میں اقلیتوں کو بھارت کے مقابلے زیادہ مذہبی آزادی حاصل ہے۔ 

2: قابلیت کے لحاظ سے پاکستان کے نوجوانوں کا شمار دنیا کے چوتھے ذہین ترین افراد میں ہوتا ہے۔ 

3: پاکستان میں شرح خواندگی غیرمعمولی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور اگر صرف گذشتہ پانچ سال ہی کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں شرح خواندگی 250 فیصد بڑھی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خواندگی بڑھانے کے لئے اپنے اپنے مالی وسائل کا زیادہ بڑا حصہ مختص کرتی ہیں۔ 

4: پاکستان کے قومی ترانے کی دھن نہ صرف موسیقیت کے لحاظ سے بلکہ مطالب کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر مؤثر اور پُرتاثیر سمجھی جاتی ہے۔ 

5: پاکستان میں موسیقی کی صنعت بالخصوص ’صوفی موسیقی‘ تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور پاکستانی صوفی موسیقی عالمی منڈی میں تیزی سے اپنی جگہ (منفرد شناخت) بنا رہا ہے۔ امریکہ کی ہالی ووڈ سمیت کئی یورپی ممالک کی فلم ساز صنعتیں پاکستانی موسیقاروں کی خدمات حاصل کر رہی ہیں اور اگرچہ بھارت میں موسیقی مذہبی عقائد کا حصہ ہے لیکن پاکستان نے غیرسرکاری طور پر ’صوفی موسیقی‘ کی سرپرستی کرکے بھارت کے فنکاروں‘ گلوکاروں اُور موسیقاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب موسیقی کی عالمی منڈی پر پاکستان راج کرے گا۔ 

6: پاکستان میں نجی اور سرکاری ٹیلی ویژن کی پروڈکشن کوالٹی (پروگراموں کا تکنیکی معیار) بھارت سے بہت بلند ہے۔ بھارت نے اپنی تمام توجہ فلمی جبکہ پاکستان نے ٹیلی ویژن کی صنعت پر دی ہے چونکہ فلم بنانا ایک طویل اور کھٹن مرحلہ ہے جبکہ ٹیلی ویژن قریب ہر گھر کا حصہ اور فوری تاثیر رکھتا ہے اِس لئے پاکستانی ڈرامے تیزی سے مقبول بھی ہو رہے ہیں اور وہ پاکستان کی ثقافت و سماجی کی مارکیٹنگ بھی کر رہے ہیں‘ جن کا مقابلہ یا موازنہ بھارت کی فلموں سے کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ’ٹیلی ویژن پروڈکشن‘ کے لحاظ سے پاکستان کی کارکردگی بہتر ہے۔ اِس سلسلے میں بالخصوص مارننگ شوز کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے اپنی ایک الگ مارکیٹ بنائی ہے اور ایک ایسا وقت جو کہ زیادہ مفید (پرائم) نہیں سمجھا جاتا لیکن بہتر ٹیلی ویژن پروڈکشن کی وجہ سے پاکستانی چینلز چھائے دکھائی دیتے ہیں۔ 

7: پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا ایسا جنگل ہے جو قدرتی نہیں اور اِسے اُگایا گیا ہے۔ بھارت میں آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں تعداد میں زیادہ ہوں گی لیکن ماحول دوستی کا عنصر غالب نہیں۔ لاہور کے جنوب مغرب میں قریب 80 کلومیٹرز کے فاصلے پر ’’چھانگا مانگا‘‘ نامی جنگل اپنی مثال آپ ہے جس کا رقبہ 12ہزار ایکڑز پر مشتمل ہے اگرچہ یہ جنگل 1866ء میں لگایا گیا لیکن قیام پاکستان کے بعد اِسے مزید ترقی دی گئی اور قریب 50.27 کلومیٹرز پر پھیلے اِس جنگل کا ایک حصہ 40ایکڑز پر پھیلا ’وائلڈ لائف (جنگلی حیات کا) پارک‘ بھی ہے جبکہ ’’چھانگا مانگا‘‘ میں کئی نایاب درختوں کی اقسام بھی پائی جاتی ہیں۔

8: دنیا کا سب سے کم عمر جج (judge) کا تعلق پاکستان سے ہے۔ کسی معاشرے میں اگر انصاف کی فراہمی کا نظام فعال ہوتا ہے تو اُس کی خوبیاں شمار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ محمد الیاس خان نامی شخص نے جولائی 1952ء میں بیس سال نو ماہ کی عمر میں ’جج‘ بننے کے لئے مقابلے کا امتحان پاس کیا تھا جو بعدازاں لاہور میں سول جج تعینات رہے۔ قیام پاکستان سے عدالتی نظام بہتری کی جانب گامزن ہے جس کے اگرچہ کئی فیصلے انتہائی متنازعہ ہیں لیکن عدلیہ کو توانا بنانے کے لئے ملک میں جاری بحث اور حمایت کسی بھی صورت معمولی نہیں جس سے عدلیہ کے وقار اُور فعالیت میں اضافہ اور جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔

9: پاکستان میں دنیا کی سب سے بڑا ہنگامی صورتحال میں طبی امداد پہنچانے کے لئے ’ایمبولینس نیٹ ورک‘ موجود ہے جو حکومت کے خرچ سے نہیں بلکہ عوام کی مدد سے چلتا ہے۔ کسی ملک و معاشرے کی بہتری کے لئے دی جانے والی اِس قدر بڑے پیمانے پر مالی امداد اپنی مثال آپ ہے۔ سرطان جیسے موذی مرض کا مفت علاج پوری دنیا میں کہیں ممکن نہیں اور اگر پاکستان کے صرف مخیر حضرات ہی نہیں بلکہ غریب و متوسط طبقات بھی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ جذبہ چاہے جس وجہ سے بھی ہے لیکن اِس کے ثمرات اپنی جگہ اہم ہیں اور بھارت کو نجی شعبے میں اِس قدر بڑے پیمانے پر فلاح و بہبود کے کاموں کی اشد ضرورت ہے جو قومی خزانے پر بوجھ نہ ہو۔ 

10: بھارت کے مقابلے پاکستان میں خواتین خود کو زیادہ محفوظ اور خوشحال سمجھتی ہیں۔ خواتین کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کے واقعات نسبتاً کم رونما ہوتے ہیں جبکہ انہیں ملازمتوں کے یکساں مواقع اور کام کاج کے مقامات پر زیادہ بہتر حالات کار فراہم کئے جاتے ہیں۔ 

پاکستان میں جنسی زیادتی کرنے کے واقعات میں ملوث بااثر افراد قانون کی گرفت میں آتے ہیں اُور ذرائع ابلاغ کی ہمدردیاں ہمیشہ صنف نازک کے ساتھ رہتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ اقتصادی‘ سیاسی اور آمدنی کے لحاظ سے بحرانوں کا شکار ہو سکتا ہے لیکن اِس میں ارتقاء اُور ترقی کا جاری عمل بھی توجہ طلب ہے اور غلطیوں کے اصلاح کی کوششیں کسی بھی طرح معمولی قرار نہیں دی جاسکتیں۔ ’ویبنار‘ میں بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہا‘ لیکن پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی شریک کے پاس ’تھینک یو‘ جیسے اظہار تشکر پر مبنی کلمات کے سوأ کوئی ایسی دلیل نہیں تھی جس سے اپنی شرمندگی اور جہالت چھپائی جا سکتی!

اے کاش ہم پاکستانیوں نے بھی ’مطالعۂ پاکستان‘ اتنی ہی گہرائی اُور سنجیدگی سے کیا ہوتا‘ اَے کاش ہم نے بُرائیوں کے مقابلے اُن اَچھائیوں کا شمار کیا ہوتا‘ جن میں ’جذبۂ تعمیر‘ پوشیدہ ہے تو پھر کس چیز کی ہم (پاکستان) میں کمی ہے!؟

Sunday, July 16, 2017

TRANSLATION: Criminal Finance Act by Dr Farrukh Saleem

Criminal Finances Act
انسداد بدعنوانی قانون!
چوبیس جولائی سال دوہزار دو: برطانیہ کی ملکہ الزبتھ الیکزینڈرا میری (Elizabeth Alexandra Mary) نے ’کرائم بل 2002ء‘ نامی ایک قانون کو شاہی منظوری دی اور لاگو کردیا۔ یہ قانون برطانیہ کی حکومت کو اختیار دینے کے لئے بنایا گیا کہ وہ مشکوک ذرائع آمدنی بشمول جرائم سے حاصل کئے گئے اثاثوں کو ضبط کرلے۔ برطانیہ میں یہی قانون بنیادی طورپر سرمائے کی غیرقانونی نقل و حمل (منی لانڈرنگ) کے انسداد سے متعلق بھی تھا۔

ستائیس اپریل سال دوہزار سترہ: ملکہ برطانیہ الزبتھ الیکزینڈرا میری ہی نے ’کریمینل فنانس ایکٹ 2017ء‘ نامی قانون پر شاہی منظوری کی مہر ثبت کی جس کے بارے میں کریمنل لاء کے ایک ماہر راجر ساہوتا (Roger Sahota) کا کہنا تھا کہ ’’اِس قانون سازی سے سال دوہزار دو میں کی گئی کو جامع بنایا گیا ہے جس میں ’منی لانڈرنگ‘ کرنے والوں کے اثاثے ضبط کرنے کے حکومت کے اختیارات میں توسیع ہوئی ہے۔‘‘

اپریل سال دوہزار سولہ: تحقیقاتی صحافت کی عالمی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیشن جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) نے ایک کروڑ پندرہ لاکھ (11.5 ملین) دستاویزات جاری کیں جو ایک معروف ادارے ’’موسیک فونیسکا (Mosack Fonseca)‘‘ کی ملکیت تھیں۔ یہ ادارہ خفیہ ناموں سے سرمایہ کاری کی امکانات‘ معلومات اور سہولیات کی فراہمی میں دنیا کا چوتھا ایسا بڑا اِدارہ ہے اور اِس کے ذریعے ’آف شور سرمایہ کاری‘ کی جا سکتی ہے۔ ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات جنہیں دنیا ’پانامہ لیکس‘ کے نام سے جانتی ہے کے منظرعام پر آنے کے بعد برطانیہ حکومت نے قانون نافذ کرنے والوں کو نئے اختیارات دے دیئے کہ وہ مشکوک ذرائع آمدنی سے حاصل کردہ اثاثوں کو بناء کسی عدالتی کاروائی یا قانونی چارہ جوئی کا اختیار دیئے ضبط کرلیں!
برطانیہ کے ’’کریمینل فنانس ایکٹ دوہزارسترہ‘‘ کے تحت اگر کسی ایسے شخص کے اثاثے مشکوک پائے گئے جو سیاست سے وابستہ ہو تو ایسی صورت میں کسی عدالتی سماعت یا مزید تحقیقات کی ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ آیا اِن اثاثوں کے پیچھے کوئی جرم چھپا ہے یا نہیں۔ چونکہ مذکورہ اثاثے معلوم ذرائع آمدنی سے الگ اور زیادہ ہوں گے گے اِس لئے انہیں انسداد بدعنوانی کے قانون کے تحت بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔

دس جولائی سال دوہزارسترہ: سپرئم کورٹ آف پاکستان نے ’چھ رکنی جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)‘ تشکیل دی تاکہ وہ ’پانامہ لیکس‘ کی روشنی میں ’مشکوک ذرائع آمدنی اور بیرون ملک اثاثوں‘ کی چھان بین اور ’پانامہ لیکس‘ کے بقول اِس سرمایہ کاری میں ملوث حکمراں ’شریف خاندان‘ کی ملکیت اور اُن ذرائع کی کھوج کرے‘ جس سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ مذکورہ ’جے آئی ٹی‘ کو ساٹھ روز میں تحقیقات مکمل کرنے کا ہدف دیا گیا اور وقت مقررہ پر رپورٹ سپرئم کورٹ میں جمع کرا دی گئی۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ’’جے آئی ٹی اِس نتیجے پر پہنچی کہ شریف خاندان کے ذرائع آمدنی اُن کے رہن سہن اور اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘‘ 

جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی دسویں جلد خفیہ رکھی جائے جس میں بیرون ملک اثاثہ جات کے بارے قانونی مشاورت کی درخواست و امکانات کا ذکر کیا گیا ہے اور اِس سلسلے میں برطانیہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جب سے ’پانامہ لیکس‘ کا ہنگامہ برپا ہوا ہے عالمی سطح پر سرمائے کی غیرقانونی نقل و حمل پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے اور پاکستان میں جاری ’پانامہ کیس‘ پر بھی عالمی اداروں کی نظریں ہیں۔ برطانیہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ماننا ہے کہ ہر سال برطانیہ کے ذریعے 100 ارب پونڈز کا مشکوک سرمایہ یہاں وہاں جاتا ہے جس کا بیشتر حصے کی جائیداد کی صورت سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ 

رواں برس (دوہزار سترہ) منظور ہونے والے ’کریمنل فنانس ایکٹ‘ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مشکوک ذرائع آمدنی سے حاصل اندرون یا بیرون (آف شور) سرمایہ کاری کے بارے میں سوال کریں اور آمدنی کے ذرائع قانونی ثابت نہ ہونے کی صورت میں انہیں ضبط کر لیا جائے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ برطانیہ کے مذکورہ قانون اُور ’جے آئی ٹی‘ کے پیش کردہ نتیجۂ خیال کے بیان میں الفاظ کی (حیرت انگیز) مماثلت پائی جاتی ہے! برطانوی قانون کا اطلاق غیرملکی سیاست دانوں یا سرکاری حکام یا اُن کے معاونین پر ہوتا ہے جس کے ذریعے برطانیہ کو یہ قانون اختیار حاصل ہے کہ وہ روسی صدر ولادمیر پوٹن سے وابستہ سہولت کار کے خلاف بھی کاروائی کرے جنہوں نے برطانیہ کا استعمال ذاتی سرمائے کو خفیہ رکھنے کے لئے کیا یا برطانیہ افریقہ کے آمروں سمیت اُن تمام بااثر کہلانے والوں کے خلاف کاروائی کرے جنہوں نے اپنے ممالک کی بجائے بیرون ملک اور خفیہ طور سے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)