ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
دِلی مُرادیں!
پانامہ کیس کا فیصلہ نہ تو ’اَنجام‘ ہے اور نہ ہی ’سرانجام‘ بلکہ نئے مقدمات و تحقیقات کا ’نکتۂ آغاز‘ اور ’پاکستان‘ کی ’تشکیل نو‘ کا ’نادر موقع‘ قرار دیا جا رہا ہے جس کے بارے عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اِس سے آئین کی بالادستی زیادہ واضح ہوئی ہے لیکن اِس تاریخی فیصلے کے حقیقی ثمرات (نتائج) مارچ دوہزار اٹھارہ تک اُن ریفرنسیز (مقدمات) کے فیصلوں کی صورت سامنے آئیں گے‘ جنہیں عدالت عظمیٰ نے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو اِرسال کیا ہے۔
بدعنوانی کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کی جدوجہد کا آغاز مرحوم قاضی حسین احمد نے 31 سال قبل کیا جبکہ تحریک انصاف کی 21 سال سیاسی سرگرمیوں کا بنیادی نکتہ بھی یہی رہا کہ ’آزاد و شفاف عام انتخابات کے انعقاد اور بدعنوانیوں سے پاک طرزحکمرانی کے بناء پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔‘ پانامہ کیس فیصلے کو سیاسی فتح سمجھنے اور ’اِظہار تشکر‘ کرنے سے ایک قدم آگے‘ کیا تحریک انصاف اِس فیصلے کا استقبال اُور اِس سے ’بھرپور سیاسی فائدہ‘ اُٹھانے کی منصوبہ بندی رکھتی تھی؟ پانامہ کیس فیصلے کے بعد ’تحریک اِنصاف‘ کی سوچ آئندہ عام انتخابات کے لئے لائحہ عمل کیا ہے؟
سابق وزیراعظم کی نااہلی سے ’این اے ایک سو بیس (لاہور)‘ پر ہونے والے ’ضمنی انتخاب‘ کی تیاریاں کن مراحل سے گزر رہی ہیں! لیکن جب اِس بنیادی سوال کے ساتھ کہ ’کیا شمولیت اختیار کرنے والوں کا ماضی بھی دیکھا جاتا ہے‘ تو چیئرمین (سربراہ) ’پاکستان تحریک انصاف‘ نے ’ورچوئل اپوئٹمنٹ‘ میں سوال کا جواب سوال سے دیتے ہوئے کہا کہ ’’آئندہ عام انتخابات میں کم وبیش ایک ہزار تک نامزدگیاں (پارٹی ٹکٹ) تقسیم کئے جائیں گے۔ اچھی ساکھ اور بے داغ ماضی والے سیاسی افراد کہاں سے لائے جائیں بالخصوص کیا ایک ایسے ملک میں ’سوفیصد ایماندار‘ صاحبان کردار اور ہرلحاظ سے قابل بھروسہ رہنما کیسے میسر آ سکتے ہیں جبکہ قومی اداروں کو کمزور اور ذاتی و سیاسی ترجیحات توانا کر دی گئیں ہوں؟‘‘ تاہم عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’قومی اداروں کو مضبوط‘ بنائیں گے تاکہ کسی بھی سیاسی جماعت کا اگر کوئی بھی رکن مالی و انتظامی بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اُس کا فوراً محاسبہ ممکن ہو۔ تحریک انصاف کی ’سیاسی حکمت عملی‘ یہ ہے کہ سپرئم کورٹ کا دباؤ برقرار رکھا جائے۔ شریف خاندان کے جن ناموں کا ذکر پہلے ہی ’حدیبیہ پیپر ملز‘ کی ذیل میں ’پانامہ کیس فیصلے‘ کا حصہ ہے اُنہیں اور باقی ماندہ افراد کو ’’التوفیق‘‘ کے مقدمے میں آئینی طور پر نااہل قرار دیا جائے۔ اِس سلسلے میں شہباز شریف کے خلاف بدعنوانی کا ایک اُور ریفرنس (مقدمہ) جلد ہی دائر کر دیا جائے گا۔ عمران خان پراُمید ہیں کہ ’’اللہ نے موقع دیا تو وہ جو ’’ایک ناممکن کام‘‘ عملاً کرکے دکھائیں گے وہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں بدعنوانی میں آخری حد تک کمی لائی جائے گی۔ قانون کے نفاذ اور احتساب سے متعلق اداروں کو مضبوط ہوں اُور وزارت خزانہ کو خودمختار کیا جائے تاکہ حسب آمدنی محصولات (انکم ٹیکس) کی وصولی مہنگائی میں کمی ممکن ہو۔‘‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست ’الزام تراشیوں‘ کا مجموعہ ہے۔ جس میں بناء ثبوت و صداقت الزامات عائد کئے جاتے ہیں لیکن ’پانامہ کیس فیصلے‘ کے بعد صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں ’تحریک انصاف‘ نے ایک مرتبہ پھر ’قومی وطن پارٹی‘ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور عمران خان اِسے ’صوبائی قیادت کا فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وہ ’مائیکرو منیجمنٹ‘ نہیں کرتے۔ قومی وطن پارٹی سے علیحدگی‘ دوبارہ شمولیت اور اب پھر سے علیحدگی کا فیصلہ صوبائی حکومت نے خود کیا کیونکہ مذکورہ قوم پرست جماعت نواز لیگ کا دفاع کر رہی تھی اور اگرچہ ’قومی وطن پارٹی‘ سے علیحدگی کے سبب خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت باقی نہیں رہی اور صوبائی حکومت چھن جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ آج پاکستان اُس مرحلے تک آ پہنچا ہے جہاں کم سے کم بدعنوانی کے لئے ’’فکروعمل اُور نیت‘‘ مصلحت پر مبنی نہیں ہونی چاہئیں۔‘‘
قومی وطن پارٹی کے لئے تحریک انصاف کا ’ردعمل‘ اُور تحریک انصاف کے لئے قومی وطن پارٹی کا ’طرزعمل‘ ’غیرمتوقع‘ نہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو بخوبی جانتے ہیں لیکن اِس مرحلے پر تحریک انصاف سے علیحدگی اور خود پر ’کرپشن کی چھاپ‘ لینا نہ تو ’سیاسی دانشمندی‘ ہے اور نہ ہی اِس بات کی ضمانت (کلین چٹ) ہو سکتی ہے کہ قومی وطن پارٹی اُس (اَندرون و بیرون ملک سرمایہ کاری‘ اَثاثوں اُور بینک بیلنس پر مبنی) ماضی سے چھٹکارہ حاصل کر لے گی‘ جس کی ملکیت کا اعتراف رکھنے کے باوجود بھی اُس کے خلاف مقدمات ’سیاسی مفاہمت اور جمہوریت‘ کے نام پر نمٹا دیئے گئے۔
دانستہ بھول ہو گی اگر کسی نے احتساب کے جاری عمل کو صرف اور صرف ’شریف خاندان‘ کی حد تک محدود سمجھا۔ بقول چیئرمین ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘‘ سمیت بیرونی سرمایہ کاری سے ’اقتصادی فوائد‘ صرف اُسی صورت حاصل کئے جا سکیں گے‘ جبکہ پاکستان سے مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا خاتمہ ہو جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کی ’دلی خواہشات‘ گنتے گنتے یہی بات سمجھ آئی ہے کہ ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘ ۔۔۔ اے کاش ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں کہ ہر پاکستانی بشمول اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری ملازمین سیاسی جماعتوں کے نہیں بلکہ صرف اور صرف ملک کے خادم‘ وفادار اور پاکستان کے مشکور و ممنون ہو کر فرض شناسی سے فرائض منصبی سرانجام دیں۔