Monday, January 28, 2019

Pakistan has revised it's Hajj Policy for 2019!

شبیرحسین اِمام ۔۔۔ اٹھائیس جنوری دوہزار اُنیس


حج 2019ء

وفاقی حکومت کی جانب سے حج پیکیج کے تحت دی جانے والی ’مالی رعائت (سبسڈی)‘ واپس لے لی گئی ہے‘ جس سے رواں برس اَخراجات میں ’’36 فیصد اِضافہ‘‘ یعنی گذشتہ سال کے مقابلے فی عازم ڈیرھ لاکھ روپے سے زیادہ قیمت اَدا کرنا پڑے گی۔ 

’’سرکاری حج اسکیم 2019ء‘‘ کے تحت منتخب اَفراد کو تمام اَخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ قانون ساز اِیوان بالا (سینیٹ) کی خصوصی کمیٹی اِن دنوں حج اِنتظامات کو حتمی شکل دے رہی ہے‘ جس کی سربراہی مذہبی جماعت ’’جمعیت علمائے اِسلام‘ فضل الرحمن (جے یو آئی ایف)‘‘ سے تعلق رکھنے والے ’61 سالہ‘ سینیٹر (مولانا) عبدالغفور حیدری کر رہے ہیں۔ اِسلامی تقویم (کلینڈر) کے اِعتبار سے ’’8 سے 12 ذی الحجہ 1440ہجری‘‘ بمطابق ’’9 سے 14 اگست 2019 عیسوی‘‘ مناسک سرانجام دیئے جائیں گے۔ دوران حج سفری اور قیام و طعام کے جملہ اَخراجات کے لحاظ سے پاکستان کو 2 حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک شمالی اُور دوسرا جنوبی حصہ۔ شمالی حصے کے 2 صوبوں پنجاب اُور خیبرپختونخوا سے سفر کرنے والے ہر عازم کو ’4لاکھ 26ہزار975 روپے‘ اَدا کرنا ہوں گے جبکہ جنوبی حصے کے 2 صوبوں سندھ اُور بلوچستان سے حج کے لئے جانے والے ہر حاجی (بزرگ و جوان‘ مرد یا عورت) کو ’’4لاکھ 36ہزار 975روپے‘‘ دینا ہوں گے۔ یہ قیمت سرکاری حج اسکیم کے تحت بذریعہ قرعہ اَندازی منتخب ہونے والوں کے لئے ہوگی۔ گذشتہ برس 2018ء میں شمالی ریجن (خیبرپختونخوا اُور پنجاب) کے لئے سرکاری حج پیکیج کی قیمت ’’2 لاکھ 80 ہزار روپے‘‘ جبکہ جنوبی ریجن (سندھ اُور بلوچستان) کے لئے 2 لاکھ 70 ہزار روپے تھی۔ یوں خیبرپختونخوا اُور پنجاب والوں کو ’حج 2019ء‘ کے لئے اضافی ’’1 لاکھ 46 ہزار 975 روپے‘‘ جبکہ سندھ و بلوچستان والوں کو گزشتہ سال (دوہزاراٹھارہ کے مقابلے) ’’1 لاکھ 66 ہزار 975 روپے‘‘ اضافی اَدا کرنا پڑیں گے جو قطعی معمولی اضافہ نہیں! اِس سال نجی اِداروں کے ذریعے حج کرنے والوں کو اِس کے مساوی یا زیادہ قیمت اَدا کرنا پڑے گی‘ جس کی وجہ قیام و طعام کی بہتر اُور خصوصی سہولیات ہوتی ہیں اُور ظاہر ہے کہ جہاں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی ہے وہیں سعودی عرب میں اشیائے خوردونوش سمیت قیام اور سفر کی سہولیات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ جو سعودی عرب کے خراب مالی حالات اور داخلی و خارجی محاذوں پر اصلاحات اور توسیعی عزائم کی وجہ سے ہے۔

پاکستان نے رواں برس حج کے لئے قربانی کی ’فی حصہ‘ قیمت ’’19 ہزار 451 روپے‘‘ مقرر کی ہے جو گذشتہ برس کے مقابلے ’’6ہزار 401 روپے‘‘ زیادہ ہے۔ اِسی طرح ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے سعودی عرب آمدورفت کا خرچ اِس مرتبہ ’’صوبہ سندھ اور بلوچستان کے لئے 93 ہزار روپے جبکہ خیبرپختونخوا اُور پنجاب کے لئے ’’1 لاکھ 10 ہزار روپے‘‘ زیادہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے نجی حج آپریٹرز کو زبانی کلامی پابند تو کیا گیا ہے کہ وہ اپنی (اِضافی و معیاری) خدمات کے لئے سرکاری حج کے مقابلے ’’10 فیصد‘‘ سے زائد وصولی نہ کریں لیکن ظاہر ہے کہ نجی حج آپریٹرز پہلے ہی دس سے سو فیصد زائد وصولی کر رہے ہیں اُور ’خاص (vip)‘ یا ’اِنتہائی خاص (vvip)‘ حج جیسے پُرکشش پیکیج بھی مرتب کئے جاتے ہیں۔ جس میں حرم المکرم اُور مسجد نبوی شریف کے قریب ترین رہائش‘ بہتر خوراک اور آمدورفت کی بہتر سفری سہولیات کے علاؤہ نسبتاً آرام دہ خیموں کی فراہمی کی وجہ سے زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے۔ ’’حج 2019ء‘‘ کے لئے ’سعودی حکومت‘ نے پاکستان کا کوٹہ ’’پانچ ہزار‘‘ حاجیوں کا غیرمعمولی اضافہ کیا ہے‘ جس کی وجہ سے رواں برس پاکستان سے ایک لاکھ 84ہزار 210 پاکستانی حج کی سعادت حاصل کریں گے۔ حکومت کی جانب سے جہاز راں کمپنیوں سے بات چیت کرنے کی ایک تجویز بھی زیرغور ہے‘ تاکہ 93 ہزار سے 1 لاکھ10 ہزار روپے سفری اخراجات میں کچھ رعائت حاصل کی جائے۔ علاؤہ ازیں رواں برس اُڈھیر عمر (بزرگ) افراد کے نام حج کی قرعہ اندازی میں شامل نہیں کئے جائیں گے اور پہلی ترجیح گزشتہ برس کے باقی ماندہ درخواست گزاروں کو دی جائے گی۔ قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت صرف ’حج‘ سے متعلق اَمور کی نگرانی و منتظم ہے عمرے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی پالیسی وضع نہیں۔ اِس سلسلے میں ایک نئی قانون سازی بنام ’’حج عمرہ سیکیور مینجمنٹ بل 2019ء‘‘ تیاری کے مراحل سے گزر رہا ہے۔

نجی ٹور آپریٹرز ’حج کے بنیادی مناسک‘ کی ادائیگی کے لئے چھ یا سات روزہ خصوصی پیکج مرتب کرتے ہیں‘ جبکہ حکومت کی جانب سے اِس قسم کے خصوصی پیکجز فراہم نہیں کئے جاتے۔ بنیادی طور پر ’’8 ذی الحجہ‘‘ سے حج شروع ہو جاتا ہے‘ جس کے لئے متعین ’’میقات حج (مکۃ المکرمہ سے قریب 85 کلومیٹر خاص مقام)‘‘ سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوا جاتا ہے۔ احرام باندھنے کے کل 6 مقامات ہیں‘ جن میں مدینۃ المنورہ کی سمت ’’تنیم (Taneem)‘‘ مسجد الحرام سے 8 کلومیٹر‘ یمن کی سمت میں ’’عادت لابن (Adaat Laban)‘‘ 11 کلومیٹر‘ عراق کی سمت ’’وادی نخلاء (Wadi Nakhla)‘ طائف کی سمت سے عرفات (Arafat) 11 کلومیٹرز‘ جیرانہ (Ji'ranah) مسجدالحرام سے 14 کلومیٹر اُور جدہ کی سمت سے حدیبیہ (Hudaibiyah) مسجد الحرام (مکہ) سے قریب 16 کلومیٹر فاصلہ کے مقام سے ’احرام (2 سفید رنگ کی چادریں: مخصوص انداز میں ایک ’تہہ بند‘ اُور دوسری بطور ’چادر‘ کندھے پر)‘ اُوڑھ لی جاتی ہے۔ ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے اُڑان بھرنے سے قبل اپنے اپنے ملک سے بطور احتیاط احرام باندھ لیتے ہیں۔ احرام کی حالت میں مکۃ المکرمہ کی حدود میں داخل ہونے والے ’طواف قدوم‘ کرنے کے بعد منی کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں جہاں ’’یوم الترویہ‘‘ گزار کر ’’عرفات‘‘ آیا جاتا ہے جہاں ایک دن وقوف (قیام) کے بعد اُسی دن یوم عرفہ‘ یوم سعی‘ قربانی‘ حلق و قصر کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارنے) کے لئے جمرہ عقبہ کے بعد مسجد الحرام (مکۃ المکرمہ) واپس آتے ہیں۔ ’’طواف افاضہ‘‘ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گزارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع (آخری طواف) کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ 

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’خالصتاً کاروباری نکتۂ نظر‘ سے سوچنے والے نجی ٹور آپریٹرز نے اِن بنیادی مناسک حج کی ترتیب کو سمجھ لیا ہے اور وہ اِنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے پیکجز تیار کرتے ہیں‘ جن سے کاروباری (مصروف) خواتین و حضرات یا بیمار استفادہ کر سکیں۔ عموماً ایک سے زائد حج اَدا کرنے والوں کی بڑی تعداد مختصر ایام کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ ’سرکاری حج اسکیم‘ کے تحت جانے والے ’پینتیس سے چالیس روزہ پیکج‘ کے تحت پابند ہوتے ہیں۔ 

سرکاری حج کی قیمت میں کمی کے لاتعداد امکانات موجود ہیں۔ اِس سلسلے میں زیادہ سوچ بچار اُور مختلف مختصر دورانئے کے سرکاری ’حج پیکجز‘ بھی متعارف کروائے جا سکتے ہیں‘ جن میں قیام و طعام کے زیادہ آپشنز دیئے گئے ہوں۔ حج کی عبادت صرف ’’صاحبان استطاعت‘‘ پر فرض ہے لیکن مقدس مقامات کی زیارت اور حج جیسی ’بزرگ ترین عبادت‘ کا شوق رکھنے والے ساری زندگی تیاری کرتے ہیں۔ عقیدت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے (کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھنے والے) عبادت گزاروں کے ذوق و شوق کو مدنظر رکھا جائے تو ’خصوصی حج پیکیج‘ کے ذریعے حکومتی فیصلہ ساز عبادت کے ثواب میں برابر شریک ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔

Sunday, January 27, 2019

TRANSLATION: Out of control by Dr. Farrukh Saleem

Out of control
آمدن و اخراجات: عدم توازن!
آغاز بیان ’منی بجٹ‘ سے کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے برآمد کنندگان کے لئے کچھ غیرمعمولی اور منفرد مراعات کا اعلان کیا ہے جس میں چند ایسے خام مال کی درآمدی ڈیوٹی بھی کم کی گئی ہے‘ جو برآمدی اشیاء کی تیاری کے لئے زیادہ تر استعمال ہوتے ہیں۔ اِسی طرح چھوٹی و درمیانی صنعتوں‘ زرعی شعبے اُور کم آمدنی والے ہاؤسنگ سیکٹر کے لئے بھی براہ راست مراعات کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ٹیکس سے رعایت بھی شامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وزیرخزانہ نے چند بہت ہی منفرد اور حسب حال ضروری اقدامات کئے ہیں جن سے زبوں حال اقتصادیات اور کاروبار کو فائدہ ہوگا۔ ضمنی بجٹ کے ذریعے تین اہداف بیک وقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قومی بچت میں اضافہ‘ سرمایہ کاری اور آسائش سے متعلقہ اشیاء کی درآمدات کی حوصلہ شکنی۔ برآمدکنندگان کو شکایت رہتی ہے کہ حکومت اُن کے بقایا جات بروقت ادا نہیں کرتی۔ اِس دیرینہ مطالبے (ریفنڈ کے معاملے) کو حل کرنے پر بطور خاص توجہ دی گئی ہے‘ جو کہ خوش آئند ہے۔

اب آتے ہیں کچھ دیگر مسائل کی جانب۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اخراجات ناقابل یقین حد تک زیادہ ہیں اُور یہ ضبط (کنٹرول) میں نہیں آ رہے جبکہ دوسری طرف حکومت کی آمدنی بھی کم ہو رہی ہے جو کہ گذشتہ 6 ماہ کے دوران 170 ارب روپے سے زائد کی کمی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے ذمے واجب الادأ قرضہ جات پر سود کی اقساط 2000 ارب روپے تک جا پہنچی ہیں جبکہ مالی سال کے پیش کردہ بجٹ میں اِس کا حجم 1620 ارب روپے تھا۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا بھی پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک سے 6.6 کھرب روپے قرض لے چکی ہے‘ جو کہ ایک غیرمعمولی طور پر بڑی رقم ہے۔

اعدادوشمار کی حد تک مہنگائی کی شرح 6.17 فیصد ہے لیکن یہ اعدادوشمار ’ادارۂ شماریات‘ کی ملکیت ہیں جو کہ اپنے تیئں مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہے لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح میں غیرمعمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ (مہنگائی) بھی ضبط (کنٹرول) میں نہیں آ رہی ہے۔ حکومت کی آمدنی اور حکومت کے اخراجات کے درمیان توازن نہیں۔ عدم توازن کی یہ صورتحال بھی ضبط (کنٹرول) میں نہیں آ رہی ہے۔ بجٹ کا خسارہ چھ فیصد بتایا جاتا ہے لیکن اِس خسارے میں گردشی قرضہ‘ سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی سے ہونے والا جاری خسارہ‘ حکومتی اخراجات کا بوجھ اُور بجلی و گیس کے شعبوں میں ہونے والے خسارے شامل نہیں‘ جنہیں اگر بجٹ خسارے میں شمار کیا جائے تو یہ خسارہ ملک کی موجودہ کل آمدنی کے 10فیصد تک پہنچ جائے گا۔

قرض کا چکر اُس صورتحال کو کہا جاتا ہے جس میں قرض کی اقساط اور اُس پر سود ادا کرنے کے لئے قرض لیا جاتا ہے۔ سال 2008ء سے 2013ء تک پاکستان پیپلزپارٹی حکومت نے 5 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرض لیا۔ یہ پانچ ارب روپے یومیہ پانچ سال تک ہر روز لئے جاتے رہے۔ سال2013 ء سے 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 7.7 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرض لیا اور یہ سات اعشاریہ سات ارب روپے پانچ سال (حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے تک) تک ہر روز لئے جاتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے پانچ ماہ کے دوران 15 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرض لیا ہے یعنی پانچ ماہ کے ہر دن پندرہ ارب روپے لئے گئے ہیں۔ رواں سال پاکستان کی تاخیر میں ایسا پہلا اقتصادی عرصہ ہوگا جس میں حکومت کو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی نصف آمدنی (کل آمدنی کا پچاس فیصد) قرضہ جات کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہو جائے گی۔

حرف آخر یہ ہے کہ قومی پیداوار میں اضافہ سست رفتار یعنی 2 فیصد ہے یعنی 700 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ جلد یا بدیر وزارت خزانہ کو ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے جن کی وجہ سے حکومت کی آمدن و اخراجات کے درمیان ’’800 ارب روپے‘‘ کا عدم توازن پورا کرنے کی سعی کی جائے۔ حکومت کے ناقابل کنٹرول اخراجات کی وجہ سے بہت جلد ہر پاکستانی خاندان کو اضافی 30 ہزار روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت کی آمدنی کم ہے اُور اِس کے اخراجات زیادہ ہیں۔

آمدنی بڑھانے کے ساتھ حکومت کو اُن تمام خرابیوں کو بھی دور کرنا ہے‘ جن کی وجہ سے اخراجات اور سرکاری اداروں کا خسارہ کم نہیں ہو رہے۔ ہمارے سرکاری ادارے سالانہ 1100 ارب روپے کا خسارہ کرتے ہیں۔ 2 ارب روپے یومیہ کے حساب سے بجلی کا خسارہ ہے۔ 150 ارب روپے سالانہ کے حساب سے گیس شعبے کا خسارے ہے اُور 624 ارب روپے کا بوجھ مختلف حکومتی اداروں کو فعال رکھنے کے لئے سرکاری خزانے پر مسلط ہے۔

اگر کسی مریض کو سرطان (کینسر) جیسا پیچیدہ اُور معلوم مرض لاحق ہو تو کیا اُس کا علاج گھریلو ٹوٹکوں یا درد رفع کرنے والی عمومی دوا ’پیناڈول (panadol)‘ سے کیا جاتا ہے؟

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, January 13, 2019

TRANSLATION: Course correction by Dr. Farrukh Saleem

Course correction
طرزحکمرانی: سمتِ سفر
ایک نہیں بلکہ دو ’اچھی خبریں‘ ایسی ہیں‘ جن کا ذکر ضروری ہے۔ 1: پاکستان کی برآمدات میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے اُور 2: پاکستان کے تجارتی خسارے میں 5 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ ہفتہ وار کالم لکھتے ہوئے راقم کو 20 برس ہو گئے ہیں جس کے لئے میں ’دِی نیوز (اَخبار)‘ کی اِنتظامیہ کا مشکور ہوں‘ جنہوں نے مجھے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے کیا لکھنا چاہئے۔ بیس برس ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اَلبتہ اِس عرصے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں میری تحریریں شائع ہوئیں لیکن ’3 مرتبہ‘ ایسا ہوا کہ میرے کالم شائع نہیں کئے گئے۔

گذشتہ 20 سال کے دوران ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کی ذاتی ترجیحات قومی ضروریات کے مطابق ہیں۔ وزیراعظم دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان سے بدعنوانی (کرپشن) کا خاتمہ ہو اور غربت کا شکار 13 کروڑ ایسے پاکستانیوں کو غربت کی دلدل سے نکالا جائے جن کی آمدنی یومیہ 300 سے 400 روپے ہے لیکن اِس مقصد کے لئے حکومت کو ایک جامع اقتصادی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔ جس کا انتخاب کرتے ہوئے یہ بات بھی یکساں اہم ہے کہ ماضی میں انسداد بدعنوانی اور غربت کے خاتمے کے لئے کی گئیں حکومتی کوششوں (مشقوں) کی ناکامی سے حاصل ہونے والے اسباق (نتائج) پر بھی نظر رکھی جائے۔

انسداد بدعنوانی کی مہمات (ماضی) میں پاکستان کو خاطرخواہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوسکیں اُور اگر اِس مرتبہ بھی ’غیر روائتی انداز‘ اختیار نہ کیا گیا اُور ماضی ہی کی طرح انسداد بدعنوانی کی کوششیں کی گئیں تو اِس کے نتائج زیادہ مختلف برآمد نہیں ہوں گے۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی اقتصادی پالیسی میں بہتری لانے کے لئے ماضی کی حکمت عملیوں سے مختلف راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو اگرچہ مشکل ہوگا لیکن اِس کے سوأ ’اِصلاح کی کوئی دوسری صورت باقی نہیں ہے۔‘

پاکستان کا گردشی قرض 1400 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ گردشی قرضوں کے اِس غیرمعمولی حجم کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 1100 ارب روپے ہے یعنی ہم پاکستان کے دفاع سے زیادہ گردشی قرضہ جات پر ادا کریں گے! گذشتہ 137 دنوں میں تحریک انصاف حکومت نے قومی قرضہ جات میں 260 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے‘ جو 137 دنوں میں فی دن 2 ارب روپے بنتا ہے۔ چند برس قبل حکومت 1ارب روپے روزانہ قرض لے رہی تھی جو دگنا ہو چکا ہے۔ حکومت نے اقتصادی و معاشی محاذوں پر بہتری کے لئے ٹاسک فورسیز بنائی ہیں جن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ لومڑیوں سے گوشت کی رکھوالی کراوئی جا سکے؟ بجلی (توانائی) کی عدم موجودگی میں کسی اقتصادی بہتری کا امکان نہیں ہو سکتا اور حکومت جو 2 ارب روپے یومیہ قرض لے رہی ہے‘ اُس کا استعمال توانائی کے پیداواری منصوبوں پر نہیں کیا جارہا۔ اِس سلسلے میں حکومتی ترجیحات کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

سال 2013ء میں حکومتی اداروں (پبلک سیکٹر انٹرپرائزز) نے مجموعی طور پر 495 ارب روپے کا نقصان کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے گذشتہ دور حکومت میں یہ نقصان 1100 ارب روپے تک جا پہنچا تھا‘ جو ’حسن اِتفاق‘ سے پاکستان کے دفاعی بجٹ کے مساوی رقم ہے۔ میرے خیال کے مطابق‘ تحریک انصاف حکومت کے پہلے پانچ ماہ کے دوران سرکاری اداروں کا خسارہ ’500 ارب روپے‘ ہے اور حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کے تحت اِن اداروں کے خسارے پر قابو پا سکے۔ حکومت نے ’سرمایہ پاکستان کمپنی‘ بنانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اِس قسم کے تجربات ماسوائے سنگاپور دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔

پاکستان میں کاروبار اقتصادی غیریقینی پر مبنی صورتحال کے باعث متاثر ہو رہے ہیں۔ روپے کی قدر آئندہ ماہ کیا ہوگی‘ اِس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ برآمدکنندگان اشیاء کی بیرون ملک فروخت کے بعد سرمایہ پاکستان منتقل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ پاکستنان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز مینوفیکچررز کے چیئرمین اشرف شیخ کے بقول ’’بیروزگاری‘ بینک دیوالیہ اور آمدن میں کمی‘‘ جیسے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ 60 ارب روپے مالیت کے ٹریکٹر بنانیو الی یہ صنعت مشکل دور سے گزر رہی ہے‘ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی طرح نجی پیداواری ادارے بھی اقتصادی مسائل سے نمٹنے میں مشکلات سے دوچار ہیں‘ جنہیں کم کرنے کے لئے حکومت کو اپنے ’اقتصادی لائحہ عمل‘ میں تبدیلی لانا ہوگی۔

سال 2013ء میں اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ادارے کو مطلع کیا تھا کہ قومی خزانے سے 290 ارب روپے کی ایسی ادائیگیاں کی گئیں ہیں جو قوانین و قواعد کے خلاف ہیں لیکن یہ سلسلہ رک نہیں سکا اُور آج بھی جاری ہے! پاکستان کی حکومت جس بڑے پیمانے پر قرض لیکر ملک چلا رہی ہے ماضی میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر روپے کی قدر میں کمی کو شمار کرتے ہوئے موجودہ اور سابق سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو مالی امور میں حکومت کی کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ گذشتہ 5 ماہ کے دوران 15 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قومی قرض بڑھا ہے جو سابق دور حکومت (نواز لیگ) کے وقت 8 ارب روپے یومیہ اُور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 5 ارب روپے یومیہ تھا۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, January 6, 2019

Translation "Alarm bells" by Dr. Farrukh Saleem

Alarm bells
خطرے کی گھنٹیاں
خطرے کی پہلی گھنٹی: پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ زرمبادلہ کا ذخیرہ ’’11 ارب ڈالر‘‘ تک جا پہنچا ہے۔ اِس حقیقت کی روشنی میں کیا یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ پاکستان اقتصادی بحران سے دوچار ہے؟ اصطلاحی طور پر ’اقتصادی بحران‘ ایسی صورتحال کو کہا جاتا ہے جس میں حکومت کے پاس جاری اخراجات کے لئے مالی وسائل نہ ہوں۔ خام قومی پیداوار میں کمی ہو اُور ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھتی چلی جائے۔
پہلا سوال: کیا پاکستان کے پاس جاری اخراجات کے لئے مالی وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں؟
دوسرا سوال: کیا پاکستان کی قومی پیداوار مائل بہ بحران ہے اور خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافہ یا کمی ہو رہی ہے؟
تیسرا سوال: کیا پاکستان میں قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھ رہی ہے؟
یاد رہے کہ پاکستان کے کل قومی وسائل ’11ارب ڈالر‘ کمی سے دوچار ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جاری اَخراجات کے لئے بھی مالی وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ پاکستان کے پاس ’اَمریکی ڈالروں‘ کی صورت ’زرمبادلہ کے ذخائر‘ ختم ہو چکے ہیں۔ 30نومبر (دوہزار اٹھارہ) کے روز ’اِسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 7265 ملین ڈالر تھے جبکہ پاکستان کی ایک سال (12ماہ) کے جاری اخراجات کے لئے قریب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ’7 ارب ڈالر‘ کمی کا سامنا ہے۔
پاکستان کی اقتصادی صورتحال ہنگامی بلکہ ایک خطرناک دور سے گزر رہی ہے۔ سال 2013ء میں ’عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف‘ نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کی کمی ہے۔ سال 2008ء میں ’آئی ایم ایف‘ نے 2 ارب ڈالر کمی سے مطلع کیا تھا۔ تصور کیجئے کہ فی الوقت پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں 11ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ہر ماہ ’2 ارب ڈالر‘ کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ چین نے جولائی (دوہزاراٹھارہ) کے مہینے میں ’’1ارب ڈالر‘‘ کا قرض دیا تھا جو کب کا خرچ ہو چکا ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے بھی ’’1 ارب ڈالر‘‘ ملے لیکن ’نومبر (دوہزاراٹھارہ)‘ تک یہ رقم بھی خرچ کر دی گئی۔ کیا پاکستان کی حکومت کے پاس ایسا کوئی مالی انتظام ہے کہ اِسے دوست ممالک سے مالی امداد کی ضرورت نہ پڑے اور یہ اپنے مالی نظم و ضبط کے بل بوتے پر اپنی آمدنی کے وسائل کو ترقی دے؟
خطرے کی دوسری گھنٹی: پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی گئی ہے لیکن اِس حکومتی کوشش کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی کی گئی ہے جبکہ ’نومبر 2017ء‘ کے دوران پاکستان کی برآمدات میں ’1.968 ارب ڈالر‘ اُور ’نومبر 2018ء‘ میں ’1.843 ارب ڈالر‘ کمی دیکھنے میں آئی۔ مجموعی طور پر برآمدات میں 6 فیصد کمی آئی۔ حکومت نے دوسری مرتبہ روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی کی جس سے نومبر 2018ء میں برآمدات 4.646 ارب ڈالر تک نیچے آ گئیں جبکہ یہ نومبر 2017ء میں ’4.758 ارب ڈالر‘ تھیں۔ برآمدات میں اِس مسلسل کمی اور حکومت کی جانب سے اِس خسارے کو روکنے کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نتائج نہیں دے پائی ہیں۔ اِس صورتحال سے صاف ظاہر ہوا ہے کہ حکومت کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی جیسی کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
خطرے کی تیسری گھنٹی: اگست 2018ء میں پاکستان کے قومی بجٹ کا خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 2.26کھرب روپے کو چھو رہا تھا۔ یہ خسارہ مجموعی قومی آمدنی کا 6.6 فیصد ہے۔ حکومت مشکل اقتصادی فیصلوں کی بجائے آسان فیصلوں کو ترجیح دے رہی ہے۔ جس کا نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری اداروں کا خسارہ حکومت کے لئے پریشانی کا باعث نہیں جس کے باعث مجموعی قومی پیداوار کا 10فیصد ضائع ہو رہا ہے۔حتیٰ کہ یہ صورتحال تشویش میں مزید اضافے کا باعث ہے کہ حکومت کے اخراجات میں کمی نہیں آ رہی اور حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں آمدنی کے مقرر کردہ اہداف بھی حاصل نہیں ہو رہے۔
خطرے کی چوتھی گھنٹی: اگست 2018ء میں پاکستان کا گردشی قرض 1.14 کھرب روپے تھا‘ جو بڑھ کر ’1.4 کھرب روپے‘ جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے یعنی گردشی قرضہ جات میں ہر دن ’1.8 ارب روپے‘ جیسا غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور جب تک یہ غیریقینی کے بادل چھٹ نہیں جاتے اُس وقت تک خاطرخواہ بہتر نتائج بھی برآمد نہیں ہوں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)