Sunday, September 18, 2016

Sept2016: Health facilities & Protocols

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ صحت: علاج اُور پروٹوکولز! 
سرکاری ہسپتالوں میں علاج ’پرٹوکول‘ کے مطابق کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے معائنہ کرنے والا طبی عملہ اپنے علم و تجربے کی بنیاد پر مریض یا مریضہ کی شفایابی کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اگر بات نہ بنے تو دوسرے مرحلے میں معاملہ ’اسسٹنٹ رجسٹرار‘ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے‘ جہاں سے مرض برقرار رہنے کی صورت تیسرے مرحلے میں ’رجسٹرار‘ کو مدعو کیا جاتا ہے اور چوتھے مرحلے میں ’سینیئر رجسٹرار‘ زحمت کرتے ہیں! اِس کے بعد پانچویں اور چھٹے مرحلے میں ’اسسٹنٹ پروفیسر‘ اور ’ایسوسی ایٹ پروفیسر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ساتویں مرحلے میں ’پردھان منتری‘ یعنی پروفیسر کو طلب کیا جاتا ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں رائج اِن 7مراحل کے طریقۂ علاج کی آخری کڑی ہے۔ تصور کیجئے کہ ایک طرف ’زندگی اور موت کی کشمکش‘ ہے اور دوسری طرف ’پروٹوکولز (حفظ مراتب) ہیں! ایک طرف معاون طبی عملے سے لیکر اسسٹنٹ رجسٹرار‘ رجسٹرار‘ سینیئر رجسٹرار‘ اسسٹنٹ پروفیسر‘ ایسوسی ایٹ پروفیسر اُور پروفیسر ہیں اور دوسری طرف مالی وسائل نہ رکھنے کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں سے ’بہ امر مجبوری‘ رجوع کرنے والی عام آدمی (ہم عوام) بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی میں گھٹن بھری زندگی سے تڑپتے تڑپتے ’موت‘ دائمی حقیقت سے جا ملتا ہے۔ اگر ہمارے فیصلہ ساز علاج معالجے کے نام پر صحت کی ’’بنیادی و معیاری سہولیات‘‘ کی فراہمی ممکن نہیں بنا سکتے تو کیا قانون سازی کے ذریعے یہ اختیار دے سکتے ہیں کہ ہسپتال کے بستروں پر اذیت کا شکار جب چاہیں اپنے لئے موت کا انتخاب کر لیں اور انہیں انجکشن لگا کر تکلیف سے نجات دلا دی جائے؟ 

عجب ہے کہ مالی وسائل رکھنے والے فیس ادا کر کے کسی بھی پروفیسر کے نجی کلینک پر بناء ’حفظ مراتب (پرٹوکولز)‘ اپنا معائنہ (تشخیص) اور علاج کروا سکتے ہیں لیکن اربوں روپے سالانہ صحت پر خرچ ہونے کے باوجود بھی پروفیسر ’شودروں (نچلے طبقات)‘ کو ’سرکاری علاج گاہوں میں‘ ہاتھ لگانا تو دور کی بات اُس وقت تک چھونا بھی پسند نہیں کرتے جب تک ایسا ’بہ امر مجبوری ضروری‘ نہیں ہوجاتا! طب کے شعبے سے جڑے ماہرین کی اکثریت کے ہاں ’انسانیت کا احترام‘ کا تصور جس قدر دھندلا اور کم ترین ترجیح پر ہے‘ اُس کی بنیادی وجہ ہمارا ’نظام تعلیم و تربیت‘ ہے‘ جس کی وجہ سے انسانیت‘ انسانی حقوق‘ رحم‘ اخلاقی اقدار اور عمومی و خصوصی فرائض کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں کی بجائے ’مادیت پسندی‘ نے ’عام آدمی‘ کی زندگی مصائب و مشکلات سے بھر دی ہے!


شعبۂ صحت میں صرف علاج معالجہ ہی ’پروٹوکولز‘ کی زد میں نہیں بلکہ انتظامی معاملات بھی فیصلہ سازوں کی ذات (اَنا) اُور خودپسندی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ ’نیچے سے اُوپر‘ اُور ’اُوپر سے نیچے‘ اختیارات کی ’تہہ داریوں‘ کے سبب ایسے فیصلوں کی مثالیں عام ہیں‘ جس سے سرکاری وسائل کا استعمال نہایت ہی بیدردی سے کیا جا رہا ہے اور ماضی کی طرح ’سرکاری وسائل‘ کی لوٹ مار (وائٹ کالر کرائم) کا سورج سوا نیزے پر دھک رہا ہے۔ ’’پھولوں کا ڈھیر صحن میں رکھنے کے باوجود۔۔۔ خوشبو کا قحط ویسے کا ویسا پڑا رہا!‘‘ سرکاری علاج گاہوں میں کروڑوں روپے کے آلات اَربوں میں خریدے جاتے تھے آج بھی خریدے جا رہے ہیں اُور باوجود مہنگے داموں اور بناء ضرورت خریداری اِن سہولیات کی ’طبعی عمر‘ نجی علاج گاہوں کے مقابلے ماضی میں بھی کم ہوتی تھی‘ آج بھی کم ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کسی ڈاکٹر کے چہرے پر مسکراہٹ‘ خوش اخلاقی‘ اُور خندہ پیشانی کے آثار بمشکل ہی نظر آتے تھے‘ آج بھی تناؤ بھرا ناک نقشہ (خدوخال) وہی کے وہی ہیں لیکن اگر موازنہ نجی علاج گاہوں سے کیا جائے تو یکایک یہی ڈاکٹر من مانی فیسوں کے عوض ’انسانیت کی معراج‘ پر فائز دکھائی دیں گے۔ مسیحاؤں کا وہ رویہ جو عمومی ہونا چاہئے‘ خصوصی ہے آخر کیوں؟ 

سرکاری ہسپتالوں کی پہچان (شناختی علامت) خاص بدبو بن چکی ہے آخر کیوں؟ سرکاری علاج گاہوں میں صفائی کی ابتر صورتحال اور درودیوار سے ٹپکنے والی وحشت مریض کو یقین دلانے کے لئے کافی ہوتی ہے کہ اب اُن کا سفر اختتام کے قریب ہے لیکن نجی علاج گاہوں میں تعمیراتی خوبیوں کی وجہ سے کشادگی کا احساس‘ صفائی اور خوشگوار ماحول میں طبی اور معاون طبی عملہ صاف ستھرے کپڑے پہنے رہنمائی و سہولت کاری کرتا دکھائی دے گا تو ’نجی علاج گاہوں‘ جیسا ماحول سرکاری ہسپتالوں میں کیوں رائج نہیں کیا جاسکتا؟ ایک طرف حکومت ہر سال اربوں کی سرمایہ کاری کرکے بھی صحت کے اِنتظامی و عملی شعبے میں ’حسب ضرورت (خاطرخواہ)‘ بہتری نہیں لاسکی اُور دوسری طرف نجی علاج گاہیں چند کروڑ کی سرمایہ کاری سے اربوں روپے کما رہے ہیں! تو ایک جیسا ہی کردار ادا کرنے والوں کے دو الگ الگ روپ کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ وہ حکومت سے بھاری تنخواہیں اور مراعات کا طلبگار و حقدار بھی ہو لیکن اُس کی بہترین صلاحیتوں کا عملی استعمال (ظاہری نتائج) نجی علاج گاہوں میں دکھائی دیں؟ 

یہ صورتحال‘ یہ تجاہل عارفانہ‘ یہ خیانت بھرے رویئے ناقابل معافی ہیں اُور انہیں کسی بھی جواز کے تحت نظراَنداز نہیں کیا جاسکتا۔ عام آدمی عملی بہتری و نتائج کا منتظر ہے۔ تین برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ’تبدیلی کے نام‘ پر ’جنون‘ کی صورت خاموش انقلاب کی راہ دیکھ رہا ہے!‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, September 17, 2016

Sept2016: Passport Procedures & Issues!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاسپورٹ: رنگ‘ ڈھنگ اور جنگ!
وزیرداخلہ چودہری نثار علی خان نے سال 2016ء کے آغاز میں کہا ’پاکستانی پاسپورٹ‘ کے حصول کا طریقۂ کار آسان و باعزت بنانے کے لئے قوم سے جو وعدے کئے تھے‘ اُن پر یقین کرنے والوں کو اُس وقت شدید ذہنی صدمہ اور کوفت یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب پانچ یا دس سال بعد پاسپورٹ کی تجدید یا پہلی مرتبہ پاسپورٹ حاصل کرنے کے لئے ’اَعصاب شکن اَذیت‘ پر مبنی عمل سے واسطہ پڑتا ہے۔ 

پاسپورٹ دفتر ایک جگہ تو اُس کی فیس جمع کرانے کے لئے بینک برانچ میلوں دور منتخب کی گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاسپورٹ دفتر کے اندر ہی بینک اپنی برانچ کا کاونٹر نہیں کھول لیتی جبکہ وہ فی پاسپورٹ فیس کے علاؤہ فی درخواست گزار 30روپے ’سروس چارجز‘ بھی وصول کر رہی ہے۔ ماضی میں ہاتھ سے پُر (مکمل) کی جانے والی درخواست کی بجائے کمپیوٹرائزیشن نے لے لی ہے لیکن پاسپورٹ فیس جمع کرانے کے مجوزہ فارم (جو کہ مفت ہونا چاہئے) حاصل کرنے اُور اُسے پُر کرنے کے لئے تیس روپے جبکہ بینک کے چارجز تیس روپے اور پاسپورٹ کی نقول کے لئے فوٹوسٹیٹ چارجز تیس روپے الگ سے اَدا کرنے پڑتے ہیں۔ کسی بھی درخواست گزار کو حکومت کی مقرر کردہ فوری (ارجنٹ) یا معمول کی فیس کے علاؤہ کم سے کم ’نوے روپے‘ اضافی ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اگر کمپیوٹرائزیشن کر لی گئی ہے تو فوٹوسٹیٹ نقول کی بجائے اِسکینرز (Scanners) کے ذریعے دستاویزات کی نقول کسی بھی درخواست گزار کے کوائف کے ساتھ محفوظ (Save) ہو سکتی ہیں اُور اَنگوٹھے کا نشان (بائیومیٹرکس) کرنے والے ڈیسک پر ہی پیسے بھی ’آن لائن‘ جمع کئے جا سکتے ہیں‘ چونکہ ’پاسپورٹ کے درخواست گزار‘ کا موبائل نمبر حاصل کیا جاتا ہے لیکن درخواست گزار کی سہولت کے لئے اِس سے باسہولت استفادہ نہیں کیا جارہا۔ 

درخواست گزاروں کے لئے اگر پاسپورٹ فیس آن لائن جمع کرائی جاسکتی ہے تو بینک کے تیس روپے اُور تکلیف دہ عمل سے نجات کیوں ممکن نہیں۔ 

ضلع ایبٹ آباد کے پاسپورٹ آفس (منڈیاں) میں الیکٹرانک ٹوکن کا نظام عرصۂ دراز سے خراب ہے جس کی وجہ سے چوکیدار درخواست گزاروں کو ہاتھ سے لکھے ہوئے نمبر دینے کے علاؤہ اُن کے نمبر پکارنے اور تصدیق کے مراحل مکمل کرنے کے لئے رہنمائی کرتا ہے۔ کندھے پر بندوق‘ ہاتھ میں امتحانی بورڈ اور قلم دفتر کے داخلی دروازے پر اندھیری سیڑھیوں سے متصل ٹوٹی پھوٹی کرسی پر تمام دن براجمان رہنے اُور ایک سے زیادہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے ’اِنسان (خطا کے پتلے)‘ سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ خدانخواستہ کسی دہشت گرد حملے کی صورت اپنی ذمہ داریوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ترجیحات تبدیل کرے گا۔ اَفرادی قوت کے اِس طرح ’غیردانشمندانہ اِستعمال‘ کی وجہ سے کتنے لوگوں کی جان و مال خطرے میں ہے‘ یہ اِضافی بیان کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ عقلمند کے لئے اِشارہ ہی کافی ہوتا ہے!

پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کرنا اَپنی جگہ اَہم لیکن کیا ’پاکستان پاسپورٹ کی قدرومنزلت ہر گزرتے دن بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے؟ یاد رہے کہ ہمارا پہلا پاسپورٹ 1947ء کے آخر میں جاری کیا گیا‘ جس کا رنگ آج کی طرح پورا ’سبز‘ نہیں تھا‘ بلکہ گتے کی موٹی جلد میں کتابچے کی صورت اِس پر سبز رنگ کی ایک پٹی اُور دو پاکستانی جھنڈے شائع کئے گئے‘ جس کی جلد پر تین زبانوں (انگلش‘ اُردو اُور بنگالی) میں پاسپورٹ کی شناخت درج کی گئی تھی۔ 2 جھنڈے شائع کرنے کا مقصد ملک کے دو حصّوں کی نمائندگی کرنا تھا جبکہ داخلی صفحات پر پاسپورٹ کی ملکیت رکھنے والے کا نام‘ پتہ‘ پیشہ‘ تصویر اور شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے تفصیلات درج ہوا کرتی تھیں۔ یہ اَمر قابل ذکرہے کہ تب پاکستان کے پاسپورٹ پر کسی بھی ملک بشمول بھارت کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی لیکن پھر پاکستان کو ایسے حکمران نصیب ہوئے کہ جنہوں نے قومی شناختی دستاویزات بشمول پاسپورٹ کی وقعت کو اتنا کم کر دیا کہ آخر اُنہیں اپنے لئے الگ اور عوام کے لئے الگ قسم کے پاسپورٹوں کا اجرأ کرنا پڑا۔ فی الوقت پاکستان کے تین قسم کے پاسپورٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ حکمرانوں‘ قانون ساز ایوانوں کے اراکین اُور سفارتکاری کرنے والے سرکاری ملازمین کے لئے الگ جبکہ عوام کے لئے الگ قسم کا پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے جس کا رنگ ’مکمل سبز‘ ہوتا ہے۔ باقی دو پاسپورٹوں کا رنگ سبز نہیں! لیکن اگر پاکستانی جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے تو پاسپورٹ کے سرورق پر بھی سفید رنگ کی موجودگی (نمائندگی) ہونی چاہئے۔ 

عوام و خواص کے لئے الگ الگ پاسپورٹوں کے اجرأ سے اُبھرنے والا تاثر بھی ’جمہوری‘ نہیں۔ حکمرانوں کو صرف ’پاکستانی پاسپورٹ‘ کے حصول کا عمل ہی سہل نہیں بنانا بلکہ اِس کی وقعت اُور قدر بڑھانے کے بارے بھی غور کرنا چاہئے۔ 

یورپی ممالک بشمول برطانیہ نے 1983ء سے پاکستانیوں کے لئے ’آن اَرئیول‘ ویزے ختم کردیا جس سے قبل 1980ء میں عرب ممالک (متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ عمان‘ کویت اُور سعودی عرب) نے پاکستانیوں کے لئے سخت ویزہ پالیسی کا اعلان کیا۔ آج تک ہمارے حکمران صرف پاسپورٹ کا رنگ اور اِس کا سائز ہی تبدیل کرتے رہے ہیں! نائن الیون کے بعد تو صورتحال مزید بگڑ گئی کہ چین نے بھی پاکستانیوں کے لئے ویزا پالیسی تبدیل کر دی اور اب ہمالیہ سے اونچی دوستی کا دعویدار چین جانے والوں کو پہلے ویزا حاصل کرنا پڑتا ہے! 

پاسپورٹ پر اثرانداز ہونے والے رنگ‘ ڈھنگ اور عالمی جنگ کے مضر اثرات زائل کرنا کیا عام آدمی (ہم عوام) کی ذمہ داری ہے؟ رواں برس (سال دوہزار سولہ) میں جاری ہونے والے ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا میں کم ترین وقعت رکھنے والے گنتی کے چند ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ صاحب ثروت اور حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت ایک کی بجائے دوہری شہریت رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مستقبل کے پاسپورٹ پر انگریزی زبان میں شہریت پاکستان اور اُردو زبان میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ تحریر ملے گا تو تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے فیصلہ سازوں کے لئے کبھی بھی اسلام شناخت کا ذریعہ نہیں رہا۔ پاکستانی پاسپورٹ کی پیشانی پر اُردو اور انگریزی زبانوں میں ایک جیسی تحریریں کیوں نہیں ہو سکتیں بلکہ ’پاکستان کے اسلامی تشخص‘ کا ذکر صرف اُردو زبان میں ہوتا ہے تو ایسا کیوں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, September 16, 2016

Sept2016: Challenges of Afghan Refugees Repatriation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مہاجرین وطن واپسی: نیا باب!
افغان مہاجرین کی وطن ’واپسی کا مرحلہ وار عمل‘ زیادہ نازک اور فیصلہ سازی زیادہ احتیاط کی متقاضی ہے کیونکہ اِسلامی بھائی چارے‘ اِنسانی (بشری) حقوق اُور تہذیب و اَخلاقیات کے اپنے تقاضے بھی توجہ طلب ہیں۔ افغان تاریخ کا ایک اُور باب رقم ہو رہا ہے‘ جس میں پاکستانی قوم کے کردار‘ اجتماعی ’ایثار و قربانی‘ کے حوالے سے اگر کچھ ایسا لکھ دیا جاتا ہے جس سے چار دہائیوں پر پھیلی ’محنت‘ پر پانی پھر جائے تو ایسا کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ افغان مہاجرین کی اکثریت نہ تو جرائم پیشہ ہے اور نہ ہی عسکریت پسندی اور دہشت گردی پر یقین رکھتی ہے لیکن ایک قلیل تعداد میں بہروپیوں نے ہر کس و ناکس کو مشکوک و مشتبہ بنا دیا ہے اُور پاکستان کی داخلی سلامتی کے تقاضے یہ ہیں کہ ’رجسٹرڈ و غیررجسٹرڈ‘ مہمانوں کو باعزت رخصت کیا جائے اور ایسے مواقع (امکانات) پیدا کرنے پر زیادہ غوروخوض ہونا چاہئے جس سے افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کا عمل خوش اسلوبی سے انجام پائے۔


پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں افغان مہاجرین کے حوالے سے ’قومی حکمت عملی (پالیسی)‘ تشکیل دینے کے لئے ’اکیس ستمبر‘ کو نشست طلب کی گئی ہے‘ جس سے چاروں صوبوں‘ افغانستان کے نمائندے اُور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) سے تعلق رکھنے والے فریقین اُن کوششوں کو مربوط اور مؤثر بنانے پر بات چیت کریں گے تاکہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں جہاں کہیں ’کوآرڈیشن‘ (رابطوں) میں کمی بیشی ہے تو اُسے دور کرنے کے علاؤہ اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ’کسی بھی صورت ’غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے ساتھ ظلم یا زیادتی نہ ہو۔‘ اطلاعات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پیش پیش پولیس کا محکمہ کم مالی وسائل رکھنے والے ’افغان مہاجرین‘ کا استحصال کر رہے ہیں اور مہاجرین سے ہتک آمیز سلوک کے علاؤہ اُن سے رعائت کرنے کے لئے بھاری رشوت بھی طلب کی جاتی ہے۔ پاکستان کے دامن پر اِس قسم کا داغ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہئے اور یقیناً’آل پارٹیز کانفرنس‘ میں ایسی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے قانون کی آڑ میں قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔


پوری دنیا جانتی ہے اور پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کرتی ہے کہ محدود وسائل و بحرانوں کے باوجود پاکستان برسوں سے افغان مہاجروں کی میزبانی اور اُنہیں ایک ایسے وقت میں پناہ دیئے ہوئے ہیں جبکہ حالات سازگار نہیں تھے لیکن اب چونکہ افغانستان میں عالمی امداد سے تعمیروترقی اور آبادکاری و بحالی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے تو اپنے ملک سے دور رہنے والوں کو بھی اِن کاوشوں میں حصّہ لینے کا موقع ملنا چاہئے۔ یقیناًافغان مہاجرین کے متعلق اچانک سخت رویہ اختیار کرنا برسوں کی میزبانی کو خاک میں ملانے کا سبب ہوگا‘ جو دانش مندی نہیں ہوگی لیکن ہمارے فیصلہ ساز جو مہاجرین کے بارے ہر کسی سے بات کر رہے ہیں لیکن افغان مہاجرین کو اعتماد میں نہیں لے رہے کہ آخر کن حالات اور کن واقعات کے تناظر میں پاکستان کی مجبوری بن چکی ہے کہ وہ افغانوں سمیت جملہ غیرملکیوں کو وطن واپس بھیجنا چاہتا ہے۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کی بیخ کنی لازم تاہم بے قصوروں کو ناکردہ خطاؤں کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ 

کل جماعتی قومی کانفرنس سے قبل ایسے تمام افغان مہاجرین کے انجام بارے بھی قوم کو بتایا جائے جنہوں نے جعلی شناختی دستاویزات حاصل کر رکھی تھیں۔ کیا سرمایہ دار اُور بااثر افغان مہاجرین چاہے وہ کسی بھی درجے کی قانون شکنی میں ملوث ہوئے ہوں یا اب بھی ہیں تو کیا اُن سے بھی برابری کی بنیاد پر سخت گیر معاملہ کیا جائے گا؟ افغان مہاجرین کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ اور ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کی شاطرانہ چالیں اور پاکستانی قوانین میں سقم بھی قومی سطح پر زیرغور آنے چاہیءں جن کا فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس طرح جنگ کی تباہ کاریوں‘ دہشت گردی کے خوف و دہشت اور بدعنوان سیاسی قیادت کے باعث معاشی ابتر حالات کے باعث افغان ہجرت پر مجبور ہوئے‘ اگر اب افغانستان میں ویسے حالات نہیں رہے تو اُنہیں ضرور واپس جانا چاہئے۔ اِس سلسلے میں یکساں ذمہ داری امریکہ اُور افغانستان انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان میں حالات معمول پر برقرار رکھنے کے لئے اپنی کوتاہیوں اور کوششوں کا جائزہ لیں۔ 

افغان مہاجرین کی واپسی بہرحال عزت و احترام اُور ایسے حالات میں ہونی چاہئے کہ یہ مہاجرین برضا و رغبت ’خوشی خوشی‘ واپسی پر آمادہ ہوں اور واپسی پر انہیں افغانستان میں تمام بنیادی سہولیات سمیت جان و مال کا تحفظ بھی میسر ہو۔ فیصلہ سازوں کے پیش نظر یہ زمینی حقائق بھی رہنے چاہئے کہ ماضی میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ’رضاکارانہ‘ طور پر واپس جانے کے بعد بھی پاکستان لوٹ آئی کیونکہ نہ تو افغان حکومت اور نہ عالمی براداری نے حسب وعدہ سہولیات فراہم کی تھیں۔ مہاجرین کی واپسی کا عمل ’مستقل‘ ہونا چاہئے جس کے لئے مستقل پالیسی اور قیام میں مزید توسیع نہ دینے کے لئے ’پاکستان کے مفاد پر مبنی نکتۂ نظر‘ سے سوچنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, September 15, 2016

Sept2016: Eid Holiday 2/2

Newspaper Holiday of Eid ul Azha 1437H.
Eid observed on Sept 13 (Tue) & Sept 14, 2016 (Wed) where newspaper were not published on 13th and 14th and not marketed on 14th & 15th September.

Wednesday, September 14, 2016

Spet2016: Eid Holiday - 1/2

Newspaper Holiday of Eid ul Azha 1437H.
Eid observed on Sept 13 (Tue) & Sept 14, 2016 (Wed) where newspaper were not published on 13th and 14th and not marketed on 14th & 15th September.

Tuesday, September 13, 2016

Sept2016: The real Eid Day

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عید: نجانے کب!؟
پولیس کا ایک سینیئر تفتیشی اہلکار ایبٹ آباد سے گرفتار ہوتا ہے۔ الزام ہے کہ سال 2008ء میں جائیداد کی خریدوفروخت کا دھندا کرنے والے (پراپرٹی ڈیلر) کو قانون شکنی پر گرفتار کرنے کی بجائے اُس کی بدعنوانیوں کے ثبوت نظرانداز کئے گئے جس کے عوض بطور رشوت وہ ’غازی کوٹ ٹاؤن شپ مانسہرہ‘ میں ایک عدد ’عالیشان مکان‘ کا مالک بنا جس کی قیمت ڈیرھ کروڑ روپے ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا یہ اُس کا ’پہلا یا آخری کارنامہ‘ تھا اُور کیا خیبرپختونخوا کے پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ اور محکمۂ مال (پٹوار خانے) میں وہ واحد ایسا شخص ہے‘ جو اپنی معلوم مالی حیثیت سے زیادہ بڑے مکان کا مالک ہونے کی وجہ سے نظروں میں آگیا؟ پشاور کی احتساب عدالت کے محترم جج ’عاصم امام‘ نے دس ستمبر کے روز مذکورہ سپرٹنڈنٹ آف پولیس (انویسٹی گیشن) ’ساجد خان‘ کو اُسی ’قومی احتساب بیورو‘ کے حوالے کر دیا‘ جس نے اُنہیں گرفتار کیا اُور صرف ڈیڑھ کروڑ کے ایک گھر کا الزام لگایا جس سے خلاصی پانے کے لئے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ’چور دروازہ‘ موجود ہے۔ قومی خزانے میں چند لاکھ روپے ڈال کر ’پلی بارگین‘ کی جاسکتی ہے اور پھر جہاں قومی حافظہ ہی کمزور ہو‘ وہاں نہ تو وارداتیں کی آڑ میں وارداتیں کرنے والوں کا ’نام و نشان‘ یاد رہتا ہے اُور نہ ہی دوسرے ہم عصر جو عام آدمی (ہم عوام) کو لوٹ رہے ہیں وہ ’اِس قسم کے (واجبی) احتساب سے عبرت حاصل کرتے ہوئے توبہ تائب یا ضمیر کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں!‘

گدھ کی طرح عام آدمی (ہم عوام) کی بوٹی بوٹی نوچنے والے عمائدین کہلاتے ہیں۔ غلامی سے بدتر محرومیوں اور استحصال بھری زندگی بسر کرنے والوں کو کس منہ (جواز) سے ’عید مبارک‘ کہا جائے جبکہ گردوپیش میں خوشیوں اُور سُکھ کا نام و نشان (شائبہ) تک نہیں؟ عہدوں سے جڑے اِختیارت کے ذریعے عام آدمی (ہم عوام) کا استحصال ہو یا مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا ارتکاب‘ ہر دن عام آدمی کی کھال اُتارنے والوں کا شمار انگلیوں پر ممکن ہی نہیں رہا۔ قومی یا صوبائی سطح پر ہونے والے احتساب کی اِکا دُکا ’نمائشی کاروائیاں‘ کسی بھی طرح کافی قرار نہیں دی جاسکتیں۔ 

اندھی لوٹ مار کا بازار کل بھی گرم تھا اُور آج بھی جائز کام کروانے سمیت قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے کہیں سرکاری دفاتر تو کہیں احتساب کے مراحل میں وکلأ کی بھاری فیسوں یا ’لین دین (پلی بارگین)‘ کے قواعد (چور دروازے) موجود ہیں جن کے ذریعے معاملات ’رفع دفع‘ ہو رہے ہیں! عجب غضب نہیں تو کیا ہے کہ نہ تو قومی وسائل یا سرکاری اِداروں کو لوٹنے اُور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی لالچ و حرص ختم ہو رہی ہے اُور نہ ہی قومی اداروں سے مراعات‘ تنخواہیں اُور اعزازات پانے والے سرکاری ملازمین کو ’زندہ درگور‘ اپنے ہی ’ہم وطنوں‘ کی بڑھتی غربت و انتہاء کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے! کوشش کی حد تک یقیناًیہ ایک اچھا اقدام ہے کہ ’وارداتوں پر وارداتیں‘ کرنے والوں کا گنا چنا‘ اُور نپا تلا ’نمائشی احتساب‘ کرکے ہم عوام کو ’قانون کی موجودگی و حکمرانی‘ کا یقین دلایا جائے لیکن یہ منظرنامہ اُس کی صبح (جلال) کا نہیں‘ جس کے لئے (مملکت خداداد) ایک الگ ملک کا قیام عمل میں لایا گیا تھا! 

’’پاکستان میں عید کا ظہور‘‘ اُس دن ہوگا‘ جب قانون شکنوں کی پشت پناہی کرنے والے سرپرستوں اُور اُن کے سہولت کاروں کا بھی بیک وقت‘ سرعام‘ بے رحم و بلاامتیاز احتساب ہو۔ جس دن عزیز از جان مفاد کی ’قربانی‘ پر آمادگی پائی جائے‘ وہی دن عید کہلائے۔ وہ گھڑی ’عید‘ ہو‘ جب ’’لازم کہ ہم بھی دیکھیں‘ اور ہم سب دیکھیں‘‘ کہ گھر گھر دستک دے کر مالی حیثیت کے بارے استفسار کیا جائے۔ جب ظاہری مالی حیثیت اُور آمدنی کے دستاویزی ثبوتوں یا اَدا کردہ ٹیکس گوشواروں سے زیادہ تمام اثاثہ جات بحق سرکار ضبط کر لئے جائیں اُور احتساب کا عمل نچلے طبقات سے نہیں بلکہ اوپری منزل پر رہنے والوں سے شروع ہو۔ 

’احتسابی زلزلے‘ کا مرکز ’اسلام آباد‘ ہونا چاہئے‘ جہاں قانون ساز اداروں ایوان بالا‘ ایوان زریں اُور قانون کی تشریح کرنے والی ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ کی عملاً توہین کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ’رہائش پذیر‘ ہے!! بدعنوانی کے پھیلتے ہوئے ناسور کا علاج دریافت کرنے والے معروف افریقن امریکن سماجی اصلاح کار فریڈرک ڈوگلس کا تجویزکردہ علاج ’پاکستان کے تناظر‘ میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے جو لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں روشنی (اُمید) کی نہیں آگ (یقین) کی ضرورت ہے۔ ہمیں (نمائشی اقدامات) پھوار کی نہیں بادوباراں (برق رفتار معالجے) کی ضرورت ہے۔ ہمیں (اِمتیازات پھیلانے والوں کے محاسبے کا) طوفان چاہئے۔ (قانون کے بلاامتیاز اطلاق کی) آندھیاں چاہیءں۔ (احتساب کرنے والوں کو تہس نہس کرنے والے) زلزلوں کی ضرورت ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sept2016: Eid but when?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عید: نجانے کب!؟

پولیس کا ایک سینیئر تفتیشی اہلکار ایبٹ آباد سے گرفتار ہوتا ہے۔ الزام ہے کہ سال 2008ء میں جائیداد کی خریدوفروخت کا دھندا کرنے والے (پراپرٹی ڈیلر) کو قانون شکنی پر گرفتار کرنے کی بجائے اُس کی بدعنوانیوں کے ثبوت نظرانداز کئے گئے جس کے عوض بطور رشوت وہ ’غازی کوٹ ٹاؤن شپ مانسہرہ‘ میں ایک عدد ’عالیشان مکان‘ کا مالک بنا جس کی قیمت ڈیرھ کروڑ روپے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اُس کا ’پہلا یا آخری کارنامہ‘ تھا اُور کیا خیبرپختونخوا کے پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ اور محکمۂ مال (پٹوار خانے) میں وہ واحد ایسا شخص ہے‘ جو اپنی معلوم مالی حیثیت سے زیادہ بڑے مکان کا مالک ہونے کی وجہ سے نظروں میں آگیا؟ پشاور کی احتساب عدالت کے محترم جج ’عاصم امام‘ نے دس ستمبر کے روز مذکورہ سپرٹنڈنٹ آف پولیس (انویسٹی گیشن) ’ساجد خان‘ کو اُسی ’قومی احتساب بیورو‘ کے حوالے کر دیا‘ جس نے اُنہیں گرفتار کیا اُور صرف ڈیڑھ کروڑ کے ایک گھر کا الزام لگایا جس سے خلاصی پانے کے لئے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ’چور دروازہ‘ موجود ہے۔ 

قومی خزانے میں چند لاکھ روپے ڈال کر ’پلی بارگین‘ کی جاسکتی ہے اور پھر جہاں قومی حافظہ ہی کمزور ہو‘ وہاں نہ تو وارداتیں کی آڑ میں وارداتیں کرنے والوں کا ’نام و نشان‘ یاد رہتا ہے اُور نہ ہی دوسرے ہم عصر جو عام آدمی (ہم عوام) کو لوٹ رہے ہیں وہ ’اِس قسم کے (واجبی) احتساب سے عبرت حاصل کرتے ہوئے توبہ تائب یا ضمیر کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں!‘

گدھ کی طرح عام آدمی (ہم عوام) کی بوٹی بوٹی نوچنے والے عمائدین کہلاتے ہیں۔ غلامی سے بدتر محرومیوں اور استحصال بھری زندگی بسر کرنے والوں کو کس منہ (جواز) سے ’عید مبارک‘ کہا جائے جبکہ گردوپیش میں خوشیوں اُور سُکھ کا نام و نشان (شائبہ) تک نہیں؟ 

عہدوں سے جڑے اِختیارت کے ذریعے عام آدمی (ہم عوام) کا استحصال ہو یا مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا ارتکاب‘ ہر دن عام آدمی کی کھال اُتارنے والوں کا شمار انگلیوں پر ممکن ہی نہیں رہا۔ قومی یا صوبائی سطح پر ہونے والے احتساب کی اِکا دُکا ’نمائشی کاروائیاں‘ کسی بھی طرح کافی قرار نہیں دی جاسکتیں۔ اندھی لوٹ مار کا بازار کل بھی گرم تھا اُور آج بھی جائز کام کروانے سمیت قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے کہیں سرکاری دفاتر تو کہیں احتساب کے مراحل میں وکلأ کی بھاری فیسوں یا ’لین دین (پلی بارگین)‘ کے قواعد (چور دروازے) موجود ہیں جن کے ذریعے معاملات ’رفع دفع‘ ہو رہے ہیں! عجب غضب نہیں تو کیا ہے کہ نہ تو قومی وسائل یا سرکاری اِداروں کو لوٹنے اُور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی لالچ و حرص ختم ہو رہی ہے اُور نہ ہی قومی اداروں سے مراعات‘ تنخواہیں اُور اعزازات پانے والے سرکاری ملازمین کو ’زندہ درگور‘ اپنے ہی ’ہم وطنوں‘ کی بڑھتی غربت و انتہاء کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے! کوشش کی حد تک یقیناًیہ ایک اچھا اقدام ہے کہ ’وارداتوں پر وارداتیں‘ کرنے والوں کا گنا چنا‘ اُور نپا تلا ’نمائشی احتساب‘ کرکے ہم عوام کو ’قانون کی موجودگی و حکمرانی‘ کا یقین دلایا جائے لیکن یہ منظرنامہ اُس کی صبح (جلال) کا نہیں‘ جس کے لئے (مملکت خداداد) ایک الگ ملک کا قیام عمل میں لایا گیا تھا! 

’’پاکستان میں عید کا ظہور‘‘ اُس دن ہوگا‘ جب قانون شکنوں کی پشت پناہی کرنے والے سرپرستوں اُور اُن کے سہولت کاروں کا بھی بیک وقت‘ سرعام‘ بے رحم و بلاامتیاز احتساب ہو۔ جس دن عزیز از جان مفاد کی ’قربانی‘ پر آمادگی پائی جائے‘ وہی دن عید کہلائے۔ وہ گھڑی ’عید‘ ہو‘ جب ’’لازم کہ ہم بھی دیکھیں‘ اور ہم سب دیکھیں‘‘ کہ گھر گھر دستک دے کر مالی حیثیت کے بارے استفسار کیا جائے۔ جب ظاہری مالی حیثیت اُور آمدنی کے دستاویزی ثبوتوں یا اَدا کردہ ٹیکس گوشواروں سے زیادہ تمام اثاثہ جات بحق سرکار ضبط کر لئے جائیں اُور احتساب کا عمل نچلے طبقات سے نہیں بلکہ اوپری منزل پر رہنے والوں سے شروع ہو۔ 

’احتسابی زلزلے‘ کا مرکز ’اسلام آباد‘ ہونا چاہئے‘ جہاں قانون ساز اداروں ایوان بالا‘ ایوان زریں اُور قانون کی تشریح کرنے والی ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ کی عملاً توہین کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ’رہائش پذیر‘ ہے!! 

بدعنوانی کے پھیلتے ہوئے ناسور کا علاج دریافت کرنے والے معروف افریقن امریکن سماجی اصلاح کار فریڈرک ڈوگلس کا تجویزکردہ علاج ’پاکستان کے تناظر‘ میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے جو لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں روشنی (اُمید) کی نہیں آگ (یقین) کی ضرورت ہے۔ ہمیں (نمائشی اقدامات) پھوار کی نہیں بادوباراں (برق رفتار معالجے) کی ضرورت ہے۔ ہمیں (اِمتیازات پھیلانے والوں کے محاسبے کا) طوفان چاہئے۔ (قانون کے بلاامتیاز اطلاق کی) آندھیاں چاہیءں۔ (احتساب کرنے والوں کو تہس نہس کرنے والے) زلزلوں کی ضرورت ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, September 12, 2016

Sept2016: Measures for Eid ul Azha

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عیدالاضحی کے تقاضے!
تہوار کوئی بھی ہو‘ سب سے پہلا اندیشہ‘ مطالبہ اُور دھیان ’پشاور میں صفائی کی صورتحال‘ سے متعلق ذہن میں آتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر صفائی کی ’’مثالی صورتحال‘‘ متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا عمومی بیان ہوتی تو حسب سابق اِس مرتبہ بھی ’عیدالاضحی‘ کے موقع پر صفائی کے ’نت نئے انتظامات‘ کا اعلان کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر صفائی کا کام سمیٹ کر ذمہ داری کسی ایک محکمے کے کندھوں پر لاد دی گئی ہے تو اِس کے باوجود بھی معاشرہ اپنی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں بَری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا اُور یہی نتیجۂ کلام ہے کہ ۔۔۔ ’’جب تک صفائی برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہر شہری محسوس کرنے کے ساتھ عملی کوششوں کا حصّہ نہیں بنتا‘ جب تک پشاور کو ’’اپنا شہر‘‘ سمجھتے ہوئے خود بھی اُور دوسروں کو بھی صفائی کی کوششوں میں رضاکارانہ طور پر شریک نہیں کر لیا جاتا‘ اُس وقت تک ’’تبدیلی‘‘ آنے کی اُمید تو کی جاسکتی ہے لیکن ایسا عملاً ممکن نہیں ہوگا۔‘‘

اہل پشاور سے ایک مرتبہ پھر تعاون کی اِلتجا کرتے ہوئے ’’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)‘‘ کے حکام نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں (خیبریونین آف جرنلسٹس) کی وساطت سے ’تین روزہ خصوصی مہم‘ کے خدوخال مشتہر کئے ہیں جن میں اٹھارہ سو اٹھانوے اہلکار اُور دو سو تیس گاڑیاں عیدالاضحی کے دوران ’آن ڈیوٹی‘ رہیں گی جبکہ اس دوران اضافی طور پر 75 گاڑیاں کرائے پر بھی حاصل کی جائیں گی تاکہ قربانی کے جانوروں کی الائشیں اور گندگی بروقت ٹھکانے لگائی جا سکے۔ ہمیں ایک اُور مہنگی عید کا سامنا ہے جس پر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہو جائیں گے۔ بالخصوص ’عیدالاضحی‘ کے موقع پر جس بیدردی سے گندگی پھیلائی جاتی ہے اُسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسا کہ یہ حرکت بھی عید کے مذہبی فرائض میں شامل کر لی گئی ہو! جب خاص و عام کی اکثریت اپنی اپنی استطاعت و استعداد کے مطابق گندگی پھیلانے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو اُنہیں اِس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے کا نہیں خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور اپنے شہر‘ علاقے محلے اُور اپنے ہی گردوپیش کی صفائی کا خیال نہ رکھ کر جن بیماریوں کو دعوت دی جا رہی ہوتی ہے وہ قطعی معمولی نہیں۔ صفائی سے متعلق اسلامی نکتۂ نظر کی تشریح طبی ماہرین بھی ’’فرائض‘‘ کے طور پر ہی کرتے ہیں اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس بارے عمومی شعور میں اضافہ کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کی طرح منبر و مساجد سے بھی وعظ و تلقین پر مشتمل ’ذکر کے حلقے‘ ترتیب دیئے جائیں۔

اِس سال قربانی کی مالی استطاعت اُور اِرادہ رکھنے والے سے اِلتجا ہے کہ وہ مال مویشیوں کے لئے چارہ صرف اُتنی ہی مقدار میں خرید کر لائیں جس قدر اُن کی یومیہ ضرورت ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں جانور کی عادات‘ پسند و ناپسند یا خوراک کے بارے معلومات خریدتے وقت باآسانی حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن عمومی روش یہ ہے کہ قیمت طے کرنے کے مراحل میں اِس بات کا دھیان ہی نہیں رکھا جاتا۔ اکثر لوگوں کو مال مویشی رکھنے کا تجربہ نہیں ہوتا‘ جو اُن کی ضرورت اور مزاج کے برعکس کھانے کے انبار لگا دیتے ہیں یا پھر مال مویشیوں کے سامنے خوراک زمین پر پھیلا دی جاتی ہے اور یوں قیمتی سبز خوراک کا زیادہ تر حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ جس کی ایک خاص مقدار نکاسئ آب کے نالے نالیوں میں بہا دی جاتی ہے یا پھر گلی محلے کے کونوں میں ڈھیر کر دی جاتی ہے۔ یاد رکھیں کہ جانوروں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے پاؤں تلے کچلے ہوئی‘ گیلی‘ بدبودار گھاس نہیں کھاتے۔ اُنہیں ہروقت کھانے یا پانی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اُن کی بھوک ہم انسانوں کی طرح اَچانک بھڑک اُٹھتی ہے! وہ اوقات کے پابند ہوتے ہیں۔ اِسی طرح جانوروں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجانا۔ اُن کے گلے میں گھنٹیاں باندھ کر ’رات بھر‘ اندھیرے یا روشن گلی محلوں یا سڑکوں پر لے کر گھومنا پھرنا بھی مال مویشیوں کے مزاج پر بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ ہم انسانوں کی طرح جانور بھی ذہنی دباؤ‘ کوفت‘ پریشانی‘ بے خوابی کا شکار ہو سکتے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ بسااُوقات خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ مغرب سے قبل جانوروں کو کسی ایسے پرسکون مقام پر باندھ دیا جائے جہاں وہ آرام سے اپنی نیند پوری کرسکیں۔ اگر جگہ میسر ہو گلی محلوں میں جانوروں کو کسی ایک مقام پر باندھنا زیادہ بہتر رہتا ہے۔ مال مویشیوں کی منڈیوں میں بھیڑ‘ شور شرابہ اور اَجنبی ماحول سے نمٹنے والے جانور اپنے قیام گاہوں سے بچھڑنے کا صدمہ بھی محسوس کر رہے ہوتے ہیں‘ جن کی ذہنی و جسمانی اذیت میں اضافہ کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں۔ 

گلے کے گرد تنگ رسی کا حلقہ‘ بھاری بھرکم سجاوٹ کے زیور اور جانوروں کو کاربونیٹیڈ ڈرنکس (پیپسی کوکا کولا وغیرہ) پلانے سے اجتناب کریں۔ مال مویشیوں کے ساتھ ’سیلفی (تصویر)‘ بنانے کی کوشش میں اُن کے زیادہ قریب جانا بھی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ کیمرے کی فلش لائٹ یا شٹر کی آواز سے گھبرا کر وہ پرتشدد یا اچانک مختلف رویئے کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں۔ 

قربانی کے جانوروں کو پختہ اور گیلے فرش پر (جہاں پھسلن کا صاف خطرہ ہو) باندھنے سے قبل یا تو ممکنہ خشک کر لیں یا پھر آٹے کی خالی بوریاں‘ چادریں بچھا دیں تاکہ کھڑے ہونے یا بدکنے کی صورت وہ پھسل کر گر نہ جائیں اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے ایسا ہوتا ہے تو لنگڑا پن (علامات) ظاہر ہونے کی صورت مذکورہ جانور کی قربانی ’شرعی نکتۂ نظر‘ سے جائز نہیں رہے گی۔ انسانوں کی طرح مال مویشیوں کی صحت کے لئے بھی پینے کا صاف پانی‘ صاف برتن میں رکھا جائے۔ چند دن کے مہمان کی تواضع اور خیال رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی جائے کہ اس سے قربانی کے اجر میں اضافہ ممکن ہے جس کے لئے انفرادی حیثیت سے دانستہ کوشش کے ساتھ اُن تمام افراد کی بھی رہنمائی کی جا سکتی ہے‘ جو کسی وجہ سے مال مویشیوں کی نگہداشت کے بارے خاطرخواہ معلومات نہیں رکھتے۔ 

ضلعی انتظامیہ سمیت متعلقہ محکموں کے فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر صرف اور صرف صفائی برقرار رکھنے میں تعاون کی ضرورت پر تمام توانائیاں خرچ نہ کی جائیں بلکہ موضوع کو جامع بنانے کے لئے اس میں دیگر امور بارے معلومات بھی شامل کرکے پیغام کو زیادہ بامقصد بنائیں۔ مال مویشیوں کی ضروریات بشمول کھانے پینے اور آرام کے اوقات و ضروریات کے بارے عوام و خواص کی رہنمائی کا اہتمام و انتظام کے سلسلے میں یہاں وہاں عملی مشقوں کا انعقاد بھی ہونا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, September 11, 2016

Sept2016: Global Warming & Warning ignored!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
موسمیاتی مزاج: تجاہل عارفانہ!


’موسمیاتی تبدیلی‘ سے متاثرہ دنیا کے پہلے دس ممالک کی صف میں شامل ہونا کسی بھی صورت ’’اعزاز‘‘ کی بات نہیں اور نہ ہی یہ اِس قدر معمولی یا عمومی پیشرفت ہے کہ اس پر فکرمندی کا اظہار نہ کیا جائے لیکن کیا ہمارے فیصلہ سازوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں جبکہ اُن کے ماتھے پر شکنیں اور لب و لہجے سے تشویش عیاں نہیں اور وہ معاملے کی سنگینی کا خاطرخواہ احساس و ادراک نہیں کر رہے! پوری قوم کی توجہ سیاسی مخالفت اور بیان بازی پر مرکوز کرنے والوں سے کوئی نہیں پوچھ رہا کہ جس کام کے لئے آپ جناب منتخب ہوئے‘ وزارتوں کے قلمدان‘ اختیارات اور مراعات حاصل کیں‘ آخر ان عہدوں سے جڑی ذمہ داریاں کس کی ذمہ داری ہیں!؟ ایوان بالا (سینیٹ) میں پیش کردہ ماحول سے متعلق ’عالمی رپورٹ‘ پورے پاکستان کی توجہات کا مرکز ہونی چاہئے جس میں برسرزمین حقائق کے بیان پر مبنی پیشنگوئی کی گئی ہے کہ ’’موجودہ صدی کے آخر تک ’عالمی درجہ حرارت‘ کم سے کم چار سینٹی گریڈ تک بڑھنے کا خدشہ ہے (اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو) اِس سے سیلاب‘ غیرمعمولی شدت کے طوفان‘ خشک سالی اور گرمی میں اضافہ ہو گا۔‘‘ توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے والے پاکستان جیسے ملک کے لئے ’موسمیاتی مزاج‘ میں اِس انتہاء کے ردوبدل کو معمولی یا معمول نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اگر موسمی درجۂ حرارت تبدیل ہونے کی وجہ سے ماہرین جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اُن کا ظہور ہو جاتا ہے تو (خدانخواستہ) پاکستان کا شمار ماحول سے متاثرہ ممالک کی فہرست کے ابتدائی تین ممالک میں ہونے لگے گا! کیا ہم اُس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب غلطیاں درست کرنے کا موقع (مہلت) بھی ہاتھ سے جاتا رہے؟


وزارت موسمیات کی جاری کردہ رپورٹ کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں‘ جو سردست موسمیاتی تبدیلیوں سے لاتعلق تجاہل عارفانہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ہمارے ہاں خطیر سرمائے سے ماحول اُور سیاحت کی ترقی کے نام پر درخت کاٹے جاتے ہیں! اُور پھر اُنہی علاقوں میں نئے درخت لگانے پر اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں! گلیات (ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں) کی خوبصورتی کے لئے ’خاص منصوبہ (حکمت عملی)‘ فخریہ انداز میں پیش کی گئی ہے حالانکہ ’گلیات‘ کی اپنی خوبصورتی میں کسی ایسے اضافے کی قطعی کوئی ضرورت حاجت یا گنجائش نہیں تھی‘ جس پر ترقیاتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کیا جاتا! ایبٹ آباد سے گلیات کے راستے خیبرپختونخوا کے آخری کونے تک جس قدر کشادہ اور ڈیزائن کی خوبیوں سے مزین تعمیراتی شاہکار (شاہراہیں) تخلیق کی گئیں ہیں‘ انہیں عملاً ممکن بنانے کے لئے درختوں کی کٹائی کے عینی شاہد بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں! یہ سب اِس لئے ہوا‘ کیونکہ سرمایہ دار ’فور بائی فور‘ موٹے ٹائروں والی ایسی گاڑیوں کے مالک ہیں جن میں سفر کا لطف ہی تب آتا ہے جب گاڑی پوری رفتار سے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر فراٹے بھرے! 

سیاحتی مقامات پر عام آدمی کے لئے سستے داموں قیام و طعام کی سہولیات معیار و مقدار کے لحاظ سے ناکافی تھیں اور آج بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی! 

سیاحت کی ترقی ایک ہدف لیکن اِسے حاصل کرنے کے لئے ایک سے زیادہ حکومتی ادارے وسائل کا ضیاع ہیں! افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ جس بے دردی سے ہمارے ہاں جنگلات کا صفایا کیا گیا اور اب بھی ہو رہا ہے‘ اُس بارے غوروخوض نہیں کیا جا رہا! آبی وسائل میں کمی اور دستیاب آبی وسائل کا غیرسائنسی یا بے دردی سے استعمال الگ سے توجہ طلب ہے۔ زراعت (آبپاشی) اُور شہری و دیہی علاقوں میں گھریلو و صنعتی ضروریات کے لئے پانی کی قلت دور کرنے کے لئے ’نیشنل ایکشن پلان‘ جیسا ہنگامی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے‘ جس میں چاروں صوبوں اور ہر سرکاری ادارے کے لئے ایسی ’ٹائم لائن (کارکردگی کے اہداف مقرر اور)‘ مرتب کئے جائیں‘ جو ’’ماحول دوست‘‘ عملی اقدامات سے متعلق ہوں۔ قومی سطح پر ’ماحول دوستی‘ نصاب کا حصہ ہونی چاہئے جسے عام کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ سے استفادہ اور ماحولیاتی تبدیلی کے عوامل کم کرنے یا اُن سے نمٹنے کی تدابیر (پالیسی) وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ماحول کا خیال رکھنے کے لئے صنعتوں کی حد تک کچھ قانون یا قواعد موجود ہیں تو ان کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر فوری یا کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا کیونکہ اِن کے مالک بااثر ہیں اُور ہمارے ہاں جو جتنا بااثر ہوتا ہے وہ اُتنا ہی قانون شکنی کو اپنا استحقاق سمجھتا ہے! کیا یہ بات ہر خاص و عام نے نوٹ نہیں کی کہ گذشتہ چند برس سے پاکستان میں موسم سرما کا دورانیہ کم اور موسم گرما کے مہینے شدت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں؟ برسات (مون سون) کی بارشیں مقررہ اُوقات پر یا تو نہیں ہوتیں یا پھر بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ 

گرمی کی شدت ہی ہے جس سے برفانی تودے (گلیشئرز) کے پگھلنے کا عمل تیز ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے بارش کے موسم میں سیلابوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ماضی میں کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں برفانی اور مٹی کے تودے گرنے کے واقعات رونما نہیں ہوئے جس قدر رواں سال جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے دریاؤں کا پانی روکنے کے باعث سندھ اور پنجاب میں زرعی اراضی بنجر ہو رہی ہے۔ اِن ناموافق حالات میں حکومت کو جملہ خطرات سے بچنے کے لئے ٹھوس (جامع) ’’قومی ماحولیاتی پالیسی‘‘ تیار کرنا ہو گی‘ تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی دستک اُور اُن کی پوری شدت سے ٹکرانے کا انتظار کرنے کی بجائے ہنگامی حالات (ایمرجنسی) سے نمٹنے کی خاطرخواہ تیاری اور ماحول کا توازن بگاڑنے والی غلطیوں کا ازالہ کیا جاسکے اُور یہی واحد صورت ہے جس میں ماحول دشمن روئیوں اور اقدامات کی اصلاح کے ذریعے موسمیاتی منفی اثرات سے ممکنہ حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, September 10, 2016

Sept2016: EDITED: Terrorism & Communication Threats

EDITED VERSION

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نگہبانی کے تقاضے!
فریب نظر ہے کہ ’سائبر کرائمز بل‘ کے نام سے عجلت میں کی گئی قانون سازی ’اطمینان قلب‘ کے لئے تو کافی قرار دی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیکورٹی انتظامات کی طرح اِس نئی قانون سازی سے بھی منظم جرائم اور دہشت گردی پر یقین رکھنے والے حلقے خوفزدہ نہیں۔ دردسر ہے تو ’انٹرنیٹ‘ کے اُس عام صارف کا ہے جس کی اکثریت معلومات اور تفریح سے جڑے خطرات سے آگاہ (خاطرخواہ تعلیم یافتہ) نہیں۔ اِس منظرنامے میں ٹیکنالوجی کی طرف مائل عام صارف پریشان ضرور ہے‘ کیونکہ ’ورچوئل وسائل‘ کی اِخلاقیات اور آداب کی خلاف ورزی اگر ’واجب سزا‘ قرار دے دی گئی ہے تو ’خوف و دہشت کی علامت بننے والے منظم جرائم پیشہ عناصر‘ ٹیکنالوجی ہی کے ذریعے خود کو ’روپوش‘ کئے ہوئے ہیں‘ جنہیں دشوار گزار قبائلی علاقوں‘ غاروں یا افغانستان کے میدانی علاقوں میں تلاش کرنے سے زیادہ کھٹن ایسے عناصر کا ’آن لائن سراغ‘ لگانا اُور اُن کی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔ 

دہشت گردی کے خلاف جاری ’ضرب عضب‘ میں کامیابیوں کا شمار کرنے والوں کو اِنٹرنیٹ وسائل کا آزادانہ اور بناء خوف و خطر استعمال کرنے والوں کی ’آن لائن سرگرمیاں‘ پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوگا‘ جس کے بغیر بات (مقصدیت) ادھوری رہے گی۔ ایک طرف پورا ملک اور اُس کے لامحدود وسائل ہونے کے باوجود ’اب تک‘ دہشت گردوں کے زیراستعمال ’اکاونٹس‘ اُور ’کیمونیکشن ونگ (رابطہ کار افرادی قوت)‘ کی صلاحیت (دیدہ دلیری) ختم نہیں کی جاسکی‘ جو قومی زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟ ہمارے خفیہ ادارے بشمول جدید آلات اور ماہرین سے لیس ’سائبر ونگ‘ آخر کب اپنی قابلیت کی بنیاد پر داد وصول کریں گے؟ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں تک اگر اُن کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ کے ذریعے نہیں پہنچا جا سکتا اُور ہمارے سیکورٹی اداروں کے ’سائبر ونگز‘ نے نفسیاتی طور پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں تو کم سے کم اُن تمام ’اِی میل‘ ٹوئٹر اُور ’فیس بک‘ اکاونٹس کو بلاک (block) تو ضرور کیا جاسکتا ہے‘ جن کے ذریعے پاکستان دشمنی یا دہشت گرد ’کارناموں‘ کو مشتہر کیا جاتا ہے؟ بیس نکاتی ’نیشنل ایکشن پلان‘ اِس سلسلے میں رہنمائی کے لئے کافی ہے۔ ملک کی جغرافیائی اور سائبر سرحدوں کی نگہبانی کے الگ الگ تقاضے اور ذمہ داریاں ہیں‘ جنہیں شعوری توجہ کی ضرورت ہے۔

پہلی ذمہ داری: سیکورٹی حکام یہ کہہ کر اپنے فرائض سے ’گلوخلاصی‘ نہیں کرسکتے کہ افغانستان کی سرزمین اور مواصلاتی سہولیات (انٹرنیٹ) کا استعمال ہو رہا ہے۔ اگر طورخم سرحد پر گیٹ کی تعمیر سے آمدورفت کو کنٹرول (باقاعدہ و باضابطہ) بنایا جاسکتا ہے تو انٹرنیٹ کے چینلز سے پاکستان درآمد و برآمد ہونے والی ٹریفک (ڈیٹا) پر نظر کیوں نہیں رکھی جا سکتی؟ ’آن لائن ٹریفک‘ کی ’باریک بیں نظر اور مؤثر نگرانی‘ انٹرنیٹ کی واجبی سی معلومات رکھنے والے بھی اگر کرسکتے ہیں‘ تو مقامی جامعات کے طلباء و طالبات کو تحقیقی پراجیکٹس دیئے جاسکتے ہیں یا فوری نتائج کے لئے ٹیکنالوجی درآمد بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ قومی سلامتی سے زیادہ کوئی دوسری شے قیمتی نہیں۔

دوسری ذمہ داری: ہر خاص و عام ہوشیار رہے کہ وہ اپنے گھروں میں لگائے ہوئے ’ہاٹ سپاٹس (وائی فائی انٹرنیٹ)‘ کسی بھی صورت نہ تو ’بناء پاس ورڈز‘ رہنے دیں اور نہ ہی اہل خانہ کے علاؤہ کسی بھی دوسرے شخص سے ایسی معلولات کا تبادلہ کریں جو ’حساس‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر گھر میں مہمان آئیں اور وائی فائی پاس ورڈ مانگیں تو یقین کرلیں کے اُن کی رخصتی کے فوراً بعد یا پہلی فرصت میں ’وائی فائی پاس ورڈ‘ تبدیل کردیا جائے۔ وائی فائی پاس ورڈ کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے چھ ہدایات ذہن نشین کر لیں۔ 1: اپنی ڈیوائیس ’ڈبلیو پی اے انسکپرشن (WPA2)‘ پر سیٹ کریں۔ 2: پاس ورڈ کسی بھی صورت 10ہندسوں سے کم نہ ہو۔ 3: پاس ورڈ میں الفاظ ہندسے اور خصوصی کریکٹرز کو شامل کریں۔ 4: سٹینڈرڈ ’ایس ایس آئی ڈی SSID‘ کا استعمال نہ کریں۔ 5: اپنی ذاتی معلومات SSID پر نہ رکھیں۔ 6: وائی فائی ڈیوائس کی لہریں (ایکسیس) کم سے کم یعنی اپنے گھر تک محدود رکھنے کے لئے اینٹینا ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے جو جدید آلات میں باآسانی ممکن ہے۔ کھلے عام ’وائی فائی ہاٹ سپاٹ‘ رکھنے کی وجہ سے انٹرنیٹ صارفین نہ صرف جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ نادانستہ طور پر ایک ایسے مستقل خطرے سے بھی دوچار ہیں‘ جس کی سنگینی کا انہیں ادراک نہیں۔ عموماً ہوٹلوں‘ کیفے اور دیگر پبلک مقامات پر ’اوپن وائی فائی‘ رکھا جاتا ہے‘ دہشت گردوں کے زیراستعمال انٹرنیٹ کو دیکھتے ہوئے اِس سہولت پر اُس وقت تک پابندی عائد ہونی چاہئے جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے۔ جعلی یا بناء شناخت موبائل فون کنکشنز آج بھی موجود ہیں۔ 

ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مالی فائدے کے لئے پورے ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ موجودہ ہنگامی حالات کا تقاضا ہے کہ ’پری پیڈ‘ اضافی خدمات کی بجائے پاکستان میں صرف اور صرف ’پوسٹ پیڈ موبائل کنکشنز‘ دیئے جائیں‘ تاکہ بلنگ کے ذریعے صارف کی رہائش کے مقام کا تعین ہوسکے۔ افغانستان یا دیگر ممالک کے موبائل فون کنکشنز کی ’رومنگ (Roaming)‘ معاہدے بھی اُس وقت تک معطل رکھے جائیں‘ جب تک سیکورٹی حالات اِس کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان حالت جنگ سے گزر رہا ہے‘ جس میں عسکریت پسندوں کے مواصلاتی رابطے نہ صرف دہشت گردی کی منظم و مربوط کاروائیوں کو ممکن بنا رہے ہیں بلکہ اِنہی کے ذریعے وہ جس کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں درحقیقت وہ ہمارے سیکورٹی اداروں کی ناکامی کا بیان ہیں۔ کیا ہم نے دل سے شکست تسلیم کر لی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sept2016: Terrorism & Communication as threat!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شکست و ریخت!

تحریک طالبان پاکستان نے اگست 2016ء میں بنائے گئے اپنے نئے ’ٹوئٹر اکاونٹ (@umarmediattp016)‘ سے پیغام رسانی شروع کر دی ہے۔ 9 ستمبر کی صبح نماز فجر اور یقیناًوظائف سے فارغ ہونے کے بعد umar.media.ttp@gmail.comسے اِی میل پیغام (فرمان) جاری ہوتا ہے۔ آسان اور جامع الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے انگریزی زبان میں دہشت گرد وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں کوئی کہہ رہا ہے کہ ’’تحریک طالبان کے خصوصی دستے‘ نے پشاور اُور کراچی میں پولیس پر ’کامیابی سے حملے‘ کئے ہیں!‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر عسکریت پسند شہروں اور دیہی علاقوں میں بھیس بدل کر روپوش ہیں اور گوریلا حملوں کے ذریعے دنیا کی 13ویں بڑی‘ منظم اُور پیشہ ور فوج کو مستقل چیلنج کئے ہوئے ہیں‘ تو آخر کیا وجہ ہے کہ اُن کا زمینی مقابلہ تو ممکن نہیں لیکن اُن کی فنڈنگ‘ افرادی قوت اور اُن کے سہولت کار ’نیٹ ورکس‘ کو ختم نہیں کیا جا سکتا؟ 

انٹرنیٹ وسائل کا آزادانہ اور بناء خوف و خطر استعمال کرنے والوں کی ’آن لائن سرگرمیاں‘ نہ روکنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف پورا ملک اور اُس کے لامحدود وسائل ہونے کے باوجود ’اب تک‘ اُن ’اکاونٹس‘ اُور ’کیمونیکشن ونگ (رابطہ کار افرادی قوت)‘ کی صلاحیت (دیدہ دلیری) پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا جو زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟ 

ہمارے خفیہ ادارے بشمول جدید آلات اور ماہرین سے لیس ’سائبر ونگ‘ آخر کب اپنی موجودگی کا ثبوت دیں گے؟ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں تک اگر اُن کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ کے ذریعے نہیں پہنچا جا سکتا اُور ہمارے سیکورٹی اداروں کے ’سائبر ونگز‘ نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں تو کم سے کم اُن ’اِی میل‘ ٹوئٹر اُور ’فیس بک‘ اکاونٹس کو بلاک (block) تو کیا جاسکتا ہے‘ جو پاکستان دشمن پراپگنڈا یا دہشت گردوں کے ’کارناموں‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں؟

پہلی ذمہ داری: سیکورٹی حکام یہ کہہ کر اپنے فرائض سے ’گلوخلاصی‘ نہیں کرسکتے کہ افغانستان کی سرزمین اور مواصلاتی سہولیات (انٹرنیٹ) کا استعمال ہو رہا ہے۔ اگر طورخم سرحد پر گیٹ کی تعمیر سے آمدورفت کو کنٹرول (باقاعدہ و باضابطہ) بنایا جاسکتا ہے تو ’آن لائن ٹریفک‘ کی ’باریک بیں نظر اور مؤثر نگرانی‘ انٹرنیٹ کی واجبی سی معلومات رکھنے والے بھی کرسکتے ہیں۔ 

دوسری ذمہ داری: ہر خاص و عام ہوشیار رہے کہ وہ اپنے گھروں میں لگائے ہوئے ’ہاٹ سپاٹس (وائی فائی انٹرنیٹ)‘ کسی بھی صورت نہ تو ’بناء پاس ورڈز‘ رہنے دیں اور نہ ہی اہل خانہ کے علاؤہ کسی بھی دوسرے شخص سے ایسی معلولات کا تبادلہ کریں جو ’حساس‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر گھر میں مہمان آئیں اور وائی فائی پاس ورڈ مانگیں تو یقین کرلیں کے اُن کی رخصتی کے فوراً بعد یا پہلی فرصت میں ’وائی فائی پاس ورڈ‘ تبدیل کردیا جائے۔ وائی فائی پاس ورڈ کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے چھ ہدایات ذہن نشین کر لیں۔ 1: اپنی ڈیوائیس ’ڈبلیو پی اے انسکپرشن (WPA2)‘ پر سیٹ کریں۔ 2: پاس ورڈ کسی بھی صورت 10ہندسوں سے کم نہ ہو۔ 3: پاس ورڈ میں الفاظ ہندسے اور خصوصی کریکٹرز کو شامل کریں۔ 4: سٹینڈرڈ ’ایس ایس آئی ڈی SSID‘ کا استعمال نہ کریں۔ 5: اپنی ذاتی معلومات SSID پر نہ رکھیں۔ 6: وائی فائی ڈیوائس کی لہریں (ایکسیس) کم سے کم یعنی اپنے گھر تک محدود رکھنے کے لئے اینٹینا ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے جو جدید آلات میں باآسانی ممکن ہے۔ کھلے عام ’وائی فائی ہاٹ سپاٹ‘ رکھنے کی وجہ سے انٹرنیٹ صارفین نہ صرف جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ نادانستہ طور پر ایک ایسے مستقل خطرے سے بھی دوچار ہیں‘ جس کی سنگینی کا انہیں ادراک نہیں۔ عموماً ہوٹلوں‘ کیفے اور دیگر پبلک مقامات پر ’اوپن وائی فائی‘ رکھا جاتا ہے‘ دہشت گردوں کے زیراستعمال انٹرنیٹ کو دیکھتے ہوئے اِس سہولت پر اُس وقت تک پابندی عائد ہونی چاہئے جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے۔ جعلی یا بناء شناخت موبائل فون کنکشنز آج بھی موجود ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مالی فائدے کے لئے پورے ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ 

موجودہ ہنگامی حالات کا تقاضا ہے کہ ’پری پیڈ‘ اضافی خدمات کی بجائے پاکستان میں صرف اور صرف ’پوسٹ پیڈ موبائل کنکشنز‘ دیئے جائیں‘ تاکہ بلنگ کے ذریعے صارف کی رہائش کے مقام کا تعین ہوسکے۔ 

افغانستان یا دیگر ممالک کے موبائل فون کنکشنز کی ’رومنگ (Roaming)‘ معاہدے بھی اُس وقت تک معطل رکھے جائیں‘ جب تک سیکورٹی حالات اِس کی اجازت نہیں دیتے۔ 

پاکستان حالت جنگ سے گزر رہا ہے‘ جس میں عسکریت پسندوں کے مواصلاتی رابطے نہ صرف دہشت گردی کی منظم و مربوط کاروائیوں کو ممکن بنا رہے ہیں بلکہ اِنہی کے ذریعے وہ جس کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں درحقیقت وہ ہمارے سیکورٹی اداروں کی ناکامی کا بیان ہیں۔ کیا ہم نے دل سے شکست تسلیم کر لی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, September 9, 2016

Sept2016: The factors of Change

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تبدیلی کے تقاضے!
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ماضی جو بھی رہا ہو لیکن حال میں اُن کے ہاں پائے جانے والے ’امانت و دیانت کے تصورات‘ جس قدر واضح (فکری طور پر بلند) ہیں‘ اُن کا موازنہ کسی بھی دوسرے تیسرے یا چوتھے سیاسی رہنما کی عملی زندگی (قول و فعل) سے کیا جائے تو جو ایک حقیقت عیاں ہو گی وہ یہ ہے کہ ۔۔۔ ’’جب تک پاکستان مالی و انتظامی بدعنوانیوں (علت‘ وجوہات‘ محرک اُور آلۂ کاروں) سے چھٹکارہ نہیں حاصل کرلیتا اُس وقت تک صرف معاشی و اقتصادی شعبوں ہی میں نہیں بلکہ دہشت گردی و لاقانونیت کے خلاف جدوجہد (فوجی و غیرفوج مہمات) میں کامیابی ممکن نہیں۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ پانامہ پیپرز کے ذریعے بیرون ملک سرمایہ کاری کے انکشافات کے بعد قوم (متوسط و غریب ہم عوام) کی نظریں عمران خان پر لگی ہوئی ہیں تو غلط نہیں ہوگا لیکن کیا عمران خان خود سے وابستہ توقعات پر پورا اُترے گا؟ 

خیبرپختونخوا میں حکومت کے قیام‘ بدعنوانوں کے بلاامتیاز احتساب‘ سرکاری محکموں کی کارکردگی مثالی بنانے اور بالخصوص طرزحکمرانی میں انقلابی تبدیلیوں کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے پر جس ’سست روی‘ سے کام جاری ہے‘ اُس کی وجہ سے قریب تھا کہ ’تحریک انصاف‘ کی ساکھ بارے عمومی تاثر اندرون و بیرون ملک تنقید کا باعث بنتا لیکن لگتا ہے کہ مقدر عمران خان کا ساتھ دے رہا ہے جنہیں ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت ایک ایسا نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے! جس نے ’تحریک انصاف‘ میں نئی جان ڈال دی ہے!


پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی سطح پر ’داخلی اِصلاحات‘ کے عمل (مشکل دور) سے گزر رہی ہے۔ یہی حال پیپلزپارٹی کا بھی ہے اور یہ دونوں جماعتیں مل کر ایک ایسی گروہ کو للکار رہی ہیں جو اپنی طاقت کے مرکز (پنجاب) میں پاؤں جمائے ہوئے ہے اور چھوٹے صوبوں کی تشکیل کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کا ہنر جاتا ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں ’کرامات‘ کی توقع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر افتخار حسین شاہ سے وابستہ کر لی گئیں ہیں‘ جن کی پارٹی میں شمولیت سے داخلی محاذ پر ’سرد جنگ‘ اور ’سکوت‘ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ شاہ صاحب کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ اِن دنوں ’اصلاحاتی تجاویز (لائحہ عمل)‘ ترتیب دینے میں مصروف ہیں‘ جس کے بعد بڑے پیمانے پر نہ صرف صوبائی بلکہ تحریک کی مرکزی فیصلہ سازی پر مسلط اجارہ داری کو دھچکا لگے گا۔ مہم جوئی جاری رکھتے ہوئے ملک کی سیاسی تاریخ کے طویل ترین ’ایک سو چھبیس دن‘ کی احتجاج میں چھپے اسباق تلاش کرنا اپنی جگہ اہم ضرورت تھی جو پوری ہو رہی ہے لیکن ’تحریک انصاف‘ کو نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلے متبادل حکمراں دیکھنے کی خواہشمند طاقتیں اِس مرتبہ زیادہ منظم لیکن جذبات کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لے رہی ہیں!


سیاست میں جذبات کے اظہار لیکن اظہار کے لئے (موزوں) وقت کی اہمیت ہوتی ہے۔ اِس کھیل کا یا تو کوئی ایمپائر نہیں ہوتا یا پھر ایمپائر قانون کے اندھے ہونے کی وجہ سے ’جنگل کا بادشاہ‘ ہوتا ہے‘ جس پر کسی تھرڈ ایمپائر (ریاستی ادارے) کا قانونی‘ اخلاقی یا ریاستی دباؤ معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی اُسے اِس بات کی پرواہ ہوتی ہے کہ تماشائی (عوام) اُس کے بارے میں کیا سوچیں گے! 

آٹھ ستمبر کے روز قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کے بارے میں عمران خان کا یہ بیان کہ وہ اُنہیں ’اسپیکر‘ تسلیم نہیں کرتے تو کیا اِس سے برسرزمین حقائق تبدیل ہو جائیں گے؟ بیان دینے سے پہلے اگر سوچ لیا جاتا کہ سردار ایاز صادق بدستور اسپیکر رہیں گے تو ایسے الفاظ کس لئے بولے جاتے ہیں‘ جن کی روح نہیں ہوتی؟ طعنہ زنوں کی بات میں وزن ہے کہ ’’پارلیمانی نظام صرف اسمبلی کی رکنیت‘ تنخواہیں اور مراعات کا نام نہیں ہوتا‘‘ اگر اِس جملے کو مکمل کیا جائے تو قانون سازی کے منصب پر فائز ہونے اپنی جگہ اعزاز لیکن’’اِس میں نظریات کو دلائل کے ساتھ اسمبلی پلیٹ فارم پر مشتہر کرکے قوم کی جانب اُچھالا جاتا ہے اور اِس نظام میں سیاسی جماعت کے کارکنوں سے زیادہ ’ہم خیالوں‘ کی اہمیت ہوتی ہے۔‘‘ اپنے مؤقف کا بیج ’بنجر زمین (ذرائع ابلاغ کے نام نہاد تجزیہ کاروں)‘ میں بونے کا فائدہ نہیں جب تک کہ کاشت کے وقت اور لوازمات کا خیال نہ رکھا جائے۔ اُمید ہے کہ اب تک عمران خان سیاست اُور کھیل کے درمیان اُس باریک فرق کی تہہ داریوں کو سمجھ نہیں تو بھانپ ضرور گئے ہوں گے جو سراب جیسا فریب رکھتی ہے۔ 

سردست قوم کے اعتماد اور توقعات کا مزید امتحان نہ لیا جائے کیونکہ یقینی امر ہے کہ ’پے در پے احتجاج‘ سے اُس ٹولے کو تو قطعی پریشان نہیں کیا جاسکتا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی کے ذریعے قومی وسائل و اختیارات کو ’زیرِ دست‘ کئے ہوئے ہے۔ ’کھیل میں سیاست‘ اُور ’سیاست میں کھیل‘ جیسی کیفیات کو سنجیدہ بنا کر پیش کرنے والی ’تحریک انصاف‘ کے لئے قومی منظرنامے میں جاری اِننگ (اپنی باری) کا یہ شاید ’آخری اُوور‘ (موقع) ہے! پاکستان زندہ باد ہے اور سیاست کا کھیل بھی جاری رہے گا‘ ٹیمیں کھلاڑی اُور کھیل کے اَصول بدلتے رہیں گے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, September 8, 2016

Sept2016: Alarming Kidnappings

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بچوں کا اغوأ: داخلی و خارجی خطرات!

قانون نافذ کرنے والے بھی ’بچوں کے اَغوأ یا گمشدگی‘ کے حوالے سے پائے جانے والے عمومی خوف و ہراس (صورتحال) سے یکساں فکرمند ہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کے ایک اعلیٰ انتظامی اہلکار نے ’ذرائع ابلاغ کے نمائندوں‘ سے ورچوئل بات چیت کی نشست کا اہتمام کیا‘ جس میں بچوں کی حفاظت سے متعلق چند احتیاطی تدابیر کا تبادلہ بھی کیا گیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر اِس بات کا تعین (سوچ بچار) کر لیا جائے کہ بچے یا بچوں کو کن کن جگہوں پر زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو ان کی حفاظت کے لئے انتظامات طے کرنا آسانی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ 



پہلے مرحلے پر ’’ داخلی (گھر کے اندر) خطرات‘‘ ہیں۔ اگر بچے یا بچوں کو کسی بھی دورانیئے کے لئے گھر پر اکیلا چھوڑا جاتا ہے‘ تو یہ وہ بنیادی اِقدامات ہیں جو آپ کو ضرور کرنے چاہیءں۔ بچوں کو آپ کی غیر موجودگی میں دروازے اندر سے بند کرنے کی تربیت و تاکید ہونی چاہئے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گھر کے داخلی دروازے کو ایسے تالے لگا کر محفوظ کیا جائے‘ جو کسی ہنگامی (ایمرجنسی) صورتحال میں چابی کے ذریعے باہر سے کھولا جا سکے۔ اگر بچے گھر میں اکیلے ہوں تو اُنہیں داخلی دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے‘ یہ تاکید آپ کے گھر موجود ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ایک جیسی ہونی چاہئے۔ تربیت کے لئے دروازہ کھولنے کے وقت بچوں کو ہمراہ رکھیں۔ بچوں کو واضح طور پر بتایا جائے کہ وہ کس کس کے لئے دروازہ کھول سکتے ہیں اور کس کے لئے نہیں۔ اس بات کا فیصلہ صرف آپ کر سکتے ہیں کہ آپ کو کن لوگوں کی اپنے بچوں کے پاس موجودگی پر اعتبار ہے۔ 

والدین اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹیوٹر‘ ملازمین‘ دور کے رشتے داروں وغیرہ کے گھر اچھی طرح معلوم ہوں۔ اس کے علاؤہ ان تمام افراد سے رابطہ فہرستیں اور تفصیلات اکٹھی ہونی چاہیءں جو بچوں کی موجودگی میں باقاعدگی سے گھر آتے ہیں۔ بچے کے دوستوں کو جاننا بھی ضروری ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کے والدین سے رابطہ کیا جا سکے۔ اس بات کے قواعد بنائیں کہ گھر میں والدین کی اجازت کے بغیر کون کون نہیں آ سکتا یا آسکتا ہے۔ جن ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہو‘ اُن کی تفصیلات بھی الگ سے اکٹھی رکھیں کیونکہ وہ گھر کے بھیدی ہوتے ہیں۔ مالی وسائل رکھنے والے والدین گھروں کو ’سی سی ٹی وی‘ کیمروں کے ذریعے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ الیکٹرانک تالے بھی مارکیٹ میں عام دستیاب ہیں‘ جو غلط پاس ورڈ ڈالنے پر آپ کو الرٹ بھیج دیں گے یا الارم بجا دیں گے۔ یہاں پڑوسی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اس لئے انہیں گھر پر نظر رکھنے کا کہنا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ 



بچوں کو گھر سے باہر (بیرونی) خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمارے معاشرے میں اگر لامحدود قرار دیئے جائیں تو غلط نہیں ہوگا۔ سبزہ زاروں (پارکس)‘ شاپنگ مالز‘ بازار (مارکیٹ) اور تعلیمی اداروں میں جو ایک بات مشترک ہے‘ وہ یہ ہے کہ اِن مقامات پر ’اجنبی ہجوم‘ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہر لمحے بچے پر نظر رکھنا ممکن نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر تاک میں رہنے کی وجہ سے واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو سکول لانے لیجانے والی پبلک ٹرانسپورٹ بھی ایک مستقل خطرہ ہے جب تک ہر ضلعی حکومت اپنی اپنی حدود میں خصوصی رجسٹریشن کے ذریعے ’سکول ٹرانسپورٹ سروس‘ سے وابستہ ہونے والے ڈرائیوروں کو اجازت نامے (لائسینس) اور گاڑیوں کی شناخت الگ رنگ یا الگ رنگ کی نمبرپلیٹ سے نہیں کرتی۔ سکول یا دیگر تدریسی اداروں کو آمدروفت زیادہ محفوظ بنانے میں منتخب بلدیاتی نمائندے اور ضلعی حکومتیں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 

والدین یا سرپرست بچوں کی حفاظت سے متعلق خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے‘ جنہیں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کرنا چاہئے اور اگر کسی کے پاس کوئی تجویز ہے تو متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کر سکتا ہے۔ بچے کی حفاظت پورے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی ’اجتماعی (مربوط) عمل‘ ہی سے ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, September 7, 2016

Spet2016: Congo threat on Eid ul Azha!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عید اُور خوف!
اَیوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد میں ’کانگو‘ سے ممکنہ متاثرہ ’چار‘ مریضوں میں سے ایک کی ہلاکت جبکہ تین کا علاج معالجہ جاری ہے اور ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ’کانگو وائرس‘ سے ممکنہ متاثرہ تین مشتبہ افراد کے خون کے نمونے ’نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ (اسلام آباد) کو پہلے ہی ارسال ہو چکے ہیں‘ جہاں سے نتائج آنے کے بعد تکنیکی طور پر اُن کے کانگو سے متاثر ہونے کی تصدیق یا نفی ہو سکے گی۔ ڈاکٹروں کے مطابق اگر بخار کی شدت عمومی ادویات سے کم نہ ہو اور جسم پر سرخ رنگ کے دھبے کم یا زیادہ تعداد میں ظاہر ہونے لگیں تو ایسے مریضوں کو ’مشتبہ‘ قرار دے کر اُن کے خون کے نمونے مرکزی قومی تجزیہ گاہ کو ارسال کر دیئے جاتے ہیں‘ جہاں سے نتائج آنے میں دن اور بسااوقات ہفتوں وقت بھی لگ جاتا ہے! علاؤہ ازیں کانگو ہی کی ایک شکل ڈینگی سے متاثرہ 35زیرعلاج مریضوں کے لئے ایبٹ آباد کے مرکزی ہسپتال میں خصوصی انتظامات الگ سے کئے گئے ہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر ایک بحث کو سمیٹ لیا جائے تو بہتر ہوگا کہ ہر ضلع کی سطح پر جدید سہولیات والی خون کی تجزیہ گاہیں ہونی چاہیءں کانگو یا دیگر جرثوموں والی بیماریوں کے لئے الگ علاج گاہیں نہیں تو خصوصی وارڈز (عمارتیں) تعمیر ہونی چاہیءں‘ تاکہ دوران علاج بیماریوں کے ممکنہ پھیلنے کا امکان نہ رہے۔

خیبرپختونخوا کے کم وبیش سبھی اضلاع میں ’کانگو‘ کے حوالے سے کسی نہ کسی درجے کا خوف و ہراس ضرور پایا جاتا ہے حالانکہ نہ تو یہ بیماری لاعلاج ہے اور نہ ہی اِس سے متاثرہ مریض پہلی مرتبہ سامنے آئے ہیں۔ پورے ملک کی بات کی جائے تو سال 1979ء سے لیکر 2016ء تک کانگو سے متاثرہ 279 مریض ہلاک ہو چکے ہیں چونکہ یہ مرض جانوروں سے انسانوں میں باآسانی منتقل ہو سکتا ہے اِس لئے عیدالاضحی کے موقع پر عوام الناس اِس خوف کا شکار ہیں کہ اگر وہ قربانی کے لئے جانور لائیں گے تو اُس سے انہیں کانگو لاحق ہوسکتا ہے حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے بالخصوص دیہی علاقوں کی نوے فیصد سے زائد آبادی کا وجود ہی ختم ہو چکا ہوتا جہاں مال مویشیوں سے سارا سال براہ راست تعلق رکھا جاتا ہے اُور جانور کسی گھرانے کے افراد جیسا ہی بودوباش کا حصّہ ہوتے ہیں۔ درحقیقت عید الاضحی کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے خوف پھیلایا گیا تو زرعی موضوعات پر لکھنے اُور بولنے والے صحافیوں کی کمی کے باعث غلط اطلاعات پھیلتی چلی گئیں حالانکہ چند حفاظتی تدابیر کے ذریعے ’کانگو‘ یا جانوروں سے اِنسانوں میں منتقل ہونے والی دیگر کئی ایک بیماریوں سے باآسانی محفوظ رہنا ممکن ہے۔ متعلقہ شعبے کے ماہرین ویٹ ڈاکٹرز (سلوتری یا بیطاری) اِس سلسلے میں مشورہ دیتے ہیں کہ جانوروں کی منڈی جانے والوں کو گہرے رنگوں کی بجائے ہلکے رنگ والے کپڑے پہننے چاہیں تاکہ اُن کے بدن پر چپکے ہوئے کیڑے مکوڑے اگر اُن کے کپڑوں پر لگ جائیں تو فوری نشاندہی ہو سکے۔ یاد رکھیں کہ کانگو وائرس (جرثومہ) جانوروں سے انسان میں کئی طریقوں سے منتقل ہو سکتا ہے۔ منتقلی کا پہلا ذریعہ چچری (Tick) کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ چچری کو عام زبان میں لیک یا قراد یا جُوں کہا جاتا ہے جو ’2 پروں‘ والے حشرات الارض کے گروہ کا حصّہ ہے اُور یہ خون چوسنے کے عمل میں خاص جرثومہ (وائرس) انسان یا جانور میں منتقل کردیتا ہے جس کی اگر بروقت تشخیص و مناسب علاج نہ کیا جائے تو اِس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔ کریمین ہیمریجک کانگو فیور (Crimean Congo Hemorrhagic Fever) نامی بخار کی چار قسمیں ہیں۔ ڈینگی‘ ایبولا‘ لیسا اور ریفٹ ویلی۔ اگر کوئی شخص کانگو سے متاثر ہو جائے تو اُس کے جسم پر سرخ دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ تیز بخار ہوتا ہے اور سرخ دھبوں سے خون رسنے لگتا ہے۔ یہی خون رسنے کی وجہ سے متاثرہ شخص کی موت واقع ہو سکتی ہے لیکن صرف گائے بھیڑ بکری‘ بکرے‘ بھینس یا اونٹ کے جسم بالخصوص کان کے پچھلے حصے پر چپکے ہوئی چچریاں ہی نہیں بلکہ کانگو سے متاثرہ مریض بھی اِس جرثومے (وائرس) کو دیگر صحت مند انسانوں یا جانوروں میں منتقل کرسکتا ہے۔

قربانی کے لئے جانور خریدنے منڈی یا بھیڑ بھاڑ والے مقامات پر جانے والوں کو ہلکے رنگ کے کپڑے پہننے کے علاؤہ احتیاطی تدبیر کے طور پر ربڑ کے دستانے اور منہ پر ماسک پہن سکتے ہیں۔ اِن تین احتیاطی تدابیر کے بعد کانگو وائرس سے متاثر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کر دیا گیا ہے پھر بھی حفظ ماتقدم کے طور پر والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کو مال مویشیوں کی منڈیوں میں ہمراہ نہ لے جائیں۔ کسی اَن دیکھے جرثومے (بیماری) کے خوف سے قربانی کی گہماگہمی اور اہتمام قطعی طور پر متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ احتیاط شرط ہے لیکن جس انداز میں کانگو وائرس کے بارے خوف عام ہے‘ حقیقت میں یہ بیماری اتنے بڑی پیمانے پر عام نہیں ہوئی کہ پریشانی میں اِس سال قربانی ہی قربان کر دی جائے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, September 6, 2016

Sept2016: Peshawar Metro & Security


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خطرات‘ اندیشے اُور ضرورت!

پشاور کے لئے ’تیزرفتار‘ مسافر بس سروس (ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم) فراہم کرنے کا وعدہ پورا ہونے کے قریب لیکن اِس کی راہ میں حائل ایک ایسی رکاوٹ فیصلہ سازوں کے لئے مشکل بنی کھڑی دکھائی دیتی ہے‘ جس کا تعلق ’اَمن و امان‘ کی صورتحال سے بتایا جاتا ہے اور اِس اِمکان کے بارے غور‘ زیرغور ہے کہ کس طرح پشاور کی حدود میں کم سے کم ’10مقامات‘ پر قائم پولیس اور فوج کی جانچ پڑتال (سیکورٹی چیک پوسٹس) کی موجودگی میں ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ تیزرفتاری سے چلائی جائے! جو اِس پوری مشق کا حاصل اُور مرکزی خیال ہے! 

فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ ’’اگر ’ریپیڈ بس سروس‘ کے ذریعے چیک پوسٹس بناء جانچ پڑتال عبور کی جاتی ہیں تو اِس سے پشاور کی سیکورٹی پر سمجھوتہ ہوگا‘ جو زیادہ بڑے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے!‘‘
تیزرفتار بس سروس پر عملی کام کے آغاز سے قبل ’ڈیزائن (ترتیب و تشکیل)‘ کے حوالے سے مشاورتی عمل میں ’150صفحات‘ کی رپورٹ مرتب کی گئی ہے‘ جس میں سیکورٹی کے حوالے سے ’لاحق خطرات‘ کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیکورٹی سے متعلق خطرات اُور اندیشے اُس ضرورت پر حاوی ہو جائیں گے‘ جس نے پشاور میں سفر کو ڈراونے خواب جیسا بنا رکھا ہے۔ 

سیکورٹی مسئلے سے نمٹنے کے لئے کئی مرحلہ وار تجربات کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ پہلے مرحلے میں صرف تعلیمی اداروں اور دفاتر میں کام کرنے والوں کو سفری سہولیات فراہم کی جائیں‘ جن کے پاس قومی شناختی کارڈ یا تعلیمی اداروں کی تصدیق شدہ اسناد حسب روٹ فراہم کی گئیں ہوں اور ایسے تمام مسافر ’اِی ٹیگ‘ کے خودکار الیکٹرانک نظام کا استعمال کرتے ہوئے بس میں سوار ہو سکیں۔ بس اسٹیشنوں پر دستی سامان اور جامہ تلاشی کے لئے بھی الیکٹرانک آلات نصب کئے جاسکتے ہیں جن سے سیکورٹی اداروں کا کام آسان ہو سکتا ہے اور بجائے یہ سمجھنا کہ ’تیزرفتار بس سروس‘ سے پشاور کی سیکورٹی کے لئے خطرات پیدا ہوں گے درحقیقت اِس بس سروس کے ذریعے موجود خطرات میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے کیونکہ بسوں میں سفر کرنے والوں کو نہ صرف سوار ہوتے وقت بلکہ ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک پہنچنے کے دوران بھی نظر میں رکھنا ممکن ہوگا جو اپنی جگہ ایک اہم ’ڈیٹا‘ ہے۔ 


تیزرفتار بس سروس کی بجائے ’اِنٹرسٹی ریل گاڑی‘ متعارف کرانے میں کیا امر مانع ہے جبکہ ریل کی پٹڑی پہلے ہی سے موجود ہے‘ جس سے اگر (وفاق اور صوبے کے درمیان بداعتمادی کی وجہ سے) استفادہ نہ بھی کیا جائے تو ’رنگ روڈ‘ کو مکمل کرکے ’سٹی سرکلر ریلوے اتھارٹی‘ کے ذریعے آمدروفت کا ایک ایسا ذریعہ متعارف کرایا جا سکتا ہے جو صرف پشاور ہی نہیں بلکہ قریبی دیگر اضلاع کو بھی مرکزی شہر سے ملانے اور خیبرپختونخوا میں ایک ایسے بین الاضلاعی ’ٹرانسپورٹ نیٹ ورک‘ کی داغ بیل ڈال سکتا ہے جو زیادہ ماحول دوست اور قابل بھروسہ و تیزرفتار ہوسکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ہمسایہ ممالک چین اور بھارت کی مثالیں موجود ہیں جبکہ جمہوری اسلامی ایران نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود ’تہران میٹرو‘ کے نام سے ایک ایسا زیرزمین نظام قائم کر رکھا ہے‘ جس سے یومیہ 30لاکھ مسافر استفادہ کرتے ہیں۔

 170کلومیٹر پر پھیلے نیٹ ورک کو سال 2028ء تک 430کلومیٹر تک پھیلا دیا جائے گا‘ جس کی تکمیل کے بعد اِس کی 9 ریل پیٹڑیاں ہوں گی۔ سردست یہ سروس صبح پانچ سے رات گیارہ بجے تک فعال رہتی ہے۔ تصور کیجئے کہ تہران کی ضلعی حکومت نے اپنے وسائل اور ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے کیا کچھ حاصل نہیں کیا؟ 

تصور کیجئے کہ جب ہر مسافر پاکستانی پندرہ روپے کے مساوی کرایہ ادا کر رہا ہو اور اوسطاً تیس لاکھ مسافروں سے ہونے والی کم وبیش پانچ کروڑ یومیہ آمدنی کتنے دیگر مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے! تہران میٹرو کی ایک اُور خاص بات یہ بھی نوٹ کی گئی کہ اِس کے آخری ڈبے خواتین کے لئے مخصوص رکھے گئے تھے جبکہ خواتین مردوں والے ڈبوں میں بھی سفر کر رہی ہیں اور اگر چاہتیں تو اُن کے لئے ٹرین کے آخر میں الگ سے بوگیاں موجود تھیں۔ 

ہمارے فیصلہ سازوں نے اپنی معذوری تسلیم کرتے ہوئے اگر فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ ’ٹیکنالوجی‘ درآمد کی جائے گی اور اپنے وسائل و تحقیق سے ترقی نہیں کی جائے گی تو کم سے کم ایسی توسیع و تعمیر تو بہرحال ممکن ہے‘ جو زیادہ ماحول دوست اُور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ پائیدار ثابت ہو۔ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ’بس سروس‘ کے قیام کو ملتوی کرنے کی بجائے ’’فساد کی جڑ‘‘ پر وار کیوں نہیں کیا جاتا‘ جس کی تاریکی ہر خوبی پر سایہ کئے ہوئے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, September 5, 2016

Sept2016: Understanding & discovering myself!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
فہم کے دائرے!

شعوری زندگی کی بنیاد ’شک کے ریگزار‘ پر استوار نہیں کی جاسکتی بلکہ اِس کے لئے ’یقین کا گلزار‘ چاہئے ہوتا ہے‘ جہاں ہرطرف حسن اخلاق اور خوش گمانی کے پھول کھلے ہوں۔ ماہر تعمیر‘ ماہر فلکیات‘ ماہر حیاتیات (بائیولوجی)‘ ماہر ادویات (کیمسٹ)‘ ماہر ریاضی دان‘ ماہر فلسفہ (منطق شناس)‘ طبیعیات (مادہ اور توانائی کے خواص سے متعلق علوم)‘ ماہر سائنسدان‘ ماہرِ علم الکلام (قرآن و سنت)‘ مرجع تقلید (آیت اللہ العظمیٰ) خواجہ نصیر الدین طوسی (محمد بن محمد بن الحسن‘ پیدائش:18فروری 1201ء: طوس ایران۔ وفات:26جون 1274ء الکاظمیہ۔ عراق) کئی علوم کے موجد بھی تھے جنہوں نے خلأ کے مطالعہ سے دنیا کو روشناس کرایا اُور ایسی پہلی رصدگاہ (Observatory) قائم کی‘ جہاں ’اَجرام فلکی‘ کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ جناب طوسی علم الاخلاق اور علم الاعرفان میں بھی کامل تھے۔ 

فارسی زبان میں ’علم الاخلاق‘ کے نام سے اُن کی کتاب موجود ہے جس کے ایک باب کا خلاصہ ہے کہ ’’جس طرح ایک انسان میں کچھ خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں‘ اسی طرح اقوام کا بھی قومی مزاج ہوتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ’’ علم الاخلاق‘‘ اُس علم کا نام ہے جس میں اُن طریقوں پر بحث ہوتی ہے کہ کس طرح انفرادی و اجتماعی حیثیت میں خوبیوں کو پروان چڑھایا جائے۔ دیگر شعبوں میں تحقیق کے علاؤہ جناب طوسی نے اقوام کی خصوصیات بھی زیربحث لائیں۔مثال کے طور پر انہوں نے عربوں‘ ترکوں‘ رومیوں وغیرہ کے علاؤہ برصغیر کی رہنے والی اقوام کی عادات کے حوالے بھی نتیجۂ خیال پیش کیا۔ اُنہوں نے اجتماعی و قومی ذہانت کی بھی تعریف کی لیکن اِس مرحلۂ فکر پر اُن کی ایک تحقیق کا بیان مقصود ہے جس میں اقوام میں پائی جانے والی اجتماعی کمزوریوں کا ذکر کیا گیا اور برصغیر پاک و ہند (موجودہ بھارت و پاکستان) کے بارے میں اُنہوں نے جن چند خامیوں کا ذکر کیا اُس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اِس خطے کے رہنے والوں کی اکثریت کے مزاج میں ’’ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی خاص عادت پائی جاتی ہے۔‘‘ 

جناب طوسی نے جس طرح اقوام عالم کا اخلاقی منظرنامہ پیش کیا‘ اُسی طرح مختصر کہانی نویسی کے ماہر‘ روس کے اَدیب انتن چیخوف (پیدائش 29جنوری 1860ء روس۔ وفات 15جنوری 1904ء جرمنی) کے ڈراموں اور اِستعاروں سے بھرپور مختصر افسانے بھی لائق توجہ ہیں‘ جنہوں نے کہا تھا ’’زندگی کی مشکلات کا سامنا ہر شخص کو کسی نہ کسی مرحلے پر کرنا پڑتا ہے چاہے وہ کتنا ہی عقلمند یا بیوقوف ہو اور یہ مشکلات تو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہوتی ہیں جو ہمیں اپنا آپ منوانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔‘‘ 

چیخوف سے یہ بھی تو منقول ہے کہ ’’اگر کسی ڈرامے کے آغاز (ایکٹ اوّل) میں دیوار پر ایک بندوق لٹکی ہوئی ہے تو اسے پردہ گرنے تک چل جانا چاہئے یا پھر اسے سرے سے وہاں ہونا ہی نہیں چاہئے اور اگر ہر بندوق کا اُدھر موجود ہونا ضروری ہے تو پھر بامعنی ہونا بھی لازم ہے‘ حادثاتی طور پر کچھ شامل نہیں ہوتا اور فالتو اجزأ جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ زندگی پر اتنا ضبط ہو کہ آپ کی مرضی کے بغیر کچھ بھی غیرضروری شامل نہ ہو سکے لیکن سوال یہ ہے کہ جناب طوسی یا چیخوف کو کیوں پڑھا یا اُن کے کہے کو کیوں سمجھا جائے؟ اُن کے بتائے ہوئے اخلاقی اسباق کو کیوں مشعل راہ بنایا جائے؟ 

اگر ایسا کیا جائے تو یقیناًہمارے فہم کا دائرہ وسیع ہوگا‘ مطالعے کے لطف کے ساتھ عمل کے لئے تحریک یعنی بیداری حاصل ہوگی۔ یہ تحاریک ہمیں ہر قسم کے رشتے جوڑنے پر اُبھارتی ہیں۔ کیوں کہ جب ہم فہم کی مسلسل کوشش کے ذریعے نقاط ملاتے ہیں تو ’’ہم معانی‘‘ اور ’’حسن‘‘ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ کوشش ہی زندگی کی کہانی کو اس کی شکل دیتی ہے اور اس کے مواد کو ایک سلسلے میں پروتی ہے۔ تشکیل اور معنی کی تشکیل کا کام ہمیں اندر سے مالا مال کر دیتا ہے۔ کیوں کہ منطقی دلائل ہمیں زندگی کی اُن جہتوں پر غور وفکر کی جانب واپس لے جاتے ہیں جو پہلی نظر میں ہماری توجہ حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سوال سے نبرد آزما ہونے میں ہی ہم بھرپور زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ سوال کرنے‘ کسی سوچ کی تحریک کا حصہ بننے اور عملی زندگی سنوارنے کے لئے شعوری کوششیں کامیابی کی راہیں متعین کرتی ہیں لیکن سفر (مطالعہ) شرط (ضروری) ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, September 4, 2016

Sept2016: Cold response on Panama Papers

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
دیانت و صداقت: دوغلے معیار!
وفاقی کابینہ نے بیرون ملک سرمایہ کاری کے انکشافات (پانامہ دستاویزات) کے بارے تحقیقات کے حوالے سے ’’پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2016ء‘‘ کی منظوری دی ہے‘ جو ’’انکوائری کمیشن ایکٹ 1956ء‘‘ کا متبادل ہوگا اُور اِس کے تحت تحقیقاتی کمیشن کتنا بااختیار ہو گا‘ یا کس قدر تحقیقات کے حوالے سے بااختیار ہوگا اُور جسے چاہے طلب کر سکے گا اِس بارے میں زیادہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان میں قوانین کی روح کے مطابق اگر بلاامتیاز عمل درآمد ہوتا تو کسی نئے قانون کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے پانامہ پیپرز (انکشافات) کے معاملے پر وفاقی کابینہ میں منظور ’انکوائری کمیشن ایکٹ مسترد کرتے ہوئے ’’ بااختیار اعلیٰ عدالتی کمیشن‘‘ کے قیام کے لئے ’پرائیویٹ ممبر‘ بل سینٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ بل کا عنوان ’’دی پانامہ پیپرز انکوائری بل2016ء رکھا گیا ہے۔اپوزیشن کے اس بل پر پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (قائداعظم)‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے ارکان نے دستخط کئے ہیں۔ 


پاکستان کو دہشت گردی‘ لاقانونیت اور توانائی جیسے بحرانوں کا سامنا ہے مگر بدعنوانی (کرپشن) کے ناسور کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ توانائی بحران اور کرپشن پاکستان پیپلزپارٹی کی 2013ء کے عام انتخابات میں بدترین شکست کا سبب بنی۔ اچھی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کے قائدین کرپشن کے خاتمے کا پرچم بلند کررہے ہیں۔ پاکستان میں پانامہ پیپرز کے بعد پیدا ہونے والی گرمجوشی ’ہلکی آنچ‘ کے باعث خاطرخواہ نتائج سے محروم ہے‘ سینکڑوں لوگوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے باوجود نہ تو گرفتاریاں ہوئیں اور نہ ہی قوم کے سامنے حقائق آ سکے! تیرہ مئی کو چیف جسٹس سپرئم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے پانامہ لیکس پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لئے وفاقی وزارت قانون کے پانچ اپریل کو بھجوائے گئے مراسلہ کا جواب دیتے ہوئے حکومتی ٹرمز آف ریفرنس پر کمیشن کی تشکیل سے معذرت کر لی اور باور کرایا کہ حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق تحقیقات میں کئی سال لگ جائیں گے۔ جب تک فریقین کے مابین ٹی او آرز طے (متفقہ) نہیں ہو جاتے‘ اس وقت تک جوڈیشل کمیشن قائم نہیں کیا جا سکتا! جوابی مراسلہ میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لئے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ باقاعدہ قانون سازی کرکے تحقیقات کے متقاضی انفرادی ناموں‘ خاندانوں اور گروپوں کی فہرست مہیا کر دی جائے تو سپرئم کورٹ جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر غور کر سکتی ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے بھیجی گئی ٹی او آرز میں تحقیقات کے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن نے مل کر ٹی او آر طے کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی لیکن بے سود معاملہ اب تک لٹکا ہوا ہے۔ الزام تراشی سے بھی معاملہ آگے بڑھ کر دشنام طرازی تک پہنچ گیا۔ اس دوران مزید آف شور کمپنیوں‘ قرضوں کی معافی اور کرپشن کے کیسز سامنے آئے۔ جن میں کم و بیش تمام حکومتی اتحادی اور مخالف پارٹیوں کی کئی سرکردہ شخصیات کے ساتھ سرمایہ کاروں اور بیوروکریٹس کے نام بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کے بیرون ممالک کھربوں ڈالر کے اثاثے موجود ہیں۔ پانامہ لیکس کے سامنے آنے پر یہ دولت پاکستان لائے جانے کی ایک امید ضرور بندھی ہے۔ 


تحریک انصاف پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے سڑکوں پر ہے۔ پیپلزپارٹی کبھی اس کے ساتھ اور کبھی الگ کھڑی نظر آتی ہے۔ کرپشن کا حساب ہوگا تو پیپلزپارٹی کے لوگ شاید دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ تعداد میں قابل احتساب قرار پائیں۔ تحریک انصاف میں بھی کئی اصحاب قابل احتساب ہیں‘کوئی بھی پارٹی کرپشن سے کلی طور پر مبرا نہیں ہے۔ اسی لئے غیرجانبدارانہ احتساب کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے۔ حزب اختلاف وزیراعظم کے احتساب پر مصر ہے تو مسلم لیگ (نواز) اور اس کے اتحادی وزیراعظم کو بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ ایسے ’ٹی او آرز‘ سامنے لے آئی کہ سپرئم کورٹ کو بھی کہنا پڑا کہ تحقیقات میں برسوں لگ جائیں گے۔ پارلیمنٹ کو قوم کی مجموعی دانش کا ادارہ سمجھا جاتا ہے مگر پارلیمٹیرین کی آج دانش بھی بکھری ہوئی اور بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت اپنی مرضی کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینا چاہتی ہے۔ 

اپوزیشن یہی کچھ سینٹ میں کررہی ہے۔ گویا حتمی طور پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے ’’پلان‘‘ میں کامیاب نہیں ہوں گی اس کا یقیناًفریقین کو ادراک ہے۔ شاید دونوں کا مفاد معاملے کو طول دینے اور عوام کے سامنے سرخرو ہونے میں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن انتہاؤں پر رہی تو احتساب کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ احتساب پر پارلیمنٹیرین کا رویہ غیرسنجیدہ اور جمہوریت اور قومی مفاد کے منافی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کو اپنے اپنے روئیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ مزید ہڑتالوں اور احتجاج سے عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے پارلیمانی ذرائع اور سنجیدگی سے بیرون ملک پڑی پاکستانیوں کی ناجائز دولت پاکستان لانے کی عملی کوششیں کی جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, September 3, 2016

Sept2016: District Peshawar Budget

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمامبلدیاتی نظام: روحانی حیات!
خیبرپختونخوا حکومت نے جس گرمجوشی اور بلندبانگ دعوؤں کے ساتھ ’تین سطحی بلدیاتی نظام‘ متعارف کرایا تھا‘ اُس سے وابستہ منتخب نمائندوں اور عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ نظام کو ناکام بنانے والے عناصر‘ سوچ اور ہتھکنڈوں کا یکساں شاطرانہ انداز سے مقابلہ کیا جائے۔ اِس سلسلے میں تازہ ترین مثال پشاور کی ضلعی حکومت کی دی جاسکتی ہے جس کے منظور کردہ بجٹ کو ’ضلعی انتظامیہ‘ نے ’غیرقانونی (غیرحقیقی)‘ قرار دینے کے علاؤہ مسترد بھی کر دیا ہے۔ صوبائی محکمۂ خزانہ نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بجٹ کی تیاری کے مراحل اور اِس کی تکمیل و منظوری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں فنانس ڈیپارٹمنٹ (محکمہ خزانہ) کی جانب سے سیکرٹری بلدیات و دیہی ترقی (لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ) کو تحریر کردہ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ’’ضلعی ناظم نے بجٹ کی تیاری میں قواعد کی خلاف ورزی کی۔‘‘ مکتوب میں اِس بات کی بھی سفارش کی گئی ہے کہ ’لوکل گورنمنٹ کمیشن‘ سے رجوع کرتے ہوئے ضلعی ناظم کے خلاف کاروائی کی جائے۔ یاد رہے کہ ضلع کونسل پشاور میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین پہلے ہی ’پشاور ہائی کورٹ‘ سے رجوع کر چکے ہیں جن کا مؤقف ہے کہ موجودہ حالات میں بجٹ کی تیاری اور اس کا پیش کرنا درحقیقت قواعد کی خلاف ورزی ہے تاہم اِس سلسلے میں ابھی ’پشاور ہائی کورٹ‘ کا کوئی فیصلہ نہیں آیا۔

بلدیاتی نظام میں کسی بھی ضلع کا ڈپٹی کمشنر وہاں کے بلدیاتی نظام کے مالی امور کا نگران (پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر) ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ بجٹ رولز 2016ء کے مطابق بجٹ کی دستاویزات کی تیاری یا پیش کئے جانے سے قبل اُس سے مشاورت یا اتفاق ضروری ہوتا ہے۔ اِسی طرح ’رولز آف بزنس 2015ء‘ کے تحت ڈپٹی کمشنر صوبائی اسمبلی اور دیگر محکموں کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اُور انہی قواعد کو جواز بنا کر ضلعی حکومت کے تیارکردہ و منظور شدہ بجٹ کو غیرقانونی قرار دیا جا رہا ہے!

قوانین اُور قواعد کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کیا ضلع ناظم پشاور اپنے گھر یا کسی ذاتی کاروبار سے ہونے والی آمدنی و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ) پیش کرنے جیسے جرم کا مرتکب ہوا ہے؟ اگر بات پشاور اُور اجتماعی بہبود بطور ترجیح سے متعلق ہے تو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بجٹ کس طرح اور کس نے بنایا ہے بلکہ زور تو اِس بات پر ہونا چاہئے کہ کیا اِس کی تیاری میں پشاور کے مفادات کو پیش نظر رکھا گیا ہے یا نہیں۔ اگر ہم قواعد کی پٹڑی پر ہی چلتے رہے تو ماضی کی طرح تعمیروترقی کے نام پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ 

صوبائی حکومت کو چاہئے کہ بلدیاتی نظام کی سرپرستی کرے اور افسرشاہی کے خدشات ختم کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے کیونکہ اگر پشاور میں ترقی کا عمل بلدیاتی نظام آنے کے بعد بھی شروع نہ ہوسکا تو خسارہ صوبائی حکومت کا ہوگا جس سے وابستہ توقعات پہلے ہی پوری نہیں ہو رہیں اور رہی سہی کسر بلدیاتی نظام کو مفلوج بنا کر پوری کرنے کی سازش کی جا رہی ہے! بلدیاتی نظام کی ظاہری باطنی اور روحانی حیات کے علاؤہ دیکھ بھال بھی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جب تک یہ نظام پوری طرح اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اُس وقت تک اِسے ہر قسم کی ’آفات وبلیات‘ سے محفوظ رکھنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔