ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ صحت: علاج اُور پروٹوکولز!
سرکاری ہسپتالوں میں علاج ’پرٹوکول‘ کے مطابق کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے معائنہ کرنے والا طبی عملہ اپنے علم و تجربے کی بنیاد پر مریض یا مریضہ کی شفایابی کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اگر بات نہ بنے تو دوسرے مرحلے میں معاملہ ’اسسٹنٹ رجسٹرار‘ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے‘ جہاں سے مرض برقرار رہنے کی صورت تیسرے مرحلے میں ’رجسٹرار‘ کو مدعو کیا جاتا ہے اور چوتھے مرحلے میں ’سینیئر رجسٹرار‘ زحمت کرتے ہیں! اِس کے بعد پانچویں اور چھٹے مرحلے میں ’اسسٹنٹ پروفیسر‘ اور ’ایسوسی ایٹ پروفیسر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ساتویں مرحلے میں ’پردھان منتری‘ یعنی پروفیسر کو طلب کیا جاتا ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں رائج اِن 7مراحل کے طریقۂ علاج کی آخری کڑی ہے۔ تصور کیجئے کہ ایک طرف ’زندگی اور موت کی کشمکش‘ ہے اور دوسری طرف ’پروٹوکولز (حفظ مراتب) ہیں! ایک طرف معاون طبی عملے سے لیکر اسسٹنٹ رجسٹرار‘ رجسٹرار‘ سینیئر رجسٹرار‘ اسسٹنٹ پروفیسر‘ ایسوسی ایٹ پروفیسر اُور پروفیسر ہیں اور دوسری طرف مالی وسائل نہ رکھنے کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں سے ’بہ امر مجبوری‘ رجوع کرنے والی عام آدمی (ہم عوام) بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی میں گھٹن بھری زندگی سے تڑپتے تڑپتے ’موت‘ دائمی حقیقت سے جا ملتا ہے۔ اگر ہمارے فیصلہ ساز علاج معالجے کے نام پر صحت کی ’’بنیادی و معیاری سہولیات‘‘ کی فراہمی ممکن نہیں بنا سکتے تو کیا قانون سازی کے ذریعے یہ اختیار دے سکتے ہیں کہ ہسپتال کے بستروں پر اذیت کا شکار جب چاہیں اپنے لئے موت کا انتخاب کر لیں اور انہیں انجکشن لگا کر تکلیف سے نجات دلا دی جائے؟
عجب ہے کہ مالی وسائل رکھنے والے فیس ادا کر کے کسی بھی پروفیسر کے نجی کلینک پر بناء ’حفظ مراتب (پرٹوکولز)‘ اپنا معائنہ (تشخیص) اور علاج کروا سکتے ہیں لیکن اربوں روپے سالانہ صحت پر خرچ ہونے کے باوجود بھی پروفیسر ’شودروں (نچلے طبقات)‘ کو ’سرکاری علاج گاہوں میں‘ ہاتھ لگانا تو دور کی بات اُس وقت تک چھونا بھی پسند نہیں کرتے جب تک ایسا ’بہ امر مجبوری ضروری‘ نہیں ہوجاتا! طب کے شعبے سے جڑے ماہرین کی اکثریت کے ہاں ’انسانیت کا احترام‘ کا تصور جس قدر دھندلا اور کم ترین ترجیح پر ہے‘ اُس کی بنیادی وجہ ہمارا ’نظام تعلیم و تربیت‘ ہے‘ جس کی وجہ سے انسانیت‘ انسانی حقوق‘ رحم‘ اخلاقی اقدار اور عمومی و خصوصی فرائض کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں کی بجائے ’مادیت پسندی‘ نے ’عام آدمی‘ کی زندگی مصائب و مشکلات سے بھر دی ہے!
شعبۂ صحت میں صرف علاج معالجہ ہی ’پروٹوکولز‘ کی زد میں نہیں بلکہ انتظامی معاملات بھی فیصلہ سازوں کی ذات (اَنا) اُور خودپسندی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ ’نیچے سے اُوپر‘ اُور ’اُوپر سے نیچے‘ اختیارات کی ’تہہ داریوں‘ کے سبب ایسے فیصلوں کی مثالیں عام ہیں‘ جس سے سرکاری وسائل کا استعمال نہایت ہی بیدردی سے کیا جا رہا ہے اور ماضی کی طرح ’سرکاری وسائل‘ کی لوٹ مار (وائٹ کالر کرائم) کا سورج سوا نیزے پر دھک رہا ہے۔ ’’پھولوں کا ڈھیر صحن میں رکھنے کے باوجود۔۔۔ خوشبو کا قحط ویسے کا ویسا پڑا رہا!‘‘ سرکاری علاج گاہوں میں کروڑوں روپے کے آلات اَربوں میں خریدے جاتے تھے آج بھی خریدے جا رہے ہیں اُور باوجود مہنگے داموں اور بناء ضرورت خریداری اِن سہولیات کی ’طبعی عمر‘ نجی علاج گاہوں کے مقابلے ماضی میں بھی کم ہوتی تھی‘ آج بھی کم ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کسی ڈاکٹر کے چہرے پر مسکراہٹ‘ خوش اخلاقی‘ اُور خندہ پیشانی کے آثار بمشکل ہی نظر آتے تھے‘ آج بھی تناؤ بھرا ناک نقشہ (خدوخال) وہی کے وہی ہیں لیکن اگر موازنہ نجی علاج گاہوں سے کیا جائے تو یکایک یہی ڈاکٹر من مانی فیسوں کے عوض ’انسانیت کی معراج‘ پر فائز دکھائی دیں گے۔ مسیحاؤں کا وہ رویہ جو عمومی ہونا چاہئے‘ خصوصی ہے آخر کیوں؟
سرکاری ہسپتالوں کی پہچان (شناختی علامت) خاص بدبو بن چکی ہے آخر کیوں؟ سرکاری علاج گاہوں میں صفائی کی ابتر صورتحال اور درودیوار سے ٹپکنے والی وحشت مریض کو یقین دلانے کے لئے کافی ہوتی ہے کہ اب اُن کا سفر اختتام کے قریب ہے لیکن نجی علاج گاہوں میں تعمیراتی خوبیوں کی وجہ سے کشادگی کا احساس‘ صفائی اور خوشگوار ماحول میں طبی اور معاون طبی عملہ صاف ستھرے کپڑے پہنے رہنمائی و سہولت کاری کرتا دکھائی دے گا تو ’نجی علاج گاہوں‘ جیسا ماحول سرکاری ہسپتالوں میں کیوں رائج نہیں کیا جاسکتا؟ ایک طرف حکومت ہر سال اربوں کی سرمایہ کاری کرکے بھی صحت کے اِنتظامی و عملی شعبے میں ’حسب ضرورت (خاطرخواہ)‘ بہتری نہیں لاسکی اُور دوسری طرف نجی علاج گاہیں چند کروڑ کی سرمایہ کاری سے اربوں روپے کما رہے ہیں! تو ایک جیسا ہی کردار ادا کرنے والوں کے دو الگ الگ روپ کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ وہ حکومت سے بھاری تنخواہیں اور مراعات کا طلبگار و حقدار بھی ہو لیکن اُس کی بہترین صلاحیتوں کا عملی استعمال (ظاہری نتائج) نجی علاج گاہوں میں دکھائی دیں؟
یہ صورتحال‘ یہ تجاہل عارفانہ‘ یہ خیانت بھرے رویئے ناقابل معافی ہیں اُور انہیں کسی بھی جواز کے تحت نظراَنداز نہیں کیا جاسکتا۔ عام آدمی عملی بہتری و نتائج کا منتظر ہے۔ تین برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ’تبدیلی کے نام‘ پر ’جنون‘ کی صورت خاموش انقلاب کی راہ دیکھ رہا ہے!‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔