ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قیدخانہ: عرض حال!
قیدخانہ: عرض حال!
پشاور سنٹرل جیل میں قیدیوں کی گنجائش اُور حفاظت کا مسئلہ تو کسی حد تک
نئی تعمیرات سے حل ہو ہی گیا ہے‘ اب ضرورت اُن مکینوں بارے سوچنے کی ہے‘ جن
کا کوئی پرسان حال نہیں اور اُن کے لئے صوبائی حکومت تک آواز پہنچانے کا
کوئی ذریعہ یا ایسا آزاد وسیلہ بھی دستیاب نہیں‘ جو تسلی و تشفی ہی کے لئے
کافی قرار دیا جاسکے۔ ہمارے قیدخانے اصلاح سے زیادہ عبرت کا نشان ہیں جہاں
جرائم میں ملوث افراد کے توبہ تائب ہونے کے امکانات نہایت ہی کم اُور
غیرضروری پابندیوں (سختیوں ) کی وجہ سے اِنتقام کے جذبات مزید بھڑک اُٹھتے
ہیں۔ ضرورت اِس پورے منظرنامے کے بارے غوروخوض کی ہے کیونکہ قیدیوں کو ملنے
والی سہولیات تو بہت دور کی بات ’بنیادی ضروریات‘ کی دستیابی نہیں اُور
اسی ذکر کے بارے اشارہ‘ تیئس فروری بعنوان ’قیدخانہ: سہولیات کا فقدان‘ کیا
گیا جس کے لئے نہ صرف قانون میں ترمیم بلکہ ’’قیدیوں کو انسان سمجھنے کی
ضرورت بطور دعوت فکر پیش کی گئی۔‘‘ (ملاحظہ کیجئے آن لائن
http://tinyurl.com/22042016)
سنٹرل جیل پشاور کے ایک قیدی نے جیل کے عمومی حالات‘ اَندرونی نظم و ضبط‘ خوراک اُور ماحول بارے جو ’عرض حال‘ ارسال کی ہے اُس بارے انتظامیہ کا مؤقف بالکل اُلٹ (متضاد) ہے جو ایسے کسی ظلم و زیادتی جیسے بیان سے اتفاق نہیں کرتی۔ جیل انتظامیہ کے مطابق قواعد و ضوابط کے مطابق قیدیوں کی ’’ہرممکن خدمت‘‘ کی جاتی ہے لیکن اگر ایسا ہی ہوتا تو ’قید کا تجربہ‘ حاصل کرنے والے ایسی کہانیاں نہ سناتے جس میں دوران حراست بااثر اُور پیسے والے افراد سے مختلف معاملہ کیا جاتا ہے۔
بہرکیف سمجھنے لائق بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان بھر میں جیل خانہ جات کا نظام ’برطانوی دور‘ کا تشکیل کردہ (یادگار) ہے جب قیدخانوں کا بنیادی مقصد سیاسی مخالفین کو اس قدر صعوبتوں اور نفسیاتی و جسمانی سزاؤں سے دوچار کرنا ہوتا تھا تاکہ وہ حکومت مخالف تحریک سے الگ ہو جائیں یا اِس قابل ہی نہ رہیں کہ وہ کسی قسم کا مزاحمتی کردار ادا کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں قید خانوں کا استعمال سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ریاستیں کرتی ہیں تو ظلم و جبر کی داستانیں عام ہوتی ہیں جیسا کہ امریکہ کا گوانتاناموبے یا باگرام قیدخانہ۔
اگر ہم مغربی اقوام کی تاریخ دیکھیں تو اٹھارہویں صدی ہی سے قیدخانوں کو تشدد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جہاں قیدیوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا اور یہ اسلوب آج تک جاری ہے لیکن ہمارے ہاں قیدخانے کے اُس اصطلاحی مفہوم و معنی اور ضرورت پر غور نہیں ہورہا کہ درحقیقت سنٹرل جیل وہ مقام ہے جہاں کسی جرم کے سزا یافتہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنی سزا کے دن پورے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں زیرسماعت مقدمات کے ملزموں کو بھی سزایافتہ افراد کے ساتھ رکھنا کہاں کا انصاف ہے اور ایسی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں جس میں منظم جرائم پیشہ عناصر جیل خانہ جات پر بھی اپنے پیسے کے زور سے حاوی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیل (قید) کا نام سن کر جرائم پیشہ عناصر کے ماتھے پر پسینے اور جسم میں سنسنی نہی دوڑتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جیل اُن کے مجرمانہ عزائم اور بے قاعدگیوں کا تسلسل نہیں توڑیں گے۔ ہر دور میں جیل خانہ جات کی اصلاحی (ناکافی) کوششیں ہوتی رہیں اُور اس سلسلے میں وفاقی وزارت قانون و انصاف نے جیل کے اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے 1997ء کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’’حراست‘ دیکھ بھال‘ زیرنظر رکھنا‘ جسمانی و نفسیاتی عارضوں کی علاج گاہ‘ معاشرے کی قیدیوں کے اصلاحی عمل میں شراکت داری تاکہ وہ جرائم سے تائب ہو کر سزا کاٹنے کے بعد معاشرے کا فعال و مفید جز بن سکیں۔ قیدیوں میں خوداحتسابی اور ازخود روئیوں میں تبدیلی کی کوشش کے ساتھ جیل ایک ایسی جگہ قرار دی گئی جہاں رہنے والے نظم وضبط کے پابند ہو جائیں۔‘‘ تصور کیجئے کہ کیا ہمارے جیل خانہ جات حقیقت میں اِس مثالی تشریح و بیان کی عکاسی کرتے ہیں؟
قیام پاکستان (1947ء) کے بعد جیل خانہ جات سے متعلق اَمور کی اصلاح کی پہلی کوشش 1950ء سے 1955ء کے درمیان ہوئی جب ایک سابق انسپکٹر جنرل کرنل سلامت اللہ نے اصلاحات پیش کیں۔ پھر مشرق پاکستان جیل ریفارمز 1956ء میں ہوئے۔ مغربی پاکستان کے جیل ریفارمز 1968-70ء جسٹس ایس اے محمود کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے۔ 1981-83ء کے دوران ہوم سیکرٹری پنجاب محمد حیات اللہ خان سنبل نے جیل اصلاحات و انتظامات پر نظرثانی کی۔ 1985ء میں وزیرمملکت محمود علی نے ایک کمیٹی کی سربراہی کرتے ہوئے جیل اصلاحات پیش کیں۔1994ء میں وزیرداخلہ میجرجنرل ریٹائرڈ نصیراللہ خان بابر نے ایک جیل اصلاحاتی کمیٹی کی سربراہی میں غوروخوض کیا۔1997ء میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ’جیل ریفارمز کمیٹی‘ بنائی گئی لیکن پھر 1997ء ہی میں ’پاک لاء کمیشن‘ بنانے کی ضرورت پیش آئی جس کی سربراہی بھی چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہی کر رہے تھے۔ شمالی مغربی سرحدی صوبہ (حال خیبرپختونخوا) اسمبلی نے بھی اپنی موجودگی ریکارڈ کا حصہ بنائی۔ سال 2000ء کے دوران جسٹس عبدالقادر شیخ کی قیادت میں ’ٹاسک فورس‘ کا مقصد جیل اصلاحات جامع بنانا تھا۔ سال2005ء میں اُس وقت کے وزیرداخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی سربراہی میں قومی سطح پر جیل اصلاحات کی کوششیں بھی قابل ذکر ہیں لیکن نہ تو قید خانوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جاسکا اور نہ ہی وہاں بنیادی ضروریات کی فراہمی یا اُس کے معیار میں قابل ذکر بہتری لائی جا سکی۔
جیل خانہ جات صوبائی معاملہ (سبجیکٹ) ہے۔ جیل مینول (قواعد وضوابط) کی پانچویں شق کے مطابق صوبائی حکومتیں اپنی صوابدید پر ایک ایسے انسپکٹر جنرل کا تقرر کرتی ہیں جو جیل خانہ جات کے اَمور کی نگرانی کرسکے۔پھر ہر جیل کاایک نگران (سپرٹینڈنٹ) مقرر کیا جاتا‘ جس کے ماتحت دو یا اِس سے زیادہ نائب (ڈپٹی سپرٹینڈنٹ) ہوتے ہیں‘ علاؤہ اَزیں ماتحت عملہ جس میں چیف وارڈرز‘ ہیڈ وارڈرز اُور وارڈز عرصہ دراز تک تعینات رہنے کی وجہ سے بھی مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ بہرکیف ’جیل مینول‘ کے مطابق ’ضلعی (بلدیاتی) نمائندے اپنی حدود میں کسی بھی جیل کا دورہ کرکے وہاں سہولیات و ضروریات کی فراہمی کے معیار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ جیل میں مردوں اُور خواتین کے لئے الگ الگ حصوں میں بنیادی سہولیات و ضروریات کا معیارجب تک ’کڑی نگرانی (جانچ)‘ کے عمل سے نہیں گزرے گا‘ آئندہ اِصلاحات (بھی) ناکافی و تشنہ ہی رہیں گی۔
سنٹرل جیل پشاور کے ایک قیدی نے جیل کے عمومی حالات‘ اَندرونی نظم و ضبط‘ خوراک اُور ماحول بارے جو ’عرض حال‘ ارسال کی ہے اُس بارے انتظامیہ کا مؤقف بالکل اُلٹ (متضاد) ہے جو ایسے کسی ظلم و زیادتی جیسے بیان سے اتفاق نہیں کرتی۔ جیل انتظامیہ کے مطابق قواعد و ضوابط کے مطابق قیدیوں کی ’’ہرممکن خدمت‘‘ کی جاتی ہے لیکن اگر ایسا ہی ہوتا تو ’قید کا تجربہ‘ حاصل کرنے والے ایسی کہانیاں نہ سناتے جس میں دوران حراست بااثر اُور پیسے والے افراد سے مختلف معاملہ کیا جاتا ہے۔
بہرکیف سمجھنے لائق بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان بھر میں جیل خانہ جات کا نظام ’برطانوی دور‘ کا تشکیل کردہ (یادگار) ہے جب قیدخانوں کا بنیادی مقصد سیاسی مخالفین کو اس قدر صعوبتوں اور نفسیاتی و جسمانی سزاؤں سے دوچار کرنا ہوتا تھا تاکہ وہ حکومت مخالف تحریک سے الگ ہو جائیں یا اِس قابل ہی نہ رہیں کہ وہ کسی قسم کا مزاحمتی کردار ادا کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں قید خانوں کا استعمال سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ریاستیں کرتی ہیں تو ظلم و جبر کی داستانیں عام ہوتی ہیں جیسا کہ امریکہ کا گوانتاناموبے یا باگرام قیدخانہ۔
اگر ہم مغربی اقوام کی تاریخ دیکھیں تو اٹھارہویں صدی ہی سے قیدخانوں کو تشدد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جہاں قیدیوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا اور یہ اسلوب آج تک جاری ہے لیکن ہمارے ہاں قیدخانے کے اُس اصطلاحی مفہوم و معنی اور ضرورت پر غور نہیں ہورہا کہ درحقیقت سنٹرل جیل وہ مقام ہے جہاں کسی جرم کے سزا یافتہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنی سزا کے دن پورے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں زیرسماعت مقدمات کے ملزموں کو بھی سزایافتہ افراد کے ساتھ رکھنا کہاں کا انصاف ہے اور ایسی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں جس میں منظم جرائم پیشہ عناصر جیل خانہ جات پر بھی اپنے پیسے کے زور سے حاوی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیل (قید) کا نام سن کر جرائم پیشہ عناصر کے ماتھے پر پسینے اور جسم میں سنسنی نہی دوڑتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جیل اُن کے مجرمانہ عزائم اور بے قاعدگیوں کا تسلسل نہیں توڑیں گے۔ ہر دور میں جیل خانہ جات کی اصلاحی (ناکافی) کوششیں ہوتی رہیں اُور اس سلسلے میں وفاقی وزارت قانون و انصاف نے جیل کے اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے 1997ء کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’’حراست‘ دیکھ بھال‘ زیرنظر رکھنا‘ جسمانی و نفسیاتی عارضوں کی علاج گاہ‘ معاشرے کی قیدیوں کے اصلاحی عمل میں شراکت داری تاکہ وہ جرائم سے تائب ہو کر سزا کاٹنے کے بعد معاشرے کا فعال و مفید جز بن سکیں۔ قیدیوں میں خوداحتسابی اور ازخود روئیوں میں تبدیلی کی کوشش کے ساتھ جیل ایک ایسی جگہ قرار دی گئی جہاں رہنے والے نظم وضبط کے پابند ہو جائیں۔‘‘ تصور کیجئے کہ کیا ہمارے جیل خانہ جات حقیقت میں اِس مثالی تشریح و بیان کی عکاسی کرتے ہیں؟
قیام پاکستان (1947ء) کے بعد جیل خانہ جات سے متعلق اَمور کی اصلاح کی پہلی کوشش 1950ء سے 1955ء کے درمیان ہوئی جب ایک سابق انسپکٹر جنرل کرنل سلامت اللہ نے اصلاحات پیش کیں۔ پھر مشرق پاکستان جیل ریفارمز 1956ء میں ہوئے۔ مغربی پاکستان کے جیل ریفارمز 1968-70ء جسٹس ایس اے محمود کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے۔ 1981-83ء کے دوران ہوم سیکرٹری پنجاب محمد حیات اللہ خان سنبل نے جیل اصلاحات و انتظامات پر نظرثانی کی۔ 1985ء میں وزیرمملکت محمود علی نے ایک کمیٹی کی سربراہی کرتے ہوئے جیل اصلاحات پیش کیں۔1994ء میں وزیرداخلہ میجرجنرل ریٹائرڈ نصیراللہ خان بابر نے ایک جیل اصلاحاتی کمیٹی کی سربراہی میں غوروخوض کیا۔1997ء میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ’جیل ریفارمز کمیٹی‘ بنائی گئی لیکن پھر 1997ء ہی میں ’پاک لاء کمیشن‘ بنانے کی ضرورت پیش آئی جس کی سربراہی بھی چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہی کر رہے تھے۔ شمالی مغربی سرحدی صوبہ (حال خیبرپختونخوا) اسمبلی نے بھی اپنی موجودگی ریکارڈ کا حصہ بنائی۔ سال 2000ء کے دوران جسٹس عبدالقادر شیخ کی قیادت میں ’ٹاسک فورس‘ کا مقصد جیل اصلاحات جامع بنانا تھا۔ سال2005ء میں اُس وقت کے وزیرداخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی سربراہی میں قومی سطح پر جیل اصلاحات کی کوششیں بھی قابل ذکر ہیں لیکن نہ تو قید خانوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جاسکا اور نہ ہی وہاں بنیادی ضروریات کی فراہمی یا اُس کے معیار میں قابل ذکر بہتری لائی جا سکی۔
جیل خانہ جات صوبائی معاملہ (سبجیکٹ) ہے۔ جیل مینول (قواعد وضوابط) کی پانچویں شق کے مطابق صوبائی حکومتیں اپنی صوابدید پر ایک ایسے انسپکٹر جنرل کا تقرر کرتی ہیں جو جیل خانہ جات کے اَمور کی نگرانی کرسکے۔پھر ہر جیل کاایک نگران (سپرٹینڈنٹ) مقرر کیا جاتا‘ جس کے ماتحت دو یا اِس سے زیادہ نائب (ڈپٹی سپرٹینڈنٹ) ہوتے ہیں‘ علاؤہ اَزیں ماتحت عملہ جس میں چیف وارڈرز‘ ہیڈ وارڈرز اُور وارڈز عرصہ دراز تک تعینات رہنے کی وجہ سے بھی مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ بہرکیف ’جیل مینول‘ کے مطابق ’ضلعی (بلدیاتی) نمائندے اپنی حدود میں کسی بھی جیل کا دورہ کرکے وہاں سہولیات و ضروریات کی فراہمی کے معیار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ جیل میں مردوں اُور خواتین کے لئے الگ الگ حصوں میں بنیادی سہولیات و ضروریات کا معیارجب تک ’کڑی نگرانی (جانچ)‘ کے عمل سے نہیں گزرے گا‘ آئندہ اِصلاحات (بھی) ناکافی و تشنہ ہی رہیں گی۔
Part 2 in the series of emphasis on Prisons Reforms |