Sunday, April 24, 2016

APR2016: Prisons reforms 2

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قیدخانہ: عرض حال!
پشاور سنٹرل جیل میں قیدیوں کی گنجائش اُور حفاظت کا مسئلہ تو کسی حد تک نئی تعمیرات سے حل ہو ہی گیا ہے‘ اب ضرورت اُن مکینوں بارے سوچنے کی ہے‘ جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور اُن کے لئے صوبائی حکومت تک آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ یا ایسا آزاد وسیلہ بھی دستیاب نہیں‘ جو تسلی و تشفی ہی کے لئے کافی قرار دیا جاسکے۔ ہمارے قیدخانے اصلاح سے زیادہ عبرت کا نشان ہیں جہاں جرائم میں ملوث افراد کے توبہ تائب ہونے کے امکانات نہایت ہی کم اُور غیرضروری پابندیوں (سختیوں ) کی وجہ سے اِنتقام کے جذبات مزید بھڑک اُٹھتے ہیں۔ ضرورت اِس پورے منظرنامے کے بارے غوروخوض کی ہے کیونکہ قیدیوں کو ملنے والی سہولیات تو بہت دور کی بات ’بنیادی ضروریات‘ کی دستیابی نہیں اُور اسی ذکر کے بارے اشارہ‘ تیئس فروری بعنوان ’قیدخانہ: سہولیات کا فقدان‘ کیا گیا جس کے لئے نہ صرف قانون میں ترمیم بلکہ ’’قیدیوں کو انسان سمجھنے کی ضرورت بطور دعوت فکر پیش کی گئی۔‘‘ (ملاحظہ کیجئے آن لائن http://tinyurl.com/22042016)
سنٹرل جیل پشاور کے ایک قیدی نے جیل کے عمومی حالات‘ اَندرونی نظم و ضبط‘ خوراک اُور ماحول بارے جو ’عرض حال‘ ارسال کی ہے اُس بارے انتظامیہ کا مؤقف بالکل اُلٹ (متضاد) ہے جو ایسے کسی ظلم و زیادتی جیسے بیان سے اتفاق نہیں کرتی۔ جیل انتظامیہ کے مطابق قواعد و ضوابط کے مطابق قیدیوں کی ’’ہرممکن خدمت‘‘ کی جاتی ہے لیکن اگر ایسا ہی ہوتا تو ’قید کا تجربہ‘ حاصل کرنے والے ایسی کہانیاں نہ سناتے جس میں دوران حراست بااثر اُور پیسے والے افراد سے مختلف معاملہ کیا جاتا ہے۔
بہرکیف سمجھنے لائق بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان بھر میں جیل خانہ جات کا نظام ’برطانوی دور‘ کا تشکیل کردہ (یادگار) ہے جب قیدخانوں کا بنیادی مقصد سیاسی مخالفین کو اس قدر صعوبتوں اور نفسیاتی و جسمانی سزاؤں سے دوچار کرنا ہوتا تھا تاکہ وہ حکومت مخالف تحریک سے الگ ہو جائیں یا اِس قابل ہی نہ رہیں کہ وہ کسی قسم کا مزاحمتی کردار ادا کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں قید خانوں کا استعمال سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ریاستیں کرتی ہیں تو ظلم و جبر کی داستانیں عام ہوتی ہیں جیسا کہ امریکہ کا گوانتاناموبے یا باگرام قیدخانہ۔

 اگر ہم مغربی اقوام کی تاریخ دیکھیں تو اٹھارہویں صدی ہی سے قیدخانوں کو تشدد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جہاں قیدیوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا اور یہ اسلوب آج تک جاری ہے لیکن ہمارے ہاں قیدخانے کے اُس اصطلاحی مفہوم و معنی اور ضرورت پر غور نہیں ہورہا کہ درحقیقت سنٹرل جیل وہ مقام ہے جہاں کسی جرم کے سزا یافتہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنی سزا کے دن پورے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں زیرسماعت مقدمات کے ملزموں کو بھی سزایافتہ افراد کے ساتھ رکھنا کہاں کا انصاف ہے اور ایسی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں جس میں منظم جرائم پیشہ عناصر جیل خانہ جات پر بھی اپنے پیسے کے زور سے حاوی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیل (قید) کا نام سن کر جرائم پیشہ عناصر کے ماتھے پر پسینے اور جسم میں سنسنی نہی دوڑتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جیل اُن کے مجرمانہ عزائم اور بے قاعدگیوں کا تسلسل نہیں توڑیں گے۔ ہر دور میں جیل خانہ جات کی اصلاحی (ناکافی) کوششیں ہوتی رہیں اُور اس سلسلے میں وفاقی وزارت قانون و انصاف نے جیل کے اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے 1997ء کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’’حراست‘ دیکھ بھال‘ زیرنظر رکھنا‘ جسمانی و نفسیاتی عارضوں کی علاج گاہ‘ معاشرے کی قیدیوں کے اصلاحی عمل میں شراکت داری تاکہ وہ جرائم سے تائب ہو کر سزا کاٹنے کے بعد معاشرے کا فعال و مفید جز بن سکیں۔ قیدیوں میں خوداحتسابی اور ازخود روئیوں میں تبدیلی کی کوشش کے ساتھ جیل ایک ایسی جگہ قرار دی گئی جہاں رہنے والے نظم وضبط کے پابند ہو جائیں۔‘‘ تصور کیجئے کہ کیا ہمارے جیل خانہ جات حقیقت میں اِس مثالی تشریح و بیان کی عکاسی کرتے ہیں؟

قیام پاکستان (1947ء) کے بعد جیل خانہ جات سے متعلق اَمور کی اصلاح کی پہلی کوشش 1950ء سے 1955ء کے درمیان ہوئی جب ایک سابق انسپکٹر جنرل کرنل سلامت اللہ نے اصلاحات پیش کیں۔ پھر مشرق پاکستان جیل ریفارمز 1956ء میں ہوئے۔ مغربی پاکستان کے جیل ریفارمز 1968-70ء جسٹس ایس اے محمود کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے۔ 1981-83ء کے دوران ہوم سیکرٹری پنجاب محمد حیات اللہ خان سنبل نے جیل اصلاحات و انتظامات پر نظرثانی کی۔ 1985ء میں وزیرمملکت محمود علی نے ایک کمیٹی کی سربراہی کرتے ہوئے جیل اصلاحات پیش کیں۔1994ء میں وزیرداخلہ میجرجنرل ریٹائرڈ نصیراللہ خان بابر نے ایک جیل اصلاحاتی کمیٹی کی سربراہی میں غوروخوض کیا۔1997ء میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ’جیل ریفارمز کمیٹی‘ بنائی گئی لیکن پھر 1997ء ہی میں ’پاک لاء کمیشن‘ بنانے کی ضرورت پیش آئی جس کی سربراہی بھی چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہی کر رہے تھے۔ شمالی مغربی سرحدی صوبہ (حال خیبرپختونخوا) اسمبلی نے بھی اپنی موجودگی ریکارڈ کا حصہ بنائی۔ سال 2000ء کے دوران جسٹس عبدالقادر شیخ کی قیادت میں ’ٹاسک فورس‘ کا مقصد جیل اصلاحات جامع بنانا تھا۔ سال2005ء میں اُس وقت کے وزیرداخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی سربراہی میں قومی سطح پر جیل اصلاحات کی کوششیں بھی قابل ذکر ہیں لیکن نہ تو قید خانوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جاسکا اور نہ ہی وہاں بنیادی ضروریات کی فراہمی یا اُس کے معیار میں قابل ذکر بہتری لائی جا سکی۔

جیل خانہ جات صوبائی معاملہ (سبجیکٹ) ہے۔ جیل مینول (قواعد وضوابط) کی پانچویں شق کے مطابق صوبائی حکومتیں اپنی صوابدید پر ایک ایسے انسپکٹر جنرل کا تقرر کرتی ہیں جو جیل خانہ جات کے اَمور کی نگرانی کرسکے۔پھر ہر جیل کاایک نگران (سپرٹینڈنٹ) مقرر کیا جاتا‘ جس کے ماتحت دو یا اِس سے زیادہ نائب (ڈپٹی سپرٹینڈنٹ) ہوتے ہیں‘ علاؤہ اَزیں ماتحت عملہ جس میں چیف وارڈرز‘ ہیڈ وارڈرز اُور وارڈز عرصہ دراز تک تعینات رہنے کی وجہ سے بھی مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ بہرکیف ’جیل مینول‘ کے مطابق ’ضلعی (بلدیاتی) نمائندے اپنی حدود میں کسی بھی جیل کا دورہ کرکے وہاں سہولیات و ضروریات کی فراہمی کے معیار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ جیل میں مردوں اُور خواتین کے لئے الگ الگ حصوں میں بنیادی سہولیات و ضروریات کا معیارجب تک ’کڑی نگرانی (جانچ)‘ کے عمل سے نہیں گزرے گا‘ آئندہ اِصلاحات (بھی) ناکافی و تشنہ ہی رہیں گی۔
Part 2 in the series of emphasis on Prisons Reforms

APR2016: Cyber Crimes

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قانون کی زد۔۔۔!
بس اسی بات کی کمی رہ گئی تھی کہ پاکستان میں ایسے سائبر قوانین لاگو کر دیئے جائیں جن کے حوالے سے تنقید و تجاویز اور ترامیم اِس بات کی گواہی ہیں کہ بیس اپریل کو قومی اسمبلی کا منظور کردہ ’’پاکستان الیکٹرانک کرائمز بل 2015ء‘‘ متنازعہ و اختلافی ہے۔ تصور کیجئے کہ مجوزہ قانون کی منظوری و شفافیت اور اس کی منظوری میں جملہ قانون سازوں کی دلچسپی اس قدر تھی کہ تین سو بیالیس اراکین کے ایوان میں سے صرف تیس اراکین حاضر تھے جنہوں نے منظوری دی اور اب جبکہ یہ قانون پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں سے منظور ہو چکا ہے‘ تو ابتدائی طور پر تجویز کی گئی چند سخت ترین سزاؤں اور شقوں میں ردوبدل کے علاؤہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کا نہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے بلکہ عام لوگ بوساطت وکلأ غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ ایسا قانون جس میں آزادئ اظہار اور اختلافِ رائے کو دبانے اور آگہی کی کمی کی وجہ سے سرزد ہونے والے اقدامات کو طویل قید اور بھاری جرمانے عائد کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو!

مختلف مراحل میں سائبر کرائمز بل پر جو تنقید سب سے زیادہ ہوئی ہے‘ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بل ایسے افراد نے تحریر کیا‘ جو خود ’’ڈیجیٹل (سائبر) دنیا‘‘ کی اونچ نیچ اور حقائق سے لاعلم ہیں یا خاطرخواہ گہرائی سے اِس کے بارے میں نہیں جانتے! جیسا کہ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے توجہ دلائی کہ بل کی شق نمبر بائیس کے تحت اسپیمنگ‘ یعنی ’’وصول کنندہ کی مرضی کے بغیر اسے کوئی پیغام بھیجنا‘‘ قانون کی رو سے جرم قرار دیا گیا ہے۔ یوں تو شق میں ترمیم کے بعد کچھ بہتری آئی ہے مگر اب بھی صرف ایک ٹیکسٹ میسج (موبائل فون پر مختصر پیغام جسے عرف عام میں ’ایس ایم ایس‘ کہا جاتا ہے) بھیجنے کی سزا تین ماہ قید تک دی جاسکتی ہے۔ کیا پاکستان کا ہر شخص اِس قدر سخت سزا اُور وہ بھی ایس ایم ایس کی وجہ سے مقرر ہو کے بارے میں جانتا ہے؟ بل میں پیش کی گئی مختلف چیزوں کی تعریفیں مبہم ہیں مگر ان کی سزائیں سخت رکھی گئی ہیں اور یہ بھی کہ اس جملے سے آخر کیا مطلب اخذ کیا جائے کہ ’’منفی مقاصد کے لئے ویب سائٹ قائم کرنے پر‘‘ کسی شخص یا ادارے کی صورت اُس کے سربراہ کو تین سال قید اور بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ آخر یہ ’’منفی مقاصد‘‘ کا مطلب کیا ہے اور اِس میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نفرت انگیز تقاریر و بیانات چاہے آن لائن ہوں یا آف لائن پاکستان کا سلگتا ہوا (حقیقی) مسئلہ ہے لیکن کیا دیواروں پر وال چاکنگ سے سائبر اور موبائل فون تک اس منفی رجحان کو ختم کرنے کا صرف یہی ایک حل باقی بچا تھا؟ کیا کوئی بھی شخص جو یہ جانتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں اختلافِ رائے کا گلا کس طرح گھونٹا گیا تھا‘ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر تنازعات پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ کسی چیز کے نفرت انگیز ہونے یا نہ ہونے کی غلط تشریح بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

 اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو سائبر سرگرمیوں کو ضوابط میں لانے کے لئے ایک ’’فریم ورک (ضوابط)‘‘ درکار ہے کیونکہ ہم ایسے ملک میں ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا غلط استعمال عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے لے کر افراد کی نجی زندگی میں مداخلت یعنی ذاتی معلومات کی چوری‘ بلیک میلنگ اور مال و زر تک رسائی (اکاؤنٹ ہیکنگ) تک کئی ایسے عوامل ہیں جن کا راستہ روکنا ہوگا لیکن آن لائن دنیا پر ضوابط عائد کرنے میں پاکستان کا سابقہ ریکارڈ اب تک کچھ خاص نہیں رہا اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکام کی آن لائن دنیا کے بارے میں فہم و فراست واجبی ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ’’یوٹیوب‘‘ پر پابندی عائدکی گئی اور پھر سالہا سال بعد خاموشی سے پابندی ہٹا بھی دی گئی جبکہ متنازعہ مواد (اصل سبب اور جواز) وہیں کا وہیں موجود ہے! قانون سازوں کو یوں تو ہر شعبے سے متعلق قانون مرتب کرتے ہوئے بہت سوچ بچار کرنی چاہئے لیکن جہاں تک سائبر کرائمز کا تعلق ہے تو یہ قانون سازی کو اتنا آسان نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگیاں اور بالخصوص ذرائع ابلاغ کے اداروں اور نمائندوں کے لئے پہلے ہی سے موجود مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

TRANSLATION: Corruption and Terrorism

Corruption and terrorism
بدعنوانی اور دہشت گردی
پہلی قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بدعنوانی کے خلاف روایت شکن طرز عمل اختیار کیا اور اس سلسلے میں اُنہوں نے 21اپریل کو واضح انداز میں جو بیان دیا اُس سے اُمید ہو چلی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی طرح بدعنوانی سے بھی پاک کرنے کا وہ پختہ عزم کئے ہوئے ہیں۔ یادش بخیر یہ وہی جنرل راحیل شریف ہیں جنہوں نے 11 مارچ 2015ء کو کراچی میں امن و امان کے حالات معمول پر لانے کے لئے غیرمعمولی عزم و ارادے سے کاروائی کا آغاز کیا۔ 15 جون 2014ء کا دن بھی آپ ہی سے منسوب ہے جب شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں فوجی کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے ایک روائتی طرزعمل اور سوچ کو سب سے پہلے شکست دی گئی۔ تصور کیجئے ایک ایسے فوجی سربراہ کا جو بناء کسی لالچ و طمع اور بہترین ساکھ کے ساتھ ہر محاذ پر ڈٹ کر لڑنے کا عزم رکھتا ہو!

بائیس اپریل کے دن دیا گیا وزیراعظم کا یہ بیان سبھی کو یاد ہوگا جس میں انہوں نے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی بجائے قدرے خوداعتمادی کے ساتھ یہ پہلی بات تو یہ کہی کہ ’’کوئی بھی اخلاقیات کا درس نہ دے۔‘‘ دوسری بات یہ کہی کہ احتساب کا عمل 1947ء (قیام پاکستان) سے شروع ہونا چاہئے۔ تیسرا یہ کہ عوام عمران خان کو بھی ذمہ دار ٹھہرائیں۔ چوتھا اشارہ فوج کی جانب تھا کہ اِس ادارے کے اعلیٰ عہدیداروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے اور پانچواں وزیراعظم نے ذرائع ابلاغ کے احتساب کی ضرورت بھی یکساں قوم کو یاد دلائی۔

پاکستان میں یہ بحث ہر سطح پر دکھائی دیتی ہے کہ دہشت گردی اور مالی بدعنوانی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں صدر دفتر رکھنے والی ایک اقتصادی تنظیم ’’اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ ’’مالی بدعنوانی سے دہشت گردوں کی مدد بھی ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ نتیجۂ خیال بھی دیا تھا کہ بدعنوانی کو برداشت کرنے جیسے بوجھ کی وجہ سے ممالک کی کشتیاں ڈوب جاتیں ہیں!‘‘

چودہ اپریل کے روز امریکہ ترجمان برائے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ ایڈمرل (ریٹائرڈ) جان کربائی (John Kirby) سے ایک سوال پوچھا گیا کہ پاناما پیپرز کی صورت بدعنوانی کے شواہد منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان میں سیاسی جماعتیں وزیراعظم (نواز شریف) کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں کیا ہمیں (امریکہ) کو ملک کے منتخب وزیراعظم کا ساتھ دینا چاہئے یا پھر بدعنوان رہنما کو رخصت ہوتے دیکھنا چاہئے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’سیکرٹری اس معاملے میں بہت واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ بدعنوانی سے خطرات جڑے ہیں اور اسی کی وجہ سے انتہاء پسندی کو فروغ ملتا ہے اور یہی محرک اقتصادی عدم استحکام کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہٰذا بدعنوانی ایک ایسا ناسور ہے جس سے پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہراً ہمیں اظہار بیزاری بھی کرنی ہے اور اس کے بارے میں سنجیدہ ردعمل کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔‘‘

19 اپریل کے روز جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’اُس وقت امن و استحکام نہیں آ سکتا جب تک ہم بدعنوانی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نیچے سے اوپر تک احتساب کرنا ہوگاجو کہ پاکستان کی یک جہتی‘ ساکھ اور خوشحالی کے ضروری ہے۔‘‘

لبنان کے وزیربرائے انصاف اشرف رفیع جو کہ ’عرب نیٹ ورک برائے اسٹریتھنگ دی انٹیگریٹی اینڈ دی فائٹ ایگنسٹ کرپشن‘ نامی تنظیم کے صدر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گرد کسی ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی سے پیدا ہونے والے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہی بدعنوانی کا پیسہ (درحقیقت) دہشت گردی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ دہشت گردی اور بدعنوانی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کی حیات کے ضامن ہیں۔‘‘

اُو ای سی ڈی (OECD) کے جنرل سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ’’بدعنوانی اور دہشت گردی کے درمیان تعاون کے امور کی نشاندہی اور اُن کے تعاون کو ختم کرنا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے ایک نہایت ہی کلیدی اہمیت کی حامل حکمت عملی ہے۔‘‘ سیکرٹری جنرل کے بقول بدعنوانی اور دہشت گردی میں چار قسم کے تعلق (مماثلتیں) پائی جاتی ہیں۔ پہلا یہ کہ بدعنوانی سے دہشت گردوں کو مالی وسائل ملتے ہیں۔ دوسرا بدعنوانی سے دہشت گردوں کو اپنی کاروائیاں کرنے کا مواقع (سہولیات) ملتے ہیں۔ تیسرا بدعنوانی اور دہشت گردی میں قدر مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ یہ دونوں ہی اپنی آمدن کے ذرائع پوشیدہ رکھتے ہیں اور چوتھا بدعنوانی و انتظامی معاملات میں کمزوریوں کی وجہ سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔

اُو ای سی ڈی (OECD) کا بیرون ملک (آف شور) کمپنیوں کے بارے تجزیہ ہے کہ ’’مختلف جرائم بشمول بدعنوان سیاست دان‘ اِنسانی اِسمگلنگ کرنے والے اُور دہشت گردوں کو اَیسے ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ اپنے مالی وسائل پوشیدہ رکھ سکیں۔ اُن میں اضافہ کرسکیں اور خفیہ ذرائع ہی سے خرچ بھی کرسکیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں ایسے اداروں (کمپنیوں) کی ضرورت ہوتی ہے جو معاون ثابت ہوں۔ سیکورٹی امور کے ماہرین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ آمدنی پوشیدہ رکھنے کے لئے ایسے اداروں کا قیام‘ وجود اور استعمال قومی سلامتی کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی و انتہاء پسندی کو شکست دینے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں اُن میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ دہشت گردی کو مالی وسائل فراہم کرنے والوں کی آمدنی کا ذریعہ موجود رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس طرح بدعنوانی سے حاصل کیا گیا سرمایہ دہشت گردی کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں ’اُو ای سی ڈی‘کا کہنا ہے کہ اگرچہ بدعنوانی‘ منظم جرائم اور دہشت گردوں کی مالی سرپرستی جیسے موضوعات ماضی کے مقابلے زیادہ زیربحث آنے لگے ہیں اور اِس سلسلے عوامی شعور و آگہی میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے لیکن مالی بدعنوانوں اور دہشت گردوں کے درمیان تعلق کا کوئی ایک ذریعہ‘ راستہ یا وسیلہ نہیں جسے کلی طور پر پیش کرکے اس پر حد لگائی جا سکے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بدعنوانی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہوتی ہے۔ دوسرا جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد اپنی کاروائیوں کے لئے ایک جیسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ تیسرا جرائم پیشہ عناصر کی طرح دہشت گرد بھی ایسی کئی ایک سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جنہیں بدعنوانی سے تقویت یا زندگی ملتی ہے۔ چوتھا لائق توجہ عنصر یہ ہے کہ بدعنوانی ایک ایسے سازگار ماحول کو جنم دیتی ہے جس میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد پروان چڑھتے ہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

TRANSLATION: Who are Punjabi Taliban?

Who are Punjabi Taliban
پنجابی طالبان کون ہیں؟
صوبہ پنجاب میں جہاں کہیں دہشت گردی رونما ہوتی ہے یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے تو ’پنجابی طالبان‘ کی اصطلاح کا عموماً استعمال ہوتا ہے۔ حال ہی میں پنجاب کے ضلع راجن پور میں ’چھوٹو گینگ‘ نامی ایک جرائم پیشہ گروہ کے خلاف کاروائی کی گئی جس میں ’پنجابی طالبان‘ کا نام آیا۔ اگرچہ ’چھوٹو گینگ‘ ایک جرائم پیشہ گروہ ہے لیکن اِس قسم کی افواہیں امکانات پر بیان کی جاتی ہیں کہ عسکریت پسندوں نے ممکنہ طور پر جرائم پیشہ عناصر سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہو یا پھر انہوں نے دریا کنارے ’کچا جمال‘ کی پٹی میں پناہ لے رکھی ہو جو راجن پور کی تحصیل روجھان کا علاقہ ہے۔ ابھی تک اس بات کے شواہد نہیں ملے ہیں کہ غلام رسول المعروف چھوٹو کے عسکریت پسندوں کے کسی ’نیٹ ورک‘ کے ساتھ روابط تھے یا پھر اُس نے بلوچی‘ سندھی یا دیگر عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کی یا انہیں اسلحے کی فراہمی میں ملوث رہا ہو۔ درحقیقت چھوٹو نے اپنے آپ کو فوج کے حوالے کرنے سے قبل مبینہ طور پر اُن رابطہ کار پولیس حکام بارہا کہا کہ اُسے طالبان کے طور پر ظاہر کرنا غلط ہے۔ اُس سے منسوب یہ بیان بھی ہے کہ میں مسلمان ہوں نہ کہ طالبان۔

پنجابی طالبان کی زیراستعمال اصطلاح کا کافی دلچسپ پس منظر ہے۔ سال 2001ء کے آخری دنوں میں جب پنجابی بولنے والے عسکریت پسند افغانستان پر غیرملکی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لئے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں پہنچے تو اُن کے لئے یہ اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ یہ پنجابی طالبان باجوڈ‘ مہمند‘ خیبر‘ کم اور اورکزئی کے قبائلی علاقں میں مقیم ہوئے یا پھر شمالی و جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں روپوش ہوئے اور یہیں انہوں نے عسکری تربیت حاصل کی تاکہ وہ افغانستان میں طالبان کے شانہ بشانہ جاری مزاحمت میں حصہ لے سکیں۔ مقامی پختون عسکریت پسندوں نے بھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اپنے اِن ساتھیوں کو ’پنجابی طالبان‘ پکارنا شروع کر دیا۔ پنجابی طالبان کی پختون اکثریتی عسکریت پسندوں کے ساتھ تعلق سے لسانی رنگینیاں بھی پیدا ہوئیں جیسا کہ خان سید نامی اہم عسکریت پسند رہنما کو ’سجنا‘ کہہ کر مخاطب کیا جانے لگا۔ چونکہ خان سید کا پنجابی طالبان کے ساتھ رویہ دوستانہ تھا اِس لئے اُسے ’سجنا‘ کا لقب دیا گیا جو اصل نام کے مقابلے زیادہ معروف ہوگیا۔ خان سید نے خود کو سجنا کہلانے پر کبھی بھی اعتراض نہیں کیا حالانکہ اُس کا اپنا اختیار کردہ لقب ’خالد محسود‘ تھا۔ طالبان کی بہت سی قسمیں ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے الگ شناخت کے طور پر مختلف نام دینا بھی ایک ضرورت ہی تھی۔ لفظ ’طالب‘ جس سے ’طالبان‘ بنا کا لغوی معنی ایک ایسے شخص کے ہیں جو طالب علم ہے اور یہ اصطلاح اصلاً 1994ء میں اُس وقت سے زیراستعمال ہے جب افغانستان کے سابق دارالحکومت شہر قندھار سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما ’ملا محمد عمر‘ نے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ پھر جب دسمبر 2007ء میں جنوبی وزیرستان (قبائلی علاقے) میں بیت اللہ محسود نے ’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)‘ کی بنیاد رکھی جو کہ افغانستان کے طالبان ہی کی طرز پر پاکستانی شاخ تھی تو اُس وقت افغان طالبان کی اصطلاح متعارف ہوئی تاکہ طالبان کے اِن دونوں گروہوں کے درمیان تمیز کی جاسکے۔ دریں اثناء پاکستانی طالبان جن کے ایک دھڑے کی شناخت کے لئے پنجابی طالبان استعمال ہونے لگا ’پختون عسکریت پسندوں‘ کی اکثریت والی تنظیم کا حصہ بنتے چلے گئے۔ یہ بات دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ پختون عسکریت پسندوں کو کبھی بھی ’پختون طالبان‘ نہیں کہا گیا جیسا کہ بعد میں شامل ہونے والوں کے لئے ’پنجابی طالبان‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ عسکریت پسندوں میں کوئی ایسا خاص دھڑا یا دستہ نہیں کہ جسے ’پنجابی طالبان‘ کہا جاتا ہے بلکہ صرف لسانی بنیادوں پر یعنی پنجابی زبان بولنے کی وجہ سے ایسے عسکریت پسند پنجابی طالبان کہلائے۔ جہادی تنظیمیں نظریاتی وجوہات یا قیادت کرنے والی شخصیات کی ذاتی حیثیت و مقام سے اختلاف یا ٹکراؤ کی بناء پر گروہوں میں تقسیم ہوئیں اور ان میں سے بہت سی تحریک طالبان پاکستان سے اتحادی ہوئیں کیونکیہ یہ سب سے طاقتور ایک ایسا گروہ تھا جو قبائلی علاقوں پر بھی کنٹرول رکھتا تھا اور اس میں یہ صلاحیت بھی تھی کہ حسب ضرورت اُن مقامی یا غیرملکی عسکریت پسندوں کو پناہ گاہیں اور تحفظ فراہم کرسکتا تھا‘ جنہیں مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔ عسکریت پسندوں کی اکثریت مختلف گروپوں میں تقسیم ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کو شخصی طورپر جانتی تھی کیونکہ وہ افغانستان و پاکستان میں اکٹھے کاروائیاں کرتے رہے تھے یا پھر اکٹھے تربیت حاصل کرچکے تھے اور جب وہ نے تحریک طالبان پاکستان میں شامل یا اس کے اتحادی بنے تو اُن کے درمیان تعلقات زیادہ مضبوط ہوگئے۔ پنجابی طالبان کے کچھ دھرے ایسے تھے جنہوں نے اِس اصطلاح کا اپنے لئے عمومی استعمال کیا یا پھر ایسے مواقعوں پر اِس اصطلاح کا استعمال کیا گیا جبکہ کاروائی کو شناخت کرنے کی ضرورت پیش رہی۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال میں بھی ’پنجابی طالبان‘ کی اصطلاح کا استعمال ہو چکا ہے۔ 2008ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاق میں حکومت بنی تو اُس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک کی جانب سے ’پنجابی طالبان‘ کی اِصطلاح اِستعمال کرنے پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے باقاعدہ اِحتجاج کیا تھا اور یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ ’پنجابی طالبان‘ نامی کسی ایسے مبینہ دھڑے کا وجود نہیں۔ تکنیکی طور پر اگر دیکھا جائے تو شہباز شریف اپنے اِس دعوے میں سچے تھے کیونکہ اُس وقت تحریک طالبان پاکستان میں ایسے کسی دستے کا وجود نہیں تھا جو ’پنجابی طالبان‘ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ چاہے جس نام سے بھی پکارا جائے لیکن ’پنجابی طالبان‘ کا وجود تحریک طالبان پاکستان میں اَہم و فعال ہے۔

پاکستان کے حکمراں طبقے کی اکثریت جس کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے پنجابی طالبان کے وجود کا انکار کرتے رہے اُس وقت تک جبکہ گلشن اقبال پارک لاہور میں خودکش حملہ ہوا‘ جس سے بھاری جانی نقصانات ہوئے۔ مذکورہ دہشت گرد حملے کے بعد وفاقی اور پنجاب حکومت جس کی قیادت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کر رہی ہے نے پنجاب بالخصوص جنوبی اضلاع میں موجود عسکری گروہوں کے خلاف کاروائی کی مطالبہ کیا۔ قبل ازیں بڑے عسکریت پسند رہنما ملک اسحاق اور اُن کے ساتھی مارے گئے یا پولیس مقابلے میں قتل ہوئے لیکن یہ کاروائی اُسی مطالبے کا عملی نمونہ تھی۔پاکستان مسلم لیگ نواز کی سیاسی مخالفت کرنے والی جماعتیں جن میں خیبرپختونخوا‘سندھ و بلوچستان کی حکمراں جماعتیں اور اِن صوبوں کی قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں پنجاب کے عسکری گروہوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے میں پیش پیش تھے۔ ’چھوٹو گینگ‘ کی مزاحمت‘ کئی پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور پولیس و بعدازاں فوج کی کاروائی جیسے واقعات سے ثابت ہوا ہے کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں یا پھر جس قدر بہتر بیان کی جاتی ہے حقیقت میں ویسی نہیں۔ پنجابی طالبان کی اصطلاح معرض وجود میں آئی اور یہ باقی رہے گی لیکن برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ عسکریت پسند کسی بھی نام یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں کمزور ہوئے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کی طاقت کے مراکز ماضی کے مقابلے منتشر دکھائی دیتے ہیں۔ پاک فوج کی کاروائی اور امریکہ کے ڈرون حملوں کے نتیجے میں اُن کے قدم قبائلی علاقوں سے بھی اکھڑنے کے بعد اُن کی اکثریت یا تو افغانستان چلی گئی ہے یا پھر پاکستان کے طول و عرض میں روپوش ہو گئی ہے۔ پنجابی طالبان کے نام سے شہرت رکھنے والے باقی ماندہ عسکریت پسند ایک خطرہ تو ہیں لیکن اُن کے نقصان پہنچانے کی صلاحیت و استعداد بڑی حد تک کم (تقلیل) ہو گئی ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Saturday, April 23, 2016

APR2016: Prisons & Priisoners - The condition!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قیدخانہ: سہولیات کا فقدان!
برطانوی راج کے دوران تعمیر ہونے والا پشاور جیل (سنٹرل پریزن) خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا قیدخانہ ہے جو 450 قیدیوں کی گنجائش کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا تھا تاہم اِس میں قیدیوں کی تعداد سولہ سو سے زیادہ ہے جن میں ایک ہزار سے زیادہ قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اُور باقی ماندہ اپنی سزا کے اذیت بھرے ایام کاٹ رہے ہیں۔ سنٹرل جیل پشاور میں معمولی جرائم سے لیکر دہشت گردی‘ قتل اُور منشیات فروشی جیسے جرائم میں ملوث افراد کو رکھا گیا ہے۔ عمارت کی گنجائش بڑھانے کے لئے ایک ارب چالیس کروڑ آٹھ لاکھ روپے سے زائد کا تخمینہ لگا کر مرحلہ وار تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا تاہم نئی بیرکوں کے اضافے سے قیدیوں کی گنجائش میں تو اضافہ ہوگیا ہے لیکن یہاں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کا معیار اور مقدار میں حسب ضرورت اضافہ نہیں ہوسکا۔ جیسا کہ نئی تعمیر ہونے والی عمارت کا ایک بیرک ایسی بھی ہے جہاں چھت کے پنکھے نصب نہیں اور گرمی و حبس کی وجہ سے قیدیوں شدید جسمانی و ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ جیل انتظامیہ کے مطابق ’سنٹرل جیل پشاور‘ کی عمارت کا زیادہ گنجائش کے لئے مکمل منہدم کرکے ایک ہی وقت میں ازسرنو زیادہ تعمیر کرنا ممکن نہیں تھا‘ اِس لئے یہ کام مرحلہ وار کیا گیا اور سردست 20 عدد پنکھوں کی کمی صرف ایک بیرک میں ہے‘ جہاں صوبائی حکومت کی جانب سے مالی وسائل (فنڈز) ملتے ہی پنکھوں کی تنصیب کر دی جائے گی۔ یاد رہے کہ 14 اپریل 2012ء کو بنوں جبکہ 29 جولائی 2013ء کے روز ڈیرہ اسماعیل خان توڑنے کے بعد صوبائی حکومت نے نہ صرف جیلوں کی تعمیرات زیادہ پختہ اور گنجائش بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ فوری طورپر جیلوں کی حفاظت کے لئے چاردیواریاں بلند کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا تاہم صوبے کے چار بڑے (مرکزی) قیدخانوں ہری پور‘ پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اُور بنوں کے علاؤہ 10 جیل خانے جبکہ چار ذیلی جیل خانے اور اتنی ہی تعداد میں جوڈیشل لاک اپ اضلاع کی سطح پر قائم ہیں اور سبھی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اِن میں گنجائش سے زائد اور خطرناک و معمولی جرائم کرنے والوں کو اکٹھا رکھا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے قیدخانے سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں۔ رواں ہفتے مانسہرہ کی ضلعی جیل میں ایک خاتون نے بچے کو جنم دیا جبکہ جیل میں نہ تو اِس قسم کی صورتحال میں طبی امداد دینے کا بندوبست موجود تھا اور نہ ہی ایمبولینس موجود تھی۔

سہولیات کے فقدان کا اعتراف صوبائی وزیر برائے جیل خانہ جات بھی کرتے ہیں لیکن محض غلطی کا احساس ہی کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اِس کی فوری نہ سہی مرحلہ وار انداز ہی میں اصلاح کی جائے۔ قیدی کسی بھی طرح ’فائیوسٹار ہوٹل‘ والی سہولیات کا تقاضا نہیں کر رہے لیکن گرمی کے موسم میں اُن کی کم سے کم پنکھے جیسی ضرورت پوری ہونی چاہئے۔ ٹھنڈے پانی کی آسائش کا مطالبہ اِس مرحلے پر کرنا مناسب نہیں لیکن سابق وزیر جیل خانہ جات و عوامی شکایات سیّد قمر عباس (مرحوم) کی یاد آ رہی ہے جن کی کوششوں میں شریک بیگم نسیم ولی خان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اصلاحات کی گئیں تھیں‘جس میں قیدیوں کو صابن رکھنے کا استحقاق بھی دیا گیا تھا۔ تصور کیجئے کہ قیدخانوں میں کتنا انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور کتنی اصلاحات کی ضرورت ہنوز محسوس کی جا رہی ہے۔تاہم وقتی اقدامات و انتظامات (پنکھے‘ ٹھنڈا پانی‘ صاف کپڑے اور ایک عدد بستر وغیرہ) کے زیادہ ضرورت گیارہ ابواب اور باسٹھ شقوں پر مشتمل اُس قانون کو جدید سانچوں کے مطابق ڈھالنے (ترمیم) کرنے کی ہے جو سال 1894ء سے رائج ہے جبکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں آج کے جرائم اور مجرم زیادہ پیچیدہ و گھمبیر ہیں۔ قوانین کو ’حسب حالات‘ جامع بنانے کے لئے صرف متعلقہ وزیر ہی نہیں بلکہ جملہ اراکین صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کے اُن کرداروں کا بھی خیال کریں جو اپنے کردہ ناکردہ جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں اُور ایسا بھی نہیں کہ پورے معاشرے میں صرف وہی ’’قانون شکن‘‘ تھے!
The prisons need attention too

Wednesday, April 20, 2016

Apr2016: Kidnappings in Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جرم کہانی: بے نیازی و بے بسی!
چھبیس مارچ سے اٹھارہ اپریل تک پشاور سے لاپتہ ہونے والے ایسے بچوں کی تعداد 8 بیان کی جاتی ہے‘جن کے بارے میں تاحال معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں‘ زندہ یا مردہ! اُور اِس حقیقت کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ کم و بیش ایک برس کے دوران 10بچے چند روز لاپتہ رہنے کے بعد پراسرار طور پر ہلاک پائے گئے جن کے بارے میں لواحقین کا کہنا ہے کہ اُنہیں قتل کیا گیا ہے جبکہ پولیس کے تفتیش کار ایسی کئی گتھیاں سلجھانے میں ناکام تو ہیں لیکن ساتھ ہی مؤقف رکھتے ہیں کہ اِن لاپتہ یا مردہ حالت میں یہاں وہاں سے برآمد ہونے والے بچوں کے واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پشاور پر کس کی حکمرانی ہے؟ ایک ایسا مرکزی شہر جہاں عوام کی جان و مال کی حفاظت جیسے ’بنیادی فرض‘ کے عوض سینکڑوں کی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار نہ صرف ماہانہ تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں بلکہ اُن کے اہل خانہ اور عزیزواقارب بھی شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے لئے باعث تشویش و پریشانی امور پہلے کیا کم تھے کہ ’پشاور سے بچوں کے پراسرار انداز میں لاپتہ اور مردہ حالت میں پائے جانے کے واقعات ایک تواتر سے رونما ہونے لگے ہیں!‘

بچوں کے لاپتہ ہونے کے پیچھے محرکات کی تلاش اِس لئے بھی ضروری ہے کہ زیرگردش افواہوں کے مطابق انسانی اعضاء کی خریدوفروخت کرنے والے ایسے سرگرم جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں‘ جو گلی کوچوں‘ قدرے سنسان قرب و جوار یا تعلیمی اداروں کی مسافت کرنے والے بچوں کو چن لیتے ہیں۔ اگر سائنسی بنیادوں پر دہشت گردی کا کھوج لگانے کی طرح اِن جرائم کی بھی تفتیش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معصوم بچوں کے قاتلوں تک رسائی نہ ہو لیکن جو دو سطحی مایوس کن صورتحال سے سردست واسطہ ہے اُس کا تعلق نہ صرف ایسے بچوں سے ہے جو آمدنی کے لحاظ سے متوسط طبقات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے وہ کم سن کہ جنہیں محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے اُن کی بھی خاطرخواہ حفاظت یا کام کی جگہیں اور محفوظ ماحول کی فراہمی تاحال ممکن نہیں بنائی جاسکی ہے۔ کم و بیش ایک سال میں دس انسانی بچوں کی ہلاکت اور آٹھ بچوں کے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے کے واقعات محض اتفاق نہیں ہوسکتے جس کا تاحال پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے سوموٹو (ازخود) نوٹس بھی نہیں لیا گیا! مایوسی کی انتہاء ملاحظہ کیجئے کہ سیاسی حکمراں و سرکاری اہلکاروں کا اپنے بچوں کی طرح دوسروں کا احساس کرنے کی صرف اُمید ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ اگر پولیس حکام سے بات کی جائے تو آجکل ’پولیس ایکٹ 2016ء‘ بارے زیادہ سنجیدگی سے غوروخوض ہو رہا ہے جس کے تحت مراعات و اختیارات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ اور فرائض کی حتی الوسع اِس قدر تقسیم در تقسیم ہو جائے گی کہ جرائم کے رونما ہونے کے لئے کوئی ایک کردار یا پولیس اہلکار ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکے گا! پولیس کے اعلیٰ حکام سے کسی بھی موضوع پر بات کریں گھوم پھر کر ’پولیس ایکٹ‘ کے بارے کچھ نہ کچھ تبادلۂ خیال قلبی و فکری تحاریک کا راز فاش کر دیتے ہیں۔

 یادش بخیر کہ صوبائی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ’کابینہ کمیٹی‘ کے سامنے تین اقسام کے ’مجوزہ پولیس ایکٹ‘ رکھے (سجے) ہیں جن پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلا مسودہ وزیر بلدیات و دیہی ترقی عنایت اللہ خان کی ذہانت کا نچوڑ ہے دوسرا سابق صوبائی پولیس سربراہ فیاض طورو کے عملی تجربات کی عکاسی کرتا ہے جبکہ تیسرا خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ نے زمینی حقائق اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا ہے تاہم اِس کی انتہائی ترمیمی شکل ہی اِسے متنازعہ بنائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ’مجوزہ پولیس ایکٹ‘ جس پر اتفاق کے لئے حاضر سروس پولیس حکام نے سولہ اپریل تک کی مہلت مانگی تھی لیکن مقررہ مدت کے بعد مسلسل سات گھنٹے تک جاری رہنے والا اجلاس بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا جس سے حالات کی سنگینی و سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے! کاش کہ کابینہ کی کوئی کمیٹی اُور متعلقہ حکام ’بچوں کے لاپتہ اُور قتل‘ ہونے کے واقعات پر بھی (کم سے کم) اتنی ہی (لائق بیان) تشویش کا مظاہرہ کرتے! زیادہ سے زیادہ مراعات و اختیارات اور کم سے کم فرائض و منقسم ذمہ داریوں کا تعین بھی ہو ہی جائے گا لیکن جملہ فیصلہ سازوں کو ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی تشویش بارے بھی سوچنا چاہئے جو اپنے اور ہم عصر بچوں کی حفاظت بارے سوچتے ہوئے انتہاء درجے کی مایوسی‘ بے بسی و غیریقینی کا شکار ہیں اور جو تھر تھرکانپتے ہوئے حکومت اور پولیس حکام کی بے حسی کا تماشا بھی دیکھ رہے ہیں!
Kidnappings in Peshawar touching the alarming rate

Monday, April 18, 2016

APR2016: Anti Encroachments Drive & measures to treat the issue!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تجاوزات: مرض‘ سبب اُور علاج!
غلطیوں میں اِصلاح کے پہلو تلاش کرنے چاہیءں۔ کسی عمل کی ’مماثلت (نقل بمطابق اَصل)‘ بھی باعث خیروبرکت ہو سکتی ہے‘ اگر شامل کھوٹ (درپردہ مفادات) کی بجائے‘ نیت و عمل جیسے کلیدی اَجزأ میں ’اخلاص‘ کا اضافہ کر لیا جائے۔ یہی ضرورت پشاور میں رواں ماہ کے آغاز (9 اپریل) سے ’تجاوزات کے خلاف جاری مہم کے نئے مرحلے میں غیرمعمولی تیزی کو دیکھتے ہوئے بھی محسوس کی جا رہی ہے جس میں پہلی مرتبہ مساجد‘ اِمام بارگاہوں اور دیگر ایسے حساس مقامات کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے‘ جنہوں نے امن و امان کی خراب صورتحال کا فائدہ یا بلدیہ ملازمین کی مٹھیاں گرم کرکے پشاور کی کشادگی اور وسعت کو ہڑپ کر رکھا تھا۔

ماضی میں پشاور کے ضلعی حکمران ہی ’تجاوزات کے بادشاہ‘ تھے جن کے وزیروں اور مشیروں کے کارنامے انگلیوں پر شمار کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات ’گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں شامل ہونے لائق ہے کہ پشاور میں ایک ’سی این جی (گیس) اسٹیشن‘ ایسا بھی ہے جو سڑک کے کنارے نہیں بلکہ سڑک کے ایک حصے کو شامل کرتے ہوئے بنایا گیا! فصیل شہر کو مسمار کرکے پلازے بنانے والوں کی کرامات سٹی سرکلر روڈ کا طواف کر رہی ہیں اور حال ہی لاہوری گیٹ سے رہائشی کواٹر ختم کرنے کے بعد اُمید تھی کہ سٹی سرکلر روڈ کی نکاسئ آب کا منصوبہ تشکیل دینے میں آسانی ہوگی لیکن راتوں رات لاہوری گیٹ سے نشترآباد کی پٹی پر دکانیں اور کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہوگئیں جن میں سے کئی ایک پر وکلأ کے ناموں کے بورڈز بھی آویزاں دیکھے جا سکتے ہیں یعنی ضلعی حکومت کو متنبہہ کیا گیا ہے کہ اگر اِس عمارت کو ہاتھ لگایا تو سخت قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

 تصور کیجئے کہ جو قانون سرکاری اِداروں کے لئے باعث تقویت ہونا چاہئے تھا اُس کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری اداروں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے! یہی حال اَدویات فروخت کرنے والوں کا بھی ہے‘ جو اَسناد کی آڑ میں ’کاروبار کو شرعی و قانونی طور پر جائز‘ سمجھتے ہیں! ضلعی حکومت کو اپنی توجہ دیگر ایسی بے قاعدگیوں کی جانب بھی مبذول کرنا پڑے گی لیکن تجاوزات کے مرض‘ اِس کی بنیادی وجہ اُور علاج تجویز کرنے والوں کو ’توڑ پھوڑ‘ کے ساتھ ’بلڈنگ کنٹرول‘ کے شعبے کو فعال کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ 1: نئی تعمیرات منظور شدہ نقشے کے مطابق کرنے کی پابندی کا اطلاق ہو سکے۔ مختلف علاقوں کی مٹی کے مطابق بلڈنگ کوڈز مرتب کئے جائیں۔ 2: نئی بستیوں اور بالخصوص اندرون پشاور کے رہائشی و تجارتی علاقوں کے درمیان پائی جانے والی تمیز برقرار رکھی جائے۔ 3: جن علاقوں سے تجاوزات کا خاتمہ کر دیا گیا ہے وہاں اِنہیں پھر سے قائم نہ ہونے دیا جائے۔ 4: جہاں کہیں تاجروں دکانداروں (بازاروں کی سطح پر منتخب نمائندہ) تنظمیں موجود ہیں‘ اُنہیں تجاوزات کی نگرانی سونپی جائے اور کسی بے قاعدگی کی صورت اطلاع پر فوری کاروائی تعطیل کے ایام میں بھی ہونی چاہئے کیونکہ تجاوزات قائم کرنے والوں کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ عام تعطیلات کے ایام میں راتوں رات دکانیں تعمیر کر لیتے ہیں۔ 5: گوگل میپ (Google Map) کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ضلع پشاور بلکہ شہری و دیہی علاقوں کے الگ الگ نقشہ جات ترتیب دیئے جائیں جو جدید ’’جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹم (GiS)‘‘ کے اصولوں کے مطابق ہونے چاہیءں ایسے ’آن لائن نقشہ جات‘ مرتب کرنے کے بعد نہ صرف گلی کوچوں اور بازاروں کو تجاوزات سے پاک کرنے میں مدد مل سکے گی بلکہ ایک منظم و مربوط طریقے سے پشاور میں ترقی کا عمل بھی زیادہ پائیدار و معیاری بنایا جاسکے گا۔ مثال کے طور پر اگر ضلعی حکومت پشاور کے ہر رہنے والے کو پینے کا ’صاف پانی‘ فراہم کردے تو یہ ایک ایسا مثالی کام ہو گا جس سے پشاور ملک بھر میں ممتاز ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح پشاور کے قبرستان تجاوزات کی زد میں ہیں‘ جن کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے اور قبرستانوں کی حدود کا خلائی سیارے سے حاصل کردہ تصویر اُور بعدازاں ’جی آئی ایس‘ کی مدد سے تعین کردیا جاتا ہے تو یہ ایک مستقل پریشانی کا مستقل حل ثابت ہوگا۔

پشاور سے تجاوزات کا خاتمہ محض ’ٹیکنالوجی‘ پر انحصار سے ممکن نہیں بلکہ ضلعی حکومتوں کے ہر ملازم اور بالخصوص عوام کے منتخب ضلعی نمائندوں کو انفرادی و اجتماعی حیثیت میں پشاور کو ’’اپنا شہر‘ اپنا گھر‘‘ جیسا سمجھنا ہوگا۔ تبدیلی لانی ہے تو اُس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا‘ جس میں پشاور کسی دوسرے کا نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک مسئلہ اور ترجیح ہونی چاہئے۔
Anti Encroachment drive in Peshawar need to be organize & extended up-to mapping the city from scratch

Saturday, April 16, 2016

APR2016: Complexity to Clarity!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِبہام سے اِظہار تک!
محکمۂ بلدیات و دیہی ترقی خیبرپختونخوا کے ’کارہائے نمایاں‘ اُجاگر کرنے کے لئے ’مواصلاتی رابطے‘ بڑھانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے‘ جس کے لئے ’اِبہام سے اِظہار تک (Complexity to Clarity)‘ نامی حکمت عملی کے تحت محکمہ اپنے طور پر عوام تک معلومات پہنچانے کے لئے دستیاب وسائل سے اِستفادہ کرے گا۔ خیبرپختونخوا کے ’محکمۂ اطلاعات‘ کی موجودگی میں کسی حکومتی محکمہ کا وقت اُور سرمایہ اپنے طور تشہیر پر خرچ کرنے کا فیصلہ غیرمنطقی ہے اُور اَگرچہ محکمۂ بلدیات و دیہی ترقی کے فیصلہ سازوں کو ’محکمۂ اطلاعات (انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ)‘ کی کارکردگی پر اِطمینان نہیں تو اِس سلسلے میں اِصلاح کی گنجائش موجود ہے اُور کسی ایک محکمے کو ’حسب توقع کارکردگی‘ دکھانے کے لئے اہداف مقرر کئے جاسکتے ہیں لیکن ایک ہی کام کے لئے ایک سے زیادہ ادارے اگر اپنے مالی وسائل خرچ کریں گے تو یہ وقت اُور وسائل کا ضیاع ہوگا۔

صوبائی وزیر بلدیات عنایت اللہ خان صرف اپنی وزارت کے ’گڈ ورک‘ کی تشہیر نہیں چاہتے بلکہ اُن کی نظر میں صوبائی حکومت کی بھی خاطرخواہ تشہیر یا ذرائع ابلاغ میں دفاع نہیں ہورہا تاہم اُن کی توجہ اپنے ذمہ داریوں پر مرکوز ہے۔ اُن کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت کے ہر محکمے نے ماضی کے مقابلے اصلاحاتی ایجنڈے کے مطابق تبدیلی کے لئے کام کیا ہے اور خود اُن کے محکمے (بلدیات) نے چالیس سے پچاس ایسے اصلاحاتی اقدامات کئے ہیں جن کے بارے میں عوام کو آگاہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ محکمے کا اپنا فعال و مضبوط ’تشہیری شعبہ (کیمونیکشن ونگ)‘ تشکیل چاہئے جس کی کمی پوری کر دی گئی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محکمۂ تعلیم کے بعد خیبرپختونخوا کا بڑا سب سے بڑا محکمہ بلدیات و دیہی ترقی کا ہے اور اگر حال ہی میں قائم ہونے والے بلدیاتی (مقامی) حکومتوں کا ذکر کیا جائے تو اِس محکمے سے وابستہ منتخب نمائندوں کی تعداد 44 ہزار سے زیادہ ہے۔ تصور کیجئے کہ چوالیس ہزار سے زیادہ بلدیاتی نمائندے وابستہ ہیں جن تک وقتاً فوقتاً معلومات اور محکمے کی جانب سے اطلاعات پہنچانے کا عمل مربوط و فعال ہونا چاہئے۔ سب سے اہم ضرورت تو منتخب بلدیاتی نمائندوں کو بلدیاتی قواعد و ضوابط سے مطلع کرنے کی تھی کیونکہ اکثریت کے لئے انگریزی زبان میں تحریر قانون و قواعد کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔ بہرحال یہ کام کسی حد تک ذرائع ابلاغ نے آسان کیا لیکن کوئی ایسا مستند ذریعہ اور وسیلہ بہرحال ہونا چاہئے جہاں بلدیاتی نمائندوں کو اپنے سوالات کے جواب یا وضاحت مل سکے۔ ماضی میں محکمۂ بلدیات و دیہی ترقی کی کارکردگی جو بھی رہی ہو لیکن بلدیاتی (مقامی حکومتوں کا) نظام فعال ہونے کے بعد جو بھی ترقیاتی کام جاری ہیں یا جس انداز میں ترقیاتی حکمت عملی عوام کی توقعات کے مطابق وضع کی جارہی اُس کے خدوخال نہ صرف ریکارڈ پر لانا ضروری ہیں بلکہ اُن سے دیگر اضلاع کے بلدیاتی نمائندوں کوبھی آگاہی ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ضلع میں صفائی کا نظام بہتر بنانے کے لئے ٹھیکیداری نظام سے استفادہ کیا جارہا ہے تو اِس سے پیدا ہونے والی سہولیات اور پیچیدگیوں کے بارے دیگر اضلاع کو مطلع کرنا اور اُن کے سوالات (اگر ہوں) تو کس طرح بذریعہ محکمہ کئے جا سکتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے تجربات و کارکردگی سے فائدہ اُٹھایا جا سکے یقیناًیہ کام ’محکمۂ اطلاعات‘ کے وہم و گمان سے بالا اور بہت بڑا ہے‘ جس کے لئے اگر محکمۂ بلدیات ایک الگ ’کیمونیکیشن ونگ‘ بنا لیتا ہے تو اِس کا صدر دفتر ’محکمۂ اطلاعات‘ ہی میں ہونا چاہئے تاکہ معلومات کی تشہیر اُور دیگر محکموں کے ساتھ تبادلہ تیزترین (مستعد) اُور ہرممکن سطح پر ممکن بنایا جاسکے۔

 وزیربلدیات ایک نئے دور کا آغاز کر چکے ہیں جس میں ہر چھوٹے بڑے کام و اقدام کی تشہیر ہوگی بلکہ یہ کام عارضی بندوبست کے تحت نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔ سال 2016ء سے 2020ء تک کے لئے اختیار کی گئی ’مواصلاتی حکمت عملی (کیمونیکشن اسٹریٹجی)‘ کے لئے مستقل لائحہ عمل تشکیل دیا گیا ہے۔ بہت کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی محکمے کا وزیر اس قدر سنجیدگی اُور جذباتی لب و لہجے میں احکامات صادر کر رہا ہو یعنی دلچسپی لے رہا ہو۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا میں بلدیات و دیہی ترقی کے محکمے کو مضبوط بنانے کے لئے جرمن حکومت کا اِدارہ ’جی آئی زیڈ (GiZ)‘ دوہزار تیرہ کے عام انتخابات (موجودہ حکومت) سے قبل ’فراخدلانہ تعاون‘ کر رہا ہے اُور اِس تعاون میں فنی و تکنیکی تربیت بلکہ سازوسامان (ہارڈوئرز) کی فراہمی بھی شامل ہے۔

 جرمن حکومت کا سال 2011ء سے جاری یہ تعاون جن چار شعبوں میں ہے‘ اُن میں گورننس (طرزحکمرانی) کے تحت صوبائی وزیربلدیات سے تعاون جاری ہے۔ ہرسال ایک منصوبہ بندی کی ورکشاپ ہوتی ہے جس میں محکمے کی جانب سے کارکردگی کے اہداف مقرر کئے جاتے ہیں اور جہاں کہیں تکنیکی یا فنی یا آلات بصورت امداد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جرمن حکومت کی جانب سے فراہم کئے جاتے ہیں۔ محکمہ بلدیات کی جانب سے ’جی آئی زیڈ‘ کو 2014ء میں درخواست دی گئی تھی کہ ایک ایسی الگ خصوصی مواصلاتی حکمت عملی ہونی چاہئے پھر دو سال اِس حکمت عملی پر کام ہوتا رہا۔ جی آئی زیڈ نے مختلف شعبوں کے ماہرین اور متعلقہ حکام کی مسلسل مشاورت سے فروری 2016ء میں ایک حکمت عملی (دستاویز) مرتب کی‘ جسے مارچ میں محکمۂ بلدیات نے منظور کیا اور چودہ اپریل دوہزار سولہ کو اِس کے لاگو ہونے کا اعلان کردیا گیا اِس سلسلے میں www.lgkpk.gov.pk کو پہلے سے زیادہ جامع بنا دیا گیا ہے۔

قابل ذکر یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا کا محکمۂ بلدیات ایسا واحد محکمہ ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کرگیا ہے جس کی اپنی ’کیمونیکشن حکمت عملی‘ ہے اور اگر جرمن حکومت کا تعاون محکمہ اطلاعات کے شامل ہوتا تو اُن کے لئے بھی اسی طرز کا لائحہ عمل تشکیل دیا جاتا جس کی اَشد ضرورت ہے کیونکہ ’حالات حاضرہ‘ کا تقاضا ہے کہ ’’مواصلات و رابطہ کاری‘‘ صرف تحریری اعلامیے جاری کرنے کی حد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اِلیکٹرانک وسائل بالخصوص سماجی رابطہ کاری کے تیزرفتار وسائل (انٹرنیٹ) کا اِضافہ مستعد کردار اَدا کرنے کا متقاضی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کو ’جی آئی زیڈ‘ کی مرتب کردہ حکمت عملی سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اِسے نہ صرف محکمۂ اطلاعات بلکہ دیگر محکموں کی حد تک بھی پھیلانا چاہئے کیونکہ معلومات کی فراہمی جس قدر وسیع و بڑے پیمانے پر ممکن بنائی جائے گی اُس کے ثمرات حکومتی ساکھ سے متعلق منفی تاثر کے زائل ہونے کی صورت بھی اُسی قدر تیزی سے ظاہر (اظہرمن الشمس) ہوگا۔
Communication Strategy by LG&RD is a good example to be be adopted by other Govt Departments including the Information Department of KP

Wednesday, April 13, 2016

APR2016: Havelian Dhmatur Bypass, the project need to be completed as promised!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رابطے‘ سہولیات‘ ضروریات: ڈراونا خواب!
سطح سمندر سے بلندی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے اونچی ’شاہراہ قراقرم (این 35)‘ گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) کے راستے چین کو خیبرپختونخوا سے ملاتی ہے۔ 1979ء میں تعمیر ہونے والی کم و بیش 1300کلومیٹر (800میل) طویل یہ عالمی تجارتی راہداری ’ہزارہ ڈویژن‘ کے لئے بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہے جبکہ ملحقہ آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع شانگلہ و سوات سے زمینی رابطہ کاری میں اِس شاہراہ کی اہمیت مسلمہ ہے‘ تاہم بڑھتی ہوئی آمدورفت کے تناسب سے ’شاہراہ قراقرم‘ کی توسیع و تعمیر نہ ہو سکی!

ایبٹ آباد حویلیاں بشمول گلیات (بالائی علاقوں) کے باسیوں کی اکثریت نے مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں سیاسی وابستگی کی روایت توڑتے ہوئے ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ ماضی کے حکمرانوں نے تین دہائیوں سے اِس علاقے کی بنیادی ضرورت یعنی شاہراہ قراقرم کو وسعت نہیں دی اور نہ ہی اِس کے ساتھ ذیلی سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ شہری علاقوں کی نسبت ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی آمدورفت سے جڑی مشکلات کا الفاظ میں احاطہ کرنا مشکل نہیں۔ سکول سے ہسپتال تک معمول و ہنگامی حالات میں واسطہ رکھنے والوں کے لئے آمدورفت کسی ڈروانے خواب سے کم نہیں۔

ضلع ایبٹ آباد کی حدود میں ’’پندرہ کلومیٹر‘‘ پر مشتمل مجوزہ ’حویلیاں دہمتوڑ بائی پاس روڈ‘ اُمید کی ایک ایسی کرن ہے‘ جس سے نئی سحر کا سورج طلوع ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ اور ڈانوں ڈول ساکھ کو سہارا مل سکتا ہے۔ اِس مذکورہ شاہراہ پر ایک پرانی خستہ حال سڑک کا نام و نشان موجود ہے جس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ ایبٹ آباد کو اِس بائی پاس شاہراہ کا تحفہ دیں گے۔ اگر یہ ممکن ہو جاتا ہے تو نہ صرف درجنوں مقامی دیہات (ملکہ‘ حافظ بانڈہ‘ بانڈہ بازدار‘ رجوعیہ‘ بانڈہ سعید خان‘ ٹونڈی ڈھیری‘ بانڈہ شوالیاں‘ بانڈہ سالار‘ دوتار‘ گھل ڈھوک‘ نگھکی وغیرہ) کی معیشت و معاشرت کو فائدہ ہوگا بلکہ موسم گرما کے دوران آنے والے غیرمعمولی تعداد میں سیاحوں کو گلیات کی جنت نظیر وادیوں تک پہنچنے میں بھی آسانی رہے گی۔ قابل ذکر ہے کہ حویلیاں سے دھمتوڑ (ایبٹ آباد شہر) تک سڑک کی تعمیر سے علاقے میں زرعی انقلاب بھی آئے گا اور یہی سڑک ’فارم ٹو مارکیٹ روڈ‘ جیسا کلیدی ضرورت پوری کر دے گی۔ اہل علاقہ کا سب سے بڑا مسئلہ بصورت ضرورت علاج گاہوں تک رسائی ہے خصوصاً جبکہ موسم خراب ہو‘ تو سفر ناممکن حد تک دشوار ہو جاتا ہے۔ اِس منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے تصور کیا جاسکتا ہے کہ محض ایک سڑک کی تعمیر سے کتنے سارے فوائد بیک وقت حاصل ہو جائیں گے۔

حالیہ بارشوں سے ضلع ایبٹ آباد کے بالائی حصے (سرکل بکوٹ) بھی متاثر ہوا ہے اور جب اِس سلسلے میں ابیٹ آباد کے تحصیل ناظم و اراکین اور منتخب اراکین اسمبلیوں نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے پشاور میں ملاقات کے دوران خصوصی ترقیاتی پیکج مطالبہ کیا وزیراعلیٰ نے جواب میں ’حویلیاں سے دھمتوڑ شاہراہ‘ پر بھی جلد کام شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی اور ساتھ ہی ’پی ڈی ایم اے‘ کو حکم دیا کہ وہ بارش سے متاثرہ مذکورہ علاقوں میں امدادی و بحالی کے کاموں پر توجہ دے۔ تاہم اہل علاقہ کو وزیراعلیٰ کے قبل ازیں اور حالیہ اعلان کے حوالے سے برسرزمین ترقیاتی کام شروع ہونے کا انتظار ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ضلع ایبٹ آباد میں امن و امان کی خراب صورتحال کا تعلق بھی ایسے چند علاقوں ہی سے ہیں جہاں سڑکیں خستہ حال اور باسہولت و فوری آمدورفت ممکن نہیں۔ منظم جرائم پیشہ عناصر خصوصاً مطلوب و اشتہاری مجرم بھی انہی علاقوں میں پناہ لیتے ہیں کیونکہ یہاں مقامی افراد کے علاؤہ کسی غیرمتعلقہ شخص کی آمدورفت نہیں ہوتی۔ پولیس حکام بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حویلیاں سے دھمتوڑ بائی پاس روڈ جلد تعمیر ہونی چاہئے کیونکہ سیاحتی ایام (سیزن) کے علاؤہ عام دنوں میں بھی اِس شاہراہ کے اطراف میں رہنے والوں کو مشکلات تو رہتی ہیں ساتھ ہی پولیس کی گشت بھی ممکن نہیں رہتی۔ وزیراعظم کی جانب سے موٹروے کے ذریعے حویلیاں تک رسائی مکمل ہونے سے قبل اگر دھمتوڑ بائی پاس بھی مکمل کرلیا جاتا ہے تو یہ سونے پر سہاگہ ہوگا۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وفاق کی طرح صوبائی حکومت بھی شاہراہ قراقرم پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے اور ضلع ایبٹ آباد کے مواصلاتی رابطے بہتر بنانے کے لئے خاطرخواہ توجہ دے گی۔
Havelian Dhamtur Bypass Road need of the hour

Tuesday, April 12, 2016

Apr2016: The Shahi Khatta of Peshawar expansion!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: اپنا پاؤں‘ ہاتھ اُور کلہاڑی!
غیرمتوقع بارشوں کے جاری تسلسل نے شہری سہولیات کی فراہمی کا معیار اُور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا بھانڈا تو پھوڑ ہی دیا ہے (جو خبر نہیں رہی) لیکن خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے لئے نکاسئ آب کا کوئی ایسا ’وسیع و عریض‘ اُور ’خاطرخواہ کشادہ نظام‘ کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی ہے جو صرف موجودہ آبادی ہی کے لئے نہیں بلکہ چار اطراف پھیلتے ہوئے مرکزی شہر (و مضافاتی علاقوں) اُور مستقبل کی ضروریات کے لئے بھی کافی ہونا چاہئے۔ اِس سلسلے میں عوام کے منتخب ضلعی (بلدیاتی) نمائندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ’’اپنی پہلی فرصت‘‘ میں ’شاہی کھٹہ‘ پر توجہ دیں جو سال 1839ء سے 1842ء کے درمیان (سکھ دور میں) ساٹھ ہزار آبادی کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا لیکن آج اِس شاہی کھٹے پر تیس لاکھ سے زائد افراد کا انحصار ہے! سکھ دور کی یادگار اُور انجنیئرنگ کے شہکار ’شاہی کھٹے‘ کی طرز پر اب تک کوئی ایک بھی نظام نہیں دیا جاسکا جو ہمارے سیاسی و غیرسیاسی حکمرانوں‘ خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ نفاست و ذہانت کا مجموعہ سمجھنے والے فیصلہ سازوں‘ اربوں روپے کے چھوٹے بڑے ترقیاتی کاموں میں مشغول اور افرادی قوت و ہرقسم کے وسائل سے مالا مال شہری ترقی کے ایک سے زیادہ اداروں کی فہم و فراست‘ علم و دانش‘ تجربے اور پشاور شناسی و دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں! (اِس سلسلے میں گلبہار کالونی کے نکاسئ آب کے منصوبے کی سرسری مثال دی جاسکتی ہے‘ جو حال ہی میں تعمیر ہوا لیکن ۔۔۔!!!)

پشاور کی ضلعی حکومت اِس حقیقت سے بخوبی آشنا (آگاہ) ہے کہ شاہی کھٹے کے پچاس فیصد سے زائد حصے پر ’پختہ مستقل‘ تجاوزات قائم ہیں جن کے سبب اِس کی صفائی اُور گہرائی کے ذریعے توسیع جیسی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا لیکن نجانے ایسی کیا ’مجبوری لاحق‘ ہے کہ تجاوزات کے خلاف متحرک اُور عزم و ہمت پر مبنی بیانات دینے والے ضلعی حکمران و بلدیاتی نمائندے ’شاہی کھٹے‘ کا ذکر آتے ہیں بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اُور معلوم تجاوزات ختم کرنے کے لئے ’شاہی کھٹہ کلین اَپ آپریشن‘ شروع نہیں کرتے‘ جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ہر بارش میں پشاور کو ڈوبتے اور اُبھرتے دیکھنے (تماشا کرنے) والوں کے لئے کیا یہ ’نظارہ‘ واقعی اتنا خوش کن ہے کہ وہ اِس منظرنامے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے؟

پشاور کا کم و بیش 200 سالہ نکاسئ آب کا نظام ’فرسودہ‘ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اِس کی جملہ خوبیوں میں سطح سمندر سے پشاور کی بلندی اور نکاسئ آب کے نظام کی سطح کو اُس قدرتی ڈھلوان کے متوازی رکھا گیا جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ خودکار اور تیزرفتاری سے ’فلش آؤٹ‘ ہونے لگا لیکن پھر جب پشاور سے یہاں کے باسیوں کا دلی تعلق ٹوٹا‘ رشتے کمزور ہوئے‘ اپنوں کی بجائے غیر فیصلہ سازی پر مسلط ہوئے تو پشاور کا ہر رنگ دھندلا ہونے لگا۔ اِبتدأ شاہی کھٹے میں ٹھوس گندگی (کوڑا کرکٹ) پھینکنے سے ہوئی‘ کسی نے نوٹس نہ لیا تو ایک قوم پرست جماعت نے اپنے ووٹ بینک جیسے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے قبرستانوں پر قبضے کے ذریعے مکانات (رہائش) اور شاہی کھٹے پر چھت ڈال کر دکانیں (کاروبار) ڈالنے کی ’چپ چپیتے (غیرتحریری)‘ اجازت دے دی۔ جب تعمیرات مکمل ہوئیں تو انہیں ’قانونی کور (تحفظ)‘ فراہم کرنے کے لئے واجبی فیس و جرمانے کے عوض اجازت نامے (لائسینس) جاری کردیئے گئے جن کا قطعی کوئی قانونی جواز و ضرورت نہیں تھی۔ موجودہ ضلعی حکومت چاہے تو شاہی کھٹے پر تجاوزات کے مالکان کو نوٹسیز (تنبیہہ) جاری کر سکتی ہے کہ وہ آئندہ چند ہفتوں (برسات سے قبل) شاہی کھٹے کو واگزار کر دیں۔ اِس نالے کے اُن حصوں کو مکمل طور پر کھلا ہونا چاہئے جنہیں تعمیر کرنے والوں نے ایسا رکھا تھا‘ تاکہ روزمرہ بنیادوں پر ساتھ ساتھ صفائی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ شاہی کھٹے کی دو شاخیں ہیں۔کوہاٹی گیٹ‘ قصہ خوانی‘ شعبہ بازار‘ ریتی بازار‘ شبستان (فردوس) سینما (جی ٹی روڈ) اُور فقیر آباد کے راستے بڈھنی تک ایک جبکہ اندرون شہر کے علاقوں سے گزرتے ہوئے رنگ روڈ پر نہر سے ملنے والی دوسری شاخ پر تجاوزات کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں۔ البتہ رنگ روڈ کا مقام موزوں ہے کہ جہاں ضلعی حکومت پشاور شہر کے نکاسئ آب کی تطہیر کرکے اِس پانی کو آبپاشی کے لئے محفوظ قابل استعمال بنا سکتی ہے۔ سابق دور میں پشاور سے جمع ہونے والے یومیہ دس ٹن کچرے سے بجلی و کھاد پیدا کرنے کا ایک منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن سیاسی وجوہات کی بناء پر مذکورہ منصوبہ سردخانے کی نذر کر دیا گیا‘ اُس منصوبے کی بحالی کے لئے غوروخوض بارے عوام کو آگاہ کرنا چاہئے۔ اگر ضلعی حکومت ہر چوہے کے سر کی قیمت مقرر کرکے موذی چوپائے ختم کر سکتی ہے تو فی کلوگرام گندگی جمع کرکے اُسے کسی مرکزی مقام تک لانے کی قیمت مقرر کرنے سے کوئی وجہ نہیں کہ گندگی اُور کوڑا کرکٹ کا پشاور سے نام و نشان ہی مٹ جائے! لیکن اَفسوس کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے تھامی ہوئی کلہاڑی اپنے ہی پاؤں پر مار بھی رہے ہیں اور لہولہان ہونے‘ درد‘ تکلیف و پریشانی سہنے کے باوجود بھی نہ تو علاج چاہتے ہیں اور نہ ہی ماضی میں کی گئیں حماقتوں کی اصلاح کے لئے تیار ہیں!
The need of expanding the Shahi Khatta of Peshawar should be done urgently