شبیرحسین اِمام
وقت کا تقاضا ہے‘ اِبتدأ پشاور سے
خیبرپختونخوا میں انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ اکتیس مئی کی شام
چھ بجکر چوالیس منٹ پر گورنر ہاؤس پشاور کے سبزہ زار میں منعقدہ سادہ و
پروقار تقریب میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے محترم پرویز خٹک
نے عہد کیا کہ وہ ’’عوام کی بلاامتیاز خدمت کا حق ادا کریں گے۔‘‘ اس سے قبل
صوبائی اسمبلی میں ’قائد ایوان‘ منتخب ہونے کے فوراً بعد انہوں نے اپنا
پالیسی بیان واشگاف الفاظ میں دیتے ہوئے یہ عزم دہرایا کہ وہ
’’خیبرپختونخوا سے بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کریں گے۔‘‘ لفظ مکمل کی تکمیل کب
ہوتی ہے اس بارے میں توقعات‘ اُمیدیں اور تقاضے سادہ بیانات کی ہیئت سے
کئی گنا بڑھ کر ہیں۔ یقیناًخوش آئند اور اُمیدافزأ ماحول کی برکات کا ظہور
جلد ہونا شروع ہو جائے گا۔
گذشتہ چند روز سے صوبائی اسمبلی کی عمارت گہماگہمیوں کا مرکز ہے۔ پہلے
اراکین صوبائی اسمبلی نے حلف لیا۔ پھر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں پر
بلامقابلہ منتخب ہونے کی روایت کو برقرار رکھا گیا اور آخر میں قائد ایوان
کے لئے اراکین دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے‘ اکثریت نے پرویز خٹک جبکہ اقلیت
نے لطف الرحمان کے حق میں اپنا فیصلہ دیا۔ جمہوری انداز میں ہنستے
مسکراتے ایک کے بعد دوسرا مشکل مرحلہ طے ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن عوام کی
مشکلات گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعد بھی ختم نہیں ہوئیں۔ رحمان بابا
چوک سے شروع ہونے والی پشاور کی مصروف ترین شاہراہ خیبر روڈ کے آغاز پر
واقع ’خیبرپختونخوا اسمبلی‘ کی عمارت کے دو اطراف میں غیرمعمولی حفاظتی
اقدامات ماضی کے مقابلے زیادہ سخت تھے‘ جن کی وجہ سے جی ٹی روڈ کی جانب سے
جمرود روڈ یا یونیورسٹی ٹاؤن کی جانب سے شہر کی طرف آنے والوں کو شدید
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئٹر
(twitter.com) پر بڑی تعداد میں احتجاج کرنے والوں نے تحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان کی توجہ صوبائی اسمبلی اجلاس کے لئے غیرضروری حفاظتی
انتظامات کی طرف دلاتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ’’تحریک انصاف کو
خیبرپختونخوا میں ناکام بنانے کے لئے کئی ایسی عمومی سازشیں تیار کر لی
گئیں ہیں‘ جن سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو۔‘‘ اس سلسلے میں کچھ تجاویز
بھی سامنے آئی ہیں جیسا کہ ’’صوبائی اسمبلی کی عمارت اور اراکین اسمبلی کی
سرکاری رہائشگاہیں (ایم پی اے ہاسٹل) کو حیات آباد فیز فائیو یا سیون منتقل
کیا جائے۔ اسمبلی اجلاسوں کا انعقاد عمومی دفتری اوقات میں نہ کیا جائے
تاکہ تعلیمی اداروں میں دن کے آغاز یا اختتام کے بعد طلباء و طالبات اور
اُن کے والدین کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسمبلی اجلاس کی صورت
ذرائع ابلاغ کے ذریعے ٹریفک پلان مشتہر کیا جائے۔ اسمبلی میں داخلی اور
خارجی راستے زیرزمین (انڈر گراونڈ) بنائیں جائیں تاکہ اراکین اسمبلی یا اُن
کے ہمراہ آنے والی گاڑیاں جانچ پڑتال کے لئے خیبرروڈ پر پارک نہ کی
جائیں۔‘‘
یقینی طور پر بہتری کی کوشش کی جائے گی۔ اصلاحات لائی جائیں گی اور تبدیلی
کا وعدہ پورا کیا جائے گا لیکن شروعات کہاں سے کی جائے‘ اس سلسلے میں عرض
ہے کہ خیبرپختونخوا اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں ’آثار قدیمہ‘
کے باقی ماندہ اثاثوں کی کماحقہ حفاظت اور بحالی پر بھی توجہ دینے ضرورت
ہے۔ ماضی میں ’آثار قدیمہ‘ سے جڑے اثاثوں کو لوٹنے اور تاریخ و ثقافت کی
ترقی و ترویج کے نام پر ظلم کی اِنتہاء کرنے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی
جو درحقیقت ’’پشاور دشمنی‘‘ کے جذبات کی عکاس تھی۔ درخواست ہے کہ وزیراعلیٰ
پرویز خٹک اپنی پہلی فرصت میں سابق ڈائریکٹر شاہ نذر خان کے دور میں ہونے
والی اُن اقدامات کی بالخصوص جانچ کرائی جائے‘ جن میں قواعدوضوابط کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے آثار قدیمہ کے وسائل کی بندربانٹ کی گئی۔ اگر
آثارقدیمہ‘ عجائب گھر‘ سیاحت‘ امور نوجوانان اور آرکائیوز کے محکموں میں
ہونے والی اُن مالی و انتظامی بے قاعدگیوں کی چھان بین کے لئے خصوصی کمیٹی
تشکیل دی جائے تو ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوں گے جس سے جمہوریت کا سر شرم
سے جھک جائے گا۔
مشکوک تعلیمی اسناد والوں نے من گھڑت تجربے کی بنیاد پر
’تابع فرمان‘ منظور نظر افراد کو ’آثار قدیمہ‘ سے متعلق سرکاری محکموں کے
کلیدی عہدوں پر فائز کیا اور پھر اُن کے ذریعے سیاسی و ذاتی مفادات حاصل
کرتے رہے۔ اگرچہ ’مل بانٹ کر قومی وسائل کھانے والوں کا دور حکومت ختم ہو
چکا ہے لیکن ماضی کے اُن متنازعہ فیصلوں پر عمل درآمد ’’جہاں ہے اور جیسا
ہے‘‘ کی بنیاد پر روکنا ہوگا۔ خیبرپختونخوا کی سیاسی تاریخ کا ’’سیاہ باب‘‘
وہ کارکردگی ہے جس کے کردار عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی سے
تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے خیبرپختونخوا میں ایک ’متعلق
العنان‘ آمرانہ طرز حکمرانی بنام جمہوریت‘ کی بنیاد رکھی اور فیصلہ سازی کے
عمل و مراحل میں جس طرح قومی وسائل کو ذاتی اثاثوں میں تبدیل کیا‘ اُنہیں
مصلحت یا مفاہمت کی سیاست کے نام پر ’’معاف‘‘ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی
پشاور کی تباہی خاموش تماشائی بن کر دیکھی جا سکتی ہے۔
گورگٹھڑی کی عمارت
کے وہ 49 کمرے کہ جنہیں بدنیتی اور ذاتی مفاد کے لئے ’فوڈسٹریٹ‘ میں تبدیل
کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے پر عملدرآمد روکنے کی ضرورت ہے۔ آثار
قدیمہ کے قواعد کی رو سے گورگٹھڑی کی عمارت کی ایک اینٹ بھی نہ تو ہٹائی جا
سکتی ہے اور نہ ہی اس عمارت کا کسی بھی تجارتی مقصد کے لئے استعمال کیا جا
سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت اور افسر شاہی (سیکرٹری صاحبان) سے درخواست
ہے کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ سیاحت کی ’گورگٹھڑی‘ سے متعلق حکمت
عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے مالی و انتظامی بدعنوانوں کا احتساب کریں۔