ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شعبۂ صحت: لاحق امراض
شعبۂ صحت: لاحق امراض
عالمی ادارۂ صحت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان اُس عالمی فہرست
میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جو ’یرقان (ہیپٹاٹائٹس)‘ کے مریضوں سے متعلق ہے۔
سال 2012ء میں مرتب کی جانے والی اِس فہرست میں پاکستان کا شمار ایسے
خطرناک ممالک میں کیا گیا ہے‘ جہاں ’یرقان‘ کے مریضوں کی بڑی تعداد آباد ہے
اور اِن میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ برسرزمین حقائق تبدیل ہوں گے‘ ایسا ممکن
نہیں کیونکہ خیبرپختونخوا محکمۂ صحت نے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق
ہمارے ہاں سال 2012-13ء کے دوران 47 ہزار افراد یرقان سے متاثر تھے اور یہی
غیرسائنسی طور سے مرتب کی گئی تعداد 2015ء میں بھی بیان کی جارہی ہے! جن
میں سے دس ہزار یرقان کی B اور 37 ہزار C نامی یرقان کے عارضے سے متاثر
پائے تھے۔ المیہ ہے کہ یرقان کا سبب بننے والے اسباب کا خاتمہ بھی نہیں کیا
جاتا۔ جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو وہاں یرقان کے پھیلنے کو بھلا
علاج سے کیسے روکا جا سکتا ہے! صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے فیصلہ سازوں
کا اتفاق ہے کہ جب تک صوبائی حکومت یرقان کے علاج میں استعمال ہونے والی
ادویات مفت فراہم کرنے کے لئے مالی وسائل مختص نہیں کرے گی‘ اُس وقت یرقان
کے پھیلنے اور اس سے متاثرہ افراد کے علاج معالجے کی ذیل میں ہونے والی
کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ یرقان سے متاثرہ افراد کی اکثریت کا
تعلق کم آمدنی رکھنے والے ایسے طبقات سے ہے‘ جو اپنے طور پر اِس کا علاج
نہیں کروا سکتے! لیکن علاج کے ساتھ اِس مرض سے بچاؤ کے لئے شعور‘ صاف
خوردونوش کی فراہمی بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان تحریک انصاف حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عرصہ دو برس کے تعطل کے بعد خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں حسب ضرورت یرقان کے علاج کی ادویات فراہم کر دی گئیں ہیں‘ جن سے کم و بیش یرقان (ہپٹائٹس سی) سے متاثرہ 50 ہزار افراد کا علاج ممکن ہو سکے گا۔قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے عرصہ 2 برس بعد (یرقان کے علاج کی) ادویات سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کی گئیں ہیں۔ اِس سے قبل عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سرکاری ہسپتالوں میں یرقان کے مفت علاج کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے لیکن مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل ختم ہونے والی حکومت کے ساتھ ہی یرقان کا مفت علاج بھی روک دیا گیا۔ المیہ رہا ہے کہ کوئی ایک سیاسی دور بھی ایسا نہیں رہا‘ جس میں ماضی کی ہر اُس حکمت عملی کو جاری رکھا گیا ہو‘ جس سے عام آدمی بالخصوص کم آمدنی والے متوسط‘ غریب یا خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مفلس و نادار طبقات کو فائدہ ہوتا ہو۔ موجودہ حکومت نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے میں تو بخل سے کام نہیں لیا لیکن یرقان جیسے مرض کا علاج جو درحقیقت حکومت کے آنے سے قبل ہی روک دیا گیا تھا‘ جاری نہ رکھا جاسکا۔ عموماً گمان کیا جاتا ہے کہ منتخب حکومت نبض شناس ہوتی ہے‘ جسے معاشرے کے کمزور طبقات کو درپیش مشکلات و مسائل کا ادراک ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ اور اختیار کی جانے والی تدابیر اُس خاص سوچ کے گرد گھومتی ہیں‘ جس میں خودنمائی کے بغیر کارخیر کرنے کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی لوگوں کی سیاسی مجبوریوں کے باعث متاثر ہونے والوں کو اپنا قصور سمجھ نہیں آتا۔ دو برس یرقان کے مرض کا علاج نہ ہونے سے نجانے کتنے مریض ہلاک ہوئے ہوں گے۔ نجانے کتنے ایسے مریض جنہیں ابتدأ میں ادویات دی گئیں لیکن بعدازاں یہ سلسلہ روک دیا گیا‘ جس سے اُن کا مرض بگڑ کر زیادہ خطرناک شکل اختیار کر گیا ہوگا۔ یہ ایک اذیت ناک احساس کی طرف اشارہ ہے‘ اپنے پیاروں کو ہر لمحہ ’پیلا‘ ہوتے دیکھنے والے خودکو کتنا بے بس و بے اختیار سمجھتے ہوں گے! کاش اِس حقیقت کا ادراک خزانے پر سانپ بن کر بیٹھنے والوں کو ہو جائے‘ جن کے پاس اپنی آسائشوں اور مراعات کے لئے عوام کا پیسہ استعمال کرنے کے جواز تو بہت ہیں لیکن جب عام آدمی کو ریلیف دینے کی بات آتی ہے تو اُنہیں اپنے ہی وضع کردہ قواعد و ضوابط یاد آ جاتے ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ سال 2013ء میں جب سرکاری ہسپتالوں میں یرقان کے مفت علاج کی سہولت عدالت کے ایک حکمنامے کے ذریعے روکی گئی‘ تو اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جو ادویات یرقان کے مریضوں کو دی جا رہی تھیں وہ ناقص المعیار تھیں اور ادویات لینے کے باوجود یرقان کے مریض شفایاب نہیں ہورہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرکاری ہسپتال کو ادویات فراہم کرنے والے اُن مفاد پرستوں کو سرعام پھانسی لگائی جاتی۔ اُن وزراء‘ افسرشاہی کے کرداروں اُور ملوث ہسپتال کے انتظامی نگرانوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا جنہوں نے ناقص المعیار ادویات پر اکتفا کیا۔ ہم راتوں رات امیر بننے والوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ اُنہیں کامیاب و مثالی کاروباری قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے ذریعے ملکی وسائل لوٹنے والے‘ ٹیکس چوروں نے پورے نظام کو ناکارہ بنا رکھا ہے‘ اس سے بھاری قیمت عام آدمی کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اپریل 2013ء میں سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ایک سٹور کیپر کو گرفتار بھی کیا گیا جنہوں نے پچیس کروڑ روپے کی ایسی ادویات خریدیں تھیں جن سے یرقان کا علاج ممکن نہ تھا۔ چھ فروری دو ہزار تیرہ کو پشاور ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ناقص المعیار یرقان کی ادویات فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ اُمید تھی کہ صرف یرقان ہی نہیں بلکہ دیگر بیماریوں کے لئے بھی ادویات کی فراہمی کرنے والوں کے معاملات اور لین دین کے سودوں کی چھان بین کی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا‘ اُور تحقیقات کو یرقان کی ادویات تک ہی محدود رکھا گیا‘ جس کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن جنہوں نے مالی بدعنوانی کی‘ اُن سے تاحال وصولی تو نہیں ہوئی لیکن دو برس سے یرقان کا علاج ضرور بند رہا۔
خیبرپختونخوا میں یرقان کے علاج کے 31 مراکز قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 4 صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہیں اور جن اضلاع میں یرقان سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے‘ وہاں ایک سے زیادہ صحت کے مراکز میں یرقان کے خصوصی علاج کی سہولیات فراہم کر دی گئیں تاہم اِس مرتبہ ادویات پہلے سے کیمیائی تصدیق کے بعد ہسپتالوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یرقان کے ایک مریض کے علاج پر بارہ ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے اور یہ ادویات مارکیٹ میں بھی باآسانی دستیاب ہیں لیکن خوشخبری ہے کم آمدنی والے مریضوں کے لئے کہ اُنہیں ایک مرتبہ پھر ’ہپٹاٹائٹس سی‘ کے علاج کی معیاری ادویات سرکاری ہسپتالوں سے مفت ملیں گی۔ محکمۂ صحت کو لاحق جملہ امراض کا علاج بھی ضروری ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی میں بدعنوانیوں کا نہ تو یہ پہلا سانحہ تھا اور نہ ہی آخری بلکہ ارزاں ادویات بھاری قیمت پر فراہم کرنے اور زائدالمعیاد ادویات کی پیکنگ پر تاریخیں تبدیل کرنے کے علاؤہ جعلی ادویات کی خریداری و فراہمی سے متعلق خبریں اخبارات میں شائع ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ ہرمنتخب نمائندہ حکومت کا حصہ اور وزیر و مشیر بننا چاہتا ہے لیکن جب اُس محترم سے متعلقہ ادارے کی ناقص کارکردگی کی بابت سوال کیا جائے‘ تو چہرے پر ناگواری کے آثار چھا جاتے ہیں۔ ’’آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔۔۔ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!‘‘
پاکستان تحریک انصاف حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عرصہ دو برس کے تعطل کے بعد خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں حسب ضرورت یرقان کے علاج کی ادویات فراہم کر دی گئیں ہیں‘ جن سے کم و بیش یرقان (ہپٹائٹس سی) سے متاثرہ 50 ہزار افراد کا علاج ممکن ہو سکے گا۔قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے عرصہ 2 برس بعد (یرقان کے علاج کی) ادویات سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کی گئیں ہیں۔ اِس سے قبل عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سرکاری ہسپتالوں میں یرقان کے مفت علاج کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے لیکن مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل ختم ہونے والی حکومت کے ساتھ ہی یرقان کا مفت علاج بھی روک دیا گیا۔ المیہ رہا ہے کہ کوئی ایک سیاسی دور بھی ایسا نہیں رہا‘ جس میں ماضی کی ہر اُس حکمت عملی کو جاری رکھا گیا ہو‘ جس سے عام آدمی بالخصوص کم آمدنی والے متوسط‘ غریب یا خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مفلس و نادار طبقات کو فائدہ ہوتا ہو۔ موجودہ حکومت نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے میں تو بخل سے کام نہیں لیا لیکن یرقان جیسے مرض کا علاج جو درحقیقت حکومت کے آنے سے قبل ہی روک دیا گیا تھا‘ جاری نہ رکھا جاسکا۔ عموماً گمان کیا جاتا ہے کہ منتخب حکومت نبض شناس ہوتی ہے‘ جسے معاشرے کے کمزور طبقات کو درپیش مشکلات و مسائل کا ادراک ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ اور اختیار کی جانے والی تدابیر اُس خاص سوچ کے گرد گھومتی ہیں‘ جس میں خودنمائی کے بغیر کارخیر کرنے کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی لوگوں کی سیاسی مجبوریوں کے باعث متاثر ہونے والوں کو اپنا قصور سمجھ نہیں آتا۔ دو برس یرقان کے مرض کا علاج نہ ہونے سے نجانے کتنے مریض ہلاک ہوئے ہوں گے۔ نجانے کتنے ایسے مریض جنہیں ابتدأ میں ادویات دی گئیں لیکن بعدازاں یہ سلسلہ روک دیا گیا‘ جس سے اُن کا مرض بگڑ کر زیادہ خطرناک شکل اختیار کر گیا ہوگا۔ یہ ایک اذیت ناک احساس کی طرف اشارہ ہے‘ اپنے پیاروں کو ہر لمحہ ’پیلا‘ ہوتے دیکھنے والے خودکو کتنا بے بس و بے اختیار سمجھتے ہوں گے! کاش اِس حقیقت کا ادراک خزانے پر سانپ بن کر بیٹھنے والوں کو ہو جائے‘ جن کے پاس اپنی آسائشوں اور مراعات کے لئے عوام کا پیسہ استعمال کرنے کے جواز تو بہت ہیں لیکن جب عام آدمی کو ریلیف دینے کی بات آتی ہے تو اُنہیں اپنے ہی وضع کردہ قواعد و ضوابط یاد آ جاتے ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ سال 2013ء میں جب سرکاری ہسپتالوں میں یرقان کے مفت علاج کی سہولت عدالت کے ایک حکمنامے کے ذریعے روکی گئی‘ تو اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جو ادویات یرقان کے مریضوں کو دی جا رہی تھیں وہ ناقص المعیار تھیں اور ادویات لینے کے باوجود یرقان کے مریض شفایاب نہیں ہورہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرکاری ہسپتال کو ادویات فراہم کرنے والے اُن مفاد پرستوں کو سرعام پھانسی لگائی جاتی۔ اُن وزراء‘ افسرشاہی کے کرداروں اُور ملوث ہسپتال کے انتظامی نگرانوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا جنہوں نے ناقص المعیار ادویات پر اکتفا کیا۔ ہم راتوں رات امیر بننے والوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ اُنہیں کامیاب و مثالی کاروباری قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے ذریعے ملکی وسائل لوٹنے والے‘ ٹیکس چوروں نے پورے نظام کو ناکارہ بنا رکھا ہے‘ اس سے بھاری قیمت عام آدمی کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اپریل 2013ء میں سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ایک سٹور کیپر کو گرفتار بھی کیا گیا جنہوں نے پچیس کروڑ روپے کی ایسی ادویات خریدیں تھیں جن سے یرقان کا علاج ممکن نہ تھا۔ چھ فروری دو ہزار تیرہ کو پشاور ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ناقص المعیار یرقان کی ادویات فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ اُمید تھی کہ صرف یرقان ہی نہیں بلکہ دیگر بیماریوں کے لئے بھی ادویات کی فراہمی کرنے والوں کے معاملات اور لین دین کے سودوں کی چھان بین کی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا‘ اُور تحقیقات کو یرقان کی ادویات تک ہی محدود رکھا گیا‘ جس کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن جنہوں نے مالی بدعنوانی کی‘ اُن سے تاحال وصولی تو نہیں ہوئی لیکن دو برس سے یرقان کا علاج ضرور بند رہا۔
خیبرپختونخوا میں یرقان کے علاج کے 31 مراکز قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 4 صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہیں اور جن اضلاع میں یرقان سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے‘ وہاں ایک سے زیادہ صحت کے مراکز میں یرقان کے خصوصی علاج کی سہولیات فراہم کر دی گئیں تاہم اِس مرتبہ ادویات پہلے سے کیمیائی تصدیق کے بعد ہسپتالوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یرقان کے ایک مریض کے علاج پر بارہ ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے اور یہ ادویات مارکیٹ میں بھی باآسانی دستیاب ہیں لیکن خوشخبری ہے کم آمدنی والے مریضوں کے لئے کہ اُنہیں ایک مرتبہ پھر ’ہپٹاٹائٹس سی‘ کے علاج کی معیاری ادویات سرکاری ہسپتالوں سے مفت ملیں گی۔ محکمۂ صحت کو لاحق جملہ امراض کا علاج بھی ضروری ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی میں بدعنوانیوں کا نہ تو یہ پہلا سانحہ تھا اور نہ ہی آخری بلکہ ارزاں ادویات بھاری قیمت پر فراہم کرنے اور زائدالمعیاد ادویات کی پیکنگ پر تاریخیں تبدیل کرنے کے علاؤہ جعلی ادویات کی خریداری و فراہمی سے متعلق خبریں اخبارات میں شائع ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ ہرمنتخب نمائندہ حکومت کا حصہ اور وزیر و مشیر بننا چاہتا ہے لیکن جب اُس محترم سے متعلقہ ادارے کی ناقص کارکردگی کی بابت سوال کیا جائے‘ تو چہرے پر ناگواری کے آثار چھا جاتے ہیں۔ ’’آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔۔۔ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!‘‘
Fight against Hepatitis can't be win just by extending the treatment |