Tuesday, March 31, 2015

Mar2015: Hepatitis Treatment & health living

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شعبۂ صحت: لاحق امراض
عالمی ادارۂ صحت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان اُس عالمی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جو ’یرقان (ہیپٹاٹائٹس)‘ کے مریضوں سے متعلق ہے۔ سال 2012ء میں مرتب کی جانے والی اِس فہرست میں پاکستان کا شمار ایسے خطرناک ممالک میں کیا گیا ہے‘ جہاں ’یرقان‘ کے مریضوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور اِن میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ برسرزمین حقائق تبدیل ہوں گے‘ ایسا ممکن نہیں کیونکہ خیبرپختونخوا محکمۂ صحت نے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہمارے ہاں سال 2012-13ء کے دوران 47 ہزار افراد یرقان سے متاثر تھے اور یہی غیرسائنسی طور سے مرتب کی گئی تعداد 2015ء میں بھی بیان کی جارہی ہے! جن میں سے دس ہزار یرقان کی B اور 37 ہزار C نامی یرقان کے عارضے سے متاثر پائے تھے۔ المیہ ہے کہ یرقان کا سبب بننے والے اسباب کا خاتمہ بھی نہیں کیا جاتا۔ جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو وہاں یرقان کے پھیلنے کو بھلا علاج سے کیسے روکا جا سکتا ہے! صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے فیصلہ سازوں کا اتفاق ہے کہ جب تک صوبائی حکومت یرقان کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات مفت فراہم کرنے کے لئے مالی وسائل مختص نہیں کرے گی‘ اُس وقت یرقان کے پھیلنے اور اس سے متاثرہ افراد کے علاج معالجے کی ذیل میں ہونے والی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ یرقان سے متاثرہ افراد کی اکثریت کا تعلق کم آمدنی رکھنے والے ایسے طبقات سے ہے‘ جو اپنے طور پر اِس کا علاج نہیں کروا سکتے! لیکن علاج کے ساتھ اِس مرض سے بچاؤ کے لئے شعور‘ صاف خوردونوش کی فراہمی بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان تحریک انصاف حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عرصہ دو برس کے تعطل کے بعد خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں حسب ضرورت یرقان کے علاج کی ادویات فراہم کر دی گئیں ہیں‘ جن سے کم و بیش یرقان (ہپٹائٹس سی) سے متاثرہ 50 ہزار افراد کا علاج ممکن ہو سکے گا۔قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے عرصہ 2 برس بعد (یرقان کے علاج کی) ادویات سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کی گئیں ہیں۔ اِس سے قبل عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سرکاری ہسپتالوں میں یرقان کے مفت علاج کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے لیکن مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل ختم ہونے والی حکومت کے ساتھ ہی یرقان کا مفت علاج بھی روک دیا گیا۔ المیہ رہا ہے کہ کوئی ایک سیاسی دور بھی ایسا نہیں رہا‘ جس میں ماضی کی ہر اُس حکمت عملی کو جاری رکھا گیا ہو‘ جس سے عام آدمی بالخصوص کم آمدنی والے متوسط‘ غریب یا خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مفلس و نادار طبقات کو فائدہ ہوتا ہو۔ موجودہ حکومت نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے میں تو بخل سے کام نہیں لیا لیکن یرقان جیسے مرض کا علاج جو درحقیقت حکومت کے آنے سے قبل ہی روک دیا گیا تھا‘ جاری نہ رکھا جاسکا۔ عموماً گمان کیا جاتا ہے کہ منتخب حکومت نبض شناس ہوتی ہے‘ جسے معاشرے کے کمزور طبقات کو درپیش مشکلات و مسائل کا ادراک ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ اور اختیار کی جانے والی تدابیر اُس خاص سوچ کے گرد گھومتی ہیں‘ جس میں خودنمائی کے بغیر کارخیر کرنے کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی لوگوں کی سیاسی مجبوریوں کے باعث متاثر ہونے والوں کو اپنا قصور سمجھ نہیں آتا۔ دو برس یرقان کے مرض کا علاج نہ ہونے سے نجانے کتنے مریض ہلاک ہوئے ہوں گے۔ نجانے کتنے ایسے مریض جنہیں ابتدأ میں ادویات دی گئیں لیکن بعدازاں یہ سلسلہ روک دیا گیا‘ جس سے اُن کا مرض بگڑ کر زیادہ خطرناک شکل اختیار کر گیا ہوگا۔ یہ ایک اذیت ناک احساس کی طرف اشارہ ہے‘ اپنے پیاروں کو ہر لمحہ ’پیلا‘ ہوتے دیکھنے والے خودکو کتنا بے بس و بے اختیار سمجھتے ہوں گے! کاش اِس حقیقت کا ادراک خزانے پر سانپ بن کر بیٹھنے والوں کو ہو جائے‘ جن کے پاس اپنی آسائشوں اور مراعات کے لئے عوام کا پیسہ استعمال کرنے کے جواز تو بہت ہیں لیکن جب عام آدمی کو ریلیف دینے کی بات آتی ہے تو اُنہیں اپنے ہی وضع کردہ قواعد و ضوابط یاد آ جاتے ہیں۔

ذہن نشین رہے کہ سال 2013ء میں جب سرکاری ہسپتالوں میں یرقان کے مفت علاج کی سہولت عدالت کے ایک حکمنامے کے ذریعے روکی گئی‘ تو اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جو ادویات یرقان کے مریضوں کو دی جا رہی تھیں وہ ناقص المعیار تھیں اور ادویات لینے کے باوجود یرقان کے مریض شفایاب نہیں ہورہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرکاری ہسپتال کو ادویات فراہم کرنے والے اُن مفاد پرستوں کو سرعام پھانسی لگائی جاتی۔ اُن وزراء‘ افسرشاہی کے کرداروں اُور ملوث ہسپتال کے انتظامی نگرانوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا جنہوں نے ناقص المعیار ادویات پر اکتفا کیا۔ ہم راتوں رات امیر بننے والوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ اُنہیں کامیاب و مثالی کاروباری قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے ذریعے ملکی وسائل لوٹنے والے‘ ٹیکس چوروں نے پورے نظام کو ناکارہ بنا رکھا ہے‘ اس سے بھاری قیمت عام آدمی کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اپریل 2013ء میں سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ایک سٹور کیپر کو گرفتار بھی کیا گیا جنہوں نے پچیس کروڑ روپے کی ایسی ادویات خریدیں تھیں جن سے یرقان کا علاج ممکن نہ تھا۔ چھ فروری دو ہزار تیرہ کو پشاور ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ناقص المعیار یرقان کی ادویات فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ اُمید تھی کہ صرف یرقان ہی نہیں بلکہ دیگر بیماریوں کے لئے بھی ادویات کی فراہمی کرنے والوں کے معاملات اور لین دین کے سودوں کی چھان بین کی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا‘ اُور تحقیقات کو یرقان کی ادویات تک ہی محدود رکھا گیا‘ جس کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن جنہوں نے مالی بدعنوانی کی‘ اُن سے تاحال وصولی تو نہیں ہوئی لیکن دو برس سے یرقان کا علاج ضرور بند رہا۔

خیبرپختونخوا میں یرقان کے علاج کے 31 مراکز قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 4 صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہیں اور جن اضلاع میں یرقان سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے‘ وہاں ایک سے زیادہ صحت کے مراکز میں یرقان کے خصوصی علاج کی سہولیات فراہم کر دی گئیں تاہم اِس مرتبہ ادویات پہلے سے کیمیائی تصدیق کے بعد ہسپتالوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یرقان کے ایک مریض کے علاج پر بارہ ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے اور یہ ادویات مارکیٹ میں بھی باآسانی دستیاب ہیں لیکن خوشخبری ہے کم آمدنی والے مریضوں کے لئے کہ اُنہیں ایک مرتبہ پھر ’ہپٹاٹائٹس سی‘ کے علاج کی معیاری ادویات سرکاری ہسپتالوں سے مفت ملیں گی۔ محکمۂ صحت کو لاحق جملہ امراض کا علاج بھی ضروری ہے۔

سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی میں بدعنوانیوں کا نہ تو یہ پہلا سانحہ تھا اور نہ ہی آخری بلکہ ارزاں ادویات بھاری قیمت پر فراہم کرنے اور زائدالمعیاد ادویات کی پیکنگ پر تاریخیں تبدیل کرنے کے علاؤہ جعلی ادویات کی خریداری و فراہمی سے متعلق خبریں اخبارات میں شائع ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ ہرمنتخب نمائندہ حکومت کا حصہ اور وزیر و مشیر بننا چاہتا ہے لیکن جب اُس محترم سے متعلقہ ادارے کی ناقص کارکردگی کی بابت سوال کیا جائے‘ تو چہرے پر ناگواری کے آثار چھا جاتے ہیں۔ ’’آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔۔۔ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!‘‘
Fight against Hepatitis can't be win just by extending the treatment

Monday, March 30, 2015

Mar2015: Strategy bond sacrifices & wayout

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔قربانیوں کا صلہ
تئیس مارچ کے دن جب پاکستان کی دفاعی طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا تھا‘ پشاور کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) میں اُن زخمیوں سے بستر بھر گئے‘ جو ’آپریشن خیبرٹو‘ میں حصہ لے رہے تھے اور انہیں تاک لگائے دشمن نے نشانہ بنایا تھا۔ قبائلی علاقے میں جاری فوجی کاروائی کے اِس دوسرے مرحلے (راؤنڈ) میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اندازہ ہے کہ ایک ہزار سے پندرہ سو انتہائی خطرناک عسکریت پسند‘ جن میں غیرملکی بھی شامل ہیں اور یہ مختلف قبائلی علاقوں سے وادئ تیراہ اُور اِس سے ملحقہ پہاڑی سلسلے میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ فوجی کاروائی کا یہ سب سے خطرناک مرحلہ ہے‘ جس میں دشمن نے بلند مقامات پر مورچے بنا رکھے ہیں اور وہ اپنی طرف آنے والے فوجی دستوں کے جوانوں کو چن چن کر نشانہ بناتے ہیں۔ فضائی حملے بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہو رہے کیونکہ سنگلاخ پہاڑوں میں بنے ہوئے قدرتی راہداریاں‘ غاریں اور گھاٹیاں اُن کے لئے ناآشنا نہیں اور وہ اپنے ٹھکانے تبدیل کرنے میں مقامی راستوں کے بارے علم کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اِس منظرنامے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جن علاقوں کو پاک فوج عسکریت پسندوں سے خالی کراتی ہے وہاں حکومت کا عمل دخل برقرار و بحال رکھنے کے لئے کوئی اِدارہ (فورس) موجود نہیں! حقیقت حال یہ ہے کہ اگر مسند اقتدار پر بیٹھے ہوئے حکمران اور اُن کی بے لگام انتظامیہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور عوام کی جان و مال کی حفاظت میں مخلص ہو تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ہم چند ہزار دہشت گردوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کی جڑیں کاٹنے میں اب تک کامیاب نہ ہوئے ہوتے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ’’فوج کو قربانی کا بکرا‘‘ جبکہ اِنتظامیہ اور سیاسی قیادت نے خود کو زیادہ سے زیادہ اِختیارات اور مراعات کے لئے وقف کر رکھا ہے! ذرا سوچئے کہ اگلے محاذوں پر شہید کون ہو رہا ہے؟ ارض پاک کی حفاظت کے جذبے سے سرشار ایسے نفوس کہ جنہوں نے اپنی زندگی کی بہاروں سے معنوی شناسائی بھی حاصل نہیں کی ہوتی! فاٹا‘ اُور ایف آر ریجنز دہشت گرد عناصر کے گڑھ بنے ہوئے ہیں جہاں پے در پے زمینی و فضائی فوجی کاروائیوں کے باوجود اب بھی عسکریت پسندوں کی موجودگی ثابت ہے۔ اِس صورت حال میں پاک فوج خراج تحسین (سلوٹ) کی مستحق ہے جنہوں نے ملک کو داخلی و خارجی خطرات سے محفوظ رکھا ہوا ہے اگر یہی ذمہ داری حکمران طبقے اور انتظامیہ پر ہوتی تو توقع نہیں تھی کہ کوئی سکھ کا سانس لے سکتا۔

پاک فوج کے عزم و حوصلے کو جتنا سراہا جائے کم ہے اور اِن کا کردار ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے لیکن جب کسی ایک علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا جاتا ہے تو وہاں حالات کو معمول پر رکھنے اور حکومت کی رٹ برقرار رکھنے کے لئے انتظامیہ اپنا کردار ادا نہیں کرتی جس کی وجہ سے ایک مہم کے بعد دوسری کاروائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران ضرب عضب‘ خیبرون‘ اور خیبرٹو کے نام سے فوجی کاروائی کی گئی لیکن ان کی کامیابی اِس حد تک تو ضرور ہے کہ وقتی طور پر متعلقہ علاقوں جو کہ دشوار گزار گھاٹیوں‘ پہاڑی سلسلے اور غیرروائتی راستوں پر مشتمل ہیں کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا‘ جس کی وجہ سے پاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ سات قبائلی اور چھ فرنٹیئر ریجنز (علاقوں) کے انتظامی نگران اپنے اپنے علاقوں میں دفاتر قائم کرنے اور وہاں تشریف فرما ہونے کی بجائے قریبی بندوبستی علاقوں میں رہائش و دفاتر قائم رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ جو کہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہیں۔ جب تک قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے اپنے دفاتر متعلقہ ایجنسیوں میں اپنے دفاتر اِن علاقوں میں قائم نہیں کریں گے اُس وقت تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی فوجی کاروائی کے خاطرخواہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔

پشاور سے متصل خیبرون کے بعد خیبرٹو آپریشن جس میں وادئ تیراہ سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کی ذمہ داری جن تربیت یافتہ اہلکاروں کو سونپی گئی ہیں وہ نڈر اور پہاڑ جیسا عزم وحوصلہ رکھتے ہیں لیکن محض فوجی آپریشن کافی نہیں۔ جب تک موجودہ اقتدار کے اصل مالکان (بیوروکریسی) کی طرف سے حائل رکاوٹیں ختم نہیں ہوں گی اور ہر قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی موجودگی ثابت نہیں کریں گے‘ اُس وقت تک قربانیاں اور کوششیں کارگر نہیں ہوں گی۔ ملاکنڈ ڈویژن میں فوجی کاروائی کی کامیابی اور اس کے ثمرات اِس لئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہاں پولیس کا ایک نظام موجود تھا‘جس نے عسکریت پسندوں سے علاقوں کو واگزار کروا کر پولیس کے کنٹرول میں دے دیا۔ پولیس نے تھانے اور چوکیاں بنائیں۔ حکومت نے 7500 پولیس اور سپیشل پولیس کے 5 ہزار جوان بھرتی کئے اور یہی وجہ ہے کہ آج ملاکنڈ ڈویژن میں مثالی امن دکھائی دیتا ہے۔

ضرب عضب اور خیبرون‘ خیبرٹو (تین مہمات) کے دوران پاک فوج نے ایسے مقامات پر قبضہ کیا‘ جہاں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی کو رسائی نہیں تھی۔ ایسے مقامات پر رسائی میں کتنے ہی جوان شہید و زخمی ہوئے۔ آخر کب تک ان چوٹیوں پر جوان بیٹھے رہیں گے۔ قوم کو پاک فوج کے سربراہ سے توقعات وابستہ ہیں کہ اگر ملک کو عسکریت پسندوں سے صاف کرنا ہے تو اس کے لئے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں ایک جامع انتظامی ڈھانچہ متعارف کرایا جائے اور جو پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکار بندوبستی علاقوں میں محفوظ بیٹھے ہیں وہ اپنے دفاتر متعلقہ علاقوں میں منتقل کریں اور فرنٹیئر کور کے ساتھ مل کر وہاں کا نظم و نسق سنبھالیں۔ 2: قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کو یا تو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے یا انہیں الگ صوبے کی حیثیت سے بندوبستی علاقوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

ترجیح و تجویز ہے کہ ماضی میں مرتب کی جانے والی ایک حکمت عملی کو ازسرنو زندہ کیا جائے۔ ستمبر 2008ء سے اکتوبر 2010ء تک فرنیٹئر کور کے انسپکٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طارق خان (ہلال امتیاز ملٹری) نے پورے قبائلی علاقوں میں لیویز کے ایک منظم نظام کو نافذ کرنے کے لئے ’مرکزی ٹریننگ سنٹر‘کا تصور دیا تھا کہ شاہ کس جمرود میں ایک بڑا تربیتی مرکز بنایا جائے گا‘ جس میں تمام قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی خاصہ دار اور لیویز کو جدید تربیت دی جائے گی لیکن اُن کے عہدے سے رخصتی کے ساتھ ہی یہ منصوبہ سردخانے کی نذر کر دیا گیا۔ اُس وقت سیفران کے سیکرٹری‘ اے سی ایس (فاٹا) حبیب اللہ خان خٹک بھی تربیتی مرکز کے قیام اور لیویز کی تربیت والے تصور سے آگاہ تھے اور اِس سلسلے میں کافی خط و کتابت بھی ریکارڈ کا حصہ ہے‘ جسے اب بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اگر اِس منصوبے پر عمل کر لیا جاتا تو آج قبائلی علاقوں میں ایک ’منظم لیویز‘ کا نظام فعال ہوتا۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اپنے کام اور ذمہ داریوں سے کتنی مخلص ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیٹیکل انتظامیہ کبھی نہیں چاہتی کہ وہ پشاور سے خیبرایجنسی‘ ہنگو سے اورکزئی ایجنسی اور ٹانک سے جنوبی وزیرستان اپنے دفاتر منتقل کرے۔ ہر کوئی عہدے‘ ترقی اُور مراعات چاہتا ہے۔ ہمارے پاس حکمرانوں کی کمی نہیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک حکمرانی کرنے کا خواہشمند ہے اور قربانیوں کے لئے پاک فوج کو صف اوّل میں لاکھڑا کر دیا گیا ہے!

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو چاہئے کہ قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی اِنتظامیہ اور سیاسی حکمرانوں کو اِس بات پر غور کرنے کے لئے آمادہ کریں کہ وہ مل بیٹھ کر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض کا ازسرنو تعین کریں۔ پوری قوم کی نظریں اگر پاک فوج پر لگی ہوئی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کا یہی ایک ادارہ اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مخلص ثابت ہوا ہے۔ مذکورہ فوجی کارروائیوں سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کئی ایک اضلاع اور کراچی تک عسکریت پسندوں کی طاقت کے ٹھکانے و مراکز اور افرادی قوت یا تو انجام کو پہنچ چکی ہے یا منتشر ہو چکے ہیں لیکن آخر کب تک؟

Military solution is not enough to win the war against terrorism

Mar2015: TRANSLATION Economic terrorism

Economic terrorism
اِقتصادی دہشت گردی
پاکستان کے مالی وسائل کو نچوڑ کھانے والے صرف 200 خاندان ملک کی 18 کروڑ سے زائد عوام کی تنگدستی کے لئے ذمہ دار ہیں! دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جمہوری نظام حکومت رائج ہے‘ وہ اِس طرح کے ’اقتصادی استحصال جسے دہشت گردی کہنا چاہئے‘ کے خلاف نبردآزما ہیں اور باقاعدہ جنگ جیسی حکمت عملی کے تحت ملک کے مالی وسائل کی منصافانہ تقسیم کو ممکن بنانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال اِس کے برعکس ہے اور ہماری حکومت اقتصادی ناہمواریوں کو نہ صرف درست کرنے کی روادار نہیں بلکہ وہ اس کے خلاف جنگ یا جدوجہد کی بجائے اِس کی حمایت بنی ہوئی ہے!

تصور کیجئے کہ گذشتہ 10 برس (ایک دہائی) کے دوران پاکستان میں پیدا ہونے والے کل سرمائے کا 90 فیصد حصہ آبادی کے صرف 2 فیصد حصے میں تقسیم ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی 60 فیصد آبادی ’خط غربت سے نیچے‘ یعنی 2 ڈالر یومیہ سے کم آمدنی رکھتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ 11 کروڑ پاکستان 200 روپے یومیہ یا اِس سے کم آمدنی پر گزربسر کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والی یہ ’مادرپدر آزاد‘ (بے قابو) بدعنوانی ہی تلخ حقیقت نہیں بلکہ امن و امان کو لاحق خطرات اور دہشت گرد واقعات بھی دردسر ہیں۔ سال 2014ء کے دوران ہوئے پرتشدد دہشت گرد واقعات میں کل 5 ہزار 496 افراد قتل ہوئے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ گذشتہ 15 برس کے دوران پاکستان میں فرقہ واریت کے 2 ہزار 979 واقعات رونما ہوئے ہیں‘ جن میں کل 5 ہزار 59 افراد نے اپنی جانیں گنوائیں اُور 9 ہزار 713 دیگر زخمی ہوئے۔

اقتصادی دہشت گردی کے سبب پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگیاں شدید مشکلات سے گزر رہی ہیں۔ ملک کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس کی صورتحال مثالی ہو۔ توانائی کے پیداواری نظام پر نگاہ ڈالئے۔ ملک میں کم و بیش 2کروڑ بجلی کے کنکشن ہیں اور بجلی پیدا کرنے والے دو درجن نجی ادارے فعال ہیں۔ اِن نجی بجلی گھروں نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ پندرہ فیصد منافع پر بجلی فراہم کریں گے لیکن وہ سالانہ 42 فیصد منافع کی شرح سے کما رہے ہیں۔ اقتصادی دہشت گردی کی اِس صورتحال سے پاکستان کے 10کروڑ افراد متاثر ہو رہے ہیں جنہیں غیرمہلک طریقۂ واردات سے سالانہ 400 ارب روپے کا ٹیکہ ہر سال لگ رہا ہے۔

اقتصادی دہشت گردی بینکاری کے شعبے میں بھی عیاں ہے۔ ملک کے نجی شعبے میں 32 بینک ہیں اور 1کروڑ پاکستانیوں کے بینک اکاونٹس ہیں۔ تصور کیجئے کہ نواز حکومت میں ایک بینک کی نجکاری ہوئی جو اپنی سرمایہ کاری کے تناسب سے سالانہ 30فیصد منافع کما رہا تھا۔ یہ عمل بھی اقتصادی دہشت گردی ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جس سے 1 کروڑ پاکستانی متاثر ہورہے ہیں۔ اِس غیرمہلک طریقۂ واردات کے ذریعے بینکیں کھاتہ داروں سے ہر سال 300 ارب روپے کما رہی ہیں!

تیل کے شعبے میں اقتصادی دہشت گردی کی مثال یہ ہے کہ پاکستان کی اِس صنعت کے 9 اہم رکن ہیں۔ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو)‘ پاک عرب ریفائنری (پارکو)‘ اٹک ریفائنری لمیٹیڈ (اے آر ایل)‘ اٹک پیٹرولیم‘ نیشنل ریفائنری لمیٹیڈ (این آر ایل)‘ پاکستان ریفائنری (پی آر ایل)‘ شیوران کالٹیکس‘ شیل پاکستان اور ٹوٹل پارکو۔ تصور کیجئے کہ اِن تیل صاف کرنے والی صنعتوں کے منافع کی شرح دنیا کی دیگر ایسی ہم عصر صنعتوں کے مقابلے دوگنی سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ ادارے مجموعی طور پر سالانہ 54ارب روپے صرف ’ڈیمڈ ڈیوٹی‘ (Deemed Duty) کی مد میں کما رہے ہیں۔ یہ اقتصادی دہشت گردی ہے جس سے 18 کروڑ پاکستانی متاثر ہو رہے ہیں اور اِس غیرمہلک طریقۂ واردات کی وجہ سے عوام کو سالانہ 150 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

سیمینٹ بنانے والے ادارے بھی ’اقتصادی دہشت گردی‘ میں اپنی مثال آپ ہیں جس کے کل 21 رکن ہیں اور انہیں سالانہ مجموعی فروخت سے 100ارب روپے حاصل ہوتے ہیں۔ سیمینٹ بنانے والی صنعتوں نے آپسی گٹھ جوڑ کے ذریعے قیمتیں ایک خاص تناسب پر رکھی ہوئی ہیں اور باوجود زیادہ صنعتیں ہونے بھی مقابلے کی بدولت صارفین کو سستی سیمینٹ نہیں ملتی۔

موٹر گاڑیوں (آٹوموبائل) کے شعبے میں ’اقتصادی دہشت گردی‘ کا حصہ 19 رکن ہیں جو گاڑیوں اور فاضل پرزہ جات کی فروخت میں قواعد کے برخلاف زیادہ منافع کما رہے ہیں۔ ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کے تین بڑے یونٹوں کی کل فروخت 130 ارب روپے سالانہ ہے جس میں منافع کم وبیش 8 ارب روپے بنتا ہے۔ صنعتوں کے منافع سے متعلق قواعد پر عملدرآمد اور مقابلے کی فضاء پر نظر رکھنے والے حکومتی ادارے اِس شعبے کے رکن ادارے بھی آپس میں گٹھ جوڑ کے ذریعے صارفین کو لوٹ رہے ہیں۔

پاکستان میں ایسے 200 خاندان ہیں جو اقتصادی دہشت گردی کے اِس غیرمہلک طریقہ واردات (مکروہ فعل) سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ’اقتصادی دہشت گردی‘ کرنے والے پرتشدد دہشت گردوں کے برعکس قتل نہیں کرتے بلکہ گیارہ کروڑ عوام کو غربت اور کسمپرسی کی حالت میں زندہ رکھتے ہیں تاکہ اُنہیں نچوڑنے کا عمل جاری رکھا جا سکے۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں 200 خاندان فاتح اُور 18 کروڑ عوام محکوموں جیسے حالات سے گزر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی جمہوریتیں اقتصادی دہشت گردی کا مقابلہ کرتی ہیں اور ہمارے ہاں اِس کی پشت پناہی اور اِسے پھلنے پھولنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جمہوری حکومتیں ’اقتصادی دہشت گردی‘ کا شکار ہونے والوں کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے‘ اُن کے مصائب و مشکلات کا ادارک کیا جاتا ہے۔ اُن کی محرومیوں کا مداوا کرنے کے لئے غوروخوض اُور عملی اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں فیصلہ ساز کے دل‘ دماغ اور ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Economic terrorism by Dr Farrukh Saleem

Sunday, March 29, 2015

Mar2015: Pakistan LNG Scam

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شکوک و شبہات!
توانائی بحران ہمیں دو طرح سے جھنجوڑ رہا ہے۔ ایک تو ایندھن کے دستیاب وسائل ضرورت کے مقابلے کم ہیں‘ جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے کاروبار‘ صنعتیں یا پیداواری یونٹ اپنی استعداد کے مطابق پیداوار نہیں دے پا رہے جس سے ملک کی داخلی معیشت اور برآمدات کا عمل متاثر ہو رہا ہے اُور روزگار کے مواقع الگ سے کم ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب برآمدات کے سودے (حسب وعدہ) بروقت پورے نہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں پاکستان پر انحصار نہ کرنے کے اشاریئے عام ہیں۔ پیداوار کم ہونے کے علاؤہ ’مہنگے داموں ایندھن کی خریداری‘ کا بوجھ صارفین کو منتقل ہونے سے پیداواری اخراجات اِس حد تک بڑھ چکے ہیں جو ایک طرف تو عام آدمی کی قوت خرید کے مطابق نہیں اور دوسری جانب عالمی منڈیوں میں پاکستان کی تیارکردہ مصنوعات کی مقابلتاً زیادہ قیمتوں کی وجہ سے خسارے کا باعث ہیں۔ توانائی وسائل کی کمی اور غیرمنطقی بھاری قیمت جیسے محرکات کا ذمہ دار ماضی ہی کی طرح فیصلہ سازوں کا وہ طبقہ ہے جو توانائی کے موجودہ بحران سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ذاتی فائدے کو ترجیح بنائے ہوئے ہے۔

رواں ماہ قطر سے ’مائع گیس (ایل این جی)‘ درآمد کرنے کا معاہدہ کیا گیا‘ اُور اِس سودے کی تفصیلات ’کمال رازداری‘ سے طے کرنے والوں کو اِس بات کی بھی قطعی کوئی پرواہ نہیں کہ شفافیت کے بناء ہوئی اِس مشکوک خریداری سے متعلق ’’لوگ کیا کہیں گے!‘‘ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی مالی بددیانتی ’ایل این جی‘ خریداری کا یہی سودا ہوگا کیونکہ اپریل کے پہلے یا دوسرے ہفتے بحری جہاز کراچی کی قاسم بندرگاہ پہنچے گا لیکن قوم کے سامنے نہ تو اُس معاہدے کی طے شدہ شرائط کی تفصیلات موجود ہیں اور نہ ہی درآمد ہونے والی گیس کی قیمت یا مصرف کیا ہوگا‘ اِس بارے ہی کچھ بتانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور قطر کے درمیان مائع گیس کی خریداری کے لئے بات چیت کے کئی دور موجودہ وفاقی حکومت سے قبل کئے گئے لیکن جون دو ہزار تیرہ کے بعد موجودہ وفاقی حکومت نے مائع گیس کی خریداری کی شرائط و قیمت سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دی۔

مائع گیس کی قطر سے خریداری ایک راز ہی رہتی اگر مارچ کے پہلے ہفتے وفاقی وزیر پیٹرولیم صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اچانک یہ نہ کہہ دیتے کہ ’’توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے مائع گیس درآمد کی جا رہی ہے جس کی پہلی کھیپ آئندہ چند ہفتوں پاکستان پہنچ جائے گی۔‘‘ اِس سے قبل اطلاعات ضرور تھیں کہ حکومت مائع گیس درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اُور وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ شاہد خاقان عباسی قطر کا سرکاری دورہ بھی کر چکے ہیں لیکن جب معاہدے کی تفصیلات سے قبل مائع گیس کے پاکستان پہنچنے کی بات سامنے آئی تو سب کی آنکھیں پھیل گئیں۔ شفاف طرز حکمرانی کے قیام کے لئے کوشاں ایک غیرسرکاری ادارے ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نے سترہ مارچ کو وفاقی حکومت کے نام ایک خط میں لکھا کہ ’’22ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ خریداری کے آئین و قواعد میں درج مقررہ کردہ اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ قطر سے کئے جانے والے مائع گیس کی خریداری کے اِس معاہدے سے متعلق مشاورت ایک برطانوی ادارے سے کی گئی جس نے تجویز کیا کہ ’’چونکہ عالمی مارکیٹ میں مائع گیس کی قیمتوں میں ردوبدل رہتا ہے‘ اِس لئے عرصہ 2 سال سے زیادہ کے لئے خریداری کا معاہدہ نہ کیا جائے لیکن پاکستان اسٹیٹ آئل کے منیجنگ ڈائریکٹر نے مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ 15 برس کے لئے کیا! یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’’خام گیس کی قیمت 14.4 ڈالر (بحساب برینٹ) جبکہ اضافی 0.65 ڈالر ترسیلی اخراجات طے کی گئی جبکہ چند برس قبل ہوئے ایک سودے کی مثال موجود تھی جس میں بھارت نے 11 ڈالر اُور 0.4فیصد ترسیلی اخراجات کے عوض مائع گیس خریداری کا سودا طے کیا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات میں مائع گیس کی خریداری کا سودا کرنے والے ’پاکستان اسٹیٹ آئل‘ کے قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے متعلق بھی سوال اُٹھایا گیا ہے جنہیں مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی وجہ سے بیرسٹر ظفر کی قیادت میں بننے والی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے ’بورڈ آف گورنرز‘ سمیت برطرف کرنے کی سفارش کی تھی! ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ عادل گیلانی سے ہوئی ٹیلیفونک بات چیت کے دوران اُنہوں نے اِس معاہدے کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑا بددیانتی و بدعنوانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’بائیس ارب کی خریداری کرتے ہوئے مائع گیس کے دیگر فراہم کنندگان سے قیمتیں (ٹینڈر) طلب ہی نہیں کی گئیں!‘‘

وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اُنہیں ’ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل‘ کی جانب سے اعتراضات پر مبنی مکتوب تاحال وصول نہیں ہو سکا‘ لیکن اُنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر کسی ادارے کی جانب سے مائع گیس کی خریداری پر سوالات اُٹھائے بھی گئے ہیں تو اُن کے تسلی بخش جوابات دیئے جائیں گے۔ انہوں نے ایسے کسی امکان کو بھی رد کیا‘ جو معاہدے میں مالی بدعنوانیوں سے متعلق تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’’مائع گیس کی خریداری کے بارے ہوئے معاہدے کی تمام تر تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی‘‘ لیکن جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ جناب معاہدہ تو طے پا چکا ہے‘ مائع گیس بھی پہنچنے والی ہے تو آخر کب تک معاہدے کے خدوخال‘ مائع گیس سے استفادے اور قیمت کے بارے میں تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی؟ تو اُن کا جواب آنے سے پہلے ہی فون کال منقطع ہوگئی! اُور باوجود کوشش بھی اُن سے دوبارہ رابطہ نہ ہو سکا!

Biggest financial scam of the Pakistan's history! The LNG purchase

Mar2015: TRANSLATION: Post-raid Karachi

Post-raid Karachi
منظرنامہ: بعدازکراچی صورتحال
متحدہ قومی موومنٹ کے لئے یہ مرحلہ تفکر اُور اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہے کہ آخر اُن کے بارے پورے پاکستان میں یہ تاثر کیوں پایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے ملک کے سب سے بڑے کاروباری مرکز کراچی پر اپنا سیاسی تسلط برقرار رکھنے کے لئے ’سیاست و جرائم‘ کو یکجا کر دیا ہے۔ اِس بارے میں بھی تعجب کا اظہار نہیں کیا گیا جب متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی میں صدر دفتر ’نائن زیرو‘ سے بھاری مقدار میں جدید و مہلک اسلحہ برآمد ہوا۔ پورے ملک میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آہنی ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے کراچی کو جرائم پیشہ گروہوں اور اِن گروہوں کی پشت کرنے والی سیاسی طاقتوں کے چنگل سے آزاد کرایا جائے جو نسلی لسانی اور سیاسی اختلافات کی بناء پر ہر اِنتہاء تک جانے کی سوچ رکھتے ہیں۔

گیارہ مارچ کے روز رینجرز نے ’نائن زیرو‘ میں قائم دفاتر اور ملحقہ عمارتوں کی تلاشی لی۔ یہ ایک انتہائی غیرمتوقع کاروائی تھی جس کے بارے میں خودساختہ جلاوطنی اِختیار کئے ہوئے متحدہ کے سربراہ الطاف حسین سمیت اُن کی جماعت کے دیگر لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ’نائن زیرو‘ اَلطاف کا آبائی گھر ہے‘ جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا چھاپہ ناقابل تصور تھا اور یہی وجہ رہی ہوگی کہ قانون کو انتہائی مطلوب افراد اِس مقام کو روپوش رہنے کے لئے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہوں گے۔

الطاف حسین کا یہ مؤقف کہ اُن کی آبائی رہائشگاہ پر کسی صورت چھاپہ نہیں مارا جانا چاہئے تھا ایک غیرمنطقی بات ہے کیونکہ عرصہ دراز سے اُن کی رہائش گاہ پارٹی کے صدر دفتر کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور وہاں ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں پارٹی کارکنوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کسی شخص کی رہائشگاہ ہونے جیسا ماحول ہمیں نائن زیرو میں دکھائی نہیں دیتا جہاں ملک کی اعلیٰ شخصیات دورہ کرتی رہتی ہیں اور وہیں متحدہ و دیگر جماعتوں کے درمیان باضابطہ ملاقاتیں اور خیرسگالی کے دوروں کے مواقعوں پر استقبالیہ تقاریب کا انعقاد بھی ایک معمول کی بات رہی ہے۔ متحدہ تو اِس بات کا تذکرہ اپنے لئے فخر اور اعزاز سمجھ کر کرتی رہی ہے کہ اُن کے صدر دفتر (نائن زیرو) ملک کے صدور‘ وزیراعظم‘ گورنر صاحبان‘ وزرائے اعلیٰ اور انتہائی اہم شخصیات بشمول سفارتکار آتے رہے ہیں۔ 1990ء سے 2002ء کے دوران ابھرنے والی پارلیمانی طاقت کے طور پر متحدہ قومی موومنٹ کراچی و حیدر آباد کے شہری علاقوں میں اپنے حمایتی رکھتی ہے اور اِسی حمایت کے بل بوتے پر وہ عام انتخابات میں نشستیں حاصل کرکے قانون سازایوانوں میں اپنی اہمیت جتاتی رہی ہے‘ جس کی بناء پر سندھ میں حکومت سازی کرنے والی سیاسی جماعتوں اور مرکز اور اُن سے ہاتھ ملانا ہی پڑتا تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بارے میں یہ تاثر عام ہوا کہ وہ زیادہ عرصہ اقتدار سے الگ نہیں رہ سکتی یعنی متحدہ ایک ایسی جماعت ہے جو ہرحال میں اقتدار کا حصہ رہنی چاہتی ہے۔ اِس تاثر کو تقویت متحدہ کی مختلف سیاسی ادوار میں حکومت کا حصہ بننے اور الگ ہونے کے پے در پے واقعات ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا فوج دور حکومت متحدہ قومی موومنٹ کے لئے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوا‘ جب اُنہوں نے کراچی کی تعمیروترقی کے لئے مالی وسائل فراہم کئے اور اُس وقت متحدہ سے تعلق رکھنے والے مصطفی کمال میئر تھے‘ لیکن متحدہ نے مخلوط حکومتوں کے ساتھ بھی اتحاد کرکے فوائد اُٹھائے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ مفادات کے حصول کے لئے ملنے والا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے معاملات کی براہ راست نگرانی الطاف حسین کرتے ہیں جو 1992ء سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور جب گیارہ مارچ کی الصبح عزیزآباد کراچی کے علاقے میں واقع ’نائن زیرو‘ نامی مکان پر رینجرز نے چھاپہ مارا تو اِس بات پر متحدہ کی مرکزی و مقامی قیادت کو کتنا دھچکا لگا ہو گا‘ اِس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔18 مارچ 1984ء میں جب سے الطاف حسین نے سیاست کا آغاز کیا‘ اُن کی زندگی میں کئی ایک ایسے لمحات آئے جب انہیں انتہائی غیض و غضب میں مبتلا پایا گیا اور کئی ایک مواقعوں پر انہوں نے جارحانہ طرز مخاطب کی بجائے مصالحت آمیز رویہ بھی اختیار کیا جبکہ اُنہیں اپنی پوزیشن قدرے کمزور دکھائی دی۔ گیارہ مارچ کے چھاپے سے متعلق اُن کا ابتدائی ردعمل یہ سامنے آیا کہ رینجرز حکام برآمد کیا گیا اسلحہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ بعدازاں اُن کی جماعت کے اراکین یہ دعویٰ کرنے لگے کہ جو اسلحہ برآمد کیا گیا ہے وہ لائسینس یافتہ ہے اُور اسے ’نائن زیرو‘ کے مقام پر حفظ ماتقدم کے طور پر چھپا کر رکھا گیا تھا کیونکہ اُنہیں عسکریت پسندوں کے حملوں کا خطرہ لاحق ہے۔ متحدہ کی جانب سے پولیس کو 105 اسلحہ لائسینس دیئے گئے ہیں اور ان میں سے بہت سا اسلحہ متحدہ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے ناموں پر ہیں۔ اس مرحلے پر یہ سوال اُٹھایا جاسکتا ہے اگر یہ اسلحہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹرز کے ناموں پر رجسٹرڈ ہے تو پھر کی رہائشگاہوں پر کیوں نہیں رکھا گیا اور اسے ’نائن زیرو‘ میں کیوں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ کیا جن لوگوں نے یہ اسلحہ اپنے ناموں پر لائسینس کروایا تھا اُنہیں حفاظت کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ صورتحال ہمیں ماضی کی ایک حکومت کی غیرمحتاط حکمت عملی کا پتہ دیتی ہے جبکہ جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اسلحہ لائسینس جاری کئے گئے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے کا ’نائن زیرو‘ پر چھاپے سے صرف اسلحہ ہی نہیں بلکہ کئی ایک انتہائی مطلوب افراد بھی گرفتار ہوئے جن میں صولت مرزا بھی شامل تھے۔ اپنی پھانسی سے قبل اُن کے اعتراف جرم پر مبنی ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا اور متحدہ کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی مچھ جیل میں سزائے موت کا انتظار کرنے والے صولت مرزا کی ویڈیو غیرقانونی طورپر بنائی گئی لیکن پاکستان جیسے ملک کی جیلوں میں اِس سے کئی گنا زیادہ انہونی قسم کے واقعات دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔

کراچی کے موجودہ حالات سے اگر سیاست کو الگ کرکے دیکھا جائے تو سردست ضرورت صوبہ سندھ میں غیرجانبدار گورنر تعینات کرنے کی ہے۔ درحقیقت دیگر صوبوں میں بھی گورنروں کی تبدیلی اور اُن کی جگہ غیرجانبدار و اچھی ساکھ رکھنے والوں کو تعینات کیا جانا چاہئے لیکن گورنر سندھ کی فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عشرت العباد گذشتہ 13 برس سے گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اِس عہدے پر جوں کے توں برقرار رہیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اُن کے حوالے سے منظرعام پر آنے والے حقائق اور صولت مرزا کے بیانات کے بعد وہ اپنے عہدے سے ازخود مستعفی ہونے کا اعلان کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور پاکستان میں طاقت کے جملہ مراکز بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں گورنری کے عہدے سے علیحدہ کرنے کی بجائے وہ خود مستعفی ہو جائیں۔ سالہا سال سے عشرت العباد الطاف حسین اور پاکستان کی دیگر متعلقہ سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطہ کار کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی اِس عہدے پر برقرار ہیں لیکن چونکہ اب ایسے سیاسی رابطوں کی اہمیت وضرورت باقی نہیں رہی لہٰذا اُن کے بطور گورنر سندھ عہدے پرفائز رہنے کاکوئی منطقی جواز بھی دکھائی نہیں دیتا۔

پاکستان میں انتظامی و سیاسی عہدوں کو اپنی ذات کے محور سے باندھنے میں سب سے زیادہ منفی کردار آصف علی زرداری نے ادا کیا‘ جنہوں نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن ہوتے ہوئے ملک کے صدر کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا اور ایوان صدر کے وسائل کو جماعتی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا۔ اُن کے مقرر کردہ گورنروں کی اکثریت بھی سیاسی وابستگیاں رکھتی تھی جنہوں نے اپنے عہدوں و ذمہ داریوں سے انصاف برتنے کی بجائے اپنی اپنی سیاسی جماعت کی قیادت سے تعلق اور اُن کی خواہشات کی تکمیل کو زیادہ مقدم رکھا۔ پاکستان میں جہاں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ سیاست اور جرائم کے درمیان تعلق کا خاتمہ ہونا چاہئے وہیں یہ اِس روایت کے خاتمے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ سیاسی کردار ملک کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر عوام کی بے لوث خدمت اور آئین کے مطابق ملک چلانے میں اپنی تمام تر توجہ اُور حکمت و دانش سے کام لیں۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
Post riad Karachi

Mar2015: Valued reforms in Health

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بامعنی اِصلاحات
صحت و تعلیم کے شعبوں میں ’اَیک سے بڑھ کر ایک‘ سنگ میل عبور کرنے والی خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری علاج گاہوں کے قیام جیسے بنیادی مقصد کی تکمیل کر دی ہے اور شام کے اُوقات میں ہسپتالوں سے اِستفادہ کرنے والوں کے لئے طبی سہولیات میں وسعت کا مرحلہ وار فیصلہ کیا ہے جس سے چھوٹے بڑے سبھی اَضلاع مستفید ہوں گے۔اٹھائیس مارچ کو ایبٹ آباد میں مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت شہرام تراکئی نے ’صحت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات اُور اُس عزم کی تجدید کی‘ جو تحریک انصاف نئے خیبرپختونخوا کی تشکیل کے لئے رکھتی ہے۔ اِس موقع پر تحریک اِنصاف کے قائدین بشمول رکن قومی اِسمبلی ڈاکٹر محمد اَظہر خان جدون اُور صوبائی وزیراطلاعات مشتاق اَحمد غنی بھی موجود تھے‘ جنہوں نے مختلف مواقعوں پر تحریک انصاف کے اصلاحاتی ایجنڈے کے خدوخال پر روشنی ڈالی۔

صحت کے حوالے سے نئی حکمت عملی کے تحت نجی شعبے سے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جس کے تحت شام کے اوقات میں ہر ہسپتال کی ’اُو پی ڈی‘ دو میڈیکل آفیسرز اُور اُن کی نگرانی کرنے والے سینیئر ڈاکٹر (ایسوسی ایٹ پروفیسر) کے سپرد ہوگی جو میڈیکل‘ سرجیکل‘ ماں اور بچے کی صحت سے متعلق شعبوں میں طبی سہولیات فراہم کریں گے۔ اس سلسلے میں متعلقہ ہسپتال لائحہ عمل ارسال کریں گے اُور اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ عمل ’سرخ فیتے‘ کی نذر نہیں ہوگا۔

خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات کو وسعت دینا حکمراں جماعت ’تحریک انصاف‘ کے انتخابی منشور کا حصہ تھا‘ جس پر اگر حسب اعلان اور بروقت عمل درآمد ہو جاتا ہے‘ تو اس سے ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہوجاتی لیکن دیر آئد درست آئد‘ اگر تعلیم کے بعد صحت کے شعبے میں اصلاحات عملی طور پر دیکھنے میں آتی ہیں تو یہ اقدام موجودہ حکومت کو ’سرخرو‘ کرنے کے لئے کافی ہو گا جو پہلے ہی کافی وقت‘ سرمایہ اور انتظامی وسائل نظام کو سمجھنے اور انتخابات میں ہوئی دھاندلی کو منوانے کی نذر کرچکی ہے کیونکہ صحت و تعلیم کے دو شعبوں کی زبوں حالی کے سبب عام آدمی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور یہی ہر دور حکومت میں چلینج رہا ہے لیکن جس ایک بات پر سب سے کم توجہ دی گئی وہ ’سہولیات کا معیار‘ ہے اور اِسی تسلی بخش معیار کے لئے نجی علاج گاہوں سے رجوع کرنے کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اِدارے اُور علاج گاہوں میں موجود جدید سے جدید سہولیات بھی ناکارہ کر دی گئیں جبکہ نجی شعبے میں کم سے کم سہولیات سے بھی بھرپور اِستفادہ ہونے لگا۔ جب تک صحت و تعلیم سے ایسے عناصر اور غالب سوچ نتیجہ کی تطہیر نہیں کی جاتی جو سرکاری وسائل کی لوٹ مار کو جائز تصور کرتا ہے‘ اُس وقت تک اصلاحات معنی خیز نہیں ہوں گی اور ایک خاص سیاسی طبقہ موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کے لئے الگ سے فعال ہے‘ جن کی حرکتوں پر خندہ زنی کی بجائے سخت گیر معاملہ کرنا ہوگا۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ سرکاری علاج گاہیں سرشام ویران جبکہ نجی علاج گاہیں سورج غروب ہونے سے پہلے ہی آباد ہو جاتی ہیں۔ طب کے مقدس پیشے سے وابستہ افراد کی حرص و طمع کے باعث کم مالی وسائل رکھنے والوں سے شفایابی کا حق بھی چھین لیا‘ جس کا فائدہ غیرمستند معالجین اور ادویات ساز اداروں نے خوب اُٹھایا۔ اُمید ہے سرکاری ہسپتالوں کے معاملات اور سمت درست کرنے کے بعد ایسے غیرمستند معالجین‘ تجزیہ گاہوں اور اَدویہ فروشوں کے خلاف بھی قواعد کے مطابق کاروائی کی جائے گی‘ جو عام آدمی کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت جس انداز میں نپی تلی ترقیاتی حکمت کو آگے بڑھا رہی ہے‘ اُس کی باریکیوں کا ادراک تجربہ کاروں اور پارلیمانی اَمور کے تجربہ کار سیاسی کھلاڑیوں کو بھی نہیں ہو رہا جو واویلا کر رہے ہیں کہ ترقیاتی بجٹ خرچ کرنے میں حکومت کی نااہلی ثابت ہوئی ہے حالانکہ معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ ماضی میں ترقیاتی حکمت عملیاں تشکیل و مرتب کرنے والوں کے نجی کاروباری مفادات اِنہیں منصوبوں پر منحصر ہوتے تھے اور اِسی بنیاد پر ہر انتخاب میں سرمایہ کاری کی جاتی تھی کہ کامیابی کے بعد ’کل خرچ بمعہ خطیر منافع‘ کما لیا جائے گا لیکن کئی ایک مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا خاتمہ یکے بعد دیگرے کرنے میں جس تحمل‘ بردباری اُور مستقل مزاجی سے کام لیا گیا‘ اُس میں احتیاط کو غیرضروری اہمیت دی گئی اور یہی سبب تھا کہ مخالفین کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ہاتھ آیا۔ یقیناًبدعنوانی سے پاک اور روائتی ترقی کی بجائے اصلاحاتی ترقی کے عمل سے مثبت نتائج اگرچہ فوری نہ سہی لیکن عیاں ضرور ہوں گے۔ جیسا کہ ہسپتالوں اور تعلیمی اِداروں میں معالجین و اَساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے ’بائیو میٹرک سسٹم‘ متعارف کرایا گیا ہے اور اب ملازمین کی وقت پر حاضری و رخصتی کے اوقات میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر قابو پانا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا لیکن یہاں ایک مسئلہ آمدنی کے وسائل کی غیرمنصافانہ و غیرعادلانہ تقسیم کا بھی ہے جو وفاقی معاملہ ہے اور اگر صوبائی حکومت اپنے طور پر بہتری کے لئے جس قدر اقدامات بھی کرلے‘ اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

مثال کے طور پر مالی سال 1994-95ء کے دوران ملک کی 20فیصد آبادی ایسی تھی جو کم ترین آمدنی رکھنے والے بیس فیصد افراد سے دوگنا زیادہ کما رہی تھی لیکن آمدنی کا یہ فرق مالی سال 2010-11ء میں بڑھ کر تین گنا ہوگیا اور ہر مالی سال اِس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کو حاصل ہونے والی کل آمدنی میں محصولات (ٹیکسوں) وصولیوں کا حجم 10 فیصد ہے‘ جس کا بڑا حصہ براہ راست ٹیکسوں کی صورت ایسے طبقات سے سے وصول کیا جا رہا ہے‘ جن کی قوت خرید ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔

اُمید کی جا سکتی ہے کہ چھبیس مارچ کو صوبائی سطح پر 40 ارب روپے سے زائد کی جس ترقیاتی حکمت عملی کی منظوری دی گئی اس میں صحت‘ تعلیم‘ ثانوی اعلیٰ تعلیم‘ بلدیاتی نظام‘ توانائی‘ آبپاشی اور مواصلات کی ترقی کے ساتھ‘ معاشی انصاف‘ آمدنی کے لحاظ سے ٹیکسوں کی منصفانہ وصولی پر غور‘ غربت کے خاتمے اُور خیبرپختونخوا میں روزگار کے ’پائیدار مواقع‘ پیدا کرنے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ زرعی شعبہ بالخصوص جنوبی اَضلاع میں تیلدار اَجناس کی کاشتکاری سے متعلق تحقیق اور اس سلسلے حکومتی سرپرستی کی اَشد ضرورت ہے‘ تاکہ اصلاحاتی کوششیں زیادہ مفید و بامعنی بنائی جا سکیں۔
Valued and much awaited reforms in health sector of KP

Saturday, March 28, 2015

Mar2015: TRANSLATION Lessons of history

Lessons of history
تاریخ کے اَسباق
کیا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے؟ کیا اس میں اسباق بھی پوشیدہ ہوتے ہیں؟ جی ہاں لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ میں پوشیدہ اَسباق کو زیادہ قابل غور نہیں سمجھتے لیکن تاریخ اپنے آپ کو اِس صورت میں دہراتی ہے کہ جب ایک جیسے محرکات اور وجوہات و اسباب بار بار پیدا ہوتے ہیں تو ان سے حاصل شدہ نتائج بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور اسی عمل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔‘‘ معروف سائنسدان آئن سٹائن نے خوب کہا تھا کہ ’’خالق کائنات نے اِس زمین کے فیصلے یہیں پر رونما ہونے والے عوامل میں پوشیدہ کر دیئے ہیں اور وہ کسی بھی معاملے بھی مداخلت نہیں کرتا۔ انسان اپنی آبادی اور بربادی کے لئے خود ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘

انسان کی معلوم تاریخ ایسے واقعات سے بھری پھری ہے‘ جن کے کردار تو بدل جاتے ہیں لیکن ایک جیسے واقعات اپنے آپ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وجوہات و اسباب نہیں بدلتے۔ یہی کارخانۂ قدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی بھی شخص کسی ایک غلطی کو چاہے ایکبار یا بار بار دہرائے گا تو اُس کے نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوتے رہیں گے۔ پاکستان ایک پیچیدہ سیاسی و اقتصادی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ اِس بحران کے تانے بانے ہماری ماضی کی اُن غلطیوں سے جا ملتے ہیں‘ جن پر ہمیں کوئی پشیمانی نہیں اور جنہیں سمجھنے کی ہم نے تکلیف بھی گوارہ نہیں کی۔ کسی ایسے ملک کے حالات میں بہتری بھلا کیسے آ سکتی ہے جسے خود اپنے سودوزیاں کا احساس نہ ہو۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے تو اِیسا کرنے کے لئے کسی اضافی قابلیت و مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی آپ کے لئے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ کے ہر ایک واقعہ سے متعلق معلومات رکھیں۔

سابق سوویت یونین ہی کی مثال لیں جو آج ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اگرچہ اُس کے پاس ایک بڑی فوج اور ایک سے بڑھ کر ایک مہلک و جدید ہتھیار موجود تھے۔ وہ خلائی سفر سے لیکر سائنسی علوم کی گہرائیوں سے بھی آشنا تھا اور اُس کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا کیونکہ نہ تو معدنی وسائل کی کمی تھی کہ جس سے حاصل ہونیو الی آمدنی کے بل بوتے پر وہ اپنی جغرافیائی سرحدوں کو بڑھاتا چلا جاتا لیکن سوویت یونین کی اقتصادی صورتحال عدم توازن کا شکار ہو گئی جسے کیمونزم نہ بچا سکا جو سرمایہ دارانہ نظام کے لئے خطرہ تھا۔ سوویت یونین کے خزانے پر بوجھ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ اپنی فوج کا بوجھ نہ اُٹھا سکا۔ سوویت یونین کی فوج اور خفیہ معلومات جمع کرنے والے اداروں کا مالی بوجھ ہی اُسے لے ڈوبا۔ یہ حقیقت ہمیں بھی سمجھنی ہوگی کہ کسی ملک کی تعمیروترقی کے لئے اُس کے پاس بھرپور دفاعی وسائل ہونا کافی نہیں بلکہ ایسی معیشت و اقتصادیات کی ضرورت ہوتی ہے جو دفاع سمیت دیگر شعبوں میں ضروریات کا بوجھ اُٹھا سکے۔ اگر سوویت یونین کی شکل میں ہمارے سامنے اسباق موجود ہیں تو وہ یہ کہ جنگ کسی بھی صورت معیشت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اگر کسی معیشت کو مصنوعی طریقوں اُور سہاروں کے ذریعے اُٹھانے کی کوشش کی جائے تو یہ پائیدار حل نہیں ہوتا۔

برطانیہ پر نظر ڈالئے۔ ایک وقت تھا کہ جب برطانیہ کے راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مشرق سے مغرب تک کے ممالک پر اُس کی حکومت تھی لیکن آج کا برطانیہ چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مشتمل ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ برطانیہ یوں زوال پذیر ہوگا۔ اُس کے پاس ایک منظم فوج‘ ایک مضبوط افسرشاہی کا نظام اور صنعتی شعبوں میں ترقی کے وسیع امکانات موجود تھے لیکن وہ تبدیل ہوتے ہوئے سماجی و اقتصادی تقاضوں کو نہ سمجھ سکا۔ اُس کے ارباب اختیار تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مناسب حکمت عملیاں مرتب نہ کرسکے۔ پاکستان کے لئے برطانیہ کی صورتحال میں بھی سبق پوشیدہ ہے کہ اگر وہ جدت پسندی کی طرف مائل نہیں ہوتا‘ اگر وہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے تقاضوں کا ادراک نہیں کرتا تو محض اداروں کی مضبوطی اُس کے خاطرخواہ کام نہیں آ سکتی۔

ہمارے ہردلعزیز دوست ملک چین کی مثال بھی سب کے سامنے ہے جو کہ اگرچہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے لیکن اس نے محض اپنے شاندار ماضی پر فخر نہیں کیا اور صنعتی میدان میں جدید تقاضوں اور ضروریات کا احساس کرتے ہوئے اپنی افرادی قوت و وسائل کا دانشمندانہ استعمال کیا۔ چین نے ہمیشہ ہی سے تعلیم پر توجہ دی اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی ترقی کو پیش نظر رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس کے ہاں غربت کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے چلے گئے اور وہ ترقی جو انسانی و زمینی ترقی کے لئے ضروری تھی‘ حاصل ہوتی چلی گئی۔ چین میں اگرچہ شخصی آزادی پر پابندیاں عائد ضرور ہیں لیکن اُن کے فیصلہ سازوں نے جس انداز میں اپنے ملک کے لئے ترجیحات کا تعین کرکے ایک قابل عمل حکمت عملی مرتب کی ہے‘ اُس کے نتائج پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سے الجھنے کی بجائے اُن سے دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لئے کوششیں کرنی چاہیءں اور سب سے اہم ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ہم اپنے اِداروں کو مؤثر بنانے کے لئے اُن کی ترقی کے پر توجہ مرکوز کریں۔

(مضمون نگار نجی جامعہ فاسٹ این یو‘ پشاور سے بطور معلم وابستہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: محمد زیب خان۔ تلخیص وترجمہ: شبیر حسین اِمام) 
Lesson from history from The News dated March 28th, 2015
http://editorialst.blogspot.com/2015/03/translation-lessons-of-history.html

Mar2015: Involvement in Yemen as part of conspiracy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سازش خونریزی: ماضی و حال
وزیردفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ ’’(جمہوریہ) یمن فوجی کاروائی میں پاکستان کی فوجی حصہ نہیں لے رہی لیکن اگر سعودی عرب کی جغرافیائی حیثیت کو خطرہ لاحق ہوا‘ تو پاکستان دفاع کرے گا۔‘‘ پاکستان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا‘ جب سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ نے سعودی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ’’پاکستان اور مصر سمیت پانچ مسلمان ممالک یمن میں باغیوں کے خلاف جاری فوجی کاروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی کے بعد سعودی عرب نے یمنی حکومت کی مدد کے لئے فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ اِس کاروائی میں متحدہ عرب امارات کے تیس‘ بحرین کے پندرہ‘ کویت کے پندرہ‘ قطر کے دس اُور اُردن کے چھ جنگی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ایک طرف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ یمن کی لڑائی میں حصہ نہیں لے رہا لیکن دوسری جانب سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی کہہ رہی ہے کہ پانچ مسلم ممالک سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ امریکہ پہلے ہی خود کو اِس پورے معاملے سے الگ کر چکا ہے اور وہ درپردہ رہ کر جنگ کی حمایت و منصوبہ بندی کا حصہ تو ہے لیکن کھل کر سامنے نہیں آ رہا اور نہ ہی اپنے فوجی سب سے بڑے اقتصادی ساتھی کے دفاع کے لئے نہیں بھیج رہا۔ پاکستان سے زیادہ سعودی عرب سے امریکہ نے فائدہ اُٹھایا لیکن اُس کی فوجی مدد نہیں کررہا اور پاکستان کو بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر خدانخواستہ (ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر) مشکل گھڑی آئی تو امریکہ ساتھ نہیں دے گا۔

یمن کے انتہائی اہم شہر ’’مارب‘‘ میں جنم لینے والی بغاوت اس بات کی گواہ ہے کہ وہاں مغرب کی درپردہ حمایت سے نئی سازش کا آغاز ہوچکا ہے‘ جس کا مقصد ’’انصاراللہ‘‘ نامی تحریک کو کچلنا ہے۔ تقریباً دو ماہ قبل سے امریکہ اور سعودی عرب نے یمن میں ’’اصلاح پارٹی‘‘ کی حمایت شروع کر رکھی ہے۔ اصلاح پارٹی خود کو اخوان المسلمین کی شاخ قرار دیتی ہے۔ اس حمایت کا مقصد مارب کو صنعاء کے مقابل لاکھڑا کرنا ہے۔ یمن میں سعودی عرب اور مغربی ممالک کی مداخلت سے بحران مزید پیچیدہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کو یمن میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ سعودی عرب شروع دن سے یمن کے حالات سے فائدہ اٹھانے اور اپنی مداخلت کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔اس لئے کہ یمن کی آبادی کا بڑا حصہ اُس کے مخالف مسلک پر مشتمل ہے اور مزاحمتی تحریک کے حق میں بدلتے ہوئے حالات پر تشویش اس بات کا باعث بنی کہ آل سعود‘ علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کے ساتھ جنگ میں حکومت کا ساتھ دے۔اس کے علاؤہ یمن پر قبضہ اور اس سے قبل یمن کے بعض متنازعہ علاقوں کو سعودی عرب میں شامل کرنا‘ سعودی عرب کے ایجنڈے کا حصہ رہا ہے۔ سعودی ٹیلی ویژن نے کچھ عرصہ قبل ایک نقشہ نشر کیا تھا‘ جس میں سعودی عرب کے عزائم کا بخوبی پتہ چلتا ہے جس میں یمن کے علاقوں کو سعودی عرب کا حصہ دکھایا گیا تھا۔سعودی عرب نے ماضی میں یمن کے تین صوبوں عسیر‘ نجران اورجیزان پر قبضہ کر کے حالیہ برسوں میں انہیں عملی طور پر سعودی عرب میں شامل کر لیا۔دارالحکومت ریاض میں بیٹھے حکمرانوں نے ’حضر موت‘ نامی علاقے پر قبضہ کرنے کی بھی کوششیں شروع کیں۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی سازشیں صرف فوجی طریقے سے یمن کی سرزمین پر قبضے پر ہی ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ سعودی عرب نے یمن کے خلاف خلیج فارس تعاون کونسل کے منصوبے کے تحت اس ملک کو کمزور کرنے میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ پاکستان کے لئے دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ دوسروں کی جنگ اپنے ملک نہ لائے۔ ماضی میں اَفغانستان کے تلخ تجربے سے حاصل اسباق پر غوروفکر اور حاصل نتائج سے بہت کچھ سیکھنے‘ سمجھنے اور اپنے وسیع تر مفاد کو عزیز رکھنے کی ضرورت ہے۔

پس تحریر: سال 2014ء کے دوران فلسطین میں قدس کی غاصب اور جابر صیہونی حکومت کی جارحیت اور تخریب کارانہ کاروائیاں اس حد تک زیادہ تھیں کہ اقوام متحدہ نے سالنامہ جاری کرتے ہوئے سال گذشتہ کو فلسطینی عوام کے لئے ’’خونریز سال‘‘ قرار دیا۔ اس سلسلے میں مقبوضہ فلسطین میں انسانی امور کی ہم آہنگی کے دفتر (اوچا) نے اپنی رپورٹ میں جو قاہرہ دفتر سے جاری ہوئی میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی جان‘ آزادی اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1967ء کے بعد فلسطینیوں کے لئے 2014ء بدترین سال تھا۔

 8 جولائی کو صرف غزہ میں صیہونی حکومت کے پچاس روزہ حملے میں کم از کم 2 ہزار300 فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔اس کے علاؤہ فلسطینیوں کے 89ہزار رہائشی مکانات کو بھی نقصان پہنچا‘ جن میں سے پندرہ ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت پر مبنی پالیسی بدستور جاری ہے اور آئے دن فلسطینی علاقوں میں مظلوم فلسطینیوں کو خاک و خون میں غلطاں کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ صیہونی حکومت کے کردار اور رویئے سے دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی جارحیت کے لئے کسی بھی قانون کی پابند نہیں اورمغربی ممالک کی حمایت اور بین الاقوامی اداروں کی ڈرامائی خاموشی کی وجہ سے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے چشم پوشی اور بین الاقوامی کنونشنوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے اور عالمی برادری‘ اسرائیل کے خلاف اقدام کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف بین الاقوامی اداروں کے مختلف اجلاس اور اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے بیانات اور رپورٹوں سے دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کو ایک ایسی حکومت کا سامنا ہے جس کی بنیاد تشدد اور قتل و غارتگری پر استوار ہے۔

 بین الاقوامی حالات سے دکھائی دیتاہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کا موضوع بدستور ان اداروں کے ایجنڈے میں شامل ہے جبکہ صیہونی حکومت کی جارحیت پر عالمی سطح پر ہونے والے ردعمل سے دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل اپنی جارحیت پر پردہ ڈالنے یا رائے عامہ سے چھپانے میں نا کام رہا ہے اور اس کی جارحیتوں کو دنیا کے عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے۔اس قسم کی صورتحال میں عالمی برادری اپنے دوہرے معیار کی پالیسی سے ہٹ کر صیہونی حکومت کے خلاف مؤثر اور عملی اقدام کر سکتی ہے۔ اس لئے کہ رائے عامہ اور فلسطینی عوام عالمی برادری من جملہ علاقائی اور عالمی تنظیموں کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف سخت اقدامات کی توقع رکھتے ہیں تا کہ فلسطینی قوم کے خلاف تسلط پسندی‘ تشدد اور جارحیت کے خلاف عالمی عزم و ارادے کا مشاہدہ کیا جا سکے۔

Friday, March 27, 2015

Mar2015: Traffic Reforms for Highways

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
موٹروے آداب: اِحترام کے تقاضے
ہموار سڑکیں اُور آرام دہ برق رفتار سفری وسائل اِس بات کی ضمانت نہیں رہے کہ‘ سفری سہولیات بھی میسر ہوں گی کیونکہ ہماری ہاں ’کاروباری ذہنیت‘ ہرشعبے پر حاوی ہے اور راتوں رات امیر بننے کی حرص جہاں نچلے طبقے سے اِنتہائی اعلیٰ و بالا نفوس پر ’حاکم‘ دکھائی دیتی ہے وہیں سرکاری اہلکاروں سے وابستہ ’فرض شناسی‘ کی توقعات بھی پوری نہیں ہو رہیں اور نتیجہ ایک ایسی افراتفری کی صورت ظاہر ہو رہا ہے جس نے کمانے‘ بچانے اور خرچ کرنے والوں کا سکون غارت کر رکھا ہے۔ بین الصوبائی آمدورفت کے لئے ’نجی پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے اِستفادہ کرنے والوں کے مسائل میں ’سفری وسائل‘ کے ساتھ اِضافہ تشویشناک ہے چونکہ سفر کے لئے نجی ٹرانسپورٹرز پر اِنحصار کے سوأ کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی اور خالصتاً ذاتی منافع کی سوچ رکھنے والے اِس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ مسافروں کو کس قدر جسمانی و ذہنی سکون یا آرام میسر آ رہا ہے اور وہ کون کون سے عوامل‘ اسباب و محرکات ہیں جو مسافروں کے لئے کوفت و اذیت کا سبب بنے ہوئے ہیں!

حال ہی میں ’ایبٹ آباد سے لاہور‘ اور چند روز بعد ’لاہور سے ایبٹ آباد‘ سفر کرنے کے اِتفاق میں کئی ایک ایسے تجربات اور وارداتوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا‘ جن کا اِرتکاب قواعد کی موجودگی میں غیرمنطقی تھا۔ اِبتدأ اگر ’کرائے کی شرح‘ سے کی جائے تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ فی مسافر کرائے کے اَصول پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ گنجائش سے زیادہ مسافروں کو بٹھانے کی عمومی شکایت کا ازالہ اِس طرح کیا گیا ہے کہ سیٹوں (نشستوں) کے درمیان فاصلہ اِس حد تک کم کر دیا گیا ہے کہ گھٹنے پیٹ سے لگے رہتے ہیں۔ لمبی مسافت کی‘ بین الاضلاعی و صوبائی گاڑیاں جو بطور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال ہو رہی ہیں اِن میں ’سی این جی‘ سلینڈر نصب نہیں ہونے چاہیءں‘ جو محفوظ سفر کے نکتۂ نظر سے محفوظ و قابل بھروسہ نہیں۔ مسافر بسوں کو بطور ’کارگو‘ استعمال کرنے کی وجہ سے ہلکی گاڑیاں بھاری بنا دی جاتی ہیں جو نہ صرف ’شاہراؤں کی صحت‘ کے لئے مہلک ہیں بلکہ اشیاء کی غیرقانونی نقل و حرکت کا ذریعہ بھی ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان سے براستہ قبائلی علاقہ جات گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات پشاور پہنچتے ہیں جہاں سے انہیں ’براہ راست‘ ملک کے داخلی حصوں میں قائم ’آٹو مارکیٹیوں‘ تک پہنچانے کی بجائے پہلے چھوٹے اضلاع منتقل کیا جاتا ہے‘ جہاں سے مسافر بسوں کے نیچے بنے ہوئے خانوں میں لاد کر مطلوبہ مقامات تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پورے ملک میں استعمال شدہ ایسے فاضل پرزہ جات اُور ٹائر وغیرہ وافر مقدار میں مل جاتے ہیں‘ جن میں چوری شدہ گاڑیوں کے پرزے بھی شامل ہوتے ہیں۔ عجب ہے کہ موٹروے اور جی ٹی روڈ کا استعمال کرنے والوں کے لئے قواعد تو ایک جیسے ہیں لیکن ’موٹروے پولیس‘ کی ساکھ نسبتاً بہتر اور کارکردگی فعال دکھائی دیتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے ایک ہی جگہ‘ ایک ہی وقت میں دو الگ الگ شاہراؤں پر ایک جیسے ’ٹریفک قواعد‘ پر الگ الگ ترجیحات کے ساتھ کہیں کم اور کہیں زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنے والی بسیں ’موٹروے‘ کا استعمال نہیں کرتیں اور جی ٹی روڈ پر ٹریفک قواعد کے نگران اِس کھلم کھلا خلاف ورزی کا نوٹس نہیں لیتے۔کیا سبھی ڈرائیوروں کے پاس ’ڈرائیونگ لائسینس (اجازت نامے)‘ ہوتے ہیں؟ ایک ہی نمبر اور رجسٹریشن والی ایک سے زیادہ گاڑیاں ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے طور پر اِستعمال ہورہی ہیں اُور یہ بات ’ہائی وے ٹریفک پولیس‘ کے علم میں ہونے کے باوجود ’تجاہل عارفانہ‘ کا جواز مالی بدعنوانی کے سوا بھلا اُور کیا ہوسکتا ہے۔ کیا اِن سبھی اَمور کی اِصلاح ممکن نہیں‘ کیونکہ چند اَفراد ذاتی مفاد کے لئے قواعد پر عمل درآمد اور اِصلاحات کے پورے عمل کو ’بے معنی‘ بنائے ہوئے ہیں؟

موٹروے کا استعمال کرنے والی گاڑیوں میں تفریح طبع کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن سکرین کے ذریعے فلمیں‘ گانے‘ ڈرامے اُور اشتہارات نشر کئے جاتے ہیں‘ جس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر کچھ لوگ ’موسیقی کو روح کی غذا سمجھنے اور اِس پر بھروسہ کرنے کے مغالطے کا شکار ہیں‘ تو اُنہیں اپنے حال ہی میں رہنے پر کسی کو بھلا کیا اِعتراض ہو سکتا ہے لیکن جو مسافر موسیقی نہ سننا چاہیں‘ اُور تشدد و عشق معاشقے کے مناظر سے ’لبالب مواد‘ سے کسی وجہ سے طبیعت کو راغب نہ پائیں تو اُن کے لئے ’ہیڈفونز‘ کا الگ سے انتظام ہونا چاہئے اور ایسی مسافر بسوں میں فلمیں دکھانے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہئے جن کے پاس فی مسافر ہیڈفونز کی سہولت نہ ہو۔

یہ کوئی جواز نہیں کہ کسی گاڑی کے مسافر اگر اکثریت میں اِس بات پر اتفاق کریں کہ وہ بلند آواز میں بناء ’ہیڈفونز‘ فلم سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے کی اُنہیں (اکثریت کی بناء پر) اجازت دے دی جائے۔ جس طرح ٹریفک قواعد میں مسافروں کی فرمائش پر تیزرفتاری کی اجازت و گنجائش نہیں‘ اِسی طرح کسی بھی قسم کا نشریاتی مواد ہر کسی پر مسلط کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ’ہائی ویز پولیس‘ کے اہلکار اِس سنگین بے قاعدگی کا نوٹس لیں گے‘ جو اہل خانہ یا مریضوں کے ہمراہ سفر کرنے والوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی مسافر اپنے کسی عزیز کی میت یا بیماری کے لئے سفر کر رہا ہو‘ اُور وہ ذہنی طور پر شدید صدمے سے دوچار ہو‘ جس کے لئے موسیقی ایک مسلسل تشدد جیسا ظلم ہو! آخر ہم اُس کم سے کم اِنسانی سلوک (حسن خلق) کے تقاضوں اور (اَخوت‘ اِتحاد و یگانگت پرمبنی) احترام کے تقاضوں کا اِدراک کب کریں گے‘ جس میں اپنی ذات کے علاؤہ دوسروں کی سہولت و سکون کا خیال رکھنا بھی ’واجب‘ ہوتا ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ ۔۔۔’’کوئی شخص اُس وقت تک ’کامل مومن‘ نہیں ہوتا‘جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی (کچھ) پسند کرے‘ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)۔
Traveling in public transport using the highways never be exciting experience

Thursday, March 26, 2015

Mar2015: Power and transformers theft

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حوصلوں کا اِمتحان
ہر کوئی جلدی میں ہے۔ موسم سرما ابھی آیا نہیں تھا کہ بہار کی کونپلیں جاگ اُٹھی۔ بہار نے انگڑائی لی ہی تھی کہ دھوپ کی شدت برداشت سے باہر ہوگئی۔ میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رواں برس کس قدر گرمی متوقع ہے لیکن اِن موسمی تبدیلیاں اُس وقت برداشت سے باہر ہو جاتی ہیں‘ جن اِن سے نمٹنے کے دستیاب وسائل ناکارہ ہو جائیں۔ پنکھے چلنا بند ہوجائیں تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ موسم گرما اور صبروبرداشت میں اضافے سے روحانیت کی منزلیں طے کرنے والوں کو ایک اُور موقع ملنے والا ہے کیونکہ موسم گرما کا ابھی پوری طرح آغاز بھی نہیں ہوا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے حوصلوں کا امتحان لینا شروع کردیا ہے لیکن اِس مرتبہ ماضی کے مقابلے زیادہ سنگین صورتحال درپیش ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اوقات میں ’ٹرانسفارمر‘ چوری ہونے لگے ہیں۔ پشاور کے مضافاتی اور دور دراز علاقوں سے ایسی اطلاعات ملنا شروع ہو گئیں ہیں کہ ’ٹرانسفارمر چور گروہ‘ فعال ہو گئے ہیں جو طویل لوڈشیڈنگ کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اہل علاقہ اب برقی رو کے آنے جانے کے خوف سے نہیں بلکہ ٹرانسفارمر کی حفاظت کرنے کے لئے دونوں آنکھیں بند کرکے نہیں سوتے!

یوں تو خیبرپختونخوا میں انسانی جان ومال کا تحفظ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے لئے کئی ایک ادارے فعال ہیں لیکن بجلی ٹرانسفارمروں کی چوری ایک ایسا معمہ ہے‘ جس کی سمجھ آتی بھی ہے اور نہیں بھی آتی کہ آخر قانون نافذ کرنے والے ادارے کس کس کی حفاظت کریں۔ جس معاشرے میں سرکاری املاک و تنصیبات سے اِس قسم کا سلوک روا رکھا جائے وہاں بہتری کے صرف اور صرف دعاؤں پر انحصار ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ہمیں ہر معاملے میں غیرملکی سازش کی بو سونگھ لینے کی عادت ہے تو ایسی سوچ رکھنے والوں سے سوال ہے کہ آخر ٹرانسفارمر چوری میں کون سا بیرونی ہاتھ ملوث ہے؟

 درحقیقت ہم اپنے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے والوں میں شامل ہیں۔ کیا بجلی کا ٹرانسفارمر کوئی کھانے کی چیز ہے جسے چند افراد مل کر ہضم کر لیتے ہیں۔ اِس قدر وزنی اور بڑے حجم کا آلہ‘ جو عام گھریلو استعمال میں بھی نہیں آتا‘ جسے زمین سے کم از کم پانچ سے آٹھ فٹ بلندی سے صحیح سالم اُتارنے کے لئے کسی تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ موروثی علوم کا حصہ نہیں ہوتی۔ پھر یہ ٹرانسفارمر اگر مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے تو وہ کون سے عناصر ہیں جو اس گھناونے کاروبار میں شریک ہیں اور چوری شدہ مال کوڑیوں کے دام خرید کر بعدازاں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق ’’ٹرانسفارمروں کی چوری میں متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور اِس بارے میں مختلف زاوئیوں سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایسا نظام بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس میں دیہی علاقوں کی سطح پر نگرانی کی کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنے اپنے ٹرانسفارمروں کی نگرانی کریں لیکن سب سے بڑھ کر ہمیں ٹرانسفارمروں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والے اُن عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہوگا‘ جو ذاتی منافع کے لئے بڑے پیمانے پر قومی نقصان اور عوام کی تکلیف کا سبب بن رہے ہیں۔

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) حکام کو ’ٹرانسفارمروں کی چوری‘ پر حیرت نہیں کیونکہ گذشتہ کئی برس سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن حال ہی میں پشاور کے دیہی علاقوں میں اِس قسم کی چوریاں‘ باعث تشویش ضرور ہیں۔ یاد رہے کہ ماہ فروری کے دوران چمکنی‘ سکندرپورہ‘ ورسک روڈ‘ شاہی بالا اور تنگی سے آٹھ عدد بجلی کے ٹرانسفامر چوری ہوئے ہیں۔ پیسکو حکام کے مطابق بجلی کے ایک ٹرانسفارمر سے دوسرے ٹرانسفارمر تک کا فاصلہ پانچ سے دس کلومیٹر ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ ایک دوسرے سے اوٹ میں نصب ہوتے ہیں اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو ہر لمحے اِن ٹرانسفارمروں کی نگرانی بھلا کیسے ممکن ہو سکتی ہے بالخصوص رات کے اُن اوقات میں جبکہ دیہی علاقوں میں کئی گھنٹوں تک برقی تعطل معمول کا حصہ ہوتا ہے۔ چور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا فائدہ اُٹھا رہے اور اگر اِس مسئلے کا کوئی حل ہے تو وہ بس یہی ہے کہ بجلی کے تعطل کے دورانیئے میں کمی لائی جائے بصورت دیگر اِس قسم کی چوریاں روکنے کا کوئی دوسرا حربہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ بجلی کے ایک ٹرانسفارمر کی کل قیمت ایک لاکھ اسی ہزار سے سات لاکھ روپے تک ہوتی ہے جبکہ اس کے پرزہ جات دس ہزار سے بتیس ہزار میں فروخت ہوتے ہیں اور خیبرپختونخوا میں کم و بیش ساٹھ ہزار ٹرانسفارمر نصب ہیں! نگرانی کا عمل مؤثر بنانے‘ ہر شخص کو اپنے گردوپیش پر نظر رکھنے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے شعور اُجاگر کرکے بجلی ٹرانسفارمروں کی چوری کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

پس تحریر: پچیس مارچ کے روز ’لالہ امیر احمد صدیقی‘ کی رحلت سے پشاور کی صحافت اور اقدار بھری روایات کا ایک درخشاں باب اختتام پذیر ہوا ہے۔ اناللہ وانا علیہ راجعون۔ لالہ امیر صدیقی کی عمر 84برس تھی۔ 23 مارچ 1931ء نمک منڈی پشاور کے علاقہ میں پیدا ہونے والے لالہ امیر صدیقی کے پسماندگان میں سات بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اسلامیہ کالج و گورنمنٹ ہائی سکول نمبر تین پشاور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے قیام پاکستان سے قبل خیبرپختونخوا و قبائلی علاقہ جات میں پہلی ’نیوز ایجنسی‘ کی بنیاد رکھی‘ جو آج بھی فعال ہے۔ آپ انتہا درجے کے شفیق‘ نرم خو‘ خوش مزاج اور اقدار و روایات پسند تھے۔ اپنی مٹی کی محبت کے بناء تشہیر اسیر رہے اور یہی اہل پشاور کے اُن نفوس عالیہ کا کردار و عمل رہا ہے کہ وہ اپنی نجی و ذاتی ترجیحات میں بھی دوسروں کی بھلائی اور اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ آپ کے تین صاحبزادے لیئق احمد صدیقی (کالم نگار روزنامہ آج)‘ اِنتخاب امیر اور فائق امیر کا شمار جدید‘ فکری و معنوی صحافت کے پیشروں میں ہوتا ہے۔ لالہ امیر صدیقی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے‘ جنہوں نے مسلم لیگ سے اپنی نظریاتی وابستگی کوہمیشہ قابل فخر سمجھا۔ علالت کے سبب عرصہ دراز تک گوشہ نشین رہنے والے علم دوست و دانا لالہ امیر صدیقی پاکستان اور پشاور کی ترقی و سلامتی کے لئے ہمیشہ دعاگو پائے گئے۔ چھبیس مارچ کی صبح گیارہ بجے‘ ورسک روڈ کے علاقے خوشحال خان پارک (بابو گڑھی) سے آپ کا جنازہ ہزاروں اشکبار آنکھوں کی موجودگی میں اُٹھایا گیا۔ سیاست و صحافت کے شعبوں سے متعلق آپ کی خدمات‘ تادیر یاد رکھی جائیں گی۔
Electricity transformers theft in KP is another concern for PESCO officials

Wednesday, March 25, 2015

Mar2015 TRANSLATION Unjustice with FATA

Fata - the presidential order
قبائلی علاقہ جات: صدراتی حکمنامہ
جب بات قبائلی علاقوں سے متعلق امور کی آتی ہے تو وفاق کے زیرنگرانی اِن قبائلی علاقوں سے روا رکھا جانے والا سلوک بسااُوقات سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے جیسا کہ حال ہی میں سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں کے لئے انتخابات ہوئے اور اِس میں قبائلی علاقوں کی سینیٹ نشستیں بھی شامل تھیں تاہم ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے اِس انتخابی عمل کو معطل کر دیا گیا اُور بعدازاں جب معاملہ عدالت تک جا پہنچا تو پہلے حکمنامے کو ختم کرکے دوسرا حکمنامہ جاری کر دیا گیا۔ اِس پوری کہانی سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ کس طرح اسلام آباد قبائلی علاقوں کو اپنی سیاست و دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے مسائل کے حل اور وہاں تعمیر و ترقی کے عمل میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لے رہا۔

سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت (ہارس ٹریڈنگ) کے معاملے کو کچھ اِس طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے جوڑا گیا کہ جیسے دیگر علاقوں اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اِس پورے گھناؤنے فعل میں شریک ہی نہ ہوں بلکہ صرف اور صرف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی ہی اپنی تائید فروخت کر رہے ہوں۔ حقیقت یہ تھی کہ ہر رکن قومی اسمبلی اپنی اپنی استعداد اور تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سینیٹ ووٹ کے عوض کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ ایک فطری عمل بھی تھا کہ ووٹ تو بہرحال کسی نہ کسی کو تو دینا ہی تھا لیکن اگر اس کے عوض کچھ مل جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ آخر ہم کیوں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ پاکستان میں اصول کی سیاست دفن ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ پاکستان میں پیسے کی طاقت سے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کا حصہ بننے کی روایت رہی ہے اور یہ روایت صرف سینیٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ عام انتخابات کے موقع پر بھی ہمیں دولت کے کرشمے دکھائی دیتے ہیں تو جب یہ ساری قباحتیں موجود ہیں اور اِس بدعنوانی کے جملہ امکانات موجود ہیں تو پھر ساری کی ساری انگلیاں صرف اور صرف قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے اراکین کی جانب کیوں اُٹھائی گئیں؟

کیا ’ہارس ٹریڈنگ‘ اصل مسئلہ ہے یا پھر کچھ ایسا بھی ہے جو حقیقت میں بہت ضروری ہے اور اسے خطرات لاحق ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت یہ چاہتی تھی کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اُن کے نامزد اُمیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں لیکن جب اُنہیں خطرہ محسوس ہوا کہ ایسا نہیں ہوگا تو حکومت نے اُنہیں ووٹ دینے کے عمل ہی سے الگ کر دیا اور پولنگ سے چند گھنٹے قبل ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے قبائلی علاقوں کے نمائندوں سے ایک اُور امتیازی سلوک کیا گیا اور جب سینیٹ کے لئے چیئرمین کا معاملہ طے ہوگیا تو سینیٹ کے لئے قبائلی علاقوں کے مختص سینیٹروں کو ووٹنگ کا حق ’جوں کی توں‘ حالت میں دے دیا گیا۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا‘ کہ سینیٹ انتخابات کے لئے حالات کو موڑا توڑا گیا ہو۔ یادش بخیر 1948ء میں بھی جب یہ فیصلہ گیا کہ انگریز بہادر کی جانب سے 1901ء میں ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ( ایف سی آر )‘ مسلط کردہ نظام کو جاری و ساری رکھا جائے۔ قبائلی علاقے کے عوام کو ایک مسلط کردہ نظام کے تحت ہی رہنے دیا گیا اُور قبائلی علاقوں کے لوگوں سے معاملہ منتخب نمائندوں کی بجائے سرکاری ملازمین کے ذریعے کیا جائے۔ ایف سی آر کے قواعد مسلط رکھے جانے سے قبائلی عوام کے حقوق غصب ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب پاکستان کی تخلیق ہوگئی تو انگریز کا مسلط کردہ قانون ختم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اُور جب قبائلی عوام کے نمائندوں نے پشاور میں بانی پاکستان سے ملاقات کی تو اُس ملاقات کو یہ رنگ دیا گیا کہ قبائلی نمائندوں نے ایف سی آر نظام کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا جو کہ سچ نہیں تھا۔ میرے ذاتی علم کے مطابق اُس وقت جن قبائلی عمائدین کو نمائندہ بنا کر قائد اعظم سے ملاقات کرنے کا شرف دیا گیا تھا اُن کا انتخاب افسرشاہی نے کیا تھا اور اُنہی نے اُن کے آنے جانے‘ کھانے پینے اور رہائش کے جملہ اخراجات ادا کئے تھے۔ یہ وہی افسرشاہی تھی جس نے قائداعظم سے قبائلی نمائندوں کی ملاقات کا ایجنڈا اُور پھر خود ہی اُس کا خلاصہ بھی طے کیا۔

پھر 1973ء کا آئین بنا تو بھی قبائلی علاقوں کو الگ رکھا گیا کہ جہاں کے رہنے والے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری حقوق سے محروم تھے اور محروم ہی رہے۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل نمبر 247(7) رکھنا سب سے بڑی ناانصافی تھی‘ جس سے قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کا آئینی استحصال ہوا۔ آئین کی اس مذکورہ شق کے تحت قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے معاملات پارلیمنٹ میں نہیں اُٹھائے جاسکتے جبکہ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تو قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اِس حق سے بھی محروم کر دیا گیا کہ وہ اپنے علاقوں کے گورنر بن سکیں! ترمیم میں کہا گیا کہ ’’ہر صوبے کا گورنر ہوگا‘ جس کا انتخاب صدر وزیراعظم کی سفارش سے کرے گا اور وہ گورنر متعلقہ صوبے کا ووٹر اور وہاں کا رہائشی ہوگا۔‘‘ چونکہ خیبرپختونخوا کا گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے اور اُسی کے ذمے قبائلی علاقوں کے امور بھی ہوتے ہیں اس وجہ سے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں کے رہنے والوں سے یہ حق بھی چھین لیا گیا کہ وہ اپنوں میں سے کسی کو گورنر بنا سکیں۔

کیا قبائلی علاقوں کے رہنے والوں سے اِس سے بڑا کوئی دوسرا مذاق ہو سکتا ہے کہ اُن پر دوسرے تو حاکم مقرر ہوسکتے ہیں لیکن وہ اپنے علاقوں کے خود حاکم نہیں بن سکتے! ضرورت اِس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں کے معاملات کا نگران گورنر کا تعلق بھی قبائلی علاقوں ہی سے ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں ایک صدارتی حکمنامے کی ضرورت ہے جس سے قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو کم از کم یہ حق تو ملنا چاہئے کہ وہ اپنے فیصلوں میں خودمختارہوں۔

قبائلی علاقوں کے مسائل کے حل کی صورت یہی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں کو سنا جائے‘ انہیں فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کیا جائے اور مزید جانی و مالی نقصانات اور ترقیاتی عمل ککے لئے مختص مالی وسائل کی خردبرد کے قبائلی علاقے قبائلی عوام ہی کے کنٹرول (گورنرشپ) میں ہونے چاہیءں۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایاز وزیر۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Tuesday, March 24, 2015

Mar2015: Insufficient reforms in education

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ تعلیم: جزوی اِصلاحات!
ماضی کی اُن تلخ یادوں کو بھلا کیسے کھرچ کھرچ کر ذہن سے مٹایا جاسکتا ہے‘ جب منتخب نمائندے برسراقتدار آنے کے بعد اپنے سیاسی ہم خیالوں میں ملازمتیں بانٹا کرتے تھے۔ تب سرکاری ملازمت سیاسی رشوت کا حصہ بھی ہوا کرتی تھی اُور یہ بات غیرتحریرشدہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ہردلعزیز اور عوامی ہونے کے دعویدار ایک وزیراعلیٰ ایسے بھی گزرے ہیں‘ جن سے ملاقات کے لئے جانے والوں کو سرکاری ملازمت کا تقررنامہ جس پر نام اور ولدیت وغیرہ سے متعلق کوائف درج نہیں ہوتے تھے تھما دیا جاتا لیکن کوئی مانے یا نہ مانے اُور اعتراف حقیقت کرے یا نہ کرے یعنی کوئی بولے یا نہ بولے‘ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے اگر اُور کچھ بھی نہیں کیا لیکن سرکاری ملازمتوں کو اہلیت سے ضرور مشروط کر دیا ہے بالخصوص محکمہ تعلیم میں ملازمت کے لئے ہر اُمیدوار کو اب ’نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس)‘ کے امتحانی مرحلے سے لازما گزرنا پڑتا ہے اور اہلیت کی فہرست بھی ’این ٹی ایس امتحان‘ میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر مرتب ہوتی ہے‘ جس کی شفافیت پر اُنگلی تک نہیں اُٹھائی جاسکتی۔

 یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے اب تک 5 ہزار 115 اساتذہ کو ملازمتیں دی ہیں‘ جن میں پرائمری‘ سیکنڈری کلاسیز کے اساتذہ‘ فزکس‘ تھیالوجی‘ عربی زبان اور قاری کے عہدوں کے لئے اساتذہ شامل ہیں۔ ضلع پشاور کے ایجوکیشن آفیسر شریف گل کے بقول ’’بھرتیوں کے اِس نئے نظام سے محکمۂ تعلیم میں سیاسی مداخلت کے دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔‘‘ اَساتذہ کی نمائندہ تنظیم ’آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر خالد خان بھی حکومتی اقدامات کی ستائش کرتے ہیں کہ اِس سے اساتذہ کی محکمانہ ترقیاں خودکار نظام کے تحت بناء سفارش ممکن ہو گئیں ہیں لیکن اِس مرحلۂ فکر پر چندایک سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں۔ اگر ہمارے پاس قابلیت جانچنے کا معیار اُور کسوٹی ’این ٹی ایس‘ ہی ہے تو پھر ’تعلیمی بورڈز‘ کس مرض کی دوا یا علاج ہیں اور آخر کیا وجہ ہے کہ کسی بھی ضلع کے تعلیمی بورڈ کا نتیجہ طلباء و طالبات کی اہلیت جانچنے کے لئے کافی و کلی معیار نہیں رہا۔ دوسری اہم بات امتحانی نظام سے جڑی روائتی خرابیاں ہیں‘ جنہیں اصلاحاتی عمل کی بھٹی سے گزارنے کی بجائے ’جراحت‘ کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے یعنی سرطان (کینسر) زدہ حصے کو جسم سے علیحدہ کرنے کی حکمت عملی اپنائیگئی ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ امتحان جتنا بڑا ہوتا ہے‘ بدعنوانی بھی اُسی تناسب سے رواج پا جاتی ہے اور ہمارے امتحانی نظام کو ’تباہ‘ کرنے کے خالص ملزم وہ گنے چنے نجی ادارے ہیں جو شہرت کے دلدادہ اور بہتر سے بہتر نتائج دینے میں اپنا ریکارڈ برقرار رکھنے کے لئے امتحانی مراکز کا سودا کر لیتے ہیں۔ بدعنوانی کا امکان باقی رکھنا درحقیقت بدعنوانی کے عمل میں شریک ہونا ہی ہے‘ کیونکہ جنہیں اختیار ملا ہے‘ اُنہیں فرصت نہیں اور جنہیں ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ اُنہیں فرصت ہی فرصت ہے! بات صرف مڈل یا میٹرک امتحانات میں نقل تک محدود نہیں بلکہ اِنٹرسے لیکر ’ایم بی بی ایس‘ جیسی اعلیٰ اسناد کا حصول اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے نجی اداروں میں مقابلہ خرابی کی جڑ ہے جس کی وجہ سے امتحانی مراکز کے نگران عملے اور اُن پر نگرانوں کے نگرانوں تک کو بہرقیمت و بہرصورت خرید لیا جاتا ہے۔ اِس پورے عمل میں اگر کوئی رکاوٹ کہیں آتی بھی ہے‘ تو اُسے ’نظام کو بچانے‘ کے لئے روند دیا جاتا ہے اور ایسے باضمیر سرکاری ملازمین (مرد و خواتین) کی مثالیں موجود ہیں‘ جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا تو آئندہ برس اُنہیں نجی تعلیمی اداروں کے امتحانی مراکز کی ذمہ داریاں ہی نہیں دی گئیں بلکہ کئی ایک کے تو نام ہی فہرست سے خارج کر دیئے گئے۔ تجویز ہے کہ جس طرح صوبائی حکومت نے محکمۂ تعلیم میں ملازمت کے لئے ’این ٹی ایس‘ کی شرط لازم کر دی ہے‘ اِسی طرح امتحانات میں بطور نگران مقرر کرنے کے لئے برسرملازمت اہلکاروں کی بجائے ایک نئی فورس بنائی جائے جس کا چناؤ بھی ’این ٹی ایس‘ ہی کے ذریعے ہو‘ اور جس کے جتنے زیادہ نمبر آئیں‘ اُنہیں اُتنے ہی اہم و نجی اداروں کے امتحانی مراکز پر تعینات کیا جائے۔ اِسی ’تعلیمی نگران فورس‘ کے ذریعے سال کے باقی ماندہ ایام میں ’نجی تعلیمی اداروں‘ میں درس و تدریس کی سہولیات پر نظر رکھی جائے۔ اچانک چھاپے مارے جائیں اور دیکھا جائے کہ کہیں کلاسوں میں مقرر کردہ تعداد سے زیادہ طالب علموں کو تو نہیں ٹھونسا گیا۔ کہیں ’معیاری تعلیم‘ کے نام پر والدین کی مجبوری کا ناجائز فائدہ تو نہیں اُٹھایا جارہا۔ کیا نجی تعلیمی ادارے اپنے ملازمین بالخصوص خواتین اساتذہ کو وہی تنخواہیں ادا کررہے ہیں‘ جن کا سالانہ اخراجاتی میزانیئے میں ذکر کیا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھاجائے کہ نجی تعلیمی ادارے کم سے کم تنخواہ دینے کے حکومتی قانون پر عمل درآمد کر رہے ہیں یا نہیں۔ کیا نصاب کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں اور جن سکولوں یا کالجوں میں سائنس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں کیا اُن کے پاس تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) اور متعلقہ شعبوں میں خاطرخواہ تعلیم اور تدریسی تجربہ رکھنے والے اساتذہ و معاونین پر مشتمل عملہ بھی موجود ہے یا نہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کے سب سے زیادہ ملازمین کا تعلق محکمۂ تعلیم سے ہے گویا تعلیم کا ’روزگار (ایمپلائمنٹ) کا ذریعہ‘ بنا دیا گیا تھا‘ جس کی اصلاح آئندہ کے لئے تو عملاً ممکن بنا دی گئی ہے لیکن جو اساتذہ محض سیاسی و ذاتی تعلق کی بناء پر بھرتی ہو چکے ہیں‘ اُن سے محکمے کو صاف کیسے کیا جائے گا؟ ایسے اساتذہ کس کام کے جو نصاب کے اسباق درست تلفظ میں ادا کرنے تک کی اہلیت نہیں رکھتے اور ہر مضمون اپنی مادری زبان میں پڑھانے اور رٹہ لگانے کی حوصلہ اَفزائی کرتے ہیں۔ اگر ہمیں شعبہ تعلیم کو ارتقائی مراحل سے روشناس کرانا ہے تو اِس کے لئے مربوط اصلاحات لانا ہوں گی‘ محض کسی ایک شعبے کی اصلاح سے یہ اُمید رکھنا کہ پورا نظام اور بالخصوص سرکاری ملازمین کی سوچ ’راتوں رات‘ تبدل ہو جائے گی‘ خام خیالی سے بڑھ کر ایسی دانستہ کوتاہی کے زمرے میں آتی ہے‘ جس کا یہی نتیجہ برآمد ہوگا کہ کوئی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہوگا‘ جس سے معنوی تبدیلی آئے! تعلیم کو صنعت‘ کاروبار اور پیشے جیسی حالتوں سے متعارف کرانے والوں نے ہمارے حال اور معاشرے پر جس قدر ظلم کیا ہے‘ اُس کا موازنہ کسی دوسری شدت یا اِنتہاء سے ممکن ہی نہیں۔

Mar2015 Technology in education

رف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
درس و تدریس: نئے اَسلوب
ہمارے اردگرد پھیلی دنیا میں تین اہم تبدیلیاں دیکھتے دیکھتے رونما ہوئیں ہیں‘ جنہیں ’ارتقائی مراحل‘ کہہ کر مخاطب کرنا زیادہ موزوں ہوگا لیکن افسوس کہ پاکستان میں ارباب اختیار اور بالخصوص شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہرین اِس جانب توجہ نہیں فرما رہے یا شاید اُنہیں بہت سے دیگر امور سے فرصت نہیں! حقیقت حال یہ ہے کہ اگر ہم نے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کو ترجیح نہ دی‘ تو ہم اُس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے‘ جس میں کامیابی و کامرانی ہمیشہ جیتنے والے ہی کے حصے میں آتی ہے۔

سب سے پہلی بات تو ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی صلاحیت ہے یعنی جیب میں سمانے والا موبائل فون اب سمارٹ کہلانے لگا ہے اور باآسانی ہمراہ رکھے جانے والا ٹیبلیٹ اِس قدر تیزرفتاری سے معلومات کی جانچ پڑتال اور اُن کا انٹرنیٹ سے حصول کرتا ہے کہ اب اِن ایجادات سے استفادہ کرنے کا معمولی علم رکھنے والا بھی ’بڑے بڑے کام‘ کر سکتا ہے بالخصوص موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم ’اینڈرائرڈ (Androids)‘ کی مقبولیت و استعمال نے تو ریکارڈ ہی توڑ ڈالے ہیں۔ دوسری اہم بات برق رفتار (تھری و فور جی) ’انٹرنیٹ‘ کی مقبولیت اُور استعمال بڑھا ہے بالخصوص شعبہ تعلیم میں اِس سے استفادہ ہونے لگا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تعلیمی اداروں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے جو خاص سافٹ وئر تیار کیا گیا ہے‘ وہ بھی موبائل فون ہی کے ذریعے قریبی پولیس اسٹیشن اور کسی ضلع کے متعلقہ پولیس اہلکاروں کو فوری اطلاع دینے کے خودکار نظام پر مشتمل ہے اور یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کی خیروبرکت سے ہے‘ جس کے تفریح طبع یا محض بات چیت سے زیادہ استعمال کے بارے میں پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے سوچا جانے لگا ہے۔

ٹیکنالوجی تین طرح کے عوامل پر انحصار کرتی ہے۔ ہارڈوئر یعنی آپ کے پاس وہ آلات ہونے چاہئے جن کے ذریعے انٹرنیٹ سے منسلک ہوا جا سکے۔ دوسری ضرورت سافٹ وئر یعنی ’آپریٹنگ سسٹم‘ کی ہوتی ہے جو کسی بھی آلے کے کام کرنے کے طریقۂ کار پر مشتمل ’ہدایات کا مجموعہ‘ ہوتا ہے اور تیسری ضرورت بہت سے آلات کو آپس میں جوڑ کر انسانی تجربات و علوم کا باہم تبادلہ کرنے کے لئے ’انٹرنیٹ‘ نامی وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو پاکستان میں تیزی سے مقبول اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کم قیمت و جدید ہو رہا ہے لیکن ضرورت ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ استفادہ کرنے کی ہے۔ شعبۂ تعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو ایسی سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں ’ویب سائٹس‘ ہیں جن سے گھر بیٹھے استفادہ بھی ممکن ہے اور علم و دانش کے یہ لعل و گہر بناء مفت بھی دستیاب ہیں لیکن ٹیکنالوجی کا شعبہ تعلیم پر اطلاق اور اِس سے درس و تدریس کے شعبے میں آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے ہمارے ہاں بالخصوص خیبرپختونخوا میں زیادہ رجحان نہیں پایا جاتا۔

سانحۂ پشاور (سولہ دسمبر دوہزار چودہ) کے بعد حفاظتی انتظامات کے نام پر تعلیمی ادارے کئی ہفتوں بند رکھے گئے‘ جس سے طلباء و طالبات کا قیمتی وقت اور درس و تدریس کا عمل بُری طرح متاثر ہوا۔ ایک سو پچاس سے زائد طالبعلموں‘ اساتذہ اور سکول کے انتظامی و معاون عملے کا قتل کسی بھی طرح معمولی نہیں تھا‘ لیکن حملہ آور دہشت گردوں کے اہداف میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ پاکستان میں جہالت کا دور دورہ چاہتے تھے‘ وہ ہمارے تعلیمی اداروں مزید حملوں کی دھمکیاں دے کر ہمارے ہاں کے روائتی نظام کو مفلوج کرنا چاہتے تھے اور کئی ہفتوں تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہے۔ کیا خدانخواستہ سانحۂ پشاور جیسا کوئی دوسرا حملہ ہوتا ہے‘ تو ہم پھر سے پورے ملک کے سکول یونہی بند کر دیں گے؟ ذرا سوچئے کہ تعلیم کے وہ کون کون سے متبادل ذرائع ہیں جنہیں روائتی طریقۂ کار کے ساتھ جوڑ کر آہستہ آہستہ متعارف کرایا جاسکتا ہے؟

برطانوی خبررساں ادارے ’بی بی سی‘ نے سال 2010ء میں ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی تھی جس کی رو سے ہر پانچ میں سے چار برطانوی باشندوں نے ’مفت انٹرنیٹ‘ کو ’بنیادی ضرورت‘ اور ’بنیادی حق‘ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’انٹرنیٹ عام کرنے کے لئے مالی وسائل مختص کرے اور تحقیق و ترقی کے شعبوں میں ایسے منصوبوں (حکمت عملیوں) کو بھی شامل کرے‘ جن کی بدولت زیادہ سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ سے استفادہ کرسکیں۔ اِس سلسلے میں برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں نہ صرف عالمی انٹرنیٹ بلکہ علاقائی‘ اضلاعی اور جامعات (تعلیمی اداروں) کی سطح پر محدود رابطہ کاری ’انٹرانیٹ‘ کے وسائل کو ترقی دی گئی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بیرون ملک تعلیم کے لئے جانے کے خواہشمند طلباء و طالبات کو انگریزی زبان کا ایک خاص امتحان دینا پڑتا ہے‘ جس کے نگران بھاری فیس کے عوض بیرون ملک بیٹھ کر بیک وقت پاکستان سمیت کئی ممالک میں انگریزی بولنے‘ سننے‘ سمجھنے اور لکھنے میں مہارت سے متعلق امتحان دینے والوں کی علمی قابلیت کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں‘ جو سب کو یکساں قابل قبول ہوتا ہے۔

فاصلاتی نظام تعلیم (ورچوئل لرننگ اِنوائرمنٹ) مرتب کرنے کے سلسلے میں تحقیق ’کمپیوٹر کی ایجاد‘ کے ساتھ ہی پروان چڑھی لیکن دنیا کا پہلا فاصلاتی ذریعۂ تعلیم 1728ء میں سامنے آیا جب امریکہ کے شہر بوسٹن کے اخبار میں ’کالیب فلیپس (Caleb Phillipps)‘ نامی شخص کی جانب سے اشتہار دیا گیا کہ ’’شارٹ ہینڈ کی تعلیم گھر بیٹھے حاصل کیجئے۔‘‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1906-07ء تک آیا‘ جب دنیا نے پہلی فاصلاتی تعلیم کی جامعہ ’’یونیورسٹی آف ویسکونسن ایکسٹینشن‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تعلیمی مقصد کے لئے خصوصی مشینیں ایجاد ہوئیں۔ آج کی دنیا میں زبانوں کے قواعد (گرائمر) سیکھنے سے لیکر عکاسی‘ پینٹنگ حتیٰ کہ ورزش (کسرت) کرنے کے معلم بھی ’ورچوئل‘ ہی علم و حکمت منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن کی ایجاد اور بعدازاں موبائل فونز اور خلائی سیاروں (سیٹلائٹ) کے ذریعے نشریات نے تو گویا ’درس و تدریس کے شعبے کو سکول کی چاردیواری اور روائتی کلاس روم کے تصور ہی سے آزاد کر دیا۔

خیبرپختونخوا حکومت سے اُمید ہے کہ وہ اِس بارے میں ضرور سوچ بچار کرے گی کہ ہر مالی سال کے آغاز پر شعبۂ تعلیم کے لئے پہلے سے زیادہ مالی وسائل مختص کئے جاتے ہیں لیکن ایک طرف شرح خواندگی میں اضافے کی صورت خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور دوسرا تعلیم ایک تجارت و صنعت بن گئی ہے‘ جس میں غیرصحت مند مقابلے کے رجحان نے علم کو ایک جنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ شعبۂ تعلیم کو سرکاری ملازمتیں‘ مراعات‘ عہدے اُور ترقیاں حاصل کرنے کا پرکشش ذریعہ و پیشہ بنانے کی سوچ اُور اِس منفی رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔
Adopting technology in education is neccesity, must add on

Monday, March 23, 2015

Mar2015: TRANSLATION: Stop secret contracts

The $21 billion LNG question
مائع گیس خریداری: بے قاعدگیاں
پاکستان نے مائع گیس (ایل این جی) کی خریداری اور درآمد کرنے کا ایک معاہدہ کیا ہے اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں لیکن اِس معاہدے اور خریداری سے متعلق تفصیلات کو غیرضروری طورپر خفیہ رکھا جا رہاہے جس کی وجہ سے اِس پورے عمل پر شکوک کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگر حکومت شفاف طرزعمل اختیار کرے اور مائع گیس کی خریداری و درآمد سے متعلق جملہ تفصیلات قوم کے سامنے رکھ دیتی تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔ کیا ’مائع گیس‘ کی خریداری قومی خزانے سے نہیں کی گئی؟ جب پیسہ قومی خزانے سے خرچ کیا گیا ہے تو پھر عوام کو ضرور بتانا چاہئے کہ اُن کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والا یا اُن کے نام پر قرض حاصل کرکے مالی وسائل کہاں اور کیسے خرچ کئے گئے ہیں۔ شفاف طرزحکمرانی اور مضبوط جمہوری نظام کی خصوصیات یہی ہوتی ہیں کہ اِس میں حکومت اپنے ہر ایک اقدام کے لئے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔

کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان نے یومیہ 2لاکھ 72 ہزار کے عوض مائع گیس کی خریداری کا ایک معاہدہ دستخط کیا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ ہمارے ملکی قوانین کے مطابق کسی بھی ایسے بڑے معاہدے کی تفصیلات خفیہ نہیں رکھی جا سکتیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ کسی بھی ایسے بڑے معاہدے کی شفافیت ممکن بنانے کے لئے یہ بات حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لین دین کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرے؟ آخر کیا سبب تھا کہ جب مائع گیس کی خریداری کا سودا کیا جا رہا تھا تو اُس پورے عمل کو رازداری سے سرانجام دیا گیا کہ فیصلہ سازوں کے علاؤہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہو؟ اگر مائع گیس خریدنا تھی تو ٹینڈر کا عمل اِس انداز سے کیوں نہیں کیا گیا‘ جس سے پاکستان کو مائع گیس فراہم کرنے والوں کے درمیان مقابلے کی وجہ سے فائدہ ہوتا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مائع گیس کی خریداری کے معاہدے میں درج شقیں اور معاہدے کو عام آدمی کی پہنچ سے دور رکھا گیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں شفافیت کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے تو اس سے خریدنے والی چیز کا معیار بہتر حاصل ہوتا‘ قیمت کم ملتی ہے اور معاہدہ خریدار کے حق میں مفید رہتا ہے لیکن اگر معاملات خفیہ رکھے جاتے ہیں تو اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کی نااہلی عیاں ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر بدعنوانی کا امکان موجود رہتا ہے۔ جب کوئی حکومت ایسے معاہدے کرتی ہے‘ جن میں مالی وسائل کا استعمال ہو رہا ہوتا ہے تو اس سے معاہدے کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے اور بس۔

مارچ 2015ء میں عالمی سطح پر ’مائع گیس‘ کی قیمت کسی خریدار ملک تک پہنچ کر کچھ یوں تھی۔ بھارت 6.90 ڈالر۔ چین 6.60ڈالر۔ جاپان 7ڈالر۔ کوریا 7 ڈالر۔ کیا پاکستان کے عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی حکومت سے پوچھ سکیں کہ انہوں نے مائع گیس کس نرخ میں خریدی ہے اور پاکستان پہنچ کر مائع گیس کی قیمت کیا ہوگی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ ہم ہمسایہ ممالک سے زیادہ مہنگی ’مائع گیس‘ خرید رہے ہوں؟ کیا حکومت کو یہ بات منظرعام پر نہیں لانی چاہئے کہ اُنہوں نے مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ کس سے کیا ہے؟ یاد رہے کہ فلپائن میں بجلی کے ایسے پیداواری یونٹ قائم کئے گئے جو مائع گیس سے چلتے ہیں اور اِن کی تعمیر میں مشکوک و بدعنوانیوں سے بھرپور طریقۂ کار اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھ گئی اور عام آدمی کو زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘‘ آخر اِس بات میں کیا امر مانع ہے کہ حکومت نے جتنے بھی معاہدے بشمول مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے اُس کی تفصیلات منظرعام پر آنی چاہیءں؟

27فروری 2014ء کے روز ایک ادارے ’اوپن نالج فاؤنڈیشن‘ نے عالمی سطح پر مہم کا آغاز کیا جس کا نام ’’خفیہ معاہدے بند کرو(Stop Secret Contracts)‘‘ رکھا گیا۔ فاؤنڈیشن کے مطابق ’’جب کوئی بھی حکومت خفیہ معاہدے کرتی ہے تو اس میں لازمی طورپر بدعنوانی کا عنصر کارفرما ہوتا ہے اور پھر تفصیلات اِس بھی عیاں نہیں کی جاتیں کہ ارباب اختیار احتساب سے بچنے کے لئے عوام کو دیگر امور میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ اُن کی کارکردگی اور کئے گئے معاہدوں سے متعلق بات چیت نہ ہو‘ اُن کا احتساب نہ ہو۔ اِس بات کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ خفیہ رکھی جانے والی تفصیلات والے معاہدوں کے ذریعے ہرسال عوام کے اربوں ڈالر مالی وسائل کی خردبرد ہو جاتی ہے!

کیا مائع گیس کی خریداری میں پاکستان نے درست طریقۂ کار اختیار کیا؟ آخر حکومت کیوں عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے؟ وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصنوعات خاقان عباسی سے کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ’’مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ شفاف انداز میں طے کیا گیا ہے جس کی جملہ تفصیلات جلد ہی منظرعام پر لائی جائیں گی تاکہ ہر خاص و عوام کو اِس بارے میں علم ہو سکے۔‘‘

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)


Sunday, March 22, 2015

Mar2015: Justice delayed is justice denied

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قانون و انصاف: فوری اُور حسب حال
پندرہ جون دو ہزار چودہ سے شمالی وزیرستان (قبائلی علاقے) میں آغاز ہوئے ’آپریشن ضرب عضب‘ کے لئے مالی سال 2014-15ء میں 700 ارب روپے مختص کئے گئے لیکن اِس قدر خطیر رقم اور فوجی کاروائی کا دائرہ کار دیگر قبائلی علاقوں تک پھیلانے سے صرف چند ایک درجے ہی اطمینان حاصل ہو پایا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2013-14ء کے عرصہ میں کم و بیش چھ ہزار افراد ہلاک ہوئے‘ جن میں سویلین اور سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔ سال دو ہزار پندرہ کے پہلے تین ماہ (تیئس مارچ تک) 315ہلاکتیں ہو چکی ہیں‘ جن میں لاہور کے گرجا گھر پر حملہ بھی شامل ہے جس میں ایک ہی دن 14افراد قتل کر دیئے گئے۔ ملک میں دہشت گرد واقعات کے اِس تسلسل کے دوران خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہے۔ سال 2014ء کے دوران 9 دہشت گرد حملوں میں خیبرپختونخوا کے 196 افراد ہلاک ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں‘ ہفتوں اور مہینوں میں بھی خیبرپختونخوا کے مختلف بڑے شہر (جن میں سے سات کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے) بشمول پشاور پر مزید دہشت گرد حملے ہو سکتے ہیں‘ جن سے بچاؤ کے لئے پولیس حکام سوچ بچار کے عمل میں اُن امکانات کے خاتمے اور آسان اہداف کو محفوظ بنانے کے لئے خفیہ معلومات پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں‘ جو مستقل خطرہ بھی ہیں اور سیکورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان بھی۔
پشاور میں داخل اور خارج ہونے کے کل 390 راستے شمار کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کی خاطرخواہ نگرانی سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے پولیس حکام کا اصرار ہے کہ موجودہ افرادی و تکنیکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اِن تمام راستوں سے ہر آنے اُور جانے والے کی نگرانی و جانچ ممکن نہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر پولیس کے اعلیٰ آفیسر نے اُن چند خطرات کا بھی ذکر کیا جو پشاور کو ’داخلی طور پر لاحق ہیں‘ اُور جن کا بھی انگلیوں پر شمار ممکن نہیں! ’’تین اطراف میں قبائلی علاقوں سے گھرے ہوئے صوبائی دارالحکومت کو خارجی اور داخلی طور پر خطرات سے متعلق کم و بیش ہرروز ہی خفیہ اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں اُور ہر ایک ایسی اطلاع ملنے کے بعد پشاور پولیس پہلے سے زیادہ فعال ہو جاتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ دشمن کہیں نہ کہیں حفاظتی انتظامات میں کوتاہی یا غفلت کی تاک میں ہے اور اُسے وار کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا لیکن آخر کب تک‘ پولیس اہلکار اِس اعصاب شکن نفسیاتی و عملی جنگ کا مقابلہ کب تک جاری رکھ پائے گی جبکہ دشمن کے پاس وقت اُور آسان اہداف کی کوئی کمی بھی نہیں! آخر سیاسی فیصلہ سازوں میں قبائلی و نیم علاقوں کی امتیازی حیثیت ختم کرنے میں اتفاق رائے کیوں نہیں پایا جاتا؟ آخر وہ سب سے ضروری بات ہماری ترجیح کیوں نہیں‘ جس کا تعلق ہمارے مستقبل سے ہے؟‘‘

پشاور پولیس کے پاس افرادی وسائل کی کمی ہے۔ جدید ہتھیاروں‘ گشتی (موبائل) گاڑیوں حتیٰ کہ ایندھن جیسی ضرورت وافر مقدار میں دستیاب نہیں۔ گولہ بارود ناکارہ بنانے والوں اور خواتین پولیس اہلکاروں کی ضروریات الگ سے پوری نہیں ہورہیں۔ تھانہ جات کی کمی اور چوکیاں کی خستہ حالی دور کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ پشاور کو سیکورٹی کے لحاظ سے چھ حصوں میں تقسیم کرکے افرادی و تکنیکی وسائل کی ازسرنو تقسیم کے ساتھ داخلی و خارجی راستوں کی تعداد میں کمی لائی جائے۔ جیسا کہ فصیل شہر کا اندرونی حصہ ماضی کی طرح چودہ‘ سولہ یا بیس راستوں پر مشتمل ہو اور ’شہر‘ کہلانے والے اِس حصے کی حدود کے لئے ایک ہی مرکزی تھانہ جبکہ ہر داخلی و خارجی راستے پر چوکیاں اور مقرر کی جائیں‘ جو نگران بھی ہوں اور مقررہ اُوقات کے علاؤہ آمدورفت کی سختی سے جانچ کریں۔ مثال کے طور پر نصف شب سے فجر تک فصیل شہر کے اندرونی حصوں میں داخلے کا حق صرف اُنہیں افراد کو حاصل ہو‘ جن کے پاس پشاور میں رہائش کمپیوٹررائزڈ قومی شناختی کارڈ میں درج پتے سے ثابت کی جا سکے۔ مہمان کی آمد یا ہنگامی حالات کی صورت میزبان کے کوائف کمپیوٹرائزڈ ڈیٹابیس میں منتقل کردیئے جائیں جو شہر کے سبھی داخلی و خارجی راستوں کے علاؤہ پولیس کے اُس صدر دفتر کو بھی منتقل ہو جائیں جس کا خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے بھی رابطہ رہتا ہے اور کسی بھی مشکوک شخص یا انتہائی مطلوب شخص کی اُس کے کوائف (انگوٹھے کے نشان) یا سبھی اداروں کو اطلاع ہو سکے گی۔ پشاور کے مشرقی‘ مغربی‘ شمالی اور جنوبی حصوں میں شہری و دیہی علاقوں کی تمیز بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔ رنگ روڈ (پشاور کے جنوبی حصے) کی پٹی حیات آباد تک پھیلی ہوئی ہے‘ جس کے اطراف میں جس تیزی سے رہائشی بستیاں اور تجارتی مراکز قائم ہوئے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور یہی وہ علاقے ہیں جو درہ آدم خیل اور خیبرایجنسی کے قبائلی علاقوں سے ملتے ہیں‘ جہاں (خیبرٹو نامی) فوجی کاروائی کا مرحلہ جاری ہے۔ تہکال سے یونیورسٹی ٹاؤن‘ راحت آباد‘ اور حیات آباد سے ملنے والا زون (سرکلز) پہلے ہی کنٹونمنٹ حدود کی طرح الگ ہے جبکہ ڈیفنس‘ شامی روڈ‘ چارسدہ روڈ کی پٹی مغربی حصہ اور چغل پورہ‘ موٹروے‘ رنگ روڈ کا جنوبی حصہ جو قدرتی طور پر سرحد کا کام دے سکتا ہے۔ نگرانی کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار‘ سیکورٹی کے لئے پشاور کو پانچ زونز اور ایک کنٹونمنٹ کی حدود میں تقسیم کر دیا جائے تو نگرانی کا عمل نسبتاً آسان اور ایک زون کے افرادی و تکنیکی وسائل کم وقت میں دوسرے کے استعمال کے لئے باآسانی دستیاب ہو سکیں گے۔ ہر زون کی رہائشی بستیوں اور تجارتی مراکز کی نگرانی چوکیوں کے ذریعے زیادہ فعال انداز سے ہو سکے گی کیونکہ موجودہ نظام کے تحت جب جرم کسی ایسے علاقے میں رونما ہوتاہے جہاں دو تھانہ جات کی حدود آپس میں ملتی ہیں تو ’ایف آئی آر‘ کے اندراج سے لیکر تفیشی عمل میں پیچیدگیاں اور رکاوٹیں آڑے آتی ہیں۔

پشاور پولیس کے لئے ایک چیلنج ’منظم جرائم پیشہ گروہ‘ بھی ہیں جنہیں بااثر افراد اور خطرناک مطلوب مجرموں کی پشت پناہی حاصل ہے‘ یہ عناصر پولیس کی توجہ زیادہ بڑے خطرے (دہشت گردی) کی جانب مبذول ہونے کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں اگر منظم و غیرمنظم جرائم پیشہ عناصر سے الگ الگ معاملہ کیا جائے‘ تو یہ معمہ بھی نسبتاً زیادہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دیوانی (جائیداد سے متعلق) مقدمات کے ذریعے تھانہ کچہری میں سالہا سال اُلجھانے والے کئی گروہ پشاور میں فعال ہیں۔ اگر عدالتوں کے ذریعے انصاف کی فراہمی کا صبرآزما اور طویل طریقۂ کار تبدیل کرنے کے لئے صوبائی حکومت خاطرخواہ قانون سازی کرتی ہے تو اِس سے پولیس کے لئے ’آدھا سر درد‘ بنا معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔ پولیس حکام قوانین میں پائے جانے والے سقم سے بیزار ہیں کہ جن پیشہ وروں پر ہاتھ ڈالا جائے‘ انہیں عدالتوں سے ضمانتیں کروانے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اِس منظرنامے میں پولیسنگ سے توقعات اُس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں جب تک قوانین میں موجود سقم دور نہیں ہو جاتے اُور صرف دہشت گردی ہی میں ملوث کرداروں کا نہیں بلکہ ہر مجرم و جرم سے معاملہ کرنے میں فوری انصاف کا طریقۂ کار وضع نہیں کر لیا جاتا۔

کیا عام آدمی کو فوری انصاف دینا اور دلانان ترجیحات کا حصہ ہے؟ القصہ مختصر ۔۔۔ جہاں قانون ساز اِدارے تماشائی اور اِنصاف کی ضامن عدالتوں کے پاس فوری فیصلے کرنے کی فرصت نہ رہی ہو‘ وہاں کے حفاظتی انتظامات قابل دید تو ہو سکتے ہیں‘ لیکن اُن پر کلی بھروسہ (توکل) نہیں کیا جاسکتا۔
Governance can't survive without providing quick justice & dispute resolution

Mar2015: TRANSLATION Agenda 2015

Agenda 2015
لائحہ عمل 2015ء
پاکستان جن گھمبیر مسائل میں پھنسا ہوا ہے اُس کے لئے ’قومی لائحہ عمل 2015ء‘ کے عنوان سے حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی جس میں مختلف شعبہ جات کے حوالے سے مختلف اقدامات تجویز کئے جا سکتے ہیں۔

حفاظتی انتظامات اور اقتصادیات کے شعبے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور تحریک طالبان پاکستان نامی دہشت گرد تنظیم کے اراکین پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مذہبی رجحانات رکھنے والے یہ تنظیم چاہتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی نظام پر قابض ہو جائے۔ تحریک طالبان پاکستان کا بنیادی و کارگر حربہ زیادہ سے زیادہ ’خوف و دہشت‘ پھیلانا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہی اُن کا ہدف بھی ہے۔ اُن کی عسکری حکمت عملی خودکش حملے اور دہشت گردی ہے‘ جس سے خوف و دہشت پھیلانے کے اہداف حاصل کئے جاتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے اہداف میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا اُور طرز حکمرانی کو موڑ توڑ کر اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کے بعد پاکستان کے کل 7لاکھ 96 ہزار 95 مربع کلومیٹر رقبے کے ہرکلومیٹر پر قابض ہونا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان ایک شورش پھیلانے والی جماعت ہے جو تین عوامل پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو اُسے ایک ایسا جغرافیائی علاقہ چاہئے جہاں وہ اپنے قدم جما کر‘ تربیت گاہیں بنا کر اور اپنے انتظامی دفاتر قائم کرکے پاکستان بھرمیں دہشت گرد وارداتیں کر سکے۔ دوسرا اُسے ہرموسم اور ہر حال میں ایسے سرسبز و شاداب مالی وسائل کی ضرورت ہے‘ جن کے ذریعے وہ اپنے مذموم عزائم و اہداف کو حاصل کر سکے اور تیسرا اُسے افرادی وسائل کی ضرورت ہے جو اُس کے مقرر کردہ اہداف کو جان پر کھیل کر نشانہ بنانے کے عزم و جدوجہد میں حصہ لینے کے لئے غیرمشروط رضامند ہوں۔
تحریک طالبان پاکستان کے عزائم واہداف کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں ’دہشت گردی پھیلانے کی اِس حکمت عملی‘ کو توڑ تلاش کرنا ہوگا۔ پاکستان فوج کی چودہ بنیادی دستوں (کور) پر مشتمل ہے‘ جو ملک کے چپے چپے کی نگران اورملک کے ہر حصیکو لاحق داخلی و خارجی خطرات سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت مستعد و تیار اُور اپنے فرائض سے عہدہ برآء ہو رہی ہے۔ پاک فوج کا عزم و مقاصد میں داخلی سطح پر لاحق ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے خطرے سے نمٹنا شامل ہے اور وہ دہشت گردوں کو کارروائی کرنے سے قبل اور بعد میں انجام تک پہنچانے کے لئے ہر محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔

پاک فوج تحریک طالبان پاکستان کے اُن جغرافیائی مراکز کو تباہ کر رہی ہے‘ جہاں دہشت گردی سے متعلق منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ وفاقی حکومت اُن تمام وسائل اور ذرائع پر ہاتھ ڈال رہی ہے جن کی مدد سے تحریک طالبان پاکستان کو مالی وسائل حاصل ہوتے ہیں اور وفاقی حکومت ہی تحریک طالبان پاکستان کو ملنے والے افرادی وسائل ختم کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی کا 33 فیصد حصہ پاک فوج جبکہ 66 فیصد (یکساں کلیدی) حصہ غیرفوجی (سول) حکام کے اختیار میں ہے۔ اگر ہم پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اِس یہ چھ عوامل پر انحصار کرتی ہے۔ اِسے توانائی کا تحفظ چاہئے۔ اِسے ملکی قرضہ جات سے نجات چاہئے۔ اِسے غیرامتیازی اقتصادی نظام چاہئے۔ اِسے تربیت یافتہ اور فعال کردار ادا کرنے والی افرادی قوت (محنت کش) چاہیءں۔ اسے صنعتی پیداواری ترقی چاہئے اور اِسے اِن تمام شعبوں میں ترقی کے لئے درست ترجیحات چاہیں۔

توانائی کے تحفظ کی بات کی جائے تو لمحۂ فکریہ ہے کہ سال 2015ء کے دوران پاکستان نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا قریباً 700 ارب روپے بجلی کی کمی کے سبب گنوایا‘ جو مجموعی دفاعی بجٹ کے مساوی ہے۔ سال 2015ء کے دوران بجلی کی چوری کی مد میں ملک کو 300 ارب روپے کا خسارہ ہوا جو پاک فوج کے ایک سال میں ہونے والے اخراجات کے مساوی رقم ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار 40میگاواٹ ہے لیکن سال 2015ء کے دوران یومیہ 11 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکی۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کا تعطل کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کے وسائل اور ذرائع یا صلاحیت کم ہے بلکہ بجلی کی کمی کا ایک سبب انتظامی نااہلیاں بھی ہیں۔

پاکستان پر قرضہ جات کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔ 18 اگست 2008ء کے دن جب صدر پرویز مشرف مستعفی ہوئے ہرپاکستانی 40 ہزار روپے کا مقرض تھا جبکہ8 ستمبر 2013ء کے دن جب صدر زرداری عہدے سے علیحدہ ہوئے تو ہر پاکستانی 80 ہزار روپے کا مقروض تھا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صدر زرداری کے پانچ سالہ دور میں ہم نے جتنا قرض لیا‘ وہ اس سے قبل ساٹھ برس میں نہیں لیا گیا تھا۔ دسمبر 2014ء (سال) کے آخری دن پاکستان کے ہر فرد پر قرض کا بوجھ 1 لاکھ 3ہزار روپے لگایا گیا اور اگر قرض لیکر ملک چلانے کا موجودہ رجحان (طرزعمل) برقرار رہا تو سال 2018ء تک پاکستان کا ہر فرد 2 لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہوگا۔

پاکستان میں ’اقتصادی عدم مساوات‘ سے بھی مسائل موجود ہیں۔ گذشتہ 10 برس کے دوران ملک میں پیدا ہونے والے سرمائے کا 90فیصد حصہ صرف اُن افراد کے ذاتی اثاثوں میں منتقل ہوا‘ جو ملک کی مجموعی آبادی کا 2 فیصد بنتے ہیں۔ آمدنی اور اثاثہ جات میں یہ عدم توازن ہر گزرتے گھنٹے بڑھ رہا ہے۔ امیر زیادہ امیر جبکہ غریب ہر گزرتی گھڑی مزید غریب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مختلف قسم کے گروہ اقتصادیات پر حاوی ہیں جس کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے کیونکہ اقتصادی عدم مساوات اور جرائم کا آپسی تعلق ہوتا ہے۔ جہاں تک افرادی قوت (محنت کش وسائل) کی بات ہے تو پاکستان 187ممالک کی فہرست میں 146ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش بالترتیب 135ویں اور 142 نمبر پر ہیں یعنی یہ دونوں ممالک اپنے افرادی وسائل سے استفادہ پاکستان سے بہتر کر رہے ہیں۔ اِسی طرح صنعتی ترقی کے حوالے سے 2004ء میں پاکستان 13 فیصد کی شرح پر تھا جس میں سال 2009ء تک 3 فیصد کی گراوٹ آئی۔ اِن تمام مسائل سے نجات کے لئے ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ فی الوقت ہماری قومی ترقی کی ترجیحات یہ ہیں۔ 260 ارب روپے کا حیدرآباد‘ سکھر موٹروے منصوبہ۔ 44 ارب روپے کا روالپنڈی اسلام آباد موٹربس منصوبہ۔ 15 ارب روپے کا آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن پلان (لائحہ عمل) کے لئے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ 1: دہشت گردی و عسکریت پسندی کو شکست دینے کے لئے صرف فوجی کاروائی کافی نہیں بلکہ اِس کے لئے غیرفوجی (سول) قیادت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 2: اقتصادی تحفظ کو قومی ترقی کی حکمت کا حصہ بنا کر ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ 3: توانائی کے تحفظ کا تعلق پیداواری صلاحیت میں اضافے سے زیادہ انتظامی معاملات سے ہے اُور 4: ہم نے اقتصادی ترقی کی ترجیحات مرتب کرتے ہوئے خاطرخواہ سوچ بچار‘ فہم و فراست اور بصیرت و دانشمندی سے کام نہیں لیا۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و  ترجمہ: شبیر حسین اِمام)