Saturday, December 17, 2016

Dec2016: E-Management of the Public Transport

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِی مینجمنٹ: شفاف طرزحکمرانی!

اِصلاح اَحوال مقصود ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی بذریعہ ’اِی مینجمنٹ‘ کے حوالے سے گذارشات میں جن ’دو پہلوؤں‘ سے صورتحال کا جائزہ اُور اِصلاحات تجویز کی گئیں‘ اُن کا لب لباب یہ تھا کہ صوبائی حکومت اپنی ’پبلک ٹرانسپورٹ پالیسی‘ کے مرکزی خیال پر ’’نظرثانی‘‘ کرے جس کی روشنی میں اِس شعبے میں نہ صرف صوبائی حکومت اپنی سرمایہ کاری سے تبدیلی لائے بلکہ نجی شعبے کی بلاشرکت غیرے حاکمیت (اجارہ داری) کو قوانین و قواعد کے تابع بنانے کے لئے ایک ایسے ’نظام‘ پر بھروسہ کیا جائے‘ جو چوبیس گھنٹے فعال رہ سکتا ہے‘ جو رخصت پر نہیں جاتا‘ جس کی طبعی عمر زیادہ ہے‘ جو بہ امر مجبوری یا بہانہ بنا کر چھٹی نہیں کرتا‘ جس کے ذریعے صارفین کی شکایات‘ تجاویز و آراء اُور تجربات (فیڈبیک) سے آگاہی ممکن ہو سکتی ہے۔ ’بالا و اعلیٰ‘ امر یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر ’کمپیوٹرائزڈ نظام‘ کی نگرانی کرنے والے اپنے اختیارات (پرویلیجز) کا استعمال کرتے ہوئے (باوجود خواہش) بھی ذاتی یا ٹرانسپورٹرز کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکیں گے یا اگر کریں گے تو اُن کی کارکردگی کا احتساب کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ اگر ’پبلک ٹرانسپورٹ سیکٹر‘ میں ’اِی مینجمنٹ‘ کا کامیابی سے اِطلاق کر دیا جاتا ہے تو اِسی کی بنیاد پر صحت و تعلیم کے شعبوں میں بھی اصلاحات ممکن بنائی جا سکیں گی‘ کیونکہ اِن دونوں شعبوں (صحت و تعلیم) میں بھی حکومت سے زیادہ نجی اِداروں کی حاکمیت دکھائی دیتی ہے لیکن ’طرزحکمرانی‘ کو شفاف بنانے کے لئے ’اِی مینجمنٹ‘ پر بادلنخواستہ ’تجرباتی اِنحصار‘ سے زیادہ فیصلہ سازوں کی مکمل آمادگی (نیت کا اخلاص)‘ ذہنی رغبت اُور ترتیب و ترکیب لازمی ہے۔

مثالیں موجود ہیں‘ جن کی روشنی میں ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کو ’اِی مینجمنٹ‘ کے حوالے کرنے سے حاصل شدہ اُن تمام نتائج کو سامنے رکھ کر ایسی اصلاحات متعارف کی جاسکتی ہیں‘ جن کا تجربہ پاکستان میں قدرے چھوٹے پیمانے پر چند نجی اداروں نے کر رکھا ہے اور وہ اِس ’آن لائن نظام‘ سے مسلسل استفادہ کرکے اربوں روپے سالانہ منافع کما رہے ہیں لیکن افسوس کہ سرکاری سطح پر نہ تو ایسی کامیابیوں کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارہ کی جاتی ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ’تعلیم و تحقیق اُور ترقی‘ کرنے والوں کی ذہانت و صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ ضمنی بات یہ ہے کہ اگر ہمارے فیصلہ ساز جامعات میں ہونے والی تحقیق ہی کے بارے میں ایک سالانہ صوبائی مقابلے کا انعقاد کرائیں‘ تو اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی بلکہ عقل دنگ رہ جائے گی کہ ہمارے ہاں طلباء و طالبات کس قدر ’ٹیلنٹ‘ سے مالامال ہیں اُور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے گردوپیش کے مسائل بارے کس حد تک فکرمند رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ کوئی اُن کی سوچ کو سمجھتے ہوئے تعمیرو ترقی کے خاکے میں اُنہیں رنگ بھرنے دے! جن مغربی معاشروں نے ترقی و ارتقاء کی منازل طے کیں‘ درحقیقت اُنہوں نے اپنے ہاں نوجوانوں کے خیالات کو سُنا‘ اُنہیں اہمیت دی اُور ایسا کرنے کی وجہ وہ تشنگی ہے جس کے چراغ طالبانِ علم و حکمت اپنے دلوں میں جلائے رکھتے ہیں! علم کی طلب‘ پیاس و تشنگی رکھنے والوں کو وہ سب کچھ عطا ہوتا ہے‘ جس کی لگن میں وہ اپنے مطالعے اُور سوچ کو وسعت دیتے چلے جاتے ہیں! بعدازاں گردوپیش اور کائنات پر غور کرنے کا یہ عمل ’ارتقائی‘ کامیابیوں کا ضامن بن جاتا ہے اُور ہر دُور کے مطابق علم و دانش‘ ذہانت اُور تخلیقی قوتیں میں اِضافہ دلیل (برہان) و متقاضی ہے کہ ’فیصلہ سازی سے تعمیروترقی کے بارے حکمت عملیاں وضع کرنے کے عمل میں نوجوانوں کی تحریر و تحقیق اور اُن کے خیالات و نظریات کو بھی خاطرخواہ (یکساں) اہمیت دی جائے۔‘

تعلیم کے شعبے میں اب تک ’اِی مینجمنٹ‘ سے جس قدر استفادہ ممکن ہو سکا ہے‘ اُس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ’اِی مینجمنٹ‘ کے تحت نہ صرف کسی سکول (تعلیمی ادارے) کا مالی نظم و ضبط (فیسیں‘ جرمانے‘ اضافی اخراجات کی وصولی) بہترانداز میں بذریعہ بینک ممکن ہوئی ہے بلکہ اِسی ’اِی مینجمنٹ‘ کے بل بوتے (خیروبرکت سے) کسی تعلیمی ادارے میں زیرتعلیم ہر ایک طالب علم کی یومیہ حاضری‘ کلاس میں کارکردگی (نفسیاتی روئیوں کے اُتار چڑھاؤ)‘ وقتاً فوقتاً داخلی و بیرونی امتحانات کے نتائج‘ ہم نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی بارے اساتذہ کی رائے (educational assesment) اُور ذہنی و جسمانی نشوونما سے متعلق کوائف (Data) نہ صرف بطور ریکارڈ جمع (محفوظ) کر لیا جاتا ہے بلکہ اِس معلومات کا تبادلہ بذریعہ ’ایس ایم ایس‘ والدین یا سرپرستوں کے دیئے گئے موبائل نمبروں پر خودکار نظام کے ذریعے ارسال بھی کر دیا جاتا ہے۔ یوں کسی تعلیمی ادارے کی چاردیواری میں ہونے والا درس و تدریس کا عمل انتظامیہ یا اساتذہ کی دسترس تک محدود نہیں رہا بلکہ اِس میں والدین و سرپرست بھی شریک ہو گئے ہیں‘ جو اگر چاہیں تو اپنے بچے کی ذہنی و جسمانی اور علمی تربیت کے بارے بذریعہ فون یا ملاقات کا وقت طے کر کے انتظامیہ سے اِس بارے تبادلۂ خیال بھی کر سکتے ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ ’یوم والدین‘ کو کسی تقریب میں مدعو کرکے بچے کی تعلیمی کارکردگی کے بارے ’اجمالی تبادلۂ خیال‘ معلومات کے وسیع المعانی تبادلے سے بدل گیا ہے۔ 

قابل ذکر ہے کہ اِبتدأ میں نجی تعلیمی اداروں نے ’غیرحکیمانہ رازداری‘ ترک کی اُور انکم ٹیکس اِداروں کے خوف و دہشت اُور دیگر تحفظات کے باوجود بھی اگر ’اِی مینجمنٹ کے نظام‘ میں وقت‘ مہارت و تجربے اُور مالی وسائل سے سرمایہ کاری کی تو اِس خالص منافع کے گرد گھومتی سوچ سے درس و تدریس کے عمل کو آگے بڑھانے میں ’بڑی قیمتی‘ مدد ملی ہے۔ یہی ’اِی مینجمنٹ‘ کا حسن ہے کہ اِس کی کوئی حد نہیں۔ یہ وسیع امکانات پر مشتمل ایک ایسے ’نئے جہان‘ سے متعارف کراتی ہے‘ جہاں ہر گھڑی کچھ نہ کچھ نیا ’وقوع پذیر‘ ہو رہا ہوتا ہے 

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ’اِی مینجمنٹ نظام‘ سے استفادہ کرنے والے مستقبل کی ضروریات کے لئے زیادہ بہتر طور پر تیار ہوتے ہیں۔ اِس کے ذریعے بہتر و فعال نظم وضبط کا حصول ممکن ہوتا ہے جس کی بدولت اِنسانی ترقی اُور علوم و فنون کے اِرتقائی مراحل طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وسیع النظری درکار ہے۔ فیصلہ سازی بصیرت سے عاری نہیں بلکہ اِس سوچ سے مربوط رہنی چاہئے کہ ’مستقبل میں اُن کی ذہانت کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے گی‘ اُور وہ آج کے درپیش مسائل کا حل مستقبل کے تقاضوں کی روشنی میں کس حد تک کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں!

E-Management of Transport where the possibilities of same can be apply in Health & Education sectors too

Friday, December 16, 2016

Dec2016: E Management of Public Transport, why not?

ژرف نگاہ .... شبیر حسین اِمام
پبلک ٹرانسپورٹ: اِی مینجمنٹ کیوں نہیں!؟

اَلمیہ ہے کہ ’وسائل سے ’محروم طبقات‘ کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والوں کو اُس عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مشکلات کا رتی بھر اِحساس نہیں‘ جس کی آنکھیں ایک کے بعد ایک مسیحا کا انتظار کرتے کرتے پتھرا چکی ہیں۔‘ پبلک ٹرانسپورٹ سے بطور مسافر واسطہ رکھنے والوں کو روزمرہ یا کبھی کبھار جن تکلیف دہ اور ذلالت بھرے مراحل (برتاؤ) سے یومیہ یا حسب ضرورت نمٹنا پڑتا ہے‘ اُس کا خاتمہ ’اِی مینجمنٹ (کمپیوٹرائزیشن)‘ سے باآسانی ممکن ہے۔ 

سردست جنرل بس اسٹینڈ سے مال برداری تک آمدورفت یا نقل و حمل کے لئے استعمال ہونے والے وسائل (گاڑیاں اُور ٹرک) نہ تو ماحول دوست ہیں اور نہ ہی صارفین (مسافروں) کے موافق (فٹنس کنڈیشن) کے کسی کم سے کم معیار پر ہی پوری اُترتی ہیں!

کسی بھی ضلع میں ’جنرل بس اسٹینڈ‘ پر جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ماضی کی طرح آج بھی معمول دکھائی دیتا ہے‘ وہیں ٹرانسپورٹروں اور مسافروں کے درمیان تعلق وقتی‘ سطحی اُور ایک کاروبار سے زیادہ اہمیت (تعارف و بیان) نہیں رکھتا جس میں خالص منافع ہی پیش نظر (مقصود و ترجیح) یعنی کاروباری ذہنیت حاکم ہونے کی وجہ سے صورتحال انتہاء تک بگڑ چکی ہے۔ 

کسی مسافر کا پہلا واسطہ ’بس اسٹینڈ‘ کے عملے اُور ڈرائیور و کنڈیکٹر سے ہوتا ہے جس کے ساتھ اخلاق و شائستگی سے بات نہیں کی جاتی۔ کسے یاد ہوگا کہ کبھی ٹکٹ گھر بھی ہوا کرتے تھے! بہرحال بطور صارف‘ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کی بنیادی شکایات کا مختصر بیان یہ ہے کہ 1: اضافی کرایہ کی وصولی‘ 2: مسافروں کے سازوسامان کے کرائے کا تقاضا‘ 3: فی گاڑی مقررہ نشستوں سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنا‘ 4: غیرآرام دہ نشستیں‘ 5: صفائی کی ناقص صورتحال‘ 6: نشستوں کے نیچے ایندھن (سی این جی) کے سلینڈر نصب ہونے کی وجہ سے مسافروں کو تمام وقت پاؤں سمیٹ کر رکھنے کے علاؤہ ایک ایسے مستقل خطرے پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے‘ جو نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے حفاظتی پروٹوکول (حکومتی جاری کردہ ہدایات واحکامات) سے مطابقت رکھتا ہے۔ 7: مسافر گاڑیوں کی آڑ میں اسمگلنگ (اشیاء کی غیرقانونی نقل و حمل) جو بین الاضلاعی و بین الصوبائی روٹس پر کھلے عام کی جاتی ہے۔ قیمتی پتھر‘ معدنیات‘ کپڑا‘ بیش قیمت الیکٹرانکس آلات اور گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات وغیرہ کو مسافروں کی نشسوں کے نیچے‘ گاڑی کے کونوں کھدروں‘ اکثر پاؤں رکھنے کی جگہ پر رکھا جاتا ہے‘ جس سے کئی گھنٹوں پر محیط سفر ایک مستقل سزا بن جاتا ہے۔ 8: جنرل بس اسٹینڈ یا ایسے مقامات پر پینے کے صاف پانی‘ سایہ دار انتظارگاہیں اور دیگر سہولیات کی فراہمی اور اُن کا معیار و مقدار میں اضافہ ہونا چاہئے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی ’اِی مینجمنٹ‘ عملاً کیسے کی جائے؟ اَصولی طور پر ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے شعبے میں حکومت بذات خود سب سے بڑی سرمایہ کار ہونی چاہئے تھی لیکن چونکہ یہ شعبہ سوفیصدی نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے تو اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت سے غلاموں جیسا یا اِس سے بھی بدتر سلوک روا رکھے یا ایسا کرنے کی غیرتحریری اجازت دے دی جائے۔ 

پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑے جملہ شعبوں کے اصلاح بذریعہ ’اِی مینجمنٹ‘ باآسانی ممکن بنانے کے لئے تمام گاڑیوں اور اُن کے روٹس پر مشتمل ’کمپیوٹرائزیشن کوڈنگ‘ کے ذریعے ’ڈیٹابیس‘ بنائی جا سکتی ہے جو کسی ایک روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کو اُن کی فٹنس کے مطابق عارضی و مستقل روٹ پرمٹ (اجازت نامے) جاری کرے۔ 

مستقل روٹ پرمٹ صرف ایک جبکہ اضافی روٹ پرمٹ زیادہ سے زیادہ فراہم کئے جا سکتے ہیں تاکہ کسی ایک روٹ پر خاص حالات و اوقات میں گاڑیوں کی تعداد کم زیادہ ہونے کے علاؤہ نجی شعبے کے لئے سرمایہ کاری کرنے کے مواقع مشتہر کئے جا سکیں۔ ڈرائیورز کے کوائف‘ رابطہ نمبر‘ صحت و زندگی کا بیمہ (انشورنس)‘ ڈرائیونگ لائسینس ہونے کی لازمی شرط سے مشروط ہونے چاہئیں جبکہ ڈرائیور کی جسمانی و نفسیاتی صحت و تندرستی کے لئے کم سے کم ہر چھ ماہ یا ایک سال بعد مرکزی سرکاری ہسپتال میں ماہر معالجین کی زیرنگرانی طبی معائنہ لازمی قرار دیا جائے۔ ڈرائیور و کنڈیکٹر کا متعلقہ تھانے سے کریمنیل ریکارڈ وغیرہ کی تفصیلات اگر ڈیٹابیس کا حصہ ہوں گی‘ تو ’اِی ٹیگ‘ کی طرح ایک خودکار نظام کے ذریعے نہ صرف کسی بھی روٹ پر رواں دواں گاڑیوں کی کل تعداد بلکہ اُن کی اسپیڈنگ پر بھی نظر رکھی جاسکے گی جو انسداد دہشت گردی کے لئے وضع کی گئی قومی حکمت عملی کے اہداف حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہوگی اُور نہ صرف ڈرائیور بلکہ ہر مسافر کے ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی)‘ کے ذریعے ٹکٹوں کا حصول ممکن ہوگا۔ 

گاڑیوں میں ’جی پی ایس‘ آلات اُور ’سی سی ٹی وی‘ کیمروں کی تنصیب سے مسافروں بالخصوص خواتین اور بزرگوں کی شکایات کا اَزالہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک سے زیادہ صوبائی حکومت کے محکمے ہونے کے باوجود نہ صرف مسافروں سے اضافی کرایہ یومیہ بنیادوں پر وصول کیا جارہا ہے بلکہ کسی مسافر کے بطور صارف حقوق کاغذوں پر تحریر کرنے والے اِن پر عمل درآمد کو ضروری نہیں سمجھ رہے؟ 

ماضی میں صوبائی وزیرٹرانسپورٹ سمیت متعلقہ افسرشاہی کے عہدے ایسے افراد کے پاس بھی رہے‘ جو یا تو خود یا اُن کے عزیزواقارب مختلف ناموں سے پبلک ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ فیصلہ سازی مفادات سے متصادم ہونے کی وجہ تھی کہ عام آدمی (ہم عوام) سے زیادہ ٹرانسپورٹروں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا۔ 

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے المعروف ملنگ و دبنگ اور دُرویش وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک سے درخواست ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون و بیرون پشاور صوبائی حکومت کی سرمایہ کاری کے علاؤہ ’اِی مینجمنٹ سسٹم‘ نافذ کرائیں‘ اگرچہ سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی اکثریت اُور اُن کے اہل خانہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے خود استفادہ نہیں کرتے‘ اِس لئے انہیں مسافروں کی تکالیف و مشکلات کا احساس نہیں اُور نہ ہی اُن کی شکایات سننے کا بھی کماحقہ فعال نظام موجود ہے ایسی صورت میں ’اِی مینجمنٹ‘ کے ذریعے کسی مسافر کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ سفر پر نکلنے سے پہلے اپنی سیٹ مختص کروا سکے۔ کسی خاص روٹ پر گاڑیوں کی دستیابی کے بارے معلومات حاصل کرسکے۔ 


ایڈوانس بکنگ اور اپنی مرضی کی نشست حاصل (بُک) کر سکے اُور اگر اِس جیسے لاتعداد اِمکانات کو ’مرکزی ڈیٹابیس‘ سے جوڑتے ہوئے ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کی اِی منیجمینٹ‘ متعارف کی جاتی ہے تو فی سواری ٹیکس وصول کرنا بھی ممکن ہو پائے گا‘ جو مالی مشکلات سے دوچار صوبائی حکومت کے لئے اضافی و معقول (پائیدار) آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

"Public Transport in Khyber Pukhtunkhwa need to be managed & organized using the tools of "E-MANAGEMENT