ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِی مینجمنٹ: شفاف طرزحکمرانی!
اِصلاح اَحوال مقصود ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی بذریعہ ’اِی مینجمنٹ‘ کے حوالے سے گذارشات میں جن ’دو پہلوؤں‘ سے صورتحال کا جائزہ اُور اِصلاحات تجویز کی گئیں‘ اُن کا لب لباب یہ تھا کہ صوبائی حکومت اپنی ’پبلک ٹرانسپورٹ پالیسی‘ کے مرکزی خیال پر ’’نظرثانی‘‘ کرے جس کی روشنی میں اِس شعبے میں نہ صرف صوبائی حکومت اپنی سرمایہ کاری سے تبدیلی لائے بلکہ نجی شعبے کی بلاشرکت غیرے حاکمیت (اجارہ داری) کو قوانین و قواعد کے تابع بنانے کے لئے ایک ایسے ’نظام‘ پر بھروسہ کیا جائے‘ جو چوبیس گھنٹے فعال رہ سکتا ہے‘ جو رخصت پر نہیں جاتا‘ جس کی طبعی عمر زیادہ ہے‘ جو بہ امر مجبوری یا بہانہ بنا کر چھٹی نہیں کرتا‘ جس کے ذریعے صارفین کی شکایات‘ تجاویز و آراء اُور تجربات (فیڈبیک) سے آگاہی ممکن ہو سکتی ہے۔ ’بالا و اعلیٰ‘ امر یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر ’کمپیوٹرائزڈ نظام‘ کی نگرانی کرنے والے اپنے اختیارات (پرویلیجز) کا استعمال کرتے ہوئے (باوجود خواہش) بھی ذاتی یا ٹرانسپورٹرز کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکیں گے یا اگر کریں گے تو اُن کی کارکردگی کا احتساب کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ اگر ’پبلک ٹرانسپورٹ سیکٹر‘ میں ’اِی مینجمنٹ‘ کا کامیابی سے اِطلاق کر دیا جاتا ہے تو اِسی کی بنیاد پر صحت و تعلیم کے شعبوں میں بھی اصلاحات ممکن بنائی جا سکیں گی‘ کیونکہ اِن دونوں شعبوں (صحت و تعلیم) میں بھی حکومت سے زیادہ نجی اِداروں کی حاکمیت دکھائی دیتی ہے لیکن ’طرزحکمرانی‘ کو شفاف بنانے کے لئے ’اِی مینجمنٹ‘ پر بادلنخواستہ ’تجرباتی اِنحصار‘ سے زیادہ فیصلہ سازوں کی مکمل آمادگی (نیت کا اخلاص)‘ ذہنی رغبت اُور ترتیب و ترکیب لازمی ہے۔
مثالیں موجود ہیں‘ جن کی روشنی میں ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کو ’اِی مینجمنٹ‘ کے حوالے کرنے سے حاصل شدہ اُن تمام نتائج کو سامنے رکھ کر ایسی اصلاحات متعارف کی جاسکتی ہیں‘ جن کا تجربہ پاکستان میں قدرے چھوٹے پیمانے پر چند نجی اداروں نے کر رکھا ہے اور وہ اِس ’آن لائن نظام‘ سے مسلسل استفادہ کرکے اربوں روپے سالانہ منافع کما رہے ہیں لیکن افسوس کہ سرکاری سطح پر نہ تو ایسی کامیابیوں کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارہ کی جاتی ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ’تعلیم و تحقیق اُور ترقی‘ کرنے والوں کی ذہانت و صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ ضمنی بات یہ ہے کہ اگر ہمارے فیصلہ ساز جامعات میں ہونے والی تحقیق ہی کے بارے میں ایک سالانہ صوبائی مقابلے کا انعقاد کرائیں‘ تو اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی بلکہ عقل دنگ رہ جائے گی کہ ہمارے ہاں طلباء و طالبات کس قدر ’ٹیلنٹ‘ سے مالامال ہیں اُور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے گردوپیش کے مسائل بارے کس حد تک فکرمند رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ کوئی اُن کی سوچ کو سمجھتے ہوئے تعمیرو ترقی کے خاکے میں اُنہیں رنگ بھرنے دے! جن مغربی معاشروں نے ترقی و ارتقاء کی منازل طے کیں‘ درحقیقت اُنہوں نے اپنے ہاں نوجوانوں کے خیالات کو سُنا‘ اُنہیں اہمیت دی اُور ایسا کرنے کی وجہ وہ تشنگی ہے جس کے چراغ طالبانِ علم و حکمت اپنے دلوں میں جلائے رکھتے ہیں! علم کی طلب‘ پیاس و تشنگی رکھنے والوں کو وہ سب کچھ عطا ہوتا ہے‘ جس کی لگن میں وہ اپنے مطالعے اُور سوچ کو وسعت دیتے چلے جاتے ہیں! بعدازاں گردوپیش اور کائنات پر غور کرنے کا یہ عمل ’ارتقائی‘ کامیابیوں کا ضامن بن جاتا ہے اُور ہر دُور کے مطابق علم و دانش‘ ذہانت اُور تخلیقی قوتیں میں اِضافہ دلیل (برہان) و متقاضی ہے کہ ’فیصلہ سازی سے تعمیروترقی کے بارے حکمت عملیاں وضع کرنے کے عمل میں نوجوانوں کی تحریر و تحقیق اور اُن کے خیالات و نظریات کو بھی خاطرخواہ (یکساں) اہمیت دی جائے۔‘
تعلیم کے شعبے میں اب تک ’اِی مینجمنٹ‘ سے جس قدر استفادہ ممکن ہو سکا ہے‘ اُس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ’اِی مینجمنٹ‘ کے تحت نہ صرف کسی سکول (تعلیمی ادارے) کا مالی نظم و ضبط (فیسیں‘ جرمانے‘ اضافی اخراجات کی وصولی) بہترانداز میں بذریعہ بینک ممکن ہوئی ہے بلکہ اِسی ’اِی مینجمنٹ‘ کے بل بوتے (خیروبرکت سے) کسی تعلیمی ادارے میں زیرتعلیم ہر ایک طالب علم کی یومیہ حاضری‘ کلاس میں کارکردگی (نفسیاتی روئیوں کے اُتار چڑھاؤ)‘ وقتاً فوقتاً داخلی و بیرونی امتحانات کے نتائج‘ ہم نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی بارے اساتذہ کی رائے (educational assesment) اُور ذہنی و جسمانی نشوونما سے متعلق کوائف (Data) نہ صرف بطور ریکارڈ جمع (محفوظ) کر لیا جاتا ہے بلکہ اِس معلومات کا تبادلہ بذریعہ ’ایس ایم ایس‘ والدین یا سرپرستوں کے دیئے گئے موبائل نمبروں پر خودکار نظام کے ذریعے ارسال بھی کر دیا جاتا ہے۔ یوں کسی تعلیمی ادارے کی چاردیواری میں ہونے والا درس و تدریس کا عمل انتظامیہ یا اساتذہ کی دسترس تک محدود نہیں رہا بلکہ اِس میں والدین و سرپرست بھی شریک ہو گئے ہیں‘ جو اگر چاہیں تو اپنے بچے کی ذہنی و جسمانی اور علمی تربیت کے بارے بذریعہ فون یا ملاقات کا وقت طے کر کے انتظامیہ سے اِس بارے تبادلۂ خیال بھی کر سکتے ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ ’یوم والدین‘ کو کسی تقریب میں مدعو کرکے بچے کی تعلیمی کارکردگی کے بارے ’اجمالی تبادلۂ خیال‘ معلومات کے وسیع المعانی تبادلے سے بدل گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اِبتدأ میں نجی تعلیمی اداروں نے ’غیرحکیمانہ رازداری‘ ترک کی اُور انکم ٹیکس اِداروں کے خوف و دہشت اُور دیگر تحفظات کے باوجود بھی اگر ’اِی مینجمنٹ کے نظام‘ میں وقت‘ مہارت و تجربے اُور مالی وسائل سے سرمایہ کاری کی تو اِس خالص منافع کے گرد گھومتی سوچ سے درس و تدریس کے عمل کو آگے بڑھانے میں ’بڑی قیمتی‘ مدد ملی ہے۔ یہی ’اِی مینجمنٹ‘ کا حسن ہے کہ اِس کی کوئی حد نہیں۔ یہ وسیع امکانات پر مشتمل ایک ایسے ’نئے جہان‘ سے متعارف کراتی ہے‘ جہاں ہر گھڑی کچھ نہ کچھ نیا ’وقوع پذیر‘ ہو رہا ہوتا ہے
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ’اِی مینجمنٹ نظام‘ سے استفادہ کرنے والے مستقبل کی ضروریات کے لئے زیادہ بہتر طور پر تیار ہوتے ہیں۔ اِس کے ذریعے بہتر و فعال نظم وضبط کا حصول ممکن ہوتا ہے جس کی بدولت اِنسانی ترقی اُور علوم و فنون کے اِرتقائی مراحل طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وسیع النظری درکار ہے۔ فیصلہ سازی بصیرت سے عاری نہیں بلکہ اِس سوچ سے مربوط رہنی چاہئے کہ ’مستقبل میں اُن کی ذہانت کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے گی‘ اُور وہ آج کے درپیش مسائل کا حل مستقبل کے تقاضوں کی روشنی میں کس حد تک کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں!
E-Management of Transport where the possibilities of same can be apply in Health & Education sectors too |