Tuesday, August 21, 2018

Aug 2018: Monopoly of Private Medical Colleges & an ugly role of PMDC!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام

میڈیکل کالجز: فیسوں میں اضافہ!

طب کی اعلیٰ تعلیم پر ’نجی شعبے‘ کی حکمرانی کے جاری دور کا خاتمہ کسی صورت (بذریعہ تدبیر و تدبر) نہیں ہو رہا۔ حتیٰ کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان‘ کی جانب سے مالی و اِنتظامی ’بے قاعدگیوں‘ کا نوٹس لیا گیا لیکن اِس کے باوجود بھی نگران ادارہ (پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ’پی ایم ڈی سی‘) اُور ’نجی میڈیکل کالجز‘ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پرائمری سے مڈل‘ سیکنڈری‘ ہائر سیکنڈری اور گریجویشن تک ’تعلیم‘ کے ہر شعبے پر ایسے ہی سرمایہ کاروں کی اجارہ داری ہے جنہوں نے ایک پاؤں نجی کاروبار اور دوسرا پاؤں سیاست میں گھسا رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قانونی اور عدالتی چارہ جوئی کے باوجود بھی صورتحال میں تبدیل نہیں ہو رہی۔19 اگست کو قوم سے پہلے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’وہ وزارت عظمیٰ کے دوران نجی کاروبار نہیں کریں گے۔‘‘ لیکن کیا وہ اپنی جماعت کے دیگر اراکین کو بھی روک سکیں گے جو انتخابات اور سیاسی جماعتوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے قومی فیصلہ سازی پر مسلط ہیں!؟

کیا یہ اَمر باعث تشویش نہیں کہ پاکستان کی سب بڑی عدالت (سپرئم کورٹ) کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی مداخلت کے باوجود بھی میڈیکل کالجوں کے نگران ادارے ’’پی ایم ڈی سی‘‘ اور ’’پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیوٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹیٹیویشن (پی اے ایم آئی)‘‘ نے مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیا کہ ۔۔۔ ’’داخلہ فیسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا جائے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ جن قومی اداروں کو عوام کے مفادات کا محافظ ہونا چاہئے‘ لیکن وہ نجی اداروں کے کاروباری مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں! اِس صورت میں عدالت کی جانب سے دباؤ اور تشویش کا اظہار بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ 

یاد رہے کہ میڈیکل کالجز کی سالانہ فیس 8لاکھ سے 9لاکھ 50ہزار تک بڑھادی گئی ہے‘ جس کے بعد ہر طالب علم کو (تعلیمی سیشن 2019ء) سے داخلے کی مد میں (اضافی) پچاس ہزار روپے اور پانچ فیصد ٹیکس اَدا کرنا ہوگا یعنی نہ صرف میڈیکل کالجز کو مقررہ فیس پر پچاس ہزار روپے اضافی وصول کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے بلکہ طلباء و طالبات پر پانچ فیصد ٹیکس کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے جس کی رقم بھی قریب پچاس ہزار روپے ہی بنتی ہے! ٹیکس اور وہ بھی تعلیم پر ٹیکس‘ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ 

اِس ضمن میں فیصلہ کیا گیا کہ میڈیکل کالجز میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کے والدین یا سرپرستوں کے پانچ سال پر مشتمل مالی استعداد سے متعلق اسناد بھی طلب کی جائیں اور انشورنس سرٹیفکیٹ بھی پیش کرنا لازمی ہوگا۔ نجی میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لئے والدین کی ’مالی استعداد‘ معلوم کرنے کا تعلق قطعی طور پر فیسوں میں اضافے سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ تو ایک الگ ضرورت ہے۔ صرف نجی میڈیکل کالجز ہی نہیں بلکہ دیگر ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جہاں عمومی درس و تدریس سے لیکر پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم تک لاکھوں روپے فیسیں وصول کی جاتی ہیں اور اصولی طور پر اِن معاملات کا ’ایف بی آر(FBR)‘ کو جائزہ لینا چاہئے کہ بھاری فیسیں ادا کرنے والے والدین کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ پاکستان میں بدعنوانی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے صارفین کے اخراجات اور اثاثہ جات معلوم لیکن ’ذرائع آمدن‘ نامعلوم ہیں!

خودمختار’پی ایم ڈی سی ‘کی جانب سے فیسوں میں اضافے کو دیگر فیصلوں کی آڑ میں پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جیسا کہ والدین کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ اضافی پانچ فیصد ٹیکس دیا جائے اور سنٹرل پالیسی نظام کے تحت آئندہ سے داخلے دیئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ نجی میڈیکل کالجز کے معاملات گزشتہ برس (2018ء) دسمبر سے موجودہ چیف جسٹس پاکستان کی عدالت میں زیرسماعت ہیں‘ جنہوں نے ’نجی میڈیکل کالجز‘ کی جانب سے داخلہ وصولیوں اور ایڈمیشن پالیسی سے متعلق خبروں اور والدین کی شکایات کا ’’ازخود نوٹس‘‘ لیا تھا‘ جس کے بعد اُمید ہو چلی تھی کہ صورتحال تبدیل ہوگی۔ توقع تھی کہ پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم خطے کے دیگر ممالک (بھارت‘ چین‘ روس اور ایران) کے مقابلے صرف زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے تو اِس میں کمی ہو گی اور غیرمعیاری نجی میڈیکل کالجز کا خاتمہ عملاً ممکن ہوگا۔ اخبارات میں خبروں اور تجزئیات کی اشاعت اور عوام کو اُمید دلانے کی حد تک تو سپرئم کورٹ نے یقیناًاپنا ہدف حاصل کر لیا لیکن نئے تعلیمی سیشن (دو ہزار اُنیس) کے لئے جب والدین کو ایک لاکھ روپے اضافی ادا کرنا پڑیں گے تو اُن پر ’سپرئم کورٹ‘ اور ’انصاف و قانون‘ کی حقیقت واضح ہو جائے گی! 

عدالت عظمیٰ نے ’پی ایم ڈی سی‘ رجسٹرار سے رپورٹ طلب کی تھی اور ریمارکس دیئے تھے کہ بغیر جواز فیسوں میں اضافے کی اجازت نہ دی جائے چونکہ ’’جواز‘‘ کے امکان کو رکھا گیا تھا جس کا فائدہ ’رجسٹرار‘ نے بخوبی اٹھایا ہے اور وکلاء ثابت کردیں گے کہ اُس نے توہین عدالت بھی نہیں کی! 

آٹھ سال گزرنے کو ہیں اور موضوع ہے کہ پرانا نہیں ہورہا۔ مجموعی طور پر سپریم کورٹ نے 2010ء میں میڈیکل کالج کی فیسوں سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا اور بعدازاں فیصلہ سامنے آیا کہ ہر طالب علم سالانہ ساڑھے پانچ لاکھ روپے ادا کرے گا ‘جس میں زیادہ سے زیادہ 7فیصد سالانہ اضافے کی اجازت ہو گی۔2013ء میں نجی میڈیکل کالجز 6لاکھ 42ہزار تک فیس وصول کر رہے تھے اور قانونی ضرورت تھی کہ میڈیکل کالج تدریس کے ساتھ 150بیڈز کا ’’مفت تدریسی (ٹیچنگ) ہسپتال‘‘ کی سہولت بھی فراہم کرے گا‘ جس سے طلباء و طالبات کو عملی تربیت کے ساتھ عوام کو صحت کی سہولیات میسر آئیں گی لیکن نجی میڈیکل کالجز کی بڑی تعداد سرکاری علاج گاہوں سے استفادہ کر رہی ہے‘ جہاں پہلے ہی حکومت کی جانب سے سالانہ بجٹ دیا جاتا ہے۔ سال 2016ء میں میں ’پی ایم ڈی سی‘ نے داخلوں کا ’’سنٹرل انڈکشن نظام‘‘ متعارف کرایا تھا تاکہ نجی کالجز کو طالب علموں سے من مانی وصولیاں روکی جا سکیں لیکن نجی میڈیکل کالجز کی جانب سے ’پی ایم ڈی سی‘ کا اِس نظام کو مسترد کرتے ہوئے عدالت سے حکم امتناعی (اسٹے آرڈر) حاصل کرلیا گیا۔

2017ء میں ایک مرتبہ پھر ’پی ایم ڈی سی‘ نے نجی میڈیکل کالجز کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کیا اور فیصلہ سامنے آیا کہ سالانہ فیس 6لاکھ 42ہزار سے بڑھا کر 8لاکھ روپے کردی جائے اور اسی رقم میں طالب علم کو قیام و طعام‘ ٹرانسپورٹ اور لائبریری سمیت درس و تدریس سے جڑی جملہ سہولیات فراہم کی جائیںیعنی 8 لاکھ روپے سے اضافی فنڈز طلب نہ کئے جائیں۔ ساتھ ہی نجی کالجز کو ہدایت کی گئی کہ طلباء و طالبات کو ’’سنٹرل انڈکشن نظام‘‘ کے تحت ہی داخلہ دیں۔ نئی شرح داخلہ فیسوں کے مطابق نجی میڈیکل کالج کے ہر طالب علم کو سالانہ 9لاکھ 50روپے ادائیگی کرنا ہوگی جبکہ اِس کے علاؤہ الگ سے (ایک مرتبہ) 50ہزار روپے داخلہ فیس اور ایک ہی مرتبہ داخلہ فیس پر پانچ فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ گویا میڈیکل کالجز بیٹھے بٹھائے فی طالب علم پچاس ہزار روپے مقررہ فیس کے علاؤہ وصولی کریں گے جبکہ وہ پہلے ہی داخلہ فارم کی فروخت سے لاکھوں روپے کما چکے ہوتے ہیں! 

نئی داخلہ پالیسی ’اکتوبر 2018ء‘ سے فعال تصور ہوگی اور اس کا اطلاق اُن تمام ’طلباء و طالبات پر یکساں‘ پر ہوگا جنہوں نے ماضی میں بھی داخلہ لے رکھا ہے لیکن تاحال ’ایم بی بی ایس‘ اور ’بی ڈی ایس‘ کی تعلیم مکمل نہیں کی! طب کی اعلیٰ تعلیم ’’حکیمانہ فعل ‘‘ہے‘ جسے نجی شعبے کے حوالے کرنے جیسے ’’ظالمانہ‘ اقدام ‘‘کی اصلاح اب اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ ’وزیراعظم عمران خان‘ ہیں! جنہیں عدالت عظمیٰ جیسی بلندمرتبت ’’اتھارٹی ‘‘کی ناکامی کے بعد ’’اُمید کی آخری کرن‘‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے!

Monday, August 20, 2018

Aug 2018: NEGLECTED sector, the "Social Security" in Pakistan!

شبیرحسین امام
نیاپاکستان: ریاست کا فلاحی کردار!
پاکستان میں غربت کے کئی پہلو ہیں اور اِس ناتوانی کا جائزہ جس کسی پہلو سے بھی لیا جائے زیادہ بھیانک و پرسرار چہرہ (محرک) سامنے آتا ہے۔ معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرکے غربت سے دوچار رکھنے میں والوں میں سیاسی فیصلہ سازوں کے شانہ بشانہ ذمہ دار سرکاری ملازمین (افسرشاہی) بھی ہے جنہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف تو اٹھایا لیکن اِس حلف کی پاسداری نہیں کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ تبدیلی اور اصلاحات کے ’انقلابی لائحہ عمل (ایجنڈے)‘ متعارف کروائے لیکن اِس سے قبل ’بیوروکریسی‘ کا قبلہ درست کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو حاصل مالی و انتظامی اختیارات میں کمی نہ لائے۔ حکومت ملازمتیں دینے والی ایجنسی کا نام نہیں ہوتا بلکہ عوام کے ٹیکسوں اور بہبود کے لئے مختص مالی وسائل سے ملازمین اِس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ عوام کی خدمت کریں تو کیا عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے؟ سرکاری اداروں سے بدعنوانی اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اِس بدعنوانی کے امکانات (صوابدیدی اختیارات) پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا‘ جب تک کارکردگی کو ملازمت سے مشروط نہیں کردیا جاتا جو کہ ’’ناگزیر ضروریات‘‘ ہیں۔

غربت کے بارے میں حکومت پاکستان کے مرتب کردہ اعدادوشمار کو مستند مان لیا جائے جنہیں ماہرین کم بتاتے ہوئے اختلاف رکھتے ہیں تب بھی صورتحال ناقابل یقین حد تک خراب ہے۔ حالیہ سالانہ اِقتصادی جائزہ ’اکنامک سروے آف پاکستان (2017-18ء)‘ کے مطابق ’’پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی (5 کروڑ لوگ) خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں یعنی پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں صرف ایک وقت کا کھانا بمشکل میسرآتا ہے۔ اِس کے علاؤ ہ38.8 فیصد لوگ ایسے ہیں جنہیں مختلف پہلوؤں سے غربت کا سامنا ہے یعنی اُن کا رہن سہن ایسا ہے کہ اُس میں تعلیم و صحت اور سہولیات سمیت کچھ بھی معیاری نہیں۔ یوں مجموعی طور پر پاکستان کی ’’88.8 فیصد‘‘ آبادی کسی نہ کسی صورت غربت سے دوچار ہے۔ غربت زدہ اور غریب متوسط طبقات کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے‘ جہاں کی معیشت و معاشرت کا انحصار زراعت پر ہے اور ایک عرصے سے زراعت وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ترجیح نہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں‘ پانی کی قلت اور پیداواری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے زراعت منافع بخش بھی نہیں رہی!

اقوام متحدہ کی جانب سے سال 2030ء تک رکن ممالک سے جس ایک چیز کا ترجیحی بنیادوں پر خاتمہ کرنے کی حکمت عملی (ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز اور بعدازاں ساسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) وضع کئے گئے اُن میں سرفہرست غربت کا خاتمہ ہے‘ جس کے لئے تجویز کیا گیا ہے کہ حکومتیں ’سماجی و اقتصادی بہبود (سوشل پروٹیکشن)‘ کے ذریعے غربت زدہ خاندانوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں‘ اُن کی روزمرہ ضروریات پوری کی جائیں اور تعلیم و صحت تک سب کو یکساں رسائی دی جائے۔ اِس سلسلے میں ریاست کے فلاحی کردار پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور اگر اقوام متحدہ کے وضع کردہ (پائیدار ترقی کے) اہداف کا یہ بنیادی نکتہ سمجھ لیا جائے تو باقی ماندہ کام آسان ہو جاتا ہے کہ ’’ریاست (حکومت) کا کام فلاح اور سماجی تحفظ ہونا چاہئے۔‘‘ کیا پاکستان میں کوئی ایک بھی حکومت عام آدمی (ہم عوام) کے ’’سماجی تحفظ‘‘ کے لئے فکرمند دکھائی دی؟ اور کیا تبدیلی و ترقی کا کارواں کسی بھی طرح منزل تک پہنچ پائے گا جبکہ آبادی کا بڑا حصہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور اُس میں قدم اٹھانے کی بھی سکت نہ رہی ہو!؟

دنیا کے 149 ممالک میں سے صرف غریب ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی حکومتوں کی جانب سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی ’’مالی مدد‘‘ کی جاتی ہے اور پاکستان میں ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ بھی اُنہیں عالمی کوششوں کا تسلسل ہے جس کے ذریعے انتہائی غریب اور کم آمدن والے طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے کی محدود کوشش کی گئی۔ 

تحریک انصاف کے مقرر کردہ انتخابی اہداف (وعدوں) میں سماجی تحفظ کی فراہمی اور فلاحی ریاست کا قیام شامل رہا اور چیئرمین عمران خان انتخابی جلسوں میں جس ’مدینۃ المنورہ‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں جس کی مثالیں آج کے ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہیں‘ جہاں ریاست کے پاس وسائل کی ہر پائی عوام کی بہبود پر خرچ ہوتی اُور حکمراں خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہوئے ریاستی وسائل سے ’نمود و نمائش‘ اختیار نہ کرتے تھے۔ تحریک انصاف کے لئے ممکن ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دے جو کہ انتظامی طور پر کم خرچ حل ہوگا لیکن اگر ایک نیا پروگرام شروع کیا گیا تو اِس کے انتظامی معاملات پر اٹھنے والے اخراجات اضافی بوجھ ہوں گے۔ 

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا 10 سالہ عرصہ کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہے۔ سیاسی جماعتوں (پیپلزپارٹی اور نواز لیگ) نے اِس پروگرام سے انتخابی فوائد حاصل کرنے کو زیادہ اہم سمجھا۔ اراکین اسمبلیوں کے ذریعے کارڈ تقسیم کئے گئے جن کی ایک بڑی تعداد آج بھی انتہائی غریبوں یا مستحقین کے علاؤہ اُن لوگوں کے پاس ہے جہاں یہ نہیں ہونے چاہئے تھے۔ کیا تحریک انصاف ’بینظیرانکم سپورٹ پروگرام‘ کی مالی امداد میں اضافے سے پہلے ’کلب ممبروں‘ کا حساب کتاب کرے گا؟ 

یہی سبب رہا کہ قریب 2 کروڑ 70 لاکھ افراد کی مالی معاونت کرنے کے باوجود بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو رہے اور نہ ہی خود حکومت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 5 کروڑ ’’انتہائی غریب‘‘ اَفراد ہی اِس منصوبے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اب تک کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ مالی معاونت و استعانت سے غربت کی دلدل میں پھنسے خاندانوں کو وقتی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن وہ آمدنی کے لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا مالی وسائل بنیادی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک وسیع کرنا ہوں گے تاکہ غربت سے سمجھوتہ نہیں بلکہ اُسے شکست دی جا سکے۔ اِس سلسلے میں کئی ممالک کے تجربات اور اُن سے حاصل کردہ نتائج موجود ہیں کہ جہاں حکومتوں نے غریب اور کم آمدنی رکھنے والے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نہ صرف غربت سے رہا ہوگئے بلکہ اُنہوں نے معاشرے کے دیگر غریبوں کے لئے بھی آسانیاں پیدا کیں۔ دراصل تعلیم میں سرمایہ کاری ہی ایک روشن مستقبل اور نئے پاکستان کی نوید بن سکتی ہے۔
۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-08-20

https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-08-20

Aug 2018: FYI: Honorable "Speaker National Assembly!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اسپیکر قومی اسمبلی کے نام!
انتخابات بعدازانتخابات کامیابیوں کے علاؤہ خیبرپختونخوا‘ اسمبلی سے اسپیکر قومی اسمبلی تک کے سفر میں 48 سالہ ’اَسد قیصر (پیدائش: 15نومبر1969ء)‘ نے جس مثالی ’’کردار اور کارکردگی (سمجھ بوجھ)‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے‘ اُسے مدنظر رکھتے ہوئے اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی وہ ’نئی ذمہ داریاں‘ حسب سابق ’’خوش اسلوبی‘‘ کے ساتھ سرانجام دیں گے اُور بطور اسپیکر خیبرپختونخوا‘ اسمبلی بطور خاص جس طرح اُنہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اُن کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سہولیات فراہم کیں اُور جس طرح شفقت کا مظاہرہ کیا‘ اُسے جاری اور رہی سہی کسر نکالتے ہوئے 

1: خیبرپختونخوا و ملک کے دیگر حصوں سے صحافیوں کو مدعو کریں گے تاکہ وہ قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں اجلاسوں میں بطور مبصر شریک ہو سکیں۔ 
2: طلباء و طالبات کے لئے مستقل بنیادوں پر قومی اسمبلی اجلاسوں کے مطالعاتی دورے ترتیب دیئے جائیں گے‘ تاکہ جمہوری پارلیمان کے طریقۂ کار اور قانون سازی کے عمل سے متعلق نئی نسل کے تصورات واضح ہوں اُور 
3: پارلیمینٹ ٹیلی ویژن چینل کا بوساطت ’پی ٹی وی‘ سیٹلائٹ یا انٹرنیٹ پر فوری اجرأ کریں گے۔ اِن تین اصلاحاتی اقدامات سے عوام کے لئے قانون ساز ایوان میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی جاننے کا موقع میسر آئے گا۔ 

ایسا کرنا بالخصوص موجودہ حالات میں اِس لئے بھی ضروری ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کے مقابلے میں حزب اختلاف (پیپلزپارٹی اور نواز لیگ) اِرادہ (عزائم) رکھتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں ’بھرپور احتجاج‘ کی صورت حکومت کے اصلاحاتی و تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کے کام کاج میں رکاوٹ بنے گی اور اگر اِس موقع پر عام آدمی (ہم عوام) کو ’عینی شاہد‘ بنا لیا جائے تو اِس سے آئندہ عام انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف کو اپنی کارکردگی کے دفاع میں زیادہ کچھ کہنا نہیں پڑے گا اور خاطرخواہ آسانیاں پیدا ہوں گی۔

پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ’تین بنیادی‘ کام ہوئے۔ نومنتخب اَراکین نے بطور رکن اسمبلی حلف لیا۔ اراکین نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا اور قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آیا۔ اِن تینوں کاموں کے لئے الگ الگ دن مقرر تھے‘ جس کے لئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مہمانوں کے لئے طے شدہ طریقے کے مطابق کارڈز جاری کئے لیکن چونکہ کارڈز جاری کرنے کا عمل ’اسپیکر آفس‘ کے ماتحت ہوتا ہے اور ’تحریک انصاف‘ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی انتظامی نگرانی (اسپیکر) مقرر ہوئی ہے‘ اِس لئے حسب توقع ’نئے مہمانوں‘ کو اجازت نامے حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ 

لمحۂ فکریہ ہے کہ قومی اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کے لئے اجازت نامے (Passes) حاصل کرنے والوں کے کوائف (ڈیٹابیس) نہیں کئے جاتے‘ بس وقتی طور پر کام چلایا جا رہا ہے۔ اصولی طور پر یہ عمل ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ سے منسلک ہونا چاہئے جس طرح بینک اکاونٹ کھلوانے کے لئے نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو نادرا سے کوائف کی جانچ پڑتال کا اختیار و سہولت دی گئی ہے‘ یہی سہولت قومی اسمبلی کو حاصل ہے لیکن اِس کا استعمال ’وزیٹرز گیلریز‘ کے لئے اجازت ناموں کے لئے نہیں کیا جاتا۔ اِس پورے نظام کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی نشست پر کسی کا حق نہ ہو بلکہ ہر خاص و عام کو آن لائن درخواست دینے کے ترجیحی طریقۂ کار کے مطابق کارڈ جاری ہونے چاہیءں۔ جس طرح چند حکمراں خاندانوں نے پورے ملک کے وسائل اپنے لئے مخصوص کر رکھے ہیں بالکل اُسی طرح ’خودساختہ وی آئی پیز‘ نے قانون ساز ایوانوں کی مہمان گیلریوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ 

وقت ہے کہ قومی اسمبلی سے تجاوزات کا خاتمہ کرتے ہوئے آن لائن ’ڈیٹابیس‘ کے ذریعے مہمانوں کی گیلریوں کے اجازت نامے جاری کئے جائیں‘ جس کے لئے ’اسمبلی سیکرٹریٹ‘ ذرائع ابلاغ اور اپنی ویب سائٹ (na.gov.pk) پر تاریخوں کا اعلان کر سکتا ہے اور قومی اسمبلی کی اپنی موبائل ایپ (mobile app) لانچ کرنے کا اعزاز بھی ’اسپیکر اسد قیصر‘ ہی کو ملنا چاہئے۔ چونکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ’حاضر سروس ملازمین‘ کی بڑی تعداد گذشتہ 30 سال میں بھرتی ہوئی ہے اور اُن کی سیاسی وابستگی اور ہمدردیاں اِن تین دہائیوں کے حکمراں ’’نواز لیگ و پیپلزپارٹی‘‘ کے ساتھ ہیں‘ اِس لئے نئی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لئے اجازت ناموں میں امتیاز برتا گیا۔ گراؤنڈ فلور کی گیلریاں مختلف عہدیداروں کے نام سے مخصوص ہیں‘ جن کے پاسیز ’وی آئی پی‘ اراکین کی مرضی سے جاری ہوتے ہیں۔ 

اصولی طور پر قومی اسمبلی ایوان کی ہر گیلری اور مہمانوں کی ہر نشست ’بحق عوام‘ محفوظ ہونی چاہیءں‘ جن پر اسپیکر‘ ڈپٹی اسپیکر‘ قائد حزب اختلاف‘ پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں اور دیگر کا صوابدیدی استحقاق ختم کر دیا جائے۔ موجودہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جس طرح اسمبلی عملے نے اپنے ماضی کے آقاؤں کو خوش کیا اُس کی تحقیقات ضروری ہیں۔ کارڈز جاری کرنے والے عملے میں ردوبدل بھی ناگزیر حد تک ضروری ہے۔ قومی اسمبلی ملازمین کی کل تعداد کتنی ہے؟ 

قومی اسمبلی کے اخراجات کا حساب کتاب (آڈٹ) جو گذشتہ کئی سال سے نہیں ہوا‘ لیکن یہ لازماً ہونا چاہئے تاکہ تحریک انصاف کے دور میں اختیار کی گئی سادگی کا موازنہ ماضی سے کیا جا سکے۔ جب ہمیں یہ معلوم ہیں نہیں ہوگا کہ ماضی میں قومی اسمبلی کے اخراجات کیا تھے اور اُن میں ہر سال کس شرح سے اضافہ کیا جاتا رہا‘ تو پھر کس بنیاد پر کہا جائے گا کہ تحریک انصاف نے قومی وسائل کی بچت کی؟ 

پی آئی اے کی طرح اِسمبلی ملازمین بھی ادارے پر بوجھ ہیں‘ ہر کونے اور ہر سیڑھی پر رہنمائی کرنے کے لئے ملازمین تعینات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ جا بجا بورڈز لگے ہوئے ہیں۔ مہمانوں کو جاری کئے جانے والے کارڈز کے رنگ اور اُن رنگوں کی زمین پر پٹیاں لگا کر باآسانی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ قومی اسمبلی ایوان کے ملازمین کی تعداد فی رکن کی تعداد سے زیادہ نہ ہو لیکن اگر ایسا ممکن نہیں تو فی رکن 2 ملازمین سے زیادہ کسی بھی صورت نہیں ہونے چاہیئں۔ چائے پانی تقسیم کرنے والے ملازمین کی تو قطعی گنجائش موجود نہیں اور 
قومی اسمبلی ایوان میں نجی بینک کی بجائے قومی ’نیشنل بینک‘ کی شاخ قائم ہونی چاہئے۔ اراکین اسمبلی کے بینک اکاونٹس اُوراُنہیں دی جانے والی جملہ ادائیگیاں بذریعہ ’نیشنل بینک‘ ہونی چاہیئں۔ اسپیکر ’اسد قیصر‘ اگر کام کرنا چاہیں تو وہ ’قومی اسمبلی‘ کی تاریخ میں ’’ایک ہیرو‘‘ کا مقام حاصل کر لیں گے اور عمران خان کو ایسے ’ستاروں‘ کی ضرورت ہے جو اپنے اپنے محاذ پر اُن کی تبدیلی اور اصلاح کے پروگرام کو عملاً لاگو کریں۔
۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/1534694162_201808192814.gif 
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-08-20