ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
میڈیکل کالجز: فیسوں میں اضافہ!
طب کی اعلیٰ تعلیم پر ’نجی شعبے‘ کی حکمرانی کے جاری دور کا خاتمہ کسی صورت (بذریعہ تدبیر و تدبر) نہیں ہو رہا۔ حتیٰ کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان‘ کی جانب سے مالی و اِنتظامی ’بے قاعدگیوں‘ کا نوٹس لیا گیا لیکن اِس کے باوجود بھی نگران ادارہ (پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ’پی ایم ڈی سی‘) اُور ’نجی میڈیکل کالجز‘ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پرائمری سے مڈل‘ سیکنڈری‘ ہائر سیکنڈری اور گریجویشن تک ’تعلیم‘ کے ہر شعبے پر ایسے ہی سرمایہ کاروں کی اجارہ داری ہے جنہوں نے ایک پاؤں نجی کاروبار اور دوسرا پاؤں سیاست میں گھسا رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قانونی اور عدالتی چارہ جوئی کے باوجود بھی صورتحال میں تبدیل نہیں ہو رہی۔19 اگست کو قوم سے پہلے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’وہ وزارت عظمیٰ کے دوران نجی کاروبار نہیں کریں گے۔‘‘ لیکن کیا وہ اپنی جماعت کے دیگر اراکین کو بھی روک سکیں گے جو انتخابات اور سیاسی جماعتوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے قومی فیصلہ سازی پر مسلط ہیں!؟
کیا یہ اَمر باعث تشویش نہیں کہ پاکستان کی سب بڑی عدالت (سپرئم کورٹ) کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی مداخلت کے باوجود بھی میڈیکل کالجوں کے نگران ادارے ’’پی ایم ڈی سی‘‘ اور ’’پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیوٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹیٹیویشن (پی اے ایم آئی)‘‘ نے مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیا کہ ۔۔۔ ’’داخلہ فیسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا جائے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ جن قومی اداروں کو عوام کے مفادات کا محافظ ہونا چاہئے‘ لیکن وہ نجی اداروں کے کاروباری مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں! اِس صورت میں عدالت کی جانب سے دباؤ اور تشویش کا اظہار بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔
یاد رہے کہ میڈیکل کالجز کی سالانہ فیس 8لاکھ سے 9لاکھ 50ہزار تک بڑھادی گئی ہے‘ جس کے بعد ہر طالب علم کو (تعلیمی سیشن 2019ء) سے داخلے کی مد میں (اضافی) پچاس ہزار روپے اور پانچ فیصد ٹیکس اَدا کرنا ہوگا یعنی نہ صرف میڈیکل کالجز کو مقررہ فیس پر پچاس ہزار روپے اضافی وصول کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے بلکہ طلباء و طالبات پر پانچ فیصد ٹیکس کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے جس کی رقم بھی قریب پچاس ہزار روپے ہی بنتی ہے! ٹیکس اور وہ بھی تعلیم پر ٹیکس‘ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
اِس ضمن میں فیصلہ کیا گیا کہ میڈیکل کالجز میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کے والدین یا سرپرستوں کے پانچ سال پر مشتمل مالی استعداد سے متعلق اسناد بھی طلب کی جائیں اور انشورنس سرٹیفکیٹ بھی پیش کرنا لازمی ہوگا۔ نجی میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لئے والدین کی ’مالی استعداد‘ معلوم کرنے کا تعلق قطعی طور پر فیسوں میں اضافے سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ تو ایک الگ ضرورت ہے۔ صرف نجی میڈیکل کالجز ہی نہیں بلکہ دیگر ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جہاں عمومی درس و تدریس سے لیکر پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم تک لاکھوں روپے فیسیں وصول کی جاتی ہیں اور اصولی طور پر اِن معاملات کا ’ایف بی آر(FBR)‘ کو جائزہ لینا چاہئے کہ بھاری فیسیں ادا کرنے والے والدین کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ پاکستان میں بدعنوانی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے صارفین کے اخراجات اور اثاثہ جات معلوم لیکن ’ذرائع آمدن‘ نامعلوم ہیں!
خودمختار’پی ایم ڈی سی ‘کی جانب سے فیسوں میں اضافے کو دیگر فیصلوں کی آڑ میں پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جیسا کہ والدین کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ اضافی پانچ فیصد ٹیکس دیا جائے اور سنٹرل پالیسی نظام کے تحت آئندہ سے داخلے دیئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ نجی میڈیکل کالجز کے معاملات گزشتہ برس (2018ء) دسمبر سے موجودہ چیف جسٹس پاکستان کی عدالت میں زیرسماعت ہیں‘ جنہوں نے ’نجی میڈیکل کالجز‘ کی جانب سے داخلہ وصولیوں اور ایڈمیشن پالیسی سے متعلق خبروں اور والدین کی شکایات کا ’’ازخود نوٹس‘‘ لیا تھا‘ جس کے بعد اُمید ہو چلی تھی کہ صورتحال تبدیل ہوگی۔ توقع تھی کہ پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم خطے کے دیگر ممالک (بھارت‘ چین‘ روس اور ایران) کے مقابلے صرف زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے تو اِس میں کمی ہو گی اور غیرمعیاری نجی میڈیکل کالجز کا خاتمہ عملاً ممکن ہوگا۔ اخبارات میں خبروں اور تجزئیات کی اشاعت اور عوام کو اُمید دلانے کی حد تک تو سپرئم کورٹ نے یقیناًاپنا ہدف حاصل کر لیا لیکن نئے تعلیمی سیشن (دو ہزار اُنیس) کے لئے جب والدین کو ایک لاکھ روپے اضافی ادا کرنا پڑیں گے تو اُن پر ’سپرئم کورٹ‘ اور ’انصاف و قانون‘ کی حقیقت واضح ہو جائے گی!
عدالت عظمیٰ نے ’پی ایم ڈی سی‘ رجسٹرار سے رپورٹ طلب کی تھی اور ریمارکس دیئے تھے کہ بغیر جواز فیسوں میں اضافے کی اجازت نہ دی جائے چونکہ ’’جواز‘‘ کے امکان کو رکھا گیا تھا جس کا فائدہ ’رجسٹرار‘ نے بخوبی اٹھایا ہے اور وکلاء ثابت کردیں گے کہ اُس نے توہین عدالت بھی نہیں کی!
آٹھ سال گزرنے کو ہیں اور موضوع ہے کہ پرانا نہیں ہورہا۔ مجموعی طور پر سپریم کورٹ نے 2010ء میں میڈیکل کالج کی فیسوں سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا اور بعدازاں فیصلہ سامنے آیا کہ ہر طالب علم سالانہ ساڑھے پانچ لاکھ روپے ادا کرے گا ‘جس میں زیادہ سے زیادہ 7فیصد سالانہ اضافے کی اجازت ہو گی۔2013ء میں نجی میڈیکل کالجز 6لاکھ 42ہزار تک فیس وصول کر رہے تھے اور قانونی ضرورت تھی کہ میڈیکل کالج تدریس کے ساتھ 150بیڈز کا ’’مفت تدریسی (ٹیچنگ) ہسپتال‘‘ کی سہولت بھی فراہم کرے گا‘ جس سے طلباء و طالبات کو عملی تربیت کے ساتھ عوام کو صحت کی سہولیات میسر آئیں گی لیکن نجی میڈیکل کالجز کی بڑی تعداد سرکاری علاج گاہوں سے استفادہ کر رہی ہے‘ جہاں پہلے ہی حکومت کی جانب سے سالانہ بجٹ دیا جاتا ہے۔ سال 2016ء میں میں ’پی ایم ڈی سی‘ نے داخلوں کا ’’سنٹرل انڈکشن نظام‘‘ متعارف کرایا تھا تاکہ نجی کالجز کو طالب علموں سے من مانی وصولیاں روکی جا سکیں لیکن نجی میڈیکل کالجز کی جانب سے ’پی ایم ڈی سی‘ کا اِس نظام کو مسترد کرتے ہوئے عدالت سے حکم امتناعی (اسٹے آرڈر) حاصل کرلیا گیا۔
2017ء میں ایک مرتبہ پھر ’پی ایم ڈی سی‘ نے نجی میڈیکل کالجز کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کیا اور فیصلہ سامنے آیا کہ سالانہ فیس 6لاکھ 42ہزار سے بڑھا کر 8لاکھ روپے کردی جائے اور اسی رقم میں طالب علم کو قیام و طعام‘ ٹرانسپورٹ اور لائبریری سمیت درس و تدریس سے جڑی جملہ سہولیات فراہم کی جائیںیعنی 8 لاکھ روپے سے اضافی فنڈز طلب نہ کئے جائیں۔ ساتھ ہی نجی کالجز کو ہدایت کی گئی کہ طلباء و طالبات کو ’’سنٹرل انڈکشن نظام‘‘ کے تحت ہی داخلہ دیں۔ نئی شرح داخلہ فیسوں کے مطابق نجی میڈیکل کالج کے ہر طالب علم کو سالانہ 9لاکھ 50روپے ادائیگی کرنا ہوگی جبکہ اِس کے علاؤہ الگ سے (ایک مرتبہ) 50ہزار روپے داخلہ فیس اور ایک ہی مرتبہ داخلہ فیس پر پانچ فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ گویا میڈیکل کالجز بیٹھے بٹھائے فی طالب علم پچاس ہزار روپے مقررہ فیس کے علاؤہ وصولی کریں گے جبکہ وہ پہلے ہی داخلہ فارم کی فروخت سے لاکھوں روپے کما چکے ہوتے ہیں!
نئی داخلہ پالیسی ’اکتوبر 2018ء‘ سے فعال تصور ہوگی اور اس کا اطلاق اُن تمام ’طلباء و طالبات پر یکساں‘ پر ہوگا جنہوں نے ماضی میں بھی داخلہ لے رکھا ہے لیکن تاحال ’ایم بی بی ایس‘ اور ’بی ڈی ایس‘ کی تعلیم مکمل نہیں کی! طب کی اعلیٰ تعلیم ’’حکیمانہ فعل ‘‘ہے‘ جسے نجی شعبے کے حوالے کرنے جیسے ’’ظالمانہ‘ اقدام ‘‘کی اصلاح اب اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ ’وزیراعظم عمران خان‘ ہیں! جنہیں عدالت عظمیٰ جیسی بلندمرتبت ’’اتھارٹی ‘‘کی ناکامی کے بعد ’’اُمید کی آخری کرن‘‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے!