ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بہ اَمر مجبوری مصلحتیں!
بہ اَمر مجبوری مصلحتیں!
خیبرپختونخوا میں حکومت کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا بالخصوص سال 2001ء کے
ماہ ستمبر کی گیارہ تاریخ نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اُس ایک دہشت
گرد ’نائن الیون‘ حملوں کے منفی اثرات سے خیبرپختونخوا محفوظ نہ رہ سکا
تاہم صرف یہی ایک منفی محرک نہیں تھا بلکہ 2002ء کے عالمی اقتصادی بحران نے
بھی رہی سہی کسر نکال دی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت
میں موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کا اگر جائزہ لینا ہے تو اِس کے لئے
ماضی کی اُن دو حکومتوں کی کارکردگی کو بھی دیکھنا ہوگا‘ جنہوں نے بدترین
امن و امان اور سیاسی و اقتصادی حالات کا سامنا کیا لیکن جو ایک قدر اِن
مختلف اور سبھی سیاسی جماعتوں میں مشترک دکھائی دے گی وہ انتخابی وعدوں اور
بیانات کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی ہے۔
مختلف سیاسی جماعتیں اُور مختلف نظریات لیکن طرزعمل سب کا ایک‘ رنگ الگ لیکن ایک جیسا دکھائی دینے والی اِس حیرت انگیز مشابہت کی بنیاد وہ معلوم ’سیاسی مجبوریاں‘ ہیں جن کی وجہ سے ’مصلحت‘ اختیار کی جاتی ہے اور جہاں کہیں ’سیاسی فیصلہ سازی‘ کی دیوار میں مصلحت کی ایک اینٹ چن دی جائے وہیں سے دیوار ٹیڑھی ہونا شروع ہو جاتی ہے!
بہ امر مجبوری اِن سیاسی مصلحتوں ہی کا نتیجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کو اُس کا جائز حق نہیں مل رہا۔ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی بات ہو یا پن بجلی کے خالص منافع کا رونا‘ امن و امان کی مخدوش صورتحال سے نمٹنا ہو یا مالی مسائل و مشکلات برسرزمین ’سیاسی افراتفری کا ماحول‘ ہر حکومت کا خاصہ رہا ہے کہ اُس کے پاس اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لئے جواز کی کمی نہیں ہوتی۔ یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سے مل کر حکومت بنائی اور تب ’پی پی پی‘ کی مرکز میں بھی حکومت تھی۔ اصولی طور پر خیبرپختونخوا میں اتحادی ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے حقوق کی ادائیگی یا قدرتی وسائل کی ترقی سے اِس کی آمدنی و اقتصادیات کو بڑھا چڑھا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ سیاسی مصلحت آڑے آ گئیں۔ اب جبکہ ’پاکستان تحریک انصاف‘ ایک ایسے سیاسی اِتحاد کی سربراہی کر رہا ہے جس کے وفاقی حکمراں جماعت کے اراکین سے ظاہری مثالی تعلقات نہیں اور دونوں ہی جماعتیں اپنا قیمتی وقت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی یا سازشوں کے جال بننے میں خرچ کر رہی ہیں تو صورتحال آج بھی وہیں کی وہیں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ جب خیبرپختونخوا کے عوام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ووٹ دے رہے تھے تو ’عرفاء‘ نے بھی عوام کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو قوم پرست اور سیکولر نظریات رکھنے والی ’اے این پی‘ کا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک وعدہ۔ ایک سے بڑھ کر ایک سنجیدہ بیان اُور ایک سے بڑھ کر ایک بدعنوانی کی مثالیں! آخر کب ہمارا طرز حکمرانی مسائل کا حل ثابت ہوگا؟
خیبرپختونخوا اُور وفاق کے درمیان جاری سرد جنگ کا نقصان جہاں تحریک انصاف کو ہو رہا ہے جسے اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی جلدی ہے لیکن وقت پر گرفت نہ تھی اور نہ ہی اِس کے قیمتی ہونے کا احساس کیا گیا۔ خیبرپختونخوا میں حکومت ملنا کسی نعمت سے کم نہیں تھا افسوس کہ خاطرخواہ قدر نہیں کی گئی۔ اصولی طور پر تحریک انصاف کو دو محاذوں پر جدوجہد کرنا چاہئے تھی ایک بطور فعال حزب اختلاف کے طور پر مرکز میں اور دوسرا بطور بہترین طرز حکمرانی کے ذریعے خیبرپختونخوا کے دیرینہ مسائل کے پائیدار حل پر توجہ دی جاتی۔ اِس غفلت کی ایک وجہ راتوں رات سیاستدان اور حد سے زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک بننے والوں کے ہم نوالہ ہوئے وہ غیرسیاسی دانشور ہیں جنہیں سیاسی طرزحکمرانی کا تجربہ نہیں۔ معالج محض نیک تمناؤں سے نہیں بلکہ دوا کے ذریعے بھی علاج تجویز کرتا ہے اور کسی مرض سے چھٹکارہ پانے کے لئے ’نیک نیتی‘ کے ساتھ عملی کوششوں میں ’سزا و جزأ‘ کی کڑوی گولی کیساتھ جراحت (سرجری) کی بھی ضرورت بہرحال رہتی ہے۔ بدعنوانی کے مریض عشق پر خدا کی رحمت خدا (اِس قدر ہے کہ) ’’دوا کے ساتھ مرض بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے!‘‘
مختلف سیاسی جماعتیں اُور مختلف نظریات لیکن طرزعمل سب کا ایک‘ رنگ الگ لیکن ایک جیسا دکھائی دینے والی اِس حیرت انگیز مشابہت کی بنیاد وہ معلوم ’سیاسی مجبوریاں‘ ہیں جن کی وجہ سے ’مصلحت‘ اختیار کی جاتی ہے اور جہاں کہیں ’سیاسی فیصلہ سازی‘ کی دیوار میں مصلحت کی ایک اینٹ چن دی جائے وہیں سے دیوار ٹیڑھی ہونا شروع ہو جاتی ہے!
بہ امر مجبوری اِن سیاسی مصلحتوں ہی کا نتیجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کو اُس کا جائز حق نہیں مل رہا۔ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی بات ہو یا پن بجلی کے خالص منافع کا رونا‘ امن و امان کی مخدوش صورتحال سے نمٹنا ہو یا مالی مسائل و مشکلات برسرزمین ’سیاسی افراتفری کا ماحول‘ ہر حکومت کا خاصہ رہا ہے کہ اُس کے پاس اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لئے جواز کی کمی نہیں ہوتی۔ یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سے مل کر حکومت بنائی اور تب ’پی پی پی‘ کی مرکز میں بھی حکومت تھی۔ اصولی طور پر خیبرپختونخوا میں اتحادی ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے حقوق کی ادائیگی یا قدرتی وسائل کی ترقی سے اِس کی آمدنی و اقتصادیات کو بڑھا چڑھا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ سیاسی مصلحت آڑے آ گئیں۔ اب جبکہ ’پاکستان تحریک انصاف‘ ایک ایسے سیاسی اِتحاد کی سربراہی کر رہا ہے جس کے وفاقی حکمراں جماعت کے اراکین سے ظاہری مثالی تعلقات نہیں اور دونوں ہی جماعتیں اپنا قیمتی وقت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی یا سازشوں کے جال بننے میں خرچ کر رہی ہیں تو صورتحال آج بھی وہیں کی وہیں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ جب خیبرپختونخوا کے عوام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ووٹ دے رہے تھے تو ’عرفاء‘ نے بھی عوام کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو قوم پرست اور سیکولر نظریات رکھنے والی ’اے این پی‘ کا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک وعدہ۔ ایک سے بڑھ کر ایک سنجیدہ بیان اُور ایک سے بڑھ کر ایک بدعنوانی کی مثالیں! آخر کب ہمارا طرز حکمرانی مسائل کا حل ثابت ہوگا؟
خیبرپختونخوا اُور وفاق کے درمیان جاری سرد جنگ کا نقصان جہاں تحریک انصاف کو ہو رہا ہے جسے اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی جلدی ہے لیکن وقت پر گرفت نہ تھی اور نہ ہی اِس کے قیمتی ہونے کا احساس کیا گیا۔ خیبرپختونخوا میں حکومت ملنا کسی نعمت سے کم نہیں تھا افسوس کہ خاطرخواہ قدر نہیں کی گئی۔ اصولی طور پر تحریک انصاف کو دو محاذوں پر جدوجہد کرنا چاہئے تھی ایک بطور فعال حزب اختلاف کے طور پر مرکز میں اور دوسرا بطور بہترین طرز حکمرانی کے ذریعے خیبرپختونخوا کے دیرینہ مسائل کے پائیدار حل پر توجہ دی جاتی۔ اِس غفلت کی ایک وجہ راتوں رات سیاستدان اور حد سے زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک بننے والوں کے ہم نوالہ ہوئے وہ غیرسیاسی دانشور ہیں جنہیں سیاسی طرزحکمرانی کا تجربہ نہیں۔ معالج محض نیک تمناؤں سے نہیں بلکہ دوا کے ذریعے بھی علاج تجویز کرتا ہے اور کسی مرض سے چھٹکارہ پانے کے لئے ’نیک نیتی‘ کے ساتھ عملی کوششوں میں ’سزا و جزأ‘ کی کڑوی گولی کیساتھ جراحت (سرجری) کی بھی ضرورت بہرحال رہتی ہے۔ بدعنوانی کے مریض عشق پر خدا کی رحمت خدا (اِس قدر ہے کہ) ’’دوا کے ساتھ مرض بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے!‘‘