Saturday, February 20, 2016

ٖFeb2016: Corrupt by nature!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بہ اَمر مجبوری مصلحتیں!
خیبرپختونخوا میں حکومت کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا بالخصوص سال 2001ء کے ماہ ستمبر کی گیارہ تاریخ نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اُس ایک دہشت گرد ’نائن الیون‘ حملوں کے منفی اثرات سے خیبرپختونخوا محفوظ نہ رہ سکا تاہم صرف یہی ایک منفی محرک نہیں تھا بلکہ 2002ء کے عالمی اقتصادی بحران نے بھی رہی سہی کسر نکال دی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کا اگر جائزہ لینا ہے تو اِس کے لئے ماضی کی اُن دو حکومتوں کی کارکردگی کو بھی دیکھنا ہوگا‘ جنہوں نے بدترین امن و امان اور سیاسی و اقتصادی حالات کا سامنا کیا لیکن جو ایک قدر اِن مختلف اور سبھی سیاسی جماعتوں میں مشترک دکھائی دے گی وہ انتخابی وعدوں اور بیانات کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی ہے۔

مختلف سیاسی جماعتیں اُور مختلف نظریات لیکن طرزعمل سب کا ایک‘ رنگ الگ لیکن ایک جیسا دکھائی دینے والی اِس حیرت انگیز مشابہت کی بنیاد وہ معلوم ’سیاسی مجبوریاں‘ ہیں جن کی وجہ سے ’مصلحت‘ اختیار کی جاتی ہے اور جہاں کہیں ’سیاسی فیصلہ سازی‘ کی دیوار میں مصلحت کی ایک اینٹ چن دی جائے وہیں سے دیوار ٹیڑھی ہونا شروع ہو جاتی ہے!

بہ امر مجبوری اِن سیاسی مصلحتوں ہی کا نتیجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کو اُس کا جائز حق نہیں مل رہا۔ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی بات ہو یا پن بجلی کے خالص منافع کا رونا‘ امن و امان کی مخدوش صورتحال سے نمٹنا ہو یا مالی مسائل و مشکلات برسرزمین ’سیاسی افراتفری کا ماحول‘ ہر حکومت کا خاصہ رہا ہے کہ اُس کے پاس اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لئے جواز کی کمی نہیں ہوتی۔ یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سے مل کر حکومت بنائی اور تب ’پی پی پی‘ کی مرکز میں بھی حکومت تھی۔ اصولی طور پر خیبرپختونخوا میں اتحادی ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے حقوق کی ادائیگی یا قدرتی وسائل کی ترقی سے اِس کی آمدنی و اقتصادیات کو بڑھا چڑھا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ سیاسی مصلحت آڑے آ گئیں۔ اب جبکہ ’پاکستان تحریک انصاف‘ ایک ایسے سیاسی اِتحاد کی سربراہی کر رہا ہے جس کے وفاقی حکمراں جماعت کے اراکین سے ظاہری مثالی تعلقات نہیں اور دونوں ہی جماعتیں اپنا قیمتی وقت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی یا سازشوں کے جال بننے میں خرچ کر رہی ہیں تو صورتحال آج بھی وہیں کی وہیں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔

 المیہ تو یہ ہے کہ جب خیبرپختونخوا کے عوام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ووٹ دے رہے تھے تو ’عرفاء‘ نے بھی عوام کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو قوم پرست اور سیکولر نظریات رکھنے والی ’اے این پی‘ کا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک وعدہ۔ ایک سے بڑھ کر ایک سنجیدہ بیان اُور ایک سے بڑھ کر ایک بدعنوانی کی مثالیں! آخر کب ہمارا طرز حکمرانی مسائل کا حل ثابت ہوگا؟

خیبرپختونخوا اُور وفاق کے درمیان جاری سرد جنگ کا نقصان جہاں تحریک انصاف کو ہو رہا ہے جسے اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی جلدی ہے لیکن وقت پر گرفت نہ تھی اور نہ ہی اِس کے قیمتی ہونے کا احساس کیا گیا۔ خیبرپختونخوا میں حکومت ملنا کسی نعمت سے کم نہیں تھا افسوس کہ خاطرخواہ قدر نہیں کی گئی۔ اصولی طور پر تحریک انصاف کو دو محاذوں پر جدوجہد کرنا چاہئے تھی ایک بطور فعال حزب اختلاف کے طور پر مرکز میں اور دوسرا بطور بہترین طرز حکمرانی کے ذریعے خیبرپختونخوا کے دیرینہ مسائل کے پائیدار حل پر توجہ دی جاتی۔ اِس غفلت کی ایک وجہ راتوں رات سیاستدان اور حد سے زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک بننے والوں کے ہم نوالہ ہوئے وہ غیرسیاسی دانشور ہیں جنہیں سیاسی طرزحکمرانی کا تجربہ نہیں۔ معالج محض نیک تمناؤں سے نہیں بلکہ دوا کے ذریعے بھی علاج تجویز کرتا ہے اور کسی مرض سے چھٹکارہ پانے کے لئے ’نیک نیتی‘ کے ساتھ عملی کوششوں میں ’سزا و جزأ‘ کی کڑوی گولی کیساتھ جراحت (سرجری) کی بھی ضرورت بہرحال رہتی ہے۔ بدعنوانی کے مریض عشق پر خدا کی رحمت خدا (اِس قدر ہے کہ) ’’دوا کے ساتھ مرض بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے!‘‘

Feb2016: Technical Corruption in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تکنیکی مسائل!
ٹیکنالوجی کے اِستعمال اُور اِستفادہ کرنے کے ’نشوونما‘ پاتے رجحان نے جہاں روزمرہ زندگی کو آسان لیکن اِس قدر مصروف بنا دیا ہے کہ ایک ہی گھر‘ خاندان‘ محلے‘ علاقے یا شہر کے لوگوں کو آپس میں بالمشافہ تبادلۂ خیال کی فرصت نہیں رہی تو دوسری جانب ایک جیسی دلچسپیاں یا مشاغل رکھنے والوں کو ایسا پلیٹ فارم بھی فراہم کردیا ہے جہاں اظہار کی اِس قدر آزادی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہی وہ محل ہے جہاں ٹیکنالوجی کے حسب حال و ضرورت استعمال کا مشورہ ضرورت بن جاتی ہے۔ نئی نسل کے لئے چمکتی دمکتی ٹیکنالوجی میں کشش کو فکری سمت (قبلہ) دینا وقت کا تقاضا ہے اُور سب سے بڑھ کر ٹیکنالوجی کو ’بہتر طرز حکمرانی‘ کی داغ بیل ڈالنے جیسے عظیم مقصد اُور اِس کے ذریعے ’طرز حکمرانی‘ پر آنے والے اخراجات کم کرنے جیسا ہدف بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی جملہ سیاسی جماعتوں میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی قیادت سب سے زیادہ ’ٹیکنالوجی دوست‘ ہے اور اسی وجہ سے توقعات بھی تحریک انصاف ہی سے وابستہ ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کی آڑ میں ہونے والی بدعنوانی کے امکانات ختم نہیں تو کم ضرور کرے گی۔ حکمرانی کی اصلاح سے لیکر عام انتخابات کے شفاف انعقاد اور سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لئے مشینوں پر زیادہ بھروسہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ماضی کی سیاسی جماعتوں نے اصلاح کرنے کی کوشش نہ کی ہو‘ بلکہ ہوا یہ ہے کہ اصلاح کی کوششیں ناکام بنانے والے زیادہ شاطر نکلے! چونکہ ٹیکنالوجی کا اپنا کوئی دماغ نہیں ہوتا لیکن اگر اِس سے کوئی مثبت کام لینے کی خوٓہش ہو تو بس یہی پائیدار حل ہے۔ ’کم خرچ بالا نشین‘ ہونے کی بجائے ہمارے ہاں ٹیکنالوجی غیرضروری طور پر مہنگے داموں خریدی جاتی ہے۔ سرکاری محکموں کا مزاج بن چکا ہے کہ وہ کسی معمولی سی ضرورت کے لئے اس قدر تیزرفتار کمپیوٹر اُور اُس سے متعلق دیگر آلات خریدتے ہیں جس سے سوائے پیسے کے ضیاع کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

سیاسی حکومتوں کی اپنی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ اُن کے انتخابی منشور گلے کا پھندہ نہ بنیں‘ ایسی کسی شرمندگی سے بچنے کے لئے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ’نیک نامی‘ کمانے کے علاؤہ ایسے اقدامات سے بھی حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے جو بددیانتی و بدعنوانی کے زمرے میں شمار ہوں۔ خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت کا ٹیکنالوجی کی جانب رجحان دیکھتے ہوئے ’خالصتاً کاروباری سوچ رکھنے والے طبقات‘ ایسے سرکاری آفیسرز کو اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں‘ جنہیں فیصلہ سازی کا منصب تو عطاہو جاتا ہے لیکن انہیں یہ بات تسلیم کرنے میں عار ہوتی ہے کہ ’’وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے!‘‘ سردست فوری ضرورت اِس امر کی ہے کہ ٹیکنالوجی کی خریداری کے لئے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے موجود محکمے پر چند کالی بھیڑوں کی اِجارہ داری ختم کی جائے اُور اِس کے بعد ٹیکنالوجی کی ہرضرورت چاہے وہ کسی بھی صوبائی محکمے کی ہو‘ اِسی محکمے کے ذریعے ہو تو کروڑوں نہیں بلکہ سالانہ اربوں روپے کی بچت کی جاسکتی ہے۔

کسی سرکاری محکمے کی ٹیکنالوجی ضروریات کا تعین بھی ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے محکمے ہی کو کرنی چاہئے تاکہ غیرضروری الیکٹرانک آلات کی خریداری میں عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ضائع نہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک مثال دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ چند برس قبل پشاور یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ نے کمپیوٹرز کی خریداری کا ٹینڈر دیا۔ جس کی کاغذی کاروائی اور آلات کی فراہمی میں چھ مہینے کا وقت لگ گیا۔ ٹینڈر جاری کرتے ہوئے آلات کی قیمت چھ ماہ بعد کم و بیش پچاس فیصد کم ہو چکی تھی لیکن چونکہ سرکاری فائلوں میں ایک قیمت درج تھی اِس لئے مارکیٹ ریٹ سے مہنگے داموں کمپیوٹر خریدے گئے اور اِس سودے میں خزانے کو کم سے کم ایک کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک کروڑ روپے آلات فراہم کرنے والے نجی ادارے نے اکیلے ہضم نہیں کئے بلکہ کئی کردار اِس سے مستفید ہوئے اور یہ طریقۂ واردات (سلسلہ) آج بھی جاری ہے کہ 1: سرکاری محکمے اپنی حقیقی ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی کا انتخاب نہیں کرتے۔ 2: ٹیکنالوجی خریدنے کے لئے جاری ہونے والے ٹینڈر اور آلات کی فراہمی کے عمل میں ایک سے تین ماہ کا وقت لگ جاتا ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں پچاس فیصد تک کم ہو جاتی ہیں۔ 3: مقامی طور پر تیار ہونے والے آلات پر غیرملکی ہونے کے لیبل لگا کر اُنہیں فراہم کرنے کا معمول ایک الگ نوعیت کی بدعنوانی ہے‘ جو دھوکہ دہی کے زمرے میں بھی آتی ہے اُور اِسی کی بنیاد پر پشاور میں کئی ایک ایسے ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے کاروباری ادارے ہیں جن کے مالکان راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ہیں! 4: ٹیکنالوجی کی خریداری اور دیگر ضروریات کے لئے الگ الگ قواعد و ضوابط تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ 5: ٹیکنالوجی خریدنے سے قبل اُس کے استعمال و دیکھ بھال کے لئے تربیت یافتہ عملہ یا عملے کی تربیت کا انتظام لازمی طورپر ہونا چاہئے۔ 6: ٹیکنالوجی کی گارنٹی (بعدازفروخت سروس) رکھنے والے نجی اداروں سے خریداری کی جائے۔7: ٹیکنالوجی کی فراہمی کرنے والے اداروں کی رجسٹریشن کا طریقۂ کار نظرثانی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زیرنگرانی ہونا چاہئے۔

مثال ملاحظہ کیجئے کہ ’’کور آئی سیون‘ فورتھ جنریشن کے تھری پوائنٹ سیکس (3.6) رفتار والے پراسیسر کی مارکیٹ میں فی لیپ ٹاپ قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے جبکہ تھری پوائنٹ ٹو (3.2) رفتار والے پراسیسر کا لیپ ٹاپ صرف پچانوے ہزار روپے میں مل جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ’سٹاپ واچ‘ لگا کر بھی جائزہ لے تو تین اعشاریہ چھ اور تین اعشاریہ دو والے لیپ ٹاپ کی رفتار میں فرق معلوم یا ثابت نہیں کرسکے گا۔ دونوں کی رفتار میں پوائنٹس کا ردوبدل لیکن قیمت میں تیس سے چالیس فیصد اضافی فرق لائق توجہ ہے اور ایسی کئی ایک تکنیکی باریکیوں کے بارے میں نہ تو اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو خاطرخواہ علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دردمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ پیسہ قومی خزانے سے ادا ہو رہا ہوتا ہے کسی کی ذاتی جیب سے نہیں۔ امانت و دیانت کے دھندلے تصورات والے معاشرے میں جہاں سرمائے‘ اختیارات اُور سرمائے کی بنیاد پر سماجی حیثیت کو دل سے قبول کر لیا گیا ہو‘ وہاں سرکاری وسائل کے غیرمحتاط استعمال یا مالی و انتظامی بدعنوانیوں جیسی خرابیوں کی گنجائش پر تعجب کے اظہار سے زیادہ تعجب اُس سوچ پر ہونا چاہئے جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے آلودگیوں سے کراہت کی تبلیغ کر رہی ہے!