Chasing shadows
سراب اُور حقائق
پہلا سراب: پاکستان سے لوٹے ہوئے 200 ارب ڈالر سوئزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ 18 اگست 2018ءکے دن‘ عمران خان نے ’وزیراعظم پاکستان‘ کے عہدے کا حلف لیا۔ 19 اگست کے روز مراد سعید کو وفاقی وزیر برائے مواصلات اُور پوسٹل سروسیز کے عہدے پر فائز کیا جنہوں نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کئے اپنے پیغام میں کہا کہ ”وزیرخزانہ نے پارلیمنٹ کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ سوئزرلینڈ کی بینکوں میں پاکستان سے چوری شدہ 200ارب ڈالر موجود ہیں۔“ وفاقی حکومت اگست سے وسط اکتوبر تک اِن 200 ارب ڈالر کا پیچھا کرتی رہی اُور اِسی اُمید پر کہ پاکستان کے خزانے میں 200 ارب ڈالر آ جائیں گے اقتصادی حکمت عملیاں بنائی جاتی رہیں لیکن چونکہ حقائق سے زیادہ سراب پر توجہ مرکوز رکھی گئی تھی‘ اِس لئے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
سوئزر لینڈ کے مرکزی قومی بینک نے سال 2018ءسے متعلق اعدادوشمار جاری کئے جن میں شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ”سوئس بینکوں میں پاکستانی شہریت رکھنے والوں کے 388.58 ملین (38 کروڑ سے زائد) ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔‘
دوسرا سراب: ستمبر 2018ءمیں حکومت نے مختلف سرکاری محکموں کی کارکردگی درست کرنے کے لئے ’ٹاسک فورسز‘ بنائیں۔ قریب 3 درجن خصوصی اختیارات رکھنے والے فیصلہ سازوں میں توانائی‘ پولیس‘ سرکاری ملازمین‘ کم خرچ طرز حکمرانی‘ قومی امور میں بچت‘ بدعنوانی سے حاصل کردہ قومی دولت کی وصولی‘ شجرکاری اُور اقتصادی راہداری سے متعلق کمیٹیاں شامل تھیں۔
اگست 2018ءمیں مذکورہ ’ٹاسک فورسیز‘ کے بنائے جانے سے قبل ’توانائی کے شعبے کا گردشی قرض 1100 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 1700 ارب روپے ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی 16ماہ کے دور میں صوبہ پنجاب میں 5واں انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا گیا ہے۔ اِس طرح کسی پولیس سربراہ کی تعیناتی اوسطاً تین ماہ کے لئے کی گئی۔ اِسی طرح پنجاب میں تین چیف سیکرٹریوں کو بھی یکے بعد دیگرے تبدیل کیا گیا۔ 6 ایجوکیشن سیکرٹری بھی اِسی عرصے میں تبدیل کئے گئے۔ حال ہی میں 31 ڈی سی اُوز‘ 20 ایڈیشنل آئی جیز‘ 19 سیکرٹریوں اُور 5 کمشنروں کے تبادلے کئے گئے ہیں۔
وزیراعظم کی بنائی ہوئی ایک کمیٹی قومی اثاثہ جات کی وصولی (Asset Recovery) کے لئے بنائی گئی تھی لیکن 16ماہ گزرنے کے باوجود بھی اِس کمیٹی کا پہلا اجلاس تک نہیں ہو سکا ہے۔
تیسرا سراب: نیا پاکستان ہاو ¿سنگ اسکیم کے نام سے حکمت عملی وضع کی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو ذاتی مکان دیا جائے۔ اکتوبر اُور نومبر اِس سلسلے میں کافی ہنگامہ خیز تھے جس کے بعد اِس منصوبے پر عمل درآمد کس مرحلے میں ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔
چوتھا سراب: دسمبر 2018ءکے دوران حکومت نے مرغی اُور انڈے کے ذریعے غربت میں کمی اُور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کیا۔ جس کے تحت صرف ضلع روالپنڈی میں 25لاکھ افراد میں کو چار مرغیاں اُور ایک ایک مرغ دیا گیا۔ اِن مرغیوں کی عمر 85 دن تھی اُور یہ انڈے دینے کے لئے تیار تھیں لیکن اِس حکمت عملی کی موجودہ صورتحال کیا‘ اُور اِس سے کیا نتائج حاصل ہوئے‘ یہ معلوم نہیں ہے۔
پانچواں سراب: فروری 2019ءمیں سعودی شہزادے کی پاکستان آمد ہوئی۔ اِس آمد کا خوب چرچا کیا گیا اُور حسب شان استقبال ہوا۔ اِس دورے سے متعلق کہا گیا کہ سعودی عرب پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا لیکن کیا یہ سرمایہ کاری ہوئی اُور کب ہوگی اِس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔
چھٹا سراب: مارچ سے اپریل دوہزاراُنیس کے دوران پاکستانیوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کا کاروبار کرنے والی ایک بڑی کمپنی ’ایکسزون (ExxonMobil)‘ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گی اُور تیل و گیس کے تلاش کے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کرے گی۔ اِس اُمید کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہونے کے قریب ہیں اُور بہت جلد پاکستان کی قسمت سنورنے اُور بدلنے والی ہے لیکن یہ دعویٰ بھی حقیقت کا روپ اختیار نہ کر سکا۔
ساتواں سراب: جون کے اختتام تک پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کیا‘ جس نے صورتحال کو کافی حد تک سنبھال لیا لیکن ایسی مالیاتی اصلاحات نہیں کی جا سکی ہیں جن سے حکومت کے جاری اخراجات میں کمی آئے اُور آئندہ قرض لینے کی ضرورت (حاجت) محسوس نہ ہو۔
پاکستان کو چار شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
1: سرکاری اداروں کے لئے خریداری کے طریقہ ¿ کار کی اصلاح کی جائے اُور اِس نظام کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا جائے۔ یاد رہے کہ حکومتی ادارے ہر سال 6 کھرب روپے کی اشیاءخریدتے ہیں اُور محتاط اندازہ یہ ہے کہ اِس چھ کھرب روپے کا کم سے کم پچیس فیصد حصہ (یعنی ڈیڑھ کھرب روپے) خردبرد ہو جاتا ہے۔ یہ رقم اِس قدر بڑی ہے کہ اگر حکومت صرف خریداری کے نظام کی اصلاح کرلے تو اُس سے حاصل ہونے والی بچت کی وجہ سے اُسے ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
2: سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اگست 2018ءیعنی تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے سے قبل سرکاری ادارے ہر سال 1300 ارب روپے کا خسارہ کرتے تھے جو بڑھ کر 2100 ارب روپے سالانہ ہو چکا ہے۔ اِن سرکاری اداروں کا قومی خزانے پر سے بوجھ کم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
3: پاکستان میں بجلی کا پیداواری اُور ترسیلی شعبہ خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ اگست 2018ءیعنی تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے سے قبل پاکستان میں سالانہ 1100ارب روپے مالیت کی بجلی چوری ہوتی تھی جو بڑھ کر 1700 ارب روپے ہو چکی ہے۔
4: گیس کی تقسیم کے شعبے کی کارکردگی بھی مثالی نہیں ہے اُور پاکستان میں ہرسال 2 ارب ڈالر کے مساوی گیس چوری ہو رہی ہے۔ حکومت سے درخواست اُور اُمید ہے کہ وہ مذکورہ چار اصلاحات (سرکاری اداروں کے لئے خریداری‘ سرکاری اداروں کی کارکردگی‘ بجلی اُور گیس کی چوری) پر توجہ دے اُور خسارے کا سبب بننے والے اِن بنیادی اُور بڑے شعبوں کی بہتری کے لئے اقدامات کرے گی۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
سراب اُور حقائق
پہلا سراب: پاکستان سے لوٹے ہوئے 200 ارب ڈالر سوئزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ 18 اگست 2018ءکے دن‘ عمران خان نے ’وزیراعظم پاکستان‘ کے عہدے کا حلف لیا۔ 19 اگست کے روز مراد سعید کو وفاقی وزیر برائے مواصلات اُور پوسٹل سروسیز کے عہدے پر فائز کیا جنہوں نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کئے اپنے پیغام میں کہا کہ ”وزیرخزانہ نے پارلیمنٹ کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ سوئزرلینڈ کی بینکوں میں پاکستان سے چوری شدہ 200ارب ڈالر موجود ہیں۔“ وفاقی حکومت اگست سے وسط اکتوبر تک اِن 200 ارب ڈالر کا پیچھا کرتی رہی اُور اِسی اُمید پر کہ پاکستان کے خزانے میں 200 ارب ڈالر آ جائیں گے اقتصادی حکمت عملیاں بنائی جاتی رہیں لیکن چونکہ حقائق سے زیادہ سراب پر توجہ مرکوز رکھی گئی تھی‘ اِس لئے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
سوئزر لینڈ کے مرکزی قومی بینک نے سال 2018ءسے متعلق اعدادوشمار جاری کئے جن میں شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ”سوئس بینکوں میں پاکستانی شہریت رکھنے والوں کے 388.58 ملین (38 کروڑ سے زائد) ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔‘
دوسرا سراب: ستمبر 2018ءمیں حکومت نے مختلف سرکاری محکموں کی کارکردگی درست کرنے کے لئے ’ٹاسک فورسز‘ بنائیں۔ قریب 3 درجن خصوصی اختیارات رکھنے والے فیصلہ سازوں میں توانائی‘ پولیس‘ سرکاری ملازمین‘ کم خرچ طرز حکمرانی‘ قومی امور میں بچت‘ بدعنوانی سے حاصل کردہ قومی دولت کی وصولی‘ شجرکاری اُور اقتصادی راہداری سے متعلق کمیٹیاں شامل تھیں۔
اگست 2018ءمیں مذکورہ ’ٹاسک فورسیز‘ کے بنائے جانے سے قبل ’توانائی کے شعبے کا گردشی قرض 1100 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 1700 ارب روپے ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی 16ماہ کے دور میں صوبہ پنجاب میں 5واں انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا گیا ہے۔ اِس طرح کسی پولیس سربراہ کی تعیناتی اوسطاً تین ماہ کے لئے کی گئی۔ اِسی طرح پنجاب میں تین چیف سیکرٹریوں کو بھی یکے بعد دیگرے تبدیل کیا گیا۔ 6 ایجوکیشن سیکرٹری بھی اِسی عرصے میں تبدیل کئے گئے۔ حال ہی میں 31 ڈی سی اُوز‘ 20 ایڈیشنل آئی جیز‘ 19 سیکرٹریوں اُور 5 کمشنروں کے تبادلے کئے گئے ہیں۔
وزیراعظم کی بنائی ہوئی ایک کمیٹی قومی اثاثہ جات کی وصولی (Asset Recovery) کے لئے بنائی گئی تھی لیکن 16ماہ گزرنے کے باوجود بھی اِس کمیٹی کا پہلا اجلاس تک نہیں ہو سکا ہے۔
تیسرا سراب: نیا پاکستان ہاو ¿سنگ اسکیم کے نام سے حکمت عملی وضع کی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو ذاتی مکان دیا جائے۔ اکتوبر اُور نومبر اِس سلسلے میں کافی ہنگامہ خیز تھے جس کے بعد اِس منصوبے پر عمل درآمد کس مرحلے میں ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔
چوتھا سراب: دسمبر 2018ءکے دوران حکومت نے مرغی اُور انڈے کے ذریعے غربت میں کمی اُور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کیا۔ جس کے تحت صرف ضلع روالپنڈی میں 25لاکھ افراد میں کو چار مرغیاں اُور ایک ایک مرغ دیا گیا۔ اِن مرغیوں کی عمر 85 دن تھی اُور یہ انڈے دینے کے لئے تیار تھیں لیکن اِس حکمت عملی کی موجودہ صورتحال کیا‘ اُور اِس سے کیا نتائج حاصل ہوئے‘ یہ معلوم نہیں ہے۔
پانچواں سراب: فروری 2019ءمیں سعودی شہزادے کی پاکستان آمد ہوئی۔ اِس آمد کا خوب چرچا کیا گیا اُور حسب شان استقبال ہوا۔ اِس دورے سے متعلق کہا گیا کہ سعودی عرب پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا لیکن کیا یہ سرمایہ کاری ہوئی اُور کب ہوگی اِس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔
چھٹا سراب: مارچ سے اپریل دوہزاراُنیس کے دوران پاکستانیوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کا کاروبار کرنے والی ایک بڑی کمپنی ’ایکسزون (ExxonMobil)‘ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گی اُور تیل و گیس کے تلاش کے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کرے گی۔ اِس اُمید کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہونے کے قریب ہیں اُور بہت جلد پاکستان کی قسمت سنورنے اُور بدلنے والی ہے لیکن یہ دعویٰ بھی حقیقت کا روپ اختیار نہ کر سکا۔
ساتواں سراب: جون کے اختتام تک پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کیا‘ جس نے صورتحال کو کافی حد تک سنبھال لیا لیکن ایسی مالیاتی اصلاحات نہیں کی جا سکی ہیں جن سے حکومت کے جاری اخراجات میں کمی آئے اُور آئندہ قرض لینے کی ضرورت (حاجت) محسوس نہ ہو۔
پاکستان کو چار شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
1: سرکاری اداروں کے لئے خریداری کے طریقہ ¿ کار کی اصلاح کی جائے اُور اِس نظام کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا جائے۔ یاد رہے کہ حکومتی ادارے ہر سال 6 کھرب روپے کی اشیاءخریدتے ہیں اُور محتاط اندازہ یہ ہے کہ اِس چھ کھرب روپے کا کم سے کم پچیس فیصد حصہ (یعنی ڈیڑھ کھرب روپے) خردبرد ہو جاتا ہے۔ یہ رقم اِس قدر بڑی ہے کہ اگر حکومت صرف خریداری کے نظام کی اصلاح کرلے تو اُس سے حاصل ہونے والی بچت کی وجہ سے اُسے ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
2: سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اگست 2018ءیعنی تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے سے قبل سرکاری ادارے ہر سال 1300 ارب روپے کا خسارہ کرتے تھے جو بڑھ کر 2100 ارب روپے سالانہ ہو چکا ہے۔ اِن سرکاری اداروں کا قومی خزانے پر سے بوجھ کم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
3: پاکستان میں بجلی کا پیداواری اُور ترسیلی شعبہ خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ اگست 2018ءیعنی تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے سے قبل پاکستان میں سالانہ 1100ارب روپے مالیت کی بجلی چوری ہوتی تھی جو بڑھ کر 1700 ارب روپے ہو چکی ہے۔
4: گیس کی تقسیم کے شعبے کی کارکردگی بھی مثالی نہیں ہے اُور پاکستان میں ہرسال 2 ارب ڈالر کے مساوی گیس چوری ہو رہی ہے۔ حکومت سے درخواست اُور اُمید ہے کہ وہ مذکورہ چار اصلاحات (سرکاری اداروں کے لئے خریداری‘ سرکاری اداروں کی کارکردگی‘ بجلی اُور گیس کی چوری) پر توجہ دے اُور خسارے کا سبب بننے والے اِن بنیادی اُور بڑے شعبوں کی بہتری کے لئے اقدامات کرے گی۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)