Sunday, December 29, 2019

Chasing shadows by Dr. Farrukh Saleem

Chasing shadows
سراب اُور حقائق

پہلا سراب: پاکستان سے لوٹے ہوئے 200 ارب ڈالر سوئزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ 18 اگست 2018ءکے دن‘ عمران خان نے ’وزیراعظم پاکستان‘ کے عہدے کا حلف لیا۔ 19 اگست کے روز مراد سعید کو وفاقی وزیر برائے مواصلات اُور پوسٹل سروسیز کے عہدے پر فائز کیا جنہوں نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کئے اپنے پیغام میں کہا کہ ”وزیرخزانہ نے پارلیمنٹ کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ سوئزرلینڈ کی بینکوں میں پاکستان سے چوری شدہ 200ارب ڈالر موجود ہیں۔“ وفاقی حکومت اگست سے وسط اکتوبر تک اِن 200 ارب ڈالر کا پیچھا کرتی رہی اُور اِسی اُمید پر کہ پاکستان کے خزانے میں 200 ارب ڈالر آ جائیں گے اقتصادی حکمت عملیاں بنائی جاتی رہیں لیکن چونکہ حقائق سے زیادہ سراب پر توجہ مرکوز رکھی گئی تھی‘ اِس لئے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔

سوئزر لینڈ کے مرکزی قومی بینک نے سال 2018ءسے متعلق اعدادوشمار جاری کئے جن میں شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ”سوئس بینکوں میں پاکستانی شہریت رکھنے والوں کے 388.58 ملین (38 کروڑ سے زائد) ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔‘

دوسرا سراب: ستمبر 2018ءمیں حکومت نے مختلف سرکاری محکموں کی کارکردگی درست کرنے کے لئے ’ٹاسک فورسز‘ بنائیں۔ قریب 3 درجن خصوصی اختیارات رکھنے والے فیصلہ سازوں میں توانائی‘ پولیس‘ سرکاری ملازمین‘ کم خرچ طرز حکمرانی‘ قومی امور میں بچت‘ بدعنوانی سے حاصل کردہ قومی دولت کی وصولی‘ شجرکاری اُور اقتصادی راہداری سے متعلق کمیٹیاں شامل تھیں۔

اگست 2018ءمیں مذکورہ ’ٹاسک فورسیز‘ کے بنائے جانے سے قبل ’توانائی کے شعبے کا گردشی قرض 1100 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 1700 ارب روپے ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی 16ماہ کے دور میں صوبہ پنجاب میں 5واں انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا گیا ہے۔ اِس طرح کسی پولیس سربراہ کی تعیناتی اوسطاً تین ماہ کے لئے کی گئی۔ اِسی طرح پنجاب میں تین چیف سیکرٹریوں کو بھی یکے بعد دیگرے تبدیل کیا گیا۔ 6 ایجوکیشن سیکرٹری بھی اِسی عرصے میں تبدیل کئے گئے۔ حال ہی میں 31 ڈی سی اُوز‘ 20 ایڈیشنل آئی جیز‘ 19 سیکرٹریوں اُور 5 کمشنروں کے تبادلے کئے گئے ہیں۔
وزیراعظم کی بنائی ہوئی ایک کمیٹی قومی اثاثہ جات کی وصولی (Asset Recovery) کے لئے بنائی گئی تھی لیکن 16ماہ گزرنے کے باوجود بھی اِس کمیٹی کا پہلا اجلاس تک نہیں ہو سکا ہے۔

تیسرا سراب: نیا پاکستان ہاو ¿سنگ اسکیم کے نام سے حکمت عملی وضع کی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو ذاتی مکان دیا جائے۔ اکتوبر اُور نومبر اِس سلسلے میں کافی ہنگامہ خیز تھے جس کے بعد اِس منصوبے پر عمل درآمد کس مرحلے میں ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔

چوتھا سراب: دسمبر 2018ءکے دوران حکومت نے مرغی اُور انڈے کے ذریعے غربت میں کمی اُور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کیا۔ جس کے تحت صرف ضلع روالپنڈی میں 25لاکھ افراد میں کو چار مرغیاں اُور ایک ایک مرغ دیا گیا۔ اِن مرغیوں کی عمر 85 دن تھی اُور یہ انڈے دینے کے لئے تیار تھیں لیکن اِس حکمت عملی کی موجودہ صورتحال کیا‘ اُور اِس سے کیا نتائج حاصل ہوئے‘ یہ معلوم نہیں ہے۔

پانچواں سراب: فروری 2019ءمیں سعودی شہزادے کی پاکستان آمد ہوئی۔ اِس آمد کا خوب چرچا کیا گیا اُور حسب شان استقبال ہوا۔ اِس دورے سے متعلق کہا گیا کہ سعودی عرب پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا لیکن کیا یہ سرمایہ کاری ہوئی اُور کب ہوگی اِس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔

چھٹا سراب: مارچ سے اپریل دوہزاراُنیس کے دوران پاکستانیوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کا کاروبار کرنے والی ایک بڑی کمپنی ’ایکسزون (ExxonMobil)‘ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گی اُور تیل و گیس کے تلاش کے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کرے گی۔ اِس اُمید کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہونے کے قریب ہیں اُور بہت جلد پاکستان کی قسمت سنورنے اُور بدلنے والی ہے لیکن یہ دعویٰ بھی حقیقت کا روپ اختیار نہ کر سکا۔

ساتواں سراب: جون کے اختتام تک پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کیا‘ جس نے صورتحال کو کافی حد تک سنبھال لیا لیکن ایسی مالیاتی اصلاحات نہیں کی جا سکی ہیں جن سے حکومت کے جاری اخراجات میں کمی آئے اُور آئندہ قرض لینے کی ضرورت (حاجت) محسوس نہ ہو۔

پاکستان کو چار شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
1: سرکاری اداروں کے لئے خریداری کے طریقہ ¿ کار کی اصلاح کی جائے اُور اِس نظام کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا جائے۔ یاد رہے کہ حکومتی ادارے ہر سال 6 کھرب روپے کی اشیاءخریدتے ہیں اُور محتاط اندازہ یہ ہے کہ اِس چھ کھرب روپے کا کم سے کم پچیس فیصد حصہ (یعنی ڈیڑھ کھرب روپے) خردبرد ہو جاتا ہے۔ یہ رقم اِس قدر بڑی ہے کہ اگر حکومت صرف خریداری کے نظام کی اصلاح کرلے تو اُس سے حاصل ہونے والی بچت کی وجہ سے اُسے ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

2: سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اگست 2018ءیعنی تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے سے قبل سرکاری ادارے ہر سال 1300 ارب روپے کا خسارہ کرتے تھے جو بڑھ کر 2100 ارب روپے سالانہ ہو چکا ہے۔ اِن سرکاری اداروں کا قومی خزانے پر سے بوجھ کم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

3: پاکستان میں بجلی کا پیداواری اُور ترسیلی شعبہ خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ اگست 2018ءیعنی تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے سے قبل پاکستان میں سالانہ 1100ارب روپے مالیت کی بجلی چوری ہوتی تھی جو بڑھ کر 1700 ارب روپے ہو چکی ہے۔

4: گیس کی تقسیم کے شعبے کی کارکردگی بھی مثالی نہیں ہے اُور پاکستان میں ہرسال 2 ارب ڈالر کے مساوی گیس چوری ہو رہی ہے۔ حکومت سے درخواست اُور اُمید ہے کہ وہ مذکورہ چار اصلاحات (سرکاری اداروں کے لئے خریداری‘ سرکاری اداروں کی کارکردگی‘ بجلی اُور گیس کی چوری) پر توجہ دے اُور خسارے کا سبب بننے والے اِن بنیادی اُور بڑے شعبوں کی بہتری کے لئے اقدامات کرے گی۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, December 8, 2019

TRANSLATION: The real indicator by Dr. Farrukh Saleem

The real indicator
حقیقی اِشارہ
کسی ملک کی اقتصادی صورتحال پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’مودیز‘ کی جانب سے پاکستان کے بارے میں تجزیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان جو درجہ بندی کے لحاظ سے پہلے ’منفی (B-Negative)‘ تھا اُسے ’مستحکم (B3-Stable)‘ قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے کہ جس پر اظہار مسرت اُور خوشیاں منانی چاہیئں؟ حقیقت یہ ہے کہ درجہ بندی میں ’بی تھری (B-3)‘ وہ آخری سیڑھی ہے جس کے بعد کسی ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے پہلے پائیدان پر قدم رکھتی ہے۔ ’بی تھری‘ کے بعد درجہ ’سی (C)‘ شروع ہوتا ہے اُور اِس درجے میں شامل ممالک جزوی دیوالیہ ہونے کے بعد زوال پذیر معیشت کے ساتھ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے جیسے طاقتور ملک کے لئے ’بی تھری‘ میں رہنا اپنی شرم کا مقام ہے کیونکہ ماضی میں کئی ایسے ادوار گزرے ہیں جبکہ پاکستان سے متعلق ’مودیز درجہ بندی‘ کافی بہتر تھی۔ 1994ءمیں جب محترمہ بینظیر بھٹو برسراقتدار تھیں تب پاکستان ’بی تھری‘ تھا۔ 2006ءمیں جب صدر پرویز مشرف کی حکومت تھی تب پاکستان ’بی ون (B-1)‘ کے درجے میں تھا۔ کیا مودیز درجہ بندی حقیقت میں قابل بھروسہ بھی ہیں اُور کیا اِن کے ذریعے کسی ملک کی معیشت اُور وہاں ہونے والی اقتصادی سرگرمیاں اُور اصلاحات کو سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا یہ درجہ بندی کچھ مطلب بھی رکھتی ہے؟

کرنٹ اکاونٹ: 
پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاو ¿نٹ) جو کہ گزشتہ برس 19.9 ارب ڈالر تھا کم ہو کر 12.75 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ کیا کرنٹ اکاونٹ میں ہونے والے قومی اخراجات میں یہ کمی خوش آئند ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی کرنسی (روپے) کی قدر میں 47 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں کچھ (4.8فیصد) بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل خام آمدنی (جی ڈی پی) کی شرح نمو کم ہوئی ہے جو پہلے 5.5 فیصد سالانہ تھی‘ کم ہو کر 3 فیصد پر آ گئی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ جاری اَخراجات (کرنٹ اِکاونٹ) کا خسارہ کم کرنے کے لئے حکومت نے اقتصادی سرگرمیوں کو سست کر دیا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ معاشی صورتحال سے واقفان حال اِس پر اظہار اطمینان نہیں کر رہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی درآمدات 19 ارب ڈالر سے کم ہو کر 14.65 ارب ڈالر ہوئی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اِکاو ¿نٹ) خسارہ کم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں سست ہوئی ہیں اُور برآمدات میں غیرمعمولی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جس پر جشن منایا جانا چاہئے؟

پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کر رکھا ہے اُور پاکستان کی اقتصادیات پر ’آئی ایم ایف‘ کی نگرانی جاری ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر یقینا ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلہ ساز اُور سبھی عالمی اِدارے اظہار اطمینان کر رہے ہوں گے جنہیں صرف مالیاتی حکمت عملیوں سے مطلب ہے۔ اُنہیں اپنے دیئے گئے قرض کی کم سے کم وقت میں واپسی سے غرض ہے۔ حکمرانوں نے عالمی اداروں کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کی معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو سست کر دیا ہے اُور اِس بات پر کسی بھی صورت اِظہار اِطمینان نہیں کیا جاسکتا۔

مرکزی مالیاتی ادارے (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے نومبر 2019ءکے درمیان سرمایہ کاروں نے 1.097 ارب ڈالر مالیت کے ’ٹی بلز‘ خریدے ہیں۔ کیا یہ اچھی بات ہے؟ یقینا یہ اچھی بات ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اُن کی سرمایہ کاری پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر اعتماد کی عکاس ہے بلکہ وہ ’بلند ترین شرح سود (کم وقت میں زیادہ منافع)‘ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے ’ٹی بلز‘ خریدتے ہیں۔ اِس طرح قومی خزانے میں ڈالر تو آ جاتے ہیں لیکن وہ اپنے ساتھ زیادہ مقدار میں ڈالر لے بھی جائیں گے اُور تاریخ گواہ ہے کہ اِس طرح کی سرمایہ کاری سے پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اِسی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاری کی یہ صورت باعث اطمینان نہیں ہے۔ تصور کیجئے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 1.9 کھرب روپے سود کی مد میں ادا کئے تھے لیکن موجودہ برس یہ رقم بڑھ کر 2.9 کھرب روپے ہو چکی ہے۔ حکومت نے 1.097ارب ڈالر حاصل کئے جس کی وجہ سے اضافی 6.5 ارب ڈالر سود ادا کرنا پڑا۔ کیا ملک کی اقتصادیات کا چلانے کا یہ درست طریقہ ہے؟

پاکستان پر ایسے قرضہ جات کا بوجھ 800 ارب روپے تک جا پہنچا ہے‘ جن کی ادائیگیاں (واپسی) نہیں ہو رہی تو کیا یہ امر باعث اطمینان ہے؟

جی ڈی پی میں اضافہ:
گذشتہ برس پاکستان کی اقتصادی ترقی 5.5 فیصد کے تناسب سے ہوئی جبکہ اِس سال ملک کی خام پیداواری ترقی 3.3 فیصد پر ہے اُور یہ اعدادوشمار وفاقی ادارہ شماریات نے جاری کئے ہیں۔ قومی پیداوار میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ 900 ارب روپے کانقصان ہوا ہے جو قطعی معمولی نہیں۔ قریب 1.2 ارب پاکستانی اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے ہیں جبکہ قریب 90 لاکھ پاکستانی ایسے ہیں جنہیں ملک کے اقتصادی حالات نے خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پیشنگوئی کی ہے کہ آئندہ برس پاکستان کی قومی پیداوار میں مزید کمی ہوگی اُور یہ 3.3 فیصد سے 2.8فیصد پر آ جائے گی جس کا مطلب ہے کہ مزید پاکستانی بیروزگار ہوں گے تو جس ملک میں روزگار کے مواقع ہر سال کم ہو رہے ہوں‘ وہاں کے حکمرانوں کی جانب سے معاشی و اقتصادی ترقی کے دعووں پر یقین (اظہار اطمینان) کرنا چاہئے؟

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, December 1, 2019

TRANSLATION: The debt bomb by Dr Farrukh Saleem

The debt bomb
قرضوں کا بوجھ
پاکستان کے قومی قرضوں کا بوجھ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا براہ راست تعلق ملک میں مہنگائی اُور شرح سود سے ہے۔ قیام پاکستان یعنی سال 1947ءسے 2008ء کے 61 سالہ عرصے میں ملک کے 4 گورنر جنرلز‘ 9 صدور اُور 23 وزرائے اعظم گزرے اُور اِن سبھی نے مجموعی طور پر 6 کھرب روپے کا قرض لیا۔ سال2008ءتک ہر پاکستانی (قومی قرضوں کی وجہ سے) 36 ہزار روپے کا مقروض تھا۔

سال 2008ءسے 2013ء کے درمیانی عرصے (پانچ برس) میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ پاکستان نے آصف علی زرداری کی صدارت اُور 2 وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی و راجہ پرویز اشرف کی وزارت عظمیٰ کے ادوار دیکھے۔ اِن تین کرداروں (زرداری‘ گیلانی اُور راجہ) نے پاکستان نے قومی قرض کو 6 کھرب ڈالر سے 16 کھرب ڈالر تک پہنچا دیا یعنی 5 سال کے عرصے میں پاکستان کے قومی قرض میں 10 کھرب (10-trillion) روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اگر اوسط معلوم کی جائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت (2008-13) کے دوران پاکستان کے قومی قرضے میں ہر دن (یومیہ) ”5.5 ارب روپے“ کا اضافہ کیا جاتا رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے مذکورہ 5 سالہ دور حکومت کے اختتام پر ہر پاکستانی اوسطاً 36 ہزار روپے سے 88 ہزار روپے کا مقروض ہو گیا یعنی پانچ سال کے دوران ہر پاکستانی پر قومی قرض کا بوجھ دوگنے سے بھی زیادہ ہو گیا۔

سال 2013ءسے 2018ءکے 5 سالہ دور میں پاکستان نے ممنون حسین بطور صدر اُور 2 وزرائے اعظم میاں نواز شریف و شاہد خاقان عباسی دیکھے۔ اِن تینوں کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت یعنی ’پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ سے تھا۔ نواز لیگ حکومت کے دوران (دوہزار تیرہ سے دوہزار اٹھارہ) پاکستان کے قومی قرضوں کو 16 کھرب روپے سے بڑھا کر 30 کھرب روپے جیسی بلند سطح پر پہنچا دیا گیا یعنی پانچ سال میں 14 کھرب روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اگر نواز لیگ کے آخری دور حکومت کے دوران ہر دن لئے گئے قرض کا تناسب معلوم کیا جائے تو یہ 7.5 ارب روپے یومیہ بنتا ہے۔ لیگی حکومت نے پانچ سال تک ہر دن ساڑھے سات ارب روپے قومی قرض میں اضافہ کیا۔ یوں پانچ سال کے عرصے میں ہر پاکستانی پر قومی قرض کا بوجھ جو کہ پہلے ’88 ہزار روپے‘ تھا بڑھ کر ’1لاکھ 44 ہزار روپے‘ ہو گیا۔

سال 2018ءسے 2019ئ‘ صدر مملکت عارف علوی اُور وزیراعظم عمران خان ہیں۔ اِن دونوں کا تعلق ’پاکستان تحریک انصاف‘ سے ہے۔ موجودہ حکومت کے 2 سال کی مالیاتی کارکردگی کا ایک رُخ یہ ہے کہ جولائی دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد ’تحریک انصاف‘ کے برسراقتدار آنے کے وقت پاکستان کے قومی قرضوں کا کل حجم 30 کھرب روپے تھا اُور ماضی کی طرح موجودہ حکومت نے بھی قرض لینے کا سلسلہ جاری رکھا اُور قومی قرض کو 41 کھرب روپے پر پہنچا دیا یعنی اب تک (ایک سال کے عرصے میں) ’11 کھرب روپے‘ قرض لیا جا چکا ہے‘ جس کی اگر یومیہ اوسط نکالی جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہر دن ’30 ارب روپے‘ قرض لیا گیا ہے۔ حکومت کی مالیاتی کارکردگی‘ ترجیحات اُور منصوبہ بندی کا اندازہ اِس اَمر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 71 سال کے دوران پاکستان نے 30 کھرب روپے قرض لیا جبکہ تحریک انصاف نے ’1 سال‘ کے دوران ’11 ارب روپے‘ لیا ہے۔ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل ہر پاکستانی ’ایک لاکھ 44 ہزار روپے‘ کا مقروض تھا لیکن اب ہر پاکستانی پر قومی قرض کا بوجھ ’1 لاکھ 87 ہزار روپے‘ ہو چکا ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ قیام پاکستان سے 71 سال کے سفر میں قومی قرض میں ’73 فیصد‘ جبکہ ایک سال میں ’27فیصد‘ اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے مالیاتی مشیر اُور حساب دانوں کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے قومی قرض کے حجم میں اضافہ نہیں کیا بلکہ تحریک انصاف نے ماضی میں لئے گئے قرض واپس کئے ہیں اُور قومی مالیاتی ذمہ داریوں کے بوجھ کو کم کیا ہے لیکن برسرزمین حقائق مختلف ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے قرض نہ لیا ہوتا اُور قومی قرضوں کی واپسی کی ہوتی تو پھر پاکستان کی واجب الاداءمالی ذمہ داریوں میں ایک سال کے دوران ”11 کھرب روپے“ کا اضافہ نہ ہوا ہوتا۔ آخر یہ کیسے ہو گیا کہ تحریک انصاف نے قرض نہیں لیا اُور واجب الاداءقرضوں کی واپسی بھی کی لیکن پھر بھی پاکستان پر قرض بڑھ گیا ہے؟

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن تحریک انصاف نے ایک سال کے دوران ’گیارہ کھرب روپے‘ قرض لیا ہے۔ اِس قرض میں روپے کی قدر میں کمی سے ہونے والا اضافہ بھی شامل ہے لیکن یہ اضافہ ماضی میں لئے گئے قرضہ جات میں بھی شمار کیا گیا ہے کیونکہ روپے کی قدر میں کمی بیشی تب بھی ہوا کرتی تھی۔ اِس لئے کسی بھی دور حکومت کے دوران لئے گئے مجموعی قومی قرض کا موازنہ دوسرے حکومتی دور میں لئے گئے مجموعی قومی قرضوں ہی سے کیا جائے گا۔
سال 1971ءمیں ہر پاکستان فرد (مرد‘ عورت یا بچے) کے ذمے 500 روپے قومی قرض تھا اُور 48 برس میں ہر پاکستانی فرد ”1 لاکھ 87 ہزار روپے“ کا مقروض ہو چکا ہے۔

قرض وقتی طور پر راحت کا باعث ضرور ہوتے ہیں لیکن جب ایک خاص حد سے زیادہ قومی قرضوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اِس کی وجہ سے ’ملکی شرح سود‘ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے اُور معیشت قرضوں کی عادی ہونے لگتی ہے کیونکہ مصنوعی طریقے سے معیشت کو چلانے میں اِس کی ناکامی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جہاں خسارے (قومی معاشی ناکامی) کے امکانات زیادہ ہوں‘ وہاں یا تو سرمایہ کاری نہیں ہوتی یا سرمایہ کار احتیاط سے کام لیتے ہوئے زیادہ مراعات اُور منافع کا تقاضہ کرتے ہیں اُور اِن دونوں روئیوں (حکمت عملیوں) کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی اقتصادی ترقی یا تو بالکل رُک جاتی ہے یا پھر اِس کی شرح نمو میں اضافہ نہیں ہوتا۔

حد سے زیادہ قومی قرضہ جات میں اضافے کی مثال ایک ایسی گاڑی میں سفر سے دی جا سکتی ہے جو اپنی جگہ پر کھڑی ہو لیکن اُس کے اندر بیٹھے ہوئے افراد سمجھ رہے ہوں کہ سفر جاری ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)