Monday, April 17, 2023

Peshawar Kahani: Ramadan Memories

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: اپنی یادوں سے کہو‘ اِک دن کی چھٹی دے مجھے 

رمضان کیسے گزر رہا ہے؟ آخری عشرے کے اِختتام سے قبل یہ سوال عموماً پوچھا جاتا ہے اُور جب ’پشوری‘ حلقہئ احباب میں تبادلہ خیال کا آغاز اِس گردان سے کرتے ہیں تو لامحالہ ذہن میں ماضی کی کھڑی کھل جاتی ہے اُور ایک تازہ ہوا کا جھونکا یادوں کو معطر و مسرور کرتے ہوئے ایک ایسے ماضی کی یاد دلاتا ہے جسے گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن وقت کو جیسے پر لگ گئے ہیں اُور یہ ہاتھوں سے نکلنے کی صورت اُڑے جا رہا ہے! کیا وقت تھا کہ جب وقت کا احساس ہوا کرتا تھا۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی چابی والی گھڑی (ٹائم پیس جسے عرف عام میں ٹئیم پیس کہا جاتا تھا) کی مرمت کروائی جاتی تاکہ گھر کی خواتین سحری کے لئے بروقت اُٹھ سکیں۔ یہ وہ وقت تھا جب رمضان المبارک گرمی کے ہوں یا سردی کے رات کو چند گھنٹے نیند ضرور کی جاتی تھی اُور سحری کے لئے اُٹھنے کے مقررہ اوقات میں جگانے والوں کے الگ الگ انداز تھے۔ کوئی ڈھول بجاتے بجاتے گزر جاتا‘ تو کوئی خوش الحانی کے ساتھ نعتیہ کلام پڑھتا۔ گلے میں ڈھولکی اُور باجا لٹکائے دو افراد پر مشتمل سحری جگانے والوں کی قوال ٹیمیں بھی ہوا کرتی تھیں جبکہ اندرون شہر کے یکہ توت سے کریم پورہ اُور ہشتنگری تک علاقے میں سحری جگانے والے (سالار) خادم حسین اعوان مرحوم کو بھلا کیسے بُھلایا جا سکتا ہے۔ سحری جگانے کے لئے پشاور چھاؤنی اُور تھانہ جات کی حدود میں وہ سائرن بھی بجائے جاتے جنہیں جنگ کے دوران شہریوں کو دشمن کے فضائی حملے سے خبردار کرنے کے نصب کیا گیا تھا لیکن رفتہ رفتہ اِن سائرنز کی مخصوص آواز مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز میں نصب کر دی گئی اُور اب گلی گلی سائرن سحری کے آغاز اُور اِس کے محتاط اختتام کی حد پر بجائے جاتے ہیں جس کے چند لمحے بعد فجر کی آذانیں ہوتی ہیں لیکن دوسری مرتبہ سائرن کی آواز کھانا پینا ترک کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اُور اگرچہ یہ بندوبست اعلانیہ نہیں لیکن روایت کے طور پر ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی رواج پا گیا ہے۔ سحری سے قبل چند گھنٹے کی نیند کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ ’تہجد کی نماز (جسے نماز شب بھی کہا جاتا ہے)‘ کی ایک مستحب شرط پوری ہو جاتی کہ تھوڑی نیند کے بعد اُٹھ کر تہجد کے نوافل ادا کرنا بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے البتہ سارا سال عبادت کرنے والے جب عشا سے فجر کی نماز ادا کرنے کی سکت و عادت رکھتے ہوں تو اُن کے لئے ’نماز ِشب‘ میں نیند نہ کرنے کی رعایت موجود ہے۔ پشاور کے کیا دن اُور کیا راتیں ہوا کرتی تھیں کہ جب ریڈیو‘ ٹیپ ریکارڈرز اُور ٹیلی ویژن کے آنے سے پہلے گھر گھر سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی آوازیں آتی تھیں۔ گلی محلوں سے سر جھکائے گزرنے والے جانتے تھے کہ تلاوت قرآن مجید کس کے گھر سے ہو رہی ہے۔ تب ’سٹریٹ کرائمز‘ کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہر دوسرا شخص ایک دوسرے سے مانوس یا کسی نہ کسی رشتے اُور تعلق کا عکس لئے گھوم رہا ہوتا۔ اہل پشاور کی پہچان اُن کے لباس کی تراش خراش‘ سر پر پہنی ہوئی ٹوپی‘ کندھے پر رکھے ہوئے رومال‘ پاؤں میں پہنی ہوئی جوتی حتیٰ کہ قیمیض اُور آستینوں کے بٹن کھلے یا بند رکھنے سے بھی ہو جاتی تھی۔ اِسی طرح سحری کے جگانے والے بھی اجنبی نہ ہوتے۔ اندرون شہر کے چند علاقوں میں ’دعوت اسلامی‘ کی جانب سے ’صدائے مدینہ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی اتباع اُور بزرگوں کے طرزعمل کی پیروی کرتے ہوئے لگائی جاتی ہے لیکن اَب پشاور بدل گیا ہے اُور اِس کے سحری و افطار سے لیکر رمضان المبارک میں کھانے پینے کے معمولات اُور دسترخوانوں پر سجی وہ مخصوص اشیائے خوردونوش بھی نہیں رہیں جو خاصا ہوا کرتی تھیں اُور جن بودوباش کے معمولات کے ساتھ کئی ایک حکمتیں اُور سب سے بڑھ کر ایک خاص قسم کی سادگی و انکساری جڑی ہوتی تھی۔

پشاور خاموش ہوا کرتا تھا۔ شہر میں بیٹھ کر چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن سے گاڑی کی آمدورفت کو سنا جاتا تھا۔ گھنٹہ گھر سے وقت کے بارے میں اعلان شہر سے صدر تک سُنا جاتا۔ بجلی کی سٹریٹ لائٹس آئیں تو آسمان کی تاریکی دھندلی اُور دودھیا ہو گئی ہے ورنہ سیاہ و تاریک آسمان پر ستاروں کو شمار کرتے نیند آ جایا کرتی تھی۔ سحری کے لئے جگانے والوں کے منفرد لیکن روائتی انداز اُور روائتی کلام ہوا کرتے تھے۔ نماز تراویح کی ادائیگی کے دوران اعلیٰ حضرت بریلوی کا نعتیہ کلام پڑھنے والے ایک نابینا شخص کی آواز کان پڑتی جو آج بھی سماعتوں میں محفوظ ہے کہ ”اہلِ سُنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ ِحضور (رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین) …… نجم ہیں اُور ناؤ ہے عترت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔“ غلام اُستاد کی برق رفتار تراویح کی بیس رکعتیں اُور پوری نماز عشا بمعہ تراویح اُور وتر زیادہ سے زیادہ پینتیس منٹ میں ادا کرنے کے بعد صرف اُتنی ہی مٹرگشت ہوتی جو بستر تک لے جائے۔ ریڈیو‘ ٹیپ ریکارڈر‘ ٹیلی ویژن‘ وی سی آر‘ کیبل نیٹ ورک اُور انٹرنیٹ سے جڑے موبائل فونز نے جن نئے معمولات و مصروفیات کو جنم دیا ہے اُن کا ماضی سے کوئی تعلق نہیں اُور نہ ہی اُن کا کوئی مستقبل دکھائی دیتا ہے کیونکہ جس انداز سے برق رفتار انٹرنیٹ (فائیو جی) اُور پاؤں پھیلاتے ’مصنوعی ذہانت‘ کا انتظار کیا جا رہا ہے تو وہ وقت بھی زیادہ دور نہیں جب انٹرنیٹ ہی کے اوقات استعمال ہوں گے جن کی ایجاد ہو چکی ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ ضمنی سوال ہو کہ ’انٹرنیٹ ٹائم کیا چیز ہے؟‘ تو جان لیجئے کہ وقت کے موجودہ نظام جسے مجازی حقیقی دن کہا جاتا ہے اُور یہ چوبیس گھنٹے اور ساٹھ منٹ فی گھنٹہ کے حساب سے وقت کا تعین کرتا ہے جبکہ انٹرنیٹ ٹائم میں وقت کی گھنٹے اُور منٹوں میں تقسیم کی بجائے‘ ٹائم سسٹم کے تحت ہر دن ”ایک ہزار بیٹس beats“ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر بیٹ کے پیمانے کو دل کی دھڑکن سے تشبیہ دی جا سکتی ہے اُور بیٹ کا مطلب ’ایک منٹ 26.4 سیکنڈ ہوتا ہے۔“

پشاور ’وقت کے شور‘ میں گم ہو گیا ہے جبکہ وقت کی جمع ’اُوقات‘ ہے۔ باغات کی سیر نہیں رہی تو ہر محلے میں کوئی نہ کوئی بیھٹک (مرکزی جگہ) بھی نہیں رہی جہاں ہم خیال اکٹھا ہوں۔ زمیندار (اعوان برادری) گھرانے فصیل شہر کے باہر فصلیں‘ باغات اُور مال مویشیوں کی مصروفیات رکھتے۔ اِن کے پاس ٹانگے (یکہ) بھی ہوتے جن پر عمومی ایام میں ہفتہ وار جبکہ رمضان المبارک میں عصر سے بعداز عصر تک سیروتفریح کے لئے پورے اہتمام یعنی بن سنور کر جایا جاتا اُور یہ سب کچھ ایک ایسی رفتار سے ہو رہا ہوتا کہ رمضان المبارک کے گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا کہ کب سحری ہوئی‘ دن چڑھا اُور دن ڈھلا کہ جس کے آخری پہر میں تندور پر دیسی گھی والا برتن اُور روغنی و پراٹھوں کی تعداد کے بارے ایک پرچی لکھ کر مطلع کرنا ہوتا تھا۔ ٹیلی ویژن اپنے ساتھ رمضان ٹرانسمیشنز لایا جس کی وجہ سے ہر دن ’متنازعہ موضوعات‘ پر مختصر دورانیئے کی ’وائرل ویڈیوز‘ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چلتے پھرتے‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے اُور بولتے سنتے مواصلاتی وسائل کا استعمال حیران کن ہے جس نے ہر خوبی کمال اُور ہر روایت کو ’تفریح‘ بنا دیا ہے۔ پشاور کے معمولات رمضان میں تغیرات کے جملہ اسباب میں مہنگائی‘ سٹریٹ کرائمز میں اضافہ اُور چھوٹے بڑوں میں ہر وقت ’آن لائن‘ رہنے کا شوق بھی شامل ہے۔ پشاور کی یادیں اُور پشاور کا عشق تاریخ کے نہیں بلکہ نسلوں کو منتقل کرنے کے لئے اُنہی وسائل اُور ذرائع کا استعمال کرنا پڑے گا‘ جو رفتہ رفتہ ہر خوبی پر حاوی ہوتے چلے جا رہے ہیں بقول منور رانا ”اپنی یادوں سے کہو اِک دن کی چھٹی دے مجھے …… عشق کے حصے میں بھی اتوار ہونا چاہئے۔“

……




Friday, April 14, 2023

Social Media: neediness and weakness

 ژرف نگاہ  …… شبیرحسین اِمام

اظہار ِرائے: محتاجی اُور ضعف

پہلا مرحلۂ فکر: ٹیکنالوجی کی دنیا پر ’حکمرانی‘ کا تعلق اہلیت سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام سے ہے اُور شاید یہی وہ وقت کا ’دجال‘ ہے جس نے معیشت سے دفاع اُور دفاع سے اظہار رائے تک ’عالمی اجارہ داری‘ قائم کر رکھی ہے۔ دنیا کی سات بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں 5 کا تعلق امریکہ سے ہے۔ امریکی ایپل (apple) 380 ارب ڈالر سالانہ آمدنی کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ دیگر کمپنیوں میں امریکہ کی ایلفابیٹ (Alphabet) 260 ارب ڈالر سالانہ‘ جنوبی کوریا کی سام سنگ (Samsung) 245 ارب ڈالر سالانہ‘ تائیوان کی ہان ہائی پریسیشن (Hon Hai Precision) 215 ارب ڈالر سالانہ‘ امریکہ کی مائیکرو سافٹ 185 ارب ڈالر سالانہ‘ امریکہ ہی کے میٹا پلیٹ فارم (فیس بک) 120 ارب ڈالر سالانہ اُور امریکی ڈیل (Dell) 110 ارب ڈالر سالانہ آمدنی رکھتی ہے۔ جب معلوم ہے کہ دنیا پر ٹیکنالوجی کی حکمرانی ہے تو اِس شعبے میں عصری اُور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاطرخواہ تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری نہ کرنا ’مجرمانہ غفلت‘ ہے اُور بہتری اِسی میں ہے کہ جلد از جلد غفلت کو ترک کر کے حقائق کا ادراک کیا جائے کیونکہ یہی ٹیکنالوجی معاشی بہتری و آزادی کے علاؤہ قومی سلامتی و دفاع کے لئے بھی ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔

دوسرا مرحلۂ فکر: امریکہ کی معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک (Elon Musk) ہر سیکنڈ ’پانچ سو ڈالر‘ یعنی ہر منٹ ’تیس ہزار ڈالر‘ یعنی ’بیس لاکھ ڈالر‘ فی گھنٹہ‘ یعنی ’چار کروڑ ڈالر‘ یومیہ یعنی ’تیس کروڑ ڈالر‘ ہر ہفتے یعنی ’ایک ارب ڈالر‘ ہر مہینے یعنی سالانہ ’پندرہ ارب ڈالر‘ آمدنی رکھتے ہیں۔ ایک ایسے ’کھرب پتی‘ شخص جس کی آمدنی میں ہر سال اربوں ڈالرز کا اِضافہ ہو رہا ہے‘ جب اُس نے سال 2022ء کے دوران سماجی رابطہ کاری کی معروف ویب سائٹ ’ٹوئیٹر (twitter)‘ بمعہ ادارے 44 ارب ڈالر کے عوض خریدی تو اُمید یہ تھی کہ اِس اقدام سے ’ٹوئیٹر‘ میں مزید سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ٹوئیٹر نئی خدمات متعارف کروائے گا اُور بالخصوص یہ کہ اِس کی مفت فراہم کی جانے والی سہولیات کو زیادہ وسیع اُور معیاری بنایا جائے گا لیکن ٹوئیٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) بننے کے بعد ’51 سالہ‘ ایلون مسک نے نہ صرف ٹوئیٹر کمپنی کے اخراجات کم کرنے کے لئے ملازمین کی بڑی تعداد کو فارغ کیا بلکہ ایک اُور نہایت ہی متنازع فیصلہ کرتے ہوئے ٹوئیٹر کی خصوصی تصدیقی خدمت (بلیو چیک مارک Blue Checkmark) جو پہلے مفت فراہم کی جاتی تھی اُس کی قیمت ’8 امریکی ڈالر‘ مہینہ مقرر کر دی اُور کہا کہ ”ٹوئیٹر خریدنے کے وقت یہ اِدارہ ’3 ارب ڈالر سالانہ خسارہ‘ کر رہا تھا جسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اُور منافع بخش بنانے کے لئے ملازمین کا بوجھ کم کیا گیا ہے جبکہ ’مصدقہ خدمات‘ کی قیمت (آٹھ ڈالر ماہانہ) مقرر کی گئیں ہیں اُور اُمید ہے کہ ٹوئیٹر صارفین تعاون کریں گے۔“ ذہن نشین رہے کہ ایلون مسک کے اثاثوں کی کل مالیت 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے! رواں ہفتے جب ٹوئیٹر کی جانب سے باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ تصدیق شدہ ٹوئیٹر اُن کھاتوں (اکاؤنٹس) سے ’بلیو چیک مارک‘ کو ہٹا دیا جائے گا جو ماضی میں مفت فراہم کئے گئے تھے اُور اِس سلسلے میں ’20 اپریل 2023ء‘ کی آخری تاریخ (ڈیڈ لائن) مقرر کر دی گئی ہے جس کے بعد صرف وہی ٹوئیٹر اکاؤنٹ تصدیق شدہ ہونے کا اعزاز رکھیں گے جو اِس کی مقررہ قیمت اَدا کرنے کی مالی سکت رکھیں گے۔ اندازہ ہے کہ ’2 لاکھ 94 ہزار‘ ٹوئیٹر صارفین کے اکاؤنٹس ’تصدیق شدہ‘ ہیں اُور اِن میں سے اگر نصف بھی آٹھ ڈالر ماہانہ کے عوض اپنے اکاؤنٹ کی دوبارہ تصدیق خریدتے ہیں تو اِس سے ٹوئیٹر کو ماہانہ 7 لاکھ 76 ہزار ڈالر ماہانہ ہو گی جبکہ کمپنی کو اِس اقدام سے کم سے کم ’10 لاکھ (ایک ملین) ڈالر ماہانہ‘ آمدنی متوقع ہے۔ سال دوہزاربائیس کے اختتام پر ٹوئیٹر کے پوری دنیا میں فعال صارفین کی تعداد 45 کروڑ (450ملین) سے زیادہ تھی جن میں پاکستان کے 30 لاکھ (تین ملین) سے زیادہ صارفین بھی شامل ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’8 امریکی ڈالر‘ پاکستانی کرنسی (PKR) میں 2300 روپے ہوتے ہیں۔

تیسرا مرحلۂ فکر: ٹوئیٹر کی جانب سے صارفین کے کھاتوں (اکاؤنٹس) کی قیمت مقرر کرنے کا ”نقصان“ یہ ہوا ہے کہ 8 امریکی ڈالر ادا کر کے اب کوئی بھی شخص تصدیق شدہ ٹوئیٹر اکاؤنٹ حاصل کر سکتا ہے جو اِس سے قبل صرف معروف کاروباری‘ سیاسی‘ فلمی شخصیات یا پیشہ وروں جیسا کہ صحافیوں کو ایک مرحلہ وار تصدیقی عمل کی تکمیل کے بعد جاری کیا جاتا تھا تاکہ اُن کے نام سے ملتا جلتا اکاؤنٹ بنا کر کوئی غلط معلومات نہ پھیلائے یا معروف شخصیات سے منسوب فرضی (جعلی) پیغامات نہ پھیلائے جائیں۔ سوشل میڈیا پر معلومات کی تصدیق کا یہ طریقہ متعارف کرانے کے بعد ’ٹوئیٹر‘ کی پیروی کئی دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بھی کی لیکن جب سے ’آٹھ ڈالر کے عوض تصدیق شدہ اکاؤنٹ فروخت کیا جا رہا ہے‘ تو ٹوئیٹر کی آمدنی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن سوشل میڈیا کا ایک انتہائی معتبر ذریعہ اپنی وقعت و انفرادیت کھو گیا ہے۔ تصور کریں کہ کئی سربراہان مملکت کے علاؤہ قومی سلامتی اُور خارجہ امور کے اہم ادارے ٹوئیٹر ہی کے ذریعے اپنا مؤقف بیان کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اُور اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ٹوئیٹر کے سب سے مقبول رہنما ہیں جنہیں 1 کروڑ 90 لاکھ (19 ملین) سے زیادہ ٹوئیٹر صارفین ’فالو‘ کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے ٹوئیٹر فالوورز کی تعداد دس لاکھ (ایک ملین)‘ بلاول بھٹو زرداری پچاس لاکھ (پانچ ملین) اُور شہباز شریف کے 66 لاکھ (چھ اعشاریہ چھ ملین) فالوورز ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کے اہم قومی ادارے جیسا کہ دفتر خارجہ کے چار لاکھ اکسٹھ ہزار سے زیادہ‘ الیکشن کمیشن کے ستانوے ہزار سے زیادہ‘ نادرا (تین لاکھ سے زیادہ)‘ اسٹیٹ بینک آف پاکستان چار لاکھ پینسٹھ ہزار سے زیادہ  اُور پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ویریفائیڈ اکاؤنٹ کے باسٹھ لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔

چوتھامرحلۂ فکر : ٹوئیٹر کی تصدیق شدہ اُور غیر تصدیق شدہ اکاؤنٹس کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کے بعد کیا قومی اداروں کو ’ٹوئیٹر‘ استعمال کرنا چاہئے اُور اگر پاکستان کی سیاسی شخصیات اُور اداروں کے بیانات اُور سرگرمیوں سے فوری آگاہ ہونے کے لئے (مجموعی طور پر) 2 کروڑ سے زیادہ ٹوئیٹر کا استعمال کر رہے ہیں تو وقت ہے کہ ایک الگ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کا آغاز ہونا چاہئے اُور مسلم ممالک کے لئے یہی وہ مناسب وقت ہے کہ وہ ’ٹوئیٹر‘ کی طرز پر سماجی رابطہ کاری کا آغاز کریں جیسا کہ کامسیٹس کی صورت ایک مشترکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کا ادارہ بنایا گیا تھا یہ الگ بات ہے کہ اُس ادارے کا قیام پاکستان میں کیا گیا لیکن اِس نے اُمت مسلمہ کے لئے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق جیسی ضرورت کو پورا نہیں کیا ہے ورنہ آج مسلم دنیا کسی ٹوئیٹر‘ فیس بک‘ یوٹیوب یا گوگل جیسے اداروں کی محتاج نہ ہوتی!

اے مرغک ِبیچارہ! ذرا یہ تو بتا تو

تیرا وہ گنہ کیا تھا‘ یہ ہے جس کی مکافات؟

افسوس‘ صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو

دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ ِمفاجات!

……




Quds Day 2023

 تحریک …… آل یاسین

یوم القدس: جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں 

اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کاروائیاں جیسی جرأت درحقیقت اُس ’اجتماعی بے حسی‘ کا نتیجہ ہے جو مسلم اُمہ پر طاری ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اسرائیل کے ناجائز وجود اُور انسانی جرائم پر مسلم ممالک کا تجاہل عارفانہ دیکھنے میں نہ آتا اُور اسرائیل کے ہاتھ نہتے مسلمان عورتوں اُور بچوں کے خون سے رنگین نہ ہوتے۔ توجہ طلب ہے کہ اسرائیل نے اُنیس اکتوبر دوہزاراکیس کے روز ’انسداد دہشت گردی کے قانون 2016ء‘ کے تحت چھ سرکردہ فلسطینی سول سوسائٹی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا۔ جس کے بعد اِن تنظیموں کا پیچھا کرنے کی منظوری دی گئی اُور ایک فوجی حکم نامے کے ذریعے ’مغربی کنارے‘ میں اسرائیلی فوج نے کاروائیاں کا آغاز کیا۔ سال دوہزاراکیس سے جاری اسرائیل کی فوجی کاروائیوں میں رمضان المبارک کے دوران تیزی دیکھنے میں آتی ہے اُور شاید اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل مسلم اُمہ کی غیرت‘ مصلحت اُور صبر کو اُس حد تک پہنچانا چاہتا ہے جہاں اِنہیں فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر دکھ یا غم و غصہ محسوس نہ ہو۔ اسرائیل کے کھلے عام ظلم و بربریت کی دوسری وجہ جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے ہر سال رمضان المبارک کا آخری جمعۃ المبارک ’یوم القدس‘ کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اُور اِس مرتبہ جمعۃ الوداع کل (چودہ اپریل دوہزارتیئس) کے دن نماز جمعہ کے اجتماعات کے بعد اسرائیل اُور اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کرنے والوں کے خلاف دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی احتجاج کئے جائیں گے اُور اِن میں شمولیت جذبہئ ایمانی اُور فلسطین سے اظہار یک جہتی کے طور پر ہونا چاہئے کیونکہ فلسطینی مسلمان صرف اپنے حقوق ہی کا نہیں بلکہ امت مسلمہ اُور بالخصوص پاکستان کے دفاع کی جنگ بھی تن تنہا لڑ رہے ہیں اُور اگر اہل پاکستان اُن کے حق میں ایک احتجاجی مظاہرے میں بھی شریک نہ ہو سکیں تو اِس سے زیادہ بے حسی کی بات کوئی دوسری نہیں ہوگی۔

سرزمین فسلطین نے ظہور اسلام سے قبل اور ظہور اسلام کے بعد نشیب و فراز دیکھے لیکن یہ بات حقیقت رہی کہ فلسطین ہمیشہ ہی سے دعوت الٰہی کا مرکز رہا اُور آسمانی کتب میں بھی ’ارض قدس (فلسطین)‘ کی مرتبت ومنزلت بیان ہوئی ہے۔ قرآن پاک کے مطابق خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر ِمعراج کے دوران اِسی مقام (مسجد) میں رکے اُور اِس واقعہ کی تفصیل سورہئ مبارکہ اسرأ میں محفوظ ہے (ترجمہ) ”پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک کی سیر کرائی“ اُور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف مسجد اقصیٰ کی سیر ہی نہیں کی بلکہ تبدیلی قبلہ کا حکم آنے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد الاقصیٰ شریف ہی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ تحویل قبلہ کے بعد مسلمانوں کا قبلہ موجودہ ’کعبہ شریف‘ بنا اِس لحاظ سے مسلمانوں کی دلی وابستگی مسجد اقصیٰ سے قائم ہونا ایک فطری ردعمل ہے۔

پہلی جنگ عظیم سے قبل مٹھی بھریہودی یہاں آ کر آباد ہوئے جبکہ اِن سے قبل موجود یہودی آباد کار اپنے ازلی حریف عیسائیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے سینکڑوں سال سے مسلمانوں کے زیر سایہ بنا کسی خوف و خطر زندگی بسر کر رہے تھے اُور اُنہیں ہر قسم کے مذہبی امور ادا کرنے کی اجازت حاصل تھی۔ سن 1800ء سے قبل فلسطین میں یہودیوں کی آبادی ’چھ ہزار سات سو‘ تھی لیکن برطانیہ اُور امریکہ کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی (سازش) کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں اکٹھا کیا گیا جس کے بعد 1915ء میں فلسطین میں آباد یہودیوں کا تعداد ستاسی ہزار پانچ سو تک پہنچ گئی اُور یہ تعداد بتدریج بڑھتی گئی یہاں تک کہ 1947ء تک فلسطین میں چھ لاکھ تیس ہزار یہودی آباد کر دیئے گئے تھے۔ اِس قدر بڑی آبادی کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد 1948ء میں برطانیہ اُور امریکہ کی اِس ناجائز و غاصب اولاد نے صیہونی ریاست ”اسرائیل“ کے قیام کا اعلان کیا۔ ذہن نشین رہے کہ پہلی جنگ عظیم ہی تاریخ کا وہ منحوس ترین دور تھا جب اسلام دشمن قوتوں نے ارض مقدس فلسطین پر یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنایا۔ اِس منصوبہ کا ماسٹر مائنڈ برطانیہ اور امریکہ تھا‘ جنہیں انقلاب اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شیطان بزرگ‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اِس شیطان بزرگ کی سازشوں سے 14 مئی 1948ء کے روز ’صیہونی ریاست‘ کے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مسلمانوں کے قلب میں اسرائیل نام کی غاصب اور غیر قانونی ریاست کے وجود کا اعلان کر دیا گیا اُور امریکہ وہ پہلا ملک تھا جس نے 14 مئی 1948ء ہی کے روز اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کیا جسے بعدازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا اُور یوں فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ منظور کرکے مسلمانان عالم کو اقوام متحدہ نے اپنا حقیقی چہرہ دکھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنے قیام سے آج تک‘ اسرائیل کا وجود حقوق بشر کے تابوت میں آخری کیل اور انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ثابت ہوا۔

انقلاب اسلامی ایران (الفجر) کی کامیابی کے چند ماہ بعد‘ اگست 1979ء میں امام خمینیؒ نے فتویٰ دیتے ہوئے ”ملکی و عالمی سطح پر یوم القدس“ منانے کا اعلان کیا اُور اِس پرامن دن کے منانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ فلسطینی عوام کی حمایت اُور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں قبلہ کا درجہ رکھنے والی مسجد اقصیٰ کی بازیابی ممکن بنائی جا سکے۔ یوم القدس کے اِس تاریخ ساز فتوے کی پاداش میں جمہوری اسلامی ایران کے خلاف مختلف حیلوں بہانوں سے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں جو آج بھی جاری ہیں اُور اِن اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے لیکن اِمام خمینیؒ اُور انقلاب اسلامی کے بعد امام راحل کی مدبرانہ اور ولولہ انگیز قیادت نے فلسطینی آزادی کے مشن کو جاری رکھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امام راحل نے حسینی کردار نبھاتے ہوئے اپنے وطن عزیز سے عالمی سامراج کو بے دخل اور مشرق وسطیٰ سے اس کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اُور صرف یہی نہیں بلکہ ’اسلام ِنعب (خالص اسلام)‘ کا تصور بھی پیش کیا جو انقلاب اسلامی ایران کے نظریاتی محافظ ثابت ہوا اُور اِسی کی بدولت اِمام خمینیؒ کی تعلیمات کی روشنی میں لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ اسلام ِنعب ہر قسم کے طاغوت‘ انتہا پسندی‘ تکفیریت اور ہر شکل و صورت میں دہشت گردی کے خلاف ایک منظم و فعال تحریک ہے جس میں دیگر مذاہب اُور تمام فرقوں کا احترام واجب ہے اُور اِسی کے تحت اہل تشیع کے ہاں مرجعیت کو بطور خاص مرکزی اہمیت دی گئی اُور یہی ’یوم القدس‘ کا محافظ و نگران تصور بھی ہے۔ یوم القدس مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ اُن کے لئے آزادی کا مفہوم اُور مطلب ”فلسطین کی آزادی اُور مسجد الاقصیٰ (قبلے) کی بازیابی اسلام کا مقدس مشن اُور اِس کے حصول کا عزم (نعرہ) ہے۔“ انقلاب اسلامی کے اِس پروردہ نعرے نے شرق و غرب کے مظلوم عوام کو ظلم و جور کے آگے سر اٹھا کے چلنے کا سلیقہ سکھایا ہے اُور اِسی نعرے کی بدولت مظلوم کو ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا ہے۔ اسی نعرے کے برکات سے قائدمقاومت و مزاحمت حسن نصر اللہ کی قیادت والے ’حزب اللہ‘ متحرک دکھائی دیتی ہے جبکہ حماس نامی تحریک کے جانباز وسائل کی قلت کے باوجود اسرائیل اُور اِس کی پشت پناہی کرنے والوں کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔

 امام خمینیؒ نے کہا تھا (ترجمہ) ”میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہیں کہ وہ ماہئ رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک بطور ”یوم القدس“ منائیں اور اِس دن فلسطین کے مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں اتحاد و یک جہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔“

……




Monday, April 3, 2023

Molvee Gee's 19th Urs Mubarak



 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

یاد آوری : مولوی جی رحمة اللہ علیہ

راہ سلوک اُور معرفت الٰہی کے سلسلے اَزل سے قائم اُور اَبد تک جاری رہیں گے۔ ہدایت کے اِن سلسلوں کو عرف عام میں ’تصوف‘ کہا جاتا ہے اُور اِسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صوفیا کرام کا کردار و خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ قیام پاکستان کا خواب بھی ایک صوفی ہی کا الہام تھا جو حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کو اپنا پیرو مرشد تسلیم کرتے تھے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے لکھا ”پیر رومی خاک را اکسیر کرد .... اَز غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد (ترجمہ) رومی کے نام سے مشہور پیر و مرشد نے مجھے مٹی (خاک) سے سونا (اکسیر) بنادیا۔ (میں قابل ذکر نہیں تھا لیکن اُن کی نظر عنایت کے سبب) میری ذات سے کئی جلوؤں کی تعمیر ہوئی (یعنی میرا کلام و پیغام لافانی ہو گیا۔)“ عرف عام میں ’پیری مریدی‘ کہلانے والے تصوف کا یہ تعلق حضوری بھی ہوتا ہے اُور غائبانہ بھی۔

 علامہ اقبالؒ المعروف اقبال ِلاہوری کی پیدائش 9 نومبر 1877ءسیالکوٹ میں ہوئی جبکہ آپ کا وصال 21 اپریل 1938ءلاہور میں ہوا جبکہ مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 30 ستمبر 1207ءبلخ (افغانستان) میں ہوئی اُور وہ 17 دسمبر 1273ءکے روز دنیا سے پردہ فرمانے کے اگلے دن (اٹھارہ دسمبر) قونیہ (ترکیہ) میں آسودہخاک کئے گئے۔ مولانا رومیؒ کا ایک لقب ’مولوی‘ بھی تھا جو آپؒ کی حکیمانہ تعلیمات اُور فکر کی بے مثال گہرائی کے سبب عام ہوا۔ حوض کے کنارے بیٹھے تصنیف و تالیف میں مصروف تھے کہ ایک درویش پاس آیا اُور سوال کیا کہ کیا لکھ رہے ہو؟ مولانا رومیؒ نے جواب دیا .... ”یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔“ درویش نے آپؒ کے ہاتھ سے مسودہ لیا اُور اُسے تالاب میں پھینک دیا۔ مولانا رومیؒ پریشان ہوئے اُور کہا کہ یہ تو میری ساری زندگی کی محنت کا حاصل (کل سرمایہ) تھا۔ اِس پر درویش نے تالاب میں ہاتھ ڈالا اُور وہی مسودہ نکالا جو بالکل خشک حالت میں تھا۔ مولانا رومیؒ نے حیرت سے پوچھا ”یہ کیسے؟“ تو اُنہوں نے جواب دیا ”یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔“ اِس جواب سے مولانا رومیؒ سب کچھ چھوڑ کر درویش کے پیچھے ہو لئے۔ کہا مجھے تعلیم دیں۔ یہ درویش حضرت شمس تبریز رحمة اللہ علیہ (ولادت 1185 تبریز‘ ایران۔ وصال 1248ءکھوے‘ ایران) تھے جنہوں نے ایک دنیاوی طالب علم کو حقیقی علم یعنی معرفت ِالٰہی کا ’مولوی‘ بنا دیا۔ اپنے پیر و مرشد کے حکم پر بعدازاں مولانا رومیؒ نے ”مثنوی“ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو آج ”مثنوی مولانا روم‘ کے نام مشہور ہے۔ چھ جلدوں میں شائع 26 ہزار 660 اشعار پر مشتمل اِس فارسی کلام کے کم سے کم 26 زبانوں بشمول اُردو میں تراجم ہو چکے ہیں۔ مثنوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہے فارسی کی کسی دوسری کتاب کو آج تک نہیں ہوئی۔ آج بھی ایران میں 4 کتابیں (شاہ نامہ‘ گلستان‘ مثنوی روم اُور دیوان حافظ) مشہور ہیں اُور اِن میں مثنوی ہی سب زیادہ مقبول ہے جو علمی ادبی حلقوں کے علاو¿ہ عوام الناس اُور دیگر خواص میں یکساں مقبول ہے۔

پشاور کی سرتاج علمی‘ ادبی اُور روحانی شخصیت‘ غوث زماں‘ سیّد الفقرا‘ شیخ الحدیث و التفسیر‘ سیادت پناہ‘ سیّدی و مرشدی‘ سندی و آقائی قبلہ سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی علیہ رحمة الغفار بھی مولانا رومیؒ کے لقب ’مولوی‘ ہی سے مشہور ہوئے اُور آپ کا یہ اسم تعارفی ”مولوی جیؒ“ آج بھی اہل پشاور کی زبان پر ہے جو پشاور کا مستند حوالہ اُور تاریخ پشاور کا اہم باب ہے۔ مولوی جیؒ ایسی حکیمانہ شخصیت تھے جنہوں نے صرف تصوف اُور روحانیت ہی نہیں بلکہ قیادت و سیادت کے شعبوں میں بھی اہل پشاور کی ہاتھ پکڑ پکڑ کر رہنمائی کی اُور اُنہیں (بقول علامہ اقبالؒ) خاک سے اکسیر بنا دیا۔ آج (13 رمضان المبارک 1444 ہجری بمطابق 4 اپریل 2023ء) ”پشاور کے اِنہی ہردلعزیز مولوی جی علیہ الرحمہ“ کا ’19 واں عرس مبارک‘ عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے اُور اِس سلسلے میں کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت شریف ’آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ امیریہ‘ میں ختم قرآن پاک‘ محافل درود و سلام‘ ختم غوثیہ اُور دیگر اوراد کا آغاز حسب سابق یکم رمضان المبارک سے کر جاری ہے جو امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت (شب ضربت اُنیس رمضان المبارک سے روز شہادت اکیس رمضان المبارک اُور شب قدر تیئس رمضان المبارک) تک جاری رہے گا۔ عرس مبارک کی اِن تقریبات میں ملک بھر اُور بالخصوص پشاور کے کونے کونے سے مرید اُور عقیدت مند بصد احترام شریک ہیں اُور پیر و مرشد سے اپنی اپنی محبت و عقیدت (ذوق و بیداری  قلب) کے مطابق روحانی فیوض و برکات حاصل کر رہے ہیں۔ سجادہ نشین نور السادات‘ سیّد نور الحسنین قادری گیلانی (سلطان آغا) حفظہ اللہ ”حنفی حسینی عقائد“ کے تحفظ کے لئے کوششیں بھی اپنی جگہ اہم ہیں جو اِن دنوں ایک روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جسمانی طور پر علیل ہیں (بقول غالب: رگ بستر کو ملی شوخی مژگاں مجھ سے۔) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلطان آغا کو صحت ِکاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔

اہل پشاور ’مولوی جیؒ‘ کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ اِن میں اکثریت اُن کی ہے جنہوں نے راقم الحروف کی طرح آپؒ کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا اُور یہ مولوی جیؒ ہی کی نظر عنایت تھی کہ آج بھی سینکڑوں ہزاروں دلوں میں ’لا الہ الا اللہ‘ کا ورد جاری و پختہ ہے اُور مذکورہ ’آستانہ¿ عالیہ‘ سے ذکر و اذکار کی صدائیں پشاور کے بزرگان دین سے تاریخی روحانی تعلق کا اظہار بطور سند و ثبوت کر رہی ہیں۔ مسند ِغوثیت کے وراث‘ در علم (کرم اللہ وجہہ الکریم) اُور شہر علم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وابستہ نور السادات ’سلطان آغا حفظہ اللہ‘ حضور غوث الثقلین‘ قطب ربانی غوث الصمدانی‘ محبوب ربانی سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز سے حاصل رشد و ہدایت کو پھیلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس آستانے اُور اِس گھرانے سے پھیلنے اُور پھوٹنے والی انوار و تجلیات بصورت وعظ و ارشادات اُور عبادات کے سلسلے تاقیامت دراز (قائم و دائم) رکھے۔ تصوف کے بارے میں اکثر یہ بنیادی سوال پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیوں ضروری ہے؟ مختصراً سمجھنے کے لئے تقدیر کی 2 اقسام ”تقدیر معلق“ اُور ”تقدیرمُبرم“ پر غور کرنا ہوگا‘ جن سے متعلق مشہور روایات بشمول نصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ ”معلق تقدیر دعا اُور صدقات سے ٹل (بدل) جاتی ہے“ لیکن ”تقدیر مُبرم“ کا بدلنا امر ِمحال ہے کیونکہ یہ لوحِ محفوظ پر لکھی ہوتی ہے اُور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خاص عنایت (خصوصیت و مقام) خاندان ِغوثیہ کو حاصل ہے کہ حضور ِغوثیت مآب کے اِس خانوادہ عالیشان کی دعاؤں سے ”تقدیر مُبرم“ بھی بدلتے ہوئے دیکھی گئی ہے۔ اُولیائے کرام کی یہ خصوصیت صرف اُور فقط سلسلہ قادریہ میں نسل در نسل منتقل ہونے والی ولایت کا طرہ امتیاز بھی ہے جو ایک الگ موضوع ہے اُور کسی دوسرے مرحلہ  فکر پر بیان کیا جائے گا۔ خالق و مالک ِعظیم شان سبحانہ فرماتے ہیں کہ ”میں سزاُور جزا کامالک ہوں‘ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہوں‘ سب کچھ تبدیل کرنا اور قائم رکھنا میرے ارادہ کُن (اختیار) میں ہے۔“ ملاحظہ کریں قرآن کریم کی 13ویں سورہ مبارکہ (الرعد) کی 39ویں آیت کریمہ‘ جس کے تحت ارشاد باری تعالیٰ ”يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ کا ظاہری لفظی ترجمہ اِس کے اَن گنت مفاہیم کا مجموعہ ہے کہ ”اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اُور (جو چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اُور اُسی کے پاس اصل کتاب (لوح ِمحفوظ) ہے۔“ نگاہ مرشد کامل سے عشق ِمصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاصل .... خدا کا قرب دیتی ہے محبت پیر خانے کی۔

....


Sunday, April 2, 2023

Letter to the editor: Peshawar will endure, forever.

 Peshawar will endure, forever.

...
Amidst the chaos and the strife,
In Peshawar, there's hope for life.
Where bullets once shattered the peace,
Now unity and love will never cease.

With every step, a new dawn arises,
And with every hope, a new dream realizes.
For peace in Peshawar is a steadfast vow,
A promise that will always endow.

Long live Peshawar, our beloved city,
A place where all come with open hearts, free.
Where diversity thrives, and all are one,
In the name of peace, the journey has begun.

So let us stand together, hand in hand,
And build a future that is truly grand.
May Peshawar forever be a place of love,
And in its streets, may peace forever reign above.

This poem is a powerful tribute to the hope and resilience of the people of Peshawar, written in the context of the challenging law and order situations that have prevailed in the city. With a focus on unity, love, and staying steadfast is a call to action, to build a better future for beloved city. Despite the trials and tribulations faced by Peshawar, the current emerged situation reminds all of us that there is always hope for a brighter tomorrow, and that with a shared commitment to peace and prosperity, Peshawar will endure, forever.

Shabbir Hussain Imam.
Gunj - Peshawar.

Saturday, April 1, 2023

Letter to the editor: Peshawar: A call for Action.

 "Urgent Need for Enhanced Security Plan in Peshawar: A Call for Action"


It is with a heavy heart that we mourn the loss of two minority members of our society in Peshawar, Diyal Singh (a shopkeeper) and the Kashif Masih (a sanitation worker). Both were killed on the March 31st and April 1st, respectively. Their deaths are a stark reminder of the need for greater tolerance and understanding in our society.


As a Sikh shopkeeper, Diyal Singh was a beloved member of the Peshawar community. He had contributed immensely to the local economy and had been an integral part of the city's multicultural society. His tragic death is a loss not just for his family and loved ones, but also for the entire community.


The Christian Kashif Masih was also a member of the Peshawar's family and his loss is equally devastating. Both of them were an integral part of the diverse and vibrant fabric of Peshawar's society and their contributions will be long remembered and cherished.


These unfortunate incidents also highlight the urgent need for an enhanced security plan in Peshawar. The safety and security of all citizens, regardless of their religion or background, must be a top priority for the authorities. It is time for the Peshawar Safe City Project to be completed and implemented to ensure the safety of all its citizens.


As we mourn the loss of Diyal Singh and the Kashif Masih, let us also remember and appreciate their contributions to Peshawar.

We must work together to create a society that is tolerant and inclusive, where all members feel safe and valued.


"There can be no security anywhere in the world if there is no prosperity, and there can be no prosperity without security." - John F. Kennedy


Shabbir Hussain Imam

Gunj - Peshawar.


Letter of Recommendation.

Letter of recommendation to attend a workshop.

 

Tales of Peshawar - Issues from present and about future.



Shabbir Hussain Imam


Peshawar, the capital city of Khyber Pakhtunkhwa province in Pakistan, has faced several challenges in recent years. From security threats to environmental issues, the city is struggling to overcome the obstacles and move towards a better future.


Security Threats:

One of the most pressing issues facing Peshawar is the security situation. The city has been a target of terrorist attacks for many years, and the residents are still living in fear. Although the security forces have made significant progress in curbing the threat, there is still a long way to go.


According to Dr. Khalil Ahmad, a security expert, "The security situation in Peshawar has improved in recent years, but there is still a need for further efforts to ensure the safety of citizens. The government needs to invest more in training security personnel and providing them with the necessary equipment."


Environmental Issues:

Peshawar is also facing environmental issues, such as air pollution and poor waste management. The city's air quality index is often in the unhealthy range, which is a major concern for the health of the residents.


Saima Khan, an environmental activist, said, "The government needs to take immediate action to address the environmental issues in Peshawar. The air quality needs to be improved, and the waste management system needs to be modernized. Citizens also need to be educated about the importance of protecting the environment."


Infrastructure Development:

The infrastructure of Peshawar is another issue that needs urgent attention. The city's roads are often congested, and there is a lack of public transport options. The government needs to invest in developing better infrastructure to improve the quality of life for residents.


According to Imran Ali, a transport expert, "The government needs to prioritize the development of public transport in Peshawar. The city needs a modern and efficient transport system that can help reduce traffic congestion and improve connectivity."


Future of Peshawar:

Despite the challenges facing Peshawar, there is hope for a better future. The government is taking steps to address the security situation, and there are plans to improve the city's infrastructure and environmental conditions.


According to Shahid Khan, a social activist, "Peshawar has a rich history and a bright future. The city has the potential to become a hub of tourism and investment. The government needs to work with the community to develop a vision for the future of Peshawar."


In conclusion, Peshawar is facing several challenges that need urgent attention. The government needs to work with the community to address the security situation, improve infrastructure, and protect the environment. With the right investments and policies, Peshawar can become a thriving city that offers a high quality of life for its residents.


Ends.