ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: اپنی یادوں سے کہو‘ اِک دن کی چھٹی دے مجھے
رمضان کیسے گزر رہا ہے؟ آخری عشرے کے اِختتام سے قبل یہ سوال عموماً پوچھا جاتا ہے اُور جب ’پشوری‘ حلقہئ احباب میں تبادلہ خیال کا آغاز اِس گردان سے کرتے ہیں تو لامحالہ ذہن میں ماضی کی کھڑی کھل جاتی ہے اُور ایک تازہ ہوا کا جھونکا یادوں کو معطر و مسرور کرتے ہوئے ایک ایسے ماضی کی یاد دلاتا ہے جسے گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن وقت کو جیسے پر لگ گئے ہیں اُور یہ ہاتھوں سے نکلنے کی صورت اُڑے جا رہا ہے! کیا وقت تھا کہ جب وقت کا احساس ہوا کرتا تھا۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی چابی والی گھڑی (ٹائم پیس جسے عرف عام میں ٹئیم پیس کہا جاتا تھا) کی مرمت کروائی جاتی تاکہ گھر کی خواتین سحری کے لئے بروقت اُٹھ سکیں۔ یہ وہ وقت تھا جب رمضان المبارک گرمی کے ہوں یا سردی کے رات کو چند گھنٹے نیند ضرور کی جاتی تھی اُور سحری کے لئے اُٹھنے کے مقررہ اوقات میں جگانے والوں کے الگ الگ انداز تھے۔ کوئی ڈھول بجاتے بجاتے گزر جاتا‘ تو کوئی خوش الحانی کے ساتھ نعتیہ کلام پڑھتا۔ گلے میں ڈھولکی اُور باجا لٹکائے دو افراد پر مشتمل سحری جگانے والوں کی قوال ٹیمیں بھی ہوا کرتی تھیں جبکہ اندرون شہر کے یکہ توت سے کریم پورہ اُور ہشتنگری تک علاقے میں سحری جگانے والے (سالار) خادم حسین اعوان مرحوم کو بھلا کیسے بُھلایا جا سکتا ہے۔ سحری جگانے کے لئے پشاور چھاؤنی اُور تھانہ جات کی حدود میں وہ سائرن بھی بجائے جاتے جنہیں جنگ کے دوران شہریوں کو دشمن کے فضائی حملے سے خبردار کرنے کے نصب کیا گیا تھا لیکن رفتہ رفتہ اِن سائرنز کی مخصوص آواز مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز میں نصب کر دی گئی اُور اب گلی گلی سائرن سحری کے آغاز اُور اِس کے محتاط اختتام کی حد پر بجائے جاتے ہیں جس کے چند لمحے بعد فجر کی آذانیں ہوتی ہیں لیکن دوسری مرتبہ سائرن کی آواز کھانا پینا ترک کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اُور اگرچہ یہ بندوبست اعلانیہ نہیں لیکن روایت کے طور پر ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی رواج پا گیا ہے۔ سحری سے قبل چند گھنٹے کی نیند کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ ’تہجد کی نماز (جسے نماز شب بھی کہا جاتا ہے)‘ کی ایک مستحب شرط پوری ہو جاتی کہ تھوڑی نیند کے بعد اُٹھ کر تہجد کے نوافل ادا کرنا بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے البتہ سارا سال عبادت کرنے والے جب عشا سے فجر کی نماز ادا کرنے کی سکت و عادت رکھتے ہوں تو اُن کے لئے ’نماز ِشب‘ میں نیند نہ کرنے کی رعایت موجود ہے۔ پشاور کے کیا دن اُور کیا راتیں ہوا کرتی تھیں کہ جب ریڈیو‘ ٹیپ ریکارڈرز اُور ٹیلی ویژن کے آنے سے پہلے گھر گھر سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی آوازیں آتی تھیں۔ گلی محلوں سے سر جھکائے گزرنے والے جانتے تھے کہ تلاوت قرآن مجید کس کے گھر سے ہو رہی ہے۔ تب ’سٹریٹ کرائمز‘ کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہر دوسرا شخص ایک دوسرے سے مانوس یا کسی نہ کسی رشتے اُور تعلق کا عکس لئے گھوم رہا ہوتا۔ اہل پشاور کی پہچان اُن کے لباس کی تراش خراش‘ سر پر پہنی ہوئی ٹوپی‘ کندھے پر رکھے ہوئے رومال‘ پاؤں میں پہنی ہوئی جوتی حتیٰ کہ قیمیض اُور آستینوں کے بٹن کھلے یا بند رکھنے سے بھی ہو جاتی تھی۔ اِسی طرح سحری کے جگانے والے بھی اجنبی نہ ہوتے۔ اندرون شہر کے چند علاقوں میں ’دعوت اسلامی‘ کی جانب سے ’صدائے مدینہ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی اتباع اُور بزرگوں کے طرزعمل کی پیروی کرتے ہوئے لگائی جاتی ہے لیکن اَب پشاور بدل گیا ہے اُور اِس کے سحری و افطار سے لیکر رمضان المبارک میں کھانے پینے کے معمولات اُور دسترخوانوں پر سجی وہ مخصوص اشیائے خوردونوش بھی نہیں رہیں جو خاصا ہوا کرتی تھیں اُور جن بودوباش کے معمولات کے ساتھ کئی ایک حکمتیں اُور سب سے بڑھ کر ایک خاص قسم کی سادگی و انکساری جڑی ہوتی تھی۔
پشاور خاموش ہوا کرتا تھا۔ شہر میں بیٹھ کر چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن سے گاڑی کی آمدورفت کو سنا جاتا تھا۔ گھنٹہ گھر سے وقت کے بارے میں اعلان شہر سے صدر تک سُنا جاتا۔ بجلی کی سٹریٹ لائٹس آئیں تو آسمان کی تاریکی دھندلی اُور دودھیا ہو گئی ہے ورنہ سیاہ و تاریک آسمان پر ستاروں کو شمار کرتے نیند آ جایا کرتی تھی۔ سحری کے لئے جگانے والوں کے منفرد لیکن روائتی انداز اُور روائتی کلام ہوا کرتے تھے۔ نماز تراویح کی ادائیگی کے دوران اعلیٰ حضرت بریلوی کا نعتیہ کلام پڑھنے والے ایک نابینا شخص کی آواز کان پڑتی جو آج بھی سماعتوں میں محفوظ ہے کہ ”اہلِ سُنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ ِحضور (رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین) …… نجم ہیں اُور ناؤ ہے عترت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔“ غلام اُستاد کی برق رفتار تراویح کی بیس رکعتیں اُور پوری نماز عشا بمعہ تراویح اُور وتر زیادہ سے زیادہ پینتیس منٹ میں ادا کرنے کے بعد صرف اُتنی ہی مٹرگشت ہوتی جو بستر تک لے جائے۔ ریڈیو‘ ٹیپ ریکارڈر‘ ٹیلی ویژن‘ وی سی آر‘ کیبل نیٹ ورک اُور انٹرنیٹ سے جڑے موبائل فونز نے جن نئے معمولات و مصروفیات کو جنم دیا ہے اُن کا ماضی سے کوئی تعلق نہیں اُور نہ ہی اُن کا کوئی مستقبل دکھائی دیتا ہے کیونکہ جس انداز سے برق رفتار انٹرنیٹ (فائیو جی) اُور پاؤں پھیلاتے ’مصنوعی ذہانت‘ کا انتظار کیا جا رہا ہے تو وہ وقت بھی زیادہ دور نہیں جب انٹرنیٹ ہی کے اوقات استعمال ہوں گے جن کی ایجاد ہو چکی ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ ضمنی سوال ہو کہ ’انٹرنیٹ ٹائم کیا چیز ہے؟‘ تو جان لیجئے کہ وقت کے موجودہ نظام جسے مجازی حقیقی دن کہا جاتا ہے اُور یہ چوبیس گھنٹے اور ساٹھ منٹ فی گھنٹہ کے حساب سے وقت کا تعین کرتا ہے جبکہ انٹرنیٹ ٹائم میں وقت کی گھنٹے اُور منٹوں میں تقسیم کی بجائے‘ ٹائم سسٹم کے تحت ہر دن ”ایک ہزار بیٹس beats“ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر بیٹ کے پیمانے کو دل کی دھڑکن سے تشبیہ دی جا سکتی ہے اُور بیٹ کا مطلب ’ایک منٹ 26.4 سیکنڈ ہوتا ہے۔“
پشاور ’وقت کے شور‘ میں گم ہو گیا ہے جبکہ وقت کی جمع ’اُوقات‘ ہے۔ باغات کی سیر نہیں رہی تو ہر محلے میں کوئی نہ کوئی بیھٹک (مرکزی جگہ) بھی نہیں رہی جہاں ہم خیال اکٹھا ہوں۔ زمیندار (اعوان برادری) گھرانے فصیل شہر کے باہر فصلیں‘ باغات اُور مال مویشیوں کی مصروفیات رکھتے۔ اِن کے پاس ٹانگے (یکہ) بھی ہوتے جن پر عمومی ایام میں ہفتہ وار جبکہ رمضان المبارک میں عصر سے بعداز عصر تک سیروتفریح کے لئے پورے اہتمام یعنی بن سنور کر جایا جاتا اُور یہ سب کچھ ایک ایسی رفتار سے ہو رہا ہوتا کہ رمضان المبارک کے گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا کہ کب سحری ہوئی‘ دن چڑھا اُور دن ڈھلا کہ جس کے آخری پہر میں تندور پر دیسی گھی والا برتن اُور روغنی و پراٹھوں کی تعداد کے بارے ایک پرچی لکھ کر مطلع کرنا ہوتا تھا۔ ٹیلی ویژن اپنے ساتھ رمضان ٹرانسمیشنز لایا جس کی وجہ سے ہر دن ’متنازعہ موضوعات‘ پر مختصر دورانیئے کی ’وائرل ویڈیوز‘ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چلتے پھرتے‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے اُور بولتے سنتے مواصلاتی وسائل کا استعمال حیران کن ہے جس نے ہر خوبی کمال اُور ہر روایت کو ’تفریح‘ بنا دیا ہے۔ پشاور کے معمولات رمضان میں تغیرات کے جملہ اسباب میں مہنگائی‘ سٹریٹ کرائمز میں اضافہ اُور چھوٹے بڑوں میں ہر وقت ’آن لائن‘ رہنے کا شوق بھی شامل ہے۔ پشاور کی یادیں اُور پشاور کا عشق تاریخ کے نہیں بلکہ نسلوں کو منتقل کرنے کے لئے اُنہی وسائل اُور ذرائع کا استعمال کرنا پڑے گا‘ جو رفتہ رفتہ ہر خوبی پر حاوی ہوتے چلے جا رہے ہیں بقول منور رانا ”اپنی یادوں سے کہو اِک دن کی چھٹی دے مجھے …… عشق کے حصے میں بھی اتوار ہونا چاہئے۔“
……