Terror in India
بھارت: دہشت کا راج!
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے‘ جن میں شامل بھارت (India) اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں کے داخلی حالات انتشار سے دوچار ہیں۔ علاؤہ ازیں بھارت ایسا ملک بھی ہے جو داخلی طور پر تقسیم در تقسیم ہیں اور وہاں ذات برادری‘ نسلی و لسانی اور مذہب کی بنیاد پر انتہا درجے کی تفریق پائی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں حیران کن اعدادوشمار موجود ہیں‘ جن کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی پر نظر رکھنے والی ایک نجی تنظیم (South Asia Terrorist Portal) ایسے دہشت گرد واقعات کا شمار مرتب کرتی ہے‘ جن میں جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ اِس تنظیم (satp.org) کے مطابق سال 1994ء سے 2017ء تک بھارت میں ہونے والی 65 ہزار980 ہلاکتوں کا تعلق دہشت گردی سے ہے!
بھارت میں دہشت گردی 3 اقسام کی ہے۔ مذہبی علیحدگی پسند (religious)۔ وفاق گریز قوتوں کی مزاحمت (seccessionist) اور گروہی شناخت کی بنیاد پر (ethnic) عوام اور حکومت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جب ہم مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت اور دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو اِسے مزید 4 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہندو بمقابلہ مسلمان‘ ہندو بمقابلہ سکھ‘ ہندو بمقابلہ عیسائی اور ہندو بمقابلہ ذات پات۔ بھارت کی وفاقی حکومت سے شدید اختلافات رکھنے والے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ بھارت سے الگ ہو جائیں۔ بھارت میں داخلی طور پر ایسی وفاق گریز 7 تحریکیں آسام‘ میگالایا‘ میزورم‘ منی پور‘ ناگا لینڈ‘ پنجاب اُور تیری پور‘ میں چل رہی ہیں۔ آسام میں پائی جانے والی گروہی دہشت گردی کی تین صورتیں ہیں۔ آسامی ہندو بمقابلہ مسلمام۔ بنگالی ہندو بمقابلہ مسلمان اُور وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت بھی چاہتی ہے کہ وہ بھارت کے وفاق سے علیحدہ ہو جائیں۔
بھارت میں ہونے والی دہشت گردی سے ہونے والی جانی نقصانات کے بارے میں اعدادوشمار بھی حقائق اور برسرزمین صورتحال کی سنگینی کا پتہ دیتے ہیں۔ بھارت کے شمال مغرب میں جاری دہشت گرد واقعات میں 35 فیصد‘ بائیں بازو کی جماعتوں کی علیحدگی پسند تحریکیوں سے پیدا ہونے والی دہشت گردی 28فیصد‘ موؤسٹ (Maoist) تحریک کے ماننے والوں کی دہشت گردی اور دیگر گروہوں کی مزاحمت 26فیصد ہے جبکہ بھارت کے زیرتسلط جموں و کشمیر کے علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی بھارت میں ہونے والے دہشت گرد واقعات کا صرف 11 فیصد ہیں۔
بھارت کے 29میں 16 صوبے (ریاستیں) چاہتی ہیں کہ اُنہیں آزادی و خودمختاری دے دی جائے۔ یہ غیرمعمولی تعداد بھارت کی نصف سے زائد صوبوں کی ہے‘ جنہیں وفاقی حکومت پر اعتماد نہیں۔
ارونا پرادیش (Aruna Pradesh) میں نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ فعال تحریک ہے۔ آسام میں ’کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا موؤسٹ اُور مسلم انڈیا لبریشن ٹائیگرز آف آسام قابل ذکر بڑی مزاحمتی تحریکیں ہیں۔ منی پور میں ’نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ‘ اُور ’پیپلز لبریشن فرنٹ‘ جبکہ میزورم میں ’برو نیشنل لبریشن فرنٹ‘ ناگالینڈ میں ’ناگا نیشنل کونسل اُور ’دی فیڈرل گورنمنٹ آف ناگالینڈ شامل ہیں۔ تری پورہ میں ’نیشنل لبریشن فرنٹ آف تیری پورہ‘ جبکہ صوبہ پنجاب میں خالصتان کمانڈو فورس‘ بابر خالصہ انٹرنیشنل اُور انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن علیحدگی پسند تحریکیں ہیں۔
بھارت کی خاص بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت اب ایسا ملک نہیں کہ جہاں کی اکثریت غریبوں کی ہے بلکہ دنیا کا سب سے زیادہ غریب ملک نائجیریا ہے۔ تصور کیجئے کہ بھارت میں 7 کروڑ لوگ انتہائی غربت کا شکار ہیں جبکہ نائیجریا میں 8کروڑ 70 لاکھ انتہائی غربت سے دوچار ہیں۔
دنیا کے 33 فیصد انتہائی غریب لوگ بھارت میں رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں بھارت دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ناخواندہ (illiterate) لوگ رہتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ بھارت میں دنیا کے ناخواندہ بالغوں کی تعداد 28کروڑ 70 لاکھ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا قریب 37فیصد بنتا ہے۔
بھارت میں خواتین کی تعداد 65 کروڑ سے زیادہ ہے اُور جنسی زیادتی (rape)کے واقعات کے لحاظ سے بھارت دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جہاں ہر 30منٹ بعد ایک لڑکی جنسی زیادگی کا شکار ہوتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی نمائندہ گیتا پانڈے (Geeta Pandey) کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ’’بھارت میں دنیا کے سب سے زیادہ ایسے بچے پائے جاتے ہیں‘ جو جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ بھارت میں ہر دن ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کی اوسط تعداد 106 ہے جبکہ جنسی زیادتی ہر 10میں سے 4 بچوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
73کروڑ بھارتی عوام کو بیت الخلأ کی سہولت دستیاب نہیں۔ ساڑھے سات کروڑ فٹ پاتھوں‘ سڑک کنارے‘ عبادت گاہوں‘ ریلوے پلیٹ فارمز یا پھر خالی پڑے پائپوں میں سوتے ہیں۔ بھارت میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے بچوں (street children) کی تعداد 1کروڑ 80لاکھ ہے اور یہ تعداد دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسے بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 25 دسمبر2015ء کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے جنرل سیکرٹری رام یادیوں نے کہا تھا کہ ’’بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دن پھر سے متحد (reunite) ہو جائیں گے۔‘‘ بھارت کی ایک خاص سیاسی قیادت میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اِس کی تقسیم کو ختم کرکے پھر سے ایک ملک بنایا جائے لیکن ایسا صرف سیاسی نعرے کے طور پر مطالبہ اور خواہش نہیں بلکہ ہندو مذہب کے عقائد پھیلانے کے لئے انتہاء پسندوں میں اِس قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ خاص ذہنیت رکھنے والے بھارت کے مستقبل کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ’’عظیم بھارت‘‘ کے قیام کے لئے جدوجہد کو بہرقیمت شروع کرنا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)