Sunday, February 24, 2019

Terror in India by Dr. Farrukh Saleem

Terror in India
بھارت: دہشت کا راج!
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے‘ جن میں شامل بھارت (India) اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں کے داخلی حالات انتشار سے دوچار ہیں۔ علاؤہ ازیں بھارت ایسا ملک بھی ہے جو داخلی طور پر تقسیم در تقسیم ہیں اور وہاں ذات برادری‘ نسلی و لسانی اور مذہب کی بنیاد پر انتہا درجے کی تفریق پائی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں حیران کن اعدادوشمار موجود ہیں‘ جن کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی پر نظر رکھنے والی ایک نجی تنظیم (South Asia Terrorist Portal) ایسے دہشت گرد واقعات کا شمار مرتب کرتی ہے‘ جن میں جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ اِس تنظیم (satp.org) کے مطابق سال 1994ء سے 2017ء تک بھارت میں ہونے والی 65 ہزار980 ہلاکتوں کا تعلق دہشت گردی سے ہے!
بھارت میں دہشت گردی 3 اقسام کی ہے۔ مذہبی علیحدگی پسند (religious)۔ وفاق گریز قوتوں کی مزاحمت (seccessionist) اور گروہی شناخت کی بنیاد پر (ethnic) عوام اور حکومت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جب ہم مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت اور دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو اِسے مزید 4 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہندو بمقابلہ مسلمان‘ ہندو بمقابلہ سکھ‘ ہندو بمقابلہ عیسائی اور ہندو بمقابلہ ذات پات۔ بھارت کی وفاقی حکومت سے شدید اختلافات رکھنے والے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ بھارت سے الگ ہو جائیں۔ بھارت میں داخلی طور پر ایسی وفاق گریز 7 تحریکیں آسام‘ میگالایا‘ میزورم‘ منی پور‘ ناگا لینڈ‘ پنجاب اُور تیری پور‘ میں چل رہی ہیں۔ آسام میں پائی جانے والی گروہی دہشت گردی کی تین صورتیں ہیں۔ آسامی ہندو بمقابلہ مسلمام۔ بنگالی ہندو بمقابلہ مسلمان اُور وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت بھی چاہتی ہے کہ وہ بھارت کے وفاق سے علیحدہ ہو جائیں۔

بھارت میں ہونے والی دہشت گردی سے ہونے والی جانی نقصانات کے بارے میں اعدادوشمار بھی حقائق اور برسرزمین صورتحال کی سنگینی کا پتہ دیتے ہیں۔ بھارت کے شمال مغرب میں جاری دہشت گرد واقعات میں 35 فیصد‘ بائیں بازو کی جماعتوں کی علیحدگی پسند تحریکیوں سے پیدا ہونے والی دہشت گردی 28فیصد‘ موؤسٹ (Maoist) تحریک کے ماننے والوں کی دہشت گردی اور دیگر گروہوں کی مزاحمت 26فیصد ہے جبکہ بھارت کے زیرتسلط جموں و کشمیر کے علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی بھارت میں ہونے والے دہشت گرد واقعات کا صرف 11 فیصد ہیں۔

بھارت کے 29میں 16 صوبے (ریاستیں) چاہتی ہیں کہ اُنہیں آزادی و خودمختاری دے دی جائے۔ یہ غیرمعمولی تعداد بھارت کی نصف سے زائد صوبوں کی ہے‘ جنہیں وفاقی حکومت پر اعتماد نہیں۔

ارونا پرادیش (Aruna Pradesh) میں نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ فعال تحریک ہے۔ آسام میں ’کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا موؤسٹ اُور مسلم انڈیا لبریشن ٹائیگرز آف آسام قابل ذکر بڑی مزاحمتی تحریکیں ہیں۔ منی پور میں ’نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ‘ اُور ’پیپلز لبریشن فرنٹ‘ جبکہ میزورم میں ’برو نیشنل لبریشن فرنٹ‘ ناگالینڈ میں ’ناگا نیشنل کونسل اُور ’دی فیڈرل گورنمنٹ آف ناگالینڈ شامل ہیں۔ تری پورہ میں ’نیشنل لبریشن فرنٹ آف تیری پورہ‘ جبکہ صوبہ پنجاب میں خالصتان کمانڈو فورس‘ بابر خالصہ انٹرنیشنل اُور انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن علیحدگی پسند تحریکیں ہیں۔

بھارت کی خاص بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت اب ایسا ملک نہیں کہ جہاں کی اکثریت غریبوں کی ہے بلکہ دنیا کا سب سے زیادہ غریب ملک نائجیریا ہے۔ تصور کیجئے کہ بھارت میں 7 کروڑ لوگ انتہائی غربت کا شکار ہیں جبکہ نائیجریا میں 8کروڑ 70 لاکھ انتہائی غربت سے دوچار ہیں۔

دنیا کے 33 فیصد انتہائی غریب لوگ بھارت میں رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں بھارت دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ناخواندہ (illiterate) لوگ رہتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ بھارت میں دنیا کے ناخواندہ بالغوں کی تعداد 28کروڑ 70 لاکھ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا قریب 37فیصد بنتا ہے۔
بھارت میں خواتین کی تعداد 65 کروڑ سے زیادہ ہے اُور جنسی زیادتی (rape)کے واقعات کے لحاظ سے بھارت دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جہاں ہر 30منٹ بعد ایک لڑکی جنسی زیادگی کا شکار ہوتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی نمائندہ گیتا پانڈے (Geeta Pandey) کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ’’بھارت میں دنیا کے سب سے زیادہ ایسے بچے پائے جاتے ہیں‘ جو جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ بھارت میں ہر دن ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کی اوسط تعداد 106 ہے جبکہ جنسی زیادتی ہر 10میں سے 4 بچوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

73کروڑ بھارتی عوام کو بیت الخلأ کی سہولت دستیاب نہیں۔ ساڑھے سات کروڑ فٹ پاتھوں‘ سڑک کنارے‘ عبادت گاہوں‘ ریلوے پلیٹ فارمز یا پھر خالی پڑے پائپوں میں سوتے ہیں۔ بھارت میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے بچوں (street children) کی تعداد 1کروڑ 80لاکھ ہے اور یہ تعداد دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسے بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 25 دسمبر2015ء کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے جنرل سیکرٹری رام یادیوں نے کہا تھا کہ ’’بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دن پھر سے متحد (reunite) ہو جائیں گے۔‘‘ بھارت کی ایک خاص سیاسی قیادت میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اِس کی تقسیم کو ختم کرکے پھر سے ایک ملک بنایا جائے لیکن ایسا صرف سیاسی نعرے کے طور پر مطالبہ اور خواہش نہیں بلکہ ہندو مذہب کے عقائد پھیلانے کے لئے انتہاء پسندوں میں اِس قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ خاص ذہنیت رکھنے والے بھارت کے مستقبل کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ’’عظیم بھارت‘‘ کے قیام کے لئے جدوجہد کو بہرقیمت شروع کرنا چاہتے ہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, February 10, 2019

TRANSLATION: Room for reforms by Dr. Farrukh Saleem

Room for reforms
اِصلاحات کی گنجائش!
گیس قیمتوں میں اضافے سے پریشان حال عوام کو جاننا چاہئے کہ پاکستان میں ہر روز (یومیہ) ایک ارب کیوبک فٹ گیس چوری ہو رہی ہے۔ گیس کے پیداواری‘ درآمدی‘ نگران اُور تقسیم کار شعبوں کی فیصلہ سازی اور کارکردگی ’افسرشاہی (بیوروکریٹس)‘ کے ہاتھ میں ہیں‘ جنہوں نے چوری ہونے والی گیس کا خسارہ گیس صارفین کو منتقل کر رکھا ہے حالانکہ اِس میں گیس بل باقاعدگی سے ادا کرنے والے صارفین کا کوئی قصور نہیں۔ حکومتی ادارے تمام تر افرادی و تکنیکی وسائل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں بھی اگر ’گیس چوری کرنے والوں‘ کا سراغ لگانے اور اُنہیں انجام تک پہنچانے میں ناکام ہیں تو اِس کی سزا گیس صارفین کو کیوں دی جا رہی ہے؟

گذشتہ چند ماہ کے دوران ’افسرشاہی‘ پر یہ راز آشکارہ ہو چکا ہے کہ اُن کے سیاسی فیصلہ ساز تکنیکی معاملات کی خاطرخواہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اور یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے ایک گیس نرخوں میں اضافے کے لئے طریقہ کار (فارمولہ) وضع کیا‘ جسے اقتصادی تعاون کونسل (اکنامک کوآرڈی نیشن کونسل) کے اجلاس میں من و عن منظور کر لیا گیا اور اِسی کی وجہ سے گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی گیس قیمتوں سے متعلق بیوروکریسی کا بنایا ہونے فارمولے کے من و عن اطلاق اور فوری نفاذ کی منظوری دے دی۔ 3 فروری کو جب پورے ملک سے گیس بلوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی اور ذرائع ابلاغ نے عوام کے احتجاج کو حکومت تک پہنچایا تو سوائے اِس کے کوئی دوسرا چارہ نہ تھا کہ حکومت تحقیقات کا حکم دیتی اور یہی ہوا کہ وفاقی حکومت جو پہلے گیس قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبروں کو حکومت مخالف منظم مہم (پراپگنڈہ) قرار دے رہی تھی‘ نے اچانک اپنے مؤقف پر ’یوٹرن‘ لیا۔ تحقیقات کیا ہوئیں اُور اُن کے نتائج کیا برآمد ہوئے؟ اِن تحقیقات کے بعد عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں اور جن لوگوں نے اضافی بل ادا کئے ہیں کیا اُنہیں پیسے واپس کئے جائیں گے‘ اِس بارے میں تفصیلات دستیاب نہیں۔

نئے پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سبھی لوگ جو قریب 50 ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں اُن کے لئے اقتصادی طور پر گزربسر کرنا ہر دن مشکل بنایا جا رہا ہے۔ تصور کیجئے کہ پچاس ہزار روپے ماہانہ تک کمانے والے خاندانوں کے توانائی اخراجات بشمول گیس و بجلی اور پیٹرول پر اِن کی کل آمدنی کا قریب 30 فیصد خرچ ہو رہا ہے۔ تصور کیجئے کہ روپے کی قیمت گذشتہ 12 ماہ کے دوران 30 فیصد کم ہوئی ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں ’ہوشربا اِضافہ‘ اُور ’روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی‘ کی وجہ سے مذکورہ خاندانوں کے پاس کھانے پینے‘ بچوں کے تعلیمی اخراجات‘ علاج معالجے یا ملبوسات خریدنے کے لئے زیادہ مالی وسائل باقی نہیں بچتے اور ایسے لوگوں کے لئے زندگی ہر گزرتے دن زیادہ مشکل ہو رہی ہے۔ اِن برسرزمین حقائق کا حکومتی اقدامات اور بہتری کی کوششوں سے موازنہ ضروری ہے۔ اِس مرحلۂ فکر پر ’تحریک انصاف‘ کی قیادت میں وفاقی حکومت کی اصلاحات پر بھی نظر ہونی چاہئے۔ اصلاح اُس عمل کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی ادارے یا کسی ادارے کی کارکردگی میں تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ وہ بہتری کی جانب گامزن ہو سکے لیکن اگر حکومتی اصلاحات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اصلاحات وضع کرنے کے عمل میں کہیں نہ کہیں کمی رہ گئی ہے اور ترجیحات کا اُس طرح تعین نہیں ہو سکا ہے جس طرح کہ ہونا چاہئے تھا۔

سرکاری خریداریوں میں اصلاحات: عالمی بینک کی جانب سے بذریعہ بلاگ (blog) پاکستان حکومت کی توجہ اِس امر کی جانب مبذول کی گئی ہے کہ جنوب ایشیائی ممالک میں حکومتوں کے سب سے زیادہ اخراجات مختلف ضروریات کے لئے کی جانے والی خریداریوں پر ہوتے ہیں۔ (اگرچہ حکومتوں کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی لیکن معمول کے طور پر سالانہ خریداریوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔) اِس سلسلے میں مختلف براعظموں کے موازنے پر مبنی دیئے گئے اعدادوشمار حیران کن ہیں‘ جن سے پتہ چلتا ہے کہ افریقی ممالک اپنی سالانہ کل آمدنی کا 19.3 فیصد‘ بھارت 20فیصد جبکہ پاکستان 19.8 فیصد خرچ کرتا ہے۔

پاکستان کی کل آمدنی 35 کھرب روپے ہے‘ جس میں سے 7 ارب روپے مالیت کی مختلف خریداریاں کی جاتی ہیں۔ عالمی بینک کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ حکومتوں کے لئے خریداری کے عمل ہی میں بدعنوانی کا عنصر پوشیدہ ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل (Transparency International) کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری خریداری کے عمل میں حکومت وسائل کا پانچواں حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی سرکاری خریداریوں میں کل کتنی کرپشن ہو رہی ہے‘ یہ بات درست اعدادوشمار کے ساتھ جاننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہے لیکن اگر ’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار پر اکتفا کیا جائے تو پاکستان حکومت کے لئے خریداریوں کی مد میں (کم سے کم) سالانہ 7 کھرب روپے کی مالی بدعنوانی ہو رہی ہے!

حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت سرکاری خریداریوں میں ہونے والی بدعنوانیوں کا راستہ روکنے کے لئے اصلاحات نہیں لا رہی۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی ماضی کے حکمرانوں (نواز لیگ و پیپلزپارٹی ادوار کی طرح) اربوں کھربوں روپے مالیت کی سرکاری خریداریاں ہو رہی ہیں۔ سرکاری فیصلہ سازی کے منصب پر فائز لوگوں کے لئے بدعنوانی کرنے کا یہ آسان ذریعہ ہے اور اگر حکومت چاہے تو اِس میں اصلاح کرنے کے لئے کئی ایسی موجود مثالوں (طریقۂ کار) کو اختیار کر سکتی ہے‘ جس کے ذریعے مالی بدعنوانی کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ کوریا کی حکومت نے سرکاری خریداری کو ’آن لائن‘ کر دیا۔ پولینڈ اور ائرلینڈ کی حکومتیں بھی آن لائن وسائل ہی کے استعمال کے ذریعے سرکاری خریداریوں کو شفاف بنا رہی ہیں۔ سنگاپور کی مثال موجود ہے‘ جہاں قومی سطح پر الیکٹرانک انوائسنگ (electronic invoicing framework) متعارف کروایا گیا ہے تو اگر نیت میں فتور نہیں‘ اصلاح کا عزم اُور ارادہ بھی ہے‘ بدعنوانی کا خاتمہ بھی کرنا ہے‘ سرکاری وسائل کی جاری لوٹ مار بھی روکنی ہے تو اِس کے لئے عملی کوششیں کرتے ہوئے یورپی ممالک کی طرز کا کوئی ’آن لائن نظام‘ پاکستان میں کیوں متعارف (لاگو) نہیں کر دیا جاتا؟

سرکاری خریداری کے بعد پاکستان کے قومی خزانے کو پہنچنے والا دوسرا سب سے بڑا نقصان ’سرکاری اداروں کا خسارہ‘ ہے جس کے اصلاح وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کے 195 سرکاری ادارے مجموعی طور پر سالانہ 1.1 کھرب روپے خسارہ کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران اِن سرکاری اداروں نے ’’550 ارب روپے‘‘ کا خسارہ کیا ہے لیکن تاحال حکومت کی جانب سے اِس غیرمعمولی خسارے پر قابو پانے کے لئے اصلاحات متعارف نہیں کروائی گئیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت ’’سرمایہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بنائے گی جس کی سربراہی وزیراعظم عمران خان خود کریں گے اور یہ کمپنی خسارے میں چلنے والی ’’195قومی اداروں‘‘ کے انتظامی ڈھانچوں میں ایسی تبدیلیاں لائے گی‘ جس سے اِنہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔ قابل ذکر ہے کہ دنیا میں جہاں بھی ماسوائے سنگاپور حکومتوں نے سرکاری اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اِس قسم کی اصلاحات متعارف کروائیں وہ ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

سرکاری خریداری اُور سرکاری اداروں کے خسارے کے پاکستان کے قومی خزانے کو پہنچنے والے تیسرے سب سے بڑے نقصان کا تعلق ’توانائی کے شعبے‘ سے ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اُس کے توانائی کے شعبے کی فعالیت و کارکردگی پر ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ شعبہ بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں توانائی کا پیداواری شعبہ 1.5 کھرب روپے کے گردشی قرض میں جھکڑا دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں یہ گردشی قرضہ 228 ارب روپے تھا‘ جو بڑھ کر 1.5کھرب روپے ہو چکا ہے۔ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی قرض سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے ’گردشی قرض‘ ادا کر رہی ہے اور ایسا کرتے ہوئے ماضی ہی کی طرح حسابات کا باریک بینی سے جائزہ (audit) بھی نہیں کیا جاتا۔ تحریک انصاف حکومت ماضی سے مختلف نہیں ہے۔

کوئی بھی حکومت اصلاحات کے ذریعے جو اہداف حاصل کرتی ہے وہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو اُن اصلاحات کی وجہ سے ممکنہ طور نقصان اُور دوسرا ممکنہ طور پر فائدہ اُٹھانے والے ہوتے ہیں۔ اصلاحات کا کھیل مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ سرکاری اہلکار کے مالی مفادات اُن کے فیصلوں سے جڑے ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ذاتی طور پر ’ثمرات‘ حاصل کرنے کے لئے وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جس سے سرکاری مفادات کی بجائے ذاتی طور پر اُنہیں زیادہ فائدہ پہنچے۔

اصلاحات ضروری ہیں اُور یہ اصلاحات اُس وقت تک متعارف اور لاگو نہیں ہوں گے جب تک اِن سے متعلق فیصلہ سازی کرنے کے طریقۂ کار میں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔ کیا ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی ذاتی مفادات کے اسیروں سے ہار مان جائے گی اور سرکاری خریداریوں میں شفافیت‘ سرکاری اداروں کے مالی خسارے میں کمی اُور توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کی صورت قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لئے اصلاحات ترجیحی بنیادوں پر متعارف کروانے میں سستی‘ کاہلی یا حیل و حجت سے کام لیا جائے گا؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, February 2, 2019

Peshawar not treated with care and love!

شبیرحسین امام
گل بہار: سچائی اُور حقیقت!
صوبائی دارالحکومت پشاور کی نسبتاً جدید بستی کہلانے والے ’’گل بہار‘‘ کے طول و عرض میں رہائش پذیر شہریوں کی ایک جیسی مشکلات کے حل کے لئے ہر دور حکومت میں مالی وسائل خرچ کئے گئے لیکن نتیجہ ’ترقئ معکوس‘ کی صورت دیکھا جا سکتا ہے بالخصوص ’عشرت سینما روڈ‘ ایک ایسی ’عمدہ مثال‘ ہے جہاں پہنچ کر 1: رہائشی و تجارتی علاقے کی تمیز ختم دکھائی دیتی ہے۔ 2: نکاسئ آب کا نظام صرف بارشوں کے موسم ہی میں نہیں بلکہ سارا سال خراب رہتاہے۔ یہاں کے رہنے یا گزرنے والوں نے شاید ہی شاہراہ کے قریب ایک کلومیٹر حصے کو کبھی خشک دیکھا ہو۔ کیچڑ‘ گندگی‘ غلاظت اُور پانی نالے نالیوں میں نہیں بلکہ سڑک کے وسطی (درمیانی) حصے کا استعمال کرتے ہیں۔ 3: اہل گل بہار کی اکثریت گندگی و غلاظت سے اُٹھنے والے تعفن اور گردوپیش کے مسائل کی عادی ہو چکی ہے اور اِسے اپنی تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کئے بیٹھی ہے۔ 4: دوہزار تیرہ اور دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں گل بہار سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ ووٹرز کی اکثریت نے ’تحریک انصاف‘ کے نامزد اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کیا۔ اِسی طرح بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف ہی مرکز نگاہ رہی لیکن قانون سازوں اور بلدیاتی نمائندوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں۔ 5: پشاور کی عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) کے واضح احکامات کے باوجود گل بہار کے سبھی حصوں بالخصوص ’عشرت سینما روڈ‘ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں میں نہ صرف تجارتی (کمرشل) سرگرمیاں جاری ہیں بلکہ بناء پارکنگ اور اپنی حد سے متجاوز نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری ہے!

پھولوں کے شہر پشاور کے باغات میں آبادی بڑھنے کے تناسب سے اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ گل و گلزاروں کے وجۂ شہرت رکھنے والا پشاور پہلے ’گل بہار‘ کی حد تک محدود ہوا تو اب ’گل بہار‘ میں بھی ’گل‘ باقی نہیں۔ یہاں کے چند پبلک پارک بااثر افراد نے اپنے ناموں پر منتقل کروا رکھے ہیں۔ باقی ماندہ بھی سکڑ کر صحت مند تفریح کا ذریعہ نہیں رہے اُور تحریک انصاف سے جس انصاف کی بصورت احتساب توقع تھی‘ وہ مصلحت کے باعث تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے! اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ نشتر آباد کے بعد پشاور کی پہلی منظم رہائشی بستی ’گل بہار‘ کا تجربہ بُری طرح ناکام ہو چکا ہے جس کی بنیادی وجہ ایک سے زیادہ شہری ترقی پر نظر رکھنے والے حکومتی اداروں کے اہلکار ہیں‘ جن میں سے کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن یہ سب ’پشاور کی تباہی کے لئے ذمہ دار (قصوروار) ہیں۔ ذاتی مفاد کے لئے پشاور کا سودا کرنے والوں کو شرمندگی تو کیا‘ احساس ندامت اُور احساس جرم تک نہیں۔

پشاور کے مسائل کی کل کہانی یہ ہے کہ یہاں سچائی اُور حقیقت میں فرق ہے۔ سچائی (truth) یہ ہے کہ بلدیاتی حکام (ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن) اُور پشاور ڈویلپمنٹ اَتھارٹی (پی ڈی اے) کے ایک سے زائد شعبہ جات سے پیشگی و تکنیکی اجازت حاصل کئے بغیر نئی تعمیر یا مرمت کا کام پشاور کے کسی بھی حصے میں نہیں ہو سکتا لیکن حقیقت (reality) یہ ہے کہ قوانین و قواعد پر بہرصورت اُور بہرحال یعنی سختی سے عمل درآمد نہیں کروایا جاتا اُور ماضی کی طرح آج بھی رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دی جا رہی ہے۔ جس کے پاس سرکاری اہلکاروں کی مٹھی گرم کے لئے مالی وسائل ہیں‘ اُس کے لئے قواعدوضوابط میں گنجائش نکل آتی ہے۔ تجاوزات کے اِس مستقل پہلو پر ’گہرائی و گیرائی‘ سے غور ہونا چاہئے۔ پشاور سے منتخب ہونے والی سیاسی و بلدیاتی قیادت کو غور کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے ’تجاوز‘ ہونے کے لفظ کو کتنے محدود معنوں میں سمجھا ہے جبکہ تجاوزات میں وہ عمارتیں کیوں نہیں آتیں‘ جنہیں بناء حفاظتی انتظامات اور کاغذات میں ذاتی رہائشی دکھا کر کثیر المنزلہ تجارتی عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بے قاعدگیاں نہ تو راتوں رات ہوئی ہیں اور نہ ہی کسی جادو کی طاقت یا ’خلائی مخلوق‘ کی کارستانی ہے بلکہ پشاور نے جنہیں عزت (شناخت) دی‘ وہی اِس کی تباہی کے ’شریک مجرم‘ ہیں!

سرکاری محکموں میں ایک سے بڑھ کر ایک خوش لباس‘ قیمتی گھڑی پہنے اُور جدید ترین موبائل فون سے لیس‘ اندرون و بیرون ملک سے تعلیمی اسناد حاصل کرنے والا دانشور‘ معزز و نامی گرامی شجرۂ نسب رکھنے کے ساتھ چبا چبا کر انگریزی زبان کے مشکل الفاظ بولنے والا صاحب فراست مل جائے گا‘ لیکن ’’پشاوری‘‘ نہیں ملے گا۔ شہری ترقی یا پشاور میں سہولیات سے متعلق کسی بلدیاتی دفتر میں چلے جائیں‘ میزوں پر تہہ در تہہ فائلوں کے انبار نظر آئیں گے لیکن اِن کرداروں کی کارکردگی گلی کوچوں اور شاہراہوں سے عیاں ہے‘ جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی دنیا نے تعمیرات میں ’انجنیئرنگ‘ کا استعمال نہیں سیکھا۔ سچ تو یہ ہے پشاور کے لئے اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دینے اُور اپنے ’’علم اُور تجربے‘‘ سے استفادہ کرنے والے ’دردمندوں‘ کی تعداد اُنگلیوں پر شمار کرنے جتنی بھی نہیں۔ 

کوہاٹ سے آبائی تعلق رکھنے والے معروف شاعر مرحوم اَحمد فراز (پیدائش: بارہ جنوری اُنیس سو اکتیس۔ وفات: پچیس اگست دوہزار آٹھ) سے ہوئی ایک ملاقات میں اُنہوں نے پشاور کے بارے میں کہا تھا کہ ۔۔۔ ’’پہلے جب یہاں سے کسی دوسرے شہر جانا ہوتا تو دل افسردہ ہو جایا کرتا تھا لیکن حالت یہ ہوگئی ہے کہ اَب تو پشاور داخل ہونے پر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں! ’’کیسا ہے پشاور یہ‘ یہ کیسا پشاور ہے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔