Monday, November 3, 2014

Nov2014: Ashura The day of victory

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عاشور: حسینؓ فاتح مرگ و حیات کہلائے!
قرآن کریم کی سورہ آل عمران‘ اُنیسویں آیت مبارکہ کا پہلا حصہ ’’اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللّہِ الاِسلاَمْ‘‘ کے تحت جس موضوع کو ’’رب جلیل کے پسندیدہ دین‘‘ سے مخاطب کیا‘ اُس عظیم فلسفے (بنی نوع انسان کی خوشحالی و سربلندی) کی تشریح و وضاحت ’واقعۂ کربلا‘ سے ملتی ہے۔

کربلا کے میدان میں نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ (ولادت: 8 جنوری 626عیسوی: شہادت: 10 اکتوبر 680 عیسوی) نے جس اِستقامت کا مظاہرہ کیا اور راہِ حق میں جو عظیم و لاثانی قربانیاں پیش کیں اُنہیں کی بدولت ’دین اسلام کی سربلندی‘ ممکن ہوئی اور اِس دین خالص‘ پسندیدہ دین کو تاقیامت ’جاودانی حیثیت‘ حاصل ہوئی۔

سن اکسٹھ ہجری‘ دس محرم (عاشور) کا دن ’سفینۂ اِسلام‘ جو خشک وگرم ریگزار میں باطل پرست طاغوتی طاقت کے ہاتھوں غرق ہونے کو تھا۔ پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور شیر خدا جناب امیرالمومنین سیّدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بیٹے جناب اِمام حسین رضی اللہ عنہ کا احسان بھلا کون فراموش کر سکتا ہے جنہوں نے اپنی اور اپنے عزیزواقارب سمیت وفادار ساتھیوں کی قربانیاں پیش کر کے اِس ڈوبتے سفینے کو شہدأ کے خون کی لہروں پر ساحلِ مراد سے ہمکنار کیا اور دین اسلام کو ’اَبدی قیام‘ بخشا۔’’حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین‘‘

مؤرخین کی اکثریت کا اتفاق ہے کہ ’کربلا‘ نے اِسلام کو نئی زندگی بخشی‘گویا ’شہادت عظمیٰ‘ نے دین کی اَساس کو نابودی سے بچالیا۔ ماننا پڑے گاکہ ’کربلا‘ تاریخ عالم کے دیگر تمام واقعات سے زیادہ فکر انگیز اور ایک فکری (حئی علی الفلاح) و عملی جدوجہد (حئی علی خیرالعمل) کی ترغیب دینے والی تحریک کا نام ہے کیونکہ اسی معرکہ میں باطل پرستوں کی طرف سے ظلم وجبرکے تمام حربے بروئے کار لاکر حق وصداقت کی آواز پوری شدت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی گئی۔ امن پسند‘ حق پرست‘ انسانیت دوست صاحبان تفکر و حکمت جب تاریخ اسلام کے اِس خونین معرکے کو پرکھتے ہوئے بے اختیار خون کے آنسو رونے لگتے ہیں۔ ’کربلا‘ محسوس کرکے اُن پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ تاریخ اسلام کے سب سے بڑے جابر وظالم حکمران کے مقابل حق وصداقت کا عَلم بلند رکھنے والے قائد نے ہرمرحلے پر صبر وشکر کی راہ اپنائی اور یہی انعام تھا کہ بے مثال قربانیاں پیش کرکے ’سیّدالشہدأ‘ کا لقب منورہ پایا۔ تاقیامت یہ بات حقیقت بن چکی ہے کہ کربلا والے دنیا کے تمام مظلوموں اور راہِ حق میں شہید ہونے والوں کے لئے ایک ’زندہ علامت‘ ہیں‘ جہد حق کا استعارہ ہیں۔ ’’کر دیا ثابت یہ تو نے‘ اَے دلاور آدمی: زندگی کیا موت سے لیتا ہے ٹکر آدمی: کاٹ سکتا ہے رگ گردن سے خنجر آدمی: لشکروں کو روند سکتے ہیں 72آدمی: ضعف ڈھا سکتا ہے قصرِِ افسر و اورنگ کو:آبگینے توڑ سکتے ہیں حصارِ سنگ کو!‘‘

اِمام حسین رضی اللہ عنہ قیامت تک دنیائے انسانیت کے لئے عدل وانصاف کے روشن مینار ہیں‘ جن کی پیروی بلاشک و شبہ صراط مستقیم کی ضامن ہے۔ اِس محسن کی قدرومنزلت سمجھنے کے لئے نگاہ ودل کی پاکیزگی کے ساتھ حق شناس‘ فہم ورسا اور عدل پسند ضمیر کی ضرورت ہے چونکہ ’حسین کے سورج کو زوال نہیں‘ اِس لئے وقت گزرنے کے ساتھ ’عظمت حسین رضی اللہ عنہ‘ شعورکی بیداری کے ساتھ ہرقلب اِنسانی کے لئے کشش کا باعث بنتی چلی جائے گی۔ ’’اِنسان کو بیدار تو ہولینے دو۔۔۔ہرقوم پکارنے گی ہماے ہیں حسینؓ!‘‘

شہادت عظمیٰ کی مقصدیت ومعنویت کو نظر میں رکھتے ہوئے ’یوم عاشور‘ عہد کرنے کی گھڑی ہے۔ ظلم سے بیزاری کا اعلان‘ ظالم کو کیفرکردار تک پہنچانے کے ساتھ اُس کا مکروہ چہرہ‘ سازشیں‘ درپردہ مذموم عزائمکا پردہ چاک کرنے اور حق کی سربلندی کے لئے ہرقسم کی جانی و مالی قربانی دینے پر آمادگی کے ساتھ خود سے سوال پوچھنے کی گھڑی ہے کہ کیا ہم اِمام مظلومؓ کا اسم مبارک لینے یا اُن سے نسبت رکھنے کا حق بھی رکھتے ہیں؟ فلسفۂ کربلا مظلومین کی حمایت‘ دفاع اور اعانت کے لئے ’’جہاد ‘‘ کا پیام ہے۔ حق پر مرمٹنے کا گر جذبہ نہیں۔۔۔رسم دنیا ہے فقط ذکرِ حسینؓ۔

 اگر آج ہم حوصلہ‘ استقامت‘ صبر‘ جرأت اور ثابت قدمی جیسے الفاظ کے معانی سے آشنا ہیں تو یہ سب کربلا میں ’توحیدی لغت‘ اپنے پاکیزہ خون سے تحریر کرنے والوں کی عنایات ہیں‘ جنہوں نے پہلے ہی صفحے پر ’’لا الہ الا اللہ (نہیں کوئی معبود‘ مگر اللہ)‘‘ تحریر کیا ہے۔ اِس کلمۂ ’لا الہ‘ کو قول و فعل سے ہم وزن اور سربلندی عطا کرنے والوں کا تاقیامت ذکر ہوتا رہے گا۔ جب کبھی بھی حقیقی فتح وشکست کی بات ہوگی یا پھر ’جاندار زندگی‘ اُور ’بامقصد موت‘کا فیصلہ کرنا ہوگا‘ تب کسوٹی اور رہنمائی کا معیار صرف کربلا ہی ہوگا۔ ’’شکست موت کو اور موت ظلم کو دے کر۔۔۔حسینؓ فاتح مرگ وحیات کہلائے!‘‘

Sunday, November 2, 2014

Nov2014: Baz o Maidan Persian Noha Tradition.

باز میدان پر خطر مینماید۔۔۔۔۔آہ نینوا‘ نوع دیگر مینماید
پشاور: فارسی نوحہ خوانی کی خاص روایت
شبیر حسین اِمام
جنوب مشرق ایشیاء کے سب سے قدیم زندہ تاریخ شہر پشاور میں شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس عزأ کا انعقاد ایک ایسی روایت سے کیا جاتا ہے جو خطے کے دیگر سبھی ممالک میں ہونے والی عزاداری سے منفرد ہے۔ مجالس عزأ بالخصوص نو اور دس محرم کے روز خنجرزنی کے ماتمی جلوسوں میں جب علم و شبیہہ ذوالجناح امام بارگاہوں سے برآمد ہوتی ہیں تو اُس وقت فارسی کا ایک خاص مرثیہ اجتماعی طور پر پڑھا جاتا ہے‘ جو مشہور شاعر حضرت سیاح اعلی اللہ مقامہ کا تحریر کردہ ہے۔ یہ فارسی نوحہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی بے مثال ہے اور اِس میں جس انداز سے یوم عاشور (دس محرم کے روز) کربلا کے میدان میں پیش آنے والے واقعات بالخصوص شہادت اِمام حسین کی منظرکشی اختصار سے کی گئی ہے‘ وہ دیگر مرثیوں میں بہت کم ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ پشاورکی سبھی امامبارگاہوں سے ذوالجناح کے ماتمی جلوس برآمد ہونے سے قبل اس مرثیے کو بطور خاص پڑھا جاتا ہے۔ پشاور میں عزأداری امام حسین و مظلومین کربلا کی خوبصورت و دلنشین اِس روایت کی پوری دنیا میں دھوم ہے اور اِس مرثیے کو بطور خاص سن کر شہدائے کربلا کے حضور تعزیت اور آنسوؤں کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔

’باز اُو میدان‘ کی زندہ روایت کا خاصہ یہ بھی ہے کہ پشاور میں رہنے والا ہر عزأدار اس فارسی مرثیے کو زبانی ازبر رکھتا ہے‘ اور نو و دس محرم کی مجالس کے اختتام پر اجتماعی طور پر اِسے پڑھ کر عزأداری کرنے والوں کے جذبات تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔ باز اُو میدان کی تاثیر اور اِس کے جملوں میں پائی جانے والی حرارت‘ حسن بیان و تکلم شہادت حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کے زخموں کو پھر سے تازہ کردیتا ہے اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عزأدار اِسے دل کے نہایت ہی قریب محسوس کرتے ہیں۔

درحقیقت ’بازاُو میدان‘ نامی یہ مرثیہ حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی بی بی سکینہؓ کی زبانی میدان کربلا کا منظرنامہ ہے۔ روایات کے مطابق جب دس محرم بوقت عصر حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کو میدان کربلا کے ایک نشیبی حصے میں شہید کیا گیا جبکہ آپؓ کے ہمراہ خواتین کو در خیمہ سے وہ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ جس پر حضرت اِمام حسین کی بہن بی بی زینبؓ نے سکینہ بی بیؓ کو کندھوں پر اُٹھا کر پوچھا کہ بی بی آپ میدان کربلا میں کیا منظر دیکھ رہی ہیں؟ کم سن بی بی سکینہ نے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جو کچھ بیان کیا‘ اُسے شاعر نے کمال مہارت‘ ترتیب اور تفصیلات کے ساتھ رقم کیا ہے۔

باز میدان پر خطر مینماید
آہ نینوا‘ نوع دیگر مینماید
ترجمہ:
میدان پھر خطرات سے بھرا دکھائی دے رہا ہے
آہ‘ نینوا میں نئی آفت دکھائی دے رہی ہے

گشتہ طوفان کشتی ’بابم حسین‘ (علیہ السلام)
آہ موج دریا بیشتر مینماید
ترجمہ:
میرے باپ کی زندگی کی کشتی طوفان میں گھری ہوئی ہے
اَفسوس میدان میں ہرطرف خون کا دریا رواں دکھائی دے رہا ہے

طبل شادی مینوا زند کوفیاں
آہ بابم از دنیا سفر مینماید
ترجمہ:
(کوفیوں کے لشکر میں فتح کی منظر کشی)
کوئی خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے
آہ‘ میرا باپ اِس دنیا سے کوچ کرتا دکھائی دے رہا ہے

میشویم امروز در غربت اسیر
آہ اے خدا بر من اثر مینماید
ترجمہ:
آج ہم عالم غربت کی حالت میں اسیر ہو رہے ہیں
آہ‘ مجھ پر غم و اندوہ کا اثر دکھائی دے رہا ہے

قرص خورشید است و مثل طشت زر
آہ روز ما تاریک و تر مینماید
ترجمہ:
سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ سونے کے تشت کی طرح دکھائی دے رہا ہے
لیکن ہم پر تاریکی کے بادل سیاہ سایہ کئے ہوں ہیں۔

عمحہ جان این سر کہ کاکل برسراست
آہ اکبر والا گوہر مینماید
ترجمہ:
پھوپھی جان یہ نوک نیزہ پر جو نیزے کی زینت بنا ہوا ہے
یہ واللہ‘ مجھے شہزادہ اکبر کا سر دکھائی دے رہا ہے

برسر نیزہ عدواں عمحہ جان
آہ ’بنگر‘راس پدر مینماید
ترجمہ:
پھوپھی جان یہ جو نوک نیزہ پر میں سر دیکھ رہی ہوں
اْف دیکھیں تو یہ میرے بابا (حضرت امام حسین علیہ السلام) کا سر (مبارک) دکھائی دے رہا ہے

ذوالجناح غرقہ در خون آمدہ
آہ از پدر مارا خبر مینماید
ترجمہ:
(حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذوالجناح کی واپسی)
ذوالجناح خون میں آلودہ حالت ہماری (یعنی خیموں) کی طرف آرہا ہے
یہ یقینامیرے باپ کے مرنے (شہادت) کی خبر لاتا دکھائی دے رہا ہے

ذاکری سیاح ؔ محزون پیشہ کن
آہ خدمتش آخر ثمر مینماید
ترجمہ:
سیاح محزون تو ذاکری (ذکر اہلبیت) کو پیشہ بنا
جو آخرت کے لئے ثمر آور دکھائی دے رہا ہے

Nov2014: Wastage of food

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غذا کا ضیاع
ہم اپنے مسائل کے لئے خود بلکہ خود ہی ذمہ دار ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو زراعت اور ماحول جیسے وسائل اور متعلقہ علوم میں مہارت رکھنے والی دنیا غربت و افلاس کی مثالوں سے بھری ہوئی نہ ہوتی۔ ہماری ترجیح ہتھیار ہیں۔ ہمیں ہمارے ہی پیدا کردہ تنازعات نے جھکڑ رکھا ہے اور کچھ ایسی اقوام بھی ہیں جو دنیا بھر میں فسادات کو ہوا دے کر ’کاروبار‘ میں ملوث ہیں‘ تاکہ اُن کے ہتھیارساز اداروں کی بھٹیاں اور چمنیاں ٹھنڈیاں نہ پڑیں تو اگر ہم یہ سب جانتے بھی ہیں اور اپنے اردگرد ہونے والی سازشوں کی بنیادی وجوہات کا ادراک بھی رکھتے ہیں تو کیا امر مانع ہے‘ جس نے ہمارے وسائل کا استحصال اور ہماری آزادی کو محکومیت میں بدل دیا ہے؟

کیا یہ بات لمحہ فکریہ نہیں کہ ترقی یافتہ اور خود کو تہذیب یافتہ کہلانے والے ممالک ہر سال خوراک کی اِس قدر مقدار ضائع کر دیتے ہیں جس سے دو ارب لوگوں کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں؟ یہ بات ایک عالمی جائزے سے سامنے آئی ہے کہ دنیا میں بھوک و افلاس اجناس کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانوں کو انسانوں کا احساس نہیں رہا۔ سیاست حاوی ہے۔ اقوام اپنے ہی مقرر کردہ اہداف کے بارے میں سوچتے ہوئے خودغرضی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ خوراک کے یوں زیاں کو روکنے کے اقوامِ متحدہ کے اداروں کی قیادت میں ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ دنیا بھر کے کم سے کم 80کروڑ لوگوں کا پیٹ بھرا جاسکے۔گوکہ خوراک کے زیاں کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے سرگرم عمل ہیں مگر اِن اداروں کی جانب سے کی جانے والی مساعی بھی اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی روک تھام میں بُری طرح ناکام رہی ہیں۔

دنیا بھر میں جہاں لاکھوں افراد بھوک سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں‘ وہیں کروڑوں لوگ لاکھوں ٹن خوراک ضائع کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے’’خوراک و زراعت‘‘ کے مطابق سالانہ ایک ارب تیس کروڑ ٹن خوراک ضائع ہو رہی ہے جو پوری دنیا میں پائی جانے والی خوراک کے تناسب سے تیس فیصد بنتی ہے۔ خوراک کا یہ زیاں روکنے کے لئے سرگرم ادارے کی جانب سے حال ہی میں ’آن لائن گیٹ وے‘ قائم کیا گیا جس میں کرہ ارض کے انسانوں کو خوراک کے ضیاع کے روک تھام کے مختلف طریقوں سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس ’گیٹ وے کے قیام‘ کا مقصد لوگوں میں خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے اجتماعی و انفرادی شعور میں اضافہ ہے جس کے لئے آگہی فراہم کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی۔ البتہ یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہو گی اس کا جواب وقت ہی دے گا۔

سوات سے تعلق رکھنے والے ماہرزراعت فضل مولا زاہد ’غذائی خودکفالت‘ اور خوراک کے ضائع ہونے کو روکنے کے لئے ایک عرصے تک فعال رہے لیکن بعدازاں آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ تحلیل کر دیئے جانے کے صدمے نے شاید اُنہیں خاموش کر دیا ہے لیکن ایک وقت میں وہ ہوٹلوں میں جا جا کر بچی ہوئی روٹیوں کو گنتے اور وہاں موجود افراد کو تلقین کرتے کہ وہ ایک ایک نوالے کی اہمیت کا احساس کریں۔ یہی کام بڑے پیمانے پر اقوام متحدہ نے کرنے کا آغاز کیا ہے‘ کاش ہم اپنے دانشوروں اور ماہرین کی قدر اور اُن کی اہمیت کو سمجھتے اور عالمی سطح پر انہیں متعارف کراتے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ صرف ترقی یافتہ ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بھی خوراک ضائع نہ کرنے کے حوالے سے عمومی سطح پر شعور کی کمی ہے۔ عام آدمی کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کچن میں کتنی خوراک ہرروز ضائع کر رہا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں نہ تو ذرائع ابلاغ عوام کی رہنمائی کرتے ہیں اور نہ ہی سکول‘ مکتب یا مسجد و منبر سے نصیحت واعظ یا تلقین کی جاتی ہے۔ حکومت نے تو گویا اِس بات کو اپنی ترجیحات ہی سے الگ کر دیا ہے کہ وہ سماج کی بہتری پر توجہ کرے۔ لے دے کر یہی کام رہ گیا ہے کہ اربوں روپے کے تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں سوچا جائے‘ جن پر نام کی تختیاں سجانے کے ساتھ دیگر مالی و سیاسی مفادات بھی جڑے ہوتے ہیں۔

خوراک کے ہر ایک دانے کا استعمال کس طرح کیا جائے‘ اس بارے میں شعور اور آگاہی وہ پہلا قدم ہے جہاں سے خوراک بچانے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ تحفظ خوراک کی آگاہی کے لئے قائم کردہ اقوام متحدہ کے گیٹ وے پر جیسے جیسے خوراک کو بچانے کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گا‘ اُمید ہے کہ اسی مناسبت سے اس کا فائدہ بھی بڑھتا جائے اور خوراک کا ضیاع کم ہونے میں مدد ملے۔ عجب ہے کہ مہذب دنیا پھلوں اور اناج کا چالیس فیصد‘ سبزی کا بیس فیصد اور پکانے کے تیل و مچھلی وغیرہ کا پینتیس فیصد حصہ ضائع کر رہی ہے! یاد رہے کہ عالمی آبادی سات ارب سے زیادہ ہوچکی ہے اور اگر آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو اندازہ ہے کہ سال بیس سو پچاس تک دنیا کی کل آبادی نو ارب تک پہنچ جائے گی۔ تب حکومتوں کے لئے خوراک کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہو گا جبکہ اس وقت بھی دنیا بھر میں پچاسی کروڑ انسان کو بھوک اور موت کا جبکہ اندازاً دو ارب انسان کم خوراکی کا شکار ہیں۔

 پاکستان کی سطح پر خوراک کے ضائع ہونے کو روکنے اور غذائی خودکفالت بالخصوص خوردنی تیل کی فصلات پر توجہ دینے میں ہمیں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ وہ سبھی زرعی ماہرین جو گوشہ نشینی اختیار کر چکے ہیں‘ یہ منزل اور لمحۂ فکر اُن کے تجربات اور خدمات سے بھرپور استفادہ کرنے کا ہے۔ ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن: خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک (اسد اللہ خان غالبؔ )

Saturday, November 1, 2014

Nov2014: Pak Iran Relations & stumbling block

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
داخلی و خارجی خطرات
حالیہ دنوں میں پاک ایران سرحد پر فائرنگ کے واقعات کے باعث تعلقات میں کشیدگی دیکھی جا رہی تھی لیکن اسلام آباد میں ہوئی پاک ایران اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے بعد توقع ہے کہ دوطرفہ دوستانہ روابط کو فروغ حاصل ہوگا۔ پاکستان کے دورے پر آئے نائب ایرانی وزیرخارجہ ابراہیم رحیم پور کی پاکستانی مشیر خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے ملاقات اور دو طرفہ سیاسی مشاورت کے آٹھویں دور میں شرکت کسی بھی لحاظ سے معمولی نہیں۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’’پاکستان اور ایران نے روابط اور تعاون کے فروغ کے ذریعے اپنی سرحدوں پر امن برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اکتوبر کے اوائل میں ایران نے کہا تھا کہ سرحد پار سے مشتبہ عسکریت پسندوں نے فائرنگ کرکے اس کے دو سرحدی محافظوں کو ہلاک کر دیا اور ایرانی عہدیداروں نے اسلام آباد پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین تہران کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لئے مؤثر اقدامات کرے۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتا اور یہ واقعہ ایرانی علاقے میں ہی پیش آیا۔ بعد ازاں پاکستانی حکام نے بتایا تھا کہ بلوچستان میں ایرانی سرحدی محافظوں نے پاکستانی علاقے میں گھس کر فائرنگ کی اور اس میں دو پاکستانی سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ ان واقعات پر تلخ بیانات کے تبادلے کے باوجود دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیدار یہ کہہ چکے تھے کہ اس سے دوطرفہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ اسلام آباد میں ہونے والے مشاورتی اجلاس میں سیاسی وفود کے تبادلوں‘ اقتصادی و تجارتی تعاون‘ سرحد پر سکیورٹی میں تعاون سمیت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے اور توانائی کے شعبے میں تعاون پر بھی بات چیت کی گئی لیکن برسرزمین حقائق یہ کہہ رہے ہیں کہ جمہوری اسلامی ایران سے حالیہ سرحدی جھڑپیں خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہے‘ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ بھارت اور افغانستان سے جڑی مشرقی و مغربی سرحدوں پر پہلے ہی حالات کشیدہ ہیں جہاں فائرنگ کے تبادلے کے علاؤہ سرحد پار سے عسکریت پسند آپریشن ’ضرب عضب‘ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دفاعی امور پر نظر رکھنے والوں کے مطابق بھارت سے جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں مگر ایران کے ساتھ ایسا ہونا معمول کے ناخوشگوار سفارتی بیانات سے ذرا ہٹ کر ہے‘ اس کی وجہ سے اس حقیقت پر توجہ مرکوز نہیں ہوپارہی کہ پاک ایران تعلقات میں مسلسل بگاڑ آرہا ہے اور یہ سلسلہ آنے والے مہینوں میں بھی برقرار رہ سکتا ہے۔

رواں برس پاک ایران باہمی تعلقات میں متعدد رکاوٹیں آئیں جن میں انتہائی ضروری پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی معطلی بھی شامل ہے۔ پشاور میں ایرانی قونصل خانے کے باہر خودکش حملہ جبکہ فروری میں پانچ ایرانی فوجیوں کو مبینہ طور پر پاکستانی عسکریت پسندوں نے اغوأ کرلیا۔ یہ سب حالات وزیراعظم نواز شریف کی قیادت کے دور میں سامنے آرہے ہیں‘ نواز لیگ کے قائد سعودی عربکے قریب ہیں‘ جس کا اظہار رواں برس شام میں اسد حکومت کے خلاف مؤقف اورسعودی عرب سے مارچ میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد ملنا‘ تہران کی نظر میں پاکستان کے کردار کو مشکوک کر رہا ہے۔ رواں برس کے اوائل میں ایسا نظر آتا تھا کہ پاکستان اور ایران شام میں مخالف فریقوں کی پشت پناہی کا خطرہ مول لے رہے ہیں‘ تاہم ریاست اسلامیہ (داعش) کی صورت تحریک کی فعالیت کے بعد جو ایران اور سعودی عرب دونوں کے لئے مشترکہ خطرہ ہے‘ خطے کے روایتی تناظر میں تبدیلی آئی ہے مگر وزیراعظم کی ذاتی ترجیحات پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے‘ خاص طور پر ایک ایسے نازک وقت پر جبکہتہران سے سفارتی تنازع کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں بہتر نہیں۔

ایران اس وقت پھر سے ابھر رہا ہے اور وہ دوبارہ خطے کا ’ہیوی ویٹ ملک‘ بننا چاہتا ہے‘ وہ خود کو ایسی طاقت تسلیم کراچکا ہے جو شام کے صدر بشارالاسد حکومت کو مؤثر معاونت فراہم کر رہا ہے۔ جوہری تنازعے پر عالمی طاقتوں سے جاری مذاکرات سے بتدریج اقتصادی پابندیوں میں کمی اور مغربی طاقتوں سے ایران کے سفارتی روابط میں اضافہ جبکہ آنے والے دنوں میں عراق میں ریاست اسلامیہ کے سراٹھانے کے بعد ایران کا مغرب سے تکنیکی اتحاد مستقبل میں اس کے لئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے جس سے اُسے خطے میں زیادہ اہم کردار ملے گا۔

ایران کی جانب سے طاقت بڑھانے کا عمل ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے‘ جب اسلام آباد اور تہران کی جانب سے افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران ایران نے اپنا اثررسوخ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات سے آگے بڑھایا اور اب اس کے افغان سرزمین پر اہم تجارتی و سرمایہ کارانہ مفادات موجود ہیں‘ اس کے علاؤہ وہ افغان ذرائع ابلاغ کے اداروں پر بھی اپنا قوئ اثررسوخ رکھتاہے اور اس کے روابط افغانستان کی نئی قومی متحدہ حکومت کے اعلیٰ سطح تک ہیں۔ اس وقت جب افغان سیاست میں نسلی صفوں کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مخالف سیاسی کیمپوں کے درمیان خانہ جنگی دوبارہ سر اٹھارہی ہے‘ پاکستان اور ایران ممکنہ طور پر خود کو مخالف کیمپس میں کھڑے پاسکتے ہیں۔ تہران کی جانب سے افغان ہزارہ کی حمایت کی جارہی ہے جبکہ اسلام آباد جنوبی اور مشرقی صوبوں میں طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ اس تناظر میں پاک ایران تعلقات میں بگاڑ(روایتی مخالفت اور خطے کا ابھرتا منظر) ممکنہ طور پر افغانستان میں عدم استحکام کا سبب بنے گا۔ اس کے علاؤہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی اندرونی چیلنجز کا اظہار ہے۔ ایران نے بلوچستان سے عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملوں کا الزام عائد کیا اور بلوچستان کی خوفناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ مبالغہ انگیز بھی نہیں لگتا۔ فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپس پوری آزادی کے ساتھ بلوچستان میں سرگرم ہیں اور ہزارہ و دیگر گروہوں کو ظالمانہ طریقے سے قتل کررہے ہیں اور یہ خیال تصوراتی نہیں کہ ایرانی عسکریت پسند بھی بلوچستان میں ٹھکانے بنانے کے خواہشمند ہوں۔

فرقہ وارانہ تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے‘ اس وقت جب مشرق وسطیٰ تنازعات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہورہا ہے‘ پاکستان کو اس تنازع سے باہر رہنے کی ہرممکن کوشش کرنا چاہئے۔ پاکستان‘ ایران کے بعد شیعوں کی آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے‘ پاک سرزمین پر فرقہ وارانہ تشدد ملکی وجود کے لئے یقیناًخطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایران سے مضبوط باہمی تعلق اور داخلی محاذ پر فرقہ ورایت کو شکست دینا ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے۔