Monday, August 18, 2014

Aug2014: Lesson in History

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہماری تاریخ اور مستقبل؟
امریکہ میں شائع ہونے والی انگریزی زبان میں کتاب ’’مسلم زائن: پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ (موضوع: تاریخ)‘‘ مصنف فیصل دیوجی پبلشر ہارورڈ یونیورسٹی پریس‘ صفحات 278 لائق مطالعہ ہے جو پہلے باب ہی سے تاریخ پاکستان کے بارے میں آپ کے بہت سے اُن روائتی اور نصابی تصورات کو تبدیل کرکے رکھ دے گی‘ جنہیں یاد کرنے میں میری طرح آپ نے بھی بہت سے رٹے لگائے ہوں گے۔ ہمیں پڑھایا جاتا ہے کے محمد بن قاسم پہلے پاکستانی تھے اور راجہ داہر کے خلاف ان کی جنگ وہ پہلا ٹکراؤ تھی جس نے آگے چل کر دو قومی نظریے کی بنیاد ڈالی۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے بارے میں اصل حقائق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان کو سندھ آنے پر مجبور کرنے والے مالی فوائد اور علاقائی سیاسی مفادات کے بجائے بتایا یہ جاتا ہے کہ وہ یہاں اسلام پھیلانے آئے تھے۔

سات سو بارہ عیسوی اور 1947 عیسوی کے اِن واقعات کو آپس میں ملانے کی یہ کوشش پاکستان کے رکھوالوں اور نظریہ پاکستان کی ترویج کرنے والوں کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کوشش سے موجودہ پاکستان اور مذہب کے درمیان ایک تاریخی کنکشن بنایا جاتا ہے‘ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کے برصغیر میں ہندو ازم اور اسلام کے درمیان ہمیشہ سے ٹکراؤ رہا اور یہ تصادم ہمیشہ برقرار رہے گا لیکن سچائی یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی کہانی اور پاکستان کے موجودہ قوم پرستی میں کافی تضادات پائے جاتے ہیں۔ یورپ سے حاصل کئے ہوئے نیشنلزم اور نیشن اسٹیٹ کے ماڈل اس بات پر زور دیتے ہیں کے زبان‘ برادری اور علاقائی ربط ضروری ہیں۔پاکستانی نیشنل ازم میں بھی یہ سب چیزیں موجود ہیں لیکن محمد بن قاسم ایک عرب حملہ آور کا یہاں رہنے والے لوگوں اور اس علاقے‘ جو آگے چل کر پاکستان بننے والا تھا سے ایسا کسی قسم کا کوئی ربط نہیں تھا۔ پاکستانی نیشنل ازم کا انوکھا پن 1967ء میں وجود میں آنے والے ملک کے جغرافیائی مطالعے سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے‘ جہاں ایک طرف ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور مشرقی اور مغربی حصے وجود میں آئے‘ تو وہیں (سابق) مشرقی پاکستان ہندوستان سرحد کے ساتھ سینکڑوں گھرے ہوئے علاقوں کی موجودگی بھی اس علاقائی اتحاد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے‘ جو کسی قوم کے ریاست بننے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ آخر میں یہ نظریہ کے برصغیر میں رہنے والے تمام مسلمان ایک جیسے مذہبی عقائد کی وجہ سے متحد ہیں اور یہ کہ پاکستان برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا‘ تب مشکل میں نظر آتا ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اب بھی بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔پاکستان میں جاری مختلف نسلی و قوم پرست تحریکیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھی اس نظریئے کو کمزور کرتی ہے کہ اسلام ملک کے تمام لوگوں کو متحد رکھ سکتا ہے۔

’’مسلم زائن: پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ‘‘ میں مصنف فیصل دیوجی پاکستان کی تخلیق کے بارے میں ایک ایسا فریم ورک پیش کرتے ہیں‘ جس کے ذریعے اوپر بیان کئے گئے مختلف تضادات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ دیوجی کے نزدیک پاکستان صیہونیت کی ایک مثال ہے‘ جس کے مطابق قومی شناخت مذہب کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ دیوجی کے اس استدلال کے مطابق پاکستان اسرائیل سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ دونوں قومیں برطانوی راج کے تنزلی کے دور میں تخلیق ہوئیں۔ دونوں نے ہی تشدد کے شکار اقلیتوں کے لئے پناہ گاہ ہونے کا دعویٰ کیا اور دونوں کے وجود میں آتے ہی وسیع پیمانے پر ایسے لوگوں نے ان نئے ملکوں کو اپنا مسکن بنایا‘ جو پہلے کبھی یہاں کے رہنے والے نہیں تھے۔ اگر اس طرح دیکھا جائے‘ تو پاکستان اور اسرائیل دونوں میں نیشنل ازم کی بنیاد زبان اور نسل کے بجائے مذہب کو قرار دیا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ مذہبی عقائد ایک کمیونٹی کو متحد رکھنے کے لئے کافی ہیں جبکہ علاقے‘ زبان اور قومیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ تمام یہودیوں کو اسرائیل میں خوش آمدید کہا جاتا ہے‘ بھلے ہی وہ پہلے کہیں کے بھی رہنے والے ہوں!1947ء میں برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں پاکستان کی بھی یہی پالیسی تھی جیسا کہ بینیڈکٹ اینڈرسن کا کہنا ہے ’’تمام قومیں تصوراتی برادریاں ہیں‘ جن میں شناخت اور اتحاد کی بنیاد ایک ثقافت‘ زبان اور علاقے کو بنایا جاتا ہے۔‘‘ اسی بناء پر اسرائیل اور پاکستان کو بھی قوم تصور کیا گیا‘ جن میں مذہبی کمیونٹیز کو من مانی جگہیں فراہم کرکے قومی شناخت دینے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان اور اسرائیل کا اِس طرح موازنہ کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ دیوجی اپنی کتاب کی شروعات میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق جیسی شخصیت نے بھی 1981ء میں دونوں ممالک (پاکستان اور اسرائیل) کے درمیان اِن مماثلتوں کو نوٹ کیا تھا۔

گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسرائیل کی تخلیق اور اس کے پیچھے موجود محرکات پاکستان کی تخلیق سے کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ سب سے بڑا فرق یہ کے صیہونیوں کے نزدیک اسرائیل کی سرزمین ایک روحانی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے‘ جس سے دیوجی کے اس اصرار کی تردید ہوتی ہے کہ صیہونی نیشنل ازم بنیادی طور پر زمینی و علاقائی نوعیت نہیں رکھتا۔ بہرحال کتاب ’مسلم زائن‘ اسرائیل کے بجائے پاکستان کے بارے میں لکھی گئی ہے اور دیوجی کا دونوں ممالک کا موازنہ کرنا ان بہت سارے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے جن سے اگے چل کر نظریہ پاکستان کو ایک ساخت فراہم کی گئی۔

’مسلم زائن‘ تاریخ کی کتاب بھی نہیں حالانکہ دیوجی نے ماضی کے بارے میں بڑی تفصیل سے اور موجودہ پاکستان پر کم کم ہی لکھا ہے لیکن پھر بھی یہ کتاب تاریخ ایسے بیان کرتی ہے‘ جس میں اصل سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی حالات و واقعات کے بجائے نظریہ پاکستان کی تخلیق و ترویج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔’مسلم زائن‘ پڑھنے کے بعد دیوجی کی اس دلیل کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں اور مستقبل کی تعمیر کے لئے علاقائی حدبندیوں سے آزاد ایک مسلم قومیت کے تصور کو پروان چڑھایا گیا‘ سے علمی اختلاف کرنا مشکل ہے اگرچہ ہماری ریاست کی جانب سے بارہا کوششیں کی گئیں‘ پر اِن مقاصد کے حصول میں ناکامی رہی ہے۔ ان مقاصد کے حصول میں ناکامی نظریہ پاکستان کی کمزوری کو ثابت کرتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بہت موزوں ہے‘ جو پاکستان کے نظریاتی وجود کے ’’باریک نکات‘‘ کو ’’گہرائی‘‘ سے سمجھنا چاہتے ہیں۔

Saturday, August 16, 2014

Aug2014: Tragedies count

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
موسلادھار آفات
پندرہ اگست کی شام جب پوری قوم کے جذبات و احساسات پر ’جنون‘ سوار تھا۔ اچھے دنوں کے خواب آنکھوں میں بسائے بستروں پر دراز ہونے سے قبل یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ طوفان بادوباراں سے پشاور کے نواحی علاقے میں ایک قیامت صغری برپا ہے جہاں سولہ قیمتی جانیں ضائع جبکہ اسی سبب دیگر واقعات میں 80 افراد ہلاک ہوئے۔ محکمہ موسمیات پشاور مرکز کے ڈائریکٹر مشتاق علی شاہ کے مطابق ’’شام چار بجے سے پانچ بجکر تیس منٹ (کم و بیش ایک گھنٹہ تیس منٹ) کی بارش غیرمتوقع تھی جس میں مجموعی طورپر 42 ملی میٹر پانی برسا۔‘‘ پشاور کی وادی میں اگرچہ اس سے کہیں زیادہ ملی میٹر بارش کے ریکارڈ موجود ہیں لیکن محض 90منٹ کی بارش نے اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی تو اِس پر توجہ دینے اور وجوہات پر نظر کرنے کی ضرورت ہے۔

پندرہ اگست کی شام پشاور کے مختلف علاقوں درخت جڑوں سے اکھڑ گئے۔ ٹریفک کی روانی گھنٹوں بحال نہ ہوسکی اور طویل بجلی کا تعطل الگ سے پریشانی کاباعث بنا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں معمولی زخمیوں کا لانے کا سلسلہ بھی دیر رات تک جاری رہا۔ اِس صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے پشاور کے تین بنیادی مسائل کو سمجھیں جو ماہرین موسمیات اور ماہرین ماحولیات کے بقول ’’درحقیقت تغیرپذیر موسم کے محرکات ہیں اور اِنہیں نظرانداز کیاگیا‘ تو آنے والے دنوں میں (خدانخواستہ) اس کے زیادہ خطرناک (جانی و مالی نقصانات کی صورت) نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔‘‘ سب سے پہلی بات اندرون پشاور کے بوسیدہ مکانات ہیں‘ جن کی طبعی عمریں پوری ہو چکی ہے اور اِن گھروں کے رہنے والے مجبوری کے عالم میں رہائش پذیر ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ایسے تمام بوسیدہ گھروں کو مسمار کرنے کے قواعد تو موجود ہیں لیکن حکومت کی جانب سے بوسیدہ مکانات کی بحالی اور انہیں قابل استعمال حالت میں ڈھالنے کے لئے امداد دینے کا قانون موجود نہیں۔ کشادہ سڑکیں اور چوراہوں پر نمائشی محرابیں‘ فوراے اور رنگ برنگی ڈیجیٹل ناچتی روشنیاں نصب کرنے پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں کو ’کچے اور بوسیدہ مکانات میں قید‘ زندگیوں کی اہمیت کا اگراحساس ہوتا تو یہ سطور لکھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی۔ دوسری اہم بات پشاور شہر سے باغات‘ سبزہ زاروں اور گرین بیلٹس کا خاتمہ ہے۔ پھولوں کے شہر میں باغات کی بے قدری اور انہیں کمرشل سرگرمیوں کے لئے دینے کی غلطی کرنے والوں کو کوسنے کی بجائے اصلاح کے طور پر پشاور کو اُس کے باغات واپس دلائے جا سکتے ہیں۔ باغات میں ہر قسم کی پختہ تعمیرات (بطور تجاوزات) ختم کی جانی چاہئے تاکہ زیرزمین پانی کا ذخیرہ جو کہ تیزی سے کم ہورہا ہے اور کئی ایک علاقوں میں زیرزمین واٹر ٹیبل (water table) میں کمی پر تشویش کا اظہار عملی اقدامات میں نظر آنا چاہئے۔ مسئلہ یہ رہا ہے کہ ارباب اختیار اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں اور اعلیٰ تعلیم یا پیشہ ورانہ تربیت کے بہانے یورپ و امریکہ میں زیادہ وقت بسر کرتے ہیں‘ وہیں اُنہوں نے سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے اور دہری شہریت کی وجہ سے اُنہیں اپنا اور اپنے بچوں کا روشن مستقبل وہیں دکھائی دیتا ہے۔

 مسئلہ میرا اور آپ کا یعنی ’ہم عوام‘ کا ہے‘جن کی اکثریت نے اِسی مٹی کے خمیر سے اُٹھ کر اِسی میں دفن ہونا ہے تو درخواست ہے کہ ایسے قواعد و ضوابط تشکیل دیئے جائیں جن سے ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کی اشکال کا علاج کیا جا سکے۔ موسم میں تبدیلی کاتیسرا محرک توانائی کا غیرضروری‘ غیرمحتاط اور انتہائی غیرذمہ دارانہ استعمال بھی ہے۔ اگر چولہا جل رہا ہے تو اِس کی پرواہ نہیں کی جاتی اور پانی بہہ رہا ہے تو اِسے روکنے پر لائق نہیں دی جاتی۔ غیرضروری روشنیاں حسب ضرورت نہیں بلکہ فخریہ طور پر جلانا‘ شان وشوکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا رہن سہن ماحول دوست نہیں۔ ہماری سوچ ماحول دوست نہیں اور اپنے قول‘ نصابی علم یا ذرائع ابلاغ سے تلقین یا ترغیب نہیں ملتی کہ کرہ ارض پر رہنے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔

قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ جرمن حکومت پاکستان میں توانائی کے پیداواری نہیں بلکہ اُنہیں بچانے کے منصوبوں کی تکنیکی و مالی معاونت کر رہی ہے اور اِس سلسلے میں چھوٹی بڑی صنعتوں حتی کہ یونین کونسل کی سطح پر انتظامی اہلکاروں کی تربیت اور اُنہیں ماحول دوست اقدامات کرنے پر راغب کیا جاتا ہے۔ سالہا سال سے جاری اِن کوششوں کے خاطرخواہ نتائج اُس وقت تک ظاہر نہیں ہوں گے‘ جب تک ہم اپنے ماحول کے خود محافظ بنتے ہوئے اِسے اپنی ضرورت نہیں سمجھیں گے‘ جب تک گردوپیش کا ادراک نہیں کریں گے موسلادھار آفات کا نزول یونہی ہوتا رہے گا۔ نشیبی علاقے زیرآب آتے رہیں گے اور ہم اپنے ہی شہر میں ڈوب یا دب کر مرتے رہیں گے!’’تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے:دُھواں دُھواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی۔۔۔ہر ایک سمت سے چیخیں سنائی دیتی ہیں:صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی۔ (افتخار عارف)‘‘

Thursday, August 14, 2014

Aug2014: Iraq & International standards

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آتش فشانیاں
امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ’’شمالی عراق کے پہاڑ میں پناہ لئے افراد کی تعداد اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد ’’زیادہ امکان ہے‘‘ کہ ان لوگوں کو وہاں سے نکالا جائے۔ داعش نامی تنظیم کے خلاف امریکہ کی فضائی کارروائیوں اور جبل سنجار میں صورتحال بہتر کرنے کے لئے امدادی سامان کی فراہمی سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا! ’’وہاں نا صرف کچھ ہی افراد ہیں بلکہ وہ قدرے بہتر حالت میں ہیں اور خوراک و پانی کی فراہمی سے متعلق ہماری کوششوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ وہ داعش کے خلاف ہونے والی فضائی کارروائیوں سے بھی محفوظ بیٹھے ہیں تو یہ اچھی خبر ہے۔ عراقی کرد اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے عسکریت پسندوں کے حملوں سے پہلے ہی شام کی سرحد کے قریب سنجار کی پہاڑی میں پناہ کے رکھی تھی۔ امریکی صدر کے فوجی مشیر ہیگل کا کہنا ہے کہ ’’مثبت جائزہ رپورٹ آنے کے باوجود امریکہ کی عراق میں کوششیں ’’مکمل نہیں‘‘ ہوئیں۔ صدر باراک اوباما نے عراق میں لڑائی کے لئے دوبارہ فوج بھیجنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔عراقی وزیراعظم نوری المالکی اپنے عہدے سے ہٹنے کے لئے بین الاقوامی دباؤ کی مزاحمت کررہے ہیں۔ المالکی کے بقول وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے جب تک عدالت صدر فواد معصوم کی طرف سے وزیراعظم نامزد کرنے پر فیصلہ نہیں سناتی۔

اس تناؤ بھرے سیاسی ماحول اور قتل و غارت گری کا ماحول شمال عراق میں داعش کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کاروائیوں کے پیش نظر ملکوں اور بین الاقوامی اداروں نے اعلان کیا ہے وہ تکفیری گروہ سے مقابلہ اور جنگ زدہ لوگوں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے دس جون دوہزار چودہ کو عراق شمالی علاقے پر حملہ کرکے بعض شہروں پر قبضہ کرلیا ہے۔ داعش عراق میں خاص طورپر عیسائی اور ایزدی مذہبی اقلیتوں کے خلاف بہت زیادہ جرائم کا مرتکب ہوا ہے جس کے نیتیجے میں عراقیوں کی ایک بڑی تعداد اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر علاقوں میں نقل مکانی کر چکی ہے۔ اس بارے میں یورپی کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ عراق میں مذہبی اقلیت کے ایزدی پناہ گزینوں کی امداد کے ساتھ پچاس لاکھ یورو کی مزید مدد کرے گا‘کیونکہ اس وقت عراق شدید بحران سے دوچار ہے۔ یورپی کمیشن یہ رقم پناہ گزینوں اور بے گھر ہونے والے عراقیوں کے لئے حکومت عراق کے حوالے کرے گا اس رپورٹ کے مطابق عراق کے لئے یورپی کمیشن کی اس امداد کے ساتھ دوہزار چودہ میں یورپ کی طرف سے عراق کو دی جانے والی مدد کی رقم ایک کروڑ ستر لاکھ یورو ہوجائے گی ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق شمال عراق میں برطانوی جنگی طیاروں نے آپریشن کے مقصد سے برطانیہ کو ترک کردیا ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق برطانیہ کے ٹورناڈو نامی تین جنگی طیاروں نے شمال عراق میں انسان دوستانہ مدد پہنچائی۔ اس بات کا امکان ہے کہ شمال عراق کے فوجی آپریشن میں برطانیہ کے چھ سے آٹھ تک ٹورناڈو جنگی طیارے حصہ لیں گے۔ برطانوی اعلی حکام نے عراق بحران سے متعلق کبری کے نام سے اپنی دوسری ہنگامی نشست میں شمال عراق میں کرد فوجیوں کو مسلح کرنے اور ٹورناڈو جنگی طیاروں کے بھیجنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

جمہوریہ چیک کے وزیر خارجہ نے بھی عراق کے کرد فوجیوں کو مسلح کرنے کے منصوبے کی خبر دی ہے۔ جمہوریہ جیک کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ یہ امداد عراق اورجمہوریہ چیک کے مابین دوجانبہ مدد کے سمجھوتے کے تحت ارسال کی جائے گی۔ جرمنی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بھی عراق کو داعش کے خلاف مدد کے طورپر بکتر بند گاڑیاں بھیجنے کے لئے تیار ہے۔ اس بارے میں جرمن وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ان کا ملک عراق کے لئے انسان دوستانہ مدد بھیجنے کے علاؤہ عراقی فوجیوں کے لئے جنگی ساز وسامان بھی بھیج سکتاہے۔ جرمن وزیر دفاع نے برلن میں اپنے ہم منصب برطانوی وزیر دفاع مائیکل فالون سے ملاقات میں جنگی علاقوں میں ہتھیار نہ بھیجنے کے حکومت برلن کے مؤقف کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اگر عراق میں نسل کشی کا واقعہ پیش آتاہے تو اس بارے میں بحث کی جائے گی۔ قابل ذکر ہے کہ جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے دفاع نے عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف امریکہ کے حملے کی حمایت کی۔ امریکی وزیر جنگ چک ہیگل نے عراق میں ایک سو تیس امریکی فوجیوں کے بھیجے جانے کی خبر دی ہے اطلاعات کے مطابق امریکہ کے یہ فوجی آج کردستان کے مرکزی شہر اربیل پہنچ گئے ہیں۔

عراق کی سنگین صورتحال کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر نے عراق میں درپیش مشکل صورت حال کا ذمہ دار عراقی سیاسی رہنماؤں کی ناکامی کو قرار دیا ہے حالانکہ عراق میں جو کچھ بھی کیا دھرا ہے‘ اس کے لئے صرف اور صرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کا جنگی جنون ہے‘ جو تیل جیسی دولت سے مالا مال اِس پورے خطے کے وسائل پر لالچی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے والوں کے ہاتھ راکھ کے سوا کیا کچھ آئے گا‘ اس بارے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں البتہ اِس راکھ میں اُن کے اپنے مفادات اور اثاثے بھی خاکستر ہو سکتے ہیں۔ عراق کی آتش فشاں صورتحال اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں خطے میں ہونے والی اُن تبدیلیوں کی ایک جھلک ہے جس کے تسلسل اور کہانی کو مکمل کرنے کے لئے پاکستان میں بھی ’آزادی‘ اور ’انقلاب مارچ‘ کے نام سے منظم احتجاج کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

Aug2014: Independance Day, review of governance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِحساس کریں احساس
سب مسافر ہیں‘ جن کی قسمت میں سفر کرنا ہی لکھا ہے۔ ایک ہی منزل کے لئے سفر در سفر۔ ’’ایک اُور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو: میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا!‘‘ کاش ہم دیکھ ہی سکتے۔ ستاسٹھ برس کے سفر میں تھکاوٹ کا احساس اور سودوزیاں کے بارے میں سوچتے ہوئے نظریں جمہوریت کے اُن علم برداروں پر آن ٹکی ہیں‘ جو تبدیلی‘ انقلاب اور قوم کو آزادی دلانے کے لئے اپنے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال پورے دھرلے سے کر رہے ہیں اور کوئی دلیل‘ جواز یا مائی کا لال انہیں روک نہیں سکا۔ آخر یہ ’حقوق‘ کس چڑیا کا نام ہے؟ کیا یہ صرف انہی لوگوں کے لئے مخصوص ہیں جو اپنے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات منوانے کا ہنر جانتے ہیں؟ ہمارا نظام جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے اصولوں پر کچھ اِس طرح استوار کیا گیا ہے کہ ہزاروں افراد لاکھوں جبکہ لاکھوں افراد کروڑوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اِس لمحہ فکر پر چند لمحے رک کر ہمارے انتخابی نظام پر نظر کیجئے۔ کسی بھی قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقے میں کامیاب قرار دیئے جانے والے اُمیدوار کے مقابلے مدمقابل اُمیدواروں کے مجموعی ووٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر انتخابی عمل سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کی بڑی تعداد اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتی اور منتخب ہونے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اُنہیں اقلیت کی حمایت حاصل ہے ناکہ اکثریت کی۔ یہ کیسے جائز اور جمہوری ہو گیا کہ کسی حلقے کے اقلیتی عوام کی رائے سبھی پر مسلط کر دی جائے؟ (صرف انتخابی ہی نہیں بلکہ انتظامی نظام بھی اصلاحات چاہتا ہے!)

جس ملک میں حکمراں طبقے کے حقوق کی ادائیگی ہوتی ہو وہاں ’ہم عوام‘ یعنی مجھ اور آپ جیسے لاچار لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کون کرے گا؟ تنخواہ سے زیادہ بجلی کا ماہانہ بل کہاں سے ادا ہو گا؟ بچے کی سکول فیس میں سو فیصداضافہ کرنے کا جواز کون پوچھے گا؟ گوشت سے سبزی اور اب سبزی خریدنے کی سکت بھی نہ پانے والے کیا کھائیں گے؟ بیروزگار کنبوں کی کفالت کیسے کریں گے؟ کیا ہم یہ پوچھنے کی بھی جرأت نہیں رکھتے کہ ہم عوام کے صحت و تعلیم اور پینے کے صاف پانی جیسے آئینی حقوق مقدس سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ ادا کیوں نہیں ہو رہے؟کیا ہمیں صرف اور صرف فرائض کی انجام دہی اور ہر حکم بجا لانے سے مزید کچھ ملنے کا حق حاصل نہیں؟ ہمارا فرض ہے کہ بناء چوں چراں ان باحقوق حضرات کی اندھی تقلید کیا کریں؟

نتیجۂ خیال یہ ہے کہ محکوم و غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے آزادی حاصل ہونے کے باوجود اب تک ہماری سوچ غلام گردشوں سے باہر نہیں نکل پائی‘ یہی وجہ ہے کہ اہلیت اور کارکردگی سے عام آدمی کی آشنائی نہ ہونے کے برابر ہے۔اب ایسی صورت میں ہمارے پاس شخصی آئیڈیل ازم کے علاؤہ اور کیا ایسا باقی رہ جاتا ہے جس پر اعتقاد کیا جائے؟ ہمیں نجات دلانے کون اور کہاں سے آئے گا؟ ہم عوام کی حیثیت تو محض مداری کے اس جمورے (بندر) جیسی ہے جو ڈگڈگی کے اشارے پر چلتا ہے‘ جس مداری کی ڈگڈگی میں زیادہ دَم ہے‘ جمہوری جمورے اسی پر زیادہ اچھل کود کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اندھی تقلید ہمارا مقدر بن چکا ہے‘ جس پر شرمندگی احساس تک نہیں۔ مذہب‘ قومیت اور زبان کی تفریق نے ہمیں پہلے ہی بھلے برے کی تمیز بھلا دی تھی‘ جب سے ’تبدیلی‘ اور ’انقلاب‘ کی عینک چڑھائی ہے تب سے تو بالکل ہی آنکھوں کے اندھے اور عقل سے بہرے ہوگئے ہیں! کوئی ہمیں آپس میں لڑاتا ہے تو کوئی تشدد پر اُکسا رہا ہے۔ ہمارے خون سے رنگے ہاتھوں پر دستانے الگ سے چڑے ہوئے ہیں۔ کسی نے ہمیں رنگ و نسل کی بنیادوں پرتقسیم کر دیا ہے تو کسی کے لئے ہم صرف ووٹ ڈالنے والی مشین سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ کوئی ہمارے غموں پر مگرمچھ کے آنسو بہانے میں مصروف ہے تو کوئی ہم سے ہونے والی ناانصافیوں پر اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی بھی کمی نہیں جو باقی ماندہ لوگوں کو تھانہ کچہری کے جال میں شکار کر لیتے ہیں۔ ہم آزاد ہیں لیکن فکری طور پر نہیں۔ ہمارے حقوق ہیں لیکن عملی طور پر اُن کی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ ہمیں غاصبوں کا علم ہے لیکن ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے!‘‘

ہمارے قومی دن‘ یک جہتی کی بجائے قوم کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے سے نفرت کے اظہار کا موقع نہیں ہونے چاہئیں۔ وفا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم میں سے ایک اپنے قول و فعل کا احتساب کریں۔ گلہ موقع شناسوں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہونا چاہئے کیونکہ ہماری ہی غلطیوں اور طبقات میں تقسیم در تقسیم کی وجہ نادیدہ و درپردہ طاقتیں حاوی ہو بیٹھی ہیں۔ کیا ہم اِس گھڑی اپنے آپ سے یہ عہد کر سکتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات (چاہے وہ وسط مدتی ہی کیوں نہ ہوں) ذات برادری‘ زبان و لسان اور گروہ یاقبیلے کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کریں گے۔ ہمیں یہ عہد کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ راتوں رات اَمیر بن جانے والے خاندانوں کی معتبر نہیں بلکہ اپنی غربت و مسائل کا جواز سمجھیں گے۔ اہلیت کی بجائے تعصب کو ہوا دینے والی سیاست کی گرداب سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے اِس میں گرنے اور دوسروں کو بچائیں گے۔ یہی دِگرگوں (کرکیچن) حالات کا تقاضا اور اِجتماعی قومی ذمہ داری ہے۔

Tuesday, August 12, 2014

Aug2014: Peshawar, the priorities pritority

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مگر اُو مکرر پشاور کجا اَست؟
یوم آزادی (چودہ اگست) سے چند روز قبل ہندو برادری نے رنگارنگ ’رکشا بندھن‘ کا تہوار اپنے اہل خانہ اور ملک و قوم کی سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ مذہبی جوش و جذبے اور روائتی تیاریوں کے ساتھ منایا۔ اِس موقع پر عبادت گاہوں (مندروں) اور رہائشگاہوں کو خوبصورتی سے سجایا گیا اور بہنوں نے اپنے بھائیوں کی کلائی پر ’رکشا بندھن (راکھی پرنیما)‘ کی مناسبت سے ’راکھیاں (رنگ برنگے کپڑوں اور موتیوں سے جڑا ہوا مخصوص زیور)‘ باندھا‘ ماتھے پر تلک (سیندور یا سرخ رنگ سے لگایا جانے والا نشان) لگایاجو ایک دوسرے کے لئے محبت و عقیدت کا اظہار اور اِس عہد کی تجدید تھا کہ آنے والے دنوں میں وہ ایک دوسرے کا پہلے سے زیادہ بڑھ کر خیال رکھیں گے۔ اِس موقع پر عید کارڈز کی طرز پر کارڈز اور تحائف کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے۔ رکشا بندھن مل بیٹھنے (سماجی طورپر اکٹھ)کا ایک موقع بھی ہے‘ جسے تہوار کے طور پر منانے کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی ’رکشابندھن‘ کا تہوار ’گورگٹھڑی‘ کے احاطے میں واقع ’گورگھ ناتھ مندر‘ میں منایا گیا‘ جسے اِس تہوار کی مناسبت سے شایان شان طورپر سجایا گیا تھا۔ صدیوں پرانے اِس مندر کو خصوصی پوجا (عبادت) کے لئے کھول دیا گیا اور صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں سے ہندو مذہب کے ماننے والوں کا اجتماع اِس مقام پر ہونا اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے‘ جنہوں نے بلاخوف و خطر اور پوری آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات اَدا کیں۔

دیکھا جائے تو پشاور ایک گلدستے کی مانند ہے۔ یہاں ہر مذہب اور فرقے کے لوگ آباد ہیں اور ایک خاص قسم کی مذہبی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے بارے میں برداشت پائی جاتی ہے تاہم بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد چند ایک واقعات ایسے پیش آئے جن میں اقلیتی برادری ہی نہیں بلکہ اکثریتی فرقے کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تو یقینی طورپر اس کے درپردہ وہ عناصر تھے جو پاکستان کو داخلی انتشار کے ذریعے کمزور کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور انہیں پاکستان سے بغضب رکھنے والی بیرونی طاقتوں کا مالی و تکنیکی تعاون حاصل رہا ہے تاہم شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی ’ضرب عضب‘ کے آغاز سے محض چند ہی ہفتوں میں عسکریت پسندوں کی طاقت منتشر کر دی گئی ہے جو کسی ہدف کو حاصل کرنے کی تیزترین مثال اور پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے ہندو برادری کی طرف سے دائر ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے 15ستمبر 2011ء کے روز حکم دیا کہ سترہویں صدی میں تعمیر ہونے والا ’گورگھ ناتھ مندر‘ ہندوؤں کے حوالے کر دیا جائے۔ اِس سے قبل پشاور شہر میں رہنے والے متصل چھاؤنی کے علاقہ ’آر اے بازار‘ میں عبادت کے لئے گھنٹوں کی مسافت طے کرکے جایا کرتے تھے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ’گورگھ ناتھ مندر‘ میں حسب عدالتی حکم ہندوؤں کو عبادت کرنے کی تو اجازت ہے لیکن وہ اِس میں مستقل قیام نہیں کر سکتے اگرچہ اِس میں قدیمی رہائشی کمروں کو بڑی توجہ اور کمال مہارت کے ساتھ پھر سے بحال کر دیا گیا ہے اور ان کی تعمیر و مرمت و بحالی کر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں لیکن چونکہ یہ مندر ’آثار قدیمہ‘ میں شمار کیا جاتا ہے اور ’گورگٹھڑی‘ (ایک مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی عمارت)‘ کو پاکستان کا پہلا ’آرکیالوجیکل پارک‘ بنانے اور اس میں تعمیر ہونے والی مختلف حالیہ تعمیرات (تجاوزات) ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں جاری ہیں اِس لئے متعلقہ ماہرین باقی ماندہ آثار قدیمہ کی حفاظت کو لیکر بہت حساس ہیں اور نہیں چاہتے کہ کسی بھی صورت پشاور کے اِن تعمیراتی اثاثوں کو نقصان پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ ’گورگھ ناتھ مندر‘ کے رہائشی استعمال کی اجازت نہیں دی گئی اور ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک خاندان کو اِس کا رکھوالا بنا کر مندر کی صفائی‘ دیکھ بھال اور حسب ضرورت استعمال کی غیرمشروط اجازت دی گئی ہے۔

پشاور میں رہنے والے ہندؤں کے لئے ’گورگھ ناتھ مندر‘ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ یہاں مجموعی طورپر چھ دیوتاؤں کے مندر ہیں جن میں ’شیو مندر‘ بالخصوص ان کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور دور دراز علاقوں سے ماضی کی طرح آج بھی اِس مقام پر جمع ہونے والوں کے چہرے فرط جذبات سے دہک رہے ہوتے ہیں۔ پشاور ہندو مذہب کے ماننے والوں کے لئے مقدس مقام ہے‘ یہیں سے اُس بدھ مت کی ابتدأ ہوئی‘ جس کے کروڑوں ماننے والے بھارت سے امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پشاور میں دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی بحالی اور تحفظ دیا جائے تو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کریں گے۔ ’مذہبی سیاحت‘ کی اصطلاح پہلے ہی ایجاد ہو چکی ہے اور اسے صنعت کا درجہ دے کر کئی ممالک مالی فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ سیاحت ہماری ضرورت ہے‘ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے علاؤہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے۔ گورگھ ناتھ مندر کی عمارت اور اس کے احاطے میں مقدس مقامات کو تو بحال کر دیا گیا ہے لیکن وہاں فراہم کی جانے والی سہولیات ناکافی ہیں۔ مندر کے احاطے میں ایک قدیم کنواں موجود ہے‘ جہاں ماضی میں برصغیر پاک وہند کے طول و عرض سے ہندو سالانہ یاترا کے لئے جمع ہوتے تھے۔ اِسی طرح ’چاچا یونس پارک‘ میں بھی ہندوؤں کا سالانہ اجتماع ہوا کرتا تھا تاہم وہاں مندر کے آثار اور تالاب آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ضرورت پشاور کو سمجھنے اور یہاں کی اہمیت کا ادارک کرنے کی ہے۔

 گلی کوچوں میں موجود کئی ایک مندر انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں جن میں چند ایک پر قبضہ بھی ہوچکا ہے‘ جس پر دبے الفاظ میں گلہ کرنے والے ہندو‘ اپنے اشنان گھاٹ اور مندروں کی واپسی چاہتے ہیں۔ کم مالی وسائل اور یومیہ بنیادوں پر ملازمت پیشہ ہندو برادری کی اکثریت اس بات کی سکت نہیں رکھتی کہ وہ انصاف حاصل کرنے کے لئے مہنگے عدالتی نظام کا سہارا لے۔ صوبائی حکومت سے التجا ہے کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ و سیاحت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاؤہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اُس مشاورتی عمل کا حصہ بنائے‘ جس میں اُن کی عبادت گاہوں سے متعلق کلیدی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ آخر یہ کہاں کا انصاف اور مذہبی رواداری ہے کہ ایک ہی عمارت میں آمنے سامنے دو عبادت گاہیں ہوں اور ایک میں تو صرف عبادت کی اجازت دی جائے جبکہ دوسرے میں قیام پذیر خاندان سرکاری خرچ پر سہولیات سے فائدہ اُٹھا رہا ہو! ’’معطر معطر پشاور کجا اَست: پشاور پشاور‘ پشاور کجا اَست: منم اَز کسے اِیں فراموش نہ ہی: مگر اُو مکرر‘ پشاور کجا اَست!‘‘

Wednesday, August 6, 2014

Aug2014: Tourism and development

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاحتی امکانات: تعمیر وترقی اور استفادہ
گرمی کی شدید لہر اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوؤں کو عید الفطر کی تعطیلات کی صورت جب موقع ملا تو وسائل رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں ملک کے بالائی علاقوں کا رخ کیا۔ خیبرپختونخوا کا ہزارہ ڈویژن جنت نظیر وادیوں‘ سرسبزی وشادابی اور سخت گرمی میں بھی سرد علاقوں پر مشتمل ہے‘ اور ہمیشہ ہی سے ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے لیکن گذشتہ ہفتہ عید کے موقع پر جس بڑی تعداد میں سیاحوں نے گلیات کا رُخ کیا‘ وہ ناقابل یقین تھا۔ گنجائش سے زیادہ افراد اور ہر قسم کی گاڑیوں سے ایبٹ آباد سمیت گلیات کی سڑکیں بھر گئیں۔ ہوٹلوں‘ گیسٹ ہاؤسیز اور یہاں وہاں ٹھہرنے کی جملہ جگہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور پھر وہی ہوا‘ جس کا ڈر تھا کہ عوام کا رش اور محدود سہولیات کی وجہ سے پیدا ہونے والی ’افراتفری‘ کا فائدہ اُٹھانے والوں نے رات کے قیام اور طعام کی من مانی قیمتیں وصول کیں حتی کہ گاڑی پارک کرنے کی فیس بھی پانچ سو سے ایک ہزار روپے مقرر تھی۔ اہل خانہ کے ہمراہ عید الفطر کے موقع پر سیروتفریح کے لئے گھر سے نکلنے والوں کو وہم و گمان سے زیادہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تو کیا ضروری نہیں آئندہ موسم گرما یا باقی ماندہ چند ماہ میں گلیات کا رخ کرنے والے سیاحوں کے لئے سہولیات اور رہنمائی کا بندوبست کیا جائے؟

حقیقت حال یہ ہے کہ برطانوی راج کے بعد ہزارہ ڈویژن کے سیاحتی مقامات کو ترقی دینے سے زیادہ اِس بات پر توجہ دی گئی کہ بااثر خاندان وہاں کی اراضی پر آئینی طریقے سے قبضہ کریں۔ اس مقصد کے لئے ایسے ’قواعد و ضوابط‘ اور ادارے مرتب کئے گئے جو اِس پورے عمل کو آسان بنائیں اور پھر سینکڑوں کی تعداد میں درخت کاٹ کر عمارتیں کھڑی کر دی گئیں جس کے بعد تعمیرات اور درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ گلیات کی سیر کرنے والے بہت کم لوگ اِس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ہمارے سیاست دانوں‘ سرمایہ داروں‘ زمینداروں‘ صنعتکاروں اور وہ سبھی طبقات جن کے ذرائع آمدن تو معلوم نہیں لیکن وہ قیام پاکستان کے بعد سے ہر گزرتے دن امیروکبیر ہو رہے ہیں کی نجی رہائشگاہیں گلیات میں ہیں۔جہاں وہ اپنے اہل خانہ یا دوستوں کے ہمراہ چند ہفتوں کے لئے قیام فرماتے ہیں لیکن اُن کی رہائشگاہوں کی تزئین و آرائش‘ سہولیات کی فراہمی اور اُنہیں رہائش کے قابل رکھنے کے لئے سارا سال بھاری رقومات خرچ کی جاتی ہیں۔ اَگر سیاحت کی اہمیت کو سمجھا جاتا۔ اَگر سیاحت کے اِمکانات کا کماحقہ اِدارک کیا جاتا اور اگر سیاحت کی ترقی کو ترقیاتی بجٹ میں ترجیح بنایا جاتا تو گلیات کے رہنے والے مقامی افراد کی قسمت بدل جاتی۔ وہ روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں نہ کھاتے۔ اُنہیں اپنی وادیاں چھوڑ کر گردآلود اور آلودگیوں سے بھرے شہری ماحول میں کسمپرسی کی زندگیاں بسر نہ کرنا پڑتیں۔ المیہ ہے کہ حکومت کے ساتھ نجی شعبے نے بھی اپنی سیاحت کی ترقی پر توجہ نہیں دی۔ ہمیں گلیات میں کئی اداروں کے ’ریسٹ ہاؤسیز‘ تو ملتے ہیں لیکن اُن کی جانب سے سیاحوں کی رہنمائی یا اُن کی سہولیات کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ ’کارپوریٹ ریسپانسبیلٹی‘ یعنی نجی شعبے پر سماجی بہبود کی ذمہ داری کے حوالے سے نہ صرف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اِس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے سیاحت اور سیاحت کی ترقی کے لئے کام کرنے والوں کو جامع لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا‘ جس میں آثارقدیمہ کی اہمیت اور ایسے مقامات پر بھی سہولیات کی فراہمی کے لئے نشاندہی کرنا ہوگی‘ جن پر عرصہ دراز سے توجہ نہیں دی گئی۔
خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی پر اگرچہ پابندی عائد ہے لیکن اِس پابندی پر سختی سے عمل درآمد سڑک کے کنارے کنارے یا اُن وادیوں کی حد تک محدود ہے جو شاہراؤں کے کنارے آباد ہیں۔ پہاڑوں کی اوٹ میں جنگلات کی کٹائی آج بھی پورے دھرلے سے کی جاتی ہے اور اگر کسی کو یقین نہ آئے تو غیرروائتی راستوں پر سفر کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے دیہات میں رہنے والے بڑے دل کے لوگوں سے بات چیت کرے‘ جن کے سینوں میں ایسے آنکھوں دیکھے واقعات محفوظ ہیں کہ بیان نہیں کئے جاسکتے۔

 لمبی لمبی لینڈ کروزر گاڑیوں میں سفر کرنے اور پرآسائش زندگی بسر کرنے والوں کے کئی نامور سیاسی شخصیات اور افسرشاہی کی حرص و طمع اور ترقی کا راز آپ پر بھی عیاں ہو جائے گا۔ چونکہ ہمارے ہاں بجلی کی کمی کا مسئلہ جلد حل ہونے والا نہیں لہٰذا اگر خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں کے موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایبٹ آباد کو ’ایجوکیشن سٹی‘ قرار دیا جائے اور ملحقہ گلیات میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سرائے خانے نہیں بلکہ تدریسی کیمپس بنائے جائیں تو پورے ملک سے طلباء و طالبات زیادہ بڑی تعداد میں اِن علاقوں کا رُخ کریں گے۔ تعلیم اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور سیاحت کے لامحدود امکانات کی جانب توجہ مبذول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Monday, August 4, 2014

Aug2014: Human rights violation, international prospective

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انسانی حقوق کی پائمالی: عالمی تناظر
طاقت کے نشے میں جہاں سماعت اور بصارت ساتھ دینا چھوڑ دیتی ہے‘ وہیں فہم و فراست‘ دانش یا مستقبل کے حوالے سے بصیرت بھی باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے عراق اور فلسطین سے لیبیا و شام میں جنگ کے آلاؤ بھڑک رہے ہیں اور اگر اِن سبھی تنازعات کے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو واقعات کا تسلسل واحد عالمی طاقت امریکہ تک جا پہنچتا ہے‘ جسے صرف اور صرف اپنے مفادات سے غرض ہے لیکن یہ غرض دوسروں کے لئے کس قدر اذیت اور تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے‘ اس پر امریکہ کی سیاسی و فوجی قیادت زیادہ غور نہیں کر رہی۔ مسلم ممالک کے سربراہوں کو مٹھی میں رکھنے اور مسلم دنیا کے وسائل پر کنٹرول حاصل کر لینے کے بعد امریکہ کی راہ میں کوئی ایسی رکاوٹ نہیں رہی‘ جو اُسے للکار سکے۔ براعظم ایشیاء میں پاؤں جمانے کے بعد امریکیوں کی نظریں افریقہ پر بھی ہیں جہاں ایک طرف توانائی جیسے وسائل کی کمی نہیں اور دوسرا وہاں سونے اور ہیرے جیسی معدنیات بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔

تین سے چھ اگست واشنگٹن میں امریکہ اور افریقی قائدین کا سہ روزہ سربراہ اجلاس میں پچاس سے زائد افریقی ممالک کے سربراہان کی شرکت کئی لحاظ سے غیرمعمولی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ براعظم افریقہ کے چار ممالک اریٹریا‘ زمبابوے‘ سوڈان اور جمہوریۂ وسطی افریقہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر اِس اجلاس میں شرکت کے لئے دعوت نہیں دی گئی ۔اجلاس میں معاشی فروغ پاتے ہوئے افریقہ میں مواقع اور مستقبل زیرِ غور آئے گا‘ جبکہ کلیدی سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ کس طرح افریقی ممالک سے اپنے تعلقات بہتر بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجلاس کا عنوان ’اگلی نسل کے لئے سرمایہ کاری‘ رکھا گیا ہے۔ سربراہ ملاقاتوں کا مقصد مشترکہ مفادات کی نشاندہی کرنا بھی ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب یقینی طور پر افریقی نوجوانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم بڑھایا جائے‘ جن میں صحتِ عامہ‘ تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر کرنا شامل ہوں گے۔ ایسے وقت جب جمہوریۂ وسطی افریقہ‘ سوڈان اور مشرقی و مغربی افریقی ممالک عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے نبردآما ہیں‘ پہلا ہدف یہ ہوگا کہ ترقی کے حصول کے لئے درکار امن اور استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ سربراہ اجلاس کے شرکاء تشدد کے خاتمے اور علاقائی اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے معاملے کو زیر بحث لائیں گے۔

براعظم افریقہ کا امن چیلنج کا درجہ رکھتا ہے جس کا عمومی طور پر ایک حصہ افریقہ کی پولیس اور فوج کا معاملہ ہے جو انتہائی پیشہ ور نہیں اور جس کے باعث‘ نامناسب اور تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ خصوصی طور پر جب داخلی سلامتی کے خطرات پر بات چیت ہو گی تو اس میں بے گناہ تماشائیوں کی ہلاکتیں ہونے جیسے واقعات پر بھی بات کی جائے گی۔ المیہ ہے کہ جہاں کہیں مقامی آبادی نظرانداز ہوگی‘ وہاں مزید شکایات جنم لیں گی۔ صدر اوباما اور دیگر سربراہان مملکت کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کہ مقامی مسائل کو کس طرح علیحدہ کرکے زیر غور لایا جائے‘ پھر کہیں اِن خطرات کے بین الاقومی عناصر پر بات ہوسکتی ہے؟

اجلاس کے دوسرے روز طے ہے کہ افریقی رہنما امریکی حکومت کے عہدے داروں سے ملاقات کریں گے‘ جس میں معاشی سلامتی کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ اِس اجلاس میں دو سو سے زائد امریکی اور افریقی کاروباری حضرات بھی شریک ہیں‘ جو تجارت اور مالی نوعیت کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے حوالے سے معاملات زیرِ غور لائیں گے۔ افریقہ کے ساتھ امریکی تجارت کے ایک اہم حصے کا دارومدار افریقی افزائش اور مواقع کے سلسلے میں وضع کردہ قانون ہے۔ اِس امریکی قانون سازی کا مقصد ’’سب سہارا افریقہ‘‘ کی معیشتوں کی اعانت کرنا اور معاشی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اس قانون کے تحت وہ افریقی ممالک جن کے معاشی انتظام اور انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا ہے‘ اُنہیں بغیر محصول ادا کیے امریکی منڈیوں تک رسائی فراہم ہوگی۔ براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے ممالک تقریباً سات ہزار مصنوعات امریکہ برآمد کرتے ہیں جن کی مالیت 27 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے۔

ضمنی طورپر عرض ہے کہ امریکہ پر بھروسہ کرنے کے علاؤہ اگرچہ کسی دوسرے ذریعے کی کھوج نہیں لگائی گئی لیکن پاکستان کو درپیش مسائل کا حل اِسی میں ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے اور محض امریکہ کی دوستی پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے مفادات جس میں تجارت میں اضافہ جیسا ہدف پیش نظر رکھا جائے۔ سردست صورتحال مایوس کن ہے اور امریکہ مسلم دنیا میں پاکستان کے اثرورسوخ کو استعمال تو کرتا ہے لیکن جمہوری قدروں اور اداروں کی مضبوطی کی بجائے ایسے حکمرانوں کو مسلط رکھتا ہے‘ جن کے سامنے امانت و دیانت کے تصورات ابہام جیسے ہوں۔ امریکہ میں پاکستان کے سفارتخانے (embassyofpakistanusa.org) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے جس کے حجم میں سال دوہزار دس سے تبدیلی نہیں آ رہی۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ معاشی و اقتصادی مسائل ہیں‘ جن کی شدت توانائی بحران کے سبب ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہی ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر واویلا کرنے والوں کو ارض فلسطین کے مسلمان کیوں دکھائی نہیں دے رہے‘ اسرائیلی جارحیت اور بے گناہوں کا خون بہانے والوں کے اصل عزائم کیا ہیں؟ جب تک مسلم امہ محکوم ومغلوب رہے گی اور غلامی کا طوق اُتار نہیں دیتی‘ اس پر دباؤ برقرار رہے گا۔

Sunday, August 3, 2014

Aug2014: The real mean of democracy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جمہوری حقوق اور ذمہ داریاں
سب بول رہے ہیں‘ اور سننے والا کوئی نہیں۔ سب اپنی اپنی خواہشات کا حصول چاہتے ہیں اور کسی میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں۔ سب سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن کوئی بھی دوسرے کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔ سبھی سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز سمجھتے ہیں لیکن یہ رعائت اپنے سوا کسی دوسرے کو دینے کے لئے تیار نہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور عوامی نیشنل پارٹی ایک جیسا مؤقف رکھتی ہے کہ ’’تحریک انصاف کو سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور محض احتجاج کی بجائے وہ اپنے عزائم واضح کریں۔ آزادی مارچ کے نام سے احتجاج کے لئے منتخب کیا گیا وقت غیرمناسب ہے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان خود رکن قومی اسمبلی ہیں‘ اگر وہ کسی بھی طرح کی اصلاحات چاہتے ہیں تو اس کے لئے مہذب اور جمہوری راستہ اپناتے ہوئے قانون ساز اسمبلیوں کے اندر جدوجہد کریں۔ اپنے ہم خیالوں کی تعداد میں اضافہ کریں اور دوسروں کو قائل کریں۔ اگر احتجاج جمہوری حق ہے تو پارلیمنٹ کے ذریعے مسئلے کا حل جمہوری ذمہ داری ہے۔ عمران خان اور طالبان کے طریقہ کار میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک کے ہاتھ میں بندوق ہے۔‘‘ غم و غصے اور عزم سے بھرا دوسرا طبقہ تحریک انصاف‘ عوامی تحریک‘ مسلم لیگ عوامی اور مسلم لیگ قاف کا ہے جس کے بقول ’’حکومت کا مستقبل تاریک ہے۔

چودہ اگست کو برپا ہونے والے جمہوری انقلاب کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘اِس گرما گرم سیاسی منظرنامے میں پیپلزپارٹی کا مؤقف سب سے وزنی اور منطقی ہے جو متحدہ قومی موومنٹ کی طرح درپردہ تحریک انصاف اور اُن کے ہم خیال ہم عصروں کے نکتہ نظر کو جائز سمجھتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ ’’نواز لیگ کو خود اُس کے اپنے اقدامات لے ڈوبے ہیں۔سیاست میں فیصلہ کرنے کی ٹائمنگ (timing) بڑی اہم ہوتی ہے۔عمران خان کا معاملہ ’مس ہینڈل‘ ہوا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں جمہوری نظام رائج ہے وہاں ’حزب اختلاف‘ حالات کا فائدہ اٹھاتی ہے لیکن حکومت وقت کا کام ہوتا ہے کہ وہ ’ڈیڈلاک‘ پیدا نہ ہونے دے اور نت نئے امکانات پیدا کرتی رہے۔ تحریک انصاف کو اگر ’الیکشن ٹریبونل‘ سے انصاف نہیں مل رہا تو اُن کا احتجاج جائز ہے کیونکہ قواعد کے مطابق انتخابات سے متعلق اختلافات کا زیادہ سے زیادہ چار ماہ میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے‘ اگر کسی وجہ سے سال بھر میں فیصلہ نہیں ہو پا رہا تو وفاقی حکومت کو چاہئے تھا کہ ایک مکتوب کے ذریعے الیکشن کمیشن کو جگاتی۔ نواز لیگ سے ہونے والی دوسری غلطی ڈاکٹر طاہر القادری کے رہائشگاہ کے باہر نصب رکاوٹیں دور کرنے کے بہانے طاقت کے استعمال سے اُنہیں مرعوب کرنے کی کوشش تھی۔ کیا ماڈل ٹاؤن لاہور میں طاہر القادری کی رہائشگاہ واحد ایسی جگہ تھی جہاں رکاوٹیں کھڑی کر کے شاہراہ عام بند کی گئی تھی؟ سب جانتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن کی ہر ایک گلی میں بااثر افراد نے اپنی اپنی رہائشگاہوں کو جانے والے راستوں پر ذاتی محافظ بٹھانے پر داخلے کے حقوق ہاتھ میں لے رکھے ہیں جبکہ صرف طاہر القادری کے رہائشگاہ پر نصف شب کے بعد کارروائی کا آغاز اور پھر صبح تک انتظار کیا جانا کہ اُن کے حامی بڑی تعداد میں جمع ہو جائیں اور جب وہ احتجاج کرنے لگے تو اُن پر خودکار ہتھیاروں سے گولیاں اور بدترین لاٹھی چارج (تشدد) کرنا درحقیقت نواز لیگ کا اپنے پاؤں پر دوسری مرتبہ کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ تیسری غلطی ڈاکٹر طاہر القادری کے جہاز کو اسلام آباد کی بجائے لاہور اُتارہ گیا۔ چوتھی غلطی اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنا ہے اور پانچویں غلطی صدر پرویز مشرف سے آئینی معاملہ کرنے میں غیرضروری سختی سے نواز لیگ کے دشمنوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

کیا تحریک انصاف کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے طرز حکمرانی پر انگلی اُٹھائے جبکہ ایک سال تک خیبرپختونخوا میں جو اصلاحات کی گئیں اور جس طرح منظور نظر افراد کو نوازہ گیا‘ وہ ماضی کی روایت پسند سیاسی جماعتوں سے قطعی مختلف نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان جب کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو وہ اٹل ہوتا ہے۔ عمران خان کو بند گلی میں دھکیلنے والوں نے اُنہیں کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اُن کے اردگرد ایسے لوگوں کا جھمگھٹا ہے جنہوں نے اقتدار میں آنے سے متعلق ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے پوری تحریک انصاف کو داؤ پر لگا دیا ہے!

سوالات بہت ہیں! طرز حکمرانی کی اصلاح کیسے کی جائے؟ مردم شماری کرانی ہے یا نہیں تاکہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے اور مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی محض اندازوں پر نہیں بلکہ سائنسی بنیادوں پر ہو؟ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر اور حائل رکاوٹیں کیسے دور کی جائیں؟ آئندہ عام انتخابات کیسے ہونے چاہئے کہ وہ سب کے لئے قابل قبول ہوں؟ عام انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے مقناطیسی سیاہی کا استعمال ہو یا الیکٹرانک پولنگ کا نظام اختیار کیا جائے؟ انتخابی فہرستوں اور انتخابی حلقہ بندیوں کی اصلاح کیسے کی جائے؟ انتخابی عمل سے متعلق شکایات فوری طور پر نمٹانے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے؟ ضرورت محض کسی ایک جماعت کے اقتدار سے الگ اور دوسرے کے ہاتھ حکومت تھمانے کی نہیں بلکہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ توانائی بحران اور امن و امان کی غیریقینی صورتحال سے نمٹتے ہوئے عام آدمی کی توقعات پر پورا اُترنے کی بھی ہے حکمرانوں کو امیر المومنین اور بادشاہ بننے کی بجائے خدمت گزار بننا ہوگا۔

ٹیکسوں کے پیسے اور قرضوں پر شاہانہ زندگی بسر کرنے اور اختیارات سے اربوں روپے ذاتی اثاثوں میں ڈھالنے والوں کو حکومت کے جانے سے خوف نہیں بلکہ اس بات سے اُن کی نیندیں حرام ہیں کہ کہیں اُن کا احتساب نہ ہو! ضرورت ایک ایسے نظام کے نفاذ کی ہے جس میں عام آدمی کو اپنی اہمیت کا عملی احساس ہو۔ سرکاری ملازمین کا احتساب ہو۔ زیادہ آمدنی والے طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کئے جائیں۔ سیاسی جماعتوں میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بجائے پیشہ ور ماہرین کو جگہ ملے اور ذات برادری‘تھانہ کچہری‘ رشتے ناطوں کے بل بوتے پر مسلط طبقے سے آزادی حاصل کی جائے مگر کیسے؟ انقلاب کے ذریعے موم کی طرح کا قانون اور بااثر افراد کے تابع فرمان نظام اگر جھٹکے سے تبدیل کیا گیا تو اس سے ایک ایسی کھائی بن جائے گی‘ ایک ایسی مثال اور ایک ایسا طرزعمل جائز ہو جائے گا‘ جس کا استعمال دیگر سیاسی و بالخصوص مذہبی جماعتیں یا دیدہ و نادیدہ طاقتیں حسب ضرورت کر سکیں گی۔ یقینی امر ہے کہ جمہوری حکومت کو کھائی میں گرانے والے خود بھی اُسی گڑھے میں گر سکتے ہیں‘ جو سوچ بچار یا جذبات کی لہر میں کھودا جا رہا ہے!

Saturday, August 2, 2014

Aug2014: Tension in Libya

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لیبیا: کشیدگی‘ بحران اور اُمیدیں
صورتحال کی کشیدگی اور بحران کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ روز (دو اگست) سے برطانیہ نے لیبیا میں اپنے سفارتخانے بند کرکے جملہ سفارتی عملہ واپس طلب کر لیا ہے۔ اس سے قبل اٹلی‘ امریکہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ جاپان اور ہالینڈ بھی بالترتیب اپنے اپنے سفارتخانے بند کر چکے ہیں۔ برطانیہ کے سفارتکار مائیکل آرون (Michael Aron) نے ٹوئٹر (twitter) پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’’نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اپنا سفارتخانہ بند کر رہے ہیں اور جیسے ہی لیبیا میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوگی‘ ہم دوبارہ سفارت خانہ کھول دیں گے۔‘‘ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ لیبیا سے متعلق سفارتی خدمات ہمسایہ ممالک سے جاری رہیں گی۔ یوں لگتا ہے کہ عالمی برادری ایک ایک کر کے لیبیا کو تنہا چھوڑ رہی ہے۔ دوسری جانب داخلی امن و امان کی صورتحال کے باعث تیونس نے بھی لیبیا کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لیبیائی باشندے جب اپنی جان بچانے کے لئے ہمسایہ ملک کی سرحد پر پہنچے تو اُن کا آنسو گیس اور لاٹھیوں سے استقبال کیا گیا۔ سبق آموز صورتحال ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی داخلی امن و امان خراب ہوتا ہے وہاں کے رہنے والوں کو نسلوں اِس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
لیبیا میں بدامنی جاری رہنے کے ساتھ ہی اس ملک کے بعض سیاسی اور فکری دھڑوں اور حکومت کی جانب سے خطرے کے احساس کے باعث ’’بورڈ آف گورنرز‘‘ نے سیکورٹی بحران کے حل کے لئے ایک منصوبہ پیش کیاہے‘ جس کی جملہ شقوں میں تمام متصادم گروہوں کے درمیان جنگ بندی‘ پورے لیبیا پر حکومت کا کنٹرول‘ آئل فیلڈز‘ بندرگاہوں اور کسٹمزکے امور وزارت داخلہ کے حوالے کرنے کے ساتھ ہی فوجی اڈوں کو چیف آف آرمی اسٹاف کے سپرد کرنے جیسے موضوعات شامل ہیں۔ بورڈ آف گورنرزکے منصوبے کے مطابق بن غازی اور طرابلس کو ہتھیاروں سے پاک شہر کے طورپر اعلان جبکہ منصوبے کی شقوں پرعمل درآمد اور قومی مذاکرات کے لئے ایک نظام الاوقات بھی مرتب کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ ایسے وقت میں تیار کیا گیا ہے کہ لیبیا کی پارلیمنٹ نے سیکورٹی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے ہنگامی اجلاس طلب کر رکھا ہے۔

لیبیا کے حالات اس وقت کشیدگی اور بحران کا شکار ہیں‘ حتی افریقی یونین نے بھی اس ملک میں تشدد جاری رہنے کے سلسلے میں خبردار کیا ہے۔ یہ انتباہ اس وجہ سے دیاگیا ہے کہ لیبیا میں بحران جاری رہنے کے باعث اس کے پڑوسی ممالک پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ لیبیا سے اس کے پڑوسی ممالک میں مہاجرین کے سیلاب نے ان ممالک کے لئے سیکورٹی مسائل کھڑے کردیئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی لیبیا کی بدحال سیکورٹی صورت حال نے دہشت گردوں کے لئے حالات سازگار بنا دیئے ہیں۔

تیونس‘ مصر‘ اورمراکش جیسے ممالک نے اپنی سرحدوں پر الرٹ جاری کردیا ہے انہیں خوف ہے کہ دہشت گرد لیبیا سے کہیں ان کے ملکوں کا رخ نہ کرلیں۔اس وقت شمالی افریقہ کے بعض ممالک بھی لیبیا کی داخلی صورت حال سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس ملک میں متصادم گروہوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ لیبیا کے بعض علاقوں میں جھڑپوں میں تیزی آئی ہے اور گذشتہ چند ہفتوں کے دوران دارالحکومت طرابلس بھی جھڑپوں کا مرکز رہا ہے۔ مشرقی لیبیا میں بھی دہشت گردوں اور مسلح افراد کے درمیان جاری جنگ اور ایک دوسرے کے خلاف سنگین ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں جبکہ لیبیا کے فوجیوں کے درمیان بھی سنگین صف بندی ہے اور فوج کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔بعض فوجی حکومت مخالف ریٹائرڈ جنرل خلیفہ حفتر کے محاذ میں شامل ہوگئے ہیں اور بعض فوجی طرابلس حکومت کے زیرکنٹرول ہیں۔ اس بیچ مسلح افراد جو درحقیقت وہی سابق انقلابی ہیں‘ لیبیا کے مشرقی اور مغربی حصوں میں سرگرم عمل ہیں اور لیبیا کے عوام بحران اور بدامنی کے عالم میں طرح طرح کی معاشی‘ سیاسی اور سیکورٹی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔

اس وقت لیبیا کے عوام کو نہایت تاریک مستقبل کا سامنا ہے اور اس ملک کے لئے کسی قسم کے روشن مستقبل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ایسا نظرآرہا ہے کہ اس وقت لیبیا میں ہرفریق اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اسلحہ لیبیائی گروہوں کی زبان بن چکا ہے اور یہی چیز لیبیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سنگین بحران کے سبب لیبیا کا وجود داؤ پرلگا ہوا ہے۔ لیبیا کے حالات کے پیش نظر بعض سیاسی حلقے اس ملک کی تقسیم کو توقع کے برخلاف نہیں سمجھتے جبکہ لیبیائی حکام‘ ملک کے مستقبل کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے سیاسی گروہوں کے درمیان تعمیری تعاون اور گفتگو کی ضرورت پرتاکید کررہے ہیں۔ایک ایسا موضوع جس پرحریف مسلح گروہ بالکل یقین نہیں رکھتے اور طاقت اور تشدد کو ہی تنہا وسیلہ سمجھتے ہیں۔

Friday, August 1, 2014

Aug2014: Political settlement with PTI

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دور اندیشی کے تقاضے
سیاسی زلزلہ پیمایہ مرکز اسلام آباد سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں گیارہ اگست کے روز جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ’آزادی مارچ‘ کے نام سے ایک انقلاب برپا ہوگا‘ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے زیراہتمام ملک کی سیاسی قیادت کو ایک چھت تلے تبادلہ خیال کا نادر اور شاید آخری موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اِس سے کتنا فائدہ اُٹھا پاتی ہے کیونکہ سیاسی مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے میں پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے!

حیرت کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں ہر قول اور فعل پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب وزیراعظم شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں نے زخموں پر مرہم رکھنے جا رہے تھے تو اُنہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی جبکہ اُسی روز وہ ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ تحریک انصاف کے مقام اور حیثیت کا ادارک کرنے میں تاخیر کرنے والے جب بیرون ملک دوروں پر تشریف لے جاتے ہیں تب اُنہیں تحریک انصاف کی یاد نہیں آتی لیکن جب ’پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ‘ کے لئے وہ بظاہر سنجیدہ ہو کر جو چال چلنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ بیدار قوم اور سیاسی قیادت کی سمجھ سے بالاتر نہیں ہوتی۔

گیارہ اگست کو ہونے والے ’ویژن 2025‘ نامی اجلاس کا مقصد پاکستان کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے نئی حکمت عملیوں اور ایک ایسا جامع لائحہ عمل پر غوروخوض کرنا ہے‘ جس سے تعمیروترقی کا عمل بامعنی ہو سکے۔ حسب اعلان توقع ہے کہ وزیراعظم اِس کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوں گے۔ عجب ہے کہ میزبان حکومت خود ہی بطور مہمان بھی شریک ہوگی حالانکہ اگر حقیقت میں ملک کے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی تو مختلف شعبوں سے ماہرین کو طلب کیا جاتا اور حکومت کہیں کونے میں بیٹھ کر اُن کی باتیں سنتی اور لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ توقع ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ اِس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ دعوت کو رد بھی نہ کریں اور اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے والا ایک وفد اس اجلاس میں بھیج دیں‘ جس کے دعوت نامے فراخدلی کے ساتھ ہر مکتب فکر بشمول سیاست دانوں‘ فوجی حکام‘ افسرشاہی‘ تاجر‘ صنعتکاروں‘ ادیبوں‘ فنکاروں‘ مصوروں اور حتیٰ کہ صحافیوں کو بھی بطور خاص ارسال کئے گئے ہیں۔ منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت سے تعلق رکھنے والے ایک انتظامی اہلکار کے مطابق ’’ویژن 2025‘‘ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہرممکن کوششیں اور بڑھا چڑھا کر تیاریاں کی جارہی ہیں لیکن یہ ساری کوششیں بے معنی اور کانفرنس پر اُٹھنے والے جملہ اخراجات بے معنی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی 14 اگست کے روز ’آزادی مارچ‘ کے نام سے ایک ایسا انقلابی احتجاج شروع کرنے جا رہی ہے جس کا راستہ روکنے کے لئے حکومت نے ایک طرف تو وفاقی دارالحکومت کو یکم اگست سے فوج کے حوالے کر دیا ہے اور دوسری جانب التجائی بیانات کے ذریعے اُس طوفان کو روکنے کی کوششیں کر رہی ہے‘ جو مبینہ طور پر منظم و بڑے پیمانے پر دھاندلی سے منتخب ہونے والی حکومت کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جانے کی یقینی طور پر طاقت رکھتا ہے!

پاکستان کا 68واں یوم آزادی تاریخی اور خونیں ہونے جا رہا ہے یا پھر یہ طوفان پاکستان عوامی تحریک کی طرح شور شرابے کے بعد ٹل جائے گا جبکہ قبائلی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی اور اس سے متاثرہ افراد سے غمخواری کرنے جیسا بہانہ اور مضبوط جواز بھی موجود ہے! جہاں تک ’ضرب عضب‘ کارروائی کا تعلق ہے تو اِس سلسلے میں زمینی حقائق پوشیدہ رکھے جا رہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دائرہ محدود رکھنے کی بجائے اِسے وسیع کیا جائے۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جس میں انتہاء پسند مسلح و غیرمسلح طبقات سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی واضح پیغام ملنا چاہئے۔ تیسری ضرورت نقل مکانی کرنے والوں کی باعزت واپسی اور بحالی کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا ہے‘ جن کی بنیادی ضروریات اور سہولیات پوری نہیں ہو رہیں۔ ’ضرب عضب‘ کارروائی کے اہداف کتنے وقت میں حاصل کر لئے جائیں گے‘ اِس بارے میں بھی معلومات کا تبادلہ نہیں کیا گیا۔ جن علاقوں سے عسکریت پسندوں کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں‘ وہاں حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لئے اقدامات کون کرے گا۔ اب تک جن عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اُن کے نام ظاہر نہیں کئے گئے جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ نچلے درجے کے رضاکار تھے جب تک خوف و دہشت پھیلانے والے نامور کرداروں کو کھوج کھوج اور چن چن کر انجام تک نہیں پہنچایا جاتا‘ اِس پوری کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونا ممکن نہیں۔ قبائلی علاقوں میں صحت و تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ سیاسی استحکام اور اُنہیں قومی دھارے میں شامل کرنے میں مزید تاخیر بھی کسی کے مفاد میں نہیں۔

حاصل کلام احساس ’ویژن (بصیرت برائے) 2025‘کے ایجنڈے میں قبائلی علاقوں کو شامل کرنے اور موروثی سیاست کی بجائے ملک کے اُس وسیع تر مفاد کے تقاضوں کا سمجھنے کی ضرورت ہے‘ جسے پس پشت ڈالے چھ دہائیاں گزر چکی ہیں! ’’دل بینا بھی کر خدا سے طلب: آنکھ کا نور دل کا نور نہیں! (علامہ اقبالؒ )۔‘‘