ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہماری تاریخ اور مستقبل؟
ہماری تاریخ اور مستقبل؟
امریکہ میں شائع ہونے والی انگریزی زبان میں کتاب ’’مسلم زائن: پاکستان
بحیثیت ایک سیاسی نظریہ (موضوع: تاریخ)‘‘ مصنف فیصل دیوجی پبلشر ہارورڈ
یونیورسٹی پریس‘ صفحات 278 لائق مطالعہ ہے جو پہلے باب ہی سے تاریخ پاکستان
کے بارے میں آپ کے بہت سے اُن روائتی اور نصابی تصورات کو تبدیل کرکے رکھ
دے گی‘ جنہیں یاد کرنے میں میری طرح آپ نے بھی بہت سے رٹے لگائے ہوں گے۔
ہمیں پڑھایا جاتا ہے کے محمد بن قاسم پہلے پاکستانی تھے اور راجہ داہر کے
خلاف ان کی جنگ وہ پہلا ٹکراؤ تھی جس نے آگے چل کر دو قومی نظریے کی بنیاد
ڈالی۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے بارے میں اصل حقائق کو یکسر نظر انداز
کرتے ہوئے ان کو سندھ آنے پر مجبور کرنے والے مالی فوائد اور علاقائی سیاسی
مفادات کے بجائے بتایا یہ جاتا ہے کہ وہ یہاں اسلام پھیلانے آئے تھے۔
سات سو بارہ عیسوی اور 1947 عیسوی کے اِن واقعات کو آپس میں ملانے کی یہ کوشش پاکستان کے رکھوالوں اور نظریہ پاکستان کی ترویج کرنے والوں کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کوشش سے موجودہ پاکستان اور مذہب کے درمیان ایک تاریخی کنکشن بنایا جاتا ہے‘ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کے برصغیر میں ہندو ازم اور اسلام کے درمیان ہمیشہ سے ٹکراؤ رہا اور یہ تصادم ہمیشہ برقرار رہے گا لیکن سچائی یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی کہانی اور پاکستان کے موجودہ قوم پرستی میں کافی تضادات پائے جاتے ہیں۔ یورپ سے حاصل کئے ہوئے نیشنلزم اور نیشن اسٹیٹ کے ماڈل اس بات پر زور دیتے ہیں کے زبان‘ برادری اور علاقائی ربط ضروری ہیں۔پاکستانی نیشنل ازم میں بھی یہ سب چیزیں موجود ہیں لیکن محمد بن قاسم ایک عرب حملہ آور کا یہاں رہنے والے لوگوں اور اس علاقے‘ جو آگے چل کر پاکستان بننے والا تھا سے ایسا کسی قسم کا کوئی ربط نہیں تھا۔ پاکستانی نیشنل ازم کا انوکھا پن 1967ء میں وجود میں آنے والے ملک کے جغرافیائی مطالعے سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے‘ جہاں ایک طرف ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور مشرقی اور مغربی حصے وجود میں آئے‘ تو وہیں (سابق) مشرقی پاکستان ہندوستان سرحد کے ساتھ سینکڑوں گھرے ہوئے علاقوں کی موجودگی بھی اس علاقائی اتحاد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے‘ جو کسی قوم کے ریاست بننے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ آخر میں یہ نظریہ کے برصغیر میں رہنے والے تمام مسلمان ایک جیسے مذہبی عقائد کی وجہ سے متحد ہیں اور یہ کہ پاکستان برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا‘ تب مشکل میں نظر آتا ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اب بھی بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔پاکستان میں جاری مختلف نسلی و قوم پرست تحریکیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھی اس نظریئے کو کمزور کرتی ہے کہ اسلام ملک کے تمام لوگوں کو متحد رکھ سکتا ہے۔
’’مسلم زائن: پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ‘‘ میں مصنف فیصل دیوجی پاکستان کی تخلیق کے بارے میں ایک ایسا فریم ورک پیش کرتے ہیں‘ جس کے ذریعے اوپر بیان کئے گئے مختلف تضادات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ دیوجی کے نزدیک پاکستان صیہونیت کی ایک مثال ہے‘ جس کے مطابق قومی شناخت مذہب کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ دیوجی کے اس استدلال کے مطابق پاکستان اسرائیل سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ دونوں قومیں برطانوی راج کے تنزلی کے دور میں تخلیق ہوئیں۔ دونوں نے ہی تشدد کے شکار اقلیتوں کے لئے پناہ گاہ ہونے کا دعویٰ کیا اور دونوں کے وجود میں آتے ہی وسیع پیمانے پر ایسے لوگوں نے ان نئے ملکوں کو اپنا مسکن بنایا‘ جو پہلے کبھی یہاں کے رہنے والے نہیں تھے۔ اگر اس طرح دیکھا جائے‘ تو پاکستان اور اسرائیل دونوں میں نیشنل ازم کی بنیاد زبان اور نسل کے بجائے مذہب کو قرار دیا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ مذہبی عقائد ایک کمیونٹی کو متحد رکھنے کے لئے کافی ہیں جبکہ علاقے‘ زبان اور قومیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ تمام یہودیوں کو اسرائیل میں خوش آمدید کہا جاتا ہے‘ بھلے ہی وہ پہلے کہیں کے بھی رہنے والے ہوں!1947ء میں برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں پاکستان کی بھی یہی پالیسی تھی جیسا کہ بینیڈکٹ اینڈرسن کا کہنا ہے ’’تمام قومیں تصوراتی برادریاں ہیں‘ جن میں شناخت اور اتحاد کی بنیاد ایک ثقافت‘ زبان اور علاقے کو بنایا جاتا ہے۔‘‘ اسی بناء پر اسرائیل اور پاکستان کو بھی قوم تصور کیا گیا‘ جن میں مذہبی کمیونٹیز کو من مانی جگہیں فراہم کرکے قومی شناخت دینے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان اور اسرائیل کا اِس طرح موازنہ کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ دیوجی اپنی کتاب کی شروعات میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق جیسی شخصیت نے بھی 1981ء میں دونوں ممالک (پاکستان اور اسرائیل) کے درمیان اِن مماثلتوں کو نوٹ کیا تھا۔
گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسرائیل کی تخلیق اور اس کے پیچھے موجود محرکات پاکستان کی تخلیق سے کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ سب سے بڑا فرق یہ کے صیہونیوں کے نزدیک اسرائیل کی سرزمین ایک روحانی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے‘ جس سے دیوجی کے اس اصرار کی تردید ہوتی ہے کہ صیہونی نیشنل ازم بنیادی طور پر زمینی و علاقائی نوعیت نہیں رکھتا۔ بہرحال کتاب ’مسلم زائن‘ اسرائیل کے بجائے پاکستان کے بارے میں لکھی گئی ہے اور دیوجی کا دونوں ممالک کا موازنہ کرنا ان بہت سارے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے جن سے اگے چل کر نظریہ پاکستان کو ایک ساخت فراہم کی گئی۔
’مسلم زائن‘ تاریخ کی کتاب بھی نہیں حالانکہ دیوجی نے ماضی کے بارے میں بڑی تفصیل سے اور موجودہ پاکستان پر کم کم ہی لکھا ہے لیکن پھر بھی یہ کتاب تاریخ ایسے بیان کرتی ہے‘ جس میں اصل سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی حالات و واقعات کے بجائے نظریہ پاکستان کی تخلیق و ترویج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔’مسلم زائن‘ پڑھنے کے بعد دیوجی کی اس دلیل کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں اور مستقبل کی تعمیر کے لئے علاقائی حدبندیوں سے آزاد ایک مسلم قومیت کے تصور کو پروان چڑھایا گیا‘ سے علمی اختلاف کرنا مشکل ہے اگرچہ ہماری ریاست کی جانب سے بارہا کوششیں کی گئیں‘ پر اِن مقاصد کے حصول میں ناکامی رہی ہے۔ ان مقاصد کے حصول میں ناکامی نظریہ پاکستان کی کمزوری کو ثابت کرتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بہت موزوں ہے‘ جو پاکستان کے نظریاتی وجود کے ’’باریک نکات‘‘ کو ’’گہرائی‘‘ سے سمجھنا چاہتے ہیں۔
سات سو بارہ عیسوی اور 1947 عیسوی کے اِن واقعات کو آپس میں ملانے کی یہ کوشش پاکستان کے رکھوالوں اور نظریہ پاکستان کی ترویج کرنے والوں کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کوشش سے موجودہ پاکستان اور مذہب کے درمیان ایک تاریخی کنکشن بنایا جاتا ہے‘ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کے برصغیر میں ہندو ازم اور اسلام کے درمیان ہمیشہ سے ٹکراؤ رہا اور یہ تصادم ہمیشہ برقرار رہے گا لیکن سچائی یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی کہانی اور پاکستان کے موجودہ قوم پرستی میں کافی تضادات پائے جاتے ہیں۔ یورپ سے حاصل کئے ہوئے نیشنلزم اور نیشن اسٹیٹ کے ماڈل اس بات پر زور دیتے ہیں کے زبان‘ برادری اور علاقائی ربط ضروری ہیں۔پاکستانی نیشنل ازم میں بھی یہ سب چیزیں موجود ہیں لیکن محمد بن قاسم ایک عرب حملہ آور کا یہاں رہنے والے لوگوں اور اس علاقے‘ جو آگے چل کر پاکستان بننے والا تھا سے ایسا کسی قسم کا کوئی ربط نہیں تھا۔ پاکستانی نیشنل ازم کا انوکھا پن 1967ء میں وجود میں آنے والے ملک کے جغرافیائی مطالعے سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے‘ جہاں ایک طرف ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور مشرقی اور مغربی حصے وجود میں آئے‘ تو وہیں (سابق) مشرقی پاکستان ہندوستان سرحد کے ساتھ سینکڑوں گھرے ہوئے علاقوں کی موجودگی بھی اس علاقائی اتحاد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے‘ جو کسی قوم کے ریاست بننے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ آخر میں یہ نظریہ کے برصغیر میں رہنے والے تمام مسلمان ایک جیسے مذہبی عقائد کی وجہ سے متحد ہیں اور یہ کہ پاکستان برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا‘ تب مشکل میں نظر آتا ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اب بھی بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔پاکستان میں جاری مختلف نسلی و قوم پرست تحریکیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھی اس نظریئے کو کمزور کرتی ہے کہ اسلام ملک کے تمام لوگوں کو متحد رکھ سکتا ہے۔
’’مسلم زائن: پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ‘‘ میں مصنف فیصل دیوجی پاکستان کی تخلیق کے بارے میں ایک ایسا فریم ورک پیش کرتے ہیں‘ جس کے ذریعے اوپر بیان کئے گئے مختلف تضادات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ دیوجی کے نزدیک پاکستان صیہونیت کی ایک مثال ہے‘ جس کے مطابق قومی شناخت مذہب کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ دیوجی کے اس استدلال کے مطابق پاکستان اسرائیل سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ دونوں قومیں برطانوی راج کے تنزلی کے دور میں تخلیق ہوئیں۔ دونوں نے ہی تشدد کے شکار اقلیتوں کے لئے پناہ گاہ ہونے کا دعویٰ کیا اور دونوں کے وجود میں آتے ہی وسیع پیمانے پر ایسے لوگوں نے ان نئے ملکوں کو اپنا مسکن بنایا‘ جو پہلے کبھی یہاں کے رہنے والے نہیں تھے۔ اگر اس طرح دیکھا جائے‘ تو پاکستان اور اسرائیل دونوں میں نیشنل ازم کی بنیاد زبان اور نسل کے بجائے مذہب کو قرار دیا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ مذہبی عقائد ایک کمیونٹی کو متحد رکھنے کے لئے کافی ہیں جبکہ علاقے‘ زبان اور قومیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ تمام یہودیوں کو اسرائیل میں خوش آمدید کہا جاتا ہے‘ بھلے ہی وہ پہلے کہیں کے بھی رہنے والے ہوں!1947ء میں برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں پاکستان کی بھی یہی پالیسی تھی جیسا کہ بینیڈکٹ اینڈرسن کا کہنا ہے ’’تمام قومیں تصوراتی برادریاں ہیں‘ جن میں شناخت اور اتحاد کی بنیاد ایک ثقافت‘ زبان اور علاقے کو بنایا جاتا ہے۔‘‘ اسی بناء پر اسرائیل اور پاکستان کو بھی قوم تصور کیا گیا‘ جن میں مذہبی کمیونٹیز کو من مانی جگہیں فراہم کرکے قومی شناخت دینے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان اور اسرائیل کا اِس طرح موازنہ کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ دیوجی اپنی کتاب کی شروعات میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق جیسی شخصیت نے بھی 1981ء میں دونوں ممالک (پاکستان اور اسرائیل) کے درمیان اِن مماثلتوں کو نوٹ کیا تھا۔
گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسرائیل کی تخلیق اور اس کے پیچھے موجود محرکات پاکستان کی تخلیق سے کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ سب سے بڑا فرق یہ کے صیہونیوں کے نزدیک اسرائیل کی سرزمین ایک روحانی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے‘ جس سے دیوجی کے اس اصرار کی تردید ہوتی ہے کہ صیہونی نیشنل ازم بنیادی طور پر زمینی و علاقائی نوعیت نہیں رکھتا۔ بہرحال کتاب ’مسلم زائن‘ اسرائیل کے بجائے پاکستان کے بارے میں لکھی گئی ہے اور دیوجی کا دونوں ممالک کا موازنہ کرنا ان بہت سارے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے جن سے اگے چل کر نظریہ پاکستان کو ایک ساخت فراہم کی گئی۔
’مسلم زائن‘ تاریخ کی کتاب بھی نہیں حالانکہ دیوجی نے ماضی کے بارے میں بڑی تفصیل سے اور موجودہ پاکستان پر کم کم ہی لکھا ہے لیکن پھر بھی یہ کتاب تاریخ ایسے بیان کرتی ہے‘ جس میں اصل سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی حالات و واقعات کے بجائے نظریہ پاکستان کی تخلیق و ترویج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔’مسلم زائن‘ پڑھنے کے بعد دیوجی کی اس دلیل کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں اور مستقبل کی تعمیر کے لئے علاقائی حدبندیوں سے آزاد ایک مسلم قومیت کے تصور کو پروان چڑھایا گیا‘ سے علمی اختلاف کرنا مشکل ہے اگرچہ ہماری ریاست کی جانب سے بارہا کوششیں کی گئیں‘ پر اِن مقاصد کے حصول میں ناکامی رہی ہے۔ ان مقاصد کے حصول میں ناکامی نظریہ پاکستان کی کمزوری کو ثابت کرتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بہت موزوں ہے‘ جو پاکستان کے نظریاتی وجود کے ’’باریک نکات‘‘ کو ’’گہرائی‘‘ سے سمجھنا چاہتے ہیں۔