ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاست برداشت اُور سیاست!
تحریک انصاف صرف پاکستان کے مستقبل کا ہی نہیں بلکہ اُس ارتقائی سمت کا تعین بھی چاہتی ہے‘ جس میں اختیارات کے عوض ذاتی مفادات اور اثاثوں کا تحفظ نہ ہو لیکن عام انتخابات اور پارلیمانی محاذ پر خاطرخواہ کامیابی کے لئے درکار مہارت سے عاری انقلابی جماعت کا سفر آسان نہیں‘ جس میں مغلظات اور دشنام طرازی برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔ پاکستان کی سیاست میں اخلاق سے گری ہوئی زبان کا استعمال تو بہت ہی معمولی سی بات ہے یہاں تو سیاست میں حصہ لینے والے کا کردار ہی مشکوک ہو جاتا ہے اور عمومی تاثر یہی ہے کہ جس کسی کو اپنا حسب نسب معلوم نہ ہو وہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے کر دیکھے‘ پورے خاندان کے ہر ایک فرد کی ’’اوّل تا آخر‘‘ حقیقت معلوم ہو جائے گی!
براہِ راست مغلظات ہوں‘ ذو معنی فقرے چست کرنے ہوں یا طنز و الزام دینے ہوں۔ ماں‘ بہن اور بیٹی کا حوالہ لازمی ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ سمجھ کچھ یوں آئی کہ یہاں عورت ذات کو اپنی ملکیت میں رکھی کوئی چیز گردانا جاتا ہے اور اسی تعلق کے ناطے سامنے والے کی ’جائیداد‘ پر کیچڑ اچھال کر اُس ’’زخمی مردانہ انا‘‘ کی تسکین کا سامان کیا جاتا ہے جو مجروح ہونے کا بہانہ ہی تراشتی رہتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اگر گالم گلوچ اور کردار کشی کے ضمن میں کھنگالا جائے تو سلسلہ بہت دور تک جا نکلتا ہے۔ قومی اسمبلی کی لابی سے گیٹ تک ہوا تماشہ ہماری سیاسی تاریخ میں ایک نیا اضافہ ہے۔ ’پھٹیچر‘ اور ’ریلو کٹا‘ جیسے الفاظ کے مفہوم سمجھاتے مختلف نیوز چینلز پر جمعرات (9مارچ) کی سہ پہر اچانک بریکنگ نیوز آئی کہ دو اراکینِ قومی اسمبلی میں تلخ کلامی ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو مکا جڑ دیا۔ یہ خبر آج بھی ہیڈلائن میں ہے اور 13مارچ کے روز دونوں اراکین اسمبلی کی رکنیت چند روز کے لئے معطل کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ انتخابی مؤقف ہماری سیاسی جماعتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غدار کہنا ناقابلِ برداشت ٹھہرا لیکن دوسروں کے لئے ’’مودی کا یار‘ غدار‘‘ کا نعرہ لگانا جائز سمجھنا کہاں تک مبنی برانصاف ہے۔ کسی کے لئے بھی منشی لفظ طعنہ بنا دے‘ محمود خان اچکزئی کا مذاق اڑائے‘ مولانا فضل الرحمان‘ بلاول‘ خورشید شاہ سمیت ہر کسی کا اُلٹا نام تجویز کرے‘ کیونکہ ان تمام سیاستدانوں کے حامیوں کی دِل آزاری تو ہوتی ہی نہیں نا۔ گھونسا مارنے پر بھی شاباش دی گئی بلکہ یہ تک کہا گیا کہ ’’میں ہوتا تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔۔۔‘‘
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ اور ’’جمہور‘‘ کومے میں ہیں! جبکہ جو عناصر قومی اسمبلی کی راہداری میں ہوئے شرمندگی بھرے تصادم سے یہ درس دے رہے ہیں کہ ’’عوامی نمائندے عوام کے اجتماعی روئیوں کے عکاس ہوتے ہیں‘‘ تو وہ شاید بھول گئے ہیں کہ قومی و صوبائی اسمبلی میں پہنچنے کے لئے اہلیت چاہئے ہوتی ہے جس کے لئے مرد اور خواتین دونوں کے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہ صرف کسی شخص کی بہنوں کی کردار کشی نہیں بلکہ ہر اس عورت کی تذلیل ہوئی ہے جس نے اِن ایوانوں کو اپنا ووٹ دیا۔ اس پر بھلا کوئی کیسے سمجھوتا کر سکتا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی مراد سعید اور پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے جاوید لطیف سے پہلے پنجاب اسمبلی میں ہارون بخاری نے نگہت شیخ کو اسی طرح اپنے چیمبر میں آنے کا کہہ کر خاموش کروانے کی کوشش کی جیسے کچھ عرصہ قبل سندھ اسمبلی میں صوبائی وزیر برائے ورکس اینڈ سروسز امداد پتافی نے نصرت سحر عباسی کو کہا۔ یہ وطیرہ ہے کہ اگر کوئی عورت آواز رکھتی ہے تو اس کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دو یا پھر ایسا کوئی لفظ یا جملہ کہو جس سے عورت ہراساں ہونا محسوس بھی کر لے اور بعد میں کہہ سکو میرا مطلب وہ نہیں یہ تھا جبکہ چیمبر میں بلوانے کی بات پر ’’بیک گراؤنڈ‘‘ سے یہ جملہ بھی آیا کہ ’’سارا دن بیٹھی عشقیہ گانے گاتی ہیں۔‘‘
عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز کی شادی کی تصاویر سے لے کر قطری خط تک پر جس طرح کی لغو گوئی کی جاتی رہی ہے کون نہیں جانتا۔ حافظ حمد اللہ کے زرخیز خیالات بھی قوم نے سن رکھے ہیں۔ شیخ آفتاب بھی ڈاکٹر مزاری کو ائرپورٹس پر ہونے والی ’سٹرپ سرچ‘ سمجھاتے پائے گئے ہیں۔ نعیم الحق پر ان کی جماعت کی خواتین نے جس قسم کے الزامات لگائے اس حوالے سے ان کی لیڈرشپ خاموش ہی رہی۔ میئر کراچی وسیم اختر کے منہ سے جھڑتے پھول کوئی نہیں بھول پایا لیکن وہاں بھی سماجی و سیاسی دباؤ کے تحت معافی نامہ آ گیا‘ نجی محافل میں کیا تائید ہوتی رہی وہ ایک الگ کہانی ہے!
خواتین کی توہین کرنے میں صرف مرد سیاستدان ہی نہیں بلکہ خواتین بھی شریک پائی گئی ہیں جو ایک دوسرے کی کردار کشی میں حصہ بقدرِ (سیاسی) جثہ ڈالتی رہتی ہیں۔ کیا ہم ڈاکٹر فردوس اعوان اور کشمالہ طارق والے معاملے کو بھول سکتے ہیں؟ شازیہ مری اور کشمالہ طارق کے درمیان ہوئی تلخ کلامی بھی ماضی کا حصہ ہوئی‘ تو سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر کا لہجہ اور خواتین اراکین صوبائی اسمبلی سے بات کرنے کا انداز اکثر و بیشتر خبروں کی زینت بنا رہتا ہے۔
رانا ثناء اللہ نے ایک بیہودہ بات کی تو شرمیلا فاروقی نے ڈٹ کر مریم نواز پر تہمتوں اور حقارت بھرے ذو معنی طعنوں سے مقابلہ کیا! آج بھی جاوید لطیف نے میری دو بہنوں کے حوالے سے گھٹیا الزامات لگائے تو پارلیمنٹ میں بیٹھی خواتین اسے اپنی صنف کی توہین سمجھتے اکٹھی نہیں ہو سکیں۔ اگرچہ یہ روایت تو انہوں نے مہناز رفیع یا ڈاکٹر شیریں مزاری کی ذات پر حملوں کے وقت بھی نہ ڈالی! پہلے خاموش رہ کر بعد میں سماجی و صحافتی دباؤ کے تحت مذمت جاری کرنا گھٹیا روئیوں کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ مختصراً یہ کہ عوامی نمائندہ خواتین اسمبلی اراکین کو اپنی صنف کے احترام میں متحد ہونے کے لئے بھی اپنی قیادت کے حکم نامے کا انتظار ہوتا ہے۔
پاکستان میں سیاست اُس وقت تک باشعور نہیں ہوگی‘ جب تک یہ شخصیات کی غلامی سے آزاد نہیں ہو جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی لابی سے گلی محلوں کی عمومی بول چال تک ہر معاشرت اور معاشرتی رویئے سنجیدہ توجہ اور اصلاح چاہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment