ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات
ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات
اہل خیبرپختونخوا کو مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے عام انتخابات کا انعقاد
مبارک ہو تاہم اگر اِس انتخابی تجربے کا بنیادی مقصد ’اقتدار کی نچلی سطح
تک منتقلی‘ تھا‘ تو ابھی ہم اِس ہدف (اُور سوچ) سے بہت دور ہیں۔ اِس سلسلے
میں کی جانے والی قانون سازی ہی کو لے لیجئے جس کی تشکیل میں اِس بات کا
خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ قانون ساز اراکین اسمبلی کو حاصل اختیارات کم نہ
ہوں۔ سالانہ بنیادوں پر ترقیاتی منصوبوں کے لئے جو مالی وسائل مختص کئے
جائیں‘ اُن کا بڑا حصہ ضلع‘ تحصیل یا دیہی و ملحقہ کونسلوں کی سطح پر نہیں
بلکہ صوبائی اسمبلی کے ’انتخابی حلقوں‘ پر اجارہ داری رکھنے والوں میں
تقسیم ہوں۔ اسی طرح انتظامی معاملات کا نگران ڈپٹی کمشنر اگرچہ ضلعی ناظم
کے احکامات کو سنے گا لیکن وہ ’مقامی حکومتوں کا فرمان تابع یا نمائندوں کے
سامنے جوابدہ نہیں ہوگا۔‘ کیا ضلعی ناظم اپنے ضلع میں اپنی مرضی کے شخص کی
بطورکمشنر‘ ڈپٹی کمشنر‘ ڈی آئی جی یا بڑے شہر کے لئے پولیس سربراہ کی
تقرری کرسکے گا جبکہ اِس ’لابنگ‘ کے ذریعے افسرشاہی کے نازک و شاہانہ مزاج
کا بھی اُتنا ہی خیال رکھا گیا ہے جس قدر قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے
مفادات اُور اُن کے استحقاق و اہمیت وغیرہ کا۔ آنے والے دنوں میں مقامی
حکومتیں ’شریک اقتدار‘ ہوں گی‘ ایسا بظاہر ممکن نہیں اور یہ امر بھی کھٹن
ہی ہوگا کہ اُن تمام اضلاع میں ’مقامی حکومتوں‘ کے نمائندے کچھ بہت ہی خاص
یا منفرد کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں جہاں اُن کی مخالف سیاسی جماعتوں سے
تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں نے پہلے ہی سے قدم جما رکھے
ہیں۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں ’انتخابی حلقوں‘ کی بڑی
اہمیت ہے اور سیاست دان اپنے ’انتخابی حلقوں کا دفاع‘ کرنے یا اپنے
’انتخابی حلقوں‘ میں دوسروں کے عمل دخل کو اچھی نظر سے دیکھنا تو دُور کی
بات‘ کسی بھی صورت‘ اپنے علاقوں میں کسی دوسرے کا پھلنے پھولنے والا
’اثرورسوخ‘ برداشت ہی نہیں کرتے۔ ماضی کے بلدیاتی نظام کا حاصل بھی یہی تھا
کہ جن ضلعی ناظمین کی صوبائی حکومت حتیٰ کہ گورنر صاحب تک رسائی تھی‘ اُن
کے اضلاع میں مثالی ترقی دیکھنے میں آئی۔ افسرشاہی بھی اُن اضلاع کے ارسال
کردہ ترقیاتی منصوبوں میں ’کیڑے نکالنے سے گریز کرتی رہی۔‘ آمدنی اور
اخراجات پر مبنی سالانہ حسابات کی منظوری میں بھی ایسے اضلاع کو دقت کا
سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا‘ جن کے سروں پر سیاسی عافیت سایہ کئے ہوتی تھی۔
یوں ایک حادثاتی قیادت اُبھر کر سامنے آئی جس نے مئی دو ہزار تیرہ کے عام
انتخابات میں کم ازکم خیبرپختونخوا کی حد تک فیصلہ کن کردار ادا کیا لیکن
یہ ایک الگ موضوع ہے۔
سردست سمجھ لیجئے کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول اور سیاسی ثقافت میں پائے جانے والے ’احترام اُور تعلقات‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ پیشے کے لحاظ سے مختلف اندرون ملک کاروبار‘ بین الصوبائی و اضلاعی یا بیرون ملک تجارت اور چھوٹی بڑی صنعتوں سے تعلق رکھنے والے گروہ ہر سیاسی و غیرسیاسی بنیادوں پر منتخب ہونے والی صوبائی‘ قومی اور سینیٹ میں اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہیں تاکہ ایسی قانون سازی نہ ہوسکے‘ جس سے اُن کے مفادات پر ضرب لگے یا کسی دن خدانخواستہ ایسی قانون سازی ہی نہ ہو جائے کہ ۔۔۔’’آج تک بنائے گئے جملہ قوانین کا عام آدمی (ہم عوام) کی طرح خواص پر بھی عملاً اطلاق ہو گا!‘‘ ملک کی اکثریت انگریزی زبان کی ماہر نہیں لیکن مرقع و مرصع انگلش میں احتساب کے ایسے قوانین تشکیل دیئے گئے‘ جن کی عام آدمی کو بس اتنی ہی سمجھ آ رہی ہے کہ اگر کوئی بڑا ’مگرمچھ‘ گرفت میں آ بھی جائے تو اربوں روپے لوٹنے کے الزامات میں گرفتار ہونے والا لاکھوں روپے دے کر ’باعزت بری‘ ہو سکے! پھر وصول ہونے والے لاکھوں روپوں سے ’ادارہ جاتی کمیشن‘ منہا کر لی جائے! ہمارے ہاں رائج سیاسی ثقافت اور سیاسی نظام کی ناقابل تردید بلکہ تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کو آزاد و خودمختار ادارہ بنا کر اس کے فیصلوں کو انتظامی ’ریموٹ کنٹرول‘ کے تابع کر دیا گیا ہے‘ جس کی ایک بیٹری حکمراں جماعت اور دوسری حزب اختلاف اپنے پاس رکھتی ہے اور دونوں کے اپنے اپنے الگ لیکن ایک جیسے مفادات ہیں: مثال کے طور پر عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہلیت کی ’کڑی شرائط‘ قواعد و ضوابط اور قانون کا حصہ بنا دی گئیں ہیں لیکن انتخابی اُمیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کا عمل ’بیان حلفی‘ اور ’اعتراض‘ پر موقوف ہے۔ عدالتوں سے سزا یافتہ‘ منظم جرائم کی پشت پناہی یا منشیات فروشی وغیرہ جیسے گھناؤنے جرائم میں براہ راست ملوث افراد بھی رسمی ’بیان حلفی‘ دے کر عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح آمدن کے لحاظ سے ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کو بھی نااہل ہونا چاہئے بلکہ اُن کی اسمبلی رکنیت تک ختم کرنے کے قواعد موجود ہیں‘ جن پر خاطرخواہ انداز میں عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
بات صرف ایک‘ دو یا چند سرکاری اِداروں کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ووٹ کی طاقت سے اِقتدار پر حاوی کرداروں نے اِس پورے عمل کو نہ صرف محدود کرکے رکھ دیا ہے بلکہ اسے ’’مہنگا‘ پُرخطر اُور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے شرفاء کی پہنچ سے دُور‘ کرنے کا درپردہ و ظاہری مقصد بس یہی ہے کہ ’صرف اُور صرف‘ اُنہی افراد کو ’شریک اقتدار‘کیا جائے جو کسی مرحلے پر ’احترام و تعلقات کی بنیادوں پر استوار مفادات کی ’سیاسی و روائتی ثقافت‘ کے لئے خطرہ ثابت نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں وہاں سیاست دان تو بہت دکھائی دیتے ہیں لیکن اِس اصطلاح کو عملی جامہ پہنانے والے ’اصلاح کاروں‘ کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ خود پر انقلاب‘ نظریات‘ قوم پرستی یا اِصلاح کا جنون اور مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کے خلاف جہاد جیسے عزائم طاری کرنے والوں کو یا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جاتا ہے یا ضمیر کے قیدی اِس عمل میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ ’اقتدار و ایوانوں تک محدود سیاست‘ سے عملاً کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں‘ جو اپنے اصولی مؤقف سے ’رجوع‘ کرتے ہوئے ’سیاسی احترام اُور تعلقات‘ کی ’بہتی گنگا‘ میں ہاتھ دھو کر اُس معاہدے اور فہرست میں بناء تحریر اپنا نام ثبت کروا دیتے ہیں‘ جسے ’استحصالی کلب‘ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اِس کلب کا ’یک نکاتی مقصد‘ یہ ہے کہ کسی بھی صورت اور صورتحال میں ذاتی یا سیاسی مفادات پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ ملک گیرسطح پر ’سیاست اور جرائم‘ میں خاص تعلق (بھائی چارہ) عام ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ صرف اور صرف سیاست ہی کی کارستانی ہے کہ جس کے سبب ایک طرف علوم و فنون‘ تحریروتحقیق‘ تعلیم وصحت اُور زراعت جیسے شعبوں میں ترقی نہیں ہو پا رہی تو دوسری طرف اِنسانی حقوق کی ادائیگی‘ بلااِمتیاز قانون و انصاف تک رسائی اور عام آدمی کو اپنی جان و مال کے تحفظ کا احساس تک نہیں رہا! سیاست نے ہمیں طبقات در طبقات تقسیم کر رکھا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ ’اجتماعی قومی ترجیحات‘ کے تعین یک سوئی کا فقدان ہے۔ ہمیں ایک ایسے متفقہ و مشترکہ قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو بالخصوص توانائی و اقتصادی شعبوں میں درپیش
بحرانوں کا پائیدار حل ثابت ہو۔ ’وائے ناکامی‘ یہ بھی ہے کہ ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات کے لئے آبادی کو ’حلقوں (ووٹر لسٹوں)‘ میں تقسیم کرکے بالغ حق رائے دہی دے دیا گیا ہے لیکن کلیدی فیصلہ سازی میں عام آدمی کا کردار محدود سے محدود رکھا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں کئی ایک بیرونی دشمنوں سے واسطہ ہو لیکن اصل تباہی تو داخلی طور پر موجودہ نظام سے ہے‘ جس میں ریاست و سیاست عام آدمی کے حقوق اَدا نہیں کر رہی۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے تو کیوں؟ اُور سماعتوں کے لئے خوشگوار ’مقامی حکومت ہی بنیادی حکومت‘ جیسا نام (سبب تسمیہ) اُدھار تو لے لیا گیا ہے لیکن اِس سے جڑے تقاضوں‘ ذمہ داریوں‘ فکری‘ شعوری اُور معنوی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا رہا‘ آخر کیوں؟
سردست سمجھ لیجئے کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول اور سیاسی ثقافت میں پائے جانے والے ’احترام اُور تعلقات‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ پیشے کے لحاظ سے مختلف اندرون ملک کاروبار‘ بین الصوبائی و اضلاعی یا بیرون ملک تجارت اور چھوٹی بڑی صنعتوں سے تعلق رکھنے والے گروہ ہر سیاسی و غیرسیاسی بنیادوں پر منتخب ہونے والی صوبائی‘ قومی اور سینیٹ میں اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہیں تاکہ ایسی قانون سازی نہ ہوسکے‘ جس سے اُن کے مفادات پر ضرب لگے یا کسی دن خدانخواستہ ایسی قانون سازی ہی نہ ہو جائے کہ ۔۔۔’’آج تک بنائے گئے جملہ قوانین کا عام آدمی (ہم عوام) کی طرح خواص پر بھی عملاً اطلاق ہو گا!‘‘ ملک کی اکثریت انگریزی زبان کی ماہر نہیں لیکن مرقع و مرصع انگلش میں احتساب کے ایسے قوانین تشکیل دیئے گئے‘ جن کی عام آدمی کو بس اتنی ہی سمجھ آ رہی ہے کہ اگر کوئی بڑا ’مگرمچھ‘ گرفت میں آ بھی جائے تو اربوں روپے لوٹنے کے الزامات میں گرفتار ہونے والا لاکھوں روپے دے کر ’باعزت بری‘ ہو سکے! پھر وصول ہونے والے لاکھوں روپوں سے ’ادارہ جاتی کمیشن‘ منہا کر لی جائے! ہمارے ہاں رائج سیاسی ثقافت اور سیاسی نظام کی ناقابل تردید بلکہ تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کو آزاد و خودمختار ادارہ بنا کر اس کے فیصلوں کو انتظامی ’ریموٹ کنٹرول‘ کے تابع کر دیا گیا ہے‘ جس کی ایک بیٹری حکمراں جماعت اور دوسری حزب اختلاف اپنے پاس رکھتی ہے اور دونوں کے اپنے اپنے الگ لیکن ایک جیسے مفادات ہیں: مثال کے طور پر عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہلیت کی ’کڑی شرائط‘ قواعد و ضوابط اور قانون کا حصہ بنا دی گئیں ہیں لیکن انتخابی اُمیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کا عمل ’بیان حلفی‘ اور ’اعتراض‘ پر موقوف ہے۔ عدالتوں سے سزا یافتہ‘ منظم جرائم کی پشت پناہی یا منشیات فروشی وغیرہ جیسے گھناؤنے جرائم میں براہ راست ملوث افراد بھی رسمی ’بیان حلفی‘ دے کر عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح آمدن کے لحاظ سے ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کو بھی نااہل ہونا چاہئے بلکہ اُن کی اسمبلی رکنیت تک ختم کرنے کے قواعد موجود ہیں‘ جن پر خاطرخواہ انداز میں عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
بات صرف ایک‘ دو یا چند سرکاری اِداروں کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ووٹ کی طاقت سے اِقتدار پر حاوی کرداروں نے اِس پورے عمل کو نہ صرف محدود کرکے رکھ دیا ہے بلکہ اسے ’’مہنگا‘ پُرخطر اُور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے شرفاء کی پہنچ سے دُور‘ کرنے کا درپردہ و ظاہری مقصد بس یہی ہے کہ ’صرف اُور صرف‘ اُنہی افراد کو ’شریک اقتدار‘کیا جائے جو کسی مرحلے پر ’احترام و تعلقات کی بنیادوں پر استوار مفادات کی ’سیاسی و روائتی ثقافت‘ کے لئے خطرہ ثابت نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں وہاں سیاست دان تو بہت دکھائی دیتے ہیں لیکن اِس اصطلاح کو عملی جامہ پہنانے والے ’اصلاح کاروں‘ کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ خود پر انقلاب‘ نظریات‘ قوم پرستی یا اِصلاح کا جنون اور مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کے خلاف جہاد جیسے عزائم طاری کرنے والوں کو یا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جاتا ہے یا ضمیر کے قیدی اِس عمل میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ ’اقتدار و ایوانوں تک محدود سیاست‘ سے عملاً کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں‘ جو اپنے اصولی مؤقف سے ’رجوع‘ کرتے ہوئے ’سیاسی احترام اُور تعلقات‘ کی ’بہتی گنگا‘ میں ہاتھ دھو کر اُس معاہدے اور فہرست میں بناء تحریر اپنا نام ثبت کروا دیتے ہیں‘ جسے ’استحصالی کلب‘ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اِس کلب کا ’یک نکاتی مقصد‘ یہ ہے کہ کسی بھی صورت اور صورتحال میں ذاتی یا سیاسی مفادات پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ ملک گیرسطح پر ’سیاست اور جرائم‘ میں خاص تعلق (بھائی چارہ) عام ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ صرف اور صرف سیاست ہی کی کارستانی ہے کہ جس کے سبب ایک طرف علوم و فنون‘ تحریروتحقیق‘ تعلیم وصحت اُور زراعت جیسے شعبوں میں ترقی نہیں ہو پا رہی تو دوسری طرف اِنسانی حقوق کی ادائیگی‘ بلااِمتیاز قانون و انصاف تک رسائی اور عام آدمی کو اپنی جان و مال کے تحفظ کا احساس تک نہیں رہا! سیاست نے ہمیں طبقات در طبقات تقسیم کر رکھا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ ’اجتماعی قومی ترجیحات‘ کے تعین یک سوئی کا فقدان ہے۔ ہمیں ایک ایسے متفقہ و مشترکہ قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو بالخصوص توانائی و اقتصادی شعبوں میں درپیش
بحرانوں کا پائیدار حل ثابت ہو۔ ’وائے ناکامی‘ یہ بھی ہے کہ ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات کے لئے آبادی کو ’حلقوں (ووٹر لسٹوں)‘ میں تقسیم کرکے بالغ حق رائے دہی دے دیا گیا ہے لیکن کلیدی فیصلہ سازی میں عام آدمی کا کردار محدود سے محدود رکھا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں کئی ایک بیرونی دشمنوں سے واسطہ ہو لیکن اصل تباہی تو داخلی طور پر موجودہ نظام سے ہے‘ جس میں ریاست و سیاست عام آدمی کے حقوق اَدا نہیں کر رہی۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے تو کیوں؟ اُور سماعتوں کے لئے خوشگوار ’مقامی حکومت ہی بنیادی حکومت‘ جیسا نام (سبب تسمیہ) اُدھار تو لے لیا گیا ہے لیکن اِس سے جڑے تقاضوں‘ ذمہ داریوں‘ فکری‘ شعوری اُور معنوی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا رہا‘ آخر کیوں؟
No comments:
Post a Comment