اکثر اُوقات بھرے شہر کے سناٹے میں۔۔۔ اِس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں!
باکمال لوگ: ڈاکٹر سیّد اَمجد حسین
طب پیشہ نہیں بلکہ اِس شعبے سے وابستہ افراد کو غیرمعمولی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے
امریکہ میں ’ڈاکٹروں کی ہڑتال‘ کا تصور نہیں‘ نجی علاج گاہیں کمائی کا ذریعہ نہیں ہونی چاہیءں
شبیر حسین اِمام
ڈاکٹر سیّد اَمجد حسین امریکہ کی معروف جامعہ ’ٹولیڈو کالج آف میڈیسن اینڈ لائف سائنسیز‘ کے شبعہ ’کارڈووسکولر سرجری‘ سے وابستہ ہیں‘ جہاں وہ گذشتہ 35برس سے بطور رضاکار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ طب کی دنیا میں ’خدمت کے جذبے سے سرشار‘ ڈاکٹر امجد کی زندگی کا ایک معتبر حوالہ طب کے شعبے میں اُن کی پچاس سے زائد تحقیقی مقالات ہیں‘ جنہیں امریکہ اور عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور اُن کا شمار اپنے شعبے کے محض ماہرین میں نہیں ہوتا بلکہ وہ طب کی دنیا میں غیرمعمولی تحقیق کے ذریعے اپنی خداداد صلاحیتوں اور وسیع مطالعے کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ڈاکٹر سیّد امجد حسین ایک معروف فوٹوگرافر (عکاس) بھی ہیں جن کی بنائی ہوئی تصاویر کو عالمی سطح پر سراہا جا چکا ہے‘ اور اُنہیں فوٹوگرافی پر اعزاز بھی مل چکا ہے۔ آپ وہ واحد فوٹوگرافر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں جنہوں نے دریائے سندھ کے منبع سے اُس کے سمندر میں جاملنے تک کے راستے پر سفر کیا۔ تبت سے کراچی تک اُن کا یہ پرخطر سفر اور مہم جوئی اس بات کا ثبوت تھی کہ ڈاکٹر امجد کو کوئی بھی آسان کام کرنے کا شوق نہیں۔ وہ شہرت کے لئے بیساکھیوں کے محتاج نہیں‘ اُنہیں دوسروں کے سہارے کی بھی ضرورت نہیں اور اپنی خوداعتمادی اور کچھ کر گزرنے کی جستجو میں وہ کسی بھی طور ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔ آپ نے مذہب‘ ثقافت‘ تاریخ اور عالمی سیاسی منظرنامے کے حوالے سے اب تک 13 کتابیں تصنیف کی ہیں‘ جن میں دو کتابوں کو علم و ادب کے شعبوں میں غیرمعمولی قرار دیتے ہوئے اباسین ادبی ایوارڈ سے بھی نوازہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرامجد حسین دنیا کے اُن چند خوش قسمت شخصیات میں شامل ہیں جن کی تکنیکی‘ فنی‘ علمی وادبی خدمات کو اُن کی زندگی میں سمجھا اور سراہا گیا ہے۔ اُنہیں امریکہ میں کئی ایک ایسے اعزازات ملے ہیں جو کسی دوسرے پاکستانی نژاد امریکی کے حصے میں نہیں آئے۔
پشاور میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر امجد حسین کے چہرے پر اطمینان اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملنسار طبیعت کی وجہ سے وہ کہیں بھی ہوں شمع محفل رہتے ہیں۔ انہیں پشاور سے خاص لگاؤ ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پشاور اُن کے خون میں گردش کرتا ہے اور اُن سے بات چیت کی جائے تو کسی نہ کسی حوالے سے وہ بات کو گھما پھرا کر پشاور پر کچھ اس مہارت سے منطبق کرتے ہیں کہ موضوع جو بھی اس میں پشاور کی جھلک اور پشاور کے رنگوں کی چاشنی جگمگا اُٹھتی ہے۔ روزنامہ آج کے لئے کالم نگاری کے ذریعے وہ اہل پشاور کو اُن کی اقدار و روایات کی یاددہانی کرانے کی منفرد کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ پشاور کی گلی کوچوں‘ یہاں کی ہندکو (مادری) زبان و ادب اور بالخصوص اُردو کلاسیکل ادب کے رسیّا ڈاکٹر امجد حسین جہاں پیدل چلنے کے معمول کو ترک نہیں کرتے‘ اِسی طرح وہ کسی بھی شہر‘ خطے اور ملک میں ہوں‘ کتابیں اپنے ہمراہ ضرور رکھتے ہیں۔ حال ہی میں پشاور میں اپنے مختصر قیام کے دوران اُنہوں نے روزنامہ آج کے قارئین کے لئے اپنی مصروفیت سے کچھ وقت عنایت کیا اور نئی نسل کو کتاب سے تعلق استوار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ’’نصاب کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کتاب علم کا ذریعہ ہی نہیں شعور کی دنیا میں سفر کا رہنما ہوتا ہے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ طالبعلموں میں کتابوں سے محبت کو اُبھاریں‘ اُنہیں کتب بینی سے وابستہ وپیوستہ کریں۔ لائبریریوں کو آباد کریں اور سب سے بڑھ کر طالب علموں کو صحت مند سرگرمیوں کی تلقین کریں‘ جیسا کہ روزانہ واک (walk) کا معمول۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مشینی انداز میں زندگی بسر کرنے والے اہل پشاور کی اکثریت اپنی صحت کے معاملے میں زیادہ حساس نہیں۔ صحت کے بارے میں عمومی احتیاطیں اور کھانے پینے کے معمولات کی اصلاح کے حوالے سے معاشرے میں عمومی سطح پر شعور اُجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں طب کے شعبے سے جڑے ماہرین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی مصروفیات سے کچھ نہ کچھ وقت مختص کرکے ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کی رہنمائی کریں۔‘‘
ڈاکٹر امجد کو سیاست میں آنے کا شوق نہیں‘ وہ پشاور سے محبت کرتے ہیں اور یہاں کے ہر دکھ سکھ میں ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے بھی شریک ہونے کی سبیل ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔ انہیں سانحۂ پشاور پر دلی صدمہ ہوا۔ پشاور میں امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے چاہتے ہیں کہ متعلقہ ادارے خاطرخواہ عملی اقدامات کرنے میں مزید تاخیر نہ کریں۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’کسی معاشرے میں خوف کا پایا جانا ایک منفی محرک ہوتا ہے‘ جس سے نجات کے لئے پشاور کی قدیم روایات کو زندہ کرنا ہو گا جہاں ہر کوئی دوسرے کا سہارا بن کر اُس کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا تھا۔ طب کے شعبے اور طبی سہولیات کے حوالے سے اُن کا نکتۂ نظر اِس بات کا غمازی کرتا ہے کہ اِس حوالے سے بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ڈاکٹر امجد طب کی تعلیم کے نجی اداروں کے قیام کو حوصلہ افزأ پیش رفت قرار دیتے ہیں تاہم اُن کا کہنا ہے کہ طبی تعلیم معیاری ہونی چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’امریکہ میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کا تصور تک ممکن نہیں۔‘‘ یقیناًبہتری کی جس گنجائش کے بارے میں ڈاکٹر امجد نے اشارہ کیا‘ وہ صرف طب ہی نہیں بلکہ کئی دیگر شعبوں کے لئے بھی ضروری ہے مثال کے طور پر پشاور کے رہنے والوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ گلی کوچوں اور بالخصوص پشاور کے مضافاتی علاقوں سے ٹھوس گندگی اُٹھانے سمیت نکاسی آب کے منصوبے کی توسیع آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب اور آئندہ کم از کم سو برس کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ترتیب دی جانی چاہیءں۔ ڈاکٹر امجد بناء اظہار بھی پشاور کے مسائل پر دکھی دکھائی دیئے۔ بات بات پر مسکرانے جواز تلاش کر لینے کے ماہر‘ ڈاکٹر امجد کے لئے پشاور کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زیادہ یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ اِس سلسلے میں متعلقہ حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے۔ اُنہوں نے اشارتاً کہا کہ ’’وسائل پر بوجھ اور بہتر روزگار و تعلیم کے لئے خیبرپختونخوا کے پسماندہ اضلاع سے مرکزی شہر پشاور نقل مکانی کرنے کے رجحان پر بھی ارباب اختیار کی نظر ہونی چاہئے‘ اگر ترقیاتی حکمت عملیوں میں پسماندہ اضلاع کو ترجیح دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اپنے آبائی گھروں اور معاشرت کو چھوڑ کر پشاور یا ملک کے دیگر بڑے شہروں کا رُخ کریں۔‘‘
ڈاکٹر سیّد اَمجد حسین کی شخصیت کے اِس قدر پہلو اور اِس قدر الگ الگ حوالے ہیں کہ کسی ایک نشست میں نہ تو ہر ایک موضوع پر اُن کے خیالات اور جدید نظریات سے متعلق بات ہو سکتی ہے اور نہ ہی اُن کی علمی ادبی شخصیت کو پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ پراسرار ہیں‘ خودنمائی سے الگ رہتے ہیں‘ خوشامد پسند نہیں‘ اِسی لئے برملا جذبات کا اظہار اور دوسروں کو حقیقت کا آئینہ دکھانے میں مصلحت سے کام نہیں لیتے۔ وہ کمال درجے کا حافظہ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے بچپن کی ایسی باتیں بمعہ باریک سے باریک اور چیدہ چیدہ تفصیلات بھی یاد ہیں جو حیرت انگیز بات ہے اور شاید ہی لاکھوں میں کوئی ایک شخص ایسا ہو‘ جس کی ذات میں اتنی خوبیاں اور کمالات یکجا ہوں‘ جس قدر ڈاکٹر سیّد اَمجد حسین میں یکجا ہیں۔ آپ گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ میں آباد ہیں‘ جہاں کے علمی ادبی حلقوں اور بالخصوص صحافتی و علم کے رسیا تحقیق کار آپ کے افکار سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنے لئے علم و عمل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں نئے زوائیوں سے سوچتے ہیں۔ کاش پشاور کا یہ سپوت‘ اسے واپس مل جائے‘ جو اصلاح مڈاکٹر اَمجد حسین کو ملنے والے اعزازات کی کمی نہیں لیکن اِن میں چند ایک ایسے بھی ہیں‘ جن کے لئے اُنہوں نے کبھی کوشش نہیں کی لیکن پاکستان اور امریکہ میں ارباب اختیار نے اُن کی علمی ادبی بے لوث خدمات و انسان دوستی کا اعتراف کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کی جامعہ ’یونیورسٹی آف ٹولیڈو‘ میں کارڈو ویسکولر (Cardiovascular Surgery) کے شعبے کی ایک شاخ (Chair) ڈاکٹر امجد کے نام منسوب ہے۔ اِسی قسم کا دوسرا اعزاز سینیٹ چارلیس مرسی ہسپتال (St. Charles Mercy Hospital) کی جانب سے اُنہیں دیا گیا‘ جو اُن کے نام نامی سے منسوب ہے۔ آپ کا تیسرا اعزاز بطور ’جامعہ ٹولیڈو‘ سے ’ویزیٹنگ پروفیسرشپ‘ تعلق ہے‘ جس سے آپ ’ہسٹری آف میڈیسن (طب کی تاریخ)‘ کے حوالے سے بطور معلم وابستہ ہیں۔ آپ کا چوتھا قابل ذکر اعزاز ’خیبرمیڈیکل کالج‘ کی طرف سے ہے اور بھلا یہ کیونکر ممکن تھا کہ ’پشاور‘ اپنے اِس سپوت کو فراموش کردیتا۔ خیبرمیڈیکل کالج کی جانب سے آپ کے نام ’کلینیکل سکلز سنٹر‘ کیا گیا‘ جو رہتی دنیا تک اِس بات کا بیان رہے گا‘ کہ ڈاکٹر اَمجد حسین نے طب کے شعبے سے اپنی وابستگی کا حق عملی طور پر بھی اَدا کیا۔عاشرے اور خدمت سے اِس شہر کی تشنگی مٹا سکے۔ اہل پشاور سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملے کے بعد جس ذہنی کرب و اذیت سے گزر رہے ہیں‘ اس میں انہیں کسی پرخلوص و ایماندار قائد کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے قائد و رہنما کی جو اپنی ذات سے آگے پشاور کو رکھ کر سوچتا اور دوسروں کو سوچنے کی طرف متوجہ کرنے کا ہنر (آرٹ) جانتا ہے۔
ڈاکٹر سیّد امجد حسین فی الوقت ’یونیورسٹی آف ٹولیڈو‘ کے بورڈ آف ٹرسٹیز ہیں جبکہ اُنہوں نے شمال مغربی اوہایو ریاست کے ادارے ’پبلک براڈکاسٹ‘ کے ’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘ میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ مذاہب کے درمیان مشترکات کے بارے تحقیق کی وجہ سے بھی اُن کا ذکر علمی ادبی حلقوں میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ امن سے عبارت ’اسلام‘ کے پیغامات کی تشریح اور مسلم معاشرے کے خدوخال‘ اسلام کے معاشی و اقتصادی نظام‘ معاشرت اور بول چال کے حوالے سے اُن کے سلیس نظریات اپنی جگہ اہم ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اُن کی توانائیوں اور توفیقات میں اضافہ فرمائے اور پشاور کے ذکر سے آباد اُن کے دم کرم سے علم و حکمت کے موتی تادیر بکھرتے رہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر امجد خود اِس بات کا ذکر نہیں کرتے اور اُن کے جاننے والے بہت سے لوگ اِس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ ڈاکٹر امجد اور اُن کی (مرحوم) اہلیہ پاکستان سے ہرسال ذہین و مستحق طلبہ کو امریکہ اعلیٰ تعلیم کے مدعو کرتے ہیں اور وہ فنڈ جو پچاس ہزار ڈالر سے انہوں نے قائم کیا تھا ڈھائی لاکھ ڈالر سے زائد ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر امجد کی ذات اُن تمام مخیر حضرات اور بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے مشعل راہ ہے‘ جو مادہ پرستی اور نفسانفسی کے عالم میں اپنی ذات و مفاد سے زیادہ کچھ نہیں سوچ پاتے! ’’
اِس زمانے میں غنیمت ہے‘ غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش‘ اَگر لگتا ہے!
صحت مند معاشرت سے متعلق شعور اُجاگر کرنے کے لئے متعلقہ ماہرین ذرائع ابلاغ سے استفادہ کریں
طب کے شعبے میں نجی اِداروں کا کردار خوش آئند ہے‘ تاہم میڈیکل کی تعلیم کے مقررہ معیار پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے
سیاست میں حصہ لینے کا شوق نہیں‘ پشاور کی خدمت فرض عین سمجھ کر نبھاتا رہوں گا
پشاور کا اِحسان بھلا کیسے فراموش کر سکتا ہوں‘ جو میری شناخت کا معتبر حوالہ ہے
علم کے ساتھ عمل سے زیادہ کوئی دوسری کارآمد شے نہیں‘ قول و فعل کے تضادات اور اپنی ذات کے بارے میں حق گوئی جیسے اوصاف معاشرے سے اُٹھتے جا رہے ہیں!
نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لئے کتاب سے رشتہ جوڑا جائے
سانحۂ پشاور پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے‘ پشاور کبھی ایسا نہ تھا‘ امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ‘ پرخلوص اُور عملی اقدامات کی ضرورت ہے
خوف خوبیوں اور جسمانی و ذہنی نشوونما پر اثرانداز ہوتا ہے‘ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے دکھ سکھ بانٹنے جیسی روایات پھر سے زندہ کرکے معاشرے کی رگوں میں سرایت کرنے والے خوف سے نجات و علاج ممکن ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔بدقسمتی سے فیصلہ سازوں کی اکثریت پشاور کی تاریخ سے واقف نہیں!۔۔۔
پشاور صحرا ہو گیا ہے؟
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں سے بہت کم پشاور کی تاریخ سے (کماحقہ) واقف ہیں!
پشاور کی ترقی کے لئے اربوں روپے مختص کئے جاتے ہیں لیکن یہ رقم خرچ نہیں بلکہ تحلیل ہو جاتی ہے؟
جس پشاور کی یاد میں دل بیقرار رہتا ہے‘ جس پشاور کو دیار غیر میں رہنے والے شادوآباد‘ ہنستا کھیلتا اُور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ اُس کے رہنے والوں کے لئے کسی پیغام نہیں بلکہ جدوجہد کی تلقین کی ضرورت ہے
سیاسی و بیدار شعور رکھنے والے اِس شہر کی تاریخ اگر جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر کی ہے تو اہل پشاور کو بھی اِس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ عملی طور پر زندہ ہیں اور اُن کا شمار زندہ نفوس ہی میں ہونا چاہئے
سوال: وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے ’پشاور‘ کے ارتقائی مراحل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ڈاکٹر اَمجد: میری نظر میں پشاور کی ترقی کا عمل کہیں رک سا گیا ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب اور ضروریات کے مطابق پشاور میں سہولیات کی فراہمی نہیں ہوسکی ہے جبکہ وسائل پر بوجھ اپنی جگہ توجہ چاہتا ہے۔ اِس سلسلے میں حال ہی میں روزنامہ آج کے ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والا میرا ایک کالم یقیناًقارئین کرام کی یاداشتوں میں محفوظ ہوگا‘ جس میں پشاور کی موجودہ حالت زار کے حوالے سے چند ایک گزارشات اور اپنے مشاہدے کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ ’’پشاور کے ساتھ نا انصافی تو اب سرکاری ضابطوں کا حصہ بن چکی ہے۔ جب مرحوم جنرل فضل حق پس از گورنری ریٹائرمنٹ کی زندگی گذار رہے تھے تو میں نے ان سے ایک نجی ملاقات میں پوچھا کہ انہیں اپنے عہد گورنری کی کسی ایسی بات کا تاسف ہے کہ جووہ نہیں کرسکے جن حضرات کو جنرل فضل حق سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ جنرل صاحب صاف گو اور بات کے کھرے تھے کہنے لگے مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میں نے صوبے کے مختلف حصوں کے لئے بہت سارے تعمیراتی کام کئے لیکن پشاور کے لئے کچھ نہیں کیا انہوں نے پنجاب کے گورنر جیلانی کی مثال دی کہ جیلانی صاحب نے لاہور کو ایک مثالی خوبصورت شہر بنانے میں بہت محنت کی اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ (پشاور کے ساتھ ہر دور میں زیادتی ہوئی اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کوئی ایک حکومت بھی پشاور سے انصاف سے نہیں کرپائی۔) سب (کی سب) صوبائی حکومتوں نے زیادتی کی لیکن متحدہ مجلس عمل نے تو زیادتی کی حد (ہی) کردی اُس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی صاحب نے‘ پشاور سمیت تمام صوبے کے ترقیاتی (مالی وسائل) فنڈز ایک بڑے جھاڑو سے سمیٹ کر سرکاری اونٹوں پر لادے اور پھر مہار پکڑے وہ ان لدے ہوئے اونٹوں کو اپنے (آبائی و) اِنتخابی ضلع بنوں لے گئے! (یوں) بنوں کے (تو) وارے نیارے ہوگئے (لیکن) پشاور کی نالیاں بند کی بند (ہی) رہیں۔ پشاور خیبرپختونخوا کا دارالحکومت ہے اور اس حوالے سے صوبے کا اہم ترین شہر ہے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے صوبائی حکمرانوں میں سے بہت کم پشاور کی تاریخ سے واقف ہیں۔ ماضی میں بھی یہ روش تھی اور حال میں بھی یہی روش ہے جب تک آپ شہر کے ماضی اور حال کو سامنے نہیں رکھیں گے ‘مستقبل کی راہیں استوار نہیں کرسکیں گے میں باہر کے ملکوں کی مثال نہیں دیتا لاہور کی مثال دیتا ہوں شہباز شریف کی حکومت نے لاہور کی زیبائی کی طرف خاطر خواہ توجہ دی ہے آپ صرف مال روڈ کو دیکھیں‘سرکاری اور نجی اشتراک سے مال روڈ کی مشہور عمارتوں کے چہروں سے گردوغبار ہٹاکر انہیں دوبارہ خوب سے خوبصورت بنایا جارہا ہے پنجاب کے لوگ لاہور کو پنجاب کا دل سمجھتے ہیں اگر یہ احساس ہمارے صوبے کے لوگوں کے دلوں میں ہوتا تو وہ بنوں کی طرف رواں ترقیاتی فنڈوں سے لدے ہوئے اونٹ راستے میں ہی روک لیتے!‘‘ ڈاکٹر سیّد امجد حسین پشاور کو اپنی ذات کا حصہ سمجھتے ہیں‘ اُن کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ نئی نسل کو پشاور کی تاریخ و ثقافت کے بارے میں آگاہ کیاجائے۔
سوال: جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پشاور کو ہر دور حکومت میں نظرانداز کیا گیا اور کوئی ایک دور حکومت بھی ایسا نہیں رہا کہ جب پشاور سے انصاف ہوا ہو‘ تو اِس مسئلے کا حل کیا ہے؟ پشاور کو خاطرخواہ توجہ کب ملے گی؟ پشاور کے حقوق کی ادائیگی کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر اَمجد: جب تک اہل پشاور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے خود متحد نہیں ہوتے‘ اُس تک استحصال یونہی ہوتا رہے گا۔ پشاور کے رہنے والوں کو اپنے گردوپیش پر نظر رکھنا ہوگی۔ سیاسی و بیدار شعور رکھنے والے اِس شہر کی تاریخ اگر جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر کی ہے تو اہل پشاور کو بھی اِس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ عملی طور پر زندہ ہیں اور اُن کا شمار زندہ نفوس ہی میں ہونا چاہئے۔ یہ بھلا کیسی زندگی ہے‘ جس میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز تک نہیں اُٹھائی جا رہی۔ میں دیکھتا ہوں کہ پشاور میں ترقیاتی عمل کے لئے ہر مالی سال میں اربوں روپے مختص کئے جاتے ہیں‘ پھر اِس خطیر رقم سے ترقیاتی کام مکمل بھی ہوتے ہیں لیکن مسائل کی شدت اور نوعیت جوں کی توں برقرار ہے۔ آخر اِس ترقی معکوس کا تسلسل توڑنا ہوگا۔ اہل پشاور کو اِس گرداب سے خود کو نکالنا ہوگا اُور جب تک وہ خود اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے‘ اُس وقت تک بہتری نہیں لائی جاسکے گی۔
سوال: کیا پشاور سے منتخب ہونے والی قیادت بھی موجودہ حالت زار کے لئے ذمہ دار ٹھہرائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر امجد: سب سے بنیادی ذمہ داری تو منتخب نمائندوں ہی کی بنتی ہے کہ وہ پشاور کے حقوق کا تحفظ کرتے۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے عجیب لگ رہا ہے کہ جب ہم پشاور کی ترقی کے حوالے سے توقعات کا اظہار کررہے ہوتے ہیں تو اِس سے مراد ’قانون ساز ایوانوں‘ کے اراکین ہوتے ہیں۔ ترقی کا کام اور ترجیحات کا تعین قانون سازوں کا نہیں بلکہ یہ تو ایک تکنیکی معاملہ ہے جو خالصتاً تکنیکی طریقے سے حل ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر کسی جگہ اُوور ہیڈ پل بنانی ہے تو اِس کا فیصلہ کسی بھی صورت قانون ساز ایوان کے رکن کو نہیں ہونا چاہئے اور ایسی صورت میں بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے جبکہ متعلقہ سرکاری اداروں کے انتظامی نگرانوں کا چناؤ بھی خود وہی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا انتظامی نگران کسی وزیر‘ مشیر یا صوبائی اسمبلی کے رکن کے سامنے اپنی رائے پیش کرسکے گا‘ جس کی تعیناتی و ترقی‘ مراعات و اختیارات خود سیاسی شخصیات کر رہی ہوں۔ جب تک ہم سیاست اور شہری ترقی کو الگ الگ نہیں کرتے۔ جب تک ہم اداروں میں سیاسی مداخلت ختم نہیں کرتے۔ جب تک ہم ذاتی و کاروباری مفادات کو سیاسی فیصلہ سازی کے اختیار سے جدا نہیں کرتے۔ جب تک ہم امانت و دیانت کے اصولوں کو نہیں اپناتے۔ جب تک ہم آئین پر اٹھائے ہوئے حلف کے ہر ہر لفظ کا پاس نہیں رکھتے اور جب تک ہم خوداحتسابی نہیں کرتے‘ اپنی ذات و کارکردگی کا محاسبہ نہیں کرتے۔ اپنی ذات سے آگے اور اپنے مفاد سے آگے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو نہیں رکھتے‘ اُس وقت تک پشاور تو کیا خیبرپختونخوا یا پاکستان کے کسی بھی ضلع کی قسمت نہیں بدلے گی۔
سوال: اہل پشاور کے جاگ اُٹھنے اور شہری ترقی سمیت جملہ حقوق سے متعلق شعور کی بیداری کے لئے قیادت کا فقدان آپ کے لئے کیا معنی رکھتا ہے؟
ڈاکٹر امجد: میں مایوس نہیں۔ اگرچہ پشاور میں اپنے ہر قیام کے موقع پر مجھے یہاں کے مسائل کی شدت بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن میں ایک مثبت سوچ اور فکر رکھنے والا شخص ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو بھی اِس بات کا پوری طرح احساس ہوگا کہ اُن سے توقعات کن حدوں کو چھو رہی ہیں۔ پشاور کی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے میں ایک کتاب مرتب کی ہے‘ جس کے مختلف ابواب میں یہاں کی ثقافت اور روایات کے بہت سے پہلوؤں کو محفوظ کر لیا گیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ’پشاور شناسی‘ کے لئے بہت سی کھوج و تحقیق کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ بنیادی ہی نہیں بلکہ کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پشاور کوئی ایسا موضوع نہیں جو دیگر شہروں کی طرح آبادی کے شمار اور متعلقہ ضروریات کے حوالے سے سمجھا جاسکے۔ یہ ایک زندہ شہر ہے‘ جس کی ہر ایک اینٹ کے ساتھ ایک کہانی اور شاندار ماضی ایسی شاندار عمارت کو سہارا دے کر کھڑا ہے‘ جو قوس قزح جیسی ہے۔ کاش ہم اِس حقیقت کا ادراک کر سکتے کہ پشاور میں پائے جانے والے سیاحتی امکانات سے کس قدر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کے سیٹھی ہاؤسیز‘ یہاں کی مساجد‘ یہاں کا فن تعمیر‘ یہاں کی بودوباش‘ زبان اور بالخصوص قلب و جاں کی تسکین کا سامان یعنی ہندکو زبان کی ترویج وترقی کیا معنی رکھتی ہے۔ کیا مفہوم رکھتی ہے اور کیا اِظہار چاہتی ہے۔
سوال: اہل پشاور کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر امجد: بہت سی خوشیوں‘ لمبی زندگی‘ امن وامان اور سکون و اطمینان کی دعاؤں‘ نیک خواہشات کے ساتھ میں حقیقت پسندی سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’’اب بھی دیر نہیں ہوئی۔‘‘ پشاور کو جاگنے اور جگانے کے لئے تحریک کی صورت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے ذاتی طورپر یہ جان پر بہت دکھ ہوتا ہے کہ پشاور جو کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور یہاں تین اطراف میں قبائلی علاقے ہونے کے باوجود بھی یہاں کے رہنے والے پرامن زندگی بسر کرتے تھے تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر وہی روشن و سنہرا دور واپس نہیں آسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک قیام امن کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لئے دعا گو بھی ہے لیکن اپنے آس پاس اور گردونواح میں مشکوک افراد پر نظر رکھنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ ہمیں اپنی مٹی سے محبت کا حق عملی طورپر ادا کرنا ہوگا۔ اگر کوئی ہمارے گردونواح میں کوڑا کرکٹ کھلے عام پھینک رہا ہے تو اُس کا ہاتھ روکنا ہوگا اور اُسے یہ بتانا ہوگا کہ ’’تم میرے شہر کو گندا کر رہے ہو!‘‘ کیا یہ سوچ اور اپنائیت بھرے ایسے جذبات پشاور میں پائے جاتے ہیں؟ اگر نہیں ہو‘ تو اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے اِس مٹی کے خمیر سے اُٹھنے والوں کو اپنا حق ادا کرنا ہوگا۔ اِس لمحۂ فکر پر میں خاص طور پر اپنے اساتذہ کرام اور علمائے کرام کو مخاطب کرنا چاہوں گا کہ وہ اہل پشاور میں صفائی کا شعور عام کریں۔ ہم سب جانتے ہیں‘ دل سے مانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ لیکن کیا عملی طورپر ہم ایسا کرتے بھی ہیں۔ اپنے اپنے گھر کی طرح گلی کوچے‘ سڑکیں اور مارکیٹیں سب پشاور کا حصہ ہیں‘ سب ہمارے گھر کا حصہ ہیں اور سب ہماری ذات کا حوالہ ہیں۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور گنجان آباد شہر میں نئی آبادی و تعمیرات کے لئے ’بلڈنگ کوڈ (تعمیراتی قواعدوضوابط)‘ پرسختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ چاہے کوئی شخص کتنا ہی بااثر اور سرمایہ دار کیوں نہ ہو‘ اگر وہ کثیر المنزلہ پلازہ بنا رہا ہے تو اُس کے لئے گاڑیوں کی پارکنگ‘ آگ بجھانے کے آلات اور دیگر حفاظتی انتظامات و ضروریات کا تعین کردہ نقشے کے مطابق فراہمی کا پابند ہونا چاہئے۔ میونسپل حکام اور پشاور کا ترقیاتی ادارہ سیاسی دباؤ اور مداخلت سے آزاد ہونے چاہیءں۔ بلدیاتی نظام فوراً سے پیشتر بحال ہونا چاہئے۔ رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کے قواعد موجود ہیں تو اُن پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا‘ اِس سلسلے میں غفلت کا مرتکب اہلکاروں کا احتساب ہونا چاہئے۔ پشاور میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور شور شجرکاری اور ٹریفک قواعد پر عمل درآمد سے کم کیا جاسکتا ہے۔ پشاور جو کبھی باغات کا شہر ہوا کرتا تھا‘ اِس کے مرکزی شاہی و وزیر باغ میں پختہ تعمیرات اور ماضی میں کی جانے والی تجاوزات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جس پشاور میں آکر اطمینان و سکون ملتا ہے‘ جس پشاور کی یاد میں دل بیقرار رہتا ہے‘ جس پشاور کو دیار غیر میں رہنے والے شادوآباد‘ ہنستا کھیلتا اُور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ اُس کے رہنے والوں کے لئے کسی پیغام نہیں بلکہ جدوجہد کی تلقین کی ضرورت ہے۔ میں صحرا میں آذان دینے جیسی بات نہیں کر رہا لیکن ’صحرائے پشاور‘ میں ’جاگتے رہو‘ کی صدائیں دینے کو جی چاہتا ہے۔ مرحوم جوہر میر نے پشاور کے بارے میں کیا خوب کہا تھا‘ اُور اِنہی الفاظ پر بات کا اختتام کرنا چاہوں گا‘ جس کی تہہ میں پیغام بھی ہے اور حقیقت کا اظہار بھی ‘ دُکھ بھی ہے اور بے حسی و بے بسی کے استعارے بھی‘ پشاور کو میری‘ آپ کی اُور ہم سب کی محبت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی محبت ہے جو غیرمشروط ہو۔ جس پر ذاتی مفادات‘ نمودونمائش کا شائبہ تک نہ ہو۔ آیئے جوہر میر کو پڑھتے ہوئے پشاور کے بارے میں سوچتے ہیں۔
امریکہ میں ’ڈاکٹروں کی ہڑتال‘ کا تصور نہیں‘ نجی علاج گاہیں کمائی کا ذریعہ نہیں ہونی چاہیءں
شبیر حسین اِمام
ڈاکٹر سیّد اَمجد حسین امریکہ کی معروف جامعہ ’ٹولیڈو کالج آف میڈیسن اینڈ لائف سائنسیز‘ کے شبعہ ’کارڈووسکولر سرجری‘ سے وابستہ ہیں‘ جہاں وہ گذشتہ 35برس سے بطور رضاکار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ طب کی دنیا میں ’خدمت کے جذبے سے سرشار‘ ڈاکٹر امجد کی زندگی کا ایک معتبر حوالہ طب کے شعبے میں اُن کی پچاس سے زائد تحقیقی مقالات ہیں‘ جنہیں امریکہ اور عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور اُن کا شمار اپنے شعبے کے محض ماہرین میں نہیں ہوتا بلکہ وہ طب کی دنیا میں غیرمعمولی تحقیق کے ذریعے اپنی خداداد صلاحیتوں اور وسیع مطالعے کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ڈاکٹر سیّد امجد حسین ایک معروف فوٹوگرافر (عکاس) بھی ہیں جن کی بنائی ہوئی تصاویر کو عالمی سطح پر سراہا جا چکا ہے‘ اور اُنہیں فوٹوگرافی پر اعزاز بھی مل چکا ہے۔ آپ وہ واحد فوٹوگرافر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں جنہوں نے دریائے سندھ کے منبع سے اُس کے سمندر میں جاملنے تک کے راستے پر سفر کیا۔ تبت سے کراچی تک اُن کا یہ پرخطر سفر اور مہم جوئی اس بات کا ثبوت تھی کہ ڈاکٹر امجد کو کوئی بھی آسان کام کرنے کا شوق نہیں۔ وہ شہرت کے لئے بیساکھیوں کے محتاج نہیں‘ اُنہیں دوسروں کے سہارے کی بھی ضرورت نہیں اور اپنی خوداعتمادی اور کچھ کر گزرنے کی جستجو میں وہ کسی بھی طور ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔ آپ نے مذہب‘ ثقافت‘ تاریخ اور عالمی سیاسی منظرنامے کے حوالے سے اب تک 13 کتابیں تصنیف کی ہیں‘ جن میں دو کتابوں کو علم و ادب کے شعبوں میں غیرمعمولی قرار دیتے ہوئے اباسین ادبی ایوارڈ سے بھی نوازہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرامجد حسین دنیا کے اُن چند خوش قسمت شخصیات میں شامل ہیں جن کی تکنیکی‘ فنی‘ علمی وادبی خدمات کو اُن کی زندگی میں سمجھا اور سراہا گیا ہے۔ اُنہیں امریکہ میں کئی ایک ایسے اعزازات ملے ہیں جو کسی دوسرے پاکستانی نژاد امریکی کے حصے میں نہیں آئے۔
پشاور میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر امجد حسین کے چہرے پر اطمینان اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملنسار طبیعت کی وجہ سے وہ کہیں بھی ہوں شمع محفل رہتے ہیں۔ انہیں پشاور سے خاص لگاؤ ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پشاور اُن کے خون میں گردش کرتا ہے اور اُن سے بات چیت کی جائے تو کسی نہ کسی حوالے سے وہ بات کو گھما پھرا کر پشاور پر کچھ اس مہارت سے منطبق کرتے ہیں کہ موضوع جو بھی اس میں پشاور کی جھلک اور پشاور کے رنگوں کی چاشنی جگمگا اُٹھتی ہے۔ روزنامہ آج کے لئے کالم نگاری کے ذریعے وہ اہل پشاور کو اُن کی اقدار و روایات کی یاددہانی کرانے کی منفرد کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ پشاور کی گلی کوچوں‘ یہاں کی ہندکو (مادری) زبان و ادب اور بالخصوص اُردو کلاسیکل ادب کے رسیّا ڈاکٹر امجد حسین جہاں پیدل چلنے کے معمول کو ترک نہیں کرتے‘ اِسی طرح وہ کسی بھی شہر‘ خطے اور ملک میں ہوں‘ کتابیں اپنے ہمراہ ضرور رکھتے ہیں۔ حال ہی میں پشاور میں اپنے مختصر قیام کے دوران اُنہوں نے روزنامہ آج کے قارئین کے لئے اپنی مصروفیت سے کچھ وقت عنایت کیا اور نئی نسل کو کتاب سے تعلق استوار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ’’نصاب کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کتاب علم کا ذریعہ ہی نہیں شعور کی دنیا میں سفر کا رہنما ہوتا ہے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ طالبعلموں میں کتابوں سے محبت کو اُبھاریں‘ اُنہیں کتب بینی سے وابستہ وپیوستہ کریں۔ لائبریریوں کو آباد کریں اور سب سے بڑھ کر طالب علموں کو صحت مند سرگرمیوں کی تلقین کریں‘ جیسا کہ روزانہ واک (walk) کا معمول۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مشینی انداز میں زندگی بسر کرنے والے اہل پشاور کی اکثریت اپنی صحت کے معاملے میں زیادہ حساس نہیں۔ صحت کے بارے میں عمومی احتیاطیں اور کھانے پینے کے معمولات کی اصلاح کے حوالے سے معاشرے میں عمومی سطح پر شعور اُجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں طب کے شعبے سے جڑے ماہرین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی مصروفیات سے کچھ نہ کچھ وقت مختص کرکے ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کی رہنمائی کریں۔‘‘
ڈاکٹر امجد کو سیاست میں آنے کا شوق نہیں‘ وہ پشاور سے محبت کرتے ہیں اور یہاں کے ہر دکھ سکھ میں ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے بھی شریک ہونے کی سبیل ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔ انہیں سانحۂ پشاور پر دلی صدمہ ہوا۔ پشاور میں امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے چاہتے ہیں کہ متعلقہ ادارے خاطرخواہ عملی اقدامات کرنے میں مزید تاخیر نہ کریں۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’کسی معاشرے میں خوف کا پایا جانا ایک منفی محرک ہوتا ہے‘ جس سے نجات کے لئے پشاور کی قدیم روایات کو زندہ کرنا ہو گا جہاں ہر کوئی دوسرے کا سہارا بن کر اُس کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا تھا۔ طب کے شعبے اور طبی سہولیات کے حوالے سے اُن کا نکتۂ نظر اِس بات کا غمازی کرتا ہے کہ اِس حوالے سے بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ڈاکٹر امجد طب کی تعلیم کے نجی اداروں کے قیام کو حوصلہ افزأ پیش رفت قرار دیتے ہیں تاہم اُن کا کہنا ہے کہ طبی تعلیم معیاری ہونی چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’امریکہ میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کا تصور تک ممکن نہیں۔‘‘ یقیناًبہتری کی جس گنجائش کے بارے میں ڈاکٹر امجد نے اشارہ کیا‘ وہ صرف طب ہی نہیں بلکہ کئی دیگر شعبوں کے لئے بھی ضروری ہے مثال کے طور پر پشاور کے رہنے والوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ گلی کوچوں اور بالخصوص پشاور کے مضافاتی علاقوں سے ٹھوس گندگی اُٹھانے سمیت نکاسی آب کے منصوبے کی توسیع آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب اور آئندہ کم از کم سو برس کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ترتیب دی جانی چاہیءں۔ ڈاکٹر امجد بناء اظہار بھی پشاور کے مسائل پر دکھی دکھائی دیئے۔ بات بات پر مسکرانے جواز تلاش کر لینے کے ماہر‘ ڈاکٹر امجد کے لئے پشاور کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زیادہ یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ اِس سلسلے میں متعلقہ حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے۔ اُنہوں نے اشارتاً کہا کہ ’’وسائل پر بوجھ اور بہتر روزگار و تعلیم کے لئے خیبرپختونخوا کے پسماندہ اضلاع سے مرکزی شہر پشاور نقل مکانی کرنے کے رجحان پر بھی ارباب اختیار کی نظر ہونی چاہئے‘ اگر ترقیاتی حکمت عملیوں میں پسماندہ اضلاع کو ترجیح دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اپنے آبائی گھروں اور معاشرت کو چھوڑ کر پشاور یا ملک کے دیگر بڑے شہروں کا رُخ کریں۔‘‘
ڈاکٹر سیّد اَمجد حسین کی شخصیت کے اِس قدر پہلو اور اِس قدر الگ الگ حوالے ہیں کہ کسی ایک نشست میں نہ تو ہر ایک موضوع پر اُن کے خیالات اور جدید نظریات سے متعلق بات ہو سکتی ہے اور نہ ہی اُن کی علمی ادبی شخصیت کو پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ پراسرار ہیں‘ خودنمائی سے الگ رہتے ہیں‘ خوشامد پسند نہیں‘ اِسی لئے برملا جذبات کا اظہار اور دوسروں کو حقیقت کا آئینہ دکھانے میں مصلحت سے کام نہیں لیتے۔ وہ کمال درجے کا حافظہ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے بچپن کی ایسی باتیں بمعہ باریک سے باریک اور چیدہ چیدہ تفصیلات بھی یاد ہیں جو حیرت انگیز بات ہے اور شاید ہی لاکھوں میں کوئی ایک شخص ایسا ہو‘ جس کی ذات میں اتنی خوبیاں اور کمالات یکجا ہوں‘ جس قدر ڈاکٹر سیّد اَمجد حسین میں یکجا ہیں۔ آپ گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ میں آباد ہیں‘ جہاں کے علمی ادبی حلقوں اور بالخصوص صحافتی و علم کے رسیا تحقیق کار آپ کے افکار سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنے لئے علم و عمل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں نئے زوائیوں سے سوچتے ہیں۔ کاش پشاور کا یہ سپوت‘ اسے واپس مل جائے‘ جو اصلاح مڈاکٹر اَمجد حسین کو ملنے والے اعزازات کی کمی نہیں لیکن اِن میں چند ایک ایسے بھی ہیں‘ جن کے لئے اُنہوں نے کبھی کوشش نہیں کی لیکن پاکستان اور امریکہ میں ارباب اختیار نے اُن کی علمی ادبی بے لوث خدمات و انسان دوستی کا اعتراف کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کی جامعہ ’یونیورسٹی آف ٹولیڈو‘ میں کارڈو ویسکولر (Cardiovascular Surgery) کے شعبے کی ایک شاخ (Chair) ڈاکٹر امجد کے نام منسوب ہے۔ اِسی قسم کا دوسرا اعزاز سینیٹ چارلیس مرسی ہسپتال (St. Charles Mercy Hospital) کی جانب سے اُنہیں دیا گیا‘ جو اُن کے نام نامی سے منسوب ہے۔ آپ کا تیسرا اعزاز بطور ’جامعہ ٹولیڈو‘ سے ’ویزیٹنگ پروفیسرشپ‘ تعلق ہے‘ جس سے آپ ’ہسٹری آف میڈیسن (طب کی تاریخ)‘ کے حوالے سے بطور معلم وابستہ ہیں۔ آپ کا چوتھا قابل ذکر اعزاز ’خیبرمیڈیکل کالج‘ کی طرف سے ہے اور بھلا یہ کیونکر ممکن تھا کہ ’پشاور‘ اپنے اِس سپوت کو فراموش کردیتا۔ خیبرمیڈیکل کالج کی جانب سے آپ کے نام ’کلینیکل سکلز سنٹر‘ کیا گیا‘ جو رہتی دنیا تک اِس بات کا بیان رہے گا‘ کہ ڈاکٹر اَمجد حسین نے طب کے شعبے سے اپنی وابستگی کا حق عملی طور پر بھی اَدا کیا۔عاشرے اور خدمت سے اِس شہر کی تشنگی مٹا سکے۔ اہل پشاور سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملے کے بعد جس ذہنی کرب و اذیت سے گزر رہے ہیں‘ اس میں انہیں کسی پرخلوص و ایماندار قائد کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے قائد و رہنما کی جو اپنی ذات سے آگے پشاور کو رکھ کر سوچتا اور دوسروں کو سوچنے کی طرف متوجہ کرنے کا ہنر (آرٹ) جانتا ہے۔
ڈاکٹر سیّد امجد حسین فی الوقت ’یونیورسٹی آف ٹولیڈو‘ کے بورڈ آف ٹرسٹیز ہیں جبکہ اُنہوں نے شمال مغربی اوہایو ریاست کے ادارے ’پبلک براڈکاسٹ‘ کے ’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘ میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ مذاہب کے درمیان مشترکات کے بارے تحقیق کی وجہ سے بھی اُن کا ذکر علمی ادبی حلقوں میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ امن سے عبارت ’اسلام‘ کے پیغامات کی تشریح اور مسلم معاشرے کے خدوخال‘ اسلام کے معاشی و اقتصادی نظام‘ معاشرت اور بول چال کے حوالے سے اُن کے سلیس نظریات اپنی جگہ اہم ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اُن کی توانائیوں اور توفیقات میں اضافہ فرمائے اور پشاور کے ذکر سے آباد اُن کے دم کرم سے علم و حکمت کے موتی تادیر بکھرتے رہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر امجد خود اِس بات کا ذکر نہیں کرتے اور اُن کے جاننے والے بہت سے لوگ اِس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ ڈاکٹر امجد اور اُن کی (مرحوم) اہلیہ پاکستان سے ہرسال ذہین و مستحق طلبہ کو امریکہ اعلیٰ تعلیم کے مدعو کرتے ہیں اور وہ فنڈ جو پچاس ہزار ڈالر سے انہوں نے قائم کیا تھا ڈھائی لاکھ ڈالر سے زائد ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر امجد کی ذات اُن تمام مخیر حضرات اور بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے مشعل راہ ہے‘ جو مادہ پرستی اور نفسانفسی کے عالم میں اپنی ذات و مفاد سے زیادہ کچھ نہیں سوچ پاتے! ’’
اِس زمانے میں غنیمت ہے‘ غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش‘ اَگر لگتا ہے!
صحت مند معاشرت سے متعلق شعور اُجاگر کرنے کے لئے متعلقہ ماہرین ذرائع ابلاغ سے استفادہ کریں
طب کے شعبے میں نجی اِداروں کا کردار خوش آئند ہے‘ تاہم میڈیکل کی تعلیم کے مقررہ معیار پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے
سیاست میں حصہ لینے کا شوق نہیں‘ پشاور کی خدمت فرض عین سمجھ کر نبھاتا رہوں گا
پشاور کا اِحسان بھلا کیسے فراموش کر سکتا ہوں‘ جو میری شناخت کا معتبر حوالہ ہے
علم کے ساتھ عمل سے زیادہ کوئی دوسری کارآمد شے نہیں‘ قول و فعل کے تضادات اور اپنی ذات کے بارے میں حق گوئی جیسے اوصاف معاشرے سے اُٹھتے جا رہے ہیں!
نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لئے کتاب سے رشتہ جوڑا جائے
سانحۂ پشاور پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے‘ پشاور کبھی ایسا نہ تھا‘ امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ‘ پرخلوص اُور عملی اقدامات کی ضرورت ہے
خوف خوبیوں اور جسمانی و ذہنی نشوونما پر اثرانداز ہوتا ہے‘ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے دکھ سکھ بانٹنے جیسی روایات پھر سے زندہ کرکے معاشرے کی رگوں میں سرایت کرنے والے خوف سے نجات و علاج ممکن ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔بدقسمتی سے فیصلہ سازوں کی اکثریت پشاور کی تاریخ سے واقف نہیں!۔۔۔
پشاور صحرا ہو گیا ہے؟
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں سے بہت کم پشاور کی تاریخ سے (کماحقہ) واقف ہیں!
پشاور کی ترقی کے لئے اربوں روپے مختص کئے جاتے ہیں لیکن یہ رقم خرچ نہیں بلکہ تحلیل ہو جاتی ہے؟
جس پشاور کی یاد میں دل بیقرار رہتا ہے‘ جس پشاور کو دیار غیر میں رہنے والے شادوآباد‘ ہنستا کھیلتا اُور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ اُس کے رہنے والوں کے لئے کسی پیغام نہیں بلکہ جدوجہد کی تلقین کی ضرورت ہے
سیاسی و بیدار شعور رکھنے والے اِس شہر کی تاریخ اگر جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر کی ہے تو اہل پشاور کو بھی اِس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ عملی طور پر زندہ ہیں اور اُن کا شمار زندہ نفوس ہی میں ہونا چاہئے
سوال: وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے ’پشاور‘ کے ارتقائی مراحل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ڈاکٹر اَمجد: میری نظر میں پشاور کی ترقی کا عمل کہیں رک سا گیا ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب اور ضروریات کے مطابق پشاور میں سہولیات کی فراہمی نہیں ہوسکی ہے جبکہ وسائل پر بوجھ اپنی جگہ توجہ چاہتا ہے۔ اِس سلسلے میں حال ہی میں روزنامہ آج کے ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والا میرا ایک کالم یقیناًقارئین کرام کی یاداشتوں میں محفوظ ہوگا‘ جس میں پشاور کی موجودہ حالت زار کے حوالے سے چند ایک گزارشات اور اپنے مشاہدے کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ ’’پشاور کے ساتھ نا انصافی تو اب سرکاری ضابطوں کا حصہ بن چکی ہے۔ جب مرحوم جنرل فضل حق پس از گورنری ریٹائرمنٹ کی زندگی گذار رہے تھے تو میں نے ان سے ایک نجی ملاقات میں پوچھا کہ انہیں اپنے عہد گورنری کی کسی ایسی بات کا تاسف ہے کہ جووہ نہیں کرسکے جن حضرات کو جنرل فضل حق سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ جنرل صاحب صاف گو اور بات کے کھرے تھے کہنے لگے مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میں نے صوبے کے مختلف حصوں کے لئے بہت سارے تعمیراتی کام کئے لیکن پشاور کے لئے کچھ نہیں کیا انہوں نے پنجاب کے گورنر جیلانی کی مثال دی کہ جیلانی صاحب نے لاہور کو ایک مثالی خوبصورت شہر بنانے میں بہت محنت کی اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ (پشاور کے ساتھ ہر دور میں زیادتی ہوئی اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کوئی ایک حکومت بھی پشاور سے انصاف سے نہیں کرپائی۔) سب (کی سب) صوبائی حکومتوں نے زیادتی کی لیکن متحدہ مجلس عمل نے تو زیادتی کی حد (ہی) کردی اُس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی صاحب نے‘ پشاور سمیت تمام صوبے کے ترقیاتی (مالی وسائل) فنڈز ایک بڑے جھاڑو سے سمیٹ کر سرکاری اونٹوں پر لادے اور پھر مہار پکڑے وہ ان لدے ہوئے اونٹوں کو اپنے (آبائی و) اِنتخابی ضلع بنوں لے گئے! (یوں) بنوں کے (تو) وارے نیارے ہوگئے (لیکن) پشاور کی نالیاں بند کی بند (ہی) رہیں۔ پشاور خیبرپختونخوا کا دارالحکومت ہے اور اس حوالے سے صوبے کا اہم ترین شہر ہے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے صوبائی حکمرانوں میں سے بہت کم پشاور کی تاریخ سے واقف ہیں۔ ماضی میں بھی یہ روش تھی اور حال میں بھی یہی روش ہے جب تک آپ شہر کے ماضی اور حال کو سامنے نہیں رکھیں گے ‘مستقبل کی راہیں استوار نہیں کرسکیں گے میں باہر کے ملکوں کی مثال نہیں دیتا لاہور کی مثال دیتا ہوں شہباز شریف کی حکومت نے لاہور کی زیبائی کی طرف خاطر خواہ توجہ دی ہے آپ صرف مال روڈ کو دیکھیں‘سرکاری اور نجی اشتراک سے مال روڈ کی مشہور عمارتوں کے چہروں سے گردوغبار ہٹاکر انہیں دوبارہ خوب سے خوبصورت بنایا جارہا ہے پنجاب کے لوگ لاہور کو پنجاب کا دل سمجھتے ہیں اگر یہ احساس ہمارے صوبے کے لوگوں کے دلوں میں ہوتا تو وہ بنوں کی طرف رواں ترقیاتی فنڈوں سے لدے ہوئے اونٹ راستے میں ہی روک لیتے!‘‘ ڈاکٹر سیّد امجد حسین پشاور کو اپنی ذات کا حصہ سمجھتے ہیں‘ اُن کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ نئی نسل کو پشاور کی تاریخ و ثقافت کے بارے میں آگاہ کیاجائے۔
سوال: جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پشاور کو ہر دور حکومت میں نظرانداز کیا گیا اور کوئی ایک دور حکومت بھی ایسا نہیں رہا کہ جب پشاور سے انصاف ہوا ہو‘ تو اِس مسئلے کا حل کیا ہے؟ پشاور کو خاطرخواہ توجہ کب ملے گی؟ پشاور کے حقوق کی ادائیگی کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر اَمجد: جب تک اہل پشاور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے خود متحد نہیں ہوتے‘ اُس تک استحصال یونہی ہوتا رہے گا۔ پشاور کے رہنے والوں کو اپنے گردوپیش پر نظر رکھنا ہوگی۔ سیاسی و بیدار شعور رکھنے والے اِس شہر کی تاریخ اگر جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر کی ہے تو اہل پشاور کو بھی اِس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ عملی طور پر زندہ ہیں اور اُن کا شمار زندہ نفوس ہی میں ہونا چاہئے۔ یہ بھلا کیسی زندگی ہے‘ جس میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز تک نہیں اُٹھائی جا رہی۔ میں دیکھتا ہوں کہ پشاور میں ترقیاتی عمل کے لئے ہر مالی سال میں اربوں روپے مختص کئے جاتے ہیں‘ پھر اِس خطیر رقم سے ترقیاتی کام مکمل بھی ہوتے ہیں لیکن مسائل کی شدت اور نوعیت جوں کی توں برقرار ہے۔ آخر اِس ترقی معکوس کا تسلسل توڑنا ہوگا۔ اہل پشاور کو اِس گرداب سے خود کو نکالنا ہوگا اُور جب تک وہ خود اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے‘ اُس وقت تک بہتری نہیں لائی جاسکے گی۔
سوال: کیا پشاور سے منتخب ہونے والی قیادت بھی موجودہ حالت زار کے لئے ذمہ دار ٹھہرائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر امجد: سب سے بنیادی ذمہ داری تو منتخب نمائندوں ہی کی بنتی ہے کہ وہ پشاور کے حقوق کا تحفظ کرتے۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے عجیب لگ رہا ہے کہ جب ہم پشاور کی ترقی کے حوالے سے توقعات کا اظہار کررہے ہوتے ہیں تو اِس سے مراد ’قانون ساز ایوانوں‘ کے اراکین ہوتے ہیں۔ ترقی کا کام اور ترجیحات کا تعین قانون سازوں کا نہیں بلکہ یہ تو ایک تکنیکی معاملہ ہے جو خالصتاً تکنیکی طریقے سے حل ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر کسی جگہ اُوور ہیڈ پل بنانی ہے تو اِس کا فیصلہ کسی بھی صورت قانون ساز ایوان کے رکن کو نہیں ہونا چاہئے اور ایسی صورت میں بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے جبکہ متعلقہ سرکاری اداروں کے انتظامی نگرانوں کا چناؤ بھی خود وہی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا انتظامی نگران کسی وزیر‘ مشیر یا صوبائی اسمبلی کے رکن کے سامنے اپنی رائے پیش کرسکے گا‘ جس کی تعیناتی و ترقی‘ مراعات و اختیارات خود سیاسی شخصیات کر رہی ہوں۔ جب تک ہم سیاست اور شہری ترقی کو الگ الگ نہیں کرتے۔ جب تک ہم اداروں میں سیاسی مداخلت ختم نہیں کرتے۔ جب تک ہم ذاتی و کاروباری مفادات کو سیاسی فیصلہ سازی کے اختیار سے جدا نہیں کرتے۔ جب تک ہم امانت و دیانت کے اصولوں کو نہیں اپناتے۔ جب تک ہم آئین پر اٹھائے ہوئے حلف کے ہر ہر لفظ کا پاس نہیں رکھتے اور جب تک ہم خوداحتسابی نہیں کرتے‘ اپنی ذات و کارکردگی کا محاسبہ نہیں کرتے۔ اپنی ذات سے آگے اور اپنے مفاد سے آگے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو نہیں رکھتے‘ اُس وقت تک پشاور تو کیا خیبرپختونخوا یا پاکستان کے کسی بھی ضلع کی قسمت نہیں بدلے گی۔
سوال: اہل پشاور کے جاگ اُٹھنے اور شہری ترقی سمیت جملہ حقوق سے متعلق شعور کی بیداری کے لئے قیادت کا فقدان آپ کے لئے کیا معنی رکھتا ہے؟
ڈاکٹر امجد: میں مایوس نہیں۔ اگرچہ پشاور میں اپنے ہر قیام کے موقع پر مجھے یہاں کے مسائل کی شدت بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن میں ایک مثبت سوچ اور فکر رکھنے والا شخص ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو بھی اِس بات کا پوری طرح احساس ہوگا کہ اُن سے توقعات کن حدوں کو چھو رہی ہیں۔ پشاور کی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے میں ایک کتاب مرتب کی ہے‘ جس کے مختلف ابواب میں یہاں کی ثقافت اور روایات کے بہت سے پہلوؤں کو محفوظ کر لیا گیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ’پشاور شناسی‘ کے لئے بہت سی کھوج و تحقیق کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ بنیادی ہی نہیں بلکہ کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پشاور کوئی ایسا موضوع نہیں جو دیگر شہروں کی طرح آبادی کے شمار اور متعلقہ ضروریات کے حوالے سے سمجھا جاسکے۔ یہ ایک زندہ شہر ہے‘ جس کی ہر ایک اینٹ کے ساتھ ایک کہانی اور شاندار ماضی ایسی شاندار عمارت کو سہارا دے کر کھڑا ہے‘ جو قوس قزح جیسی ہے۔ کاش ہم اِس حقیقت کا ادراک کر سکتے کہ پشاور میں پائے جانے والے سیاحتی امکانات سے کس قدر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کے سیٹھی ہاؤسیز‘ یہاں کی مساجد‘ یہاں کا فن تعمیر‘ یہاں کی بودوباش‘ زبان اور بالخصوص قلب و جاں کی تسکین کا سامان یعنی ہندکو زبان کی ترویج وترقی کیا معنی رکھتی ہے۔ کیا مفہوم رکھتی ہے اور کیا اِظہار چاہتی ہے۔
سوال: اہل پشاور کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر امجد: بہت سی خوشیوں‘ لمبی زندگی‘ امن وامان اور سکون و اطمینان کی دعاؤں‘ نیک خواہشات کے ساتھ میں حقیقت پسندی سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’’اب بھی دیر نہیں ہوئی۔‘‘ پشاور کو جاگنے اور جگانے کے لئے تحریک کی صورت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے ذاتی طورپر یہ جان پر بہت دکھ ہوتا ہے کہ پشاور جو کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور یہاں تین اطراف میں قبائلی علاقے ہونے کے باوجود بھی یہاں کے رہنے والے پرامن زندگی بسر کرتے تھے تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر وہی روشن و سنہرا دور واپس نہیں آسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک قیام امن کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لئے دعا گو بھی ہے لیکن اپنے آس پاس اور گردونواح میں مشکوک افراد پر نظر رکھنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ ہمیں اپنی مٹی سے محبت کا حق عملی طورپر ادا کرنا ہوگا۔ اگر کوئی ہمارے گردونواح میں کوڑا کرکٹ کھلے عام پھینک رہا ہے تو اُس کا ہاتھ روکنا ہوگا اور اُسے یہ بتانا ہوگا کہ ’’تم میرے شہر کو گندا کر رہے ہو!‘‘ کیا یہ سوچ اور اپنائیت بھرے ایسے جذبات پشاور میں پائے جاتے ہیں؟ اگر نہیں ہو‘ تو اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے اِس مٹی کے خمیر سے اُٹھنے والوں کو اپنا حق ادا کرنا ہوگا۔ اِس لمحۂ فکر پر میں خاص طور پر اپنے اساتذہ کرام اور علمائے کرام کو مخاطب کرنا چاہوں گا کہ وہ اہل پشاور میں صفائی کا شعور عام کریں۔ ہم سب جانتے ہیں‘ دل سے مانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ لیکن کیا عملی طورپر ہم ایسا کرتے بھی ہیں۔ اپنے اپنے گھر کی طرح گلی کوچے‘ سڑکیں اور مارکیٹیں سب پشاور کا حصہ ہیں‘ سب ہمارے گھر کا حصہ ہیں اور سب ہماری ذات کا حوالہ ہیں۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور گنجان آباد شہر میں نئی آبادی و تعمیرات کے لئے ’بلڈنگ کوڈ (تعمیراتی قواعدوضوابط)‘ پرسختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ چاہے کوئی شخص کتنا ہی بااثر اور سرمایہ دار کیوں نہ ہو‘ اگر وہ کثیر المنزلہ پلازہ بنا رہا ہے تو اُس کے لئے گاڑیوں کی پارکنگ‘ آگ بجھانے کے آلات اور دیگر حفاظتی انتظامات و ضروریات کا تعین کردہ نقشے کے مطابق فراہمی کا پابند ہونا چاہئے۔ میونسپل حکام اور پشاور کا ترقیاتی ادارہ سیاسی دباؤ اور مداخلت سے آزاد ہونے چاہیءں۔ بلدیاتی نظام فوراً سے پیشتر بحال ہونا چاہئے۔ رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کے قواعد موجود ہیں تو اُن پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا‘ اِس سلسلے میں غفلت کا مرتکب اہلکاروں کا احتساب ہونا چاہئے۔ پشاور میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور شور شجرکاری اور ٹریفک قواعد پر عمل درآمد سے کم کیا جاسکتا ہے۔ پشاور جو کبھی باغات کا شہر ہوا کرتا تھا‘ اِس کے مرکزی شاہی و وزیر باغ میں پختہ تعمیرات اور ماضی میں کی جانے والی تجاوزات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جس پشاور میں آکر اطمینان و سکون ملتا ہے‘ جس پشاور کی یاد میں دل بیقرار رہتا ہے‘ جس پشاور کو دیار غیر میں رہنے والے شادوآباد‘ ہنستا کھیلتا اُور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ اُس کے رہنے والوں کے لئے کسی پیغام نہیں بلکہ جدوجہد کی تلقین کی ضرورت ہے۔ میں صحرا میں آذان دینے جیسی بات نہیں کر رہا لیکن ’صحرائے پشاور‘ میں ’جاگتے رہو‘ کی صدائیں دینے کو جی چاہتا ہے۔ مرحوم جوہر میر نے پشاور کے بارے میں کیا خوب کہا تھا‘ اُور اِنہی الفاظ پر بات کا اختتام کرنا چاہوں گا‘ جس کی تہہ میں پیغام بھی ہے اور حقیقت کا اظہار بھی ‘ دُکھ بھی ہے اور بے حسی و بے بسی کے استعارے بھی‘ پشاور کو میری‘ آپ کی اُور ہم سب کی محبت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی محبت ہے جو غیرمشروط ہو۔ جس پر ذاتی مفادات‘ نمودونمائش کا شائبہ تک نہ ہو۔ آیئے جوہر میر کو پڑھتے ہوئے پشاور کے بارے میں سوچتے ہیں۔
فصیلیں توڑ کر کیا ہوگیا ہے
پشاور شہر صحرا ہوگیا ہے
یہ شہر گلفروشان تھا ‘چمن تھا
بکھر کر پتہ پتہ ہوگیاہے
ہنرمندوں کا یہ مسکن تھا پہلے
مگر بے دست وپا سا ہوگیا ہے
مکانوں میں دکانیں بن گئی ہیں
سربازار رسوا ہوگیا ہے
ہوئی ہے روشنی اتنی زیادہ
گھروں میں گھپ اندھیرا ہوگیا ہے
پشاور شہر صحرا ہوگیا ہے
یہ شہر گلفروشان تھا ‘چمن تھا
بکھر کر پتہ پتہ ہوگیاہے
ہنرمندوں کا یہ مسکن تھا پہلے
مگر بے دست وپا سا ہوگیا ہے
مکانوں میں دکانیں بن گئی ہیں
سربازار رسوا ہوگیا ہے
ہوئی ہے روشنی اتنی زیادہ
گھروں میں گھپ اندھیرا ہوگیا ہے
(یاداشت: ڈاکٹر اَمجد حسین سے بات چیت کی نشست دسمبر 2014 کے پہلے ہفتے ٗپانچ دسمبر کے روز ٗ محلہ باقر شاہ پشاور میں ہوئی ٗ جہاں وہ اپنے ایک عزیز کے ہاں قیام پذیر تھے۔)

No comments:
Post a Comment