Wednesday, April 8, 2015

Apr2015: Food safety

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محفوظ خوراک اُور احساس محرومی
خیبرپختونخوا کے محکمۂ صحت کی مرتب کردہ سفارشات کی روشنی میں ’محفوظ خوراک‘ کے لئے قانون سازی زیرغور ہے‘ جس کے اطلاق سے ڈبوں میں بند اشیائے خوردونوش کا معیار اور اِنسانی صحت کے لئے اِس کے محفوظ استعمال کے حوالے سے صورتحال میں بہتری کی اُمید ہے لیکن ’کھیت سے پلیٹ تک‘ اشیائے خوردونوش کی تیاری کے مراحل اور بالخصوص انہیں ڈبوں میں بند کر کے فروخت کرنے کا بڑھتے ہوئے رجحان میں غذائیت کے برقرار رکھنے کو بھی قانونی طور پر لازم قرار دیا جائے گا۔

مسئلہ صرف ڈبوں میں بند خوردنی اشیاء کے معیار ہی کا نہیں بلکہ ہمارے ہاں سڑک کنارے ریڑھی فروشوں اور مہنگے و سستے ہوٹلوں میں خوراک کی تیاری میں صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے‘ اِن پہلوؤں پر بھی قانون سازوں کو غور کرنا چاہئے۔ سب سے زیادہ لائق توجہ تعلیمی اداروں میں فروخت ہونے والی اشیائے خوردونوش ہیں‘ جنہیں زیادہ منافع کی لالچ میں اِن اداروں کی حدود میں قائم کینٹینوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اصولی طورپر تو یہ ہونا چاہئے کہ تعلیمی اداروں میں ’جنک فوڈ‘ کے فروخت پر پابندی عائد ہو جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک حکمنامے کے بعد جملہ تعلیمی اداروں میں برگر اور کاربونیٹیڈ مشروبات کی فروخت ممنوع قرار دی جاچکی ہے۔ ہمارے ہاں قانون سازی کے مراحل پر بحث و مباحثہ اور غوروخوض کو اِس قدر صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے کہ قانون کے منظور ہونے تک اُس کی تفصیلات کے بارے میں کسی کو کچھ علم ہی نہیں ہوتا اُور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا کہ افسرشاہی نے سیاسی حکمراں طبقے کی سوچ کو یرغمال بنا لیا ہو بلکہ ماضی میں بھی بجٹ کی تیاری سے قانون سازی تک کے مراحل ’بابو‘ ہی سرانجام دیتے ہیں اور منتخب نمائندوں کو صرف اور صرف دستخط کرنے کی زخمت دی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ اگر ہمارے ہاں قوانین پر کماحقہ اطلاق کا مسئلہ ہے تو اُن کے جامع نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی قانون کی تیاری کے لئے متعلقہ اداروں کے درمیان خط وکتابت اور اس سلسلے میں عوام الناس کی رائے جاننے کے لئے کئی سطحی بحث ہو‘ تاکہ سماج کے سبھی طبقات کی فکرو نظر کے مطابق قانون کی جامعیت کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔ یہ قطعی طور پر مشکل یا ناممکن یا اچھوتا تصور نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کے جمہوری معاشروں میں ہر قانون اِسی طریقے سے تخلیق کیا جاتا ہے‘ جو اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل اس قدر عام کیا جاتا ہے کہ ہر خاص و عام اُس پر اظہار خیال کر رہا ہوتا ہے اور جب سالہاسال کے اِس مشاورتی عمل کے بعد قانون منظور ہوتا ہے تو ہر کس و ناکس کو اپنے حقوق اور اُس متعلقہ قانون کی شقوں کا علم ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں اِس سلسلے میں بھی ایک قانون سازی کرنی چاہئے کہ قانون سازی سے قبل اُس کے بارے میں لازمی طور پر غوروخوض اُور عوام الناس کی آگہی کا اہتمام ہونا چاہئے۔ موجودہ دور میں برق رفتار ذرائع ابلاغ کے وسائل کی کمی نہیں۔ سماجی رابطہ کاری کے وسائل بھی لامحدود ہیں جن سے بھرپور اِستفادہ ہونا چاہئے۔

نجی تعلیمی اِداروں میں قائم کینٹین بھاری کرائے اور منافع پر نجی ٹھیکیداروں کو دی جاتی ہیں‘ جہاں اگر ناقص المعیار اَشیاء فروخت نہ بھی ہوں لیکن اُن کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ غیر معروف اداروں کی چٹ پٹی‘ کھٹی میٹھی اشیاء بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں جن کی وجہ سے گلے اور سینے کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ شام کے اوقات میں کسی بھی معروف ماہر امراض سینہ‘ ناک کان و گلہ کے کلینک کا دورہ کریں‘ مریضوں کی تعداد جن میں بچوں کی اکثریت دیکھ کر آپ پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ خرابی کی اصل جڑ وہ مقام ہے جہاں بچے والدین کی توجہ اور نگرانی سے دور ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت سے التجا ہے کہ اشیائے خوردونوش کے معیار سے متعلق قانون سازی میں بچوں کی صحت کے حوالے سے خصوصی غوروخوض کیا جائے اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ ایک تو اشیاء کا معیار کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا اور دوسرا کھاتے پیتے گھرانے کے بچے جب پیسے خرچ کر رہے ہوتے ہیں تو دیگر بچوں کے لئے یہ حقیقت ہضم کرنا آسان نہیں ہوتی کہ وہ کس قدر محروم ہیں!

ہمیں حساس ہوکر اپنی مالی حیثیت کے مطابق نہیں بلکہ اُن طبقات کے بارے میں سوچنا ہوگا‘ جن کی آمدنی کے وسائل محدود ہیں لیکن انہیں اِس بات کا احساس نہیں دلانا چاہئے بلکہ ہمارا طرز عمل ایسا ہونا چاہئے جسے دیکھ کر دوسرے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ جس طرح تعلیمی اداروں یونیفارم کی شرط لازم ہے‘ اسی طرح دیگر لوازمات و ضروریات کے حوالے سے ’یکساں پالیسی‘ اختیار کئے بناء معاشرے کو مزید طبقات میں تقسیم ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا۔

No comments:

Post a Comment