Friday, July 21, 2023

Muharram ul Harram 2023 - 1445 Hijri - Security Plan

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : محرم سیکورٹی : خطرات و خدشات

حالیہ چند روز یعنی محرم الحرام (1445 ہجری) کے آغاز سے قبل اُور بالخصوص یکم محرم الحرام (بیس جولائی کے روز) پیش آئے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگرچہ ’پشاور پولیس‘ سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مستعد و چوکنا اُور پہلے سے زیادہ پرعزم دکھائی دیتی ہے لیکن غیرمعمولی حالات‘ غیرمعمولی اقدامات و انتظامات کے متقاضی ہیں۔ اِس سلسلے میں ’امامیہ کونسل‘ نے تجویز دی ہے کہ دو اُور گیارہ محرم الحرام (جمعة المبارک) کے ایام میں نماز جمعة المبارک کے اجتماعات کی سیکورٹی کے لئے صرف پولیس کے افرادی وسائل پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ عبادت گاہوں کے لئے متبادل سیکورٹی انتظامات بھی ہونی چاہئے جبکہ کونسل کی جانب سے پشاور پولیس کے فیصلہ سازوں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ ’حفاظتی حکمت عملی (محرم کنٹیجینسی پلان)‘ پر نظرثانی کریں کیونکہ سیکورٹی خطرات و خدشات حقیقی ہیں تاہم حفاظتی انتظامات خوف و دہشت پھیلانے کا باعث نہیں ہونے چاہیئں۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور پولیس نے مختلف مسالک کی عبادتگاہوں‘ اجتماعات اُور جلوسوں کو حفاظت فراہم کرنے کے لئے ’تین سطحی حفاظتی انتظامات‘ کر رکھے ہیں جس کے لئے ساڑھے تیرہ ہزار پولیس اہلکاروں‘ دو سو کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں‘ خفیہ اطلاعات کے مربوط نظام اُور کرائے کے گھروں و ہوٹلوں‘ سرائے خانوں میں مقیم افراد پر بھی نظر رکھی گئی ہے جبکہ افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاہم پشاور شہر اُور اِس کے مضافات میں افغان مہاجرین مستقل مقیم ہیں یعنی وہ پہلے ہی شہر کی حدود میں داخل ہیں جبکہ ایسے افغان مہاجرین بھی ہیں جنہوں نے جعل سازی سے پاکستان کی شہریت حاصل کر رکھی ہے اُور اُنہیں صرف بول چال و رہن سہن کی عادات سے پہچانا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی شناختی دستاویزات کسی بھی غلط طریقے (بذریعہ رشوت اُور قبائلی اضلاع سے دستاویزات بنوا کر حاصل کرنا) جرم ہے لیکن چونکہ اِس جرم میں ’افغان مہاجرین‘ کی معاونت کرنے میں پاکستان کے اپنے سرکاری اہلکار ملوث پائے گئے ہیں‘ اِس لئے دوسروں سے گلہ کرنے کی بجائے اپنے گھر (داخلی امور) کی اصلاح کی جانی چاہئے۔ افغان مہاجرین چاہے قانونی ہوں یا غیرقانونی اُن کی باعزت اُور رضاکارانہ وطن واپسی کے لئے دی جانے والی رعایت و سہولت کا خاطرخواہ ہمدردی سے جواب نہیں دیا گیا۔ 

افغان مہاجرین یہ بات سمجھنے کے باوجود نہیں سمجھ رہے کہ اُن کی آڑ میں منظم جرائم پیشہ عناصر اُور پاکستان دشمن کاروائیاں کر رہے ہیں اُور اِس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغان مہاجرین کو پاک افغان سرحد سے متصل (شہروں سے دور) خیمہ بستیاں قائم کر کے اِن کی نقل و حرکت محدود کر دی جائے لیکن ظاہر ہے کہ اِس کے لئے پاکستان کے پاس نہ تو درکار مالی و افرادی وسائل ہیں اُور نہ ہی وقت۔ دوسرا حل اِن مہاجرین کی رضاکارانہ یا غیررضاکارانہ وطن واپسی کا ہے جو قابل عمل حل ہے اُور اِس میں افغان مہاجرین کی بھی بہبود شامل ہے کیونکہ کم آبادی اُور قومی ترجیحات کے درست تعین کی وجہ سے افغانستان کے معاشی حالات میں ہر دن بہتری آ رہی ہے‘ جس کا افغان مہاجرین اُور افغان امور کے تجزیہ کار اکثر پاکستان کی معاشی صورتحال کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اگر واقعی ایسا ہی ہے تو افغان مہاجرین کو فوراً سے پہلے اپنے ملک واپس چلے جانا چاہئے اُور اِس سے بڑھ کر کوئی دوسری خوش قسمتی اُور کیا ہوگی کہ اگر کسی شخص کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں ہاتھ بٹانے کا موقع مل جائے؟

پشاور کو لاحق امن و امان کے خطرات اُور اِن خطرات سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے شہر کی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں‘ جو پہلے ہی مختلف وجوہات کی بنا پر بحران سے گزر رہی تھیں لیکن ظاہر ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی پہلی (at-most) ذمہ داری ہوتی اِس لئے سوچ بچار سے لیکر عملی اقدامات تک ہر پہلو سے غور و خوض اُور اِس سلسلے میں ہر فریق (اسٹیک ہولڈر) سے مشاورت کی گئی ہے اُور گیارہ اضلاع (پشاور‘ کوہاٹ‘ ہنگو‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرم‘ اورکزئی‘ ٹانک‘ مردان‘ نوشہرہ‘ ہری پور اُور ایبٹ آباد) کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ضلع پشاور کی بات کریں تو محرم الحرام کا آغاز ہونے سے قبل ’دفعہ 144‘ نافذ کر کے افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے‘ اسلحے کی نمائش اُور موٹرسائیکل پر ایک سے زیادہ (ڈبل سواری) پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ موٹرسائیکل کم آمدنی رکھنے والوں کی سواری ہے اُور پشاور شہر کے گنجان آباد (پرہجوم) قدیمی حصوں میں آمدورفت کے لئے موٹرسائیکل سواری کا واحد ذریعہ بھی ہے تو ایسی صورت میں اُن علاقوں سے رعایت ہونی چاہئے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات یا جلوس نہیں ہوتے۔ پشاور میں لگائی گئی ’دفعہ 144‘ کے تحت موٹرگاڑی اُور موٹرسائیکل کے کرائے پر دینے یا حاصل کرنے‘ بغیر نمبرپلیٹ موٹرگاڑی یا موٹرسائیکل اُور دیگر گاڑیوں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اِسی طرح اُن علاقوں میں چھت پر کھڑے ہونے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے مذہبی اجتماعات یا جلوس گزرتے ہیں۔ پشاور شہر و مضافات اُور چھاؤنی کی حدود میں آتش بازی کے سامان کی خرید و فروخت بھی اِس پابندی کا حصہ ہے۔ 

مجموعی طور پر 25 پابندیاں 15 روز کے لئے نافذ کی گئی ہیں لیکن اِن میں کئی ایسی پابندیاں بھی شامل ہیں جو مستقل ہونی چاہیئں جیسا کہ آتش گیر مادے کی خریدوفروخت‘ جو بچوں اُور بڑوں کے لئے یکساں خطرہ اُور مالی وسائل کا ضیاع بھی ہے۔

 توجہ طلب ہے کہ محرم الحرام کے موقع پر جبکہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی حرکت میں نہیں آتے بلکہ ضلعی انتظامیہ اُور بنام مقامی حکومتوں عوام کے منتخب (بلدیاتی) نمائندے بھی حرکت میں آ جاتے ہیں تو اِس نادر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پشاور شہر کے بازاروں کا سروے کر لیا جائے کہ کن کن بازاروں میں دکانداروں نے اپنی اپنی حدود سے تجاوز کر رکھا ہے اُور تجاوزات کے لئے استعمال ہونے والی اشیا دکانوں کے باہر ہی ڈھانپ کر رکھی جاتی ہیں یا ایک ایسی صورتحال میں جبکہ بازاروں میں آمدورفت کم ہو اُور کاروباری سرگرمیاں بھی بند کروا دی گئی ہوں تو دکانوں کے پختہ تعمیر شدہ یا غیرپختہ (مستقل و عارضی) اضافی حصے باآسانی شناخت اُور ہٹائے جا سکتے ہیں اُور اگر حکام کی جانب سے اپیل کی جائے تو محب الوطن تاجر از خود ’انسداد تجاوزات‘ کے سلسلے میں تعاون کریں گے کیونکہ دہشت گردی کا خطرہ کسی ایک مذہب و مسلک کو لاحق نہیں اُور نہ ہی اِس کے خاتمے کی ذمہ داری صرف اُور صرف حکومت اُور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے بلکہ یہ پورے پشاور کو لاحق خطرہ اُور ایک اجتماعی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے ’اجتماعی (مربوط) محنت و کوشش کی پہلے سے زیادہ آج ضرورت ہے۔‘

....

Editorial Page Daily Aaj 21 July 2023

Clipping from Editorial Page Daily Aaj 21 July 2023


Monday, July 17, 2023

Paigham e Karbala Conference (Zarf e Nigha English Version)

Paigham e Karbala Conference : 

Strengthens Unity and Promotes Peace.


Shabbir Hussain Imam

(Peshawar - 16 July 2023)

Under the joint efforts of the Imamia Council for the Unity of the Muslims (Rejection of Sectarianism) Khyber Pakhtunkhwa and the Qoumi Aman Jirga, a significant event called the "Paigham e Karbala Conference" took place in Peshawar on Saturday night. The conference aimed to foster unity and harmony among Muslims, with a specific focus on the importance of prayer and early prayer as the core message of Karbala.


The effort saw the presence of esteemed individuals, including Director General of Iranian Culture Centre in Peshawar Mr. Asghar Khosrow'abadi, who emphasized the significance of prayer and its place in both ceremonies and daily life. Iqbal Haidari, Chairman of the Qoumi Aman Jirga, highlighted significant events in Muharram ul Harram and other Islamic months, underlining their importance in Islamic history.


Hajjat-ul-Islam wa Muslimeen Khatib Allama Syed Zafar Naqvi emphasized the responsibility of mosques and pulpits in accurately representing the true essence of Muharram. Allama Abid Hussain Shakri, the Principal of Madrasa Arif Hussain Al-Hussaini Shaheed, shed light on the unwavering commitment of Imam Al-Maqam, emphasizing the visible and hidden aspects of martyrdom.


The ceremony witnessed the participation of numerous custodians of Imam Bargahs, Taiziadars, founders of Majlis, Salars of Matami Sangats, and their representatives from Peshawar District. Notably, this unique event successfully brought together Shia and Sunni Muslims under one roof, promoting unity, understanding, and brotherhood.


Speakers at the conference highlighted commonalities, values, tolerance, and brotherhood, with a particular focus on strengthening the bonds of Islamic brotherhood through a deeper understanding of Karbala. By emphasizing shared aspects rather than differences, the aim was to thwart the ambitions of those who perpetuate sectarian tensions and conspiracies against Islam.


The choice of venue, the "Waheed Banquet (Wedding) Hall near Yakatoot Gate," instead of a mosque or an Imambargah, was a symbolic representation of inclusivity. It signified the unity of purpose and the participation of a predominantly youthful audience. However, it is regrettable that decision-makers from the provincial and district governments, district administration, and law enforcement agencies did not participated in the event. Their involvement could have led to better peace and order arrangements, eliminating the need for separate meetings with different sects every year and dispelling the notion of religious monopoly over Muharram.


Worth knowing that in anticipation of upcoming Muharram-e-Haram, extensive security measures have been put in place, with the Provincial Department of Home Affairs designating 4,500 locations in 11 districts of Khyber Pakhtunkhwa as highly sensitive. As necessary, mobile phone services may be temporarily suspended in certain areas of the said districts. However, it is crucial to recognize that terrorists can target any location, not just those designated as sensitive. Therefore, comprehensive security measures are essential.


The representative body "Qoumi Muharram Committee (QMC)" has expressed some concerns over unjust restrictions imposed on Imambargahs and interference in mourning rituals. Such actions infringe upon constitutional and human rights, contradicting decisions made at higher levels. It is imperative for the police to implement security arrangements seriously, taking into account the suggestions and concerns of all stakeholders, to ensure peace and order prevail. Overall, the Paigham e Karbala Conference served as an important platform for promoting unity, harmony, and mutual understanding among Muslims. It aimed to alleviate sectarian tensions and create an atmosphere of cooperation and respect. By fostering a deeper understanding of Karbala and embracing shared values, not only Muharram but also the remaining eleven months can be characterized by peace and order.


Ends.